• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

گنبد خضراء پر ایک کھڑکی نما ، اور ایک روایت کی تحقیق

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ قبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر موجود گنبد خضراء ( خضری ) کے اوپر ایک کھڑکی ہے ، اور یہ کھڑکی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے کہنے پر صحابہ کرام نے اس وقت کھولی تھی ، جب ایک دفعہ مدینہ میں قحط ہوگیا تھا ، اس طرح قحط ختم ہوگیا تھا ۔ اہل بدعت یہ روایت بیان کرکے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ قبر نبوی کے توسل سے بارش وغیرہ طلب کرنا صحابہ کا طریقہ ہے ۔
اس سلسلے میں پیش کی جانے والی روایت ملاحظہ فرمائیں:
قال الإمام الدارمي رحمه الله :
حدثنا أبو النعمان ، ثنا سعيد بن زيد ، ثنا عمرو بن مالك النكري حدثنا أبو الجوزاء أوس بن عبد الله قال : ( قُحِطَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ قَحْطاً شَدِيداً ، فَشَكَوْا إِلَى عَائِشَةَ فَقَالَتْ : انْظُرُوا قَبْرَ النَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم فَاجْعَلُوا مِنْهُ كِوًى إِلَى السَّمَاءِ حَتَّى لاَ يَكُونَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ سَقْفٌ . قَالَ : فَفَعَلُوا ، فَمُطِرْنَا مَطَراً حَتَّى نَبَتَ الْعُشْبُ وَسَمِنَتِ الإِبِلُ ، حَتَّى تَفَتَّقَتْ مِنَ الشَّحْمِ ، فَسُمِّىَ عَامَ الْفَتْقِ ) .
سنن الدارمي (1/56) رقم (92) .

