• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہلال اور وحدت ِاُمت

محمد عاصم

مشہور رکن
شمولیت
مئی 10، 2011
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
1,027
پوائنٹ
104
بسم اﷲ الرحمن الرحیم​
ہر طرح کی تعریفیں اللہ رب العالمین کو ہی سزاوار ہیں جس نےیہ سب کائناتیں صرف چھ۶دن میں بنائیں اوراسعظیم ذات کوزرہ سی بھی تھکن نہ ہوئی،اے اللہ تیری حمد ہو اتنی جتنے درختوں کے پتے ہیں،تیری حمد ہو اتنی جتنے دن اور راتیں ہیں،تیری حمد ہو اتنی جتنے سب کائناتوں میں موجود ذرات ہیں،اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں محمد علیہ السلام پرآپ کی آل رضی اللہ عنہم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ​
يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْاَهِلَّةِ ۭ قُلْ ھِىَ مَوَاقِيْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ۭ

یہ آپ سے ہلال (نئے چاند) کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہیے کہ یہ انسانوں کے لئے تاریخیں مقرر کرنے کے لئے ہے اور حج (کی تاریخ مقرر کرنے )کے لئے بھی۔
البقرہ۔ ۱۸۹
آیت ِبالا سے واضح ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے ہلال (نئے چاند)کو انسانوں کے لئے تاریخیں مقرر کرنے کا ذریعہ بنایا ہے اور اور حج (کی تاریخ مقرر کرنے)کا بھی ذریعہ بنایاہے۔

یہ بات واضح ہے کہ عام انسانوں کے لئے عموماًاور اہل ِایمان کے لئے خصوصاً تاریخوں کے تقرر کی ضرورت ہی اس لئے ہے تاکہ اجتماعی مواقع (حرام مہینوں کے آغازواختتام،حج، عیدین وغیرہ) کے دِنوں کے لئے ان کے درمیان وحدت پیدا ہو۔ آیت میں ہلال کے تاریخیں مقررکرنے کے ذریعے کے ساتھ ساتھ حج(انسانوں کے سب سے بڑے اجتماع) کی تاریخ مقررکرنے کاذریعہ ہونے کے ذکر سے بھی واضح ہوتا ہے کہ تاریخیں روئیت ِہلال (چانددیکھے جانے )سے شروع ہوتی ہیں ۔

تاریخیں انسانوں کے اجتماعی مواقع کے دِنوں کے لئے ان کے درمیان وحدت پیداکرنے کے لئے ہوتی ہیں ورنہ تاریخوں کے نظام کی ضرورت ہی نہیں رہتی ہے۔ انسانوں کے مابین اجتماعی مواقع پر وحدت تب ہی پیدا ہو سکتی ہے جب ان کے مابین تاریخوں کے آغازواختتام کے ایک دن کا نظام رائج ہو ، ایسا تب ہی ہوسکتا ہے جب کرہ ِ ارض پر ہونے والی ہلال کی پہلی روئیت کرہِ ارض کے تمام انسانوں کو قبول ہو اورآیات واحادیث اور زمینی حقائق سے واضح ہوتا ہے کہ ایسا ہونالازم ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ​
جَعَلَ اللّٰهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِــيٰمًا لِّلنَّاسِ وَالشَّهْرَ الْحَرَامَ وَالْهَدْيَ وَالْقَلَاۗىِٕدَ ۭذٰلِكَ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ وَاَنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ 97؀
بنایا ہے اللہ نے کعبہ کو ،جو حرمت والاگھرہے ، اجتماعیت کے قیام کا باعث انسانوں کے لئے اور حرمت والے مہینوں کو اور قربانی کے جانوروں اورقلادوں کو بھی (بنایااس کام میں معاون)۔ یہ اس لئے تاکہ تم جان لوکہ بے شک اللہ جانتا ہے ہروہ بات جو ہے آسمانوں میں اور جوہے زمین میں، اور بے شک اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔
(۵: المائدہ۔ ۹۷


آیت سے واضح ہوتاہے کہ بیت اللہ ، حرمت والے مہینے ، قربانی کے جانور اور قلادے انسانوں کے لئے اجتماعیت کے قیام کاباعث بنا ئے گئے ہیں ۔ حرمت والے مہینوں میں سے تین مہینے ذوالقعدہ، ذوالحجۃ اور محرم تو خودحج سے متعلق بھی ہیں (کہ ذوالقعدہ میں حج کے لئے سفرشروع ہوتا ہے، ذوالحجۃ میں حج ہوتاہے اور محرم میں حج سے واپسی کا سفر ہوتا ہے)۔ حرمت والے مہینوں کاآغازواختتام ہلال کی روئیت سے ہوگا۔جب دنیا میں کہیں ہلال نظر آ جائے اورمکہ سمیت پوری دنیا میں ہلال ہونے کی گواہی پہنچ جائے تو مکہ اورپوری دنیا میں حرام مہینے کا آغاز ہوجائے گا اور مکہ اورپوری دنیاکے مسلمانوں لئے حج کادن مقرر ہوجائے گا ، نہ کہ ہرملک کے مسلمانوں کے لئے حج کادن اُن کے ملک کی اپنی روئیت ِہلال کی بناپرمقررہوگا ، یوں ’’حج اورحرمت والے مہینے‘‘ مہینوں کے آغازواختتام کے حوالے سے پوری اُمت کی وحدت کا ذریعہ بنیں گے اوراس کے لئے کرہ ِ ارض پرہلال کی پہلی روئیت بنیاد بنے گی جوکہ مغرب (مراکش ،مصر،شام ،عرب وغیرہ)میں ہوتی ہے۔
پاکستان ہر سال ایک دن یا دو دن کا فرق مکہ سے رکھتا ہے اب یہاں ایک مسئلہ بنتا ہے کہ قرآن’’ قدر والی رات‘‘ میں نازل ہوا مگر کونسی میں ؟[
روئیت ِ ہلال کے حوالے سے مکہ میں طاری طاق رات میں نازل ہوا یاروئیت ِ ہلال کے حوالے سے پاکستان میں طاری طاق رات میں نازل ہوا ؟اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ​
اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ

بے شک ہم نے اس (قرآن)کو قدر والی رات میں نازل کیا۔
آیت سے واضح ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو قدر والی رات میں نازل کیا۔ آیت میں ’’ایک‘‘ رات کا ذکر ہے، اور احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ یہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہوتی ہے اب سوال یہ ہے کہ یہ کونسی طاق رات ہوتی ہے؟ روئیت ِ ہلال کے حوالے سے جو طاق رات مکہ (نزولِ سورۃ القدر کے مقام)میں طاری ہوتی ہے؟ یا پاکستان میں روئیت ِ ہلال کے حوالے سے جوطاق رات پاکستان میں طاری ہوتی ہے؟ اگر دونوں مقامات کی طاق رات سمجھی جائے تب یہ’’ رات‘‘ کی بجائے ’’دو راتیں‘‘ ہو جائیں گی(پہلے مکہ والی رات پھرروئیت ِ ہلال میں ایک یادودن کے وقفے کی بناپر پاکستان والی رات)، مگرآیت میں ایک رات کا ذکر ہونے کی بنا پر یہ دو راتوں والا معاملہ غلط ہو جاتا ہے، یوں خودیہ سوال کہ’’ کونسی طاق رات ‘‘؟(روئیت ِہلال کے حوالے سے مکہ والی رات یا پاکستان والی رات؟) قدر والی رات کو واضح کر دیتاہے کہ ’’مکہ والی طاق رات ! ‘‘ جہاں سورۃ القدر نازل ہوئی ، جہاں نبی ﷺ کے وقت میں بھی باہر (مغرب) میں نظرآنے والے ہلال کی گواہی‘‘ قبول کی جاتی تھی(یہ حدیث آگے آئےگی) اورآج بھی قبول کی جاتی ہے اور جہاں خودہلال بھی اکثر مشرق(پاکستان وغیرہ) سے ایک دن پہلے نظرآتا ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ جس وقت مکہ میں طاق رات طاری ہوتی ہے پاکستان میں بھی و ہی رات ہوتی ہے مگر پاکستان میں روئیت ِ ہلال کے حساب سے یہاں یہ رات طاق کی بجائے جفت ہوتی ہے ۔ مغرب ِمکہ اورمکہ میں لوگ طاق رات کو قدر والی رات کے طورپر منا رہے ہوتے ہیں مگر پاکستان والے لوگ ٹھیک اُسی رات ’’اگلی رات کو قدر والی رات کے طور پر منانے کا پروگرام لے کر‘‘ سوئے ہوئے ہوتے ہیں۔ جہاں قرآن کے قدر والی رات میں نازل ہونے والی سورۃ اُتری اُس مقام ’’مکہ ‘‘کو اورقدر والی رات کوذہن رکھیں اورذراسوچیں کہ حقیقت میں کونسی رات سامنے آتی ہے ؟ روئیت ہلال کے حساب سے مکہ والی طاق رات یاپاکستان والی رات؟ یقیناً مکہ والی طاق رات ! یہ رات پاکستان میں بھی طاری ہے مگر پاکستان والے مکہ کی روئیت نہ ماننے کی بنا پر اب اگلی رات کو جاگیں گے توکیاوہ حقیقت میں جفت رات میں جاگیں گے یا طاق رات میں جاگیں گے ؟


