• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

گدے ، تلائی ، قالین وغیرہ پر نماز پڑھنے کا حکم

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
کیا ہلکے گدے یا تلائی پر نماز پڑھی جا سکتی ہے؟
گدے یا قالین پر نماز پڑھنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ٓج کل بعض مساجد میں روئی بھرے گدے یا موٹے قالین بچھے ہوتے ہیں، کیا ان پر سجدہ کرنا اور نماز پڑھنا جائز ہے؟ (ایک سائل از سیالکوٹ)
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

روئی کے گدے پر نماز پڑھنی افضل نہیں، تاہم بدووجہ جائز ہے: اول یہ کہ خود رسول اللہﷺ سے روئی کیک چٹائیوں، بستروں اور کھجوروں کے پتوں کی صفوں پر نماز پڑھنا ثابت ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری باب الصلوٰۃ علی الحصیر، باب الصلوٰۃ علی الخمرۃ اور باب الصلوۃ علی الفراش (ص۵۵ج۱) سے ثابت ہے۔ چننچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ جَدَّتَهُ مُلَيْكَةَ دَعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِطَعَامٍ صَنَعَتْهُ لَهُ، فَأَكَلَ مِنْهُ، ثُمَّ قَالَ: «قُومُوا فَلِأُصَلِّ لَكُمْ» قَالَ أَنَسٌ: فَقُمْتُ إِلَى حَصِيرٍ لَنَا، قَدِ اسْوَدَّ مِنْ طُولِ مَا لُبِسَ، فَنَضَحْتُهُ بِمَاءٍ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَصَفَفْتُ وَاليَتِيمَ وَرَاءَهُ، وَالعَجُوزُ مِنْ وَرَائِنَا، فَصَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ انْصَرَفَ۔ (صحیح مسلم: باب جواز الجماعة فی النافلة والصلوة علی حصیر وخمرة ص۲۳۴ج۱۔صحیح بخاری:ص۵۵ج۱)

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میری نانی ملیکہ نے نبیﷺ کو کھانے کی دعوت پر بلایا۔ آپ جب کھانا تناول فرما چکے تو فرمایا چلو میں تم کو نفل نماز پڑھا دوں۔ ہماری چٹائی کثرت استعمال کی وجہ سے میلی ہوچکی تھی، میں نے اسے پانی کے چھینٹے لگا دیے۔ آپ اس پر کھڑے ہو گئے، میں اور یتیم (ضمیرہ بن ابی ضمیرہ) آپﷺ کے پیچھے کھڑے ہو گئے اور بڑی بی (ملیکہ رضی اللہ عنہا) ہمارے پیچھے کھڑی ہو گئیں اور یوں آپ نے ہم کو دو رکعت نماز پڑھائی۔‘‘
امام نووی ؒ اس حدیث سے مسائل کی تخریج کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فِيهِ جَوَازُ الصَّلَاةِ عَلَى الْحَصِيرِ وَسَائِرِ مَا تُنْبِتُهُ الْأَرْضُ وَهَذَا مُجْمَعٌ عَلَيْهِ وَمَا رُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ مِنْ خِلَافِ هَذَا مَحْمُولٌ عَلَى اسْتِحْبَابِ التَّوَاضُعِ بِمُبَاشَرَةِ نَفْسِ الْأَرْضِ۔ (نووی: ص۲۳۴ج۱)
’’اس حدیث میں چٹائی پر اور ہر اس چیز پر نماز پڑھنے کا جواز ہے جسے زمین اگاتی ہے اور اس پر علماء کا اجماع بھی ہے اور حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ سے مٹی پر سجدہ کو ضروری قرار دینے کی بات تواضع اور عاجزی پر محمول ہے۔‘‘
شریعت کے ماہرین یہ بات مخفی نہیں کہ ہر چند کہ گدا روئی اور کپڑے کے مجموعہ سے عبارت ے۔ تاہم دونوں اپنی اصلیت کے لحاظ سے زمین ہی کی پیداوارہیں۔ جب زمین سے اگنے والی دوسری تمام چیزوں پر نماز جائز ہے تو پھر گدے پرکیوں نماز جائز نہ ہوگی۔
۲۔ عَن عبداللہ بن شداد عَن میمونة قالت کان النبیﷺ یصلی علی الخمرة۔ (صحیح بخاری: ص۵۵ج۱)

