• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

گناہ اور نیکی کی پہچان

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
گناہ اور نیکی کی پہچان

عَنِ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ الأَنْصَارِىِّ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- عَنِ الْبِرِّ وَالإِثْمِ فَقَالَ « الْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ وَالإِثْمُ مَا حَاكَ فِى صَدْرِكَ وَكَرِهْتَ أَنْ يَطَّلِعَ عَلَيْهِ النَّاسُ »
’’نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نیکی اور گناہ کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ نیکی عادت کا اچھا ہونا ہے اور گناہ وہ ہے جو تیرے سینے میں کھٹکے اور تو اس بات کو نا پسند جانے کہ لوگ اس پر اطلاع پائیں۔ [مسلم: 14,15]
تشریح:
1۔ حسن خلق سے مراد عام طور پر لیا جاتا ہے کہ لوگوں سے اچھا برتاؤ کیا جائے، کھلے چہرے اور میٹھی زبان کے ساتھ ملاقات کی جائے، سختی اور درشتی سے پرہیز کیا جائے، مگر یہ ایک محدود مفہوم ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ حسن خلق اللہ تعالی کے تمام احکام کو اس طرح اوڑھنا بچھونا بنا لینے کا نام ہے کہ وہ آدمی کی فطرت ثانیہ اور کسی مشقت کے بغیر خود بخود ہوتے چلے جائیں، اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا:
وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ [ن:4]
’’ یقینا آپ عظیم خلق پر ہیں۔‘‘
سعد بن ہشام بن عامر نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق کے متعلق بتائیں تو انہوں نے فرمایا: تم قرآن نہیں پڑھتے؟‘‘ کیوں نہیں۔ ’’ فرمایا:
’’فَإِنَّ خُلُقَ نَبِىِّ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- كَانَ الْقُرْآنَ‘‘
’’یقینا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق قرآن ہی تھا۔‘‘[صحیح مسلم:139]
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے آداب اس طرح اختیار کر لیے تھے کہ اس کے احکام پر عمل اور ان کے نواہی سے اجتناب اس طرح تھا کہ قرآن کی ہر بات آپ کی طبعی عادت بن گئی تھی۔
حسن خلق کے اس مفہوم میں ارکان اسلام، حقوق اللہ، حقوق العباد، صبر وشکر، وفائے عہد، صدق و امانت، صدقہ، جہاد، احسان غرضی سبھی کچھ شامل ہے اور اس کی جامع چند آیات یہ ہیں:
لَيْسَ الْبِر....... [البقرة:2/177]
اور فرمایا:
﴿وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى﴾
[الفرقان:25/23،24]
اور فرمایا:
﴿التَّائِبُونَ الْعَابِدُون﴾ [التوبة:9/112]
اور فرمایا:
﴿قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ.......... هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ﴾
[المؤمنون:23/1۔11]
قرآن مجید مترجم مع تفسیر سے تفصیل ملاحظہ کر لیں۔
2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گناہ کی دو علامات بیان فرمائی ہیں پہلی یہ کہ وہ سینے میں کھٹکتا ہے آدمی کو اس پر تسلی نہیں ہوتی، ایک خیال یہ آتا ہے کہ یہ کام کر لوں اس کی صاف ممانعت تو کہیں نہیں ملتی دوسرا خیال آتا ہے کہ نہیں یہ کام اچھا نہیں اس پر اللہ تعالی ناراض ہو گا، لوگوں میں بد نامی ہو گی یہ کیفیت انسان کو بے چین رکھتی ہے، اسی کا نام گناہ ہے۔ حسن بن علی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےیہ حدیث حفظ کی:
« دَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لاَ يَرِيبُكَ فَإِنَّ الصِّدْقَ طُمَأْنِينَةٌ وَإِنَّ الْكَذِبَ رِيبَةٌ » [صحیح الترمذی]
’’ جو چیز تمہیں شک میں ڈالے اسے چھوڑ کر وہ چیز اختیار کرو جو تمہیں شک میں نہ ڈالے کیونکہ سچ اطمینان (کا باعث) ہے اور جھوٹ بےچینی (کا باعث) ہے۔‘‘
گناہ کی دوسری علامت یہ بیان فرمائی کہ تمہیں یہ بات ناپسند ہو کہ لوگوں کو اس کام کا علم ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ سبھی لوگوں کا کسی چیز کوبرا جاننا اس بات کی علامت ہے کہ وہ کام گناہ ہے اسی لیے آدمی کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے اچھے کام لوگوں کو معلوم ہوں اور برے کام معلوم نہ ہوں۔ ریا کی بیماری بھی یہیں سے پیدا ہوتی ہے۔
3۔جب وہ کام گناہ ہیں جن میں شبہ ہو، جن کے جائز اور نا جائز ہونے میں واضح حکم موجود نہ ہو اور جن کے متعلق دل میں کھٹکا ہو تو جو کام صاف الفاظ میں منع کیے گئے ہیں ان کے گناہ ہونے میں کیا شبہ ہے؟
4۔ اگر کسی کام کا حکم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہو مگر لوگ جہالت کی وجہ سے اسے ناپسند کریں تو لوگوں کی پروا نہیں کی جائے گی۔ مسلمان کی شان یہ ہے:
﴿ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ﴾ [المائدۃ:54]
’’ وہ کسی ملامت گر کی ملامت سے نہیں ڈرتے۔‘‘
5۔ اللہ تعالی نے انسانی فطرت میں اچھے اور برے کی پہچان رکھ دی ہے۔ اسی لیے عربی میں نیکی کو معروف کہا جاتا ہے کہ اس کام کا اچھا ہونا سب کے ہاں پہچانی ہوئی چیز ہے اور برائی کو منکر کہتے ہیں جس کا معنی ہے:
’’ نہ پہچانی ہوئی چیز‘‘ یعنی فطرت انسانی اس کام کو قبول نہیں کرتی اور نہ پہچانتی ہے۔
 
Top