• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہجرت کی رات اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر سونا

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
شیخ محترم @اسحاق سلفی حفظہ اللہ
شیخ محترم @خضر حیات حفظہ اللہ

اس روایت کے متعلق بتلا دیں کہ یہ روایت صحیح ہے یا نہیں اور دوسری بات یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت دن میں کی تھی یا رات میں ؟ اور اگر دن میں ہجرت کی تھی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بستر پر سلانے کا کیا معنی؟


ہجرت کی رات اور امیر المؤمنین علیؓ!

امام ابو عبد اللہ الحاکم النیشاپوری (المتوفیٰ: ۴۰۵ھ) نے فرمایا:

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ، ثنا زِيَادُ بْنُ الْخَلِيلِ التُّسْتَرِيُّ، ثنا كَثِيرُ بْنُ يَحْيَى، ثنا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بَلْجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: " شَرَى عَلِيٌّ نَفْسَهُ، وَلَبِسَ ثَوْبَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ نَامَ مَكَانَهُ، وَكَانَ الْمُشْرِكُونَ يَرْمُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلْبَسَهُ بُرْدَةً، وَكَانَتْ قُرَيْشٌ تُرِيدُ أَنْ تَقْتُلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَعَلُوا يَرْمُونَ عَلِيًّا، وَيَرَوْنَهُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ لَبِسَ بُرْدَةً، وَجَعَلَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَتَضَوَّرُ، فَإِذَا هُوَ عَلِيٌّ فَقَالُوا: إِنَّكَ لَتَتَضَوَّرُ، وَكَانَ صَاحِبُكَ لَا يَتَضَوَّرُ وَلَقَدِ اسْتَنْكَرْنَاهُ مِنْكَ
ترجمہ:
حضرت ابن عباسؒ نے فرمایا: حضرت علیؓ نے اپنی جان کی بازی لگادی، اور نبی کریم ﷺ کی چادر اوڑھ کر ان کی جگہ لیٹ گئے۔ اس سے قبل مشرکین رسول اللہ ﷺ کو اذیتیں دیا کرتے تھے۔ ہجرت کی رات رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ کو اپنی چادر اوڑھائی تھی۔جبکہ قریش معاذ اللہ رسول اللہ کو شہید کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ، ان لوگوں نے حضرت علیؓ کو رسول اللہ ﷺ سمجھ کر اذیتیں دینا شروع کردیں، (ان کی تکالیف دینے کی وجہ سے) حضرت علیؓ پیچ و تاب کھانے لگے۔ اس وقت ان کو اندازہ ہوگیا کہ یہ تو علیؓ ہیں رسول اللہ ﷺ نہیں۔ تب وہ بولے: تم مجبور سے معلوم ہورہے ہو جبکہ تمہارا ساتھی (یعنی رسول اللہ ﷺ) اس طرح نہیں مجبور ہوتے تھے، اور ہمیں اصل دشمنی اسی سے ہے۔
[المستدرك على الصحيحين للحاكم، جلد ۳، صفحہ نمبر ۵، رقم: ۴۲۶۳]

اس حدیث کو امام حاکمؒ اور امام ذہبی دونوں نے صحیح کہا۔

اس روایت کے ایک راوی کثیر بن یحیی ہیں جو کہ شیعہ ہے اور ابن حجر رحمہ اللہ کے شیعہ راوی کے متعلق جو اصول ہیں اس اصول کے تحت کثیر بن یحیی کس درجے میں آتا ہے؟