برصغیر کے علماء ہلال کے معاملے میں
احادیث کو جزو پر لگانے اور کل پر نہ لگانے کی بنا پر اُمت سے الگ ہوئے ہیں
مغرب میں ہلال کی پہلی تاریخ سے ایک دن بعد(اور بعض اوقات دو دن بعد) ہلال کی پہلی تاریخ اختیار کرنا عام طور پر برصغیر کے ملکوں کا دستورہے اور ایسا ذیل کی حدیث سے غلط استدلال لینے کی بنا پر ہوا ہے
غُمَّ عَلَیْکُمْ فَصُوْمُوْا ثَلٰثِیْنَ یَوْمًا۔
تم جب چاند دیکھو تب روزہ رکھو اور جب تم اسے دیکھو تب ہی افطارکرو پھر اگر تم پرچاند گم رہے تو تیس دن کے روزے پورے کرو۔
( مسلم:کتاب الصیام۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ


اس حدیث میں چاند دیکھ کر روزہ رکھنے اور دیکھ کر ہی افطار کرنے کا حکم ہے، لیکن جب علما ء سے کہا جاتا ہے کہ ہلال ہونے کی ’’گواہی‘‘ ملنابھی ہلال دیکھنے کے حکم میں داخل ہے کیونکہ نبی ﷺ نے گواہی قبول کی ہے ، یوں دنیا کے کسی حصے میں اگر ہلال نظرآنے کی گواہی مل جائے اس بنا پر پاکستان میں روزہ کیوں نہیں رکھا جا سکتا؟ اور عید کیوں نہیں کی جا سکتی ؟ تو اس سلسلے میں علماء کی طرف سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ روایت پیش کی جاتی ہے
عَنْ کُرَیْبٍ :بِالشَّامِ قَالَ فَقَدِمْتُ الشَّامَ فَقَضَيْتُ حَاجَتَهَا وَاسْتُهِلَّ عَلَيَّ رَمَضَانُ وَأَنَا بِالشَّامِ فَرَأَيْتُ الْهِلَالَ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ ثُمَّ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فِي آخِرِ الشَّهْرِ فَسَأَلَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ثُمَّ ذَکَرَ الْهِلَالَ فَقَالَ مَتَی رَأَيْتُمْ الْهِلَالَ فَقُلْتُ رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ فَقَالَ أَنْتَ رَأَيْتَهُ فَقُلْتُ نَعَمْ وَرَآهُ النَّاسُ وَصَامُوا وَصَامَ مُعَاوِيَةُ فَقَالَ لَکِنَّا رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ السَّبْتِ فَلَا نَزَالُ نَصُومُ حَتَّی نُکْمِلَ ثَلَاثِينَ أَوْ نَرَاهُ فَقُلْتُ أَوَ لَا تَکْتَفِي بِرُؤْيَةِ مُعَاوِيَةَ وَصِيَامِهِ فَقَالَ لَا هَکَذَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
کریبؒ سے روایت ہے کہ میں شام میں تھا میں نے جمعہ کی رات کو (رمضان کا) چاند دیکھا پھر مہینے کے آخر میں مدینہ آیا، میرے سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے سوال کیا اور چاند کا ذکر کیا کہ تم نے کب دیکھا ؟ میں نے کہا کہ جمعہ کی شب کو، انہوں نے پوچھا :تم نے خود دیکھا ؟ میں نے کہا ہاں اور لوگوں نے بھی دیکھا اور روزہ رکھا اور معاویہ ؓ نے بھی روزہ رکھا۔ ابن عباس ؓ نے کہا کہ ہم نے تو ہفتہ کی رات کو دیکھااور ہم تیس روزے پورے کریں گے یا تو چاند دیکھ لیں گے، میں نے کہا : کیا آپ معاویہ ؓ کا چاند دیکھنا اور روزہ رکھنا کا فی نہیں سمجھتے ہیں؟ آپؓ نے کہا کہ نہیں، ایسا ہی حکم کیا ہے ہمیں رسول اللہ ﷺ نے۔


