• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا کلمہ طیبہ" لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ" بدعت ہے؟

126muhammad

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 26، 2022
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
8
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔


یہ کلمہ یا عبارت خاص ان الفاظ کے ساتھ "لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ" مستند نہیں ہے



اللہ تعالیٰ کسی بھی عمل کو بغیر سنت کے قبول نہیں کرے گا کلمہ کسی بھی مسلمان کا پہلا اور بنیادی رکن ہے اور اگر کسی کا یہی کلمہ درست نہیں یعنی سنت کے مطابق نہیں ہے تو وہ سرے سے مسلمان ہی نہیں اس لیے وقت ضائع کرنے سے پہلے یہ سوچ لیں کہ مولانا آپ سے جھوٹ بول رہے ہیں۔


شہادت کی مستند شکلوں کو آسانی سے سمجھنے کے لیے برائے مہربانی درج ذیل ٹیبل پر غور کریں۔


Most Authentic Sunnah



اشْهَدُ انْ لّآ اِلهَ اِلَّا اللّهُ وَاَنَّ مُحَمَّدً رَسُولُ اللہ*

(اخرجہ بخاري حدیث نمبر462,3861 و اخرجہ مسلم‎ حدیث نمبر 93- یشْهَدُ انْ لّآ اِلهَ اِلَّا اللّهُ وَاَنَّ مُحَمَّدً رَسُولُ اللہ)

اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمد رسول اللہ*

(اخراجہ بخاري4372,)

اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھدان محمدا عبدہ و رسولہ*

(اخراجہ بخاري, مسلم)

لا إله إلا الله*

(اخراجہ بخاري حد یث نمبر-44 ومسلم11)


نوٹ. یہ کلمے سب سے مستند ہیں ، رسول اللہ اور ان کے اصحاب یعنی جمہور سلف و آئمہ سے ثابت ہیں

________________________________



Fabricated, Bada

لا إله إلا الله محمد رسول الله *(اخرجہ فی ضعیف ،موضوع الحدیث من البيهقی اسماء و صفات 195 و طبرانی )


*نوٹ. یہ کلمہ صرف من گھڑت احادیث میں مذکور ہے اور یہ صریح بدعت، شرک ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ نے اسے کبھی نہیں پڑھا۔




اگر آپ اس مسئلے کے بارے میں مزید وضاحت چاہتے ہیں تو ناقابل تردید ثبوت مندرجہ ذیل ہیں

صرف لا الہ الا اللہ کہنے کے لیے اشھدو کے اضافے کی ضرورت نہیں ہے لیکن جب ہم مکمل شہادتین پڑھیں خواہ وہ اذان میں ہو یا تشہد، اقامت، کلمہ میں ہوں تو وہ لفظ "اشھدو" کے بغیر قبول نہیں ہوگی۔ کیونکہ یہ سب عبادتیں اور اذکارہیں ہم اس میں ترمیم نہیں کر سکتے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی اس طرح کلمہ کہے "لا الہ الا اللہ محمد عبدہ و رسولہ" تو یہ کلمہ کے احکام کی خلاف ورزی اور حدیث کی تحریف ہوگی لٰہذا جو لوگ کہتے ہیں کہ کلمہ کو کسی بھی زبان میں یا کسی بھی طرح پڑھ لیں، یہ سب باتیں بے بنیاد اور گمراہ کن ہیں۔



امام بخاریؒ نے ایک ہزار سے زائد ثقہ راویوں سے شہادت کی مختلف صورتیں نقل کی ہیں لیکن کسی نے بھی اس کی روایت نہیں کی۔


امام مسلم نے شہادت کے ایک ہزار پچاس سے زائد راویوں کو مختلف صورتوں کے ساتھ روایت کیا ہے لیکن کسی نے بھی شہادت کی اس صورت کو روایت نہیں کیا۔

مزید برآں نسائی، ترمذی، ابو داؤد اور ابن ماجہ نے بھی سیکڑوں اور ہزاروں راویوں سے روایت کی ہے لیکن کسی نے بھی اس قسم کی شہادت کے بارے میں نبی یا صحابہ سے نہیں سنا لہذا دلائل بہت واضح ہیں یہ کلمہ طیبہ جمہور و اجماع سلف کے خلاف ہے۔


یہ کیسے ممکن ہے کہ اگر کلمہ طیبہ کی یہ صورت موجود تھی تو بخاری ، مسلم...اور سینکڑوں اور ہزاروں راویوں نے اسے پڑھا کیوں نہیں ۔ یہ حیرت انگیز ہے کہ کوئی کہے، ولیم شیکسپیئر انگریزی زبان نہیں جانتے تھے، لہٰذا یہ اس بات کا ناقابل تردید ثبوت ہے کہ اس قسم کا کلمہ اسلام میں من گھڑت ہے۔


