• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا گستاخ رسول کو صرف اسلامی حکومت قتل کر سکتی ہے یا کوئی مسلمان بھی اس کو انفرادی طور پر قتل کر سکتا ہے؟

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
512
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
کیا گستاخ رسول کو صرف اسلامی حکومت قتل کر سکتی ہے یا کوئی مسلمان بھی اس کو انفرادی طور پر قتل کر سکتا ہے؟

بسم الله الرحمن الرحيم

اگر کسی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی تو اس کو انفرادی طور پر بھی قتل کرسکتے ہیں بلکہ اسلامی حکومت کو خبر پہنچانے سے پہلے پہلے ہی اس کو قتل کیا جائے گیا۔

دلیل:

حدثنا عثمان بن ابي شيبة، وعبد الله بن الجراح، عن جرير، عن مغيرة، عن الشعبي، عن علي رضي الله عنه،" ان يهودية كانت تشتم النبي صلى الله عليه وسلم وتقع فيه فخنقها رجل حتى ماتت فابطل رسول الله صلى الله عليه وسلم دمها".

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتی اور آپ کی ہجو کیا کرتی تھی، تو ایک شخص نے اس کا گلا گھونٹ دیا، یہاں تک کہ وہ مر گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا خون باطل ٹھہرا دیا۔ ( ابوداؤد ، حدیث 4362، حکم الحدیث: إسنادہ حسن لغيره، تحقيق شعيب الأرنؤوط)

اب یہاں دیکھیں : فابطل رسول الله صلى الله عليه وسلم دمھا

یعنی پہلے اس گستاخ عورت کو قتل کیا گیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خون کو ہدر ٹہرادیا۔ جبکہ اسلامی حکومت موجود تھی پھر بھی وہ عورت انفرادی طور پر بغیر اطلاع دیے قتل کی گئی۔

عن ابن عباس،" ان اعمى كانت له ام ولد تشتم النبي صلى الله عليه وسلم وتقع فيه فينهاها فلا تنتهي ويزجرها فلا تنزجر، قال: فلما كانت ذات ليلة جعلت تقع في النبي صلى الله عليه وسلم وتشتمه، فاخذ المغول فوضعه في بطنها واتكا عليها فقتلها فوقع بين رجليها طفل، فلطخت ما هناك بالدم فلما اصبح ذكر ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم فجمع الناس فقال: انشد الله رجلا فعل ما فعل لي عليه حق إلا قام فقام الاعمى يتخطى الناس وهو يتزلزل حتى قعد بين يدي النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله انا صاحبها كانت تشتمك وتقع فيك فانهاها فلا تنتهي وازجرها فلا تنزجر ولي منها ابنان مثل اللؤلؤتين وكانت بي رفيقة فلما كان البارحة جعلت تشتمك وتقع فيك فاخذت المغول فوضعته في بطنها واتكات عليها حتى قتلتها فقال النبي صلى الله عليه وسلم: الا اشهدوا ان دمها هدر".

( ابوداؤد ، حدیث 4361 حکم الحدیث: إسنادہ قوي، تحقيق شعيب الأرنؤوط،‏ سنن النسائی/المحاربة 13 (4075)

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ ایک نابینا شخص کے پاس ایک ام ولد تھی جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتی اور آپ کی ہجو کیا کرتی تھی، وہ نابینا اسے روکتا تھا لیکن وہ نہیں رکتی تھی، وہ اسے جھڑکتا تھا لیکن وہ کسی طرح باز نہیں آتی تھی حسب معمول ایک رات اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو شروع کی، اور آپ کو گالیاں دینے لگی، تو اس (نابینا) نے ایک چھری لی اور اسے اس کے پیٹ پر رکھ کر خوب زور سے دبا کر اسے ہلاک کر دیا، اس کے دونوں پاؤں کے درمیان اس کے پیٹ سے ایک بچہ گرا جس نے اس جگہ کو جہاں وہ تھی خون سے لت پت کر دیا، جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حادثہ کا ذکر کیا گیا، آپ نے لوگوں کو اکٹھا کیا، اور فرمایا: ”جس نے یہ کیا ہے میں اس سے اللہ کا اور اپنے حق کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ وہ کھڑا ہو جائے“ تو وہ نابینا کھڑا ہو گیا اور لوگوں کی گردنیں پھاندتے اور ہانپتے کانپتے آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا، اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول میں اس کا مولی ہوں، وہ آپ کو گالیاں دیتی اور آپ کی ہجو کیا کرتی تھی، میں اسے منع کرتا تھا لیکن وہ نہیں رکتی تھی، میں اسے جھڑکتا تھا لیکن وہ کسی صورت سے باز نہیں آتی تھی، میرے اس سے موتیوں کے مانند دو بچے ہیں، وہ مجھے بڑی محبوب تھی تو جب کل رات آئی حسب معمول وہ آپ کو گالیاں دینے لگی، اور ہجو کرنے شروع کی، میں نے ایک چھری اٹھائی اور اسے اس کے پیٹ پر رکھ کر خوب زور سے دبا دیا، وہ اس کے پیٹ میں گھس گئی یہاں تک کہ میں نے اسے مار ہی ڈالا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو! سنو تم گواہ رہنا کہ اس کا خون لغو ہے“۔

