محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,798
- پوائنٹ
- 1,069
ہمارا میڈیا : غلامانہ ذہنیت اور بے حیائی ۔
انصار عباسی کا فکر انگیز مضمون :
قوموں کے عروج و زوال میں ثقافت کا بڑا کلیدی کردار ہے۔ اقبال نے ایک ناقابلِ انکار تاریخی حقیقت کو ان الفاظ میں ادا کیا تھا
آج پاکستانی معاشرہ ثقافتی انتشار اور اخلاقی انحطاط کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ بگاڑ کی قوتیں جری سے جری تر ہوتی جارہی ہیں اور سرکاری اور غیرسرکاری، ملکی اور بین الاقوامی ادارے بگاڑ کو بڑھانے کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں قوم میڈیا، علما اور زندگی کے ہر شعبے کی قیادت کو جھنجھوڑنے اور غفلت اور لاپروائی کا رویہ ترک کر کے پوری ذمہ داری کے ساتھ معاشرتی فساد اور بگاڑ کو روکنے اور خیروصلاح اور تعلیم و تلقین کے بہترین ذرائع کو استعمال کر کے ملک و ملّت کو گرداب سے نکالنے اور حقیقی تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ مشہور صحافی اور تجزیہ نگار جناب انصار عباسی نے اس سلسلے میں بڑے دردبھرے انداز میں ان حقائق پر توجہ مرکوز کی ہے جو بگاڑ کو فروغ دینے کا باعث ہیں اور اصلاحِ احوال کے لیے دکھی دل سے قوم کو بیدار کرنے کا فرض
انجام دیا ہے۔ ان کے یہ مضامین وزنامہ جنگ میں شائع ہوئے ہیں جسے ہم ان کے اور جنگ کے شکریے کے ساتھ یک جا پیش کر رہے ہیں۔ (مدیر)
بلاسوچے سمجھے، میڈیا ’میراثی کلچر‘ کا اس قدر بڑا حمایتی بن گیا کہ جنوری۲۰۱۲ء میں تعلیمی اداروں میں قابلِ اعتراض کنسرٹس (گانے بجانے کے پروگرام) پر پابندی کے متعلق پنجاب اسمبلی میں قرارداد کی منظوری کو اس انداز میں آڑے ہاتھوں لیا، جیسے کہ کوئی بہت بڑا ظلم ہوگیا ہو۔ قرارداد (ق) لیگ کی سیمل کامران نے پیش کی۔ (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی کے اراکین نے بھی اس کی حمایت کی، مگر اس قرارداد کے منظور ہوتے ہی ٹی وی چینلوں نے ایک شور برپا کردیا، اور ’قابلِ اعتراض کنسرٹس‘ کی پابندی کو ’غیرقانونی‘ اور لوگوں بالخصوص نوجوانوں کے ’حقوق‘ کے خلاف گردانا۔ آناً فاناً میڈیا کی تنقید نے ایک مہم کا روپ اختیار کرلیا اور ہرسنائی جانے والی آواز پنجاب اسمبلی کے اس اقدام کو کوسنے لگی۔ نہ کسی نے قرارداد کو پڑھا نہ ’قابلِ اعتراض‘ کے الفاظ پر غور کیا، البتہ سب ایک ہی بولی بول رہے تھے: ’’یہ بڑا ظلم ہوگیا‘‘۔
گانے والے ایک ایک کر کے اپنا تجزیہ دے رہے تھے۔ میڈیا سرکس نے ایک ایسی ہیجان کی کیفیت پیدا کی کہ خود مسلم لیگ (ن) کی صوبائی حکومت پنجاب نے اس قرارداد سے لاتعلقی کا اظہار کردیا، جب کہ پیپلزپارٹی نے نئی قرارداد لانے کا اعلان کردیا۔ قرارداد کو پیش کرنے والی خاتون محترمہ سیمل کامران کو لینے کے دینے پڑ گئے، جب کہ کچھ علما حضرات نے میوزیکل کنسرٹس کے بارے میں ایسے بیان داغ دیے کہ ان کو سن اور پڑھ کر ہاتھ فوراً کانوں کی طرف اُٹھ گئے۔ چند گھنٹوں کی یہ جنگ ’میراثی کلچر‘ کے حامی جیت گئے۔ سچ گم ہوکر رہ گیا اور حقیقت چھپ گئی۔
جس معاشرے میں سوال اس بات پر اُٹھانا چاہیے کہ:
’موسیقی کی ایک اسلامی معاشرے میں کس حد تک اجازت ہے؟‘ وہاں اعتراض اس بات پر کردیا گیا کہ: ’قابلِ اعتراض کنسرٹس پر پابندی کی قرارداد کیوں پیش کی گئی؟ مسلم لیگ (ن) کی حکومتِ پنجاب کی طرف سے اس قرارداد سے لاتعلقی حیران کن تھی، تو عمران خان کی طرف سے اس قرارداد کے خلاف بات کرنا اُس سوچ کا مکمل تضاد ہے، جس کا انھوں نے اپنی کتاب میں پرچار کیا۔ ایک اُردو اخبار نے ایک ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویوز کا حوالہ دیتے ہوئے ایک ’معروف عالم دین‘ سے کچھ اس طرح کا بیان منسوب کیا: ’’مفتی صاحب کا فرمانا تھا کہ پنجاب اسمبلی نے اگر مطلقاً میوزک پر پابندی لگائی ہے کہ طلبہ میوزیکل کنسرٹس نہیں دیکھ سکتے تو یہ غلط ہے۔ اسلام میں موسیقی حرام [ہونے کا حکم] واضح نہیں۔ عہد رسولؐ میں صحابہ میوزک کا اہتمام کرتے رہے۔ حضرت عائشہؓ کو دکھاتے رہے۔ مسجد میں میوزک کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے۔
’مفتی صاحب‘ کا یہ بیان (جس طرح اخبار میں شائع ہوا) کم از کم مجھ سے ہضم نہیں ہوسکا۔ معلوم نہیں کسی عالم دین اور اسلامی اسکالر نے اس بیان پر کوئی تبصرہ کیوں نہیں کیا۔ یہ کن مثالوں کی بات کی جارہی ہے اور ان مثالوں کے زور پر کس قسم کے میوزیکل کنسرٹس کو ’جائز قرار‘ دینے کے فتوے دیے جارہے ہیں؟ آج کل کے گانوں اور کنسرٹس کو، تمام تر بے ہودگیوں کے ساتھ اسلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا حوالہ دے کر کس طرح جائز بنانے کی کوشش کی جارہی ہے؟ گانوں کے بول اور دوسرے اعتراضات اپنی جگہ، کنسرٹس میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کا ایک ساتھ ناچنے کا ہمارے دین اور ثقافت سے کیا تعلق؟ خدارا، دین کو اتنا سستا مت بیچو، ٹی وی چینلوں میں آنے کے شوق میں، اللہ کی بات اور رسولؐ اللہ کی سنت کو توڑ مروڑ کر مت پیش کرو۔
ترمذی کی ایک حدیث کے مطابق کئی دوسری علامات کے علاوہ جب گانے والیاں اور موسیقی کے آلات عام ہوجائیں گے تو نبیؐ کی اُمت پر عذاب نازل ہوں گے۔ ہم پر پے درپے عذاب نازل ہو رہے ہیں۔ کبھی زلزلہ تو کبھی سیلاب، کبھی طوفانی بارشیں تو کبھی ڈینگی اور جعلی ادویات کے ذریعے اموات،مگر کوئی سوچنے سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ غوروفکر کا ہمارے پاس وقت نہیں۔ ہم سب کچھ میڈیا کی آنکھوں سے ہی دیکھتے ہیں، اسی کی سنتے ہیں، اور جو میڈیا کہتا ہے اسی کی بولی بولنا شروع کردیتے ہیں۔ ہم میڈیا والے بھی پیسہ کمانے کے چکر میں سب کچھ بھول گئے۔ ہمیں کوئی احساس نہیں کہ اس میڈیا سرکس کے ذریعے عوام کو کیا دیا جا رہا ہے؟ اخلاقی اقدار کو کس تیزی سے تباہ کیا جا رہا ہے اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی ناراضی مول لے کر شیطانیت کو پھیلایا جا رہا ہے۔ کاش! ہم میڈیا والے یہ بات سمجھ سکیں کہ آج بلاسوچے سمجھے جو کھیل ہم کھیل رہے ہیں، اس کی ہم سے آخرت میں سخت بازپُرس ہوگی۔