پس اس مکمل عبارت کی اصل "لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ" من گھڑت احادیث ہیں اور یہ امت مسلمہ میں صوفیا کے ذریعے وائرل ہوئی، جو کہتےہیں 'یہ کلمہ آسمان پر لکھا تھا اور اللہ نے اس کے ذریعے حضرت آدم کی بخشش کو قبول کیا'۔ یہ من گھڑت ہے درحقیقت یہ کلمہ طیبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہیں تھا، یقیناً یہ من گھڑت احادیث سے آرہا ہے جیسے کہ اسماء صفات بیہقی کی کتاب، حدیث نمبر 195، اور تفسیر طبرانی…، معروف علمائے حدیث کے مطابق یہ روایتیں معتبر نہیں اور اصول حدیث کے خلاف ہیں مزید برآں ان کے سند اور متن دونوں میں خرابی ہے

اصلاح احادیث فی سند میں یہ مقلوب، منکر، شاز،مصحف اور مضطرب ہے

یہ تمام شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ بیان من گھڑت اور رسول اللہ کی طرف جھوٹی عبارت منسوب کی گئی ہے۔


تنبیہ : کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کلمہ طیبہ بیہقی کی صحیح حدیث سے ثابت ہے حالانکہ امام بیهقی بذات خود علماء احادیث کے نزدیک معتبر محدث نہیں ہے۔اور بالفرض اگر مان بھی لیں کلمہ طیبہ کسی ایک صحیح حدیث سے ثابت ہے پھر بھی اس سے اصول کہاں بنتا ہے کیونکہ کہ ایک صحیح حدیث سے رفع یدین نہ کرنا بھی ثابت ہے اور کسی ایک صحیح حدیث سے آزان میں بھی اختلاف موجود ہے یعنی صحیح مسلم کی روایت ہے جس سے اذان میں "لاحول ولا قوۃ الا باللہ" پڑھنا ثابت ہے. جبکہ ہم ایسا نہیں کرتے نہیں بلکہ اذان، رفع یدین کرنے میں متواتر حدیث و جمہورسلف کی پیروی کرتے ہیں لہذا کوئی ایسا عمل جو کسی ایک آدھ حدیث سے بھی ثابت ہو۔لیکن وہ متواتر احدیث آور اجماع سلف کے خلاف ہو تو اسے اصول حدیث و اصول فقہ میں شاز یا مردود کہتے ہیں۔

لہٰذا یہ تمام شواہد یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں کہ کلمہ طیبہ واضح بدعت،شرک ہے ۔




مندرجہ ذیل لنک ملاحظہ فرمائیے اور دیکھئے مولانا لوگ کیسے ہمیں گول گول گما رہے ہیں جب کہ ان کے پاس کوئی دلیل نہیں۔







https://youtu.be/SszV1flMYdI
 
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ
محمد رسول اللہ میں رسول مضاف ہے اور مضاف کا قاعدہ ہے کہ اس پر لام تعریف داخل نہیں ہوتا۔ لہذا بہتر ہے آپ کلمہ توحید پر اعتراض کرنے سے پہلے کلمہ صحیح طرح لکھنا سیکھیں۔

لا إله إلا الله محمد رسول الله *(اخرجہ فی ضعیف ،موضوع الحدیث من البيهقی اسماء و صفات 195 و طبرانی )


*نوٹ. یہ کلمہ صرف من گھڑت احادیث میں مذکور ہے اور یہ صریح بدعت، شرک ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ نے اسے کبھی نہیں پڑھا۔
الأسماء والصفات للبيهقي کی یہ روایت حسن درجہ کی ہے مقبول روایت ہے آپ کے موضوع یا من گھڑت کہہ دینے سے کوئی موضوع نہیں ہو جائے گی اصول محدثین پر اس روایت کو موضوع ثابت کر کے دکھاوے پہلے۔


IMG_20230306_085710_335.jpg

IMG_20230306_085916_375.jpg


اس روایت کو أَبُو القَاسِمِ الحُسَيْنُ بنُ مُحَمَّدِ بنِ إِبْرَاهِيْمَ بنِ الحُسَيْنِ الدِّمَشْقِيُّ، الحِنَّائِي (ت ٤٥٩هـ) نے اپنی کتاب الحنائيات (فوائد أبي القاسم الحنائي) میں نقل کرنے کے بعد فرمایا :

هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ [كتاب فوائد الحنائي، ج:١، ص: ١٥٤]


یہ صریح بدعت، شرک ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ نے اسے کبھی نہیں پڑھا۔
آپ کلمہ لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ کو شرک کہہ رہے ہو! اسی بات سے آپ کی جہالت عیاں ہو رہی ہے کہ آپ شرک کی تعریف سے بھی ناواقف ہیں شرک ہوتا ہے اللہ کی ربوبیت، الوہیت اور اسماء وصفات میں غیر اللہ کو شرک کرنا۔ آپ بتائیں لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ کا اقرار کرنا اللہ تعالیٰ کی ربوبیت، الوہیت اور اسماء وصفات میں کس طرح شرک ہے؟؟؟

