• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا ہم مسلمانوں کی موجودہ پستی کی وجہ سائنس و ٹیکنالوجی میں پیچھے رہ جانا ہے؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کیا ہم مسلمانوں کی موجودہ پستی کی وجہ سائنس و ٹیکنالوجی میں پیچھے رہ جانا ہے؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تحریر : [ أبو عامر۔ Abu Aamir ]

ہم مسلمانوں کی موجودہ پستی کی وجہ سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں پیچھے رہ جانا نہیں بلکہ اس کی اصل سبب الله تعالی کی ذکر ( کتاب الله و سنتِ رسول الله ﷺ ) سے إعراض اور دُوری ہے۔

جس طرح قرآن کریم میں اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے:

﴿ وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ ﴾ [ طه 124:20 ]

" اور جو میری نصیحت سے منہ پھیرے گا اس کی زندگی تنگ ہو جائے گی اور قیامت کو ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے"

آج کل ہمارے مُسلم معاشرہ کے اندر کچھ بیمار، پست و غلامانہ ذہن رکھنے والا ایک دین بیزار سیکولر طبقہ ایسا بھی موجود ہے جو اس دورِ جدید میں مغربی کفار کی صنعت وحرفت اور سائنس و ٹیکنالوجی کی میدان میں مُحیر العقول ترقی سے متأثر ہو کر آئے دن اپنے بحث و مباحثوں، لکچرز اور سوشل و الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ پبلک فورمز پر اس بات پر زور دے کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ دیکھیں یورپ، امریکہ، روس، چین، جاپان اور دیگر غیر مُسلم ممالک کے لوگ چاند اور مریخ پر پہنچ گئے یعنی سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں وہ ہم سے بہت ایڈوانس نکل چکے ہیں جبکہ ہم مسلمان ابھی تک لکیر کے فقیر بنے ہوئے ہیں۔ یعنی اُن کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم اب تک سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں صفر ہیں بلکہ اُن مغربی ممالک کی خوشہ چین اور محتاج ہیں وغیرہ وغیرہ۔

لیکن بڑی افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ گفتار کے غازی کم ظرف و کوتاہ بین دیسی گورے نام نہاد کلمہ گو سیکولر خودساختہ دانشور طبقہ مسلمانوں کی سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں یہ کمی و کمزوری اپنی غفلت و نا اہلی، خود غرضی، کوتاہی، کرپشن اور نفاق وغیرہ کو ذمہ دار نہیں ٹھہراتے بلکہ اس مادی ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہنے کے لئے ببانگ دہل اور کبھی دبی زبان سے دین اسلام ہی کو رکاوٹ ٹھہرا رہے ہوتے ہیں۔ والعیاذ باللہ

یاد رکھیں ! اس مادی ترقی اور دنیوی مال ومتاع کی اللہ سبحانہ وتعالی کی نگاہ میں ایک ذرے کے برابر بھی وقعت نہیں جس طرح نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:

سیدنا سهل بن سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:

(( لَوْ كَانَتِ الدُّنْيَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللَّهِ جَنَاحَ بَعُوضَةٍ مَا سَقَى كَافِرًا مِنْهَا شَرْبَةَ مَاءٍ ))

رواه الترمذي (2320) واللفظ له، وابن ماجه (3334)، والحاكم (4/341). قال الترمذي: صحيح غريب من هذا الوجه، وقال الحاكم: هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه، وصححه الألباني في ((صحيح سنن الترمذي)).

'' اگر دنیا کی حیثیت اللہ تعالیٰ کے نزدیک مچھر کے پر جتنی بھی ہوتی تو اللہ تعالیٰ کسی بھی کافر کو پانی کا ایک گھونٹ بھی نہ پلاتا۔ ''

اور اللہ سبحانہ وتعالی نے قرآن کریم میں فرماتا ہے:

﴿ زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذَٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاللَّهُ عِندَهُ حُسْنُ الْمَآبِ (14) قُلْ أَؤُنَبِّئُكُم بِخَيْرٍ مِّن ذَٰلِكُمْ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَأَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللَّهِ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ (15)﴾ [ آل عمران 3 ]