ترجمہ : اوس بن عبد اللہ فرماتے ہیں ، اہل مدینہ شدید قحط میں مبتلا ہوگئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے یہ حالت بیان کی ، انہوں نے فرمایا : جاؤ قبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اوپر کی طرف سے تھوڑا سا کھول دو ، اس طرح کہ قبر اور آسمان کے درمیان کوئی چھت نہ ہو ، کہتے ہیں : لوگوں نے ایسا ہی کیا ، تو اللہ تعالی نے اتنی بارش نازل فرمائی کہ ہر طرف ہریالی پھیل گئی ، اونٹ اس قدر سیر ہوگئے کہ چربی کی وجہ سے ان کے جسمانی اعضاء الگ الگ نظر آنے لگے ، اس مناسبت سے اس سال کو ’ عام الفتق ‘ کا نام دیا گیا ۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت درجِ ذیل وجوہات کی بنا پر قابل حجت نہیں:
اول : مذکورہ روایت کی سند کے بارے محدثين اور فن رجال کے علما کی رائے یہ ہے کہ ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں موجود ایک راوی سعید بن زید کے بارے میں علما کی آراء یوں ہیں:
1- حافظ ابن حجر: زبان کا سچا تھا لیکن وہم میں مبتلا ہوجاتا تھا ۔
2- امام ذہبی نے ''میزان الاعتدال'' میں اس کے بارے میں یحیی بن سعید کا قول نقل کیا ہے کہ: یہ ضعیف ہے۔
3- علامہ سعدی: یہ بندہ قابل حجت نہیں علما اس کی حدیثوں کو ضعیف گردانتے ہیں۔
4- امام نسائی کا کہنا ہے کہ یہ قوی نہیں۔
اسی لئے علامہ البانی نے بھی اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔
دوم : ایک دوسرے راوی ابو نعمان جس کا نام محمد بن الفضل ہے، اگرچہ ثقہ راوی ہے مگر آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہوا تھا یعنی ضعف حافظہ کے سبب آخری عمر میں صحیح و ضعیف کو مکس کر کے بیان کیا کرتا تھا، علم حدیث میں ایسے مختلط راوی کا حکم یہ ہے کہ جو روایات اختلاط سے قبل کی ہوں وہ مقبول ہوتی ہیں جو اختلاط کے بعد ہوں وہ ناقابل قبول جبکہ جن روایات کے بارے میں علم نہ ہو کہ اختلاط سے قبل کی ہیں یا بعد کی وہ بھی مشکوک ہونے کی بنا پر مقبول نہیں ہوتی، اور مذکورہ روایت بھی انہی میں سے ہے اس کے بارے میں واضح نہیں کہ یہ اختلاط سے پہلے کی ہے یا بعد کی۔
سوم : تاریخی حوالے سے ثابت ہے کہ حضرت عائشہؓ کی زندگی میں حجرۂ عائشہ، جس میں نبیﷺ کی قبر تھی اپنی اسی حالت میں برقرار تھا جس صورت میں نبیﷺ کے زمانے میں تھا یعنی کچھ حصے پر چھت لگی ہوئی اور کچھ حصہ بغیر چھت کے کھلا، مطلب قبر نبیﷺ ایسی نہیں تھی کہ مکمل ڈھکی ہوئی ہو، جیسے کہ صحیحین میں عائشہؓ سے مروی ہے کہ آپﷺ جب عصر کی نماز پڑھتے اس وقت حجرے میں دھوپ پڑ رہی ہوتی تھی۔
اور یہ ثابت نہیں کہ آپﷺ کے بعد عائشہؓ کی زندگی میں حجرے میں کوئی ایسی تبدیلی کی گئی ہو جس کی وجہ سے قبر مبارک ڈھک گئی ہو لہذا اس میں سوراخ بنانے کا سوال ہی بے معنی ہے، حجرۂ عائشہ کو ولید بن عبدالملک نے اپنے عہد میں مسجد میں شامل کیا جب انہوں نے مسجد نبوی کی توسیع کی، پھر ولید ہی نے حجرۂ عائشہ یا بالفاظ دیگر قبر نبی کے گرد اونچی دیوار کھڑی کر کے ڈھک دی اور مذکورہ سوراخ رکھا تاکہ صفائی وغیرہ کے لئے اندر اترا جا سکے۔
چہارم : رہی توسل کی بات وہ اس لئے بھی درست نہیں کہ اصحاب کرام ؓ آپ ﷺ کے بعد مختلف مصائب کا شکار ہوتے رہے، قحط سالیاں بھی آئیں مگر ان حالات میں کسی نے بھی آپﷺ کی قبر سے اس انداز میں وسیلہ نہیں لیا بلکہ جو صحیح ثابت ہے وہ یوں ہے کہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں جب خشک سالی آئی تو آپؓ قبر مبارک کے توسط سے مانگنے یا سوراخ وغیرہ بنانے کے بجائے حضرت عباس ؓ کو لے کر استسقاء کے لئے گئے۔
اس ثابت حدیث سے معنوی مخالفت کی وجہ سے بھی سوراخ والی حدیث قابل اعتبار نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب​
نوٹ : اس روایت پر کیا گیا کلام یہاں سے ماخوذ ہے ، جس کی اردو ترجمانی ہمارے ایک ادیب دوست محترم زاہد سعید صاحب نے کی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس روایت پر فورم پر کئی سال پہلے یہاں بھی گفتگو ہو چکی ہے ۔ انتظامیہ
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر موجود کھڑکی کے متعلق چند سال پہلے ایک بے بنیاد قسم کی تحریر منظر عام پر آئی تھی ( محترم @کنعان صاحب جانتے ہوں گے )، چند دن پہلے فیس بک پر دو بارہ تازہ ہوگئی ، اسی تحریر کا ایک حصہ یہ روایت بھی تھی ، عربی زبان میں اس پر گوگل سرچ کرنے سے معلومات مل جاتی ہیں ، لیکن اردو میں نظر سے کچھ نہ گزرا تو مناسب سمجھا کہ عربی میں موجود مواد کی اردو ترجمانی کردی جائے ۔
خیر روایت کی وضاحت تو ہوگئی ، لیکن تحریر کا بقیہ حصہ پر توجہ کی ضرورت ہے ۔ اور یہ بھی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے کہ روضہ رسول پر موجود کھڑکی کب وجود میں آئی ؟ اور اس کا مقصد کیا ہے ؟ بلکہ اس سے پہلے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ کیا وہ وہ کھڑکی ہی ہے یا کچھ اور ؟
 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
یہ ؒوسیلہ" کیا ہے؟ اور کن سے مانگنا جائز ہے؟ اس پر ایک میرے خیال سے جامع تھریڈ ہونا چاہئے۔ نیز اسی طرح دعا مانگنے کے لئے "واسطہ" کی شرعی حیثیت کا بھی ایک تھریڈ ہونا چاہئے، جس میں عام فہم کی اردو زبان میں جو بات آسانی سے سمجھ میں آجائے، تمام دعا مانگنے اور اسکے مسائل کا حل ہو۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
یہ ؒوسیلہ" کیا ہے؟ اور کن سے مانگنا جائز ہے؟ اس پر ایک میرے خیال سے جامع تھریڈ ہونا چاہئے۔
وسیلے سے متعلقہ جتنی اہم مباحث ہیں تقریبا سب کسی نہ کسی صورت میں فورم یا لائبریری پر موجود ہیں ۔ بس تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔
ماہنامہ السنہ کا ایک خاص وسیلہ نمبر بھی شائع ہوا تھا ، اس میں اس کے متعلق تمام مباحث تفصیل سے آگئی ہیں ، مثلا
وسیلہ مفہوم و اقسام
وسیلہ اور قرآن کریم
وسیلہ صحیح احادیث اور فہم سلف کی روشنی میں
مختلف مکاتب فکر اور وسیلہ
وسیلے کی ممنوع اقسام پر دلائل کا جائزہ ( سب سے اہم حصہ شاید یہی ہے )
تقریبا اڑھائی سو صفحات پر مشتمل یہ رسالہ اپنے موضوع پر ایک انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتا ہے ۔
ڈاؤن لوڈ لنک ۔
شیخ البانی کی ایک کتاب بھی اردو ترجمہ کے ساتھ یونیکوڈ میں فورم پر موجود ہے ۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