مثال کے طور پر اگر کوئی اس طرح کلمہ کہے "لا الہ الا اللہ محمد عبدہ و رسولہ" تو یہ کلمہ کے احکام کی خلاف ورزی اور حدیث کی تحریف ہوگی
لا الہ الا اللہ محمد عبدہ و رسولہ پڑھنے سے کلمہ کے کون سے احکام کی خلاف ورزی ہوئی؟؟؟

اور حدیث میں تحریف کیسے ہوگی جبکہ یہ تو بس ایک کلمہ ہے جس پر انسان تلفظ کرتا ہے اس کا معنی ہے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اب یہ کہنے سے حدیث میں تحریف کیسے ہو جاتی ہے؟؟؟ اور یہ محمد عبدہ و رسولہ کے الفاظ تو حدیث میں بھی وارد ہیں :

قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ قَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَأَنَّ عِيسَى عَبْدُ اللهِ، وَابْنُ أَمَتِهِ، وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ، وَأَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ، وَأَنَّ النَّارَ حَقٌّ، أَدْخَلَهُ اللهُ مِنْ أَيِّ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ الثَّمَانِيَةِ شَاءَ

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس شخص نے کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ یکتا ہے ( اس کا کوئی شریک نہیں ۔ ) اور یقیناً محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں ۔ اور عیسیٰ ( علیہ السلام ) اللہ کے بندے ، اس کی بندی کے بیٹے اور اس کا کلمہ ہیں جسے اس نے مریم کی طرف القا کیا تھا ، اور اس کی طرف سے ( عطا کی گئی ) روح ہیں ، اور یہ کہ جنت حق ہے اور دوزخ حق ہے ، اس شخص کو اللہ تعالیٰ جنت کے آٹھ دروازوں میں سے جس سے چاہے گا ، جنت میں داخل کر دے گا ۔‘‘


[صحیح مسلم، حدیث : ۲۸]

امام بخاریؒ نے ایک ہزار سے زائد ثقہ راویوں سے شہادت کی مختلف صورتیں نقل کی ہیں لیکن کسی نے بھی اس کی روایت نہیں کی۔
امام مسلم نے شہادت کے ایک ہزار پچاس سے زائد راویوں کو مختلف صورتوں کے ساتھ روایت کیا ہے لیکن کسی نے بھی شہادت کی اس صورت کو روایت نہیں کیا
یہ امام بخاری رحمہ اللہ کے تعلق سے ایک ہزار سے زائد راویوں اور امام مسلم رحمہ اللہ کے تعلق سے ایک ہزار پچاس سے زائد راویوں سے شہادت کی مختلف صورتیں نقل کرنے کا کہہ رہے ہو تو یہ ایک ہزار و ایک ہزار پچاس کا عدد جو اتنے جوش میں آکر لکھا ہے اس کی تحقیق بھی کی ہے یا ایسے ہی مغالطہ باری کرنے کے لیے لکھ دیا؟ اگر تحقیق کی ہے تو نقل کرو یہاں۔

پس اس مکمل عبارت کی اصل "لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ" من گھڑت احادیث ہیں اور یہ امت مسلمہ میں صوفیا کے ذریعے وائرل ہوئی، جو کہتےہیں 'یہ کلمہ آسمان پر لکھا تھا اور اللہ نے اس کے ذریعے حضرت آدم کی بخشش کو قبول کیا'۔ یہ من گھڑت ہے درحقیقت یہ کلمہ طیبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہیں تھا، یقیناً یہ من گھڑت احادیث سے آرہا ہے جیسے کہ اسماء صفات بیہقی کی کتاب، حدیث نمبر 195، اور تفسیر طبرانی

«أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ الْوُحَاظِيُّ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يَحْيَى الْكَلْبِيُّ ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَخْبَرَهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ ، فَذَكَرَ قَوْمًا اسْتَكْبَرُوا فَقَالَ : إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِيلَ لَهُمْ لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ يَسْتَكْبِرُونَ ، وَقَالَ تَعَالَى : إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَى وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا ، وَهِيَ لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ اسْتَكْبَرَ عَنْهَا الْمُشْرِكُونَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ يَوْمَ كَاتَبَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَضِيَّةِ الْمُدَّةِ»