’’ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کھجور کی چٹائی پر نماز پڑھتے تھے۔‘‘
حافظ ابن حجر اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
وَالْخُمْرَةُ بِضَمِّ الْخَاءِ الْمُعْجَمَةِ وَسُكُونِ الْمِيمِ قَالَ الطَّبَرِيُّ هُوَ مُصَلًّى صَغِيرٌ يُعْمَلُ مِنْ سَعَفِ النَّخْلِ سُمِّيَتْ بِذَلِكَ لِسَتْرِهَا الْوَجْهَ وَالْكَفَّيْنِ مِنْ حَرِّ الْأَرْضِ وَبَرْدِهَا فَإِنْ كَانَتْ كَبِيرَةً سُمِّيَتْ حَصِيرًا۔ (تحفة الاحوذی: ص۲۷۲ج۱، فتح الباری: ص۳۲۴ج۱)
’’خمرہ خا پر پیش اور میم ساکن کے سات پڑھی جاتی ہے۔ طبری لکھتے ہیں یہ کھجور کے پتوں سے بنائی جاتی ہے، چونکہ یہ چہرے اور ہتھیلیوں کو زمین کی گرمی اور سردی سے ڈھانپتی اور بچاتی ہے۔ اس لیے اس کو خمرہ (کڑی) کہتے ہیں۔ اگر یہ بڑی ہو تو حصیر کہلاتی ہے۔‘‘
حافظ ابن حجر کی وضاحت سے معلوم ہوا کہ چٹائی پر نماز پڑھنے کی علت زمین کی گرمی اور سردی سے بچاؤ ہے اور مسجدوں میں سردیوں کے موسم میں گرم قالین اور گدے صرف اس لیے بچھائے جاتے ہیں کہ زمین کی سردی سے بچا جائے، لہٰزا ان پر نماز جائز ہے کیونکہ کھجور کی چٹائی اور گدے کی علت غائی ایک ہی ہے۔ کمالا یخفی علی مھرۃ الشریعۃ۔
۲۔ ثانی یہ کہ اگرچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، حضرت ابراہیم نکعی، امام اسود اور ان کے اصحاب، طنافس (روئی دار چٹائیوں جو کہ فلالین اور تولیہ جیسی ہوتی ہیں) پر نماز پڑھنے کو مکروہ جانتے ہیں اور حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ بھی ان کے ہمنوا ہیں جیسے کہ امام نوویؒ کے حوالہ سے اوپر لکھا گیا ہے۔ تاہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے نہ صرف کپڑوں پر سجدہ کرنا ثابت ہے بلکہ ان سے عمامہ پگڑیوں اور ٹوپیوں پر سجدہ کرنا ثابت ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے:
باب السجود علی الثوب وقال الحسن کان القوم یسجدون عَلَی الْعَمَامَةِ وَالْقَلَنسوة وَیَدَاہُ فِی کُمه (ص۵۶ج۱)
کپڑے پر سجدہ کرنے کا بیان اور حسن بصریؒ کہتے ہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پگڑی اور ٹوپی پر سجدہ کر لیتے تھے اور ہاتھ آستین میں ہوتے۔ ازاں بعد امام بخاری یہ حدیث لائے ہیں:
۱۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: «كُنَّا نُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَضَعُ أَحَدُنَا طَرَفَ الثَّوْبِ مِنْ شِدَّة الحَرِّ فِي مَكَانِ السُّجُودِ» (صحیح بخاری: ص۵۶ج۱)