سوال یہ اُٹھایا جاتا ہے کہ ’بے ہودگی‘ اور ’قابلِ اعتراض‘ ہونے کا پیمانہ کون طے کرے گا؟ اگر ہم مسلمان ہیں تو واضح رہے کہ حیا ہمارے دین کا شعار اور پہچان ہے، جب کہ بے ہودگی اور بے شرمی کے کاموں کی اسلام سخت ممانعت کرتا ہے۔ اسلامی طرزِ زندگی کی حدیں بہت پہلے متعین کی جاچکیں اور ان حدوں کو کوئی بدل نہیں سکتا۔ اگر یہ حق عوامی نمایندوں اور اسمبلیوں کو حاصل نہیں ہے تو یہ حق میڈیا کو بھی حاصل نہیں۔ میڈیا بھی وہ جو انٹرٹینمنٹ (تفریح) کے نام پر نیم عریاں ڈانس دکھاتا ہے، بے ہودہ گانے، قابلِ اعتراض اشتہارات اور فیشن شوز کے نام پر فحاشی و عریانی کو عام کر رہا ہے۔ ہم اپنے اور اپنی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں اور بیویوں کے لیے پسند نہیں کرتے کہ وہ قابلِ اعتراض کنسرٹس اور عام مخلوط گانے بجانے کے پروگراموں میں شرکت کریں، یا فیشن شوز کے نام پر پھیلائی جانے والی فحاشی کا حصہ بنیں، مگر دوسروں کی بیٹیوں اور بہنوں کو ایسے کاموں میں مشغول دکھا کر اسے خوب سراہتے ہیں۔ ہم میں سے کتنے لوگ اس بات کو پسند کریں گے کہ اُن کی بہن ، بیٹا یا بیٹی فیشن شوز کے ریمپ پر سیکڑوں لوگوں کی موجودگی میں نیم عریاں لباس زیب تن کیے کیٹ واک کریں؟ کتنے لوگ اپنی بہن اور بیٹی کو ساتھ لے جاکر مخلوط کنسرٹس سنتے ہیں؟ جو کچھ ہم اپنے لیے پسند نہیں کرتے، وہ دوسروں کے لیے کیسے اچھا ہوسکتا ہے؟ ہم پاکستانیوں کے پاس تو اب ماسواے خاندانی نظام اور بچی کھچی شرم و حیا کے علاوہ باقی کچھ بچا ہی نہیں۔ اگر یہ بھی ہم سے چھن گیا تو پھر ہم کہیں کے نہیں رہیں گے۔ مغرب سے مرعوب ایک محدود طبقہ ہمیں ہمارے اس فخر سے محروم کرنا چاہتا ہے، اور اس مقصد کے لیے میڈیا کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے، جس کو روکنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
انصار عباسی کا فکر انگیز مضمون :
قوموں کے عروج و زوال میں ثقافت کا بڑا کلیدی کردار ہے۔ اقبال نے ایک ناقابلِ انکار تاریخی حقیقت کو ان الفاظ میں ادا کیا تھا
میں تجھ کو بتاتا ہوں، تقدیرِ اُمم کیا ہے
شمشیر و سناں اول، طاؤس و رباب آخر
شمشیر و سناں اول، طاؤس و رباب آخر
آج پاکستانی معاشرہ ثقافتی انتشار اور اخلاقی انحطاط کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ بگاڑ کی قوتیں جری سے جری تر ہوتی جارہی ہیں اور سرکاری اور غیرسرکاری، ملکی اور بین الاقوامی ادارے بگاڑ کو بڑھانے کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں قوم میڈیا، علما اور زندگی کے ہر شعبے کی قیادت کو جھنجھوڑنے اور غفلت اور لاپروائی کا رویہ ترک کر کے پوری ذمہ داری کے ساتھ معاشرتی فساد اور بگاڑ کو روکنے اور خیروصلاح اور تعلیم و تلقین کے بہترین ذرائع کو استعمال کر کے ملک و ملّت کو گرداب سے نکالنے اور حقیقی تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ مشہور صحافی اور تجزیہ نگار جناب انصار عباسی نے اس سلسلے میں بڑے دردبھرے انداز میں ان حقائق پر توجہ مرکوز کی ہے جو بگاڑ کو فروغ دینے کا باعث ہیں اور اصلاحِ احوال کے لیے دکھی دل سے قوم کو بیدار کرنے کا فرض
انجام دیا ہے۔ ان کے یہ مضامین وزنامہ جنگ میں شائع ہوئے ہیں جسے ہم ان کے اور جنگ کے شکریے کے ساتھ یک جا پیش کر رہے ہیں۔ (مدیر)