( محترم @کنعان صاحب جانتے ہوں گے )،
جی بالکل شائد 10 سال سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ھے اس وقت یہ کھڑکی نہیں تھی بلکہ قبر تھی، سمائل! جو اس تصویر میں دیکھی جا سکتی ھے جسے میں نے تحقیق کے دوران ہائی لائٹ کر کے قبر کا رد کیا تھا اتفاق سے یہ تصویر کہیں سے مل گئیں مزید تصاویر نہیں ملیں جس میں ایکسرے کیا گیا تھا کہ یہ کھڑکی ھے۔

والسلام
 
Last edited:
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ قبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر موجود گنبد خضری کے اوپر ایک کھڑکی ہے ، اور یہ کھڑکی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے کہنے پر صحابہ کرام نے اس وقت کھولی تھی ، جب ایک دفعہ مدینہ میں قحط ہوگیا تھا ، اس طرح قحط ختم ہوگیا تھا ۔ اہل بدعت یہ روایت بیان کرکے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ قبر نبوی کے توسل سے بارش وغیرہ طلب کرنا صحابہ کا طریقہ ہے ۔
اس سلسلے میں پیش کی جانے والی روایت ملاحظہ فرمائیں:
قال الإمام الدارمي رحمه الله :
حدثنا أبو النعمان ، ثنا سعيد بن زيد ، ثنا عمرو بن مالك النكري حدثنا أبو الجوزاء أوس بن عبد الله قال : ( قُحِطَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ قَحْطاً شَدِيداً ، فَشَكَوْا إِلَى عَائِشَةَ فَقَالَتْ : انْظُرُوا قَبْرَ النَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم فَاجْعَلُوا مِنْهُ كِوًى إِلَى السَّمَاءِ حَتَّى لاَ يَكُونَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ سَقْفٌ . قَالَ : فَفَعَلُوا ، فَمُطِرْنَا مَطَراً حَتَّى نَبَتَ الْعُشْبُ وَسَمِنَتِ الإِبِلُ ، حَتَّى تَفَتَّقَتْ مِنَ الشَّحْمِ ، فَسُمِّىَ عَامَ الْفَتْقِ ) .
سنن الدارمي (1/56) رقم (92) .

