• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہم اُس دور میں ہوتے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حق میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف تلوار اٹھا لیتے

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
513
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
ہم اُس دور میں ہوتے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حق میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف تلوار اٹھا لیتے

مرزا علی انجینئر کے فالورز آج کل صحیح بخاری 2812 کا حوالہ پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہم اس دور میں ہوتے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حق میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف تلوار اٹھا لیتے اور اسی حدیث کو لے کر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی گستاخیاں کرتے نظر آ رہے ہیں۔

اصل میں یہ لوگ ایسی باتیں اس لیے کرتے ہیں کہ ان بیچاروں کو یہ علم ہی نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کیا وصیت فرمائی تھی, پوری بات انکو مرزا جہلمی بتاتا نہیں یے آدھی بات بیان کرتا یے

▪نیچے مرزا جہلمی کا ایک کلپ آپ کے سامنے ہے
جو انکے اس مکمل وڈیو لنک کے وقت 01:11:54 سے لیا گیا یے
اس کلپ میں مرزا جہلمی نے یہ تو بتا دیا کہ جنگ جمل و صفین کے موقع پر تیس سے چالیس ہزار صحابہ نے جنگ میں حصہ نہیں لیا نہ وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے گروہ میں تھے نہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے گروہ میں تھے بلکہ وہ اس تیسرے گروہ میں تھے جو کہ نیوٹرل گروہ تھا جو جنگ صفین کے موقع پر پہاڑوں پہ چڑھ گیا تھا▪

امام ابن سیرین رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں:
«هَاجَتِ الْفِتْنَةُ وَأَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشَرَةُ آلَافٍ، فَمَا حَضَرَ فِيهَا مِائَةٌ، بَلْ لَمْ يَبْلُغُوا ثَلَاثِينَ»
جب فتنہ والی جنگیں ( جنگ جمل و صفین ) ہوئیں تو اس وقت ہزاروں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین زندہ تھے مگر ان جنگوں میں شرکت صرف تیس کے قریب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کی۔
(السنة لأبي بكر بن الخلال : ٢/ ٤٦٦، سندہ صحیح)


اب دیکھیں مرزا جہلمی نے یہاں بہت بڑا دھوکہ دیا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی گویا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین موت کے ڈر سے یا جان بچانے کے لیے پہاڑوں پر چڑھے یعنی خود کو جنگ سے دور رکھا

اب مرزا صاحب نے اپنی عوام کو یہ تو بتا دیا کہ ہزاروں صحابہ جنگ صفین کے موقع پر پہاڑوں پہ چڑھ گئے تھے
لیکن پوری بات نہیں بتائی کہ آخر کونسی ایسی وجہ تھی کہ اتنی بڑی تعداد میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پہاڑوں پہ چڑھ گئے۔
اللہ کی قسم! مرزا دھوکہ دے گیا یہاں اپنے پیروکاروں کو, ہم آپکو بتاتے ہیں کہ وہ کیوں پہاڑوں پہ چڑھے تھے۔

دلیل نمبر : ۱

محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ صحابہ کرام کے اس تیسرے گروہ میں شامل تھے جنہوں نے جنگ صفین میں کسی بھی گروہ کا ساتھ نہیں دیا تھا کیوں کہ انکے پاس امام کائنات رسول اللہ ﷺ کی وصیت تھی کہ جنگ ہو تو پہاڑوں پہ چڑھ جانا لڑائی میں حصہ مت لینا۔

" محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں بے شک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا :
إِنَّهَا سَتَكُونُ فِتْنَةٌ وَفُرْقَةٌ وَاخْتِلَافٌ ، فَإِذَا كَانَ كَذَلِكَ فَأْتِ بِسَيْفِكَ أُحُدًا ، فَاضْرِبْهُ حَتَّى يَنْقَطِعَ
’عنقریب فتنہ ، افتراق اور اختلاف ( رونما ) ہو گا۔ جب یہ صورت حال پیش آئے تو تلواریں توڑ دینا اور پہاڑوں پہ چڑھ جانا۔"
(ابن ماجہ 3962)

غور فرمائیں کیا یہ بات مرزا نے بتائی تم لوگوں کو کہ جنگ صفین کے موقع پر جو ہزاروں صحابہ پہاڑوں پہ چڑھے
تھے اسکی وجہ یہ تھی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت تھی۔

سوچئے اگر معاویہ رضی اللہ عنہ کا گروہ باغی ہوتا تو قرآن تو کہتا یے باغیوں سے لڑائی کرو جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں جنگ سے دور رہنا اور پہاڑوں پہ چڑھ جانا ہے۔

میرے بھائیو! ہم نے کلمہ کس کے نام کا پڑھا ہے؟ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کا پڑھا ہے اور وہ جو بات کہتے ہیں وہ اللہ کی وحی سے ہی کہتے ہیں اور انہوں نے ہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو وصیت کی تھی کہ پہاڑ پہ چڑھ جانا اور تلوار توڑ دینا, گھروں میں بیٹھ جانا لیکن لڑائی میں حصہ نہیں لینا۔