مسلم: کتاب الصیام۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ
حدیث میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’ ھٰکَذَآ اَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ۔ایسا ہی حکم کیا ہے ہمیں رسول اللہ ﷺ نے‘‘ ۔ اب یقینی بات ہے کہ نہ ایسا ہو سکتا ہے کہ صحابی نبی ﷺ پر جھوٹ باندھے اور نہ ایسا ہو سکتا ہے کہ نبی ﷺ نے اپنے قول،فعل یا تقریر کے ساتھ حکم کیا ہو اور وہ حکم کتب احادیث میں کہیں موجودنہ ہولیکن کتب ِاحادیث میں نبی ﷺکا ایسا حکم کہیں نہیں مل سکا ہے کہ ’’ معاویہ کایا اہل ِ شام کایاکسی اور علاقے یا مطلعے کے لوگوں کا چاند دیکھنا اور روزہ رکھنا کافی نہیں سمجھنا ہے۔
یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہاہے کہ ھٰکَذَآ اَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ۔ ’’ایسا ہی‘‘ حکم کیا ہے ہمیں رسول اللہ ﷺ نے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے ان الفاظ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نبی ﷺ کاکوئی حکم پیش نہیں کررہے ہیں بلکہ انہوں نے نبی ﷺ کے کسی حکم سے استدلال کیا ہے،یوں یہ روایت ’’حدیث ِنبویﷺ‘‘کی بجائے محض صحابی کاقول (اثر)ثابت ہوتی ہے اورکتاب وسنت سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صحابہ رضی اللہ عنہم سمیت پوری اُمت کے لئے ’’حجت‘‘صرف اللہ کی نازل کردہ وحی’’آیت ِقرآنی‘‘اور’’حدیث ِنبوی ﷺ‘‘ ہی قرار دی گئی ہے نہ کہ کسی کاقول ۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے ان الفاظ سے کہ ’’ہم تیس روزے پورے کریں گے یا تو چاند دیکھ لیں گے‘‘ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُنہوں نے نبی ﷺ کے اُسی حکم سے استدلال کیا ہے جو اوپر پہلی حدیث میں بیان ہوا ہے کہ ’’تم جب چاند دیکھو تب روزہ رکھو اور جب تم اسے دیکھو تب ہی افطارکرو پھر اگر تم پر چاند گم رہے تو تیس دن کے روزے پورے کرو !‘‘ لیکن نبی ﷺکے اس حکم سے چاند دیکھنے کے حوالے سے دوسرے علاقے سے ملنے والی گواہی کی قبولیت کی نفی ثابت نہیں ہوتی ، جب کہ دوسرے علاقے سے ملنے والی گواہی کی قبولیت کے حوالے سے واضح احادیث ِنبویﷺ موجود ہیں جن میں سے ایک بہت مشہورحدیث درج ذیل ہے
ابوعمیر بن انس بن مالک ؒ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے انصار صحابہ میں سے میرے چچاؤں نے بتایا کہ ہم شوال کا چاند نہ دیکھ سکے اور ہم نے روزے کی حالت میں صبح کی، دن کے آخر میں ایک قافلہ آیا اور اُس نے نبی ﷺ کے سامنے شہادت دی کہ ہم نے کل چاند دیکھا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں روزہ افطار کرنے کا حکم دیا اور یہ بھی کہ صبح عید کے لئے نکلیں۔
ابن ِماجہ: کتاب الصیام۔ ابوعمیر بن انس بن مالک ؒ
درج بالا حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ جس علاقے میں قافلہ والوں نے چاند دیکھا تھا اُس علاقے کا مطلع اور مدینے کا مطلع الگ الگ تھا ورنہ اُس علاقے میں نظر آنے والاہلال مدینے میں بھی نظر آنا چاہیے تھا۔ دوسرے مطلعے والے علاقے سے آنے والی روئت ِ ہلال کی گواہی مانے جانے کی واضح حدیث کی موجودگی کے بعد علماء کے لئے دو میں سے ایک فیصلہ اختیار کرنا لازم ٹھہرتا ہے کہ چاند دیکھنے کے حوالے سے کسی دوسرے مطلعے یا علاقے سے ملنے والی گواہی قبول کرنی ہے چاند دیکھنے کے حوالے سے کسی دوسرے مطلعے یاعلاقے سے ملنے والی گواہی قبول نہیں کرنی ہے
اگر کسی دوسرے مطلعے یا علاقے سے ملنے والی گواہی قبول نہیں کرنی ہے(جبکہ یہ حدیث کی واضح خلاف ورزی ہوگی) تو پھر پاکستان میں روئیت ِہلال کمیٹی توڑ دینی چاہیے، ہر علاقے وشہرکے لوگوں کو خود چاند دیکھنا چاہیے اور روزہ وعید کا اہتمام کرنا چاہیے۔جس جس کو چاند نظر آئے وہ روزہ یاعید کا اہتمام کر لے جسے نظر نہ آئے وہ روز یاعید کا اہتمام نہ کرے۔
اگر گواہی لینے کا اُصول قبول کرنا ہے، جو کہ پاکستان میں عملاً قبول کیا جاتا ہے ،اسی بناء پرروئیت ِہلال کمیٹی قائم ہے اور ملک کے کسی علاقے سے ہلال کی گواہی ملنے پرپورے ملک میں روزہ یا عید ہوتی ہے۔ اس اُصول کو پوری دنیا کے حوالے سے اختیار کیا جانا لازم ٹھہرتا ہے، کہ دنیا میں کسی بھی جگہ ہلال ہونے کی اطلاع ملے تو پاکستان میں اسے قبول کیا جائے ۔
عجیب بات یہ ہے کہ پاکستان میں اگر کراچی یا کوئٹہ میں ہلال نظرآنے کی گواہی مل جائے تو پورے پاکستان میں روزے یا عید کا اعلان ہو جاتا ہے لیکن اگر گواہی پاکستان کی سرحد کے پار قندھار یا مکہ یا شام میں ہلال نظر آنے کی مل جائے تو پاکستان میں روزہ یا عید نہیں ہوتی ہے، واضح احادیث کی موجودگی میں آخرکس اُصول کی بنا پر سرحد پار کی گواہی پاکستان میں لاگو نہیں ہوتی ہے؟ اگر اس اُصول کی بنیاد کریب اورعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ والی روایت کو بنایا جاتا ہے تو اس روایت کے ’’حدیث ِ نبوی ﷺ کی بجائے ’’ محض صحابی کاقول(اثر)ثابت ہونے کی بناء پر‘‘ اور اس کے برعکس ’’دوسرے علاقے سے ملنے والی گواہی کی قبولیت کے سلسلے میں قافلے والی واضح حدیث ِنبوی ﷺموجود ہونے کی بناء پر‘‘ کریب ا ور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ والی روایت(حقیقت میں قول ِ صحابی؍ اثر) دوسرے علاقے کی گواہی قبول نہ کرنے کے لئے بنیاد نہیں بن سکتی ہے۔
کیا گواہی کی قبولیت کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے مطلعے ، فاصلے اور ملک کی کوئی حد مقرر کی ہے ؟ کہ محض اپنے مطلعے سے یا اتنے فاصلے کے اندر سے یافلاں فلاں ملک تک سے ہلال ہونے کی گواہی مل جائے تو قبول کی جائے اور اس سے باہر کی گواہی ملے تو قبول نہ کی جائے۔ کیا نبی ﷺ نے اُس قافلے ،کہ جس نے کل چاند دیکھا تھا، سے پوچھا تھا کہ تم کس مطلعے سے، کس ملک سے اورکتنے فاصلے سے آئے ہو ؟ جب نبی ﷺ نے اُس قافلے سے یہ سوال نہیں کئے تھے توآج یہ سوال کرنا ’’بدعت ‘‘کے سوا اور کیا ہے ؟
بعض علماء کہتے ہیں کہ چونکہ آج کے جیسے’’ ذرائع خبر‘‘ نبی ﷺ کے وقت حاصل نہیں تھے اس لئے ان ذرائع کی بنا پر ملنے والی خبرآج ہلال کے حوالے سے کسی فیصلے کی بنیاد نہیں بن سکتی، جبکہ حدیث کو غور سے دیکھنے سے معاملہ بالکل واضح ہو جاتا ہے۔ نبی ﷺ کو دن کے آخر میں گواہی ملی کہ گذرے ہوئے کل ہلال دیکھا گیاتھا، آپ نے اُسی وقت(دن کے آخر میں) روزہ افطار کرنے کا حکم دیا ، کیاآپ تک یہ گواہی گذری ہوئی شام یا رات کو پہنچ جاتی تو آپ اُسی رات کو اگلی صبح روزہ نہ رکھنے اورعید کے لئے نکلنے کا حکم نہ دیتے ؟ اس سے واضح ہوتا ہے کہ جیسے بنیادی چیز یہ نہیں کہ ہلال کہاں طلوع ہوا ہے اسی طرح سے بنیادی چیز یہ بھی نہیں کہ کس ذ ریعہ سے اطلاع ملی ہے بلکہ بنیادی چیز ’’اطلاع کا پہنچنا ہے‘‘ ،جہاں سے بھی، جب بھی اور جس بھی ذریعے سے’’ جس رات کی شام میں ہلال کا ہونا‘‘ گواہی کے ذریعے ثابت ہوجائے اُس رات کی صبح سے مکہ اور پوری دنیا میں قمری مہینے کی پہلی تاریخ شروع ہو جائے گی۔

بعض لوگ پاکستان اور امریکہ وغیرہ کے فاصلے اور وقت کا تقابل کرنا شروع ہو جاتے ہیں کہ یہاں رات ہوتی ہے اور وہاں دن ہوتا ہے اس لئے دونوں مقامات پرایک ہی وقت میں روزہ یا عید کیسے ہو سکتی ہے؟ اس حوالے سے دو باتیں قابل ِ غور ہیں

پہلی بات یہ کہ دونوں مقامات کے ایک دوسرے سے تقابل کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ دونوں ایک دوسرے کے لئے مرکز نہیں ہیں بلکہ دونوں کے لئے مرکز’’کرہ ِارض پرہونے والی پہلی روئیت ‘‘ہے، ’’ جس رات کی شام میں مغرب میں کسی مقام پر ہلال کا ہونا‘‘ ثابت ہوجائے، وہ رات جب پاکستان،مکہ اور امریکہ میں پہنچے گی تو تینوں مقامات میں اُس رات کی صبح سے مہینے کی پہلی تاریخ شروع ہو جائے گی۔ پاکستان اورمکہ میں تواُس وقت و ہی ہلال والی رات طاری ہو گی اور امریکہ میں وہ رات تھوڑی دیر میں طاری ہو جائے گی۔
دوسری بات یہ کہ معاملہ’’ ایک ہی وقت‘‘ میں روزہ یا عید کا درپیش نہیں بلکہ’’ ایک ہی دن وتاریخ‘‘ میں روزہ یا عید کا درپیش ہے اورپوری دنیا میں ایک دن و تاریخ کا معاملہ کسی مزید بحث کا محتاج نہیں، کیونکہ یہ بالکل واضح ہے کہ اگر پوری دنیا میں ہفتے کے ایک دن انگریزی مہینے کی ایک تاریخ کا نظام چل سکتا ہے توقمری مہینے کی ایک تاریخ کانظام کیوں نہیں چل سکتا؟معاملہ صرف پوری اُمت میں قمری مہینے کی ایک تاریخ اختیار کرنے کا ہے اوریہ حقیقی تاریخ وہی ہو گی جو’’کرہ ِ ارض پر ہلال کی پہلی روئیت ‘‘کے ساتھ اختیارکی جائے گی۔
اب رہی یہ بات کہ پاکستان میں ہلال ایک یادو دن بعد نظر آتا ہے تودرج بالا دلائل و شواہد سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ کرہِ ارض پر کہیں بھی ایک بارہلال طلوع ہونے کے اگلے دن سے مکہ اور دنیا بھرمیں پہلی تاریخ شروع کرنالازم ہے اور اس کے بعد کسی دوسرے خطے میں دوسرے یاتیسرے دن ہلال دیکھے جانے کی بات قابل ِتوجہ ہی نہیں رہتی ہے۔
یہ سوال کہ فون وغیرہ کی سہولت فراہم ہونے سے پہلے جب تک ملک سے باہر کی روئیت ِہلال کی گواہی پاکستان تک نہیں پہنچتی رہی ہے تب تک پاکستان میں جو روزے اور عیدیں پاکستان کی روئیت کے مطابق ہوئی ہیں کیا وہ سب غلط تھیں؟ اس حوالے سے بھی معاملہ بالکل واضح ہے : اللہ تعالیٰ انسان کو اس کی استطاعت ہی کے مطابق ذمہ دار ٹھہراتا ہے، فیصلے کا ختیار بھی اُسی کے پاس ہے اور اجر بھی اُسی نے عطا کرنا ہے۔ نبی ﷺ اورآپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو جب نہ اپنے مطلعے میں چاند نظر آیا اور نہ ہی دوسرے مطلعے میں چاند طلوع ہونے کی گواہی بروقت مل سکی ، تب تک آپ ﷺ نے روزہ رکھا مگر جونہی آپﷺ کودوسرے مطلعے میں چاند ہونے کی گواہی ملی آپ نے روزہ افطار کر دیا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ جب تک باہر کی گواہی نہ پہنچے انسان وہی عمل کرے گا جو انتیس کی شام چاند نظر نہ آنے پر کرنا لازم ہے مگر جب گواہی پہنچ جائے ،خواہ وہ دوسرے مطلعے یادوسرے ملک سے آئی ہو، پھراس کے مطابق عمل کرنا لازم ہوجاتا ہے ۔ اب چونکہ پاکستان میں دوسرے مطلعے یا ملک میں ہونے والی روئیت ِ ہلال کی گواہی فوراً پہنچ جاتی ہے اس لئے اسے قبول کرنا لازم ہے۔اب تک کے دلائل وشواہد کی بنا پر حقیقت یہی سامنے آتی ہے کہ ’’ہلال‘‘ کے حوالے سے ہم پاکستان کے لوگ خطا کا شکار رہے ہیں اور خطا کی بنا پراُمت سے الگ رہے ہیں۔ اس خطا کو تلاش کرنا پھر اپنی درستی کرناہم سب پرلازم ہے تاکہ ہم اللہ کے احکام کی ٹھیک ٹھیک اطاعت کر سکیں اوراس کے نتیجے میں اُمت دوبارہ وحدت میں ڈھل سکے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی راہنمائی اور مدد فرمائے ۔ آمین

