• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا یزید بن معاویہؓ فوجِ مغفور لہم کا سپہ سالار تھا؟

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
کیا یزید بن معاویہؓ فوجِ مغفور لہم کا سپہ سالار تھا؟

ڈاکٹر ابو جابر عبد اللہ دامانوی​
نوٹ
اس مضمون کو پی ڈی ایف اور یونیکوڈ میں حاصل کرنے کےلیے ماہنامہ محدث لاہور کا شمارہ نمبر334 یعنی جنوری2010 کو ڈاؤنلوڈ کرلیں
دامانوی صاحب کے مضمون پر مولانا عبد الولی حقانی صاحب نے ایک مضمون ’’لشکر ِقسطنطنیہ اور امارت ِیزید کا مسئلہ‘‘لکھا ہے ۔پڑھنے کےلیے یہاں کلک کریں
سانحۂ کربلا اسلامی تاریخ کا اِنتہائی المناک باب ہے، اس سانحہ کے بعد یزید بن معاویہ کو لگاتار برا بھلا کہا جاتا رہا ہے۔ البتہ یزید کے جنتی؍بخشے ہوئے ہونے کے بارے میں نبی کریمﷺ کی اُس بشارت کا تذکرہ کیا جاتاہے جس میں شہر قیصر کی طرف سب سے پہلے حملہ آور لشکر کو مغفور لہم ہونے کی خوش خبری دی گئی ہے۔ائمہؒ اسلاف میں سے امام ابن تیمیہ، حافظ ابن حجر، علامہ قسطلانی اور حافظ ابن کثیررحمہم اللہ وغیرہ نے یزید بن معاویہ کو اس پہلے لشکر کا سالار قرار دیا ہے جس نے تاریخ اسلامی میں سب سے پہلے شہر قیصر (قسطنطنیہ) پر حملہ کیا تھا۔ زیر نظر مضمون میں ان ائمہؒ اسلاف کے موقف کے برعکس بعض احادیث اور تاریخی واقعات سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ یزید بن معاویہؓ کے زیر قیادت قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والا یہ لشکر پہلا نہیں، بلکہ آخری ؍چھٹا تھا اور اس سے قبل سیدنا معاویہؓ بن ابو سفیان، عبدالرحمن بن خالدؓبن ولید اور سفیان بن عوف کی زیر قیادت قسطنطنیہ پر حملے ہوچکے تھے؛ اس بنا پر یزید بن معاویہ نبی کریمﷺ کی اس بشارت کا مستحق نہیں ٹھہرتا۔ ایک اہم نکتے پر تاریخی بحث ہونے کے ناطے اسے ’محدث‘ میں اس بنا پر شائع کیا جارہا ہے کہ یہ اس نکتہ پر جامع ومبسوط بحث ہے۔ البتہ ا س سے دلائل کی بنا پر اتفاق واختلاف کی گنجائش بلاشبہ باقی ہے جس کے لئے ’محدث‘ کے صفحات حاضر ہیں۔یہاں یہ بنیادی سوال بھی باقی ہے کہ حدیث ِنبویؐ میں وارد ’مدینہ قیصر‘ کا مصداق کیا لازماً قسطنطنیہ ہی ہے جبکہ اس دورِ میں قیصرکا پایۂ تخت حمص تھا۔ اس موضوع پر ’محدث‘ میں ۱۰ برس قبل دو مضامین بھی شائع ہوچکے ہیں جن میں اپریل ۱۹۹۹ء میں مولانا عبد الرحمن عزیز کا مضمون ’سانحۂ کربلا اور غزوئہ قسطنطنیہ کی اِمارت کا مسئلہ‘ اور ا س کے تعاقب میں مولانا ارشاد الحق اثری حفظہم اللہ کا مضمون ’سانحہ کربلا میں اِفراط وتفریط: بعض تسامحات‘ شمارہ اگست ۱۹۹۹ء کو ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ (ح م)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
جہادِ قسطنطنیہ کے پہلے سپہ سالار کون تھے؟