یہ بات اگر مرزا بتا دیتا کہ جو ہزاروں صحابہ جنگ سے دور رہے وہ اس لیے دور رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت تھی تو اسکی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف کھڑی کی گئی ساری پروپیگنڈا عمارت تہس نہس ہو جاتی, اسی لیے اس نے بس یہ کہا کہ 30/40 ہزار صحابہ پہاڑوں پہ چڑھ گئے تھے اور آگے نکل گیا کیوں چڑھے تھے یہ نہیں بتایا
اس طرح یہ مرزا جہلمی مکار اور اس کے مقلدین دھوکہ دیتے ہیں لوگوں کو جسے ہر کوئی سمجھ نہیں پاتا۔

دلیل نمبر :۲

صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت اہبان بن صیفی غفاری رضی اللہ عنہ کے پاس سیدنا علی رضی اللہ عنہ خود چل کر آئے اور ان سے کہا:
يَا أَبَا مُسْلِمٍ أَلَا تُعِينُنِي عَلَى هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ؟
ابومسلم ! ( اہبان رضی اللہ عنہ ) کیا آپ ان لوگوں ( حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں ) کے خلاف (جنگ صفین میں ) میری مدد نہیں کریں گے ؟

حضرت اہبان بن صیفی غفاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

بَلَى ، قَالَ : فَدَعَا جَارِيَةً لَهُ ، فَقَالَ : يَا جَارِيَةُ أَخْرِجِي سَيْفِي ، قَالَ : فَأَخْرَجَتْهُ ، فَسَلَّ مِنْهُ قَدْرَ شِبْرٍ ، فَإِذَا هُوَ خَشَبٌ ، فَقَالَ : «إِنَّ خَلِيلِي وَابْنَ عَمِّكَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، عَهِدَ إِلَيَّ إِذَا كَانَتِ الْفِتْنَةُ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ فَأَتَّخِذُ سَيْفًا مِنْ خَشَبٍ ، فَإِنْ شِئْتَ خَرَجْتُ مَعَكَ» ، قَالَ : لَا حَاجَةَ لِي فِيكَ وَلَا فِي سَيْفِكَ

کیوں نہیں ، پھر اپنی ایک لونڈی کو بلا کر کہا : لونڈی ! میری تلوار نکال ۔ وہ تلوار لے آئی ۔ انہوں نے میان سے ایک بالشت تلوار باہر نکالی تو ( معلوم ہوا کہ ) وہ لکڑی کی تھی ۔ انہوں نے فرمایا : میرے محبوب اور تیرے چچا کے بیٹے ( رسول اللہ ﷺ ) نے مجھے یہ نصیحت کی تھی کہ جب مسلمانوں میں باہم فتنہ و فساد برپا ہو جائے تو میں لکڑی کی تلوار بنا لوں ۔ اب اگر آپ چاہتے ہیں تو میں آپ کے ساتھ ( لکڑی کی تلوار لے کر ) چلنے کو تیار ہوں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مجھے نہ تو آپ کی ضرروت ہے اور نہ آپ کی تلوار کی ۔

(ابن ماجہ: 3960) (جامع ترمزی: 2203)


غور فرمائیں کیا صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹ بول سکتے ہیں؟ انہوں نے واضح کر دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمیں یہی وصیت کی تھی کہ لڑنا نہیں یے اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان پڑھ کر بھی سنا رہے ہیں کہ ہمیں منع کیا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑائی میں شرکت کرنے سے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بھی جواب میں انکو قرآن یا حدیث پڑھ کر نہیں سنائی جیسا کہ مرزا جہلمی عوام کو گمراہ کرتا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ احادیث کھڑی تھیں, مرزا جہلمی جھوٹ بولتا یے اور لوگوں کو اہلبیت کی محبت میں غلو کا شکار کر کے دیگر صحابہ کرام کی توہین کا سبب بن رہا ہے کیا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی یہ جنگ کسی نص کی بنیاد پر تھی یا انکی ذاتی رائے اسکی ہم دلیل پیش کرتے ہیں۔

دلیل نمبر : ۳

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا آپ یہ جو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف اتنا بڑا قدم اٹھانے جا رہے ہیں کیا آپ کے پاس رسول اللہ ﷺ کا کوئی فرمان ہے یا آپکی اپنی ذاتی رائے ہے؟
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:
مَا عَهِدَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْءٍ وَلَكِنَّهُ رَأْيٌ رَأَيْتُهُ
مجھے رسول اللہ ﷺ نے کچھ نہیں فرمایا ، بلکہ یہ میری اپنی ذاتی رائے ہے ۔
(ابو داؤد:4666)