ہمیں ابوعبداللہ الحافظ نے خبر دی (کہا) : ہمیں ابوالعباس محمد بن یعقوب نے حدیث بیان کی (کہا) : ہمیں محمد بن اسحاق نے حدیث بیان کی (کہا) : ہمیں یحیی بن صالح الوحاظی نے حدیث بیان کی (کہا) : ہمیں اسحاق بن یحیی الکلبی نے حدیث بیان کی (کہا) : ہمیں الزہری نے حدیث بیان کی (کہا) : مجھے سعید بن المسیب نے حدیث بیان کی، بے شک انہیں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نازل فرمایا تو تکبر کرنے والی ایک قوم کا ذکر کیا: یقینا جب انہیں «لا الہ الا اللہ» کہا جاتا ہے تو تکبر کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جب کفر کرنے والوں نے اپنے دلوں میں جاہلیت والی ضد رکھی تو اللہ نے اپنا سکون و اطمینان اپنے رسول اور مومنوں پر اتارا اور ان کے لئے کلمة التقوی کو لازم قرار دیا اور اس کے زیادہ مستحق اور اہل تھے اور وہ (کلمة التقوی) «’’لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ‘‘» ہے۔ حدیبیہ والے دن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدت (مقرر کرنے) والے فیصلے میں مشرکین سے معاہدہ کیا تھا تو مشرکین نے اس کلمہ سے تکبر کیا تھا۔


[کتاب الاسماء والصفات للبیہقی:ـ جلد نمبر ۱ صفحہ نمبر ۲۶۳حدیث نمبر۱۹۵۔ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ]

اسماء صفات بیہقی کی کتاب، حدیث نمبر 195
اس حدیث میں سے ایسے کوئی الفاظ نہیں ہے جیسے آپ نے اوپر لکھے ہیں کہ یہ کلمہ آسمان پر لکھا تھا اور اللہ نے اس کے ذریعے حضرت آدم کی بخشش کو قبول کیا!!! بے شرمی یہ ہے کہ حوالہ دے کر بھی اتنا صاف جھوٹ بول رہے ہو!!!

امام بیهقی بذات خود علماء احادیث کے نزدیک معتبر محدث نہیں ہے
اصحاب الحدیث علماء کے یہاں امام ابو بكر البيهقي (ت ٤٥٨ هـ) رحمہ اللہ کا کیا مقام و مرتبہ ہے ملاحظہ فرمائیں :

قال ابن ناصر: «كان واحد زمانه، وفرد أقرانه حفظا وإتقانا وثقة، وهو شيخ خراسان» .

قال إمام الحرمين: «ما من شافعيّ إلا وللشافعيّ فضل عليه غير البيهقي، فإنّ له المنة والفضل على الشافعيّ لكثرة تصانيفه في نصرة مذهبه، وبسط موجزه، وتأييد آرائه» .

قال ابن خلكان: «الفقيه الشافعي الحافظ الكبير المشهور، واحد زمانه، وفرد أقرانه في الفنون، من كبار أصحاب الحاكم أبي عبد الله البيع في الحديث، ثم الزائد عليه في أنواع العلوم» .

قال ابن الجوزي: «كان واحد زمانه في الحفظ والإتقان، وحسن التصنيف وجمع علم الحديث، والفقه، والأصول، وهو من كبار أصحاب الْحَاكِمُ أَبُو عَبْدِ اللهِ، ومنه تخرج، وسافر، وجمع الكثير، وله التصانيف الكثيرة الحسنة» .

قال الذهبي: «لو شاء الذهبي أن يعمل لنفسه مذهبا يجتهد فيه لكان قادرا على ذلك لسعة علومه، ومعرفته بالاختلاف» .

قال السبكي: «كان الإمام البيهقي أحد أئمة المسلمين، وهداة المؤمنين، والداعي إلى حبل الله المتين، فقيه، جليل، حافظ، كبير، أصولي، نحرير، زاهد، ورع قانت لله، قائم بنصرة المذهب أصولا وفروعا، جبل من جبال العلم» .

قال ابن تيمية: «البيهقي أعلم أصحاب الشافعي بالحديث، وأنصرهم للشافعي» .

قال ابن كثير: «كان أوحد زمانه في الإتقان، والحديث، والفقه، والتصنيف، وكان فقيها محدثا، أصوليا.. وجمع أشياء كثيرة نافعة، لم يسبق إلى مثلها، ولا يدرك فيها، وكان فاضلا من أهل الحديث، مرضي الطريقة» .


[المدخل إلى دلائل النبوة (أقوال العلماء في الإمام البيهقي)، ص : ۵-۶]

بالفرض اگر مان بھی لیں کلمہ طیبہ کسی ایک صحیح حدیث سے ثابت ہے پھر بھی اس سے اصول کہاں بنتا ہے کیونکہ کہ ایک صحیح حدیث سے رفع یدین نہ کرنا بھی ثابت ہے
کون سی صحیح حدیث سے رفع الیدین نہ کرنا ثابت ہے وہ حدیث پیش کرو یہاں؟

