• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا ہماری نماز قبول ہوگئی

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

ایک صحابی نے سوال کیا
یارسول اللہ ﷺ، ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ ہماری نماز قبول ہوگئی ہے؟؟؟؟؟

تو آپﷺ نے فرمایا کہ جب تمھارا اگلی نماز پڑھنے کو دل کرے ۔

کیا یہ حدیث صحیح ہے؟؟؟؟

http://forum.mohaddis.com/threads/کیا-ہماری-نماز-قبول-ہوگئی.31635/

السلام عیلکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !

شیخ محترم @اسحاق سلفی بھائی
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایسی کوئی حدیث تو نہیں ملی ، البتہ نیک اعمال کی قبولیت کی علامات میں علماء نے یہ بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ نیک عمل کرنے کے بعد دوبارہ پھر وہی عمل کرنے کا جی چاہتا ہے ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔
جیسا کہ شیخ محترم حفظہ اللہ نے بتایا ۔مجھے بھی بلفظہ ایسی کوئی روایت نہیں ملی ۔
قبولیت اعمال ایک راز ہے ۔جو موت کے بعد ہی کھلے گا ۔اور اگر اعمال کے قبو ل و عدم قبول کا معلوم کرنا اتنا آسان ہوتا تو ریاکاروں ، اور بدعتیوں کی اتنی کثرت نہ ہوتی۔
ہاں البتہ شریعت نے قبولیت اعمال کا معیار اور کسوٹی بتادی ہے ،کہ عمل کرنے والا صحیح العقیدہ ہو ، عمل عین سنت کے مطابق ہو ۔اور خلوص پر مبنی ہو۔
اور اپنے نیک اعمال کو برباد کرنے والے گناہوں سے بچتا ہو ۔تو اسے اللہ تعالی سے قبولیت اور فضل کی امید رکھنی چاہئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس موضوع پر ایک فتوی ملاظہ فرمائیں :

السوال :: ۔۔كيف أعرف أن صلاتي صحيحة ومقبولة؟ ( یعنی مجھے کیسے معلوم ہوگا کہ کہ میری نماز مقبول ہے ؟
ــــــــــــــــــــــــــــــ

الإجابــة
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعـد:
فيمكن للمصلي أن يطمئن على صحة صلاته وذلك بأن يؤديها كاملة بأركانها وشروطها وواجباتها، ويخشع فيها ولا يرتكب مبطلا لها, وأما القبول فأمره إلى الله تعالى ولا يمكن للعبد أن يعلم هل قبلت صلاته أم ردت, ولكنه يفعل ما أمره الله به ثم يحسن الظن بالله تعالى ويدعوه أن يتقبل منه, والله تعالى أخبر أنه يتقبل من عباده المتقين وأنه لا يضيع أجر المحسنين. قال تعالى: ... وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ... {البقرة: 143}, أي صلاتكم, وانظر الفتوى رقم: 6403 ، عن مبطلات الصلاة .
والله أعلم.

جواب :
حمد و ثنا کے بعد ۔۔واضح ہو کہ نمازی کیلئے نماز کے صحیح و مقبول ہونے کے حوالے سے مطمئن ہونے کی ممکن صورت یہ ہے کہ :
وہ نماز کو اس کے ارکان ،شروط اور واجبات کے ساتھ اچھی طرح پوری پڑھے ،اور پورے خشوع و خضوع کے ساتھ اداکرے ،اور نماز کو باطل کرنے والے امور سے دور رہے،پھر اس کے اس قبول ہونے کا معاملہ اللہ ہی ہاتھ ہے ،کسی بندے کیلئے یہ جاننا ممکن نہیں کہ وہ اپنی نماز (یا دیگر عبادات ) کے قبول یا رد ہونے کا حتمی معلوم کر سکے۔
بس وہ شریعت کے مطابق عمل کرے ،اور اللہ سے حسن ظن رکھے،اور قبولیت اعمال کی دعاء کرتا رہے ۔بے شک اللہ تعالی متقی لوگوں کے اعمال قبول کرتا ہے،
اور محسنین کے کا اجر ضائع نہیں کرتا۔۔۔

http://fatwa.islamweb.net/fatwa/index.php?page=showfatwa&Option=FatwaId&Id=139365
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
نیکیاں قبول یا مسترد ہونے کی علامات اور ہدایات

ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ ۔ ترجمہ شفقت الرحمن مغل

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ

نے مسجد نبوی میں خطبہ جمعہ
"نیکیاں قبول یا مسترد ہونے کی علامات اور ہدایات" کے عنوان پر ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے سعادت حج پانے والوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا کہ کائنات کی تخلیق کا مقصد اللہ کی عبادت ہے، اور عبادت کی قبولیت کیلیے جد و جہد از بس ضروری ہے، چنانچہ عدم ایمان کے باعث کافر اور منافق کا کوئی بھی عمل آخرت میں فائدہ نہیں دے گا البتہ انہیں دنیا میں پورا بدلہ دے دیا جائے گا، عمل کی قبولیت کیلیے اخلاص اور اتباعِ سنت لازمی امور ہیں، اخلاص کا مطلب یہ ہے کہ نیکی کا مقصود اور مطلوب صرف رضائے الہی ہو ، جس کیلیے نیت بنیادی کردار کی حامل ہے؛ کیونکہ نیت کی وجہ سے چھوٹا عمل بھی بڑا بن جاتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ: تقوی، تسلسل کے ساتھ نیکیاں، نیکی کیلیے دلی رغبت، نیکی پر ثابت قدمی اور انسانی اعضا کا صحیح سلامت رہنا نیکی قبول ہونے کی علامات میں سے ہیں، اگر انسان کو عبدیت کی حقیقی معرفت مل جائے تو اسے اپنی ساری زندگی کی عبادات بھی ہیچ نظر آئیں اسی لیے تو عظیم ترین عبادات کے بعد بھی استغفار سنت نبوی ہے، اور مومن کبھی بھی اپنی نیکی پر گھمنڈ نہیں کرتا بلکہ اللہ سے قبولیت کا امیدوار رہتا ہے، چنانچہ قبولیت کیلیے دعا اور شکر گزاری اپناتا ہے شکر کرنے پر اللہ کی طرف سے قبولیت کا وعدہ ہے، دوسری جانب شرک، ریاکاری، نیکی کے عوض دنیاوی مفادات کا حصول، حالت ارتداد میں موت، دین سے نفرت، اللہ کی آیات اور آخرت میں ملاقات کا انکار، غضب الہی کا موجب بننے والے اعمال کرنا، منافقت، ہٹ دھرمی اور عناد کی بنیاد پر سنت سے تصادم، اپنی بات کو نبی ﷺ کی بات پر فوقیت دینا، اپنی پارسائی پر گھمنڈ، نجومی کے پاس جانا، عصر کی نماز ترک کرنا، حقوق العباد تلف کرنا، تنہائی میں گناہ کرنا، غیر شرعی مقصد کیلیے کتا پالنا اور شراب نوشی سے نیکیاں مٹ جاتی ہیں، دوسرے خطبے میں انہوں نے کہا کہ نیکی کی قبولیت کو نیکی کرنے سے زیادہ اہمیت دیں، اور ہر ایسے کام سے بچیں جس سے نیکی جزوی یا کلی طور پر تباہ ہو جائے پھر انہوں نے حجاج کرام سمیت سب کیلیے دعائیں کیں۔
پہلا خطبہ:
یقیناً تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں، ہم اس کی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلب گار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں، نفسانی اور بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ تعالی ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل ، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلامتی نازل فرمائے۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
اللہ کے بندو! اللہ سے کما حقہ ڈور، اور اسلام کے مضبوط کڑے کو اچھی طرح تھام لو۔
مسلمانو!
ایک اللہ کی عبادت تخلیق کائنات اور حاکمیت الہی کا مقصود ہے، اسی سے دھرتی کی آبادکاری ہو گی اور انسانیت خوشحالی پائے گی، فرمانِ باری تعالی ہے: {
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ} جو بھی مرد یا عورت ایمان کی حالت میں نیک عمل کرے تو ہم اسے خوشحال زندگی بسر کروائیں گے اور ہم انہیں ان کے بہترین اعمال کا ضرور اجر دیں گے۔[النحل: 97] اور چونکہ اللہ تعالی پاک ہے اس لیے قبولیت بھی پاکیزہ چیزوں کو عطا کرتا ہے، لہذا عمل صالح کو اپنے ہاں بلند فرما کر اسے قبول فرماتا ہے۔