ترجمہ : اوس بن عبد اللہ فرماتے ہیں ، اہل مدینہ شدید قحط میں مبتلا ہوگئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے یہ حالت بیان کی ، انہوں نے فرمایا : جاؤ قبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اوپر کی طرف سے تھوڑا سا کھول دو ، اس طرح کہ قبر اور آسمان کے درمیان کوئی چھت نہ ہو ، کہتے ہیں : لوگوں نے ایسا ہی کیا ، تو اللہ تعالی نے اتنی بارش نازل فرمائی کہ ہر طرف ہریالی پھیل گئی ، اونٹ اس قدر سیر ہوگئے کہ چربی کی وجہ سے ان کے جسمانی اعضاء الگ الگ نظر آنے لگے ، اس مناسبت سے اس سال کو ’ عام الفتق ‘ کا نام دیا گیا ۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت درجِ ذیل وجوہات کی بنا پر قابل حجت نہیں:
اول : مذکورہ روایت کی سند کے بارے محدثين اور فن رجال کے علما کی رائے یہ ہے کہ ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں موجود ایک راوی سعید بن زید کے بارے میں علما کی آراء یوں ہیں:
1- حافظ ابن حجر: زبان کا سچا تھا لیکن وہم میں مبتلا ہوجاتا تھا ۔
2- امام ذہبی نے ''میزان الاعتدال'' میں اس کے بارے میں یحیی بن سعید کا قول نقل کیا ہے کہ: یہ ضعیف ہے۔
3- علامہ سعدی: یہ بندہ قابل حجت نہیں علما اس کی حدیثوں کو ضعیف گردانتے ہیں۔
4- امام نسائی کا کہنا ہے کہ یہ قوی نہیں۔
اسی لئے علامہ البانی نے بھی اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔
دوم : ایک دوسرے راوی ابو نعمان جس کا نام محمد بن الفضل ہے، اگرچہ ثقہ راوی ہے مگر آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہوا تھا یعنی ضعف حافظہ کے سبب آخری عمر میں صحیح و ضعیف کو مکس کر کے بیان کیا کرتا تھا، علم حدیث میں ایسے مختلط راوی کا حکم یہ ہے کہ جو روایات اختلاط سے قبل کی ہوں وہ مقبول ہوتی ہیں جو اختلاط کے بعد ہوں وہ ناقابل قبول جبکہ جن روایات کے بارے میں علم نہ ہو کہ اختلاط سے قبل کی ہیں یا بعد کی وہ بھی مشکوک ہونے کی بنا پر مقبول نہیں ہوتی، اور مذکورہ روایت بھی انہی میں سے ہے اس کے بارے میں واضح نہیں کہ یہ اختلاط سے پہلے کی ہے یا بعد کی۔
سوم : تاریخی حوالے سے ثابت ہے کہ حضرت عائشہؓ کی زندگی میں حجرۂ عائشہ، جس میں نبیﷺ کی قبر تھی اپنی اسی حالت میں برقرار تھا جس صورت میں نبیﷺ کے زمانے میں تھا یعنی کچھ حصے پر چھت لگی ہوئی اور کچھ حصہ بغیر چھت کے کھلا، مطلب قبر نبیﷺ ایسی نہیں تھی کہ مکمل ڈھکی ہوئی ہو، جیسے کہ صحیحین میں عائشہؓ سے مروی ہے کہ آپﷺ جب عصر کی نماز پڑھتے اس وقت حجرے میں دھوپ پڑ رہی ہوتی تھی۔
اور یہ ثابت نہیں کہ آپﷺ کے بعد عائشہؓ کی زندگی میں حجرے میں کوئی ایسی تبدیلی کی گئی ہو جس کی وجہ سے قبر مبارک ڈھک گئی ہو لہذا اس میں سوراخ بنانے کا سوال ہی بے معنی ہے، حجرۂ عائشہ کو ولید بن عبدالملک نے اپنے عہد میں مسجد میں شامل کیا جب انہوں نے مسجد نبوی کی توسیع کی، پھر ولید ہی نے حجرۂ عائشہ یا بالفاظ دیگر قبر نبی کے گرد اونچی دیوار کھڑی کر کے ڈھک دی اور مذکورہ سوراخ رکھا تاکہ صفائی وغیرہ کے لئے اندر اترا جا سکے۔
چہارم : رہی توسل کی بات وہ اس لئے بھی درست نہیں کہ اصحاب کرام ؓ آپ ﷺ کے بعد مختلف مصائب کا شکار ہوتے رہے، قحط سالیاں بھی آئیں مگر ان حالات میں کسی نے بھی آپﷺ کی قبر سے اس انداز میں وسیلہ نہیں لیا بلکہ جو صحیح ثابت ہے وہ یوں ہے کہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں جب خشک سالی آئی تو آپؓ قبر مبارک کے توسط سے مانگنے یا سوراخ وغیرہ بنانے کے بجائے حضرت عباس ؓ کو لے کر استسقاء کے لئے گئے۔