یہ تحریر’’ ہلال اور وحدت ِاُمت ‘‘کے معاملے میں غورتدبر کی دعوت کے طور پر ہے ، قارئین سے گذارش ہے کہ اس تحریر میں پیش کی گئی بات میں کوئی خطا پائیں یااس کے حق میں یا مخالفت میں کتاب و سنت سے دلائل پائیں تو راقم کو ضرور اطلاع کریں تاکہ معاملہ واضح ہو سکے ۔ جزاکم اللہ خیرا
وَمَا تَوْفِیْقِیْ ٓ اِلَّا بِاللّٰہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ اُنِیْبُ ﴿﴾

 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
بسم اﷲ الرحمن الرحیم​
ہر طرح کی تعریفیں اللہ رب العالمین کو ہی سزاوار ہیں جس نےیہ سب کائناتیں صرف چھ۶دن میں بنائیں اوراسعظیم ذات کوزرہ سی بھی تھکن نہ ہوئی،اے اللہ تیری حمد ہو اتنی جتنے درختوں کے پتے ہیں،تیری حمد ہو اتنی جتنے دن اور راتیں ہیں،تیری حمد ہو اتنی جتنے سب کائناتوں میں موجود ذرات ہیں،اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں محمد علیہ السلام پرآپ کی آل رضی اللہ عنہم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ​
يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْاَهِلَّةِ ۭ قُلْ ھِىَ مَوَاقِيْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ۭ

یہ آپ سے ہلال (نئے چاند) کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہیے کہ یہ انسانوں کے لئے تاریخیں مقرر کرنے کے لئے ہے اور حج (کی تاریخ مقرر کرنے )کے لئے بھی۔
البقرہ۔ ۱۸۹
آیت ِبالا سے واضح ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے ہلال (نئے چاند)کو انسانوں کے لئے تاریخیں مقرر کرنے کا ذریعہ بنایا ہے اور اور حج (کی تاریخ مقرر کرنے)کا بھی ذریعہ بنایاہے۔

یہ بات واضح ہے کہ عام انسانوں کے لئے عموماًاور اہل ِایمان کے لئے خصوصاً تاریخوں کے تقرر کی ضرورت ہی اس لئے ہے تاکہ اجتماعی مواقع (حرام مہینوں کے آغازواختتام،حج، عیدین وغیرہ) کے دِنوں کے لئے ان کے درمیان وحدت پیدا ہو۔ آیت میں ہلال کے تاریخیں مقررکرنے کے ذریعے کے ساتھ ساتھ حج(انسانوں کے سب سے بڑے اجتماع) کی تاریخ مقررکرنے کاذریعہ ہونے کے ذکر سے بھی واضح ہوتا ہے کہ تاریخیں روئیت ِہلال (چانددیکھے جانے )سے شروع ہوتی ہیں ۔


محترم اور عزیز بھائی!
’اجتماعی مواقع‘ میں آپ نے سب سے زیادہ اور سب سے اہم موقع یعنی آذان ونماز کا ذکر نہیں کیا۔
وحدت صرف حرام مہینوں کے آغاز واختتام، عیدین اور حج کی تاریخوں (یعنی وہ عبادات جن کا تعلق مہینوں کے ساتھ ہے) کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ دیگر ان عبادات میں بھی مطلوب ہے جن کا تعلّق گھنٹوں اور دنوں کے ساتھ ہے اور جن کی ادائیگی بکثرت ہوتی ہے۔ یہ وحدت ایک علاقے یا قریبی علاقوں میں تو ہو سکتی ہے، لیکن اگر آپ یہ کہیں کہ یہ وحدت مشرق ومغرب کے علاقوں میں ہونی چاہئے تو یہ بات ممکن نہیں۔ آپ یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ مثلاً لاہور میں نمازوں کا وقت ایک ہی ہونا چاہئے لیکن یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ لاہور، مکہ مکرمہ، لندن اور نیو یارک میں تمام نمازیں بالکل ایک ہی وقت میں پڑھی جائیں؟

اسی طرح ایک علاقے یا قریب کے علاقوں کے لوگ اکٹھے عید منائیں گے لیکن مشرق ومغرب کے علاقوں کے لوگ اپنی اپنی عید اپنی اپنی رؤیت (اپنے مطلع) کے مطابق منائیں گے۔

میرے بھائی! ان عبادات ومعاملات کیلئے جن کا تعلق مہینوں سے ہے مثلاً ایامِ حج، رمضان اور حرمت والے مہینوں کی ابتداء وانتہاء اور عیدین وغیرہ کے اوقات کی تعیین تو چاند سے ہی ہوتی ہے لیکن تمام عبادات ومعاملات کے اوقات کی تعیین صرف چاند ہی سے نہیں ہوتی بلکہ اس کے علاوہ سورج اور رات ودن سے بھی ہوتی ہے۔

در اصل اللہ تعالیٰ نے مختلف عبادات کو سورج وچاند اور رات ودن کے ساتھ جوڑا ہے، یہی چار اشیاء اللہ تعالیٰ کی وہ مخلوقات ہیں جن کی بناء پر حساب وکتاب اور عبادات ومعاملات کے اوقات، دنوں اور مہینوں کی تحدید ممکن ہے، ان چاروں کے بغیر ممکن نہیں۔

فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ هُوَ الَّذِيْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَآءً وَّ الْقَمَرَ نُوْرًا وَّ قَدَّرَهٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِيْنَ وَ الْحِسَابَ١ؕ مَا خَلَقَ اللّٰهُ ذٰلِكَ اِلَّا بِالْحَقِّ١ۚ يُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ۰۰۵ ﴾ ... سورة يونس: 5 کہ ’’وه اللہ تعالیٰ ایسا ہے جس نے آفتاب کو چمکتا ہوا بنایا اور چاند کو نورانی بنایا اور اس کیلئے منزلیں مقرر کیں تاکہ (ان سورج وچاند سے) تم برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کرلیا کرو۔ اللہ تعالیٰ نے یہ چیزیں بے فائده نہیں پیدا کیں۔ وه یہ دلائل ان کو صاف صاف بتلا رہا ہے جو دانش رکھتے ہیں۔‘‘ امام ابن جریر طبری﷫ کے مطابق اس آیت کریمہ میں برسوں کی گنتی اور حساب کا علم صرف چاند کی بناء پر نہیں بلکہ سورج اور چاند دونوں کی بناء پر ہوتا ہے۔