" لوگوں کو ان کی خواہشوں کی چیزیں یعنی عورتیں اور بیٹے اور سونے اور چاندی کے بڑے بڑے ڈھیر اور نشان لگے ہوئے گھوڑے اور مویشی اور کھیتی بڑی زینت دار معلوم ہوتی ہیں (مگر) یہ سب دنیا ہی کی زندگی کے سامان ہیں اور الله تعالى کے پاس بہت اچھا ٹھکانا ہے (14) (اے نبى ﷺ ان سے) کہو کہ بھلا میں تم کو ایسی چیز بتاؤں جو ان چیزوں سے کہیں اچھی ہو (سنو) جو لوگ پرہیزگار ہیں ان کے لیے الله تعالى کے ہاں باغات (بہشت) ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور پاکیزہ عورتیں ہیں اور (سب سے بڑھ کر) الله تعالى کی خوشنودی اور الله تعالى (اپنے نیک) بندوں کو دیکھ رہا ہے (15)"

﴿ وَمَا هَٰذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ﴾ [ العنكبوت 64:29 ]

" اور یہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل اور تماشہ ہے اور (ہمیشہ کی) زندگی (کا مقام) تو آخرت کا گھر ہے۔ کاش یہ (لوگ) سمجھتے "

نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:

(( کُنْ فِيْ الدُّنْیَا کَأَنَّكَ غَرِیْبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ ))

[ أخرجہ البخاري في کتاب الرقاق، باب: قول النبي ﷺ کن في الدنیا کَأَنَّكَ غریب، رقم: 6416 ]۔

'' دنیا میں ایسے زندگی گزار جیسے تو پردیسی یا مسافر ہے۔ ''

دوسری روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے:

(( وَعُدَّ نَفْسَكَ مِنْ أَھْلِ الْقُبُوْرِ۔ ))

[ صحیح سنن الترمذي، رقم: 1902 ]۔

'' اور اپنے آپ کو قبر والوں میں شمار کر۔ ''

(( وَاللّٰهِ مَا الدُّنْیَا فِيْ الْآخِرَۃِ إِلاَّ مِثْلُ مَا یَجْعَلُ أَحَدُکُمْ إِصْبَعَهُ ھٰذِہِ فِي الْیَمِّ، فَلْیَنْظُرْ بِمَ یَرْجِعُ۔ ))

[ أخرجه مسلم في کتاب الجنة، باب: فناء الدنیا وبیان الحشر یوم القیامة، رقم: 7197 ]۔

'' اللہ کی قسم! دنیا کی آخرت کے مقابلہ میں مثال ایسے ہی ہے جیسے تم میں سے کوئی ایک اپنی انگلی سمندر میں ڈبوئے تو دیکھے اس کی انگلی کتنا پانی لائی ہے۔ ''

معلوم ہوا کہ دنیا کی بے ثباتی اور اس کی لذتوں کے فنا ہونے کی مثال آخرت کی دائمی زندگی اور لذتوں کے مقابلہ میں ایسی ہی ہے جیسے کہ ایک انگلی پر لگا ہوا پانی باقی سمندر کے مقابلہ میں ہوتا ہے۔

چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی اپنی حیات مبارکہ بھی اسی چیز کا عملی نمونہ پیش کرتی ہے۔ اور فرمایا:

(( لَوْ کَانَ لِيْ مِثْلُ أُحُدٍ ذَھَبًا؛ مَا یَسُرُّنِيْ أَنْ لاَّ تَمُرَّ عَلَيَّ ثَـلَاثَ لَیَالٍ وَعِنْدِيْ مِنْهُ شَيْئٌ إِلاَّ شَیْئًا أُرْصُدُہُ لِدَیْنٍ ))

[ أخرجه البخاري في کتاب الرقاق، باب: قول النبي ﷺ (( ما یسرني أن عندي مثل أحد ھذا ذھبًا۔ رقم: 6445 ]۔

'' مجھے اس سے بالکل خوشی نہیں ہوگی کہ میرے پاس اس احد کے برابر سونا ہو اور اس پر تین دن اس طرح گزر جائیں کہ اس میں سے ایک دینار بھی باقی رہ جائے (سب تقسیم کردوں) البتہ اگر کسی کا قرض ادا کرنے کے لیے کچھ رکھ چھوڑوں، تو یہ اور بات ہے۔ ''

عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ رضی الله عنه قَالَ: (( نَامَ رَسُوْلُ اللّٰهِ عَلیٰ حِصْرِ، فَقَامَ وَقَدْ أُثِرَ فِیْ جَنْبِه فَقُلْنَا یَا رَسُوْلُ اللّٰهِ ! لَوِ اتَّخَذَنَا لََكَ وِطَأَ فَقَالَ: مَا لِيْ وَلِلدُّنْیَا، مَا أَنَا فِيْ الدُّنْیَا إِلاَّ کَرَاکِبٍ اِسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَۃٍ، ثُمَّ رَاحَ وَتَرَکَھَا۔ ))

