• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا کسی صحابی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا پیشاب پینا ثابت ہے ؟

khurramhayat75

مبتدی
شمولیت
دسمبر 08، 2017
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
29
کیا کسی صحابی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا پیشاب پینا ثابت ہے ؟

اُمِ ایمن رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک رات نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و سلّم مٹی کے برتن کے پاس اُٹھ کر تشریف لائے اور اس میں پیشاب کیا۔ اسی رات میں اُٹھی اور مجھے پیاس لگی ہوئی تھی۔ میں نے جو اس میں تھا، پی لیا۔ جب صبح ہوئی تو میں نے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم کو اس واقعہ کی خبر دی تو آپ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے فرمایا:
اما اِ نّک لا یتجعن بطنک أبدا۔
‘‘ خبردار! بے شک آپ آج کے بعد کبھی اپنے پیٹ میں بیماری نہ پاو گی۔’’

(المستدارک علی الصحیحین للحاکم : ۶۴،۶۳/۴، حلیۃ الاولیائ لا بی نعیم الاصبھانی: ۶۸/۲،الائل النبوۃ لا بی نعیم الاصبھانی ۳۸۱،۳۸۰/۲،المعجم الکبیر للطبرانی: ۹۰،۸۹/۲۵،التلخیص الحبیر لابن حجر: ۳۱/۱،البدایۃ والنھایۃ لابن کثیر : ۳۲۶/۵،الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ لا بن حجر: ۴۳۳/۴ )
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
دوسری روایت:
امیمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
اِنّ النبیّ صلّی اللہ علیہ و سلّم کان لہ قدح من عید ان یبول فیہ، ثمّ یوضع تحت سریرہ ، فجا ئت امرأۃ یقال لھا برکۃ ۔ جائت مع أمّ حبیبۃ من الحبشۃ، فشربتہ برکۃ، فسألھا، فقالت : شربتہ ، فقال: لقد احتضرنی من النار بحضار، أو قال: جُنّۃ، أو ھذا معناہ ۔

‘‘نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و سلّم کے پاس لکڑی کا ایک پیالا تھا جس میں آپ پیشاب کرتے تھے، پھر اسے چارپائی کے نیچے رکھ د یا جاتا ۔ ایک برکتہ نامی عورت آئی ۔ وہ سیدنا امِ حبیبہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ حبشہ سے آئی تھی ۔ اس نے وہ پیالا نوش کر لیا ۔ سید نا زینب رضی اللہ عنہا نے اس سے پوچھا تو اس نے کہا: میں نے اسے پی لیا ہے۔ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے فرمایا: تو نے آگ سے بچاو حاصل کر لیا ہے یا فرمایا ڈھال بنا لی ہے یا اس طرح کی کوئی بات کہی۔’’

(الآحاد والمثانی لابن ابی عاصم: ۳۳۴۲،و سندہ حسن، الاستیعاب فی معرفۃ الصحابۃ لابن عبد البر: ۲۵۱/۴، و سندہ حسن، المعجم الکبیر للطبرانی: ۱۸۹/۲۴، السنن الکبری للبھیقی ۶۷/۷ و سندہ صحیح )

Sent from my KIW-L21 using Tapatalk
 
Last edited by a moderator:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
اُمِ ایمن رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک رات نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و سلّم مٹی کے برتن کے پاس اُٹھ کر تشریف لائے اور اس میں پیشاب کیا۔ اسی رات میں اُٹھی اور مجھے پیاس لگی ہوئی تھی۔ میں نے جو اس میں تھا، پی لیا۔ جب صبح ہوئی تو میں نے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم کو اس واقعہ کی خبر دی تو آپ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے فرمایا:
کیا یہ احادیث صحیح ھیں ؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا یه احادیث صحیح ھیں :