اللہ پر ایمان اور اعمال میں حصولِ رضائے الہی کی کوشش کرنا قبولیت کی بنیاد ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُورًا} اور جس کا ارادہ آخرت کا ہو اور ایمان کی حالت میں کما حقہ اس کی کوشش بھی کرے تو یہی لوگ ہیں جن کی کوشش کی پوری قدر کی جائے گی [الإسراء: 19]
جبکہ کافر کوئی بھی عمل کر لے اس اعمال آخرت میں قبول نہیں ہوں گے، فرمانِ باری تعالی ہے: {وَقَدِمْنَا إِلَى مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَنْثُورًا} اور ان کے اعمال کی جانب بڑھ کر ہم انہیں اڑتی ہوئی دھول بنا دیں گے۔[الفرقان: 23]
کافر کو دنیا میں ہی اس کے اچھے کاموں کا صلہ دے دیا جاتا ہے آپ ﷺ کا فرمان ہے: (کافر کو اللہ کیلیے کیے ہوئے اعمال کے عوض دنیا میں ہی کھلا پلا دیا جاتا ہے، حتی کہ جب کافر آخرت میں پہنچتا ہے تو جزا پانے کیلیے اس کی کوئی نیکی باقی نہیں ہوتی) مسلم
عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک بار کہا: "اللہ کے رسول! ابن جدعان دورِ جاہلیت میں صلہ رحمی کرتا تھا، مساکین کو کھانا کھلاتا تھا ، تو کیا اسے ان اعمال کا کوئی فائدہ [آخرت میں]ہو گا؟" تو آپ ﷺ نے فرمایا: (اسے ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا؛ کیونکہ اس نے ایک دن بھی یہ نہیں کہا: "پروردگار! روزِ جزا میں میری خطائیں معاف کر دینا") مسلم
اور اگر کوئی شخص ظاہری طور پر اسلام قبول کر لے لیکن دل میں منافقت رکھے تو اسے بھی ظاہری اعمال کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا بلکہ اس کے تمام اعمال مسترد کر دئیے جائیں گے، اللہ تعالی نے منافقین کی حالت بیان کرتے ہوئے فرمایا: {قُلْ أَنْفِقُوا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا لَنْ يُتَقَبَّلَ مِنْكُمْ إِنَّكُمْ كُنْتُمْ قَوْمًا فَاسِقِينَ (53) وَمَا مَنَعَهُمْ أَنْ تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقَاتُهُمْ إِلَّا أَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ} کہہ دیں: تم خوشی سے خرچ کرو یا کراہت کے ساتھ تم سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا؛ کیونکہ تم فاسق قوم ہو [53] ان کے صدقات قبول ہونے میں صرف یہی چیز رکاوٹ تھی کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا۔[التوبہ: 53، 54]
عبادت ؛نیت اور عمل کا نام ہے، عبادت کی قبولیت اخلاص اور عمل کی عمدگی سے مشروط ہے، اخلاص ِ نیت سے مقاصد میں اور اتباع سنت سے عمل میں عمدگی حاصل ہوتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا} پس جو اپنے رب سے ملاقات کی امید رکھتا ہے تو وہ نیک عمل اور کسی کو بھی اپنے پروردگار کی عبادت میں شریک مت بنائے۔ [الكهف: 110]
دین اسلام کی بنیاد دو چیزوں پر ہے: یہ کہ اللہ وحدہ لا شریک کی بندگی ہو اور دوسری یہ کہ ہم بندگی اللہ کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق کریں جو کہ رسول اللہ ﷺ کی لائی ہوئی شریعت ہے، یہی دو چیزیں کلمہ شہادت کی روح ہیں ۔
اللہ تعالی نے مخلوقات کو پیدا ہی اسی لیے کیا ہے کہ انہیں اخلاص اور اتباعِ سنت میں آزمائے، فرمانِ باری تعالی ہے: {
تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (1) الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا} بابرکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے [1] جس نے موت اور حیات کو پیدا اس لیے کیا کہ تمہیں آزمائے کہ کون عمل کے لحاظ سے زیادہ اچھا ہے۔[الملك: 1، 2] یعنی کس کا عمل اخلاص اور صحیح طریقے کے مطابق ہے۔

فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اگر کوئی نیکی اللہ کیلیے خالص تو ہو لیکن طریقہ صحیح نہ ہو تو وہ مقبول نہیں ہوتی اور اگر طریقہ صحیح ہو لیکن اللہ کیلیے خالص نہ ہو تو تب بھی قبول نہیں ہوتی، چنانچہ نیکی اسی وقت قبول ہوتی ہے جب اللہ کیلیے خالص بھی ہو اور طریقہ بھی صحیح ہو۔ اور نیکی اللہ کیلیے خالص صرف اسی وقت ہو گی جب اللہ کی رضا کیلیے کی جائے اور صحیح اسی وقت ہو گی جب عین سنت کے مطابق ہو"
اخلاص حقیقت میں یہ ہے کہ انسان اپنی نیکی کے ذریعے رضائے الہی کا متلاشی ہو، فرمانِ باری تعالی ہے: {فَاعْبُدِ اللَّهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ} پس اللہ کی ہی عبادت کریں اسی کیلیے دین کو خالص کرتے ہوئے۔[الزمر: 2] لہذا اس آیت کے مطابق مسلمان کو اپنی تمام تر نیکیاں صرف اللہ کیلیے خالص کرنے کا حکم ہے، چنانچہ مسلمان اپنی نیکی پر کسی بھی مخلوق سے بدلے یا شکریہ کا تقاضا نہیں کرتا۔
خلوص دل قبولیت کیلیے اساس ہے، اسی سے اعمال میں بہتری ممکن ہوتی ہے، بلکہ اعمال کا دار و مدار ہی نیت پر ہے ؛ یہی وجہ ہے کہ انسان صرف نیت سے اتنا بلند مرتبہ پا لیتا ہے کہ عمل کرنے سے بھی نہیں پا سکتا ، اسی طرح بہت سے معمولی کام خالص نیت کی وجہ سے بڑے بن جاتے ہیں اور بہت سے بڑے کام نیت کی وجہ سے معمولی بن جاتے ہیں۔
یحیی بن ابو کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "نیت کرنا سیکھو ؛ کیونکہ یہ عمل سے بھی زیادہ اہم ہے"

کوئی بھی ایسی عبادت جس میں اخلاص اور اچھی نیت شامل نہ ہو اسے کسی کھاتے میں شمار نہیں کیا جاتا۔ ایک دل میں اخلاص اور لوگوں کی جانب سے مدح سرائی اور پذیرائی کی تمنا یکجا نہیں ہو سکتی۔
نیکی کی قبولیت کیلیے رسول اللہ ﷺ کی اتباع ضروری امر ہے، اتباع کے بغیر کوئی بھی کام مردود ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (کوئی بھی ایسا عمل کرے جس کے بارے میں ہمارا حکم نہیں تھا تو وہ مردود ہے) متفق علیہ

سعید بن جبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: " کوئی بھی قول یا فعل نیت کے بغیر قبول نہیں ہوتا، پھر قول ، فعل اور نیت اسی وقت قبول ہوں گے جب سنت کے مطابق ہوں"
تقوی؛ نیکی کی قبولیت کا ذریعہ ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ} بیشک اللہ متقی لوگوں ہی سے قبول کرتا ہے[المائدة: 27] اسی لیے ایک مسلمان بہت زیادہ اندیشہ رکھتا ہے کہ وہ ان لوگوں میں شمار نہ ہو جائے جن کی عبادات قبول نہیں ہوتیں، سلف صالحین کی یہی حالت ہوتی تھی، ابو درداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : " اگر مجھے یہ یقین ہو جائے کہ اللہ تعالی نے میری ایک نماز ہی قبول فرما لی ہے تو یہ میرے لیے دنیا و ما فیہا سے بہتر ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: {إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ} بیشک اللہ متقی لوگوں ہی سے قبول کرتا ہے[المائدة: 27]"
لہذا جو شخص اللہ سے ڈرنے کی بنا پر اخلاص سے عمل کرے اور سنت کی اتباع کرے تو عین ممکن ہے کہ ربِ کریم اس کا عمل قبول فرما لے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: " اہل سنت والجماعت کے ہاں اس شخص کا عمل مقبول ہوتا ہے جو اپنے عمل میں اللہ سے ڈرتے ہوئے اپنی نیت خالص اللہ کیلیے کرے اور اللہ کے حکم کے مطابق اسے بجا لائے، چنانچہ جو شخص اپنی کسی بھی عمل میں تقوی اپنائے تو اس کا وہ عمل مقبول ہو گا چاہے وہ کسی دوسرے عمل میں اللہ کی نافرمانی کا مرتکب ہو، نیز جس کام کو کرتے ہوئے تقوی نہیں اپناتا تو اس کا وہ عمل مقبول نہیں ہو گا چاہے دیگر اعمال میں وہ متقی ہو "
نیکی کے بعد پھر نیکی پہلی نیکی کیلیے قبولیت کی علامت ہوتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَآتَاهُمْ تَقْوَاهُمْ} اور جو لوگ ہدایت یافتہ ہیں اللہ نے انہیں ہدایت میں بڑھا دیا ہے اور انہیں ان کی پرہیز گاری عطا فرمائی [محمد: 17]
حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں: "نیکی کے بدلے میں یہ بھی شامل ہے کہ اس کے بعد مزید نیکیاں کرنے کی توفیق ملے، اور بدی کی سزا میں یہ بھی ہے کہ اس کے بعد مزید گناہ سر زد ہوں" البتہ گناہ کے بعد نیکی کی جائے یہ تو بہت ہی اچھی بات اس سے گناہ دھل جاتا ہے، جبکہ نیکی کے بعد گناہ کریں یہ بہت ہی برا عمل ہے کہ اس سے نیکی مٹ جاتی ہے۔
اگر کسی شخص کی نیکیوں میں اضافہ نہ ہو رہا ہو تو اس کی نیکیوں میں کمی واقع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
انسان کیلیے نیکی آسان ہو جائے اور نیکی کرنے کو دل مچلائے یہ جلد ملنے والی خوشخبری ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {
فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى (5) وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى (6) فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى} اور جو شخص عطیات دے اور تقوی اپنائے [5] اچھی بات کی تصدیق کرے [6] تو ہم اسے آسان راستے کیلیے سہولت دیں گے۔[الليل: 5 - 7]

نیکی پر ثابت قدمی اور دائمی عمل انسان کے کامیاب اور بھلائی پر ہونے کی دلیل ہے، ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "یہ اللہ تعالی کا کرم سے بھر پور قانون ہے کہ جو شخص جس کام پر زندگی گزارے اس کی موت بھی اسی پر آتی ہے، اور جس کی موت جس کام پر آئے اسے روزِ قیامت اسی پر اٹھایا جائے گا"
آپ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ کسی بھی نیکی کے کام کو ہمیشہ کرتے تھے، اور جب کوئی کام ایک بار کر لیتے تو اس پر قائم ہو جاتے تھے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (اللہ تعالی کے ہاں محبوب ترین عمل وہ ہے جو ہمیشہ کیا جائے چاہے وہ معمولی ہی کیوں نہ ہو) متفق علیہ
انسانی اعضا صحیح سلامت رہیں اور نیکی پر قائم ہوں یہ نیکی کی قبولیت اور اللہ تعالی کی بندے سے محبت کا ثمرہ ہے، اللہ تعالی کا حدیث قدسی میں فرمان ہے: (میرے بندے کی جانب سے فرائض کی پابندی میرا قرب حاصل کرنے کیلیے محبوب ترین عمل ہے، میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرنے کیلئے کوشش کرتا رہتا ہے حتی کہ میں بھی اُس سے محبت کرنے لگتا ہوں، چنانچہ جب میں محبت کرنے لگوں تو اِس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اور اسکی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے دیکھتا ہے، اور اسکا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے پکڑتا ہے، اور اسکا پاؤں بن جاتا ہوں جس کے ذریعے چلتا ہے، پھر مجھ سے کچھ مانگے تو میں اسے یقیناً ضرور دونگا، اور اگر مجھ سے پناہ مانگے تو میں لازمی اسے پناہ دونگا)بخاری
مومن کی ہی یہ شان ہے کہ عبادت کیلیے سر توڑ کوشش کرنے کے باوجود اپنے اعمال کو معمولی سمجھتا ہے، چنانچہ جیسے ہی ایک عبادت سے فراغت پاتا ہے تو فوری طور پر دوسری عبادت میں مگن ہو جاتا ہے اور پروردگار کے ہاں اپنی عبادات کی مقدار زیادہ نہیں سمجھتا؛ کیونکہ اس کی بندگی پروردگار کی عنایات اور کرم نوازیوں کے مقابلے میں انتہائی معمولی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ} اور احسان کر کے زیادہ لینے کی خواہش نہ کر [المدثر: 6]
جو شخص حقیقتِ ربوبیت اور حقیقتِ عبدیت سے آشنا ہو گیا تو اس نے اللہ تعالی کو حقیقی انداز میں پہچان لیا ہے نیز اسے یہ بھی علم ہو جائے گا کہ اطاعت گزاری پر مشتمل اس کی جمع پونجی انتہائی معمولی ہے۔
ہم میں سے کوئی بھی اللہ تعالی کے فضل و کرم کے بغیر محض اپنے اعمال کی بدولت جنت میں نہیں جا سکتا، ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: " میں نے نبی ﷺ کے تیس صحابہ کرام کو دیکھا ہے جو سب کے سب اپنے بارے میں منافقت کا خدشہ رکھتے تھے "