اس ثابت حدیث سے معنوی مخالفت کی وجہ سے بھی سوراخ والی حدیث قابل اعتبار نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب​
نوٹ : اس روایت پر کیا گیا کلام یہاں سے ماخوذ ہے ، جس کی اردو ترجمانی ہمارے ایک ادیب دوست محترم زاہد سعید صاحب نے کی ہے ۔
1۔امام ذہبی ،الکاشف میں لکھتے ہیں کہ سعید بن زید پر ضعف کا الزام لگانا صحیح نہیں کیونکہ امام مسلم نے اس سے روایات لی ہیں اور ابن معین نے اسے ثقہ کہا ہے(ج1 ص286)
حافظ ابن حجر عسقلانی نے مفصل بیان کیا ہے
امام بخاری نے کہا کہ مسلم بن ابراہیم نے ہم سے بیان کیا کہ سعید بن زید ابو الحسن صدوق اور حافظ ہے(التاریخ الکبیر ج 3 ص 472)
ابن سعد نے اسے ثقہ کہا ہے(الطبقات الکبری ج 7 ص 287(
امام احمد بن حنبل نے اس کو لیس بہ باس کہا ہے جس کا معنی ہے ہ اس پر کوئی اعتراض نہیں یعنی وہ بالکل صحیح ہے (میزان اعتدال ج 2 ص 138)ابن معین لیس بہ باس سے ثقہ راوی مراد لیتے ہیں (لسان المیزان (ج 1 ص 13)
ابن عدی نے بھی اس کو صدوق و حافظ کہا (3۔1212)اس کے علاوہ محدث ابن الصلاح نے المقدمۃ مں ،امام صخاوی نے فتح المغیث میں ابن حجر نے ھدی الساری میں اور امام نووی کی التقریب و التیسیر نے لیس بہ باس اور ثقہ کی اصطلاحوں کو یکساں قرار دیا ہے اور تیسری صڈی ہجری کے بھی بہت سے محدثین کا یہی موقف ہے مثلا ابن معین ،ابن المدینی وغیرہ
2۔اور جہاں تک بات ابو نعمان کی تو تغیر موت سے پہلے واقع ہوا مگر اس کے بعد انہوں نے روایے نہیں کی(الکاشف ج 3 ص 79)
باقی اعتراضات کا جواب کچھ عرصے بعد
گئے حجاب کے دن آو سامنے بیٹھو
نقاب رخ سےہٹاو بہار آئی ہے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
1۔امام ذہبی ،الکاشف میں لکھتے ہیں کہ سعید بن زید پر ضعف کا الزام لگانا صحیح نہیں کیونکہ امام مسلم نے اس سے روایات لی ہیں اور ابن معین نے اسے ثقہ کہا ہے(ج1 ص286)
حافظ ابن حجر عسقلانی نے مفصل بیان کیا ہے
امام بخاری نے کہا کہ مسلم بن ابراہیم نے ہم سے بیان کیا کہ سعید بن زید ابو الحسن صدوق اور حافظ ہے(التاریخ الکبیر ج 3 ص 472)
ابن سعد نے اسے ثقہ کہا ہے(الطبقات الکبری ج 7 ص 287(
امام احمد بن حنبل نے اس کو لیس بہ باس کہا ہے جس کا معنی ہے ہ اس پر کوئی اعتراض نہیں یعنی وہ بالکل صحیح ہے (میزان اعتدال ج 2 ص 138)ابن معین لیس بہ باس سے ثقہ راوی مراد لیتے ہیں (لسان المیزان (ج 1 ص 13)
ابن عدی نے بھی اس کو صدوق و حافظ کہا (3۔1212)اس کے علاوہ محدث ابن الصلاح نے المقدمۃ مں ،امام صخاوی نے فتح المغیث میں ابن حجر نے ھدی الساری میں اور امام نووی کی التقریب و التیسیر نے لیس بہ باس اور ثقہ کی اصطلاحوں کو یکساں قرار دیا ہے اور تیسری صڈی ہجری کے بھی بہت سے محدثین کا یہی موقف ہے مثلا ابن معین ،ابن المدینی وغیرہ
2۔اور جہاں تک بات ابو نعمان کی تو تغیر موت سے پہلے واقع ہوا مگر اس کے بعد انہوں نے روایے نہیں کی(الکاشف ج 3 ص 79)
باقی اعتراضات کا جواب کچھ عرصے بعد
گئے حجاب کے دن آو سامنے بیٹھو
نقاب رخ سےہٹاو بہار آئی ہے
آپ اپنی بات مکمل کرلیں ۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