نیز فرمایا: ﴿ فَالِقُ الْاِصْبَاحِ١ۚ وَ جَعَلَ الَّيْلَ سَكَنًا وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ حُسْبَانًا١ؕ ذٰلِكَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ۰۰۹۶ ... سورة الأنعام: 96 کہ ’’ (وہی) صبح (کی روشنی) کو رات کا اندھیرا چاک کر کے نکالنے والاہے، اور اسی نے رات کو آرام کے لئے بنایا ہے اور سورج اور چاند کوحساب و شمار کے لئے، یہ بہت غالب بڑے علم والے (ربّ) کا مقررہ اندازہ ہے۔‘‘

نیز فرمایا: ﴿ اَلشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ۪۰۰۵ ... سورة الرحمٰن: 5 کہ ’’آفتاب اور ماہتاب (مقرره) حساب سے ہیں۔‘‘ اس آیت کا معنیٰ درج بالا آیت کے مطابق بھی کیا گیا ہے: يَعْنِي أَنَّ بِهِمَا تُحْسَب الْأَوْقَات وَالْآجَال وَالْأَعْمَار , وَلَوْلَا اللَّيْل وَالنَّهَار وَالشَّمْس وَالْقَمَر لَمْ يَدْرِ أَحَد كَيْف يَحْسُب شَيْئًا لَوْ كَانَ الدَّهْر كُلّه لَيْلًا أَوْ نَهَارہ ... تفسیر طبری وقرطبی وابن کثیرکہ ’’ان دونوں (سورج وچاند) کے ذریعے اوقات، مدت اور عمروں کا حساب کیا جاتا ہے، اگر دن ورات اور سورج وچاند نہ ہوتے تو کوئی شخص کسی شے کا حساب وکتاب نہ کر سکتا ... الخ‘‘ معلوم ہوا کہ حساب وکتاب صرف چاند سے نہیں بلکہ سورج اور دن ورات سے بھی کیا جاتا ہے۔

نیز فرمایا: ﴿ وَ جَعَلْنَا الَّيْلَ وَ النَّهَارَ اٰيَتَيْنِ فَمَحَوْنَاۤ اٰيَةَ الَّيْلِ وَ جَعَلْنَاۤ اٰيَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً لِّتَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِيْنَ وَ الْحِسَابَ١ؕ وَ كُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْنٰهُ تَفْصِيْلًا۰۰۱۲ ﴾ ... سورة الإسراء: 12 کہ ’’ہم نے رات اور دن کو اپنی قدرت کی نشانیاں بنائی ہیں، رات کی نشانی کو تو ہم نے بےنور کردیا ہے اور دن کی نشانی کو روشن بنایا ہے تاکہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کر سکو اور اس لئے بھی کہ برسوں کا شمار اور حساب معلوم کرسکو اور ہر ہر چیز کو ہم نے خوب تفصیل سے بیان فرما دیا ہے۔‘‘

جب یہ بات طے ہے کہ دور کے علاقوں میں رات ودن کے آنے جانے اور سورج وچاند کے طلوع وغروب ہونے کے اوقات مختلف ہیں مثلاً ہمارے ہاں مشرق میں اگلا دن نکل آتا ہے لیکن مغرب میں ابھی رات ہوتی ہے، ابھی وہاں دن ہوتا ہے تو ہمارے ہاں اگلی رات شروع ہو چکی ہوتی ہے۔ یہی معاملہ سورج وچاند کے اوقات کا بھی ہے تو دور دراز کے علاقوں کو کسی ایک علاقے کے دن ورات اور سورج وچاند کے اوقات کا پابند کیسے بنایا جا سکتا ہے؟؟!!

ہمارے ہاں پاکستان میں طلوعِ فجر ہونے پر کیا امریکہ کے مسلمانوں کو پچھلے دن کی شام میں ہی صرف نام نہاد وحدت کے نام پر نمازِ فجر پڑھنے کو کہا جائے گا؟؟!!

مثلاً اگر کوئی عورت شوہر کے فوت ہونے پر چار ماہ دس دن کی عدت گزار رہی ہے تو ہمارے ہاں اس کی عدت آخری دن کے سورج غروب ہونے پر ختم ہوجائے گی، لیکن اگر وہ کسی مغربی ملک میں ہوگی تو اس کیلئے اسے ہمارے غروب شمس کی بجائے وہاں کے غروب شمس کا انتظار کرنا ہوگا۔ کیا ایسا نہیں؟؟!! اب کیا یہ کہا جائے گا کہ متوفیٰ عنہا زوجہا کی عدت میں مشرق ومغرب میں وحدت نہیں، آپس میں اختلاف ہے، ہرگز نہیں!! تو پھر چاند کے معاملے میں ایسا کیوں؟؟!! اگر مشرق والے اپنی رؤیت کے مطابق چاند دیکھ کر عید کر لیتے ہیں اور مغرب والے اپنا چاند دیکھ کر تو یہ وحدت اُمت کے خلاف کس طرح ہے؟؟!! دونوں نے چاند دیکھ کر ایک ہی تاریخ یعنی یکم شوال کو عید کی ہے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
[/COLOR]تاریخیں انسانوں کے اجتماعی مواقع کے دِنوں کے لئے ان کے درمیان وحدت پیداکرنے کے لئے ہوتی ہیں ورنہ تاریخوں کے نظام کی ضرورت ہی نہیں رہتی ہے۔ انسانوں کے مابین اجتماعی مواقع پر وحدت تب ہی پیدا ہو سکتی ہے جب ان کے مابین تاریخوں کے آغازواختتام کے ایک دن کا نظام رائج ہو ، ایسا تب ہی ہوسکتا ہے جب کرہ ِ ارض پر ہونے والی ہلال کی پہلی روئیت کرہِ ارض کے تمام انسانوں کو قبول ہو اورآیات واحادیث اور زمینی حقائق سے واضح ہوتا ہے کہ ایسا ہونالازم ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ​
جَعَلَ اللّٰهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِــيٰمًا لِّلنَّاسِ وَالشَّهْرَ الْحَرَامَ وَالْهَدْيَ وَالْقَلَاۗىِٕدَ ۭذٰلِكَ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ وَاَنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ 97؀
بنایا ہے اللہ نے کعبہ کو ،جو حرمت والاگھرہے ، اجتماعیت کے قیام کا باعث انسانوں کے لئے اور حرمت والے مہینوں کو اور قربانی کے جانوروں اورقلادوں کو بھی (بنایااس کام میں معاون)۔ یہ اس لئے تاکہ تم جان لوکہ بے شک اللہ جانتا ہے ہروہ بات جو ہے آسمانوں میں اور جوہے زمین میں، اور بے شک اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔
(۵: المائدہ۔ ۹۷


آیت سے واضح ہوتاہے کہ بیت اللہ ، حرمت والے مہینے ، قربانی کے جانور اور قلادے انسانوں کے لئے اجتماعیت کے قیام کاباعث بنا ئے گئے ہیں ۔ حرمت والے مہینوں میں سے تین مہینے ذوالقعدہ، ذوالحجۃ اور محرم تو خودحج سے متعلق بھی ہیں (کہ ذوالقعدہ میں حج کے لئے سفرشروع ہوتا ہے، ذوالحجۃ میں حج ہوتاہے اور محرم میں حج سے واپسی کا سفر ہوتا ہے)۔ حرمت والے مہینوں کاآغازواختتام ہلال کی روئیت سے ہوگا۔جب دنیا میں کہیں ہلال نظر آ جائے اورمکہ سمیت پوری دنیا میں ہلال ہونے کی گواہی پہنچ جائے تو مکہ اورپوری دنیا میں حرام مہینے کا آغاز ہوجائے گا اور مکہ اورپوری دنیاکے مسلمانوں لئے حج کادن مقرر ہوجائے گا ، نہ کہ ہرملک کے مسلمانوں کے لئے حج کادن اُن کے ملک کی اپنی روئیت ِہلال کی بناپرمقررہوگا ، یوں ’’حج اورحرمت والے مہینے‘‘ مہینوں کے آغازواختتام کے حوالے سے پوری اُمت کی وحدت کا ذریعہ بنیں گے اوراس کے لئے کرہ ِ ارض پرہلال کی پہلی روئیت بنیاد بنے گی جوکہ مغرب (مراکش ،مصر،شام ،عرب وغیرہ)میں ہوتی ہے۔