نیکی کے فوری بعد استغفار اور کمی کوتاہی کا اعتراف اللہ تعالی کے مخلص بندوں کی علامت ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {كَانُوا قَلِيلًا مِنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ (17) وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ} وہ رات کو بہت کم سویا کرتے تھے [17] اور رات کی آخری گھڑیوں میں وہ بخشش مانگتے تھے [الذاريات: 17، 18]
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: " عمل کی قبولیت کی یہ علامت ہے کہ آپ کے دل میں نیکی معمولی نظر آئے ، اسی لیے معرفتِ الہی رکھنے والا شخص نیکی کے بعد بھی اللہ تعالی سے استغفار کرتا ہے ، بلکہ آپ ﷺ بھی نماز سے سلام پھیرتے تو استغفار کرتے، اللہ تعالی نے حج کے بعد بھی استغفار کا حکم دیا ہے، اسی طرح قیام اللیل کے بعد استغفار کرنے والوں پر ان کی مدح سرائی فرمائی، نیز نبی ﷺ نے وضو کے بعد بھی توبہ اور استغفار کیا، چنانچہ اگر کوئی شخص اپنے پروردگار کے حقوق اور اپنی کم مائیگی اور کوتاہی کو سمجھ جائے تو اسے پروردگار کے سامنے استغفار کے علاوہ کوئی راستہ نظر نہیں آئے گا، وہ اپنے آپ کو ہی ابتر اور کمتر قرار دے گا۔ "
اللہ تعالی نے اپنے بندوں کی مدح سرائی کرتے ہوئے فرمایا: {وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَى رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ} اور وہ جو بھی [راہ الہی میں ] خرچ کرتے ہیں ہے اسے دیتے ہوئے ان کے دل کپکپا رہے ہوتے ہیں کہ انہوں نے اپنے رب کے پاس واپس لوٹ کر جانا ہے۔[المؤمنون: 60] سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : "اللہ کے رسول! کیا اس آیت سے مراد شراب خور اور چور ہیں؟" تو آپ ﷺ نے فرمایا: (صدیق کی بیٹی ، نہیں! اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو نماز، روزے اور صدقات کا اہتمام کرتے ہیں ساتھ میں انہیں یہ خدشہ لگا رہتا ہے کہ ان کی یہ عبادات قبول نہ ہوں، {أُولَئِكَ يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ}یہی لوگ ہیں جو نیکیوں کیلیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور وہی نیکیوں کیلیے سبقت لے جانے والے ہیں۔ [المؤمنون: 61]) اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔
اس لیے مومن عمدہ کارکردگی اور مسترد ہونے کا خدشہ دونوں کو یکساں ساتھ لے کر چلتا ہے، جیسے کہ عبد العزیز بن ابو روّاد رحمہ اللہ کہتے ہیں: " میں نے بہت سے [تابعین] کو دیکھا ہے جو نیکی کرتے ہوئے خوب محنت کرتے تھے ؛ پھر جب نیکی کر گزرتے تو انہیں یہ فکر لاحق ہو جاتی تھی کہ اب ان کی نیکی قبول بھی ہو گی یا نہیں!؟"
نیکی کی قبولیت کیلیے اہم ترین ذریعہ یہ ہے کہ اللہ تعالی سے قبولیت کا سوال کریں، چنانچہ ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام دونوں ہی بیت اللہ کی بنیادیں اٹھاتے ہوئے اللہ سے دعا کرتے ہیں: {رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ} ہمارے پروردگار! ہم سے قبول فرما لے، بیشک تو ہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔[البقرة: 127]
اسی طرح عمران رحمہ اللہ کی اہلیہ نے اپنے نو مولود کیلیے نذر مانی کہ وہ مسجد اقصی کی خدمت کیلیے وقف ہے، پھر بھی وہ یہ دعا کرتیں ہیں: {رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّي إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ} میرے رب ! میرے پیٹ میں جو کچھ ہے، اسے میں نے تیرے نام آزاد کرنے کی نذر مانی، تو میری طرف سے قبول فرما، یقیناً تو خوب سننے والا اور پوری طرح جاننے والا ہے۔ [آل عمران: 35]
ایسے ہی نبی ﷺ نے جس وقت عید قربانی کی تو فرمایا: (یا اللہ! یہ قربانی، محمد، آل محمد اور امت محمد کی جانب سے قبول فرما) مسلم
شکر گزاری بھی قبولیت اور بدلے میں اضافے کا راستہ ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ} اور جب تمہارے پروردگار نے اعلان کیا: اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں ضرور زیادہ دوں گا۔[ابراہیم: 7]
جب اللہ کے بندے شکر گزاری کیلیے کہتے ہیں: {رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ} میرے پروردگار ! مجھے توفیق دے کہ میں تیرے اس احسان کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا ہے اور یہ بھی کہ میں ایسے اچھے عمل کروں جو تجھے پسند ہوں اور میری خاطر میری اولاد [٢٤] کی اصلاح کر میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور بلاشبہ میں فرمانبردار ہوں۔ [الأحقاف: 15] تو اللہ تعالی نے ان سے وعدہ فرماتا ہے: {أُولَئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَنَتَجَاوَزُ عَنْ سَيِّئَاتِهِمْ فِي أَصْحَابِ الْجَنَّةِ} یہی لوگ ہیں جن کے بہترین اعمال کو ہم قبول کرتے ہیں اور ان کی برائیوں سے در گزر کر جاتے ہیں۔ یہ اہل جنت میں شامل ہیں۔ [الأحقاف: 16]
مسلمان قبولیت کی شدید چاہت رکھتا ہے اور اس کیلیے خوب کوشش کرتا ہے، نیز اعمال ضائع ہونے سے بچانے کیلیے مسلمان مکمل طور پر متنبہ بھی رہتا ہے؛ کیونکہ اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ بندہ نیک عمل کر لے اور بس بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ انسان اپنی نیکی کو کسی بھی ایسے اقدام سے بچائے جو نیکی کے ضائع ہونے کا باعث ہو، چنانچہ نیکیوں کو ضائع کرنے والے اعمال میں شرک سرِ فہرست ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے: {وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ} اور اگر انہوں نے شرک کیا تو ان کے سارے اعمال یقیناً ضائع ہو گئے۔ [الأنعام: 88]
اسی میں یہ بھی شامل ہے کہ جن اعمال کا بدلہ آخرت میں ملنا ہے ان اعمال سے دنیاوی مفاد حاصل کرنے کی کوشش کی جائے، فرمانِ باری تعالی ہے: {مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ (15) أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِيهَا وَبَاطِلٌ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ}اور جو دنیاوی زندگی اور دنیاوی چمک دمک کا متلاشی ہو تو ہم اسے اس کے پورے اعمال کا بدلہ دنیا میں ہی دے دیتے ہیں اور ان کے بدلے میں بالکل بھی کمی نہیں کی جاتی [15] یہی لوگ ہیں جن کیلیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں ہے، ان کی تمام کارکردگی آخرت میں ضائع اور ان کے تمام اعمال کالعدم ہوں گے۔[هود: 15، 16]
انسان کی موت مرتد ہونے کی حالت میں آئے تو اس سے بھی سارے اعمال غارت ہو جاتے ہیں فرمانِ باری تعالی ہے: {وَمَنْ يَرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ} اور تم میں سے اگر کوئی اپنے دین سے برگشتہ ہو جائے پھر اس حالت میں مرے کہ وہ کافر ہی ہو تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں ضائع ہوگئے۔ [البقرة: 217]
دین سے نفرت بھی انسان کے سارے اعمال فنا کر دیتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَرِهُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ} اس لیے کہ انہوں نے اللہ کی نازل کردہ شریعت سے نفرت کی تو اللہ نے ان کے اعمال ضائع کر دئیے۔[محمد: 9]
اللہ تعالی کی آیات اور آخرت میں ملاقات کا انکار بھی اعمال کو تباہ کر دیتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَلِقَاءِ الْآخِرَةِ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ} اور جن لوگوں نے ہماری آیات اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلایا تو ان کے اعمال غارت ہو گئے۔[الأعراف: 147]
اگر کوئی شخص غضب الہی کا موجب بننے والے کام کرے رضائے الہی نہ چاہے تو اللہ تعالی بھی اسے ایسا ہی بدلہ دیتا ہے اور اس کے اعمال رائگاں کر دیتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {ذَلِكَ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعُوا مَا أَسْخَطَ اللَّهَ وَكَرِهُوا رِضْوَانَهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ} اس لئے کہ وہ اللہ کی ناراضی کا موجب بننے والے کاموں میں لگ گئے اور انہوں نے اللہ کی رضا نہ چاہی تو اللہ نے ان کے سب اعمال ضائع کر دیئے [محمد: 28]
منافقوں کے اعمال بھی سراب ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے: {أُولَئِكَ لَمْ يُؤْمِنُوا فَأَحْبَطَ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ} یہ لوگ ایمان نہیں لائے تو اللہ نے ان کے اعمال ضائع کر دئیے۔[الأحزاب: 19]
ہٹ دھرمی اور عناد کے باعث رسول اللہ ﷺ کی مخالفت اور حکم عدولی کرنے والا اللہ تعالی کا کچھ نہیں بگاڑتا ، بلکہ اللہ اس کے سارے اعمال غارت فرما دیتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَشَاقُّوا الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى لَنْ يَضُرُّوا اللَّهَ شَيْئًا وَسَيُحْبِطُ أَعْمَالَهُمْ} بلاشبہ جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکتے رہے اور ان پر ہدایت واضح ہو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کی۔ وہ اللہ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے اور اللہ ایسے لوگوں کے اعمال برباد کر دے گا [محمد: 32]
اپنی آواز کو رسول اللہ ﷺ کی آواز سے بلند سمجھنا بھی اعمال کے ضائع ہونے کا باعث ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُون} اے ایمان والو ! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ ہی اس کے سامنے اس طرح اونچی آواز سے بولو جیسے تم ایک دوسرے سے بولتے ہو۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال برباد ہو جائیں اور تمہیں اس کی خبر بھی نہ ہو [الحجرات: 2] ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: " تو اس شخص کے بارے میں کیا خیال ہے جو رسول اللہ ﷺ کے فرمان ، سنت اور طریقے پر کسی دوسرے کی بات اور طریقے کو مقدم سمجھے!! "
اپنی نیکو کاری پر گھمنڈ اور اللہ تعالی پر قسم ڈالنا پروردگار کی گستاخی ہے، نبی ﷺ نے ایک شخص کے بارے میں بتلایا جس نے کہا تھا: "اللہ کی قسم! فلاں کو اللہ کبھی معاف نہیں فرمائے گا" کہ اللہ نے فرمایا(کون ہے جو مجھ پر قسم ڈالتا ہے کہ میں فلاں کو نہیں بخشوں گا، میں نے اُسے بخش دیا ہے اور تیرے سارے اعمال رائیگاں کر دئیے ہیں) مسلم
ریا کاری بھی عمل کو برباد کر دیتی ہے، اللہ تعالی کا حدیث قدسی میں فرمان ہے: ( میں تمام شریکوں سے بڑھ کر شراکت داری سے بے نیاز ہوں، جو شخص کوئی بھی عمل کرتے ہوئے میرے ساتھ کسی کو شریک بنائے تو میں اس کے عمل اور شریک دونوں کو چھوڑ دیتا ہوں، میرا ان سے کوئی تعلق نہیں) مسلم
ایک روایت میں ہے کہ : (جو شخص کسی نجومی کے پاس آ کر استفسار کرے تو اس کی چالیس راتوں کی نمازیں قبول نہیں ہوتیں) مسلم
اسی طرح ایک حدیث میں ہے کہ: (جس نے عصر کی نماز چھوڑی تو اس کا عمل تباہ ہو گیا) بخاری
دوسروں پر زبان درازی کرتے ہوئے گالی گلوچ اور زیادتی کرنے سے بھی نیکیاں ضائع ہوتی ہیں، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (میری امت میں وہ شخص مفلس ہے جو قیامت کے دن نمازیں، روزے اور زکاۃ لے کر آئے گا، اور [ساتھ میں]اس نے کسی کو گالی دی ہو گی، کسی پر تہمت لگائی ہو گی، کسی کا مال ہڑپ کیا ہو گا، کسی کا خون بہایا ہو گا، کسی کو مارا ہو گا، تو ان میں سے ہر ایک کو اس کی نیکیاں دی دے جائیں گی، پھر جب اس کی نیکیاں بھی ختم ہو جائیں گی اور ابھی حساب باقی ہو گا تو دوسروں کے گناہ اس پر ڈال دئیے جائیں گے اور پھر اِسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا) مسلم
تنہائی کے گناہ نیکیوں کو مٹا دیتے ہیں، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (میں اپنی امت میں سے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو روزِ قیامت تہامہ کے پہاڑوں جیسی چمکدار نیکیاں لے کر آئیں گے، لیکن اللہ تعالی انہیں اڑتی ہوئی دھول بنا دے گا) اس پر سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ نے کہا: "اللہ کے رسول! ہمیں ان کے اوصاف واضح کر کے بتلائیں کہیں ہم ان لوگوں میں شامل نہ ہو جائیں اور ہمیں پتا بھی نہ چلے!" تو آپ ﷺ نے فرمایا: (وہ تمہارے بھائی ہیں اور تمہاری قوم سے ہیں، وہ بھی رات کو اسی طرح قیام کرتے ہوں گے جس طرح تم کرتے ہو، لیکن [ان میں منفی بات یہ ہے کہ] وہ جس وقت تنہا ہوتے ہیں تو اللہ تعالی کے حرام کردہ کام کر بیٹھتے ہیں ) ابن ماجہ، اسے البانی نے صحیح کہا ہے۔
(اور جس شخص نے مویشی، یا شکار یا کھیتی باڑی کے علاوہ کسی اور مقصد کیلیے کتا پالا تو اس کے اجر سے روزانہ ایک قیراط کم ہو جاتا ہے) بخاری
(اور شراب نوش کی اللہ تعالی چالیس دنوں تک نمازیں قبول نہیں فرماتا) احمد
یہ بہت بڑے خسارے کی بات ہے کہ انسان برائی پر ہوتے ہوئے بھی یہ سمجھنے لگے کہ وہ صحیح راستے پر ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا (103) الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا} کہہ دو: کیا ہم تمہیں ایسے لوگ بتائیں جو اعمال میں سب سے زیادہ خسارے والے ہیں [103] وہ لوگ جن کی کوشش دنیا کی زندگی میں ضائع ہو گئی اور وہ سمجھتے ہیں کہ بیشک وہ ایک اچھا کام کر رہے ہیں۔ [الكهف: 103، 104]
ان تمام تر تفصیلات کے بعد: مسلمانو!
عبادت کرنا اور پھر عبادت کو تحفظ فراہم کرنا ضروری امر ہے، پھر موت آنے تک عبادت پر قائم رہنا شریعت کی اساسی تعلیم ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {
وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ} اور اپنے پروردگار کی عبادت کر یہاں تک کہ آپ کو موت آ جائے۔[الحجر: 99] اس لیے ہر مسلمان پر واجب ہے کہ کسی بھی نیکی کے کام سے بے رغبتی مت کرے چاہے وہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو، اسی طرح ہر قسم کی برائی سے دور رہے چاہے وہ کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو؛ کیونکہ اسے نہیں معلوم کہ کون سی نیکی کے باعث اللہ تعالی اس پر رحم فرما دے اور کون سی برائی کی وجہ سے اللہ تعالی اس پر غضب ناک ہو جائے۔ تمام عبادات میں مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ امید اور خوف کے مابین رہے تاہم اپنے دل کو اللہ تعالی کی محبت سے سرشار رکھے اور اللہ تعالی سے خیر کی امید کرے۔

أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ: {قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (162) لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ} آپ کہہ دیں: میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب کچھ رب العالمین کے لیے ہے [162] اس کا کوئی شریک نہیں، مجھے اسی بات کا حکم ہے اور میں سب سے پہلے ماننے والا ہوں۔[الأنعام: 162، 163]
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلیے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو ذکرِ حکیم کی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے بخشش مانگو، بیشک وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔


دوسرا خطبہ
تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں کہ اس نے ہم پر احسان کیا ، اسی کے شکر گزار بھی ہیں کہ اس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اس کی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے ، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، اللہ تعالی ان پر ، ان کی آل اور صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں ،سلامتی اور برکتیں نازل فرمائے۔
مسلمانو!
نیکی کی قبولیت کو نیکی کرنے سے زیادہ اہمیت دیں، اس لیے کسی بھی ایسے اقدام سے پرہیز کریں جو نیکی کو تباہ و برباد کر دے یا اس میں کمی کا باعث بنے۔
نیکی کرنے والے شخص کو اللہ کا شکر کرنا چاہیے کہ اللہ تعالی نے اسے نیکی کرنے کی توفیق دی نیز اللہ تعالی سے مزید نیکیوں کیلیے ثابت قدمی کا طلب گار بھی رہے، اس لیے نیکی کا تحفظ نیکی کرنے سے زیادہ ضروری ہے۔ اور ہر معاملے میں اختتام معتبر ہوتا ہے۔
اور مسلمان ایسی نیکیاں پابندی سے کرتا ہے جس سے نفس کا تزکیہ ہو، نیز سچائی، تواضع، انکساری، پاک دل، اور اعلی اخلاق سے مزین رہتا ہے۔ دوسروں کیلیے بھی وہی خیر پسند کرتا ہے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے، اللہ تعالی کی پکڑ سے بے خوف نہیں ہوتا اور نہ ہی اللہ کی رحمت سے ناامید ہوتا ہے۔
یہ بات جان لو کہ اللہ تعالی نے تمہیں اپنے نبی پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا: {
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا} اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو۔ [الأحزاب: 56]

