السلام علیکم
پاکستان میں اسے گروی رکھنا کہتے ہیں اپنی کسی بھی ضرورت کے لئے کسی سے رقم لینا اور اسے ذمانت کے طور پر تہہ شدہ مدت کے لئے اپنی کوئی چیز دینا، مقرر کی مدت سے پہلے رقم واپس لوٹائی جاتی ھے تاخیر پر بھی کاغذات میں لکھا جاتا ھے کہ اس پر اتنا جرمانہ یا جو چیز و مکان گروی رکھوایا ھے وہ اس کی ملکیت ہو جائے گا۔
یہ والا سودا تو وہی کرتا ھے جسے رقم کی ضرورت ھے، 2 لاکھ ایک سال کے لئے مجھے دے دو اور میری فلاں چیز یا گھر گروی رکھ لو، ایک سال بعد میں اپنی وہ چیز یا گھر چھڑوانے کے لئے تمہیں یہ دو لاکھ واپس کر دوں گا۔
2 لاکھ لینے والے کو اگر فائدہ حاصل ہوا تو درست ورنہ ڈوبنے کی صورت میں مکان ہاتھ سے گیا۔ اور مکان لینے والا اس میں خود رہے یا کرایہ پر دے دے۔
محدث کے فتوی کے رو سے یہ جائز ھے اس مکان میں ایک سال تک رقم دینے والا رہ سکتا ھے
گروی اشیاء سے فوائد اٹھانے کی شرعی حیثیت
1۔ گروی شدہ چیز کی آمدنی، اجرت، محصول وغیرہ رہنے رکھوانے والے (راہن) کی ملکیت ہے۔
2۔مرتھن (جس کے پاس چیز رہن رکھی گئی ہے) اس چیز میں تصرف کا مجاز نہیں ہے إلا کہ جو نص سے ثابت ہے یعنی جس طرح حدیث میں آیا ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
"
الظھر یرکب بنفقة إذا کان مرھونا ولبن الدر یشرب بنفقتہ إذا کان مرھونا وعلی الذی یرکب و یشرب النفقة "
(صحیح بخاری کتاب الرھن باب الرھن مرکوب و محلوب)
''
رہن رکھے ہوئے جانور پر مصارف و اخراجات کے بدلے سواری کی جاسکتی ہے او ردودھ دینے والے جانور کا دودھ مصارف کے بدلے پیا جاسکتا ہے جبکہ وہ رہن ہو اور جو آدمی سواری کرتا ہے اور دودھ پیتا ہے اس کے اخراجات کا ذمہ دار بھی وہی ہوگا۔''
والسلام