صحیح بخاری میں رسول اللہﷺکی دو بشارتوں کا ذکر ہے جوآپؐ نے دو جہادی لشکروں کے متعلق بیان فرمائی ہیں جن میں سے ایک سمندر میں جہاد کرنے والوں کے متعلق ہے اور دوسری بشارت قسطنطنیہ پر سب سے پہلا حملہ کرنے والوں کے متعلق ہے۔ چنانچہ پہلے اس حدیث کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:
’’ أوّل جیش من أمتي یغزون مدينةَ یصر مغفور لھم‘‘ (صحیح بخاری،کتاب الجہاد باب ۹۳، ماقیل فی قتال الروم، ح:۲۹۲۴)
’’میری اُمت کا وہ پہلا لشکر جو قیصر کے شہر پر حملہ کرے گا، اس کے لیے پروانۂ مغفرت ہے۔‘‘
منکرینِ حدیث میں سے محمود احمد عباسی اور اس کے ہم نوا ناصبی حضرات نے اس حدیث کا مصداق یزید بن معاویہ کو قرار دیا ہے۔اور اس حدیث کو یزید کے پاکباز ہونے کے بارے میں قوی دلیل کے طورپر پیش کیا جاتا ہے، جبکہ یزید بن معاویہؓ کے دورِ خلافت میں تین عظیم واقعات رونما ہوئے اور یہ ایسے واقعات ہیں کہ جس نے یزید کی سیرت و کردار کو مسخ کرکے رکھ دیا ہے :
1۔سیّدناحسینؓ بن علیؓ اور ان کے ساتھیوں واہل بیت کاقتل عام
2۔واقعہ حرہ جس میں مدینہ پر چڑھائی کی گئی اور مدینہ کو تاخت وتاراج کیا گیا اور مدینۃ الرسول 1 کی حرمت کو پامال کیا گیا۔
3۔خانہ کعبہ پر حملہ کیا گیا جس سے خانہ کعبہ کی بنیادیں ہل گئیں اور اُسے آگ لگ گئی۔
ناصبی حضرات نے یزید بن معاویہ کو اِن تینوں واقعات سے بری الذمہ قرار دینے کے لیے ان کے جنتی ہونے کا عقیدہ پاک و ہند میں پھیلایا اور اس بات کو ’ایک نئی تحقیق‘ کا نام دیتے ہوئے تحقیقی انداز میں پیش کیا گیا، جس کی وجہ سے بہت سے محققین بھی اس سے متاثر ہوئے اور اُنہوں نے بھی اسے ایک انمول تحقیق سمجھ کر اس کی خوب تشہیر کی۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اہل حدیث جماعت جن میں محققین کی کافی تعداد موجو دہے لیکن ان میں سے بعض لوگ بھی تحقیق کے نام سے گمراہ ہوئے اور اُنہوں نے بھی اس نئی تحقیق کی تائید کی جس سے یہ غلط نظریہ لوگوں میں عام ہوگیا کہ قسطنطنیہ پر پہلا حملہ کرنے کی بنا پر یزید بن معاویہ جنتی ہے۔
جبکہ یزید بن معاویہؓ کے دور میں سیدنا حسینؓ اور آپ کے اصحاب کے قتل کے علاوہ مدینہ منورہ کو جس طرح تاخت وتاراج کیا گیا اور اہل مدینہ کا جس طرح خون بہاکر مدینۃ الرسولﷺ کی حرمت کو پامال کیا گیا، اس کی مثال پوری اسلامی تاریخ میں نہیں ملتی اور نہ ہی اس طرح کا کوئی واقعہ اہل مدینہ کے ساتھ کبھی پیش آیا۔ بلکہ اہل مدینہ کوخوف زدہ کرنے اور ڈرانے والوں کے متعلق احادیث میں جس قدر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، ان سے حدیث کا ہر طالب ِعلم بخوبی واقف ہے۔
کجا یہ کہ جس نے اُن کا قتل عام کیا، اس کی سزا تو بہت ہی سخت ہے۔ لہٰذا مکہ، مدینہ اور کربلا کے مقتولین کا خون یزید کے سر ہے جس کا حساب اور بازپرس اس سے ہونی ہے۔ یزید بن معاویہؓ کوبغیر کسی دلیل کے جنتی قرار دینے والے ان حقائق کو بھی نگاہ میں رکھیں تاکہ اصل حقیقت تک رسائی پانے میں اُنہیں آسانی ہو۔