جزاک اللہ خیرا
 
Last edited by a moderator:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
اس روایت کے متعلق بتلا دیں کہ یہ روایت صحیح ہے یا نہیں
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی !
یہ حدیث حسن یا صحیح ہے ،
کیونکہ جیسا کہ آپ نے لکھا کہ امام حاکمؒ نے اسے صحیح کہا ہے :
«هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ» اور امام الذہبیؒ نے تلخیص المستدرک میں امام حاکم کی موافقت کی ہے ،یعنی انہوں نے بھی اسے صحیح کہا ہے ،
اور
نیز دیکھئے :صحيح السيرة النبوية-إبراهيم العلي ( صفحہ 120 )
https://archive.org/details/FP13547/page/n119
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے ایک راوی (ابو بلج الفزاری الواسطی ) کی توثیق میں اختلاف ہے ،امام یحیی بن معینؒ ،امام ابن سعدؒ ،امام نسائیؒ ،اور امام دارقطنیؒ اسے ثقہ کہتے ہیں ،جبکہ امام بخاریؒ نے اس کے متعلق (فیہ نظر ) کہہ کر جرح کی ہے ، جو ان کی اصطلاح میں شدید جرح ہے ،،تہذیب الکمال فی اسماء الرجال میں ہے کہ :
قال إسحاق بْن منصور ، عَن يحيى بْن مَعِين: ثقة.
وكذلك قال مُحَمَّد بْن سعد ، والنَّسَائي، والدَّارَقُطنِيّ .
وقَال البُخارِيُّ : فيه نظر.
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہی روایت مزید کچھ تفصیلات کے ساتھ مسند احمد ؒ میں اس طرح منقول ہے :
"حدثنا يحيى بن حماد حدثنا أبو عَوَانة حدثنا أبو بَلْج حدثنا عمرو بن ميمونة قال: إني لجالس إلى ابن عباس: إذْ أتاه تسعةُ رهط، فقالوا: يا أبا عباس، إما أن تقوم معنا وإما أن/ يُخْلونَا هؤلِاء، قال: فقال ابِن عباسٍ: بل أقوم معكم، قال: وهو يومئذ صحيح قبل أن يَعْمَى، قال: فابتَدؤا فتحدَّثوا، فلا ندري ما قالوا، قال: فجاء ينْفُض ثوبه ويقول: أُفْ وتُفْ!، وقعوا في رجل له عَشْرٌ، وقعوا في رجل قال له النبي - صلى الله عليه وسلم -: "لأبعثن رجلاً لا يخزيه الله أبداً، يحبُّ الله ورسوله"، قال: فاستشرف لها من استشرف، قال؟ "أين علي؟ "، قالوا: هو في الرحْل يَطْحَنُ، قال: "وِما كان أحدُكم ليطحنَ؟! "، قال: فجاء وهو أَرمَدُ لا يكاد يبصر، قِال: فنَفثَ في عينيه ثم هزّ الراية ثلائاً فأعطاها إياه، فجاء بصفيةَ بنت حُييّ، قال: ثم بعث فلاناً بسورة التوبة،
فبعث عليّاً خلفَه فأخذها منه، قاَل: "لا يذهب بها إلا رجل مني وأنا منه"، قال: وقال لبني عمه: "إيُّكم يُواليني في الدنيا والآخرة؟ "، قال: وعليُّ معه جالس، فأبَوْا، فقال على: أنا أُوَاليك في الدنيا والآخرة، قال: "أنت وليي في الدنيا والآخرة"، قال: فتركه، ثم أقبل على رجل منهم فقال: "أيكم يواليني. في الدنيا والآخرة؟ "، فأبوا، قال: فقال علي: أنا أُوَاليك في الدنيا والآخرة، فقال: "أنت وليي في الدنيا والآخرة"، قال: وكان أولَ من أسلم من الناس بعد خديجة، قال: وأخذ رسول الله-صلي الله عليه وسلم- ثوبه فوضعه على عليّ وفاطمة وحسن وحسين فقال: {إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا} قال: وشِرى علىّ نفسه، لبس ثوب النبي - صلى الله عليه وسلم - ثم نام مكانه، قال: وَكان المشركون يرْمون رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، فجاء أبو بكر وعلي نائم، قال: وأبو بكر يَحْسب أنه نبي الله، قال: فقال: يا نبي الله، قال: فقال له على إن نبي الله - صلى الله عليه وسلم - قد انطلق نحو بئر ميمون فأدْركْه، قال: فانطلِق أبو بكر فدخل معه الغار، قال: وجعل على يُرْمى بالحجارة كما كانَ يُرْمى نبي الله وهو يتضوّر، قد لَفَّ رأسَه في الثوب لا يخِرجه، حتى أصبح، تم كشَف عن رأسه، فقالوا: إنك لَلَئيم!، كان صاحبُك نرْمِيه فلا يتضوّر وأنت تتضوّر، وقد استنكرنا ذلك!، قال: وخرج بالناس في غزوة تبوك، قال: فقال له علي: أخرجُ معك؟، قال: فقال له نبي الله: "لا"، فبكى عليُّ، فقال له: "أما
ترضى أن تكون منّي بمنزلة هرون من موسى؟، إلا أنك لحست بنبي، إنه لا ينبغي أن أذهب إلا وأنت خليفتي"، قال: وقال له رسولِ الله: "أنت وليي في كل مؤمن بعدي"، وقال: "سدُّوا أبواب المسجد غيير باب عليّ". فقال: فيدخل المسجد جُنباً وهو طريقه، ليس له طريق غيره، قال: وقال: "من كنتُ ولاه فإن مولاه علىّ"، قال: وأخبرنا الله عز وجل في القرآن أنه قد رضي عنهم، عن أصحاب الشجرة، فعلم ما في قلوبهم، هل حدَّثنا أنه سخط عليهمِ بعدُ؟!، قال: وقال نبي الله - صلى الله عليه وسلم - لعمر حين قال ائذن لي فلأَضْرِبْ عنقه، قال: "أوَ كنتَ فاعلاً؟!، وما يدريك لعل الله قد اطَّلع إلى أهل بدر فقال: اعملوا ما شئتم".