محترم بھائی! جہاں آیت کریمہ سے آپ کے استدلال کا معاملہ ہے تو معلوم نہیں کہ آپ ﴿ قياما للناس ﴾سے اجتماعیت یا وحدتِ رؤیت ہلال کیسے مراد لے رہے ہیں؟؟!! حالانکہ ﴿ قياما للناس ﴾ کا معنیٰ تو مفسرین نے دینی اُمور اور دنیوی مصالح کے قیام کا ذریعہ اور امن وغیرہ کے کیے ہیں۔ دیکھیں تفسیر طبری، قرطبی، ابن کثیر اور جلالین اور اردو تراجم قرآن۔

اگرچہ مولانا مودودی﷫ نے اس کا معنیٰ بین القوسین (اجتماعی زندگی کے) قیام کا ذریعہ کیا ہے، معلوم نہیں انہوں نے یہ مفہوم کہاں سے لیا ہے؟

اور اگر بالفرض اس کا مفہوم اجتماعی زندگی کا قیام مان بھی لیا جائے تو وحدتِ رؤیت کے بغیر بھی یہ ممکن ہے، کیونکہ جن تمام لوگوں نے حج وغیرہ کے موقع پر مکہ مکرمہ میں جمع ہونا ہے تو وہ سب مکہ میں موجودگی کی بناء پر وہاں کی رؤیت کا ہی اعتبار کریں گے نہ کہ اپنے اپنے علاقوں کی رؤیت کا، اور یہ سب وحدتِ رؤیت کے بغیر بھی ممکن ہے۔​
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
پاکستان ہر سال ایک دن یا دو دن کا فرق مکہ سے رکھتا ہے اب یہاں ایک مسئلہ بنتا ہے کہ قرآن’’ قدر والی رات‘‘ میں نازل ہوا مگر کونسی میں ؟[
روئیت ِ ہلال کے حوالے سے مکہ میں طاری طاق رات میں نازل ہوا یاروئیت ِ ہلال کے حوالے سے پاکستان میں طاری طاق رات میں نازل ہوا ؟اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ[/RIGHT]
اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ

بے شک ہم نے اس (قرآن)کو قدر والی رات میں نازل کیا۔
آیت سے واضح ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو قدر والی رات میں نازل کیا۔ آیت میں ’’ایک‘‘ رات کا ذکر ہے، اور احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ یہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہوتی ہے اب سوال یہ ہے کہ یہ کونسی طاق رات ہوتی ہے؟ روئیت ِ ہلال کے حوالے سے جو طاق رات مکہ (نزولِ سورۃ القدر کے مقام) میں طاری ہوتی ہے؟ یا پاکستان میں روئیت ِ ہلال کے حوالے سے جوطاق رات پاکستان میں طاری ہوتی ہے؟ اگر دونوں مقامات کی طاق رات سمجھی جائے تب یہ’’ رات‘‘ کی بجائے ’’دو راتیں‘‘ ہو جائیں گی(پہلے مکہ والی رات پھرروئیت ِ ہلال میں ایک یادودن کے وقفے کی بناپر پاکستان والی رات)، مگرآیت میں ایک رات کا ذکر ہونے کی بنا پر یہ دو راتوں والا معاملہ غلط ہو جاتا ہے، یوں خودیہ سوال کہ’’ کونسی طاق رات ‘‘؟(روئیت ِہلال کے حوالے سے مکہ والی رات یا پاکستان والی رات؟) قدر والی رات کو واضح کر دیتاہے کہ ’’مکہ والی طاق رات ! ‘‘ جہاں سورۃ القدر نازل ہوئی ، جہاں نبی ﷺ کے وقت میں بھی باہر (مغرب) میں نظرآنے والے ہلال کی گواہی‘‘ قبول کی جاتی تھی(یہ حدیث آگے آئےگی) اورآج بھی قبول کی جاتی ہے اور جہاں خودہلال بھی اکثر مشرق(پاکستان وغیرہ) سے ایک دن پہلے نظرآتا ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ جس وقت مکہ میں طاق رات طاری ہوتی ہے پاکستان میں بھی و ہی رات ہوتی ہے مگر پاکستان میں روئیت ِ ہلال کے حساب سے یہاں یہ رات طاق کی بجائے جفت ہوتی ہے ۔ مغرب ِمکہ اورمکہ میں لوگ طاق رات کو قدر والی رات کے طورپر منا رہے ہوتے ہیں مگر پاکستان والے لوگ ٹھیک اُسی رات ’’اگلی رات کو قدر والی رات کے طور پر منانے کا پروگرام لے کر‘‘ سوئے ہوئے ہوتے ہیں۔ جہاں قرآن کے قدر والی رات میں نازل ہونے والی سورۃ اُتری اُس مقام ’’مکہ ‘‘کو اورقدر والی رات کوذہن رکھیں اورذراسوچیں کہ حقیقت میں کونسی رات سامنے آتی ہے ؟ روئیت ہلال کے حساب سے مکہ والی طاق رات یاپاکستان والی رات؟ یقیناً مکہ والی طاق رات ! یہ رات پاکستان میں بھی طاری ہے مگر پاکستان والے مکہ کی روئیت نہ ماننے کی بنا پر اب اگلی رات کو جاگیں گے توکیاوہ حقیقت میں جفت رات میں جاگیں گے یا طاق رات میں جاگیں گے ؟

جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ قرآن پاک طاق رات میں نازل ہوا ہے تو کونسی طاق رات؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ قرآن پاک یا تو مکمل اکٹھا آسمانِ دنیا پر لیلۃ القدر میں اُترا ہے وہاں سے تقریباً 23 سال کے عرصے میں آہستہ آہستہ اُترا یا پھر لیلۃ القدر کو غارِ حرا میں پہلی وحی مراد ہے؟
پہلا معنیٰ زیادہ بہتر محسوس ہوتا ہے کیونکہ سورۃ الدخان اور سورۃ القدر کی آیات کریمہ ﴿ اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِيْنَ۰۰۳ ﴾ اور ﴿ اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِۚۖ۰۰۱ ﴾ میں لفظ ﴿ اَنْزَلْنٰهُ ﴾ استعمال کیا گیا ہے جس کا معنیٰ یکبارگی اُتارنا ہے۔ یہ آیات کریمہ سورۃ الدخان اور سورۃ القدر میں موجود ہیں، دونوں سورتیں مکی ہیں، لہٰذا مکہ مکرمہ کی لیلۃ القدر مراد ہے۔
اگر قرآن پاک کسی اور علاقے میں میں اُترا ہوتا تو وہاں کی طاق رات مراد ہوتی۔ واللہ اعلم!

یہ بالکل ایسی ہی بات ہے کہ جیسے کہ سورۂ مزمل وغیرہ میں رات کو تہجد پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے تو کوئی سوال کرے کہ یہاں رات سے مراد کونسی رات ہے، مکہ مکرمہ کی یا امریکہ کی؟؟!! واضح سی بات ہے کہ مکہ مکرمہ کی کیونکہ سورۂ مزّمل مکی ہے، اور خطاب نبی کریمﷺ اور السابقون الاولون صحابہ کرام﷢ کو ہے جو مکہ مکرمہ میں موجود تھے۔

اگر امریکی مسلمان آج اس حکم پر عمل کرنا چاہیں گے تو اپنے ہاں کی رات کو ہی عمل کر یں گے نہ کہ مکہ مکرمہ کی رات کو (جب ان کے ہاں دن ہوگا۔)

ہمارا نظریہ تو یہ ہے کہ لیلۃ القدر ہر علاقے کے مطلع کے مطابق ہوتی ہے۔ جیسے آخری ثلث اللیل کو آسمانِ دنیا پر نزولِ باری تعالیٰ (جیسے اللہ تعالیٰ کی شان کو لائق ہے) ہر ہر علاقے کے ثلث اللیل کے مطابق ہوتا ہے نہ کہ اس پہلے علاقے کے ثلث اللیل کے مطابق جہاں وہ سب سے پہلے ہوا اور نہ ہی مکہ مکرمہ کے مطابق!

اگر آپ کا یہ فلسفہ مان لیا جائے لیلۃ القدر پوری دُنیا میں ایک ہی رات ہوتی ہے، تو یہ بتائیے اگر بالفرض مکہ مکرمہ میں رمضان کی 21 ویں رات طاق رات ہے، اور وہ آپ کے مطابق صرف ایک وقت ہو سکتی ہے تو جب مکہ مکرمہ میں لیلۃ القدر گزر جائے گی تو امریکہ میں تو ابھی تک رات ہوئی نہیں یعنی آخری عشرہ ہی شروع نہیں ہوا، گویا آپ کے فلسفے کے مطابق وہاں لیلۃ القدر آ ہی نہیں سکتی، کیونکہ لیلۃ القدر تو ایک وقت ہی ہے جو مکہ مکرمہ میں گزر چکی ہے؟؟!!