اب ہم اس یزید کے مغفور لہم میں سے ہونے کے دعویٰ کی طرف آتے ہیں۔ ماضی کے بعض مؤرخین نے بھی ’اوّل جیش‘ کا ذکر کرتے ہوئے اس کا مصداق یزید بن معاویہ کو قرار دیا لیکن اس کی کوئی دلیل اُنہوں نے بیان نہیں کی حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ
’’ہر شخص کی بات دلیل کے ساتھ قبول اور دلیل کی بنا پر ہی ردّ کی جاسکتی ہے۔‘‘
لہٰذا اس سلسلہ میں ضرورت محسوس کی گئی کہ اس بات کی تحقیق کی جائے اور جہاں لوگوں کو اس سلسلہ میں غلطی لگی ہے، اسے بھی واضح کردیا جائے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اس سلسلہ میں سب سے پہلی غلطی جس عبارت سے بعض محققین کو بھی لگی ہے ، وہ صحیح بخاری کے یہ الفاظ ہیں:
قال محمود بن الربیع: فحدثتھا قومًا فیھم أبو أیوب صاحب رسول اﷲ ﷺ في غزوتہ التي تُوفّي فیھا ویزید بن معاوية علیہم بأرض الروم… ) (صحیح بخاری: کتاب التہجد، باب۳۶، صلاۃ النوافل جماعة،ح:۱۱۸۶)
’’سیدنا محمو دبن الربیعؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے (نفل کی جماعت کی) یہ حدیث ایک ایسی قوم کے سامنے بیان کی کہ جن میںرسول ﷺ کے صحابی اور میزبانِ رسول اللہﷺ سیدنا ابوایوب انصاریؓ بھی تھے اور اُنہوں نے اسی غزوہ میں وفات پائی اور یزید بن معاویہ اس لشکر پر سالار تھے۔‘‘
اس روایت سے معلوم ہوا کہ غزوئہ روم جس کے سپہ سالار یزیدبن معاویہؓ تھے، اسی غزوہ میں ابوایوب انصاریؓ بھی موجود تھے اور جنہوں نے اسی غزوہ کے دوران وفات بھی پائی۔
یہاں یہ واضح رہنا چاہیے کہ ابوایوب انصاریؓ جہادِ قسطنطنیہ میں شروع سے آخر تک شامل تھے اور معاویہ کے دورِ خلافت میں قسطنطنیہ پر یہ آخری غزوہ تھا کہ جس میں سیدنا ابو ایوب انصاریؓ وفات تک شریک رہے اور اس فوج کے سپہ سالار یزید بن معاویہؓ تھے اور قسطنطنیہ پر حملوں کاآغاز حضرت معاویہؓ نے ہی کیا تھا جیسا کہ آگے تفصیل سے بیان ہوگا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اس مضمون کا مطالعہ کرنے والے حضرات سے درخواست ہے کہ وہ تنقیدی نظر سے اس مضمون کا جائزہ لیں اور اس مضمون کے سلسلے میں جو مثبت یا منفی دلائل ان کے پاس موجود ہوں اُن سے راقم الحروف کو ضرور بہ ضرور آگاہ کریں۔ لیکن واضح رہے کہ وہ جوکچھ نقل کریں، وہ کسی شخص کی محض رائے نہ ہو یا تاریخ کی کوئی بے سند روایت نہ ہو بلکہ وہ جوکچھ بھی نقل کریں وہ تحقیقی مواد ہونا چاہئے اور جو روایت بھی وہ نقل کریں وہ باسند اور صحیح ہو۔جو محدثین کے اُصول کے مطابق صحیح یا حسن درجہ کو پہنچی ہوئی ہو کیونکہ بے سند روایت کا وجود اور عدم برابر ہے اور وہ شریعت میں کسی دلیل کی حیثیت نہیںرکھتی۔ اگر کوئی اہل علم اس سلسلہ میں ان اُصولوں کو مدنظر رکھ کر میری راہنمائی کریں تو اس کی کوشش اور جدوجہد کو ان شاء اللہ تعالیٰ قدروقیمت اورعزت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ اور یہی قرآنِ مجید کا پیش کردہ اُصول ہے:
’’ ھَاتُوْا بُرْھَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ‘‘ (البقرۃ:۱۱۱)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سب سے پہلا سمندری لشکر
صحیح بخاری کی ایک روایت میں اس حدیث کے الفاظ یوں ہیں:
’’سیدنا انس بن مالک ؒ سے مروی ہے ، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سیدہ اُمّ حرام بنت ِملحانؓ کے گھر تشریف لے گئے (جو سیدنا انسؓ کی خالہ تھیں) اور ان کے ہاں تکیہ لگا کر سو گئے، پھر ہنستے ہوئے جاگے۔اُمّ حرامؓ نے پوچھا’’اے اللہ کے رسولؐ! آپ کیوں ہنسے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: میری اُمت کے کچھ لوگ سبز سمندر میں جہادفی سبیل اللہ کے لیے سوار بالکل اسی طرح ہیں جیسے بادشاہ تخت پربیٹھے ہیں۔اُمّ حرامؓ نے عرض کیا:اے اللہ کے رسولؐ! دُعا فرمائیں کہ اللہ مجھے ان لوگوں میں شامل کردے، آپؐ نے دعا فرمائی کہ اے اللہ! اسے اُن لوگوں میں شامل فرما دے اور آپؐ دوبارہ سوگئے اور پھر ہنستے ہوئے جاگے۔اُمّ حرامؓ نے پہلے کی طرح پوچھا کہ آپ کیوں ہنس رہے ہیں۔ آپؐ نے پہلے کی طرح جواب دیا: کہ مجھے میری امت کے کچھ لوگ جہاد فی سبیل اللہ کرتے ہوئے دکھائے گئے ہیں۔ اُمّ حرامؓ نے عرض کیا کہ آپؐ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان لوگوں میں شامل کردے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ تو پہلے لشکر میں شامل ہے اور بعد والوں میں شامل نہیں ہے۔
سیدنا انسؓ بیان کرتے ہیں کہ اُمّ حرامؓ نے سیدنا عبادہ بن صامتؓ کے ساتھ نکاح کیا پس وہ سیدنا معاویہؓ بن ابو سفیانؓ کے زمانے میں (جبکہ وہ سیدنا عثمانؓ کے دورِ خلافت میں شام کے گورنر تھے۔ اپنے خاوند سیدنا عبادۃ بن الصامتؓ کے ساتھ) اور فاختہ بنت ِقرظہ کے ساتھ (جو سیدنا معاویہ کی بیوی تھیں) سمندر میں سوار ہوئیں اور جب وہ اس جہاد سے واپس آرہی تھی تو جانور پر سوار ہوئیں تو جانور نے ان کو گرا دیا (اور ان کی گردن کی ہڈی ٹوٹ گئی) اور وہ وفات پاکر شہادت کے مقام پر فائز ہوگئیں۔‘‘
(صحیح البخاري: کتاب الجہاد: باب۱) الدعاء بالجہاد للرجال والنسائ، باب۲) فضل من یصرع في سبیل اﷲ فمات فھو منھم، باب۳) غزوۃ المراۃ في البحر، باب۴) رکوب البر؛ وکتاب التعبیر، باب۵) رؤیا النھار وکتاب الاستیذان، باب۶) من زار قومًا وصحیح مسلم: کتاب الإمارۃ: باب فضل الغزو في البحر وسنن أبو داود: کتاب الجہاد، وسنن الترمذي وغیرہ)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
صحیح بخاری کی دوسری روایت میں سیدنا عمیر بن اسود عنسیؒ بیان کرتے ہیں کہ
’’وہ سیدنا عبادہ بن صامتؓ کے پاس اس وقت گئے جب وہ حمص کی بندرگاہ میں ایک مکان میں اُترے ہوئے تھے اور ان کے ساتھ اُن کی بیوی اُمّ حرامؓ تھیں۔ عمیرؓ نے کہا کہ ہم سے اُمّ حرامؓ نے حدیث بیان کی کہ اُنہوں نے نبیﷺ سے سنا، آپ ؐ فرماتے تھے:
’’ أوّل جیش من اُمتي یغزون البحر قد أوجبوا‘‘
’’میری اُمت کا وہ پہلا لشکر جو سمندر میں جہاد کرے گا، ان کے لیے (جنت) واجب ہوگئی۔‘‘
اُمّ حرامؓ نے عرض کیا:اے اللہ کے رسولﷺ میں بھی اس لشکر میں شریک ہوں گی۔ آپؐ نے فرمایا: تو اس میں ہوگی۔ پھر آپؐ نے فرمایا:
’’ أوّل جیش من اُمتي یغزون مدينة قیصر مغفور لھم‘‘ ’’میری اُمت کا وہ پہلا لشکر کہ جو قیصر کے شہر (قسطنطنیہ) پر حملہ کرے گا، اس کے لیے پروانۂ مغفرت ہے۔‘‘
میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ کیا میں بھی اس میں شامل ہوں گی۔ آپؐ نے فرمایا:نہیں۔‘‘(صحیح بخاری، کتاب الجہاد: باب ما قیل فی قتال الروم،ح:۲۹۲۴)
اس حدیث کو امام بخاریؒ کے علاوہ امام حسن بن سفیان نے اپنی مسند میں، امام ابونعیم اصفہانی نے حلیۃ الأولیاء میں اور امام طبرانی نے مسند الشامیین میں روایت کیا ہے۔(ملاحظہ فرمائیں : سلسلۃ الأحادیث الصحيحة: ج۱؍ ص۷۶، رقم ۲۶۸)
اس حدیث میں دو لشکروں کے متعلق نبیﷺ نے خبر دی ہے کہ جو دو مختلف مقامات پر حملہ آور ہوں گے۔ پہلا لشکر سمندری جہاد کرے گا اور ان کے لیے جنت کے واجب ہونے کی بشارت دی گئی ہے اور صحیح بخاری کی روایت کے مطابق مسلمانوں نے سب سے پہلے سیدنا معاویہؓ کی سرکردگی میںبحری جہاد کیا اور اسی جہادمیں اُمّ حرامؓ شہید ہوئیں۔
حافظ ابن کثیرؒ ۲۸ھ کے واقعات کے ضمن میں قبرص کی فتح کی ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’قبرص کو سیدنا معاویہؓ بن ابی سفیان نے فتح کیا۔ وہ مسلمانوں کی بہت بڑی فوج کے ساتھ قبرص کی طرف گئے اور اُن کے ساتھ عبادہ بن صامتؓ اور ان کی بیوی اُمّ حرامؓ بنت ِملحانؓ بھی تھیں۔‘‘
پھر حدیث ِاُمّ حرامؓ بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
’’سیدہ اُمّ حرامؓ اس غزوہ میں شامل تھیں اور وہیں ان کی وفات ہوئی ۔ حاصلِ کلام یہ ہے کہ سیدنا معاویہ سمندر میں کشتیوں پر سوار ہوکر جزیرہ میں گئے جو قبرص کے نام سے مشہور ہے اور ان کے ساتھ مسلمانوں کی ایک عظیم فوج تھی۔ اُنہوں نے اس حملہ کے متعلق سیدنا عثمانؓ سے اجازت چاہی تھی تو عثمانؓ نے ان کو اجازت دے دی۔ سیدنا معاویہؓ نے اس حملہ کے متعلق سیدنا عمرؓ سے بھی اجازت چاہی تھی لیکن انہوں نے اس عظیم مخلوق (جہازوں) پر مسلمانوں کو سوار کرانے سے انکار کردیا تھا کہ اگر وہ حرکت کرے تو سب کے سب ہلاک ہوجائیں گے۔ مگر جب سیدنا عثمانؓ کا زمانہ آیا تو معاویہؓ نے اس بارے میں اصرار کیا تو عثمانؓ نے ان کو اجازت دے دی۔‘‘(البداية والنھاية:ج۷؍ص۱۵۳)
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے بھی اس حدیث پر اس طرح کی تفصیل ذکر فرمائی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: فتح الباري: ج۱۱؍ ص۷۵،۷۶ نیز تہذیب التہذیب: ج۱۲؍ ص۴۶۲