دیکھئے مولانا لوگ کیسے ہمیں گول گول گما رہے ہیں جب کہ ان کے پاس کوئی دلیل نہیں
گول گول تو آپ کا دماغ گھوم رہا ہے شاید تبھی یہ پوسٹ یہاں لگائی آپ نے جو بالکل جہالت پر مبنی ہے۔ آپ بس اتنی بات سمجھ لیتے کہ کلمہ توحید کی ماہیت کیا ہے تو یہ جاہلانہ اعتراض ہی نہیں کرتے کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ سے پہلے اشہد نہیں پڑھا تو یہ کلمہ شرک بدعت ہو گیا!!! عجیب جہالت ہے۔
 

126muhammad

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 26، 2022
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
8
سب سے پہلے تو السلام علیکم کا جواب دینا آپ پر فرض ہے جو کہ آپ نے نہیں دیا


دوسری بات کہ آپ نے میرے ریسرچ پیپر کے چند ایک نکات کو اٹھایا باقی سارے نکات اور اس کا سیاق و سباق چھوڑ دیا ہے


آپ نے کہا "لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ" صرف بہقھی کی ایک حسن حدیث سے ثابت ہے، اب مجھے بتائیں دنیا کا کون سا محدث ہے جو حسن کو صحیح حدیث کہتا ہے ، آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ حسن حدیث میں راویوں کا حافظہ کمزور ہوتا ہے کمزور یعنی کہ ضعیف ۔




آپ نے کہا شہادتین جس طرح مرضی پڑھ لیں جب کہ میں نے کہا ہے کہ شہادتین چاہے اذان میں ہو یا تشہد میں ہو یا کلمہ میں ہو جس طرح ثابت ہے اسی طرح پڑھنا چاہیے یقینا آپ تشہد میں لا الہ الا اللہ محمد رسول نہیں پڑھتے ہوں گے




رہی بات رفع یدن کے اخلاف میں تو ترمذی اور ابو داود دونوں میں حدیث موجود ہے جس میں عبداللہ ابن مسعود صحیح سند کے ساتھ رفع یدین نہ کرنا روایت کرتے ہیں





میں نے آپ سے کہا کہ کئی ایک صحیح حدیث کے ساتھ آزان میں اختلاف موجود ہے یعنی ابو داؤد و ترمذی دونوں میں حدیث موجود ہے جہاں اذان میں "اشھد ان محمد رسول اللہ" چار دفعہ پڑھا گیا ہے آپ نے اس طرح کی ازان کس مسجد میں سنی ہے ، ایسی آزان توکوئی بریلوی بھی نہیں پڑھے گا اس کے علاوہ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں بیوی کے زندہ ہوتے ہوئے اپنی سالی سے نکاح کرنا جائز ہے، آپ مجھے بہقھی کی ایک حسن حدیث دکھا رہے ہیں جبکہ میں آپ کو صحیح مسلم سے دیکھا رہا ہوں ،جن کے جواب آپ کے پاس نہیں ہیں۔




رہی بات بخاری مسلم ، کتب ستہ کے راویوں کی تعداد کی تو وہ ہزاروں میں ہوں یا لاکھوں میں ، آپ کا کلمہ طیبہ کسی سے بھی منقول نہیں جو کہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔




امام بہقی پر الزام رہا ہے کو شیعوں کا حمایتی ہے اس کا ویکیپیڈیا چیک کر لیں ،نہ ہی علمائے حدیث نے اس کی کسی کتاب کو کتب ستہ میں شامل نہیں کیا ، وجہ آپ کو سمجھ آگئی ہوگی۔



لہذا اب آپ کے لیے واضح ہوگیا ہوگا کے جمہور کے مقابلے میں خبرواحد کی کوئی اہمیت نہیں ،۔کیوں کے خبر واحد سے رفع یدین نہ کرنا، سالی کے ساتھ نکاح کرنا یا اذان میں اختلاف۔۔۔، متواتر احادیث اور جمہور سلف کے خلاف کے خلاف ہے اور آپ تو خبریں واحد سے بھی ثابت نہیں کر سکے۔آپ تو خود مانتے ہیں کے آپ کی مذکورہ روایت کی سند حسن(کمزور حافظ والی) ہے .

لہذا ڈاکٹر ذاکر نائیک، شیخ عاصم الحکیم اور مولانا اسحاق صاحب کا بھی موقف واضح ہے کہ کلمہ طیبہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں
 
Last edited:

126muhammad

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 26، 2022
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
8
کیا غیر اللہ کی اتباع شرک نہیں اور کیا ہے۔
 
Last edited:

126muhammad

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 26، 2022
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
8
محمد رسول اللہ میں رسول مضاف ہے اور مضاف کا قاعدہ ہے کہ اس پر لام تعریف داخل نہیں ہوتا۔ لہذا بہتر ہے آپ کلمہ توحید پر اعتراض کرنے سے پہلے کلمہ صحیح طرح لکھنا سیکھیں۔



