• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا یہ حدیث صحیع ہے

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
میرے خیال میں آپ درج ذیل حدیث کے متعلق پوچھ رہے ہیں ::
فإذا هو حذيفة، فسمعته يقول: كان أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يسألونه عن الخير وأسأله عن الشر، فقلت: يا رسول الله، هل بعد هذا الخير شر كما كان قبله شر؟ قال: " نعم "، قلت: فما العصمة منه؟ قال: " السيف " ـ أحسب أبو التياح يقول: السيف، أحسب ـ قال: قلت: ثم ماذا؟ قال:
" ثم تكون هدنة على دخن "، قال: قلت: ثم ماذا؟ قال: " ثم تكون دعاة الضلالة، فإن رأيت يومئذ خليفة الله في الأرض فالزمه، وإن نهك جسمك وأخذ مالك، فإن لم تره فاهرب في الأرض، ولو أن تموت وأنت عاض بجذل شجرة "، قال: قلت: ثم ماذا؟ قال: " ثم يخرج الدجال "، قال: قلت: فبم يجيء به معه؟ قال: " بنهر ـ أو قال: ماء ـ ونار، فمن دخل نهره حط أجره، ووجب وزره، ومن دخل ناره وجب أجره وحط وزره "، قال: قلت: ثم ماذا؟ قال: " لو أنتجت فرسا لم تركب، فلوها حتى تقوم الساعة "، )
اسنادہ حسن
مسند أحمد ۴۲۸۰۰

اور یہی روایت سنن ابی داود میں ان الفاظ سے موجود ہے :

حدیث نمبر: 4244
حدثنا مسدد حدثنا ابو عوانة عن قتادة عن نصر بن عاصم عن سبيع بن خالد قال:‏‏‏‏ اتيت الكوفة في زمن فتحت تستر اجلب منها بغالا فدخلت المسجد فإذا صدع من الرجال وإذا رجل جالس تعرف إذا رايته انه من رجال اهل الحجاز قال:‏‏‏‏ قلت:‏‏‏‏ من هذا؟ فتجهمني القوم وقالوا:‏‏‏‏ اما تعرف هذا؟ هذا حذيفة بن اليمان صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال حذيفة:‏‏‏‏ إن الناس كانوا يسالون رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الخير وكنت اساله عن الشر فاحدقه القوم بابصارهم فقال:‏‏‏‏ إني قد ارى الذي تنكرون إني قلت:‏‏‏‏ يا رسول الله ارايت هذا الخير الذي اعطانا الله ايكون بعده شر كما كان قبله؟ قال:‏‏‏‏ نعم قلت:‏‏‏‏ فما العصمة من ذلك؟ قال:‏‏‏‏ السيف قلت:‏‏‏‏ يا رسول الله ثم ماذا يكون قال:‏‏‏‏ إن كان لله خليفة في الارض فضرب ظهرك واخذ مالك فاطعه وإلا فمت وانت عاض بجذل شجرة قلت:‏‏‏‏ ثم ماذا؟ قال:‏‏‏‏ ثم يخرج الدجال معه نهر ونار فمن وقع في ناره وجب اجره وحط وزره ومن وقع في نهره وجب وزره وحط اجره قال:‏‏‏‏ قلت:‏‏‏‏ ثم ماذا؟ قال:‏‏‏‏ ثم هي قيام الساعة ".

سبیع بن خالد کہتے ہیں کہ تستر فتح کئے جانے کے وقت میں کوفہ آیا، وہاں سے میں خچر لا رہا تھا، میں مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا کہ چند درمیانہ قد و قامت کے لوگ ہیں، اور ایک اور شخص بیٹھا ہے جسے دیکھ کر ہی تم پہچان لیتے کہ یہ اہل حجاز میں کا ہے، میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ تو لوگ میرے ساتھ ترش روئی سے پیش آئے، اور کہنے لگے: کیا تم انہیں نہیں جانتے؟ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ ہیں، پھر حذیفہ نے کہا: لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے متعلق پوچھتے تھے، اور میں آپ سے شر کے بارے میں پوچھا کرتا تھا، تو لوگ انہیں غور سے دیکھنے لگے، انہوں نے کہا: جس پر تمہیں تعجب ہو رہا ہے وہ میں سمجھ رہا ہوں، پھر وہ کہنے لگے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے بتائیے کہ اس خیر کے بعد جسے اللہ نے ہمیں عطا کیا ہے کیا شر بھی ہو گا جیسے پہلے تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“ میں نے عرض کیا: پھر اس سے بچاؤ کی کیا صورت ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تلوار“ ۱؎ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! پھر اس کے بعد کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اللہ کی طرف سے کوئی خلیفہ (حاکم) زمین پر ہو پھر وہ تمہاری پیٹھ پر کوڑے لگائے، اور تمہارا مال لوٹ لے جب بھی تم اس کی اطاعت کرو ورنہ تم درخت کی جڑ چبا چبا کر مر جاؤ ۲؎“ میں نے عرض کیا: پھر کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر دجال ظاہر ہو گا، اس کے ساتھ نہر بھی ہو گی اور آگ بھی جو اس کی آگ میں داخل ہو گیا تو اس کا اجر ثابت ہو گیا، اور اس کے گناہ معاف ہو گئے، اور جو اس کی (اطاعت کر کے) نہر میں داخل ہو گیا تو اس کا گناہ واجب ہو گیا، اور اس کا اجر ختم ہو گیا“ میں نے عرض کیا: پھر کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر قیامت قائم ہو گی“۔
قال الشيخ الألباني: حسن
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۳۳۳۲)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/المناقب ۲۵ (۳۶۰۶)، صحیح مسلم/الإمارة ۱۳ (۱۸۴۷)، سنن ابن ماجہ/الفتن ۱۳ (۲۹۸۱)، مسند احمد (۵/۳۸۶، ۴۰۳، ۴۰۴، ۴۰۶) (حسن)

وضاحت: ۱؎ : یعنی ایسے فتنہ پردازوں کو قتل کر دینا ہی اس کا علاج ہو گا۔ ۲؎ : یعنی ایسے بے دینوں کی صحبت چھوڑ کر جنگل میں رہنا منظور کر لو اور فقر وفاقہ میں زندگی گزار کر اس دنیا سے رخصت ہو جاؤ۔
 
Top