اللهم صل وسلم وبارك على نبينا محمد، یا اللہ! حق اور انصاف کے ساتھ فیصلے کرنے والے خلفائے راشدین: ابو بکر ، عمر، عثمان، علی سمیت بقیہ تمام صحابہ سے راضی ہو جا؛ یا اللہ !اپنے رحم و کرم اور جو د و سخا کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا اکرم الاکرمین!
یا اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، شرک اور مشرکوں کو ذلیل فرما، یا اللہ !دین کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما، یا اللہ! اس ملک کو اور مسلمانوں کے تمام ممالک کو خوشحال اور امن کا گہوارہ بنا دے۔
یا اللہ! پوری دنیا میں مسلمانوں کے حالات سنوار دے، یا اللہ! مسلمانوں کے تمام ممالک کو خوشحال اور امن کا گہوارہ بنا دے۔
یا اللہ! حجاج کرام کا حج قبول فرما، یا اللہ! ان کے حج کو مبرور بنا، ان کی جد و جہد قبول فرما، ان کے گناہ معاف فرما، یا اللہ! ان تمام مرادیں پوری فرما اور انہیں وہ سب کچھ عطا فرما جو انہوں نے تجھ سے مانگا ہے۔
یا اللہ! ہمارے حکمران کو تیری رہنمائی کے مطابق توفیق عطا فرما، اور ان کے سارے اعمال تیری رضا کیلیے مختص فرما، یا اللہ! تمام مسلم حکمرانوں کو تیری کتاب پر عمل کرنے اور نفاذِ شریعت کی توفیق عطا فرما، یا ذو الجلال والاکرام!
یا اللہ! حجاج کرام کی خدمت کرنے والے تمام افراد کو کامیابیاں عطا فرما، یا اللہ! ان کے اقوال و افعال کو صحیح سمت عطا فرما، یا اللہ! ان کے گناہ معاف فرما، یا غفور! یا رحیم!
یا اللہ! ہماری سرحدوں کی حفاظ فرما، ہمارے فوجیوں کو ہمت عطا فرما، یا اللہ! انہیں ثابت قدم بنا، اور ان کے دلوں کی ڈھارس باندھ دے، یا ذو الجلال والاکرام! یا قوی! یا عزیز!
یا اللہ! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آخرت کے عذاب سے محفوظ فرما۔
یا اللہ! تو ہی ہمارا معبود ہے، تیرے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، تو ہی غنی ہے ہم فقیر ہیں، ہمیں بارش عطا فرما، اور ہمیں مایوس ہونے والوں میں شامل مت فرما۔ یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما۔
یا اللہ! ہم نے اپنی جانوں پر بہت ظلم کیا اگر تو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم خسارہ پانے والے بن جائیں گے۔
اللہ کے بندو!
{
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ} اللہ تعالی تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں وعظ کرتا ہے تا کہ تم نصیحت پکڑو۔ [النحل: 90]

تم عظمت والے جلیل القدر اللہ کا ذکر کرو تو وہ بھی تمہیں یاد رکھے گا، اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو وہ تمہیں اور زیادہ دے گا، یقیناً اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے ، تم جو بھی کرتے ہو اللہ تعالی جانتا ہے ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
نیکیاں قبول یا مسترد ہونے کی علامات اور ہدایات

ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ ۔ ترجمہ شفقت الرحمن مغل

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ

نے مسجد نبوی میں خطبہ جمعہ
"نیکیاں قبول یا مسترد ہونے کی علامات اور ہدایات" کے عنوان پر ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے سعادت حج پانے والوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا کہ کائنات کی تخلیق کا مقصد اللہ کی عبادت ہے، اور عبادت کی قبولیت کیلیے جد و جہد از بس ضروری ہے، چنانچہ عدم ایمان کے باعث کافر اور منافق کا کوئی بھی عمل آخرت میں فائدہ نہیں دے گا البتہ انہیں دنیا میں پورا بدلہ دے دیا جائے گا، عمل کی قبولیت کیلیے اخلاص اور اتباعِ سنت لازمی امور ہیں، اخلاص کا مطلب یہ ہے کہ نیکی کا مقصود اور مطلوب صرف رضائے الہی ہو ، جس کیلیے نیت بنیادی کردار کی حامل ہے؛ کیونکہ نیت کی وجہ سے چھوٹا عمل بھی بڑا بن جاتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ: تقوی، تسلسل کے ساتھ نیکیاں، نیکی کیلیے دلی رغبت، نیکی پر ثابت قدمی اور انسانی اعضا کا صحیح سلامت رہنا نیکی قبول ہونے کی علامات میں سے ہیں، اگر انسان کو عبدیت کی حقیقی معرفت مل جائے تو اسے اپنی ساری زندگی کی عبادات بھی ہیچ نظر آئیں اسی لیے تو عظیم ترین عبادات کے بعد بھی استغفار سنت نبوی ہے، اور مومن کبھی بھی اپنی نیکی پر گھمنڈ نہیں کرتا بلکہ اللہ سے قبولیت کا امیدوار رہتا ہے، چنانچہ قبولیت کیلیے دعا اور شکر گزاری اپناتا ہے شکر کرنے پر اللہ کی طرف سے قبولیت کا وعدہ ہے، دوسری جانب شرک، ریاکاری، نیکی کے عوض دنیاوی مفادات کا حصول، حالت ارتداد میں موت، دین سے نفرت، اللہ کی آیات اور آخرت میں ملاقات کا انکار، غضب الہی کا موجب بننے والے اعمال کرنا، منافقت، ہٹ دھرمی اور عناد کی بنیاد پر سنت سے تصادم، اپنی بات کو نبی ﷺ کی بات پر فوقیت دینا، اپنی پارسائی پر گھمنڈ، نجومی کے پاس جانا، عصر کی نماز ترک کرنا، حقوق العباد تلف کرنا، تنہائی میں گناہ کرنا، غیر شرعی مقصد کیلیے کتا پالنا اور شراب نوشی سے نیکیاں مٹ جاتی ہیں، دوسرے خطبے میں انہوں نے کہا کہ نیکی کی قبولیت کو نیکی کرنے سے زیادہ اہمیت دیں، اور ہر ایسے کام سے بچیں جس سے نیکی جزوی یا کلی طور پر تباہ ہو جائے پھر انہوں نے حجاج کرام سمیت سب کیلیے دعائیں کیں۔
پہلا خطبہ:
یقیناً تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں، ہم اس کی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلب گار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں، نفسانی اور بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ تعالی ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل ، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلامتی نازل فرمائے۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
اللہ کے بندو! اللہ سے کما حقہ ڈور، اور اسلام کے مضبوط کڑے کو اچھی طرح تھام لو۔
مسلمانو!
ایک اللہ کی عبادت تخلیق کائنات اور حاکمیت الہی کا مقصود ہے، اسی سے دھرتی کی آبادکاری ہو گی اور انسانیت خوشحالی پائے گی، فرمانِ باری تعالی ہے: {
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ} جو بھی مرد یا عورت ایمان کی حالت میں نیک عمل کرے تو ہم اسے خوشحال زندگی بسر کروائیں گے اور ہم انہیں ان کے بہترین اعمال کا ضرور اجر دیں گے۔[النحل: 97] اور چونکہ اللہ تعالی پاک ہے اس لیے قبولیت بھی پاکیزہ چیزوں کو عطا کرتا ہے، لہذا عمل صالح کو اپنے ہاں بلند فرما کر اسے قبول فرماتا ہے۔

اللہ پر ایمان اور اعمال میں حصولِ رضائے الہی کی کوشش کرنا قبولیت کی بنیاد ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُورًا} اور جس کا ارادہ آخرت کا ہو اور ایمان کی حالت میں کما حقہ اس کی کوشش بھی کرے تو یہی لوگ ہیں جن کی کوشش کی پوری قدر کی جائے گی [الإسراء: 19]
جبکہ کافر کوئی بھی عمل کر لے اس اعمال آخرت میں قبول نہیں ہوں گے، فرمانِ باری تعالی ہے: {وَقَدِمْنَا إِلَى مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَنْثُورًا} اور ان کے اعمال کی جانب بڑھ کر ہم انہیں اڑتی ہوئی دھول بنا دیں گے۔[الفرقان: 23]
کافر کو دنیا میں ہی اس کے اچھے کاموں کا صلہ دے دیا جاتا ہے آپ ﷺ کا فرمان ہے: (کافر کو اللہ کیلیے کیے ہوئے اعمال کے عوض دنیا میں ہی کھلا پلا دیا جاتا ہے، حتی کہ جب کافر آخرت میں پہنچتا ہے تو جزا پانے کیلیے اس کی کوئی نیکی باقی نہیں ہوتی) مسلم
عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک بار کہا: "اللہ کے رسول! ابن جدعان دورِ جاہلیت میں صلہ رحمی کرتا تھا، مساکین کو کھانا کھلاتا تھا ، تو کیا اسے ان اعمال کا کوئی فائدہ [آخرت میں]ہو گا؟" تو آپ ﷺ نے فرمایا: (اسے ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا؛ کیونکہ اس نے ایک دن بھی یہ نہیں کہا: "پروردگار! روزِ جزا میں میری خطائیں معاف کر دینا") مسلم
اور اگر کوئی شخص ظاہری طور پر اسلام قبول کر لے لیکن دل میں منافقت رکھے تو اسے بھی ظاہری اعمال کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا بلکہ اس کے تمام اعمال مسترد کر دئیے جائیں گے، اللہ تعالی نے منافقین کی حالت بیان کرتے ہوئے فرمایا: {قُلْ أَنْفِقُوا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا لَنْ يُتَقَبَّلَ مِنْكُمْ إِنَّكُمْ كُنْتُمْ قَوْمًا فَاسِقِينَ (53) وَمَا مَنَعَهُمْ أَنْ تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقَاتُهُمْ إِلَّا أَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ} کہہ دیں: تم خوشی سے خرچ کرو یا کراہت کے ساتھ تم سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا؛ کیونکہ تم فاسق قوم ہو [53] ان کے صدقات قبول ہونے میں صرف یہی چیز رکاوٹ تھی کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا۔[التوبہ: 53، 54]
عبادت ؛نیت اور عمل کا نام ہے، عبادت کی قبولیت اخلاص اور عمل کی عمدگی سے مشروط ہے، اخلاص ِ نیت سے مقاصد میں اور اتباع سنت سے عمل میں عمدگی حاصل ہوتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا} پس جو اپنے رب سے ملاقات کی امید رکھتا ہے تو وہ نیک عمل اور کسی کو بھی اپنے پروردگار کی عبادت میں شریک مت بنائے۔ [الكهف: 110]
دین اسلام کی بنیاد دو چیزوں پر ہے: یہ کہ اللہ وحدہ لا شریک کی بندگی ہو اور دوسری یہ کہ ہم بندگی اللہ کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق کریں جو کہ رسول اللہ ﷺ کی لائی ہوئی شریعت ہے، یہی دو چیزیں کلمہ شہادت کی روح ہیں ۔
اللہ تعالی نے مخلوقات کو پیدا ہی اسی لیے کیا ہے کہ انہیں اخلاص اور اتباعِ سنت میں آزمائے، فرمانِ باری تعالی ہے: {
تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (1) الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا} بابرکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے [1] جس نے موت اور حیات کو پیدا اس لیے کیا کہ تمہیں آزمائے کہ کون عمل کے لحاظ سے زیادہ اچھا ہے۔[الملك: 1، 2] یعنی کس کا عمل اخلاص اور صحیح طریقے کے مطابق ہے۔

فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اگر کوئی نیکی اللہ کیلیے خالص تو ہو لیکن طریقہ صحیح نہ ہو تو وہ مقبول نہیں ہوتی اور اگر طریقہ صحیح ہو لیکن اللہ کیلیے خالص نہ ہو تو تب بھی قبول نہیں ہوتی، چنانچہ نیکی اسی وقت قبول ہوتی ہے جب اللہ کیلیے خالص بھی ہو اور طریقہ بھی صحیح ہو۔ اور نیکی اللہ کیلیے خالص صرف اسی وقت ہو گی جب اللہ کی رضا کیلیے کی جائے اور صحیح اسی وقت ہو گی جب عین سنت کے مطابق ہو"
اخلاص حقیقت میں یہ ہے کہ انسان اپنی نیکی کے ذریعے رضائے الہی کا متلاشی ہو، فرمانِ باری تعالی ہے: {فَاعْبُدِ اللَّهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ} پس اللہ کی ہی عبادت کریں اسی کیلیے دین کو خالص کرتے ہوئے۔[الزمر: 2] لہذا اس آیت کے مطابق مسلمان کو اپنی تمام تر نیکیاں صرف اللہ کیلیے خالص کرنے کا حکم ہے، چنانچہ مسلمان اپنی نیکی پر کسی بھی مخلوق سے بدلے یا شکریہ کا تقاضا نہیں کرتا۔
خلوص دل قبولیت کیلیے اساس ہے، اسی سے اعمال میں بہتری ممکن ہوتی ہے، بلکہ اعمال کا دار و مدار ہی نیت پر ہے ؛ یہی وجہ ہے کہ انسان صرف نیت سے اتنا بلند مرتبہ پا لیتا ہے کہ عمل کرنے سے بھی نہیں پا سکتا ، اسی طرح بہت سے معمولی کام خالص نیت کی وجہ سے بڑے بن جاتے ہیں اور بہت سے بڑے کام نیت کی وجہ سے معمولی بن جاتے ہیں۔
یحیی بن ابو کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "نیت کرنا سیکھو ؛ کیونکہ یہ عمل سے بھی زیادہ اہم ہے"

کوئی بھی ایسی عبادت جس میں اخلاص اور اچھی نیت شامل نہ ہو اسے کسی کھاتے میں شمار نہیں کیا جاتا۔ ایک دل میں اخلاص اور لوگوں کی جانب سے مدح سرائی اور پذیرائی کی تمنا یکجا نہیں ہو سکتی۔
نیکی کی قبولیت کیلیے رسول اللہ ﷺ کی اتباع ضروری امر ہے، اتباع کے بغیر کوئی بھی کام مردود ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (کوئی بھی ایسا عمل کرے جس کے بارے میں ہمارا حکم نہیں تھا تو وہ مردود ہے) متفق علیہ

سعید بن جبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: " کوئی بھی قول یا فعل نیت کے بغیر قبول نہیں ہوتا، پھر قول ، فعل اور نیت اسی وقت قبول ہوں گے جب سنت کے مطابق ہوں"
تقوی؛ نیکی کی قبولیت کا ذریعہ ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ} بیشک اللہ متقی لوگوں ہی سے قبول کرتا ہے[المائدة: 27] اسی لیے ایک مسلمان بہت زیادہ اندیشہ رکھتا ہے کہ وہ ان لوگوں میں شمار نہ ہو جائے جن کی عبادات قبول نہیں ہوتیں، سلف صالحین کی یہی حالت ہوتی تھی، ابو درداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : " اگر مجھے یہ یقین ہو جائے کہ اللہ تعالی نے میری ایک نماز ہی قبول فرما لی ہے تو یہ میرے لیے دنیا و ما فیہا سے بہتر ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: {إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ} بیشک اللہ متقی لوگوں ہی سے قبول کرتا ہے[المائدة: 27]"
لہذا جو شخص اللہ سے ڈرنے کی بنا پر اخلاص سے عمل کرے اور سنت کی اتباع کرے تو عین ممکن ہے کہ ربِ کریم اس کا عمل قبول فرما لے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: " اہل سنت والجماعت کے ہاں اس شخص کا عمل مقبول ہوتا ہے جو اپنے عمل میں اللہ سے ڈرتے ہوئے اپنی نیت خالص اللہ کیلیے کرے اور اللہ کے حکم کے مطابق اسے بجا لائے، چنانچہ جو شخص اپنی کسی بھی عمل میں تقوی اپنائے تو اس کا وہ عمل مقبول ہو گا چاہے وہ کسی دوسرے عمل میں اللہ کی نافرمانی کا مرتکب ہو، نیز جس کام کو کرتے ہوئے تقوی نہیں اپناتا تو اس کا وہ عمل مقبول نہیں ہو گا چاہے دیگر اعمال میں وہ متقی ہو "
نیکی کے بعد پھر نیکی پہلی نیکی کیلیے قبولیت کی علامت ہوتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَآتَاهُمْ تَقْوَاهُمْ} اور جو لوگ ہدایت یافتہ ہیں اللہ نے انہیں ہدایت میں بڑھا دیا ہے اور انہیں ان کی پرہیز گاری عطا فرمائی [محمد: 17]
حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں: "نیکی کے بدلے میں یہ بھی شامل ہے کہ اس کے بعد مزید نیکیاں کرنے کی توفیق ملے، اور بدی کی سزا میں یہ بھی ہے کہ اس کے بعد مزید گناہ سر زد ہوں" البتہ گناہ کے بعد نیکی کی جائے یہ تو بہت ہی اچھی بات اس سے گناہ دھل جاتا ہے، جبکہ نیکی کے بعد گناہ کریں یہ بہت ہی برا عمل ہے کہ اس سے نیکی مٹ جاتی ہے۔
اگر کسی شخص کی نیکیوں میں اضافہ نہ ہو رہا ہو تو اس کی نیکیوں میں کمی واقع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
انسان کیلیے نیکی آسان ہو جائے اور نیکی کرنے کو دل مچلائے یہ جلد ملنے والی خوشخبری ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {
فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى (5) وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى (6) فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى} اور جو شخص عطیات دے اور تقوی اپنائے [5] اچھی بات کی تصدیق کرے [6] تو ہم اسے آسان راستے کیلیے سہولت دیں گے۔[الليل: 5 - 7]

نیکی پر ثابت قدمی اور دائمی عمل انسان کے کامیاب اور بھلائی پر ہونے کی دلیل ہے، ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "یہ اللہ تعالی کا کرم سے بھر پور قانون ہے کہ جو شخص جس کام پر زندگی گزارے اس کی موت بھی اسی پر آتی ہے، اور جس کی موت جس کام پر آئے اسے روزِ قیامت اسی پر اٹھایا جائے گا"
آپ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ کسی بھی نیکی کے کام کو ہمیشہ کرتے تھے، اور جب کوئی کام ایک بار کر لیتے تو اس پر قائم ہو جاتے تھے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (اللہ تعالی کے ہاں محبوب ترین عمل وہ ہے جو ہمیشہ کیا جائے چاہے وہ معمولی ہی کیوں نہ ہو) متفق علیہ
انسانی اعضا صحیح سلامت رہیں اور نیکی پر قائم ہوں یہ نیکی کی قبولیت اور اللہ تعالی کی بندے سے محبت کا ثمرہ ہے، اللہ تعالی کا حدیث قدسی میں فرمان ہے: (میرے بندے کی جانب سے فرائض کی پابندی میرا قرب حاصل کرنے کیلیے محبوب ترین عمل ہے، میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرنے کیلئے کوشش کرتا رہتا ہے حتی کہ میں بھی اُس سے محبت کرنے لگتا ہوں، چنانچہ جب میں محبت کرنے لگوں تو اِس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اور اسکی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے دیکھتا ہے، اور اسکا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے پکڑتا ہے، اور اسکا پاؤں بن جاتا ہوں جس کے ذریعے چلتا ہے، پھر مجھ سے کچھ مانگے تو میں اسے یقیناً ضرور دونگا، اور اگر مجھ سے پناہ مانگے تو میں لازمی اسے پناہ دونگا)بخاری
مومن کی ہی یہ شان ہے کہ عبادت کیلیے سر توڑ کوشش کرنے کے باوجود اپنے اعمال کو معمولی سمجھتا ہے، چنانچہ جیسے ہی ایک عبادت سے فراغت پاتا ہے تو فوری طور پر دوسری عبادت میں مگن ہو جاتا ہے اور پروردگار کے ہاں اپنی عبادات کی مقدار زیادہ نہیں سمجھتا؛ کیونکہ اس کی بندگی پروردگار کی عنایات اور کرم نوازیوں کے مقابلے میں انتہائی معمولی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ} اور احسان کر کے زیادہ لینے کی خواہش نہ کر [المدثر: 6]
جو شخص حقیقتِ ربوبیت اور حقیقتِ عبدیت سے آشنا ہو گیا تو اس نے اللہ تعالی کو حقیقی انداز میں پہچان لیا ہے نیز اسے یہ بھی علم ہو جائے گا کہ اطاعت گزاری پر مشتمل اس کی جمع پونجی انتہائی معمولی ہے۔
ہم میں سے کوئی بھی اللہ تعالی کے فضل و کرم کے بغیر محض اپنے اعمال کی بدولت جنت میں نہیں جا سکتا، ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: " میں نے نبی ﷺ کے تیس صحابہ کرام کو دیکھا ہے جو سب کے سب اپنے بارے میں منافقت کا خدشہ رکھتے تھے "