الأسماء والصفات للبيهقي کی یہ روایت حسن درجہ کی ہے مقبول روایت ہے آپ کے موضوع یا من گھڑت کہہ دینے سے کوئی موضوع نہیں ہو جائے گی اصول محدثین پر اس روایت کو موضوع ثابت کر کے دکھاوے پہلے۔


22831 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
22832 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں

اس روایت کو أَبُو القَاسِمِ الحُسَيْنُ بنُ مُحَمَّدِ بنِ إِبْرَاهِيْمَ بنِ الحُسَيْنِ الدِّمَشْقِيُّ، الحِنَّائِي (ت ٤٥٩هـ) نے اپنی کتاب الحنائيات (فوائد أبي القاسم الحنائي) میں نقل کرنے کے بعد فرمایا :

هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ [كتاب فوائد الحنائي، ج:١، ص: ١٥٤]




آپ کلمہ لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ کو شرک کہہ رہے ہو! اسی بات سے آپ کی جہالت عیاں ہو رہی ہے کہ آپ شرک کی تعریف سے بھی ناواقف ہیں شرک ہوتا ہے اللہ کی ربوبیت، الوہیت اور اسماء وصفات میں غیر اللہ کو شرک کرنا۔ آپ بتائیں لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ کا اقرار کرنا اللہ تعالیٰ کی ربوبیت، الوہیت اور اسماء وصفات میں کس طرح شرک ہے؟؟؟



لا الہ الا اللہ محمد عبدہ و رسولہ پڑھنے سے کلمہ کے کون سے احکام کی خلاف ورزی ہوئی؟؟؟

اور حدیث میں تحریف کیسے ہوگی جبکہ یہ تو بس ایک کلمہ ہے جس پر انسان تلفظ کرتا ہے اس کا معنی ہے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اب یہ کہنے سے حدیث میں تحریف کیسے ہو جاتی ہے؟؟؟ اور یہ محمد عبدہ و رسولہ کے الفاظ تو حدیث میں بھی وارد ہیں :

قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ قَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَأَنَّ عِيسَى عَبْدُ اللهِ، وَابْنُ أَمَتِهِ، وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ، وَأَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ، وَأَنَّ النَّارَ حَقٌّ، أَدْخَلَهُ اللهُ مِنْ أَيِّ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ الثَّمَانِيَةِ شَاءَ

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس شخص نے کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ یکتا ہے ( اس کا کوئی شریک نہیں ۔ ) اور یقیناً محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں ۔ اور عیسیٰ ( علیہ السلام ) اللہ کے بندے ، اس کی بندی کے بیٹے اور اس کا کلمہ ہیں جسے اس نے مریم کی طرف القا کیا تھا ، اور اس کی طرف سے ( عطا کی گئی ) روح ہیں ، اور یہ کہ جنت حق ہے اور دوزخ حق ہے ، اس شخص کو اللہ تعالیٰ جنت کے آٹھ دروازوں میں سے جس سے چاہے گا ، جنت میں داخل کر دے گا ۔‘‘


[صحیح مسلم، حدیث : ۲۸]




یہ امام بخاری رحمہ اللہ کے تعلق سے ایک ہزار سے زائد راویوں اور امام مسلم رحمہ اللہ کے تعلق سے ایک ہزار پچاس سے زائد راویوں سے شہادت کی مختلف صورتیں نقل کرنے کا کہہ رہے ہو تو یہ ایک ہزار و ایک ہزار پچاس کا عدد جو اتنے جوش میں آکر لکھا ہے اس کی تحقیق بھی کی ہے یا ایسے ہی مغالطہ باری کرنے کے لیے لکھ دیا؟ اگر تحقیق کی ہے تو نقل کرو یہاں۔




«أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ الْوُحَاظِيُّ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يَحْيَى الْكَلْبِيُّ ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَخْبَرَهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ ، فَذَكَرَ قَوْمًا اسْتَكْبَرُوا فَقَالَ : إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِيلَ لَهُمْ لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ يَسْتَكْبِرُونَ ، وَقَالَ تَعَالَى : إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَى وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا ، وَهِيَ لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ اسْتَكْبَرَ عَنْهَا الْمُشْرِكُونَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ يَوْمَ كَاتَبَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَضِيَّةِ الْمُدَّةِ»

ہمیں ابوعبداللہ الحافظ نے خبر دی (کہا) : ہمیں ابوالعباس محمد بن یعقوب نے حدیث بیان کی (کہا) : ہمیں محمد بن اسحاق نے حدیث بیان کی (کہا) : ہمیں یحیی بن صالح الوحاظی نے حدیث بیان کی (کہا) : ہمیں اسحاق بن یحیی الکلبی نے حدیث بیان کی (کہا) : ہمیں الزہری نے حدیث بیان کی (کہا) : مجھے سعید بن المسیب نے حدیث بیان کی، بے شک انہیں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نازل فرمایا تو تکبر کرنے والی ایک قوم کا ذکر کیا: یقینا جب انہیں «لا الہ الا اللہ» کہا جاتا ہے تو تکبر کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جب کفر کرنے والوں نے اپنے دلوں میں جاہلیت والی ضد رکھی تو اللہ نے اپنا سکون و اطمینان اپنے رسول اور مومنوں پر اتارا اور ان کے لئے کلمة التقوی کو لازم قرار دیا اور اس کے زیادہ مستحق اور اہل تھے اور وہ (کلمة التقوی) «’’لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ‘‘» ہے۔ حدیبیہ والے دن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدت (مقرر کرنے) والے فیصلے میں مشرکین سے معاہدہ کیا تھا تو مشرکین نے اس کلمہ سے تکبر کیا تھا۔