یہاں بھی حدیث کے آخری جملہ کو دیکھ لے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : الا اشهدوا ان دمها هدر".

یعنی پہلے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہی نہ تھا کہ کس نے اس عورت کو قتل کیا ہے پھر اس نابینا صحابی نے خود اقرار کیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
الا اشهدوا ان دمها هدر"

تعجب ہے ان جیسے لوگوں پر!
آج یہ اسلامی حکومت کہاں ہے جو ان گستاخان کو سزا دے ؟ بلکہ یہ ذلیل نجس خبیث شیطانی کفری شرکی حکومتیں تو خود گستاخ رسول کو سیکیورٹی دیتی ہیں۔ اللہ عزوجل ان کافروں کو نشان عبرت بنادے ۔آمین ۔

والله أعلم بالصواب و علمه أتم، والسلام۔
 

Dr. Irfan

مبتدی
شمولیت
مئی 01، 2020
پیغامات
7
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
28
اس موضوع پر مزید گفتگو کی ضرورت کے ،،اگر آپ ہر کسی کو قتل کا اختیار دے دیں گے تو معاشرے کا کیا حال ہوگا۔۔۔کئی لوگ بے گناہ اسی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔۔۔ہجوم نے الزام لگایا کہ گستاخی کی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں اور لوگوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ قتل کر ڈالا ۔۔۔۔آپ کے اس فہم سے اختلاف ہے ۔۔ملک میں اسلامی قانون کی بالادستی کے لیے جدو جہد کی ضرورت ہے ۔۔۔لوگوں نے ذاتی دشمنی نبھانے کے لیے اس کو بطور ہتھیار استعمال کیا ہے۔۔۔۔۔
 

رانا ابوبکر

رکن نگران سیکشن
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 24، 2011
پیغامات
2,075
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
432
کیا گستاخ رسول کو صرف اسلامی حکومت قتل کر سکتی ہے یا کوئی مسلمان بھی اس کو انفرادی طور پر قتل کر سکتا ہے؟

بسم الله الرحمن الرحيم

اگر کسی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی تو اس کو انفرادی طور پر بھی قتل کرسکتے ہیں بلکہ اسلامی حکومت کو خبر پہنچانے سے پہلے پہلے ہی اس کو قتل کیا جائے گیا۔

دلیل:

حدثنا عثمان بن ابي شيبة، وعبد الله بن الجراح، عن جرير، عن مغيرة، عن الشعبي، عن علي رضي الله عنه،" ان يهودية كانت تشتم النبي صلى الله عليه وسلم وتقع فيه فخنقها رجل حتى ماتت فابطل رسول الله صلى الله عليه وسلم دمها".

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتی اور آپ کی ہجو کیا کرتی تھی، تو ایک شخص نے اس کا گلا گھونٹ دیا، یہاں تک کہ وہ مر گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا خون باطل ٹھہرا دیا۔ ( ابوداؤد ، حدیث 4362، حکم الحدیث: إسنادہ حسن لغيره، تحقيق شعيب الأرنؤوط)

اب یہاں دیکھیں : فابطل رسول الله صلى الله عليه وسلم دمھا

یعنی پہلے اس گستاخ عورت کو قتل کیا گیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خون کو ہدر ٹہرادیا۔ جبکہ اسلامی حکومت موجود تھی پھر بھی وہ عورت انفرادی طور پر بغیر اطلاع دیے قتل کی گئی۔