[ صحیح سنن الترمذي، رقم: 1936 ] ۔

سیّدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کھجور کے پتوں کی چٹائی پر سو رہے تھے، پس جب آپ کھڑے ہوئے تو آپ کے پہلو پر اس کے (چبھنے کے) نشانات تھے۔ ہم نے عرض کی اے اللہ کے رسول! ہم آپ کے لیے پلنگ بنا دیتے ہیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: '' میرا دنیا سے کیا تعلق؟ میں تو دنیا میں ایک سوار کی طرح ہوں (جو دوران سفر) کسی درخت کے سایہ میں ٹھہرتا ہے اور آرام کرنے کے بعد اسے چھوڑ کر (اپنی منزل کی طرف روانہ) ہوجاتا ہے۔ ''

(( مَا تَرَكَ رَسُوْلُ اللّٰهِ، عِنْدَ مَوْتِهِ دِرْھَمًا وَلَا دِیْنَارًا، وَلَا عَبْدًا وَلَا أَمَةً، وَلَا شَیْئًا إِلاَّ بَغْلَتَهُ الْبَیضَائَ وَسِلَاحَه، وَأَرْضًا جَعَلَھَا صَدَقَةً ))

[ أخرجه البخاري في کتاب الوصایا، باب: الوصایا، رقم: 2739 ]۔

'' رسول اللہ ﷺ نے وفات کے وقت نہ روپیہ چھوڑا، نہ اشرفی، نہ غلام، نہ لونڈی اور نہ اور کوئی چیز صرف ایک سفید خچر چھوڑا اور ہتھیار اور کچھ زمین جس کو آپ وقف کرگئے تھے۔ ''

(( أَلدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنُ وَجَنَّةُ الْکَافِرَ۔ ))

[ صحیح مسلم، کتاب الزہد، رقم: 7417 ]۔

'' دنیا مومن کا قید خانہ اور کافر کی جنت ہے۔ ''

باقی قرآن کریم میں اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے کہ :

﴿ وَلَوْلَا أَن يَكُونَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً لَّجَعَلْنَا لِمَن يَكْفُرُ بِالرَّحْمَٰنِ لِبُيُوتِهِمْ سُقُفًا مِّن فِضَّةٍ وَمَعَارِجَ عَلَيْهَا يَظْهَرُونَ (33) وَلِبُيُوتِهِمْ أَبْوَابًا وَسُرُرًا عَلَيْهَا يَتَّكِئُونَ (34) وَزُخْرُفًا وَإِن كُلُّ ذَٰلِكَ لَمَّا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةُ عِندَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِينَ (35) ﴾ [ الزخرف:43]

" اور اگر یہ خیال نہ ہوتا کہ سب لوگ ایک ہی جماعت ہو جائیں گے تو جو لوگ الله تعالى سے انکار کرتے ہیں ہم ان کے گھروں کی چھتیں چاندی کی بنا دیتے اور سیڑھیاں (بھی) جن پر وہ چڑھتے ہیں (33) اور ان کے گھروں کے دروازے بھی اور تخت بھی جن پر تکیہ لگاتے ہیں (34) اور (خوب) تجمل وآرائش (کر دیتے) اور یہ سب دنیا کی زندگی کا تھوڑا سا سامان ہے۔ اور آخرت تمہارے رب کے ہاں پرہیزگاروں کے لئے ہے (35)"

مندرجہ بالا متعدد قرآنی آیات کریمہ اور صحیح آحادیث رسول ﷺ سے معلوم ہوا کہ کسی قوم کی دنیاوی مال و آسباب کی فروانی اور ترقی اللہ تعالی کی نگاہ میں کوئی معنی نہیں رکھتا، بلکہ یہ تو اللہ تعالی کفار اور مسلمانوں دونوں کو اپنی بالغ حکمت عملی کے مطابق دیتا ہے، یعنی کفار کی دنیوی مال ومتاع میں برتری و ترقی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ (نعوذ بالله) اللہ تعالی انہیں پسند کرتے ہیں اس لئے اُن کو دنیا میں کُشادگی دی ہے بلکہ اس کو قرآن کریم میں إستدراج کہا ہے کہ نافرمانی کے باوجود جب اللہ تعالی کسی پر دنیوی مال و متاع کی فراخی وفروانی لاتا ہے تو یہ اس کا عنقریب پکڑ و ہلاکت اور تباہی کی علامت ہے۔