بلاسوچے سمجھے، میڈیا ’میراثی کلچر‘ کا اس قدر بڑا حمایتی بن گیا کہ جنوری۲۰۱۲ء میں تعلیمی اداروں میں قابلِ اعتراض کنسرٹس (گانے بجانے کے پروگرام) پر پابندی کے متعلق پنجاب اسمبلی میں قرارداد کی منظوری کو اس انداز میں آڑے ہاتھوں لیا، جیسے کہ کوئی بہت بڑا ظلم ہوگیا ہو۔ قرارداد (ق) لیگ کی سیمل کامران نے پیش کی۔ (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی کے اراکین نے بھی اس کی حمایت کی، مگر اس قرارداد کے منظور ہوتے ہی ٹی وی چینلوں نے ایک شور برپا کردیا، اور ’قابلِ اعتراض کنسرٹس‘ کی پابندی کو ’غیرقانونی‘ اور لوگوں بالخصوص نوجوانوں کے ’حقوق‘ کے خلاف گردانا۔ آناً فاناً میڈیا کی تنقید نے ایک مہم کا روپ اختیار کرلیا اور ہرسنائی جانے والی آواز پنجاب اسمبلی کے اس اقدام کو کوسنے لگی۔ نہ کسی نے قرارداد کو پڑھا نہ ’قابلِ اعتراض‘ کے الفاظ پر غور کیا، البتہ سب ایک ہی بولی بول رہے تھے: ’’یہ بڑا ظلم ہوگیا‘‘۔
گانے والے ایک ایک کر کے اپنا تجزیہ دے رہے تھے۔ میڈیا سرکس نے ایک ایسی ہیجان کی کیفیت پیدا کی کہ خود مسلم لیگ (ن) کی صوبائی حکومت پنجاب نے اس قرارداد سے لاتعلقی کا اظہار کردیا، جب کہ پیپلزپارٹی نے نئی قرارداد لانے کا اعلان کردیا۔ قرارداد کو پیش کرنے والی خاتون محترمہ سیمل کامران کو لینے کے دینے پڑ گئے، جب کہ کچھ علما حضرات نے میوزیکل کنسرٹس کے بارے میں ایسے بیان داغ دیے کہ ان کو سن اور پڑھ کر ہاتھ فوراً کانوں کی طرف اُٹھ گئے۔ چند گھنٹوں کی یہ جنگ ’میراثی کلچر‘ کے حامی جیت گئے۔ سچ گم ہوکر رہ گیا اور حقیقت چھپ گئی۔
جس معاشرے میں سوال اس بات پر اُٹھانا چاہیے کہ:
’موسیقی کی ایک اسلامی معاشرے میں کس حد تک اجازت ہے؟‘ وہاں اعتراض اس بات پر کردیا گیا کہ: ’قابلِ اعتراض کنسرٹس پر پابندی کی قرارداد کیوں پیش کی گئی؟ مسلم لیگ (ن) کی حکومتِ پنجاب کی طرف سے اس قرارداد سے لاتعلقی حیران کن تھی، تو عمران خان کی طرف سے اس قرارداد کے خلاف بات کرنا اُس سوچ کا مکمل تضاد ہے، جس کا انھوں نے اپنی کتاب میں پرچار کیا۔ ایک اُردو اخبار نے ایک ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویوز کا حوالہ دیتے ہوئے ایک ’معروف عالم دین‘ سے کچھ اس طرح کا بیان منسوب کیا: ’’مفتی صاحب کا فرمانا تھا کہ پنجاب اسمبلی نے اگر مطلقاً میوزک پر پابندی لگائی ہے کہ طلبہ میوزیکل کنسرٹس نہیں دیکھ سکتے تو یہ غلط ہے۔ اسلام میں موسیقی حرام [ہونے کا حکم] واضح نہیں۔ عہد رسولؐ میں صحابہ میوزک کا اہتمام کرتے رہے۔ حضرت عائشہؓ کو دکھاتے رہے۔ مسجد میں میوزک کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے۔
’مفتی صاحب‘ کا یہ بیان (جس طرح اخبار میں شائع ہوا) کم از کم مجھ سے ہضم نہیں ہوسکا۔ معلوم نہیں کسی عالم دین اور اسلامی اسکالر نے اس بیان پر کوئی تبصرہ کیوں نہیں کیا۔ یہ کن مثالوں کی بات کی جارہی ہے اور ان مثالوں کے زور پر کس قسم کے میوزیکل کنسرٹس کو ’جائز قرار‘ دینے کے فتوے دیے جارہے ہیں؟ آج کل کے گانوں اور کنسرٹس کو، تمام تر بے ہودگیوں کے ساتھ اسلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا حوالہ دے کر کس طرح جائز بنانے کی کوشش کی جارہی ہے؟ گانوں کے بول اور دوسرے اعتراضات اپنی جگہ، کنسرٹس میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کا ایک ساتھ ناچنے کا ہمارے دین اور ثقافت سے کیا تعلق؟ خدارا، دین کو اتنا سستا مت بیچو، ٹی وی چینلوں میں آنے کے شوق میں، اللہ کی بات اور رسولؐ اللہ کی سنت کو توڑ مروڑ کر مت پیش کرو۔