یہ بات آپ کو بھی تسلیم ہے کہ مغرب (مراکش وغیرہ) میں مکہ مکرمہ سے ایک دن پہلے بھی چاند دیکھا جانا ممکن ہے اور ہمارے ہاں ایک دو دن لیٹ نظر آتا ہے۔ تو نبی کریمﷺ کے دَور پر میں جب وسائلِ اتّصال آج کی طرح قوی نہیں تھے اور سب حکمِ نبوی « صوموا لرؤيته وأفطروا لرؤيته ، فإن غبي عليكم فأكملوا عدة شعبان ثلاثين » کے پیش نظر اپنی اپنی رؤیت کے مطابق ہی رمضان شروع کرتے تھے تو آپ سے یہ سوال ہے کہ اگر تب بھی لیلۃ القدر ایک ہی ہوتی تھی تو کس علاقے کی لیلۃ القدر اصل ہوتی تھی؟ مغرب کی؟ مکہ کی؟ یا ہمارے ہاں کی؟؟!!

یا تب لیلۃ القدر زیادہ ہوتی تھیں لیکن آج فون، ٹی وی اور انٹرنیٹ وغیرہ کی سہولت کی بناء پر لیلۃ القدر ایک ہی ہوتی ہے؟؟!!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
برصغیر کے علماء ہلال کے معاملے میں
احادیث کو جزو پر لگانے اور کل پر نہ لگانے کی بنا پر اُمت سے الگ ہوئے ہیں
مغرب میں ہلال کی پہلی تاریخ سے ایک دن بعد(اور بعض اوقات دو دن بعد) ہلال کی پہلی تاریخ اختیار کرنا عام طور پر برصغیر کے ملکوں کا دستورہے اور ایسا ذیل کی حدیث سے غلط استدلال لینے کی بنا پر ہوا ہے
غُمَّ عَلَیْکُمْ فَصُوْمُوْا ثَلٰثِیْنَ یَوْمًا۔
تم جب چاند دیکھو تب روزہ رکھو اور جب تم اسے دیکھو تب ہی افطارکرو پھر اگر تم پرچاند گم رہے تو تیس دن کے روزے پورے کرو۔
( مسلم:کتاب الصیام۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ


اس حدیث میں چاند دیکھ کر روزہ رکھنے اور دیکھ کر ہی افطار کرنے کا حکم ہے، لیکن جب علما ء سے کہا جاتا ہے کہ ہلال ہونے کی ’’گواہی‘‘ ملنابھی ہلال دیکھنے کے حکم میں داخل ہے کیونکہ نبی ﷺ نے گواہی قبول کی ہے ، یوں دنیا کے کسی حصے میں اگر ہلال نظرآنے کی گواہی مل جائے اس بنا پر پاکستان میں روزہ کیوں نہیں رکھا جا سکتا؟ اور عید کیوں نہیں کی جا سکتی ؟ تو اس سلسلے میں علماء کی طرف سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ روایت پیش کی جاتی ہے
عَنْ کُرَیْبٍ :بِالشَّامِ قَالَ فَقَدِمْتُ الشَّامَ فَقَضَيْتُ حَاجَتَهَا وَاسْتُهِلَّ عَلَيَّ رَمَضَانُ وَأَنَا بِالشَّامِ فَرَأَيْتُ الْهِلَالَ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ ثُمَّ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فِي آخِرِ الشَّهْرِ فَسَأَلَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ثُمَّ ذَکَرَ الْهِلَالَ فَقَالَ مَتَی رَأَيْتُمْ الْهِلَالَ فَقُلْتُ رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ فَقَالَ أَنْتَ رَأَيْتَهُ فَقُلْتُ نَعَمْ وَرَآهُ النَّاسُ وَصَامُوا وَصَامَ مُعَاوِيَةُ فَقَالَ لَکِنَّا رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ السَّبْتِ فَلَا نَزَالُ نَصُومُ حَتَّی نُکْمِلَ ثَلَاثِينَ أَوْ نَرَاهُ فَقُلْتُ أَوَ لَا تَکْتَفِي بِرُؤْيَةِ مُعَاوِيَةَ وَصِيَامِهِ فَقَالَ لَا هَکَذَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
کریبؒ سے روایت ہے کہ میں شام میں تھا میں نے جمعہ کی رات کو (رمضان کا) چاند دیکھا پھر مہینے کے آخر میں مدینہ آیا، میرے سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے سوال کیا اور چاند کا ذکر کیا کہ تم نے کب دیکھا ؟ میں نے کہا کہ جمعہ کی شب کو، انہوں نے پوچھا :تم نے خود دیکھا ؟ میں نے کہا ہاں اور لوگوں نے بھی دیکھا اور روزہ رکھا اور معاویہ ؓ نے بھی روزہ رکھا۔ ابن عباس ؓ نے کہا کہ ہم نے تو ہفتہ کی رات کو دیکھااور ہم تیس روزے پورے کریں گے یا تو چاند دیکھ لیں گے، میں نے کہا : کیا آپ معاویہ ؓ کا چاند دیکھنا اور روزہ رکھنا کا فی نہیں سمجھتے ہیں؟ آپؓ نے کہا کہ نہیں، ایسا ہی حکم کیا ہے ہمیں رسول اللہ ﷺ نے۔