پہلی روایت حسب ذیل ہے :
عن أم أيمن، رضي الله عنها قالت: قام النبي صلى الله عليه وسلم من الليل إلي فخارة من جانب البيت فبال فيها فقمت من الليل وأنا عطشى فشربت من في الفخارة وأنا لا أشعر، فلما أصبح النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «يا أم أيمن قومي إلى تلك الفخارة فأهريقي ما فيها» قلت: قد والله شربت ما فيها. قال: فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى بدت نواجذه ثم قال: «أما إنك لا يفجع بطنك بعده أبدا»
تخریج :
(المستدارک علی الصحیحین للحاکم : ۶۴،۶۳/۴، حلیۃ الاولیائ لا بی نعیم الاصبھانی: ۶۸/۲،الائل النبوۃ لا بی نعیم الاصبھانی ۳۸۱،۳۸۰/۲،المعجم الکبیر للطبرانی: ۹۰،۸۹/۲۵،التلخیص الحبیر لابن حجر: ۳۱/۱،البدایۃ والنھایۃ لابن کثیر : ۳۲۶/۵،الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ لا بن حجر: ۴۳۳/۴ )
اسلمی فتاوی اور شرعی احکام کیلئے مستند عربی سائیٹ (الاسلام سوال و جواب ) پر اس روایت کے متعلق مفتی صاحب لکھتے ہیں :
رواه الحاكم في " مستدركه " ( 4 / 70 ) وأبو نعيم في " الحلية " ( 2 / 67 ) والطبراني في " الكبير " ( 25 / 89 ، 90 ) .
وإسناد الحديث ضعيف ، فيه علتان : العلة الأولى : الانقطاع بين نبيح العنزي وأم أيمن ، والعلة الثانية : أبو مالك النخعي واسمه عبد الملك بن حسين ، وهو متفق على ضعفه ، قال عنه النسائي : متروك ، وقال أبو حاتم : ضعيف الحديث ، وقال عمرو بن علي : ضعيف منكر الحديث .
انظر " الضعفاء والمتروكين " للنسائي و " الجرح والتعديل " لابن أبي حاتم و " تهذيب التهذيب " لابن حجر .
قال الحافظ ابن حجر – رحمه الله - : " وأبو مالك ضعيف ، ونُبيح لم يلحق أم أيمن " انتهى من " التلخيص الحبير في تخريج أحاديث الرافعي الكبير " ( 1 / 171 ) .
ورواه أبو مالك النخعي من طريق آخر عن يعلى بن عطاء عن الوليد بن عبد الرحمن عن أم أيمن .
قال الدارقطني – رحمه الله - : " وأبو مالك ضعيف ، والاضطراب فيه من جهته " انتهى من " العلل " للدارقطني " ( 15 / 415 )
.
یعنی :یعنی اس میں دو علتیں ایسی ہیں جن کی بنا پر یہ حدیث ضعیف ہے ؛
پہلی علت یہ ہے کہ نبیح العنزی اور ام ایمن کے درمیان انقطاع ہے ، یعنی ایک راوی غائب ہے
اور اس میں دوسری علت یہ ہے کہ اس کا ایک راوی ابومالک نخعی ضعیف ہے اور اس کے ضعیف ہونے پر محدثین کا اجماع ہے لہذا ایسی اکارہ اسناد سے منقول روایت کسی طور دلیل بننے کے قابل نہیں ؛
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ہمارے فاضل بھائی علامہ غلام مصطفیٰ ظہیر حفظہ اللہ اس کے متعلق لکھتے ہیں :
تبصرہ:
اس کی سند ‘‘ ضعیف ’’ ہے اس کا راوی عبد المالک التعی ‘‘ متروک’’ ہے۔
(تقریب التھذ یب لابن حجر: ۸۳۳۷ )
تنبیہ:
ابو یعلٰی کی سند میں ابو مالک تخعی کا واسطہ گر گیا ہے۔ اس پر قرینہ یہ ہے کہ ابو مالک تخعی کے استادوں میں یعلٰی بن عطائی اور یعلٰی بن عطائی کے شاگردوں میں ابو مالک تخعی موجود ہے جبکہ یعلٰی بن عطائی کے شاگردوں میں حسین بن حرب موجود نہیں۔ اس سند کے دو راوی مسلم بن قتیبہ اور الحسین بن حرب کا تعین اور توثیق درکار ہے۔
اس پر دوسرا قرینہ یہ ہے کہ حافظ سیوطی لکھتے ہیں:

و أخرج أ بو یعلٰی والحاکم والدار قطنی و أبو نعیم عن أم أیمن۔
‘‘ ابو یعلٰی ، حاکم، دار قطنی اور ابو نعیم نے اسے ام ایمن سے بیان کیا ہے۔ ’’
(الخصائص الکبری للبھیقی: ۲۵۲/۲ )
حافظ سیوطی یہ باور کرا رہے ہیں کہ یہ سند ایک ہی ہے جس کا دار و مدار ابو مالک نخعی پر ہے جو کہ متروک ہے، نیز الولید بن عبدالرحمٰن کا ام ایمن سے سماع بھی درکار ہے۔
ابو یعلٰی کے علاوہ باقی سب میں نبیح العنزی اور ام ایمن کے درمیان انقظاع بھی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
امیمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:

اِنّ النبیّ صلّی اللہ علیہ و سلّم کان لہ قدح من عید ان یبول فیہ، ثمّ یوضع تحت سریرہ ، فجا ئت امرأۃ یقال لھا برکۃ ۔ جائت مع أمّ حبیبۃ من الحبشۃ، فشربتہ برکۃ، فسألھا، فقالت : شربتہ ، فقال: لقد احتضرنی من النار بحضار، أو قال: جُنّۃ، أو ھذا معناہ ۔
دوسری روایت :
الحديث الثاني : في شرب " بَرَكة أم يوسف " لبول النبي صلى الله عليه وسلم ، وقد جاء الحديث من طريق ابن جُرَيْجٍ قال حَدَّثَتْنِي حُكَيْمَةُ بنتُ أُمَيْمَةَ بنتِ رُقَيْقَةَ عن أُمِّهَا أنها قالت :
كان النبي صلى الله عليه وسلم يَبُولُ في قَدَحِ عِيدَانٍ ثُمَّ يَرْفَعُ تَحْتَ سَرِيرِهِ فَبَالَ فيه ثُمَّ جاء فَأَرَادَهُ فإذا الْقَدَحُ ليس فيه شَيْءٌ فقال لامْرَأَةٍ يُقَالُ لها " بَرَكَةُ " كانت تَخْدُمُ أُمَّ حَبِيبَةَ جَاءَتْبها من أَرْضِ الْحَبَشَةِ
( أَيْنَ الْبَوْلُ الذي كان في الْقَدَحِ ؟ ) قالت : شَرِبَتُهُ ، فقال ( لَقَدِ احْتَظَرْتِ مِنَ النَّارِ بِحِظَارٍ ) .
رواه البيهقي في " السنن الكبرى " ( 7 / 67 ) والطبراني في " الكبير " ( 24 / 189 ) .
وهو حديث ضعيف ؛ لجهالة حُكيمة بنت أميمة .
قال الذهبي في " ميزان الاعتدال " ( 1 / 587 ) : " غير معروفة " انتهى .
وقال ابن حجر في " تقريب التهذيب " ( ص 745 ) : " حُكَيمة بنت أميمة لا تعرف " انتهى .
ومع علة الجهالة فإن متن الحديث مضطرب اضطراباً كبيراً .


اس میں ۔۔حُكيمة بنت أميمة ۔۔ مجہول ہے۔۔اور اس کے ساتھ یہ روایت متناً انتہائی ۔۔مضطرب ۔۔ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
 
Top