ترمذی کی ایک حدیث کے مطابق کئی دوسری علامات کے علاوہ جب گانے والیاں اور موسیقی کے آلات عام ہوجائیں گے تو نبیؐ کی اُمت پر عذاب نازل ہوں گے۔ ہم پر پے درپے عذاب نازل ہو رہے ہیں۔ کبھی زلزلہ تو کبھی سیلاب، کبھی طوفانی بارشیں تو کبھی ڈینگی اور جعلی ادویات کے ذریعے اموات،مگر کوئی سوچنے سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ غوروفکر کا ہمارے پاس وقت نہیں۔ ہم سب کچھ میڈیا کی آنکھوں سے ہی دیکھتے ہیں، اسی کی سنتے ہیں، اور جو میڈیا کہتا ہے اسی کی بولی بولنا شروع کردیتے ہیں۔ ہم میڈیا والے بھی پیسہ کمانے کے چکر میں سب کچھ بھول گئے۔ ہمیں کوئی احساس نہیں کہ اس میڈیا سرکس کے ذریعے عوام کو کیا دیا جا رہا ہے؟ اخلاقی اقدار کو کس تیزی سے تباہ کیا جا رہا ہے اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی ناراضی مول لے کر شیطانیت کو پھیلایا جا رہا ہے۔ کاش! ہم میڈیا والے یہ بات سمجھ سکیں کہ آج بلاسوچے سمجھے جو کھیل ہم کھیل رہے ہیں، اس کی ہم سے آخرت میں سخت بازپُرس ہوگی۔
سوال یہ اُٹھایا جاتا ہے کہ ’بے ہودگی‘ اور ’قابلِ اعتراض‘ ہونے کا پیمانہ کون طے کرے گا؟ اگر ہم مسلمان ہیں تو واضح رہے کہ حیا ہمارے دین کا شعار اور پہچان ہے، جب کہ بے ہودگی اور بے شرمی کے کاموں کی اسلام سخت ممانعت کرتا ہے۔ اسلامی طرزِ زندگی کی حدیں بہت پہلے متعین کی جاچکیں اور ان حدوں کو کوئی بدل نہیں سکتا۔ اگر یہ حق عوامی نمایندوں اور اسمبلیوں کو حاصل نہیں ہے تو یہ حق میڈیا کو بھی حاصل نہیں۔ میڈیا بھی وہ جو انٹرٹینمنٹ (تفریح) کے نام پر نیم عریاں ڈانس دکھاتا ہے، بے ہودہ گانے، قابلِ اعتراض اشتہارات اور فیشن شوز کے نام پر فحاشی و عریانی کو عام کر رہا ہے۔ ہم اپنے اور اپنی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں اور بیویوں کے لیے پسند نہیں کرتے کہ وہ قابلِ اعتراض کنسرٹس اور عام مخلوط گانے بجانے کے پروگراموں میں شرکت کریں، یا فیشن شوز کے نام پر پھیلائی جانے والی فحاشی کا حصہ بنیں، مگر دوسروں کی بیٹیوں اور بہنوں کو ایسے کاموں میں مشغول دکھا کر اسے خوب سراہتے ہیں۔ ہم میں سے کتنے لوگ اس بات کو پسند کریں گے کہ اُن کی بہن ، بیٹا یا بیٹی فیشن شوز کے ریمپ پر سیکڑوں لوگوں کی موجودگی میں نیم عریاں لباس زیب تن کیے کیٹ واک کریں؟ کتنے لوگ اپنی بہن اور بیٹی کو ساتھ لے جاکر مخلوط کنسرٹس سنتے ہیں؟ جو کچھ ہم اپنے لیے پسند نہیں کرتے، وہ دوسروں کے لیے کیسے اچھا ہوسکتا ہے؟ ہم پاکستانیوں کے پاس تو اب ماسواے خاندانی نظام اور بچی کھچی شرم و حیا کے علاوہ باقی کچھ بچا ہی نہیں۔ اگر یہ بھی ہم سے چھن گیا تو پھر ہم کہیں کے نہیں رہیں گے۔ مغرب سے مرعوب ایک محدود طبقہ ہمیں ہمارے اس فخر سے محروم کرنا چاہتا ہے، اور اس مقصد کے لیے میڈیا کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے، جس کو روکنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