[کتاب الاسماء والصفات للبیہقی:ـ جلد نمبر ۱ صفحہ نمبر ۲۶۳حدیث نمبر۱۹۵۔ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ]



اس حدیث میں سے ایسے کوئی الفاظ نہیں ہے جیسے آپ نے اوپر لکھے ہیں کہ یہ کلمہ آسمان پر لکھا تھا اور اللہ نے اس کے ذریعے حضرت آدم کی بخشش کو قبول کیا!!! بے شرمی یہ ہے کہ حوالہ دے کر بھی اتنا صاف جھوٹ بول رہے ہو!!!



اصحاب الحدیث علماء کے یہاں امام ابو بكر البيهقي (ت ٤٥٨ هـ) رحمہ اللہ کا کیا مقام و مرتبہ ہے ملاحظہ فرمائیں :

قال ابن ناصر: «كان واحد زمانه، وفرد أقرانه حفظا وإتقانا وثقة، وهو شيخ خراسان» .

قال إمام الحرمين: «ما من شافعيّ إلا وللشافعيّ فضل عليه غير البيهقي، فإنّ له المنة والفضل على الشافعيّ لكثرة تصانيفه في نصرة مذهبه، وبسط موجزه، وتأييد آرائه» .

قال ابن خلكان: «الفقيه الشافعي الحافظ الكبير المشهور، واحد زمانه، وفرد أقرانه في الفنون، من كبار أصحاب الحاكم أبي عبد الله البيع في الحديث، ثم الزائد عليه في أنواع العلوم» .

قال ابن الجوزي: «كان واحد زمانه في الحفظ والإتقان، وحسن التصنيف وجمع علم الحديث، والفقه، والأصول، وهو من كبار أصحاب الْحَاكِمُ أَبُو عَبْدِ اللهِ، ومنه تخرج، وسافر، وجمع الكثير، وله التصانيف الكثيرة الحسنة» .

قال الذهبي: «لو شاء الذهبي أن يعمل لنفسه مذهبا يجتهد فيه لكان قادرا على ذلك لسعة علومه، ومعرفته بالاختلاف» .

قال السبكي: «كان الإمام البيهقي أحد أئمة المسلمين، وهداة المؤمنين، والداعي إلى حبل الله المتين، فقيه، جليل، حافظ، كبير، أصولي، نحرير، زاهد، ورع قانت لله، قائم بنصرة المذهب أصولا وفروعا، جبل من جبال العلم» .

قال ابن تيمية: «البيهقي أعلم أصحاب الشافعي بالحديث، وأنصرهم للشافعي» .

قال ابن كثير: «كان أوحد زمانه في الإتقان، والحديث، والفقه، والتصنيف، وكان فقيها محدثا، أصوليا.. وجمع أشياء كثيرة نافعة، لم يسبق إلى مثلها، ولا يدرك فيها، وكان فاضلا من أهل الحديث، مرضي الطريقة» .


[المدخل إلى دلائل النبوة (أقوال العلماء في الإمام البيهقي)، ص : ۵-۶]



کون سی صحیح حدیث سے رفع الیدین نہ کرنا ثابت ہے وہ حدیث پیش کرو یہاں؟



گول گول تو آپ کا دماغ گھوم رہا ہے شاید تبھی یہ پوسٹ یہاں لگائی آپ نے جو بالکل جہالت پر مبنی ہے۔ آپ بس اتنی بات سمجھ لیتے کہ کلمہ توحید کی ماہیت کیا ہے تو یہ جاہلانہ اعتراض ہی نہیں کرتے کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ سے پہلے اشہد نہیں پڑھا تو یہ کلمہ شرک بدعت ہو گیا!!! عجیب جہالت ہے۔
کلمہ طیبہ" لا الہ الا اللہ محمد رسول " بدعت ہے ،کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں

IMG_20230309_062205.jpg

IMG_20230309_061838.jpg

۔

آپ کا مذکورہ روای" محمد بن اسحاق" کاذب ہے۔
مندرجہ ذیل دلائل ملاحظہ فرمائیں

علامہ ذھبیؒ

  1. علامہ ذھبیؒ لکھتے ہیں وَقَدْ أَمْسَكَ عَنِ الاحْتِجَاجِ بِرِوَايَاتِ ابْنِ إِسْحَاقَ غَيْرُ، وَاحِدٍ مِنَ العُلَمَاءِ, لأَشْيَاءَ مِنْهَا: تَشَيُّعُه۔
    محمد بن اسحاق کی روایات کے ساتھ دلیل پکڑنے سے بہت سے علماء مختلف اسباب کی وجہ سے رک گئے ان میں سے ایک سبب یہ ہے کہ وہ شیعہ مذہب رکھتا تھا۔(سیراعلام النبلا ج۷ ص۳۹)
    32۔علامہ ابن رجب الحنبلیؒ
    علامہ ابن رجب الحنبلیؒ لکھتے ہیں ولا ريب أنه كان يتهم بأنواع من البدع، ومن التشيع والقدر وغيرهما
    اس میں کوئی شک نہیں کہ محمد بن اسحاق مختلف قسم کی بدعات کے ساتھ متہم تھا جیسے شیعہ اور قدری یعنی تقدیر کا منکر وغیرہ۔(شرح علل الترمذی لابنرجب ج۱ ص۴۱۹)
    علامہ نوویؒ فرماتے ہیں بدعتی کی حدیث کے بارے میں راجح مذہب یہ ہے کہ جس حدیث سے اس کی بدعت کی تقویت و تائید ہوتی ہو اس کی وہ حدیث قبول نہیں کی جاتی ۔(شرح مسلم للنوی ص۲ شرح نختبہ الفکر ص۱۱۸)
    33۔ابو حاتمؒ
    ابو حاتم ؒ محمد بن اسحاق کو ضعیف کہتے ہیں۔ (کتاب العلل جلد ۱ص۴۳۳)
  2. 36۔امام بیہقیؒ
    امام بیہقیؒ فرماتے ہیں
    محدثین اور حفاظ حدیث ابن اسحاق کے تفردات سے گریز کرتے ہیں۔ (سنن الکبری بحوالہ الجوھر النقی جلد ۱
    ص۱۵۵)
    38۔ عبداللہ بن احمد بن حنبلؒ
    عبداللہؒ فرماتے ہیں لم یکن يحتج به في السنن
    میرے باپ احمد بن حنبلؒ ابن اسحاق کو سنن اور احکام میں ان سے احتجاج نہیں کرتے تھے۔(بغدای جلد۱ ص۲۳۰،تہذیب التہذیب جلد۹ص۴۴)
    حنبل بن اسحاق کا بیان ہے کہ امام احمد ؒ نے فرمایا کہ ابن اسحاق لیس بحجۃ یعنی ابن اسحاق حجۃ نہیں ہے۔(بغدادی جلد۱ ص۲۳۰، تہذیب التہذیب جلد۹ص۴۴)
    امام احمدؒ سے دریافت کیا گیا کہ ابن اسحاق جب کسی حدیث کے بیان کرنے میں منفرد ہو تو اس کی حدیث حجت ہو گی؟ قال لا واللہ (بغدادی جلد۱ ص۲۳۰) بخدا ہرگز نہیں۔
  3. 39۔ابن معینؒ
    ابن ابی خیثمہؒ کا بیان ہے کہ ابن معینؒ نے اس کو لیس بذالك ،ضعیف ، اور لیس بالقوی کہا ۔ میمونی ؒ کا بیان ہے کہ ابن معینؒ نے اس کو ضعیف کہا ہے ۔(بغدای جلد۱ ص۲۳۱ تہذیب التہذیب جلد۹ص۴۴)
    40۔علی بن المدینیؒ
    علی بن المدینیؒ کا بیان ہے لم یضعفه عندي الا روایته، عن اھل الکتاب (تہذیب التہذیب جلد۹ص۴۵)
    میرے نزدیک ابن اسحاق کو صرف اس بات نے ضعیف کر دیا ہے کہ وہ یہود اور نصاریٰ سے روایتیں لے لے کر بیا ن کرتا ہے۔
  4. 42۔امام ترمذیؒ
    امام ترمذیؒ فرماتے ہیں کہ بعض محدثین نے ان کے حافظہ کی خرابی کی وجہ سے اس میں کلام کیا ہے۔ (کتاب العلل جلد۲ص۲۳۷)
    43۔امام نوویؒ
    امام نوویؒ فرماتے ہیں جو راوی صحیح کی شرطوں کے مطابق نہیں ہیں ان میں ایک محمد بن اسحاق بھی ہے۔(مقدمئہ نووی ص
    ۱۶)
    44۔امام ذھبیؒ
    علامہ ذھبیؒ فرماتے ہیں کہ محمد بن اسحاق کی روایت درجئہ صحت سے گری ہوئی ہے اور حلال و حرام میں اس سے احتجاج درست نہیں۔ (تذکرہ جلد۱ ص۱۶۳)

 
Top