10 سے 15 سال کے درمیاں پہلی مرتبہ یہ پوسٹ اس عبارت اور تصویر کے ساتھ پیش کی گئی تھی بغیر کسی ریفرنس کے۔

فورمز میں پوسٹ کے مطابق پہلی تھیوڑی
"ایک مرتبہ مدینہ میں کسی انسان نے گنبد خضرا کو معاذ الله شہید کرنے کا ارادہ کیا اور وہ اس مقام پر اس بد ارادے سے پہنچا مگر ایک تیز بجلی کی گونج نے اس انسان کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور جب اسکی لاش وہاں سے ہٹائی جانے لگی تو ایسا نہ ہو سکا۔ پھر ایک بزرگ شخص کے خواب میں یہ آیا کہ اس انسان کی اسی مقام پر قبر بنا دی جائے تاکہ یہ سب کے لیے عبرت کا نشان بن جائے اور آیندہ کوئی ایسی جرات دوبارہ نہ کر سکے۔ اسکے بعد اس انسان کی وہیں قبر بنا دی گئی اور اس پر سبز رنگ کر دیا گیا۔"



==============

جواب میں مجھے یہ ایکس رے تصویر اس وقت کسی عربی انجینئرنگ سائٹ سے ملی تھی جس پر جواب کے لئے نمبرز میرے ہاتھ سے لکھے ہوئے ہیں، فورمز تو بند ہو چکے ہوئے ہیں مگر یہ تصویر گوگل سے مل گئی ھے۔ اس میں دکھایا گیا ھے کہ یہ ونڈوز "سن لائٹ، ایئر وینٹیلیشن، روف مینٹیننس" وغیرہ کے لئے ہوتی ہیں۔