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے تو ہم میں سے ہر آدمی گرمی سے بچنے کے لیے اپنے کپڑے کے دامن پر سجدہ کرتا۔‘‘
حافظ ابن حجر اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
وَفِي الْحَدِيثِ جَوَازُ اسْتِعْمَالِ الثِّيَابِ وَكَذَا غَيْرُهَا فِي الْحَيْلُولَةِ بَيْنَ الْمُصَلِّي وَبَيْنَ الْأَرْضِ لِاتِّقَاءِ حَرِّهَا وَكَذَا بَرْدُهَا وَفِيهِ إِشَارَةٌ إِلَى أَنَّ مُبَاشَرَةَ الْأَرْضِ عِنْد السُّجُود هُوَ الأَصْل لِأَنَّهُ عَلَّقَ بَسْطَ الثَّوْبِ بِعَدَمِ الِاسْتِطَاعَةِ۔ (فتح الباری: ص۴۱۴ج۱، طبع جدید ص۶۵۰ج۱)
’’اس حدیث کے مطابق زمین کی گرمی اور سردی سے بچنے کے لیے کپڑے اور اسی طرح کسی اور چیز پر سجدہ کرنا جائز ہے، تاہم اس حدیث میں یہ بھی اشارہ ہے کہ سجدے کا اصل حکم یہ ہے کہ بلا کسی حائل کے زمین کی دھوڑی پر سجدہ کیا جائے ورنہ جملہ من شدۃ الحر کا کوئی مفاد نہیں رہتا۔
۲۔ وعن أبی الدرداء قال أبالی لوصلیت علی خمس طنافس۔
رواہ البخاری فی تاریخه ورواہ ابن ابی شیبة عنه بلفظ ست طنافس بعضھا فوق بعض۔ (نیل الاوطار: ص۱۴۴ج۲)
’’حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر میں پانچ یا چھ روئیں وار (فلالین اور تولیہ کی قسم کی) چادروں کے تھان پر نماز پڑھ لوں تو میری نماز پھر بھی ادا ہوجائے گی۔
۳۔ وَرَوَی ابن ابی شیبه عَن ابن عباس أَنه صَلّیٰ عَلیٰ طَنْفُسة۔ (نیل الاوطار: ص۱۴۴ج۲)

’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے روئیں دار چادر پر نماز پڑھی تھی۔ اسی طرح حضرت ابو وائل رضی اللہ عنہ، حسن بصریؒ، مرۃ الہمدانیؒ اور قیس بن عبادہ وغیرہ سے مروی ہے۔ (حوالہ مذکور)
امام شوکانی فرماتے ہیں:
وَإِلَى جَوَازِ الصَّلَاةِ عَلَى الطَّنَافِسِ ذَهَبَ جُمْهُورُ الْعُلَمَاءِ وَالْفُقَهَاءُ كَمَا تَقَدَّمَ فِي الصَّلَاةِ عَلَى الْبُسُطِ۔(نیل الاوطار: ص۱۴۴ج۱)
’’جمہور علماء اور فقہاء طنافس (روئی دار چادروں) پر نماز کے جواز کی طرف گئے ہیں۔‘‘
جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث اور حضرت ابوالدرداء، حضرت ابن عباس، حضرت ابو وائل اور حضرت حسن بصریؒ کے فتویٰ کے مطابق کپڑوں، فلالین اور تولیہ کی قبیل کی چادروں اور پھر مرہ ہمدانی اور قیس بن عباد کے مطابق روئی کے نمدوں پر نماز جائز ہے تو روئی کے گدے پر بھی جائز ہوگی۔ کیونکہ روئی دار گدا اپنی علت غائی کے لحاظ سے روئی دار چادروں کے تھان کے حکم میں ہے رضوان اللہ علیہم اجمعین یعنی جس طرح روئیں دار چادروں کا تھان نرم اور آرام دہ ہونے کے ساتھ ساتھ زمین کی سردی سے بچاتا ہے، روئی کا گدا بھی نرم اور آرام دہ ہونے کے ساتھ ساتھ سردی سے بچاتا ہے۔ اور روئی کے نمدے اور گدے کا تو یکجان دو قالب والا معاملہ ہے۔ لہٰذا ان آثار کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ روئی کے گدے پر بھی نماز جائز ہے۔ مگر ہاں جامع ترمذی میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے:
فقال یَا أَفلحُ ترب وَجْھَکَ۔ (تحفة الاحوذی: ص۲۹۷ج۱ باب ما جاء فی کراھية النفح فی الصلوہ۔)
’’نبیﷺ نے فرمایا کہ اے افلح! سجدے میں اپنے چہرے کو مٹی پر رکھو۔‘‘
تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا راوی میمون ابو حمزہ الاعور ہے جسے امام بخاری نے لیس بالقوی، امام احمد بن حنبلؒ نے متروک، امام نسائی نے لیس بثقۃ اور امام دار قطنی نے ضعیف کہا ہے۔ کذا فی المیزان والتقریب، ص۳۵۴ (تحفة الاحوذی: ص۲۹۷جلد۱) اور دوسرا راوی ابو صالح ہے جو متکلم فیہ ہے۔
دوسرا جواب یہ ہے:
قَالَ الْعِرَاقِيُّ: وَالْجَوَابُ عَنْهُ أَنَّهُ لَمْ يَأْمُرْهُ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَى التُّرَابِ وَإِنَّمَا أَرَادَ بِهِ تَمْكِينَ الْجَبْهَةِ مِنْ الْأَرْضِ، وَكَأَنَّهُ رَآهُ يُصَلِّي وَلَا يُمَكِّنُ جَبْهَتَهُ مِنْ الْأَرْضِ فَأَمَرَهُ بِذَلِكَ، لَا أَنَّهُ رَآهُ يُصَلِّي عَلَى شَيْءٍ يَسْتُرُهُ مِنْ الْأَرْضِ فَأَمَرَهُ بِنَزْعِهِ۔ (نیل الاوطار: ص۱۴۴ج۲)
’’اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ نبیﷺ نے اس کو مٹی پر سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا بلکہ آپ کا مطلب یہ تھا کہ پیشانی کو اچھی طرح زمین پر رکھو۔ گویا ااپ نے دیکھا کہ وہ اپنی پیشانی کو اچھی طرح زمین پر نہیں رکھتا تھا، تو آپﷺ نے اس کو یہ ہدایت فرمائی تھی، آپ کا یہ مطلب نہ تھا کہ وہ جس چیز پر نماز پڑھ رہا ہے اسے نیچے سے اٹھا دے۔‘‘
خلاصہ کلام یہ کہ اگرچہ تواضع کے طور پر زمین کی دھوڑی پر سجدہ کرنا افضل ہے، تاہم سردی سے بچنے کے لیے روئی کے ہلکے پھلکے گدے پر نماز پڑھنا اور اس پر سجدہ کرنا جائز ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

