السلام علیکم و رحمة اللہ وبرکاته
کیا یہ احادیث صحیح ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
پہلی روایت جو شراب نوش کے بارے میں ہے ، اسے امام طبرانیؒ نے المعجم الاوسط میں نقل فرمایا ہے :
مکمل حدیث درج ذیل ہے ؛
عن سالم بن عبد الله بن عمر، عن أبيه، أن أبا بكر الصديق، وعمر بن الخطاب، وناسا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، جلسوا بعد وفاة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكروا أعظم الكبائر، فلم يكن عندهم فيها علم، فأرسلوني إلى عبد الله بن عمرو بن العاص أسأله عن ذلك، فأخبرني أن أعظم الكبائر شرب الخمر، فأتيتهم فأخبرتهم، فأنكروا ذلك ووثبوا إليه جميعا. فأخبرهم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إن ملكا من بني إسرائيل أخذ رجلا فخيره بين أن يشرب الخمر، أو يقتل صبيا، أو يزني، أو يأكل لحم الخنزير، أو يقتلوه إن أبى. فاختار أنه يشرب الخمر، وأنه لما شرب، لم يمتنع من شيء أرادوه منه» . وأن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لنا حينئذ: «ما من أحد يشربها فتقبل له صلاة أربعين ليلة، ولا يموت وفي مثانته منها شيء إلا حرمت عليه الجنة، وإن مات في الأربعين مات ميتة جاهلية»
سیدنا عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ :
رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد ایک دن سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر کچھ صحابہ ایک جگہ تشریف فرما تھے ، اور موضوع گفتگو تھا کہ سب سے بڑا گناہ کون ساہے ؟
لیکن ان میں کسی کے پاس اس پر (حدیث نبوی کا ) علم نہیں تھا ، تو انہوں نے مجھے جناب عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس اس مسئلہ کے متعلق پوچھنے بھیجا ،
تو (میرے پوچھنے پر ) جناب عبداللہ بن عمرو نے بتایا کہ سب سے بڑا گناہ شراب نوشی ہے ،
واپس آکر میں نے ان حضرات کو یہ بتایا ، تو سب نے یہ بات تسلیم نہیں ، اور اٹھ کر خود سب لوگ
جناب عبداللہ بن عمرو کے پاس پہنچے ، تو جناب عبداللہ بن عمرو رضی اللہ نے انہیں بتایا کہ جناب نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ :
بنی اسرائیل کے ایک بادشاہ نے ایک بندہ کو گرفتار کیا ، اور اسے (جاں بخشی کیلئے) چار میں سے ایک کام کرنے کا کہا ،نمبر ایک شراب پیو ،نمبر دو یا ایک بچہ قتل کرکے دکھاؤ ، یا زنا کرو ، یا خنزیر کا گوشت کھاؤ ، نہیں تو اسے قتل کردیا جائے ،
تو اس گرفتار شخص نے شراب پینے کو اختیار کیا ، اور جب شراب پی تو اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا اور وہ سارے کام کر گزرا جن کے کرنے کا اس سے مطالبہ تھا ،
یہ واقعہ بتا کر نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جو بھی شراب پیئے گا اسکی چالیس دن نماز قبول نہ ہوگی ،
اور جو بھی شراب پی کر مرگیا اور اسکے مثانے میں شراب پائی گئی اس پر جنت حرام ہے
اور جو شرابی ( توبہ کیئے بغیر ) مرگیا تو اگر شراب نوشی کے چالیس روز کے اندر فوت ہوا تو جاہلیت کی موت مرے گا
(واللہ اعلم )
اس حدیث کو علامہ البانی سلسلہ صحیحہ میں نقل کرکے لکھتے ہیں :
وقال الحاكم - والزيادة له " صحيح على شرط مسلم "! كذا قال وفيه ما يأتي، وقال المنذري (3 / 184) : " رواه الطبراني بإسناد صحيح والحاكم، وقال: صحيح على شرط مسلم ".
قلت: كلا، بل هو صحيح فقط، فإن داود بن صالح ليس من رجال مسلم مطلقا، ولذا قالالهيثمي (5 / 68) : " رواه الطبراني في " الأوسط "، ورجاله رجال " الصحيح "
یعنی اس حدیث کو چار ائمہ حدیث نے صحیح کہا ہے :
امام المنذریؒ۔ امام حاکمؒ ، علامہ الھیثمیؒ ، اور البانیؒ۔۔ رحمہم اللہ اجمعین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