نیکی کے فوری بعد استغفار اور کمی کوتاہی کا اعتراف اللہ تعالی کے مخلص بندوں کی علامت ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {كَانُوا قَلِيلًا مِنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ (17) وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ} وہ رات کو بہت کم سویا کرتے تھے [17] اور رات کی آخری گھڑیوں میں وہ بخشش مانگتے تھے [الذاريات: 17، 18]
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: " عمل کی قبولیت کی یہ علامت ہے کہ آپ کے دل میں نیکی معمولی نظر آئے ، اسی لیے معرفتِ الہی رکھنے والا شخص نیکی کے بعد بھی اللہ تعالی سے استغفار کرتا ہے ، بلکہ آپ ﷺ بھی نماز سے سلام پھیرتے تو استغفار کرتے، اللہ تعالی نے حج کے بعد بھی استغفار کا حکم دیا ہے، اسی طرح قیام اللیل کے بعد استغفار کرنے والوں پر ان کی مدح سرائی فرمائی، نیز نبی ﷺ نے وضو کے بعد بھی توبہ اور استغفار کیا، چنانچہ اگر کوئی شخص اپنے پروردگار کے حقوق اور اپنی کم مائیگی اور کوتاہی کو سمجھ جائے تو اسے پروردگار کے سامنے استغفار کے علاوہ کوئی راستہ نظر نہیں آئے گا، وہ اپنے آپ کو ہی ابتر اور کمتر قرار دے گا۔ "
اللہ تعالی نے اپنے بندوں کی مدح سرائی کرتے ہوئے فرمایا: {وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَى رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ} اور وہ جو بھی [راہ الہی میں ] خرچ کرتے ہیں ہے اسے دیتے ہوئے ان کے دل کپکپا رہے ہوتے ہیں کہ انہوں نے اپنے رب کے پاس واپس لوٹ کر جانا ہے۔[المؤمنون: 60] سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : "اللہ کے رسول! کیا اس آیت سے مراد شراب خور اور چور ہیں؟" تو آپ ﷺ نے فرمایا: (صدیق کی بیٹی ، نہیں! اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو نماز، روزے اور صدقات کا اہتمام کرتے ہیں ساتھ میں انہیں یہ خدشہ لگا رہتا ہے کہ ان کی یہ عبادات قبول نہ ہوں، {أُولَئِكَ يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ}یہی لوگ ہیں جو نیکیوں کیلیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور وہی نیکیوں کیلیے سبقت لے جانے والے ہیں۔ [المؤمنون: 61]) اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔
اس لیے مومن عمدہ کارکردگی اور مسترد ہونے کا خدشہ دونوں کو یکساں ساتھ لے کر چلتا ہے، جیسے کہ عبد العزیز بن ابو روّاد رحمہ اللہ کہتے ہیں: " میں نے بہت سے [تابعین] کو دیکھا ہے جو نیکی کرتے ہوئے خوب محنت کرتے تھے ؛ پھر جب نیکی کر گزرتے تو انہیں یہ فکر لاحق ہو جاتی تھی کہ اب ان کی نیکی قبول بھی ہو گی یا نہیں!؟"
نیکی کی قبولیت کیلیے اہم ترین ذریعہ یہ ہے کہ اللہ تعالی سے قبولیت کا سوال کریں، چنانچہ ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام دونوں ہی بیت اللہ کی بنیادیں اٹھاتے ہوئے اللہ سے دعا کرتے ہیں: {رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ} ہمارے پروردگار! ہم سے قبول فرما لے، بیشک تو ہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔[البقرة: 127]
اسی طرح عمران رحمہ اللہ کی اہلیہ نے اپنے نو مولود کیلیے نذر مانی کہ وہ مسجد اقصی کی خدمت کیلیے وقف ہے، پھر بھی وہ یہ دعا کرتیں ہیں: {رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّي إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ} میرے رب ! میرے پیٹ میں جو کچھ ہے، اسے میں نے تیرے نام آزاد کرنے کی نذر مانی، تو میری طرف سے قبول فرما، یقیناً تو خوب سننے والا اور پوری طرح جاننے والا ہے۔ [آل عمران: 35]
ایسے ہی نبی ﷺ نے جس وقت عید قربانی کی تو فرمایا: (یا اللہ! یہ قربانی، محمد، آل محمد اور امت محمد کی جانب سے قبول فرما) مسلم
شکر گزاری بھی قبولیت اور بدلے میں اضافے کا راستہ ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ} اور جب تمہارے پروردگار نے اعلان کیا: اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں ضرور زیادہ دوں گا۔[ابراہیم: 7]
جب اللہ کے بندے شکر گزاری کیلیے کہتے ہیں: {رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ} میرے پروردگار ! مجھے توفیق دے کہ میں تیرے اس احسان کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا ہے اور یہ بھی کہ میں ایسے اچھے عمل کروں جو تجھے پسند ہوں اور میری خاطر میری اولاد [٢٤] کی اصلاح کر میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور بلاشبہ میں فرمانبردار ہوں۔ [الأحقاف: 15] تو اللہ تعالی نے ان سے وعدہ فرماتا ہے: {أُولَئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَنَتَجَاوَزُ عَنْ سَيِّئَاتِهِمْ فِي أَصْحَابِ الْجَنَّةِ} یہی لوگ ہیں جن کے بہترین اعمال کو ہم قبول کرتے ہیں اور ان کی برائیوں سے در گزر کر جاتے ہیں۔ یہ اہل جنت میں شامل ہیں۔ [الأحقاف: 16]
مسلمان قبولیت کی شدید چاہت رکھتا ہے اور اس کیلیے خوب کوشش کرتا ہے، نیز اعمال ضائع ہونے سے بچانے کیلیے مسلمان مکمل طور پر متنبہ بھی رہتا ہے؛ کیونکہ اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ بندہ نیک عمل کر لے اور بس بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ انسان اپنی نیکی کو کسی بھی ایسے اقدام سے بچائے جو نیکی کے ضائع ہونے کا باعث ہو، چنانچہ نیکیوں کو ضائع کرنے والے اعمال میں شرک سرِ فہرست ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے: {وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ} اور اگر انہوں نے شرک کیا تو ان کے سارے اعمال یقیناً ضائع ہو گئے۔ [الأنعام: 88]
اسی میں یہ بھی شامل ہے کہ جن اعمال کا بدلہ آخرت میں ملنا ہے ان اعمال سے دنیاوی مفاد حاصل کرنے کی کوشش کی جائے، فرمانِ باری تعالی ہے: {مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ (15) أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِيهَا وَبَاطِلٌ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ}اور جو دنیاوی زندگی اور دنیاوی چمک دمک کا متلاشی ہو تو ہم اسے اس کے پورے اعمال کا بدلہ دنیا میں ہی دے دیتے ہیں اور ان کے بدلے میں بالکل بھی کمی نہیں کی جاتی [15] یہی لوگ ہیں جن کیلیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں ہے، ان کی تمام کارکردگی آخرت میں ضائع اور ان کے تمام اعمال کالعدم ہوں گے۔[هود: 15، 16]
انسان کی موت مرتد ہونے کی حالت میں آئے تو اس سے بھی سارے اعمال غارت ہو جاتے ہیں فرمانِ باری تعالی ہے: {وَمَنْ يَرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ} اور تم میں سے اگر کوئی اپنے دین سے برگشتہ ہو جائے پھر اس حالت میں مرے کہ وہ کافر ہی ہو تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں ضائع ہوگئے۔ [البقرة: 217]
دین سے نفرت بھی انسان کے سارے اعمال فنا کر دیتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَرِهُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ} اس لیے کہ انہوں نے اللہ کی نازل کردہ شریعت سے نفرت کی تو اللہ نے ان کے اعمال ضائع کر دئیے۔[محمد: 9]
اللہ تعالی کی آیات اور آخرت میں ملاقات کا انکار بھی اعمال کو تباہ کر دیتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَلِقَاءِ الْآخِرَةِ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ} اور جن لوگوں نے ہماری آیات اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلایا تو ان کے اعمال غارت ہو گئے۔[الأعراف: 147]
اگر کوئی شخص غضب الہی کا موجب بننے والے کام کرے رضائے الہی نہ چاہے تو اللہ تعالی بھی اسے ایسا ہی بدلہ دیتا ہے اور اس کے اعمال رائگاں کر دیتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {ذَلِكَ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعُوا مَا أَسْخَطَ اللَّهَ وَكَرِهُوا رِضْوَانَهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ} اس لئے کہ وہ اللہ کی ناراضی کا موجب بننے والے کاموں میں لگ گئے اور انہوں نے اللہ کی رضا نہ چاہی تو اللہ نے ان کے سب اعمال ضائع کر دیئے [محمد: 28]
منافقوں کے اعمال بھی سراب ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے: {أُولَئِكَ لَمْ يُؤْمِنُوا فَأَحْبَطَ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ} یہ لوگ ایمان نہیں لائے تو اللہ نے ان کے اعمال ضائع کر دئیے۔[الأحزاب: 19]
ہٹ دھرمی اور عناد کے باعث رسول اللہ ﷺ کی مخالفت اور حکم عدولی کرنے والا اللہ تعالی کا کچھ نہیں بگاڑتا ، بلکہ اللہ اس کے سارے اعمال غارت فرما دیتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَشَاقُّوا الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى لَنْ يَضُرُّوا اللَّهَ شَيْئًا وَسَيُحْبِطُ أَعْمَالَهُمْ} بلاشبہ جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکتے رہے اور ان پر ہدایت واضح ہو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کی۔ وہ اللہ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے اور اللہ ایسے لوگوں کے اعمال برباد کر دے گا [محمد: 32]
اپنی آواز کو رسول اللہ ﷺ کی آواز سے بلند سمجھنا بھی اعمال کے ضائع ہونے کا باعث ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُون} اے ایمان والو ! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ ہی اس کے سامنے اس طرح اونچی آواز سے بولو جیسے تم ایک دوسرے سے بولتے ہو۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال برباد ہو جائیں اور تمہیں اس کی خبر بھی نہ ہو [الحجرات: 2] ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: " تو اس شخص کے بارے میں کیا خیال ہے جو رسول اللہ ﷺ کے فرمان ، سنت اور طریقے پر کسی دوسرے کی بات اور طریقے کو مقدم سمجھے!! "
اپنی نیکو کاری پر گھمنڈ اور اللہ تعالی پر قسم ڈالنا پروردگار کی گستاخی ہے، نبی ﷺ نے ایک شخص کے بارے میں بتلایا جس نے کہا تھا: "اللہ کی قسم! فلاں کو اللہ کبھی معاف نہیں فرمائے گا" کہ اللہ نے فرمایا(کون ہے جو مجھ پر قسم ڈالتا ہے کہ میں فلاں کو نہیں بخشوں گا، میں نے اُسے بخش دیا ہے اور تیرے سارے اعمال رائیگاں کر دئیے ہیں) مسلم
ریا کاری بھی عمل کو برباد کر دیتی ہے، اللہ تعالی کا حدیث قدسی میں فرمان ہے: ( میں تمام شریکوں سے بڑھ کر شراکت داری سے بے نیاز ہوں، جو شخص کوئی بھی عمل کرتے ہوئے میرے ساتھ کسی کو شریک بنائے تو میں اس کے عمل اور شریک دونوں کو چھوڑ دیتا ہوں، میرا ان سے کوئی تعلق نہیں) مسلم
ایک روایت میں ہے کہ : (جو شخص کسی نجومی کے پاس آ کر استفسار کرے تو اس کی چالیس راتوں کی نمازیں قبول نہیں ہوتیں) مسلم
اسی طرح ایک حدیث میں ہے کہ: (جس نے عصر کی نماز چھوڑی تو اس کا عمل تباہ ہو گیا) بخاری
دوسروں پر زبان درازی کرتے ہوئے گالی گلوچ اور زیادتی کرنے سے بھی نیکیاں ضائع ہوتی ہیں، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (میری امت میں وہ شخص مفلس ہے جو قیامت کے دن نمازیں، روزے اور زکاۃ لے کر آئے گا، اور [ساتھ میں]اس نے کسی کو گالی دی ہو گی، کسی پر تہمت لگائی ہو گی، کسی کا مال ہڑپ کیا ہو گا، کسی کا خون بہایا ہو گا، کسی کو مارا ہو گا، تو ان میں سے ہر ایک کو اس کی نیکیاں دی دے جائیں گی، پھر جب اس کی نیکیاں بھی ختم ہو جائیں گی اور ابھی حساب باقی ہو گا تو دوسروں کے گناہ اس پر ڈال دئیے جائیں گے اور پھر اِسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا) مسلم
تنہائی کے گناہ نیکیوں کو مٹا دیتے ہیں، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (میں اپنی امت میں سے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو روزِ قیامت تہامہ کے پہاڑوں جیسی چمکدار نیکیاں لے کر آئیں گے، لیکن اللہ تعالی انہیں اڑتی ہوئی دھول بنا دے گا) اس پر سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ نے کہا: "اللہ کے رسول! ہمیں ان کے اوصاف واضح کر کے بتلائیں کہیں ہم ان لوگوں میں شامل نہ ہو جائیں اور ہمیں پتا بھی نہ چلے!" تو آپ ﷺ نے فرمایا: (وہ تمہارے بھائی ہیں اور تمہاری قوم سے ہیں، وہ بھی رات کو اسی طرح قیام کرتے ہوں گے جس طرح تم کرتے ہو، لیکن [ان میں منفی بات یہ ہے کہ] وہ جس وقت تنہا ہوتے ہیں تو اللہ تعالی کے حرام کردہ کام کر بیٹھتے ہیں ) ابن ماجہ، اسے البانی نے صحیح کہا ہے۔
(اور جس شخص نے مویشی، یا شکار یا کھیتی باڑی کے علاوہ کسی اور مقصد کیلیے کتا پالا تو اس کے اجر سے روزانہ ایک قیراط کم ہو جاتا ہے) بخاری
(اور شراب نوش کی اللہ تعالی چالیس دنوں تک نمازیں قبول نہیں فرماتا) احمد
یہ بہت بڑے خسارے کی بات ہے کہ انسان برائی پر ہوتے ہوئے بھی یہ سمجھنے لگے کہ وہ صحیح راستے پر ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا (103) الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا} کہہ دو: کیا ہم تمہیں ایسے لوگ بتائیں جو اعمال میں سب سے زیادہ خسارے والے ہیں [103] وہ لوگ جن کی کوشش دنیا کی زندگی میں ضائع ہو گئی اور وہ سمجھتے ہیں کہ بیشک وہ ایک اچھا کام کر رہے ہیں۔ [الكهف: 103، 104]
ان تمام تر تفصیلات کے بعد: مسلمانو!
عبادت کرنا اور پھر عبادت کو تحفظ فراہم کرنا ضروری امر ہے، پھر موت آنے تک عبادت پر قائم رہنا شریعت کی اساسی تعلیم ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {
وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ} اور اپنے پروردگار کی عبادت کر یہاں تک کہ آپ کو موت آ جائے۔[الحجر: 99] اس لیے ہر مسلمان پر واجب ہے کہ کسی بھی نیکی کے کام سے بے رغبتی مت کرے چاہے وہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو، اسی طرح ہر قسم کی برائی سے دور رہے چاہے وہ کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو؛ کیونکہ اسے نہیں معلوم کہ کون سی نیکی کے باعث اللہ تعالی اس پر رحم فرما دے اور کون سی برائی کی وجہ سے اللہ تعالی اس پر غضب ناک ہو جائے۔ تمام عبادات میں مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ امید اور خوف کے مابین رہے تاہم اپنے دل کو اللہ تعالی کی محبت سے سرشار رکھے اور اللہ تعالی سے خیر کی امید کرے۔

أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ: {قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (162) لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ} آپ کہہ دیں: میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب کچھ رب العالمین کے لیے ہے [162] اس کا کوئی شریک نہیں، مجھے اسی بات کا حکم ہے اور میں سب سے پہلے ماننے والا ہوں۔[الأنعام: 162، 163]
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلیے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو ذکرِ حکیم کی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے بخشش مانگو، بیشک وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔


دوسرا خطبہ
تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں کہ اس نے ہم پر احسان کیا ، اسی کے شکر گزار بھی ہیں کہ اس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اس کی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے ، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، اللہ تعالی ان پر ، ان کی آل اور صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں ،سلامتی اور برکتیں نازل فرمائے۔
مسلمانو!
نیکی کی قبولیت کو نیکی کرنے سے زیادہ اہمیت دیں، اس لیے کسی بھی ایسے اقدام سے پرہیز کریں جو نیکی کو تباہ و برباد کر دے یا اس میں کمی کا باعث بنے۔
نیکی کرنے والے شخص کو اللہ کا شکر کرنا چاہیے کہ اللہ تعالی نے اسے نیکی کرنے کی توفیق دی نیز اللہ تعالی سے مزید نیکیوں کیلیے ثابت قدمی کا طلب گار بھی رہے، اس لیے نیکی کا تحفظ نیکی کرنے سے زیادہ ضروری ہے۔ اور ہر معاملے میں اختتام معتبر ہوتا ہے۔
اور مسلمان ایسی نیکیاں پابندی سے کرتا ہے جس سے نفس کا تزکیہ ہو، نیز سچائی، تواضع، انکساری، پاک دل، اور اعلی اخلاق سے مزین رہتا ہے۔ دوسروں کیلیے بھی وہی خیر پسند کرتا ہے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے، اللہ تعالی کی پکڑ سے بے خوف نہیں ہوتا اور نہ ہی اللہ کی رحمت سے ناامید ہوتا ہے۔
یہ بات جان لو کہ اللہ تعالی نے تمہیں اپنے نبی پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا: {
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا} اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو۔ [الأحزاب: 56]

اللهم صل وسلم وبارك على نبينا محمد، یا اللہ! حق اور انصاف کے ساتھ فیصلے کرنے والے خلفائے راشدین: ابو بکر ، عمر، عثمان، علی سمیت بقیہ تمام صحابہ سے راضی ہو جا؛ یا اللہ !اپنے رحم و کرم اور جو د و سخا کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا اکرم الاکرمین!
یا اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، شرک اور مشرکوں کو ذلیل فرما، یا اللہ !دین کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما، یا اللہ! اس ملک کو اور مسلمانوں کے تمام ممالک کو خوشحال اور امن کا گہوارہ بنا دے۔
یا اللہ! پوری دنیا میں مسلمانوں کے حالات سنوار دے، یا اللہ! مسلمانوں کے تمام ممالک کو خوشحال اور امن کا گہوارہ بنا دے۔
یا اللہ! حجاج کرام کا حج قبول فرما، یا اللہ! ان کے حج کو مبرور بنا، ان کی جد و جہد قبول فرما، ان کے گناہ معاف فرما، یا اللہ! ان تمام مرادیں پوری فرما اور انہیں وہ سب کچھ عطا فرما جو انہوں نے تجھ سے مانگا ہے۔
یا اللہ! ہمارے حکمران کو تیری رہنمائی کے مطابق توفیق عطا فرما، اور ان کے سارے اعمال تیری رضا کیلیے مختص فرما، یا اللہ! تمام مسلم حکمرانوں کو تیری کتاب پر عمل کرنے اور نفاذِ شریعت کی توفیق عطا فرما، یا ذو الجلال والاکرام!
یا اللہ! حجاج کرام کی خدمت کرنے والے تمام افراد کو کامیابیاں عطا فرما، یا اللہ! ان کے اقوال و افعال کو صحیح سمت عطا فرما، یا اللہ! ان کے گناہ معاف فرما، یا غفور! یا رحیم!
یا اللہ! ہماری سرحدوں کی حفاظ فرما، ہمارے فوجیوں کو ہمت عطا فرما، یا اللہ! انہیں ثابت قدم بنا، اور ان کے دلوں کی ڈھارس باندھ دے، یا ذو الجلال والاکرام! یا قوی! یا عزیز!
یا اللہ! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آخرت کے عذاب سے محفوظ فرما۔
یا اللہ! تو ہی ہمارا معبود ہے، تیرے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، تو ہی غنی ہے ہم فقیر ہیں، ہمیں بارش عطا فرما، اور ہمیں مایوس ہونے والوں میں شامل مت فرما۔ یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما۔
یا اللہ! ہم نے اپنی جانوں پر بہت ظلم کیا اگر تو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم خسارہ پانے والے بن جائیں گے۔
اللہ کے بندو!
{
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ} اللہ تعالی تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں وعظ کرتا ہے تا کہ تم نصیحت پکڑو۔ [النحل: 90]

تم عظمت والے جلیل القدر اللہ کا ذکر کرو تو وہ بھی تمہیں یاد رکھے گا، اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو وہ تمہیں اور زیادہ دے گا، یقیناً اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے ، تم جو بھی کرتے ہو اللہ تعالی جانتا ہے ۔
 
Top