ج1ص387

محدث فتویٰ
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
گدے یا قالین پر نماز پڑھنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ٓج کل بعض مساجد میں روئی بھرے گدے یا موٹے قالین بچھے ہوتے ہیں، کیا ان پر سجدہ کرنا اور نماز پڑھنا جائز ہے؟ (ایک سائل از سیالکوٹ)

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
روئی کے گدے پر نماز پڑھنی افضل نہیں، تاہم بدووجہ جائز ہے: اول یہ کہ خود رسول اللہﷺ سے روئی کیک چٹائیوں، بستروں اور کھجوروں کے پتوں کی صفوں پر نماز پڑھنا ثابت ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری باب الصلوٰۃ علی الحصیر، باب الصلوٰۃ علی الخمرۃ اور باب الصلوۃ علی الفراش (ص۵۵ج۱) سے ثابت ہے۔ چننچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ جَدَّتَهُ مُلَيْكَةَ دَعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِطَعَامٍ صَنَعَتْهُ لَهُ، فَأَكَلَ مِنْهُ، ثُمَّ قَالَ: «قُومُوا فَلِأُصَلِّ لَكُمْ» قَالَ أَنَسٌ: فَقُمْتُ إِلَى حَصِيرٍ لَنَا، قَدِ اسْوَدَّ مِنْ طُولِ مَا لُبِسَ، فَنَضَحْتُهُ بِمَاءٍ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَصَفَفْتُ وَاليَتِيمَ وَرَاءَهُ، وَالعَجُوزُ مِنْ وَرَائِنَا، فَصَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ انْصَرَفَ۔ (صحیح مسلم: باب جواز الجماعة فی النافلة والصلوة علی حصیر وخمرة ص۲۳۴ج۱۔صحیح بخاری:ص۵۵ج۱)


