محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,783
- پوائنٹ
- 1,069
گناہوں کی ایسی دیوار کھڑی نہ کریں جو آپ کو اللہ سے دور کر دیں !!!
فرمان بارى تعالى ہے:
﴿ ( ميرى جانب سے ) كہہ ديجئے كہ اے ميرے بندو! جنہوں نے اپنى جانوں پر زيادتى كى ہے تم اللہ تعالى كى رحمت سے نااميد نہ ہو جاؤ، يقينا اللہ تعالى سارے گناہوں كو بخشن دينے والا ہے ﴾الزمر ( 53 ).
يہ آيات اس بات كى واضح دليل ہے كہ اللہ تعالى سب گناہ ـ چاہے وہ شرك ہى كيوں نہ ہو ـ بخش ديتا ہے، بلكہ اس ميں تو بہت عظيم فضل كو بيان كيا گيا ہے كہ توبہ كرنے والى كى برائيوں كو نيكيوں سے بدل ديا جاتا ہے.اور بڑے سے بڑے گناہوں كو بخش دينے كے متعلق اللہ سبحانہ وتعالى نے فرمايا:
﴿ اور جو لوگ اللہ تعالى كے ساتھ كسى دوسرے كو معبود نہيں پكارتے اور كسى ايسے شخص كو سوائے حق كے قتل نہيں كرتے جسے اللہ تعالى نے حرام قرار ديا ہے، اور نہ وہ زنا كے مرتكب ہوتے ہيں، اور جو كوئى يہ كام كرے وہ اپنے اوپر سخت وبال لائے گا، اسے روز قيامت دوہرا عذاب ديا جائے گا، اور وہ ذلت و رسوائى كے ساتھ ہميشہ اس ميں رہے گا، سوائے ان لوگوں كے جو توبہ كريں اور ايمان لائيں اور نيك و صالح اعمال كريں، ايسے لوگوں كے گناہوں كو اللہ تعالى نيكيوں سے بدل ديتا ہے، اللہ بخشنے والا اور مہربانى كرنے والا ہے الفرقان ﴾( 68 - 70 ).
يہ آيت عام اور مطلق ہے كيونكہ يہ توبہ كرنے والوں كے متعلق ہے" انتہىجيسا كہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
﴿ ( ميرى جانب سے ) كہہ ديجئے كہ اے ميرے بندو! جنہوں نے اپنى جانوں پر زيادتى كى ہے تم اللہ تعالى كى رحمت سے نااميد نہ ہو جاؤ، يقينا اللہ تعالى سارے گناہوں كو بخشن دينے والا ہے ﴾الزمر ( 53 ).
اور ترمذى ميں انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:" تم سے پہلے لوگوں ميں ايك ايسا شخص تھا جو ننانوے ( 99 ) قتل كر چكا تھا، تو اس نے روئے زمين پر كسى عالم كے بارہ ميں دريافت كيا تو اسے ايك راہب اور درويش كا بتايا گيا، تو وہ قاتل شخص اس كے پاس آ كر كہنے لگا:
اس نے ننانوے شخص قتل كيے ہيں، تو كيا اس كے ليے كوئى توبہ كى گنجائش ہے؟
تو اس راہب اور درويش نے جواب ميں كہا: نہيں، تو اس نے اس راہب كو بھى قتل كركے ايك سو قتل پورے كر ليے، پھر زمين پر كسى عالم كے بارہ ميں دريافت كرنے لگا تو اسے ايك عالم كے بارہ ميں بتايا گيا، تو اس نے وہاں جاكر اسے كہا:
ميں نے ايك سو قتل كيے ہيں، تو كيا ميرے ليے كوئى توبہ كى گنجائش ہے؟
تو اس عالم نے كہا جى ہاں آپ كے ليے توبہ كى گنجائش موجود ہے، اور تيرے اور توبہ كے درميان كون حائل ہو سكتا ہے، فلاں علاقے كى طرف چلے جاؤ كيونكہ وہاں كے لوگ عبادت گزار ہيں لہذا تم بھى ان كے ساتھ مل كر اللہ تعالى كى عبادت كرو، اور اپنے علاقے كو واپس نہ جانا كيونكہ آپ كا كا علاقہ اچھا نہيں.
تو وہ شخص وہاں سے چل نكلا جب نصف راستہ طے كيا تو اسے موت آ گئى، اوراس كے متعلق رحمت اور عذاب كے فرشتے جھگڑنے لگے، رحمت كے فرشتے كہنے لگے: يہ توبہ كر كے اپنے دل كے ساتھ اللہ تعالى كى طرف رجوع كر كے آيا ہے، اور عذاب كے فرشتے كہنے لگے:
اس نے تو كبھى كوئى نيكى كا عمل كيا ہى نہيں، تو ان كے پاس آدمى كى شكل ميں ايك فرشتہ آيا تو انہوں نے اسے اپنے درميان فيصلہ كرنے والا مان ليا، تو اس نے كہا:
تم دونوں علاقوں كى پيمائش كرو، جس علاقے كى زيادہ قريب ہو وہ فرشتے لے جائيں، تو انہوں نے زمين كى پيمائش كى تو وہ اس علاقے كے زيادہ قريب تھا جس علاقے ميں اس نے جانے كا ارادہ كر ركھا تھا، تو اسے رحمت كے فرشتے لے كر چلے گئے.
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2766 ).
اور ابن ماجہ رحمہ اللہ تعالى نے عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:" اللہ تعالى نے فرمايا ہے: اے ابن آدم جب بھى تو مجھے پكارے گا اور مجھ سے اميد ركھے گا تجھ ميں جو كچھ بھى ہو ميں تيرے گناہ بخش دونگا، اورمجھے كوئى پرواہ نہيں، اے ابن آدم اگر تيرے گناہ آسمان كى بلنديوں كو چھونے لگيں پھر تم مجھ سے توبہ و استغفار كرو تو ميں تجھے بخش دونگا اور مجھے كوئى پرواہ نہيں"
جامع ترمذى حديث نمبر ( 3540 )، اسے علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے صحيح ترمذى ميں صحيح قرار ديا ہے.
تو مندرجہ بالا آيات و احاديث اس پر دلالت كرتى ہيں كہ اللہ تعالى توبہ كرنے والے كے سب گناہ معاف فرما ديتا ہے چاہے وہ گناہ كتنے ہى زيادہ اور بڑے ہى كيوں نہ ہوں." گناہوں سے توبہ كرنے والا شخص ايسے شخص كى طرح ہے جس كے گناہ ہے ہى نہيں "
سنن ابن ماجۃ حديث نمبر ( 4250 )، علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابن ماجہ ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.