• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہرنماز کے بعد آيۃ الکرسی پڑھنے والی حدیث کی صحت !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ہرنماز کے بعد آيۃ الکرسی پڑھنے والی حدیث کی صحت

مندرجہ ذیل حدیث کے بارہ میں آپ کیا کہتے ہیں ؟

ابوامامۃ رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( جس نے ہرفرضی نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھی اسے موت کے علاوہ کوئ چيز جنت میں جانے سے نہیں روک سکتی ) ۔

الحمد للہ:

اس حدیث کوامام نسائ رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب " عمل الیوم واللیلۃ " اور ابن سنی نے بھی " عمل الیوم واللیلۃ " اورطبرانی نے " معجم الکبیر " میں محمد بن حمیر عن محمد بن زیاد الالھانی عن ابی امامۃ رضي اللہ تعالی عنہ سے نقل کیا ہے ۔
اور اس کی اسناد میں کوئ حرج نہیں اور ابن حبان رحمہ اللہ تعالی نے کتاب الصلاۃ میں اورامام منذری اور ابن عبدالھادی اور عبن کثیر رحمہم اللہ تعالی نے صحیح کہا ہے ۔

اورابن جوزی رحمہ اللہ تعالی نے مبالغہ کرتے ہوۓ اسے اپنی کتاب " الموضوعات " میں ذکرکرتے ہوۓ اس کی موافقت نہیں کی ۔

اوراس حدیث کو محمد بن زیاد الھانی سے روایت کرنے میں محمد بن حمیر متفرد ہے یعنی اس کے علاوہ کسی اورنےالھانی سے یہ روایت نقل نہیں کی تواس بنا پرحدیث کی سند میں علت کا احتمال ہے ، اورخاص طور پرجبکہ فسوی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ محمد بن حمیر لیس بالقوی ، یہ قوی نہیں ۔

لیکن ابن معین رحمہ اللہ تعالی نے اس کی مخالفت کی اور محمد بن حمیر کو ثقہ قرار دیا ہے ، اورامام احمد کہتے ہیں کہ ، میں نے تو اس میں خیرکے علاوہ کچھ نہیں پایا ( ماعلمت الاخیرا ) اورامام نسائ رحمہ اللہ تعالی نے لاباس بہ کہا ہے ۔

تواس طرح یہ حدیث صحیح کے درجہ تک نہیں بلکہ جید درجہ تک پہنچتی ہے ، اور اس طرح کی جید درجہ کی احادیث کئ ایک وجوہ سے قابل قبول ہے :

اول :

اس لیے کہ امام نسائ رحمہ اللہ تعالی نے روایت کیا اور اس کی کوئ علت بیان نہیں کی بلکہ اسے صحیح کہا اوراحادیث مختارہ میں ذکرکیا ہے ۔

دوم :

اس لیے کہ یہ حدیث اصول احکام میں سے نہیں ۔

سوم :

جب تفرد بیان کرنے والے راوی کے ضبط پر کوئ قرینہ دلالت کررہا ہوتو صدوق بالحدیث کا تفرد قابل قبول ہے ، تومحمد بن حمیر کا تفرد بھی اس طرح کا ہے ، اورپھر اس حدیث کے کئ اورشواھد بھی ہیں ، مثلا مغیرہ بن شعبہ اور ابومسعود اور علی بن ابی طالب رضي اللہ تعالی عنہم ، اور ان میں کوئ ایک بھی صحیح نہیں ۔ واللہ تعالی اعلم .

الشیخ سلیمان بن ناصر العلوان

http://islamqa.info/ur/9786
 
Top