(مسند احمد بتحقیق الشیخ احمد شاکرؒ جلد 3 صفحہ 331 )
شیخ احمد شاکرؒ اسے اسنادہ صحیح بتاتے ہیں لکھتے ہیں :

إسناده صحيح، أبو بلج، بفتح الباء وسكون اللام وآخره جيم: اسمه "يحيى بن سليم" ويقال "يحيى بن أبي الأسود" الفزاري، وهو ثقة، وثقه ابن معين وابن سعد والنسائي والدارقطني وغيرهم، وفي التهذيب أن البخاري قال: "فيه نظر"! وما أدري أين قال هذا؟، فإنه ترجمه في الكبير 4/ 2/ 279 - 280 ولم يذكر فيه جرحاً، ولم يترجمه في الصغير، ولا ذكره هو والنسائي في الضعفاء، وقد روى عنه شعبة، وهو لا يروي إلا عن ثقة. عمرو بن ميمون: هو الأودي، وهو تابعي ثقة، وأخرج له أصحاب الكتب الستة.
والحديث في مجمع الزوائد 9: 119 - 120 وقال: "رواه أحمد والطبراني في الكبير والأوسط باختصار، ورجال أحمد رجال الصحيح، غير أبي بلج الفزاري، وهو ثقة وفيه لين"

دیکھئے مسند امام احمد بتحقیق احمد شاکرؒ جلد3 ص331
https://archive.org/stream/WAQmusndaWAQ/musnda03#page/n330/mode/2up

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہی روایت امام احمد ؒ نے فضائل الصحابہ میں بھی روایت کی ہے ،کتاب "
فضائل الصحابہ " کے محقق علامہ شیخ وصي الله محمد عباس نے اس حدیث کو "حسن " کہا ہے :
دیکھئے فضائل الصحابة (1168)ص 849
https://archive.org/details/fshabafshaba/page/n848
فضائل الصحابہ کے دوسرے نسخہ میں
https://archive.org/stream/wahawaha/fshaba#page/n682/mode/2up

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
دوسری بات یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت دن میں کی تھی یا رات میں ؟ اور اگر دن میں ہجرت کی تھی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بستر پر سلانے کا کیا معنی؟
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کیلئے رات کو گھر سے نکلے تھے و
تفصیل اور حوالہ کیلئے دیکھئے :السيرة النبوية في ضوء المصادر الأصلية دراسة
مهدي رزق الله أحمد ،صفحہ 270
https://archive.org/details/FPsndma/page/n269
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
جزاک اللہ خیرا محترم شیخ اللہ آپ کے علم و عمل میں مزید برکت دے آمین ۔

شیخ محترم اس متعلق میرے علم میں اضافہ کر دیں ۔ جزاکم اللہ خیرا
اس روایت کے ایک راوی کثیر بن یحیی ہیں جو کہ شیعہ ہے اور ابن حجر رحمہ اللہ کے شیعہ راوی کے متعلق جو اصول ہیں اس اصول کے تحت کثیر بن یحیی کس درجے میں آتا ہے؟
 

Talha Salafi

مبتدی
شمولیت
ستمبر 19، 2018
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
28
@اسحاق سلفی شیخ صاحب مستدرک الحاکم کی اس روایت پر شیخ مقبل بن ہادی نے بھی ضعیف کاحکم لگایا ہے، ، أبو بلح يحيى بن سليم الفزاري" کی وجہ سے؟؟؟؟
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
حافظ انور زاہد حفظہ اللہ نے اپنی کتاب ”ضعیف اور من گھڑت واقعات“ جلد 1 صفحہ 260 پر اس قصہ پر گفتگو کی ہے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
@اسحاق سلفی شیخ صاحب مستدرک الحاکم کی اس روایت پر شیخ مقبل بن ہادی نے بھی ضعیف کاحکم لگایا ہے، ، أبو بلح يحيى بن سليم الفزاري" کی وجہ سے؟؟؟؟
شیخ احمد شاکرؒ اسے اسنادہ صحیح بتاتے ہیں لکھتے ہیں : (إسناده صحيح )
(مسند احمد بتحقیق الشیخ احمد شاکرؒ جلد 3 صفحہ 331 )

اور یہی روایت امام احمد ؒ نے فضائل الصحابہ میں بھی روایت کی ہے ،کتاب "
فضائل الصحابہ " کے محقق علامہ شیخ وصي الله محمد عباس نے اس حدیث کو "حسن " کہا ہے :
دیکھئے فضائل الصحابة (1168)ص 849
https://archive.org/details/fshabafshaba/page/n848
 
Top