یہ تصویر جو 10 سال پہلے جواب میں میں نے پیش کی تھی اس پر بھی میرے ہاتھ سے ایڈیٹگ ھے۔ دوسری اس تصویر میں ایڈٹنگ ھے یہ بعد کی ھے مگر یہ کسی اور مسئلہ پر ھے جس پر پھر کبھی۔


نیچے والی تصویر میں دیکھیں یہاں گھروں میں مختلف طریقہ سے یہ ونڈورز گھروں کے اوپر لگائی جاتی ہیں جس میں سے ایک گنبد ونڈوز کے مشابہت رکھتی ھے۔


ایک واقعۃ سعود بن عبد العزیز کے دور کا ہے، یعنی لگ بھگ 90 سال پرانا، "تاریخ نجد و حجاز" از مفتی غلام فرید ہزاروی صاحب "باب نمبر: 4، صفحہ نمبر: 3، ایک واقعہ کہ جو آدمی قبہ شریفہ (یعنی گنبد خصرا) کو شہید کرنے کی نیت سے اوپر چڑھے تھے، ان میں سے 2 آدمی نیچے گر کر ہلاک ہو گئے۔۔۔

دوسری تھیوڑی
" مدینہ کے لوگ سخت قحط میں مبتلا ہو گئے، تو انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا سے اپنی بدحالی کی شکایت کی، آپ رضی اللہ تعالی عنھا نے فرمایا، حضور نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی قبر مبارک کے پاس جاؤ، اور اس سے ایک کھڑکی آسمان کی طرف اس طرح کھولوکہ قبر انور اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ رہے راوی کہتے ہیں، کہ انہوں نے ایسا ہی کیا، پس پھر بہت زیادہ بارش ہوئی حتی کہ خوب سبزہ اگ آیا اونٹ اتنے موٹے ہو گئے کہ جیسے چربی سے پھٹ پڑیں گے، لہذا اس سال کا نام ہی "عام الفتق" (سبزہ و کشادگی کا سال) رکھ دیا گیا"۔
اس حدیث مبارکہ کو روایت کیا ہے، امام دارمی، نے ابو الجوزاء اوس بن عبداللہ سے صحیح اسناد کے ساتھ۔،
مزید اس کے حوالہ جات کچھ یوں ہے،۔۔
سنن دارمی:1:43، رقم: 93
الوفاء باحوال المصطفی، 2:801
شفاء السقام:128
المواہب اللدنیہ، 4:276
شرح الزرقانی، 11:150


تیسری تھیوڑی
عائشہ رضی اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل میں روضہ اقدس کی کھجور کی ٹہنیوں سے بنی چھت پر جو روشن دان بنایا گیا تھا ، وہ سنت ان گمبدوں پر بھی قائم رکھی گئی۔

میری رائے کے مطابق پہلی تھیوڑی کسی بھی طرح درست نہیں، دوسری پر مسلکی اختلاف ھے ہو سکتا ھے وہ درست ہو مگر تیسری تھیوڑی سمجھ میں آتی ھے۔ واللہ اعلم۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
جزاکم اللہ خیرا۔
جواب میں مجھے یہ ایکس رے تصویر اس وقت کسی عربی انجینئرنگ سائٹ سے ملی تھی جس پر جواب کے لئے نمبرز میرے ہاتھ سے لکھے ہوئے ہیں، فورمز تو بند ہو چکے ہوئے ہیں مگر یہ تصویر گوگل سے مل گئی ھے۔ اس میں دکھایا گیا ھے کہ یہ ونڈوز "سن لائٹ، ایئر وینٹیلیشن، روف مینٹیننس" وغیرہ کے لئے ہوتی ہیں۔

اس تصویر میں جو وضاحت انگلش میں ہے ، وہ اسی ترتیب سے اردو میں پیش کرسکتے ہیں ؟
 
Top