ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 569
- ری ایکشن اسکور
- 176
- پوائنٹ
- 77
گناہ کے ارتکاب کے وقت مؤمن نہ رہنا
٢٢٠ - وَحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْحَمِيدِ الْوَاسِطِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ قَالَ: نا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا يَزْنِي الْعَبْدُ حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَسْرِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ»
«عروہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : بندہ جب زنا کر رہا ہوتا ہے تو اس دوران مؤمن نہیں رہتا اور جب چوری کر رہا ہوتا ہے تو اس دوران مؤمن نہیں رہتا »
(كتاب الشريعة للآجري ، ۱/٥۸۷) .
كتاب الشريعة للآجري کے محقق عبد اللہ بن عمر بن سلیمان الدمیجی کہتے ہیں :
اھل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ ہے کہ اہل توحید میں سے کوئی بھی ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا اور اس بارے میں کثرت کے ساتھ نصوص ذکر کی گئی ہیں ، خوارج اور ان کی موافقت کرنے والے رافضیوں کے خلاف ، اور معتزلہ اس بات کے قائل ہیں کہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ہمیشہ جہنم میں رہے گا ، جبکہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرنے والا خوارج کے نزدیک کا- فر ہے ، اور معتزلہ کے نزدیک دونوں مقاموں کے مابین ایک مقام پر ہے۔
لیکن ان لوگوں نے اس حدیث کے مفہوم میں اختلاف کیا ہے - اس کی مثال ۔ میں کثرت کے ساتھ اقوال ہیں - جن میں سے بعض کا ذکر امام آجری نے کیا ہے - جو کہ آگے آ رہے ہیں ۔ اور امام ابن جریر الطبری نے تہذیب الآثار (160/2 اور اس کے بعد میں) چھ اقوال ذکر کئے ہیں ، اور نووی نے صحیح مسلم کی شرح (2 / 41-42) میں اسی طرح ان کثیر اقوال میں سے چھ اقوال اختیار کرکے ذکر کئے ہیں۔ اور حافظ ابن حجر نے الفتح الباری (12 / 61-62) میں ان تمام اقوال کو ملا کر تیرہ اقوال تک ذکر کئے ہیں - خوارج اور معتزلہ کے اقوال کے علاوہ - اور مشہور اقوال میں سے :
(۱) جب کوئی شخص کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو اس میں سے ایمان سلب ہوجاتا ہے ، اور جب گناہ سے علیحدگی اختیار کرلیتا ہے تو ایمان اس کی طرف لوٹ آتا ہے۔ اس قول کی طرف ابن عباس رضی اللہ عنہما گئے ہیں جیسا کہ رقم الحدیث 226 میں اور اس کے بعد ہے - اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی یہی قول موقوفا روایت کیا گیا ہے ح : 229 اور اس بارے میں نبی ﷺ سے مرفوعا احادیث بھی روایت کی گئی ہیں بعض روایات ان میں سے صحیح ہیں ، دیکھو تعلیق (11) (ص 467 ، 468) اور رقم الحدیث 230 اور اس کے بعد۔
(۲) اور ان اقوال میں سے گناہ کبیرہ کے مرتکب میں مسمی ایمان جو کہ تعریف کے قابل ایمان ہوتا ہے وہ مذموم ایمان کی طرح ہوجاتا ہے ، تو اس کبیرہ گناہ کے مرتکب کو فاسق فاجر زانی چور (سارق) کہا جاتا ہے.....اس قول کو امام ابن جریر الطبری نے (تھذیب الآثار 176/2) میں اختیار کیا ہے ، اور اس قول کو نووی نے حسن بصری کی طرف منسوب کیا ہے (شرح مسلم 42/2) اور اسی قول کو ابن بطال نے اختیار کیا ہے جیسا کہ فتح الباری (61/12) میں ہے۔
(۳) اور ان اقوال میں سے اس کا معنی یہ ہے کہ : جب کوئی شخص معاصی کا ارتکاب کرتا ہے تو اس وقت وہ کامل ایمان والا ہوتا ہے (جب وہ گناہ کرتا ہے تو ایمان کامل نہیں رہتا) اور نووی نے اس قول پر اعتبار کیا ہے جس کو محققین نے صحیح کہا ہے ، اور اس کے برعکس بھی کہا گیا ہے ، واللہ اعلم۔
220 - اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
محمد بن الفضل : ثقہ ثبت ہیں ، آخر عمر میں ان کے حافظے میں تغیر واقع ہوگیا تھا۔ ان کا ترجمہ رقم الحدیث : 215 میں گذر چکا ہے۔