’’حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میری نانی ملیکہ نے نبیﷺ کو کھانے کی دعوت پر بلایا۔ آپ جب کھانا تناول فرما چکے تو فرمایا چلو میں تم کو نفل نماز پڑھا دوں۔ ہماری چٹائی کثرت استعمال کی وجہ سے میلی ہوچکی تھی، میں نے اسے پانی کے چھینٹے لگا دیے۔ آپ اس پر کھڑے ہو گئے، میں اور یتیم (ضمیرہ بن ابی ضمیرہ) آپﷺ کے پیچھے کھڑے ہو گئے اور بڑی بی (ملیکہ رضی اللہ عنہا) ہمارے پیچھے کھڑی ہو گئیں اور یوں آپ نے ہم کو دو رکعت نماز پڑھائی۔‘‘
امام نووی ؒ اس حدیث سے مسائل کی تخریج کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فِيهِ جَوَازُ الصَّلَاةِ عَلَى الْحَصِيرِ وَسَائِرِ مَا تُنْبِتُهُ الْأَرْضُ وَهَذَا مُجْمَعٌ عَلَيْهِ وَمَا رُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ مِنْ خِلَافِ هَذَا مَحْمُولٌ عَلَى اسْتِحْبَابِ التَّوَاضُعِ بِمُبَاشَرَةِ نَفْسِ الْأَرْضِ۔ (نووی: ص۲۳۴ج۱)

’’اس حدیث میں چٹائی پر اور ہر اس چیز پر نماز پڑھنے کا جواز ہے جسے زمین اگاتی ہے اور اس پر علماء کا اجماع بھی ہے اور حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ سے مٹی پر سجدہ کو ضروری قرار دینے کی بات تواضع اور عاجزی پر محمول ہے۔‘‘
شریعت کے ماہرین یہ بات مخفی نہیں کہ ہر چند کہ گدا روئی اور کپڑے کے مجموعہ سے عبارت ے۔ تاہم دونوں اپنی اصلیت کے لحاظ سے زمین ہی کی پیداوارہیں۔ جب زمین سے اگنے والی دوسری تمام چیزوں پر نماز جائز ہے تو پھر گدے پرکیوں نماز جائز نہ ہوگی۔
۲۔ عَن عبداللہ بن شداد عَن میمونة قالت کان النبیﷺ یصلی علی الخمرة۔ (صحیح بخاری: ص۵۵ج۱)


’’ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کھجور کی چٹائی پر نماز پڑھتے تھے۔‘‘
حافظ ابن حجر اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
وَالْخُمْرَةُ بِضَمِّ الْخَاءِ الْمُعْجَمَةِ وَسُكُونِ الْمِيمِ قَالَ الطَّبَرِيُّ هُوَ مُصَلًّى صَغِيرٌ يُعْمَلُ مِنْ سَعَفِ النَّخْلِ سُمِّيَتْ بِذَلِكَ لِسَتْرِهَا الْوَجْهَ وَالْكَفَّيْنِ مِنْ حَرِّ الْأَرْضِ وَبَرْدِهَا فَإِنْ كَانَتْ كَبِيرَةً سُمِّيَتْ حَصِيرًا۔ (تحفة الاحوذی: ص۲۷۲ج۱، فتح الباری: ص۳۲۴ج۱)

’’خمرہ خا پر پیش اور میم ساکن کے سات پڑھی جاتی ہے۔ طبری لکھتے ہیں یہ کھجور کے پتوں سے بنائی جاتی ہے، چونکہ یہ چہرے اور ہتھیلیوں کو زمین کی گرمی اور سردی سے ڈھانپتی اور بچاتی ہے۔ اس لیے اس کو خمرہ (کڑی) کہتے ہیں۔ اگر یہ بڑی ہو تو حصیر کہلاتی ہے۔‘‘
حافظ ابن حجر کی وضاحت سے معلوم ہوا کہ چٹائی پر نماز پڑھنے کی علت زمین کی گرمی اور سردی سے بچاؤ ہے اور مسجدوں میں سردیوں کے موسم میں گرم قالین اور گدے صرف اس لیے بچھائے جاتے ہیں کہ زمین کی سردی سے بچا جائے، لہٰزا ان پر نماز جائز ہے کیونکہ کھجور کی چٹائی اور گدے کی علت غائی ایک ہی ہے۔ کمالا یخفی علی مھرۃ الشریعۃ۔
۲۔ ثانی یہ کہ اگرچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، حضرت ابراہیم نکعی، امام اسود اور ان کے اصحاب، طنافس (روئی دار چٹائیوں جو کہ فلالین اور تولیہ جیسی ہوتی ہیں) پر نماز پڑھنے کو مکروہ جانتے ہیں اور حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ بھی ان کے ہمنوا ہیں جیسے کہ امام نوویؒ کے حوالہ سے اوپر لکھا گیا ہے۔ تاہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے نہ صرف کپڑوں پر سجدہ کرنا ثابت ہے بلکہ ان سے عمامہ پگڑیوں اور ٹوپیوں پر سجدہ کرنا ثابت ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے:
باب السجود علی الثوب وقال الحسن کان القوم یسجدون عَلَی الْعَمَامَةِ وَالْقَلَنسوة وَیَدَاہُ فِی کُمه (ص۵۶ج۱)