جیسے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے:

﴿ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَىٰ أُمَمٍ مِّن قَبْلِكَ فَأَخَذْنَاهُم بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ (42) فَلَوْلَا إِذْ جَاءَهُم بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا وَلَٰكِن قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (43) فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّىٰ إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُم بَغْتَةً فَإِذَا هُم مُّبْلِسُونَ (44) فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (45) ﴾ [ الأنعام 6 ]

" اور ہم نے تم سے پہلے بہت سی امتوں کی طرف رسول بھیجے۔ پھر (ان کی نافرمانیوں کے سبب) ہم انہیں سختیوں اور تکلیفوں میں پکڑتے رہے تاکہ عاجزی کریں (42) تو جب ان پر ہمارا عذاب آتا رہا کیوں نہیں عاجزی کرتے رہے۔ مگر ان کے تو دل ہی سخت ہو گئے تھے۔ اور جو وہ کام کرتے تھے شیطان ان کو (ان کی نظروں میں) آراستہ کر دکھاتا تھا (43) پھر جب انہوں نے اس نصیحت کو جو ان کو کى گئی تھی فراموش کر دیا تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے۔ یہاں تک کہ جب ان چیزوں سے جو ان کو دی گئی تھیں خوب خوش ہو گئے تو ہم نے ان کو ناگہاں پکڑ لیا اور وہ اس وقت مایوس ہو کر رہ گئے (44) پهر ظالم لوگوں کی جڑ کٹ گئی اور اللہ تعالی کا شکر ہے جو تمام عالم کا رب ہے (45)"

یعنی اس میں اللہ سبحانہ وتعالی کی یاد سے غافل اور اُسے فراموش کرنے والے قوموں کے بارے میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ہم بعض دفعہ وقتی طور پر ایسی قوموں پر دنیا کی آسائشوں اور فراوانیوں کے دروازے کھول دیتے ہیں، یہاں تک کہ جب وہ اس میں خوب مگن ہو جاتی ہیں اور اپنی مادی خوش حالی وترقی پر اِترانے لگ جاتی ہیں تو پھر ہم اچانک اُنہیں اپنے مؤاخذے کے گرفت میں لے لیتے ہیں اور ان کی جڑ ہی کاٹ کر رکھ دیتے ہیں۔

حدیث میں آتا ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب تم دیکھو کہ اللہ تعالی نافرمانیوں کے باوجود کسی کو اس کی خواہشات کے مطابق دنیا دے رہا ہے تو یہ " استدراج " ( ڈھیل دینا ) ہے۔ پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔

[ مسند أحمد، جلد 4، صفحہ 145 ].

قرآن کریم کی اس آیت کریمہ اور حدیث نبوی ﷺ سے معلوم ہوا کہ دنیوی ترقی اور خوشی حالی اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ جس فرد یا قوم کو یہ حاصل ہو تو وہ اللہ تعالی کی چہیتی ہے اور اللہ تعالی اس سے خوش ہے جیسا کہ بعض لوگ ایسا سمجھتے ہیں بلکہ بعض تو انہیں ﴿...أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ ﴾
[ الأنبياء 105:21 ] کا مصداق قرار دے کر انہیں اللہ تعالی کے نیک بندے تک قرار دیتے ہیں۔ ایسا سمجھنا اور کہنا غلط ہے، گمراہ قوموں یا افراد کی دنیوی خوش حالی ابتلا او مہلت کے طور پر ہے نہ کہ یہ ان کے کفر و معاصی کا صلہ ہے۔

اگر ان کفار ومشرکین مغربی اقوام کی یہ مادی ترقی، مزے، سہولیات اور آسائشیں اور ان کی سائنس و ٹیکنالوجی میں advancement اللہ تعالی کی عذاب سے بچاؤ کی اسباب ہوتے تو سابقہ ہلاک شدہ اقوام مکذبہ جیسے قومِ نوح علیہ السلام، قوم عاد و ثمود، نمرود، شداد، فرعون اور اسکی قوم، قارون، ھامان، قومِ لوط علیہ السلام، قومِ شعیب علیہ السلام، قومِ تُبع اور دوسرے بہت سارے جبابرہ اقوام و افراد جیسے قیصر و کسریٰ جو مال و دولت اور سائنس و ٹیکنالوجی میں اپنے اپنے وقت کے ایڈوانسڈ اور ترقی یافتہ اقوام تھے لیکن جب اللہ تعالی کے نافرمانیوں اور سرکشی کے مرتکب ہو گئے تو اللہ تعالی نے انہیں صفحۂ ہستی سے حرفِ غلط کی طرح مٹا دئیے۔

جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالی قرآن کریم میں اُن نافرمان اقوام کے بارے میں بیان فرماتا ہے۔

﴿ فَكُلًّا أَخَذْنَا بِذَنبِهِ فَمِنْهُم مَّنْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا وَمِنْهُم مَّنْ أَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ وَمِنْهُم مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْأَرْضَ وَمِنْهُم مَّنْ أَغْرَقْنَا وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ ﴾.... [ سورة العنكبوت: 40:29 ]

" پھر تو ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ کے وبال میں گرفتار کر لیا، ان میں سے بعض پر ہم نے پتھروں کا مینہ برسایا۔ اور ان میں سے بعض کو زوردار سخت آواز نے دبوچ لیا۔ اور ان میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان سے بعض کو ہم نے ڈبو دیا، اللہ تعالی ایسا نہیں کہ ان پر ظلم کرے بلکہ یہی لوگ اپنے جانوں پر ظلم کرتے تھے۔"

یعنی یہ اللہ تعالی کی شان نہیں کہ وہ ظلم کرے۔ اس لئے پچھلی قومیں جن پر عذاب آیا محض اس لئے ہلاک ہوئیں کہ کفر وشرک اور تکذیب، معاصی کا ارتکاب کرکے انہوں نے خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کیا۔ اس لئے یہ موجودہ سائنس و ٹیکنالوجی میں ایڈوانس مغربی کفار اقوام ہو یا کسی بھی قوم یا فرد میں بھی وہی شرکیہ وکفریہ عقائد، بت پرستی و قبرپرستی، عیش و عشرت، مدَر پدر آزادی، کھلی عام زنا، شراب نوشی، سودی کاروبار اور کتاب وسنت کی احکام سے کھلی نافرمانی موجود ہوں تو وہ بھی اللہ تعالی کی مذکورہ عذابوں سے نہیں بچ سکتے ہیں۔

جس طرح اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے:

﴿ اسْتِكْبَارًا فِي الْأَرْضِ وَمَكْرَ السَّيِّئِ وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ فَهَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِينَ فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدِيلًا وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا ﴾ [ فاطر 43:35 ]

" یعنی (انہوں نے) ملک میں غرور کرنا اور بری چال چلنا (اختیار کیا) اور بری چال کا وبال اس کے چلنے والے ہی پر پڑتا ہے۔ یہ اگلے لوگوں کی روش کے سوا اور کسی چیز کے منتظر نہیں۔ سو تم الله تعالى کی عادت میں ہرگز تبدل نہ پاؤ گے۔ اور اللہ تعالی کے طریقے میں کبھی تغیر نہ دیکھو گے"

باقی دنیا میں ہر صاحب عقل وبصیرت مرد و عورت کو اپنے بساط کے مطابق سعی وتحقیق کرکے حق وباطل میں فرق و پہچان کرنی چاہیۓ، اور پھر اُس کو حق بات دل ہی سے قبول و تسلیم کرکے اس کی لازم اتباع کرنی چاہیۓ۔

اس دعوتی پوسٹ کو تمام اہل حق متبعین سنت مؤحدین مسلمان بہن بھائی اپنے ویب پیجز اور فیس بک ٹائم لائنز پر اپنے دوستوں سے بطور صدقہ جاریہ ثواب کی نیت سے share کریں، ہو سکتا ہے کہ اس کے ذریعے سے کسی کو اللہ تعالی ہدایت نصیب کرے اور وہ تقلید و بدعات اور بدعقیدگیوں کی تاریک راہوں سے نکل کر اتباعِ کتاب وسنت کی روشن و سیدھی اور معطر راہ کی طرف آئے، اور صحیح و سچا متبعِ سنت بن جائے۔ جزاکم الله خیرًا۔

وصلى الله وسلم وبارك على نبينا محمد وعلى آله وأصحابه أجمعين۔
واللہ تعالی أعلم


أبو عامر (Abu Aamir)
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
جزاكم الله خيرا
ہماری ذلتوں کا سبب ہماری دین سے دوری ہے ، علم سے دوری ہے ۔
ہم منتظر فردا ہیں ، خود عمل سے دور ہیں ۔
اللہ ہم سب کو بہتر هدایت دے اور ہماری کہوئی ہوئی غیرت اور حمیت ہم میں پیدا ہو جائے ۔ آمین
 
Top