عن ابن عباس،" ان اعمى كانت له ام ولد تشتم النبي صلى الله عليه وسلم وتقع فيه فينهاها فلا تنتهي ويزجرها فلا تنزجر، قال: فلما كانت ذات ليلة جعلت تقع في النبي صلى الله عليه وسلم وتشتمه، فاخذ المغول فوضعه في بطنها واتكا عليها فقتلها فوقع بين رجليها طفل، فلطخت ما هناك بالدم فلما اصبح ذكر ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم فجمع الناس فقال: انشد الله رجلا فعل ما فعل لي عليه حق إلا قام فقام الاعمى يتخطى الناس وهو يتزلزل حتى قعد بين يدي النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله انا صاحبها كانت تشتمك وتقع فيك فانهاها فلا تنتهي وازجرها فلا تنزجر ولي منها ابنان مثل اللؤلؤتين وكانت بي رفيقة فلما كان البارحة جعلت تشتمك وتقع فيك فاخذت المغول فوضعته في بطنها واتكات عليها حتى قتلتها فقال النبي صلى الله عليه وسلم: الا اشهدوا ان دمها هدر".

( ابوداؤد ، حدیث 4361 حکم الحدیث: إسنادہ قوي، تحقيق شعيب الأرنؤوط،‏ سنن النسائی/المحاربة 13 (4075)

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ ایک نابینا شخص کے پاس ایک ام ولد تھی جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتی اور آپ کی ہجو کیا کرتی تھی، وہ نابینا اسے روکتا تھا لیکن وہ نہیں رکتی تھی، وہ اسے جھڑکتا تھا لیکن وہ کسی طرح باز نہیں آتی تھی حسب معمول ایک رات اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو شروع کی، اور آپ کو گالیاں دینے لگی، تو اس (نابینا) نے ایک چھری لی اور اسے اس کے پیٹ پر رکھ کر خوب زور سے دبا کر اسے ہلاک کر دیا، اس کے دونوں پاؤں کے درمیان اس کے پیٹ سے ایک بچہ گرا جس نے اس جگہ کو جہاں وہ تھی خون سے لت پت کر دیا، جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حادثہ کا ذکر کیا گیا، آپ نے لوگوں کو اکٹھا کیا، اور فرمایا: ”جس نے یہ کیا ہے میں اس سے اللہ کا اور اپنے حق کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ وہ کھڑا ہو جائے“ تو وہ نابینا کھڑا ہو گیا اور لوگوں کی گردنیں پھاندتے اور ہانپتے کانپتے آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا، اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول میں اس کا مولی ہوں، وہ آپ کو گالیاں دیتی اور آپ کی ہجو کیا کرتی تھی، میں اسے منع کرتا تھا لیکن وہ نہیں رکتی تھی، میں اسے جھڑکتا تھا لیکن وہ کسی صورت سے باز نہیں آتی تھی، میرے اس سے موتیوں کے مانند دو بچے ہیں، وہ مجھے بڑی محبوب تھی تو جب کل رات آئی حسب معمول وہ آپ کو گالیاں دینے لگی، اور ہجو کرنے شروع کی، میں نے ایک چھری اٹھائی اور اسے اس کے پیٹ پر رکھ کر خوب زور سے دبا دیا، وہ اس کے پیٹ میں گھس گئی یہاں تک کہ میں نے اسے مار ہی ڈالا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو! سنو تم گواہ رہنا کہ اس کا خون لغو ہے“۔

یہاں بھی حدیث کے آخری جملہ کو دیکھ لے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : الا اشهدوا ان دمها هدر".

یعنی پہلے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہی نہ تھا کہ کس نے اس عورت کو قتل کیا ہے پھر اس نابینا صحابی نے خود اقرار کیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
الا اشهدوا ان دمها هدر"

تعجب ہے ان جیسے لوگوں پر!
آج یہ اسلامی حکومت کہاں ہے جو ان گستاخان کو سزا دے ؟ بلکہ یہ ذلیل نجس خبیث شیطانی کفری شرکی حکومتیں تو خود گستاخ رسول کو سیکیورٹی دیتی ہیں۔ اللہ عزوجل ان کافروں کو نشان عبرت بنادے ۔آمین ۔

والله أعلم بالصواب و علمه أتم، والسلام۔
جزاک اللہ خیرا مگر اختلاف کی گنجائش ہے، کیونکہ اگرایسا کیا جائے، جیسا آپ نے نتیجہ اخذ کیا تو پھر معاشرے میں بدامنی اور فساد پھیل سکتا ہے۔
 
Top