کپڑے پر سجدہ کرنے کا بیان اور حسن بصریؒ کہتے ہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پگڑی اور ٹوپی پر سجدہ کر لیتے تھے اور ہاتھ آستین میں ہوتے۔ ازاں بعد امام بخاری یہ حدیث لائے ہیں:
۱۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: «كُنَّا نُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَضَعُ أَحَدُنَا طَرَفَ الثَّوْبِ مِنْ شِدَّة الحَرِّ فِي مَكَانِ السُّجُودِ» (صحیح بخاری: ص۵۶ج۱)


’’حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے تو ہم میں سے ہر آدمی گرمی سے بچنے کے لیے اپنے کپڑے کے دامن پر سجدہ کرتا۔‘‘
حافظ ابن حجر اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
وَفِي الْحَدِيثِ جَوَازُ اسْتِعْمَالِ الثِّيَابِ وَكَذَا غَيْرُهَا فِي الْحَيْلُولَةِ بَيْنَ الْمُصَلِّي وَبَيْنَ الْأَرْضِ لِاتِّقَاءِ حَرِّهَا وَكَذَا بَرْدُهَا وَفِيهِ إِشَارَةٌ إِلَى أَنَّ مُبَاشَرَةَ الْأَرْضِ عِنْد السُّجُود هُوَ الأَصْل لِأَنَّهُ عَلَّقَ بَسْطَ الثَّوْبِ بِعَدَمِ الِاسْتِطَاعَةِ۔ (فتح الباری: ص۴۱۴ج۱، طبع جدید ص۶۵۰ج۱)

’’اس حدیث کے مطابق زمین کی گرمی اور سردی سے بچنے کے لیے کپڑے اور اسی طرح کسی اور چیز پر سجدہ کرنا جائز ہے، تاہم اس حدیث میں یہ بھی اشارہ ہے کہ سجدے کا اصل حکم یہ ہے کہ بلا کسی حائل کے زمین کی دھوڑی پر سجدہ کیا جائے ورنہ جملہ من شدۃ الحر کا کوئی مفاد نہیں رہتا۔
۲۔ وعن أبی الدرداء قال أبالی لوصلیت علی خمس طنافس۔
رواہ البخاری فی تاریخه ورواہ ابن ابی شیبة عنه بلفظ ست طنافس بعضھا فوق بعض۔ (نیل الاوطار: ص۱۴۴ج۲)

’’حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر میں پانچ یا چھ روئیں وار (فلالین اور تولیہ کی قسم کی) چادروں کے تھان پر نماز پڑھ لوں تو میری نماز پھر بھی ادا ہوجائے گی۔
۳۔ وَرَوَی ابن ابی شیبه عَن ابن عباس أَنه صَلّیٰ عَلیٰ طَنْفُسة۔ (نیل الاوطار: ص۱۴۴ج۲)


