عمر اثری
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 29، 2015
- پیغامات
- 4,404
- ری ایکشن اسکور
- 1,128
- پوائنٹ
- 412
کیا ہم واقعی روزہ رکھ رہے ہیں؟
تحریر: عبدالغفار سلفی، بنارس
الصَّوْمُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ يَدَعُ شَهْوَتَهُ وَأَكْلَهُ وَشُرْبَهُ مِنْ أَجْلِي
روزہ خالص میرے لیے ہوتا ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دیتا ہوں. بندہ اپنی شہوت، کھانا پینا میری رضا کے لیے چھوڑتا ہے
(صحيح بخاري:7492)
یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ روزہ کا اللہ تعالی کے یہاں بہت بڑا مقام ہے اور یہ ایک عظیم عبادت ہے. مگر سوال یہ ہے کہ کیا صرف اپنے آپ کو کھانے، پینے اور جماع سے روک لینے کا نام روزہ ہے. حقیقت یہ ہے کہ روزہ ان تمام چیزوں سے رک جانے اور باز آنے کا نام ہے جو روزے کے منافی ہیں. ایک شخص اگر یہ سمجھتا ہے کہ روزہ محض فاقہ کشی کا نام ہے، بھوک وپیاس کی تکلیف برداشت کرنے کا نام ہے تو درحقیقت اس نے روزے کی روح کو نہیں سمجھا، روزے کے اصل مقصد کو نہیں سمجھا. قرآن حکیم میں رب العالمین نے جہاں روزے کا حکم دیا ہے وہیں اس کی غرض وغایت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ
اے ایمان والو !تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔
(البقرة:183)
ظاہر ہے انسان اگر روزہ رکھے اور اس کا اصل مقصد پورا نہ کرے یعنی تقوی اختیار نہ کرے تو پھر ایسے روزے کا کوئی مطلب اور حاصل نہیں ہے.
برادرانِ اسلام!
آج ہم سب اپنے اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں کہ ہمارے روزے کیسے گزر رہے ہیں؟ کوئی دن بھر سو کر روزہ گزار رہا ہے. کوئی روزے کی حالت میں اپنی زبان پر قابو کھو بیٹھا ہے اور عام دنوں کی بنسبت روزے کی حالت میں اس کی زبان گالی گلوج اور فحش باتوں میں اور زیادہ ملوث ہو رہی ہے. کوئی روزے کی حالت میں فسق وفجور کے کاموں میں، فلم بینی میں، میوزک اور گانے سننے میں، بیہودہ پروگرام دیکھنے میں وقت گذاری کر کر رہا ہے.
ذرا سوچیے ہم ایسا روزہ لے کر اپنے رب کے پاس جائیں گے؟ ایسی عبادت کے ساتھ ہم اپنے مالکِ حقیقی کو بھلا کیا منھ دکھائیں گے؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ دن بھر بھوک وپیاس کی شدت برداشت کرنے کے باوجود ہماری ان بے اعتدالیوں اور کوتاہیوں کے سبب ہمارے روزے ہمارے منہ پر مار دیے جائیں. اللہ کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
رُبَّ صَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ صِيَامِهِ إِلَّا الْجُوعُ، وَرُبَّ قَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ قِيَامِهِ إِلَّا السَّهَرُ .
بہت سے روزہ رکھنے والے ایسے ہیں کہ ان کو اپنے روزے سے بھوک کے سوا کچھ نہیں حاصل ہوتا، اور بہت سے رات میں قیام کرنے والے ایسے ہیں کہ ان کو اپنے قیام سے جاگنے کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا.
(ابن ماجه:1690 حسن صحيح)
عزیزانِ گرامی!
ذرا سوچیے اگر روزے کی حالت میں بھی ہماری زبانیں کذب بیانی اور دروغ گوئی میں مصروف رہیں، ہمارے ہاتھوں سے غلط اور ناجائز کام ہوتے رہیں، اللہ کی نافرمانی کے کام حسب معمول ہم انجام دیتے رہیں تو پھر بھلا ہمارے روزوں کا کیا فائدہ اور حاصل ہے. اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
((مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِهِ فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ)).
اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور دغا بازی کرنا (روزے رکھ کر بھی) نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔
(صحيح بخاري:1903)
اس لیے ہم سب کو اپنا اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ کیا واقعی ہم ویسا روزہ رکھ رہے ہیں جو اللہ کو مطلوب ہے.
اللہ ہمیں روزے کے اصل مقاصد کو پورا کرتے ہوئے اِس عظیم عبادت کو انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری جملہ عبادات کو قبول فرمائے.آمین