مسلم: کتاب الصیام۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ
حدیث میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’ ھٰکَذَآ اَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ۔ایسا ہی حکم کیا ہے ہمیں رسول اللہ ﷺ نے‘‘ ۔ اب یقینی بات ہے کہ نہ ایسا ہو سکتا ہے کہ صحابی نبی ﷺ پر جھوٹ باندھے اور نہ ایسا ہو سکتا ہے کہ نبی ﷺ نے اپنے قول،فعل یا تقریر کے ساتھ حکم کیا ہو اور وہ حکم کتب احادیث میں کہیں موجودنہ ہولیکن کتب ِاحادیث میں نبی ﷺکا ایسا حکم کہیں نہیں مل سکا ہے کہ ’’ معاویہ کایا اہل ِ شام کایاکسی اور علاقے یا مطلعے کے لوگوں کا چاند دیکھنا اور روزہ رکھنا کافی نہیں سمجھنا ہے۔
یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہاہے کہ ھٰکَذَآ اَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ۔ ’’ایسا ہی‘‘ حکم کیا ہے ہمیں رسول اللہ ﷺ نے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے ان الفاظ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نبی ﷺ کاکوئی حکم پیش نہیں کررہے ہیں بلکہ انہوں نے نبی ﷺ کے کسی حکم سے استدلال کیا ہے،یوں یہ روایت ’’حدیث ِنبویﷺ‘‘کی بجائے محض صحابی کاقول (اثر)ثابت ہوتی ہے اورکتاب وسنت سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صحابہ رضی اللہ عنہم سمیت پوری اُمت کے لئے ’’حجت‘‘صرف اللہ کی نازل کردہ وحی’’آیت ِقرآنی‘‘اور’’حدیث ِنبوی ﷺ‘‘ ہی قرار دی گئی ہے نہ کہ کسی کاقول ۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے ان الفاظ سے کہ ’’ہم تیس روزے پورے کریں گے یا تو چاند دیکھ لیں گے‘‘ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُنہوں نے نبی ﷺ کے اُسی حکم سے استدلال کیا ہے جو اوپر پہلی حدیث میں بیان ہوا ہے کہ ’’تم جب چاند دیکھو تب روزہ رکھو اور جب تم اسے دیکھو تب ہی افطارکرو پھر اگر تم پر چاند گم رہے تو تیس دن کے روزے پورے کرو !‘‘ لیکن نبی ﷺکے اس حکم سے چاند دیکھنے کے حوالے سے دوسرے علاقے سے ملنے والی گواہی کی قبولیت کی نفی ثابت نہیں ہوتی ، جب کہ دوسرے علاقے سے ملنے والی گواہی کی قبولیت کے حوالے سے واضح احادیث ِنبویﷺ موجود ہیں جن میں سے ایک بہت مشہورحدیث درج ذیل ہے
ابوعمیر بن انس بن مالک ؒ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے انصار صحابہ میں سے میرے چچاؤں نے بتایا کہ ہم شوال کا چاند نہ دیکھ سکے اور ہم نے روزے کی حالت میں صبح کی، دن کے آخر میں ایک قافلہ آیا اور اُس نے نبی ﷺ کے سامنے شہادت دی کہ ہم نے کل چاند دیکھا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں روزہ افطار کرنے کا حکم دیا اور یہ بھی کہ صبح عید کے لئے نکلیں۔
ابن ِماجہ: کتاب الصیام۔ ابوعمیر بن انس بن مالک ؒ
درج بالا حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ جس علاقے میں قافلہ والوں نے چاند دیکھا تھا اُس علاقے کا مطلع اور مدینے کا مطلع الگ الگ تھا ورنہ اُس علاقے میں نظر آنے والاہلال مدینے میں بھی نظر آنا چاہیے تھا۔ دوسرے مطلعے والے علاقے سے آنے والی روئت ِ ہلال کی گواہی مانے جانے کی واضح حدیث کی موجودگی کے بعد علماء کے لئے دو میں سے ایک فیصلہ اختیار کرنا لازم ٹھہرتا ہے کہ چاند دیکھنے کے حوالے سے کسی دوسرے مطلعے یا علاقے سے ملنے والی گواہی قبول کرنی ہے چاند دیکھنے کے حوالے سے کسی دوسرے مطلعے یاعلاقے سے ملنے والی گواہی قبول نہیں کرنی ہے
جہاں تک صحيح مسلم کی روایت میں سیدنا ابن عباس﷜ کے فرمان: (هَکَذَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) كا تعلّق ہے، تو اس سے دو معنیٰ مراد ہو سکتے ہیں: 1. سیدنا ابن عباس﷜ کی مراد یہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے اختلافِ مطالع میں ہمیں یہی حکم دیا ہے (کہ اس کا اعتبار کیا جائے۔)
2. یہ سیدنا ابن عباس﷜ کا اپنا اجتہاد ہے جو انہوں نے دیگر احادیث مثلاً: « صوموا لرؤيته وأفطروا لرؤيته ، فإن غبي عليكم فأكملوا عدة شعبان ثلاثين » وغیرہ کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا ہے۔
اگر تو پہلا مفہوم مراد ہے تو یہ اس مسئلہ میں نصّ ہے، اور یہی متبادر الی الذہن ہے۔ اور اگر دوسرا مفہوم بھی مراد ہے تو یہ سیدنا ابن عباس﷜ حبر الامہ کا اجتہاد ہے جن کے بارے میں نبی کریمﷺ کی دعا ہے: « اللهم فقهه في الدين وعلمه التأويل »علماء محدثین﷭ نے اس سے یہی سمجھا ہے اور اس حدیث پر اختلاف مطالع کے اثبات والے ابواب قائم کیے ہیں۔
مثلاً صحیح مسلم میں امام نووی﷫ نے یہ باب قائم کیا ہے: باب بيان أن لكل بلد رؤيتهم وأنهم إذا رأوا الهلال ببلد لا يثبت حكمه لما بعد عنهم
امام ترمذی﷫ نے باب قائم کیا ہے: باب ما جاء لكل أهل بلد رؤيتهم
امام نسائی﷫ نے باب قائم کیا ہے: اختلاف أهل الآفاق في الرؤية
امام ابو داؤد﷫ نے باب قائم کیا ہے: إذا رئي الهلال في بلد قبل الآخرين بليلة

آپ نے اسے سیدنا ابن عباس﷜ کا ذاتی اجتہاد قرار دیا اور اسے اپنے زعم میں اسے ابن ماجہ کی حدیث کے مخالف سمجھ کر ردّ کر دیا، حالانکہ ابن ماجہ کی حدیث میں تو دور قریب سے اختلاف مطلع اور الگ الگ چاند کا ذکر ہی نہیں ہے۔ اس حدیث مبارکہ میں صرف یہ ہے کہ نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام﷢ (بادلوں وغیرہ یا کسی اور وجہ سے) شوال کا چاند نہ دیکھ سکے اگلے روز آنے والے قافلے نے گواہی دی کہ ہم نے کل چاند دیکھا ہے تو رسول کریمﷺ نے ان کی گواہی کو قبول فرمایا۔
میرے بھائی! اس زمانے میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کا سفر (جن کا درمیانی فاصلہ 400 کلو میٹر ہے) تقریباً آٹھ دن میں ہوتا تھا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ آنے والا قافلہ اگلے ہی دن مدینہ منورہ پہنچ گیا، گویا انہوں نے زیادہ سے زیادہ ستر اسی کلومیٹر دور چاند دیکھا تھا۔ اتنے تھوڑے سے فاصلے پر مطلع تبدیل نہیں ہو جاتا بلکہ وہ تو اس زمانے کے مطابق مہینے مہینے کے سفر کے بعد تبدیل ہوتا تھا جیسا کہ صحیح مسلم کی سیدنا عبد اللہ بن عباس﷜ والی روایت میں ہے۔
میرے عزیز بھائی! آپ نے حبر الامہ سیدنا ابن عباس﷜ کی بات کو تو قبول نہ کیا، حالانکہ اس میں غالب امکان نبی کریمﷺ کی سنّت کا ہے، اور اسے ابن عباس﷜ کا اجتہاد باور کرا کے ردّ کر دیا، صرف اور صرف اپنے ایک احتمال اور ذاتی اجتہاد کی بناء پر کہ وہ لوگ کسی ایسے علاقے سے مدینہ پہنچے تھے جس کا مطلع مدینہ سے فرق تھا؟؟!!

البتہ اگر صریح دلائل سے آپ یہ ثابت کر دیں کہ واقعی ہی جہاں سے وہ قافلہ اگلے ہی دن مدینہ نبویہ پہنچ گیا تھا اس علاقے کا اور مدینہ کا مطلع قمر مختلف تھا تو یہ حدیث واقعی ہی اس مسئلہ میں نص قاطع ہو سکتی ہے۔

واللہ تعالیٰ اعلم!

اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه ولا تجعله ملتبسا علينا فنضل واجعلنا للمتقين إماما
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
ماشاء اللہ انس نصر بھائی، اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ بہت خوب بہت زبردست۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سلف صالحین کے مطابق کتاب و سنت کو سمجھنے کی توفیق سے نوازے، آمین یا رب العالمین۔
 

محمد عاصم

مشہور رکن
شمولیت
مئی 10، 2011
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
1,027
پوائنٹ
104
جزاک اللہ انس نضر بھائی آپ نے بہترین انداز میں بات پیش کی ہے اس طرح ہی ہم سب مل کر صحیح اور سچی بات تک پہنچ سکتے ہیں ان شاءاللہ۔
میں چونکہ ملازم پیشہ بندہ ہوں اس لیئے آپ کے جوابات ابھی مکمل نہیں پڑھ سکا میں اس کو کاپی کر رہا ہوں اور وقت ملنے پر اس بارے لکھتا رہوں گا ان شاءاللہ۔
ایک بات طے ہے کہ ہم نے اپنے اختلافات کا حل قرآن اور صحیح حدیث سے ڈھونڈنا ہے کیونکہ اسی کا حکم اللہ اور نبی علیہ السلام نے ہمیں دیا ہے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
اور ہاں انس نضر بھائی ایک بات کی وضاحت کردیں کہ آپ کے نزدیک یا علم فلکیات سے ایک مطلع کی حد کتنی ہوتی ہے؟؟؟
محترم بھائی! ایک مطلع کی حد کو بغیر کسی تمہید کے چند لائنوں میں سمجھانا میرے بہت مشکل ہے، البتہ اس کیلئے آپ میرے نانا محترم مولانا عبد الرحمٰن کیلانی﷫ کی کتاب اسلام کا نظام فلکیات (الشمس والقمر بحسبان) میں ہیڈنگ مطلع کی حدود (صفحہ نمبر 64) دیکھیں تو ان شاء اللہ واضح ہوجائے گا۔
اختلافِ مطالع کے اعتبار سے اس اہم ترین اور عظیم الشّان کتاب کا چوتھا اور پانچواں باب (صفحات نمبر 45 تا 79) بہت ہی اہم ہیں۔ جبکہ مسئلہ زیرِ بحث کیلئے ہیڈنگز وحدتِ تاریخ واوقات نئے چاند کی رو سے (ص 67) اور وحدتِ تاریخ رؤیتِ ہلال کی رو سے (ص 68) کا جائزہ لیں تو ان شاء اللہ العزیز بات بہت حد تک واضح ہوجائے گی۔
اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه ولا تجعله ملتبسا علينا فنضل واجعلنا للمتقين إماما
 
Top