’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے روئیں دار چادر پر نماز پڑھی تھی۔ اسی طرح حضرت ابو وائل رضی اللہ عنہ، حسن بصریؒ، مرۃ الہمدانیؒ اور قیس بن عبادہ وغیرہ سے مروی ہے۔ (حوالہ مذکور)
امام شوکانی فرماتے ہیں:
وَإِلَى جَوَازِ الصَّلَاةِ عَلَى الطَّنَافِسِ ذَهَبَ جُمْهُورُ الْعُلَمَاءِ وَالْفُقَهَاءُ كَمَا تَقَدَّمَ فِي الصَّلَاةِ عَلَى الْبُسُطِ۔(نیل الاوطار: ص۱۴۴ج۱)
’’جمہور علماء اور فقہاء طنافس (روئی دار چادروں) پر نماز کے جواز کی طرف گئے ہیں۔‘‘
جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث اور حضرت ابوالدرداء، حضرت ابن عباس، حضرت ابو وائل اور حضرت حسن بصریؒ کے فتویٰ کے مطابق کپڑوں، فلالین اور تولیہ کی قبیل کی چادروں اور پھر مرہ ہمدانی اور قیس بن عباد کے مطابق روئی کے نمدوں پر نماز جائز ہے تو روئی کے گدے پر بھی جائز ہوگی۔ کیونکہ روئی دار گدا اپنی علت غائی کے لحاظ سے روئی دار چادروں کے تھان کے حکم میں ہے رضوان اللہ علیہم اجمعین یعنی جس طرح روئیں دار چادروں کا تھان نرم اور آرام دہ ہونے کے ساتھ ساتھ زمین کی سردی سے بچاتا ہے، روئی کا گدا بھی نرم اور آرام دہ ہونے کے ساتھ ساتھ سردی سے بچاتا ہے۔ اور روئی کے نمدے اور گدے کا تو یکجان دو قالب والا معاملہ ہے۔ لہٰذا ان آثار کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ روئی کے گدے پر بھی نماز جائز ہے۔ مگر ہاں جامع ترمذی میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے:
فقال یَا أَفلحُ ترب وَجْھَکَ۔ (تحفة الاحوذی: ص۲۹۷ج۱ باب ما جاء فی کراھية النفح فی الصلوہ۔)

’’نبیﷺ نے فرمایا کہ اے افلح! سجدے میں اپنے چہرے کو مٹی پر رکھو۔‘‘
تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا راوی میمون ابو حمزہ الاعور ہے جسے امام بخاری نے لیس بالقوی، امام احمد بن حنبلؒ نے متروک، امام نسائی نے لیس بثقۃ اور امام دار قطنی نے ضعیف کہا ہے۔ کذا فی المیزان والتقریب، ص۳۵۴ (تحفة الاحوذی: ص۲۹۷جلد۱) اور دوسرا راوی ابو صالح ہے جو متکلم فیہ ہے۔
دوسرا جواب یہ ہے:
قَالَ الْعِرَاقِيُّ: وَالْجَوَابُ عَنْهُ أَنَّهُ لَمْ يَأْمُرْهُ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَى التُّرَابِ وَإِنَّمَا أَرَادَ بِهِ تَمْكِينَ الْجَبْهَةِ مِنْ الْأَرْضِ، وَكَأَنَّهُ رَآهُ يُصَلِّي وَلَا يُمَكِّنُ جَبْهَتَهُ مِنْ الْأَرْضِ فَأَمَرَهُ بِذَلِكَ، لَا أَنَّهُ رَآهُ يُصَلِّي عَلَى شَيْءٍ يَسْتُرُهُ مِنْ الْأَرْضِ فَأَمَرَهُ بِنَزْعِهِ۔ (نیل الاوطار: ص۱۴۴ج۲)

’’اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ نبیﷺ نے اس کو مٹی پر سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا بلکہ آپ کا مطلب یہ تھا کہ پیشانی کو اچھی طرح زمین پر رکھو۔ گویا ااپ نے دیکھا کہ وہ اپنی پیشانی کو اچھی طرح زمین پر نہیں رکھتا تھا، تو آپﷺ نے اس کو یہ ہدایت فرمائی تھی، آپ کا یہ مطلب نہ تھا کہ وہ جس چیز پر نماز پڑھ رہا ہے اسے نیچے سے اٹھا دے۔‘‘
خلاصہ کلام یہ کہ اگرچہ تواضع کے طور پر زمین کی دھوڑی پر سجدہ کرنا افضل ہے، تاہم سردی سے بچنے کے لیے روئی کے ہلکے پھلکے گدے پر نماز پڑھنا اور اس پر سجدہ کرنا جائز ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب


ج1ص387


محدث فتویٰ
اور فوم کے گدے کا کیا حکم ہے؟
 
Top