ھشام بن عروہ : ابن الزبیر بن العوام ، الاسدی ہیں ، ثقہ ہیں ، فقیہ ہیں ، بسا اوقات تدلیس کرتے ہیں ، پانچویں طبقہ کے راوی ہیں ، 145 یا 146 ہجری میں ان کا انتقال ہوا ہے۔ تقریب (319/2) ، تھذیب (48/11) ، تعریف اھل التقدیس (ص 46)۔
- اس حدیث کی تخریج :
یہ حدیث مشہور ہے اور اور متعدد صحابہ رضی اللہ عنہم سے کثیر طرق سے روایت کی گئی ہے ، امام آجری نے ان میں سے تین صحابہ سے اس حدیث کو ذکر کیا ہے : السیدۃ عائشہ ام المومنین رضی اللہ عنہا ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ، اور ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ۔
ام المؤمنین السیدۃ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث : حدیث مذکور ہے ۔ اسے بزار نے روایت کیا ہے (کشف الاستار ح : 112 (73/1) محمد بن المثنیٰ کے طریق سے اس کو اسی متن کے ساتھ روایت کیا ہے۔ اس حدیث کو امام احمد نے المسند (139/6) میں اور ابن ابی شیبہ نے الایمان رقم : 39 (ص 13) اور ابن جریر نے تھذیب الآثار میں رقم : 1418 اور ابو نعیم نے الحلیۃ (256/6) میں اور ابن بطۃ نے الابانۃ الکبریٰ ح 1139 (ص 740) میں : ان سبھوں نے ابن اسحاق عن یحیی بن عباد عن ابیه عن عائشة کے طریق سے روایت کیا ہے۔ ہیثمی کہتے ہیں : ’’ اس حدیث کو احمد بزار اور طبرانی الاوسط میں روایت کیا ہے ، اس حدیث کے روات ثقات ہیں ، مگر یہ کہ ابن اسحاق مدلس ہے ، اور بزار کے رجال صحیح کے رجال ہیں ‘‘۔ مجمع الزوائد (100/1)۔
اور یہ جو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے اس حدیث کے بعد اور اس کے بعد ایک اور حدیث ہے ، اور ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ کی حدیث ان دونوں حدیثوں کے بعد ہے۔
٢٢١ - وَحَدَّثَنَا أَبُو شُعَيْبٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَسَنِ الْحَرَّانِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ ⦗٥٨٩⦘ بْنُ الْجَعْدِ قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ ذَكْوَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا يَسْرِقُ السَّارِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَزْنِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَشْرَبُ الْخَمْرَ حِينَ يَشْرَبُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَالتَّوْبَةُ مَعْرُوضَةٌ بَعْدُ»
« چور جب چوری کر رہا ہوتا ہے تو وہ مؤمن نہیں رہتا اور زنا کرنے والا جب زنا کرنے والا زنا کر رہا ہوتا ہے تو وہ مؤمن نہیں رہتا اور شراب پینے والا جب شراب پی رہا ہوتا ہے تو وہ مؤمن نہیں رہتا ، البتہ اُس کے بعد توبہ کی گنجائش ہوتی ہے »
(كتاب الشريعة للآجري ، ۱/٥۸۸) .
كتاب الشريعة للآجري کے محقق عبد اللہ بن عمر بن سلیمان الدمیجی کہتے ہیں :
221 - اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
علی بن الجعد : ثقہ ثبت ہے شیعہ ہونے کا الزام ہے ، اس کا ترجمہ رقم الحدیث : 34 میں گذر چکا ہے۔ اور اعمش نے قعقاع کی متابعت کی ہے جیسا کہ حدیث آگے آرہی ہے۔
- اس حدیث کی تخریج :
اس حدیث کو امام احمد نے (376/2) اور امام بخاری نے رقم الحدیث : 6810 (114/12) میں اور امام مسلم نے رقم الحدیث : 57 (77/1) اور امام ابو داؤد (عون المعبود 444/12) اور امام ترمذی نے ح : 2625 (15/5) میں روایت کرکے کہا : ’’ حسن صحیح اس سند غریب ہے ‘‘ ، امام نسائی نے (65/8) میں ، بزار نے (کشف الاستار ح 114 (54/1) ، اور ابن جریر نے تہذیب الآثار رقم : 1407 (154/2) اور 1414 (59/2) میں اور ابو نعیم نے الحلیۃ (257/8) میں ان سبھوں نے اس حدیث کو الاعمش عن ابی صالح کے طریق سے اسی طرح سے روایت کیا ہے۔