اس وضاحت سے معلوم ہواکہ جس سمندری غزوہ کی خبر نبیﷺ نے دی تھی، وہ بعد میں غزوئہ قبرص کی شکل میں سامنے آیا اور سیدنا عثمان کے دورِ خلافت میں سیدنا معاویہؓ کے ہاتھوں یہ جزیرہ فتح ہوا اور اسی غزوہ کے دوران اُمّ حرامؓ شہید ہوئیں اور اس غزوہ کے سپہ سالار کے متعلق صحیح بخاری میں وضاحت ہے کہ وہ سیدنا معاویہؓ تھے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
أوّل جیش کے متعلق علماے کرام کے اَقوال
اس حدیث میں جس دوسرے لشکر کے متعلق خوشخبری دی گئی ہے تو یہ لشکر وہ تھا کہ جس نے قسطنطنیہ پر پہلا حملہ کیا تھا۔ بعض مؤرخین نے قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والوں میں یزید بن معاویہؓ کا بھی ذکر کیا اور بعض نے اُنہیں پہلے لشکر میں شامل سمجھا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اس آخری لشکرمیں شامل ہوا تھا کہ جس میں سیدنا ابوایوب انصاریؓ نے وفات پائی تھی جس کو وضاحت صحیح بخاری کے حوالہ سے گزرچکی ہے اور جس کی مزید وضاحت آگے آئے گی۔یزید کے قسطنطنیہ والے لشکر میں شرکت کے متعلق علماے کرام کی تصریحات ملاحظہ فرمائیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ لکھتے ہیں کہ
’’مہلبؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں معاویہؓ کی منقبت بیان ہوئی ہے، اس لیے کہ اُنہوں نے سب سے پہلے سمندری جہاد کیا اور ان کے بیٹے یزید کی بھی منقبت بیان ہوئی ہے کیونکہ اُس نے سب سے پہلے قیصر کے شہر میں جہاد کیا۔‘‘(فتح الباری:۶؍۱۰۲)
مہلب بن احمد بن ابی صفرۃ اندلسی کی وفات ۴۳۵ھ میں ہوئی۔ (سیراعلام النبلائ:۱۳؍۳۷۷) اور مذکورہ غزوہ ۵۲ھ میں ہوا تھا۔ یاد رہے کہ مہلب نے اپنے دعویٰ پر کوئی دلیل بیان نہیں کی ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حافظ ابن کثیر بیان کرتے ہیں:
’’اور یزید پہلاشخص ہے جس نے یعقوب بن سفیان کے قول کے مطابق ۴۹ھ میں قسطنطنیہ کی جنگ کی اور خلیفہ بن خیاط نے ۵۰ ھ بیان کیاہے۔ پھراس نے سرزمین روم سے اس غزوہ سے واپس آنے کے بعداس سال لوگوں کو حج کروایااور حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشادفرمایا:
’’اُمت کا وہ پہلا لشکر جو قیصر کے شہر پر حملہ کرے گا، وہ مغفور ہے۔‘‘
اور وہ دوسری فوج تھی جسے رسول اللہﷺ نے اُمّ حرامؓ کے پاس اپنے خواب میں دیکھا تھا اور اُمّ حرامؓ نے کہا: اللہ سے دُعا کریں کہ وہ مجھے ان میں شامل کردے۔آپؐ نے فرمایا تو اوّلین میں سے ہے یعنی سیدنا معاویہؓ کی فوج میں شامل ہوگی جب وہ قبرص میں جنگ کریں گے پس سیدنا معاویہؓ نے سیدنا عثمانؓ کے دورِ حکومت میں ۲۷ھ میں قبرص کو فتح کیااور اُمّ حرامؓ بھی ان کے ساتھ تھیں۔ اُنہوں نے وہیں قبرص میں وفات پائی پھر دوسری فوج کا امیر ان کا بیٹا یزید بن معاویہ تھا اور اُمّ حرامؓ نے یزید کی اس فوج کونہیں پایا اور یہ دلائل نبوت میں سے ایک انتہائی بڑی دلیل ہے۔‘‘
(البداية والنھاية: ج۸؍ ص۲۲۹)
 
Top