• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

گمراہ فرقوں کا تعارف: پہلا فرقہ: القدریۃ

ٹائپسٹ

رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
186
ری ایکشن اسکور
987
پوائنٹ
86
گمراہ فرقوں کا تعارف
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان (حفظہ اللہ)​


پہلا فرقہ: القدریۃ
اس فرقہ کی ابتداء صحابہ کرام y کے آخری دور میں ہی ہوچکی تھی۔
القدریۃ: یعنی جو قدر (تقدیر) کاانکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو کچھ اس کائنات میں ہورہا ہے وہ اللہ تعالی کی قضاء وقدر سے نہیں ہورہا بلکہ وہ تو ایک ایسا امر محدث (نیا رونما ہونے والا کام) ہے جسے بندے نے کیا ہے، ناکہ وہ پہلے سے اللہ تعالی کی تقدیر میں لکھا ہوا تھا۔
پس انہوں نے ارکان ایمان میں سے چھٹے رکن کا انکار کردیا۔
کیونکہ ارکان ایمان چھ ہیں: 1- اللہ تعالی پر ایمان، 2- اس کے فرشتوں پر، 3- اس کی کتابوں پر، 4- اس کے رسولوں پر، 5- یوم آخرت پر اور 6- اچھی وبری تقدیر پر کہ یہ سب اللہ تعالی کی طرف سے ہے۔ انہیں قدریہ بھی کہا جاتا ہے اور اس امت کے مجوسی بھی کہا جاتا ہے، کیوں؟ کیونکہ وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ہر انسان اپنے اعمال کا خود خالق ہے، انسان کے اعمال اللہ تعالی کی تقدیر سے نہیں ہیں۔ اس طور پر انہوں نے کائنات میں اللہ تعالی کے ساتھ ایک اور خالق کا وجود ثابت کیا جیسا کہ مجوس کا عقیدہ ہے دو خالقوں کا کہ ایک نور کا خدا ہے اور ایک اندھیرے کا خدا۔ نور کا خدا خیر پیدا کرتا ہے اور اندھیرے کا خدا شر پیدا کرتا ہے۔
قدریہ تو مجوس سے بھی دو ہاتھ آگے بڑھ گئے ہیں کہ انہوں نے متعدد خالقوں کو ثابت کیا کیونکہ ان کے نزدیک تو ہر انسان اپنے افعال کا خود خالق ہے، لہذا اس وجہ سے وہ اس امت کے مجوس کہلاتے ہیں۔
ان کے مدمقابل اور بالکل برعکس فرقہ الجبریۃ ہے جو یہ کہتے ہیں کہ: بندہ اپنے عمل پر مجبورِ محض ہے، اس کا اپنا کوئی فعل یا اختیار ہے ہی نہیں، وہ تو محض ایک پر کی طرح ہے کہ جسے ہوا اڑا لے جاتی ہے اس کا اپنا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔
انہیں جبریہ کہا جاتا ہے جو درحقیقت غالی قدریہ ہیں کہ جنہوں نے تقدیر کے اثبات میں غلو کیا اور بندے سے اختیار کو مکمل طور پر سلب کرلیا۔
پس پہلا فرقہ اس کے بالکل برعکس انسان کے اختیار میں غلو کرگیا یہاں تک کہ یہ کہہ دیا کہ بندہ خود مستقل طور پر اللہ تعالی سے ہٹ کر اپنے افعال کا خود خالق ہے ۔ تعالی اللہ عما یقولون۔
انہیں القدریۃ النفاۃ (تقدیر کی نفی میں غلو کرنے والے) بھی کہا جاتا ہے ۔ انہی میں سے معتزلہ بھی ہیں اور جو ان کے منہج کی پیروی کرتے ہیں۔
تو یہ دو اقسام بنتی ہیں اس قدریہ فرقے کی:
1- تقدیر کی نفی میں غلو کرنے والے (قدریہ)۔
2- تقدیر کے اثبات میں غلو کرنے والے (جبریہ)۔
اور یہ قدریہ خود نجانے کئی فرقوں میں بٹ گئے کہ جنہیں اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا۔کیونکہ جب انسان حق کو چھوڑتا ہے تو وہ گمراہی میں دھنستا چلا جاتا ہے ۔ اس فرقے سے نکلنے والا ہر چھوٹا گروہ اپنا الگ مذہب بنالیتا ہے اور پرانے فرقے سے الگ ہوجاتا ہے۔ یہی گمراہ لوگوں کا وطیرہ ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ گروہ درگروہ تقسیم ہوتے ہی چلے جاتے ہیں اور ہمیشہ ان کے نئے نئے اختلافی افکار وتصورات منظر عام پر آتے رہتے ہیں جو ایک دوسرے سے متضاد ہوتے ہیں۔
دوسری طرف اہل سنت والجماعت میں کسی قسم کا اضطراب واختلاف نہیں ہوتا کیونکہ وہ اس منہج حق سے تمسک اختیار کیے رہتے ہیں جو اللہ تعالی کی طرف سے آیا ہے۔ پس وہ کتاب اللہ وسنت رسول اللہ e کو مضبوطی سے تھامے رہتے ہیں نتیجتاً ان میں افتراق واختلاف واقع نہیں ہوتا ، کیونکہ وہ سب ایک ہی منہج کے پیروی کررہے ہوتےہیں۔ (المحاضرات فی العقیدۃ والدعوۃ، جلد دوم، محاضرۃ رقم 47)
ترجمہ: طارق علی بروہی
 
Top