غور فرمائیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ یہ نہیں فرما رہے کہ میرے پاس کوئی نص ہے بلکہ وہ اسے اپنا اجتہاد کہہ رہے ہیں جبکہ جو تیسرا گروہ ہے انکے پاس کئی احادیث ہیں اور انہی احادیث کی بنیاد پر انہوں نے ان جنگوں میں شرکت نہیں کی اور خود کو دور رکھا اور ان جنگوں سے دور رہنے کی نصحیت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی کہ اپنی تلواریں توڑ دینا گھروں میں بیٹھے رہنا ان فتنوں سے بچ کر رہنا پہاڑوں پہ چڑھ جانا۔

اب دیکھیں نبی صلی اللہ نے یہ فرمایا تھا کہ صحابی کے سر پر تلوار رکھ دینا جیسا مرزا علی انجینئر نے کہا کہ میں ہوتا تو معاویہ رضی اللہ عنہ پر تلوار رکھ دیتا یا یہ فرمایا تھا کہ اپنی تلوار پہاڑ پہ رکھ دینا؟

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تو یہی نصیحت ہے کہ تلوار پہاڑ پہ رکھ کر توڑ دینا, باقی یہ فیصلہ اب آپ کر لو کہ تلوار کدھر رکھنی یے پہاڑ پہ یا کسی صحابی کے سر پہ! لیکن جدھر بھی رکھنی یے آپکی مرضی لیکن یہ یاد رکھنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت پہاڑ پہ رکھنے کی ہے۔ اب تم اپنی خواہش پر عمل کرنا چاہتے ہو یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت پر, یہ فیصلہ آپ خود کر لینا۔

دلیل نمبر: ۴

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ جو کہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں یہ بھی اسی تیسرے گروہ میں تھے جنہوں نے نہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ساتھ دیا نہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا اور انکے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وَسَعْدٌ فِي الْجَنَّةِ سعد جنتی ہے۔ (ترمزی:3747)

انہی سعد رضی اللہ عنہ سے کسی نے سوال کیا آپ لڑائی میں شرکت کیوں نہیں کر رہے تو سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
قَدْ قَاتَلْنَا حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ، وَأَنْتَ وَأَصْحَابُكَ تُرِيدُونَ أَنْ تُقَاتِلُوا حَتَّى تَكُونَ فِتْنَةٌ
ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مل کر فتنہ ختم کرنے کی خاطر جنگ لڑتے تھے جبکہ تم اور تمہارے ساتھی فتنہ برپا کرنے کی خاطر لڑنا چاہتے ہو ۔

(صحیح مسلم:277)

غور فرمائیں وہ ہزاروں صحابہ جنکی مرزا نے بات کی کہ انہوں نے جنگ میں حصہ نہیں لیا وہ اس لیے نہیں لیا کہ وہ ان جنگوں کو ٹھیک ہی نہیں سمجھتے تبھی شرکت نہیں فرمائی جسکی مزید وضاحت نیچے حدیث میں آ رہی یے۔

دلیل نمبر: ۵

حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے بھی جنگ صفین میں نہ علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا نہ معاویہ رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا اور یہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کوئی عام صحابی نہیں تھے بلکہ رسول اللہ ﷺ کے بہت محبوب تھے
رسول اللہ ﷺ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اور سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ, دونوں کو گود میں اٹھا لیتے اور فرماتے: اللَّهُمَّ أَحِبَّهُمَا فَإِنِّي أُحِبُّهُمَا اے اللہ! تو انہیں اپنا محبوب بنا کہ میں ان سے محبت کرتا ہوں۔ (صحیح بخاری:3735)

اسکے علاوہ رسول اللہ ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا:
أَنَّكُمْ قُلْتُمْ فِي أُسَامَةَ وَإِنَّهُ أَحَبُّ النَّاسِ إِلَيَّ
تم اسامہ رضی اللہ عنہ پر اعتراض کر رہے ہو حالانکہ وہ مجھے سب سے زیادہ عزیز ہے۔
(صحیح بخاری:4468) (ترمزی:3816)

یہی اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے تھے:

لَوْ كُنْتَ فِي شِدْقِ الْأَسَدِ لَأَحْبَبْتُ أَنْ أَكُونَ مَعَكَ فِيهِ ، وَلَكِنَّ هَذَا أَمْرٌ لَمْ أَرَهُ ، فَلَمْ يُعْطِنِي شَيْئًا
سیدنا علی رضی اللہ عنہ اگر شیر کے منہ میں ہوں تب بھی میں اس میں بھی آپ کے ساتھ رہوں لیکن یہ (جنگ صفین) معاملہ ہی ایسا ہے یعنی مسلمانوں کی آپس کی جنگ تو ( اس میں شرکت صحیح ) نہیں معلوم ہوئی۔
(صحیح بخاری:7110)


اور ہاں یہ وہی اسامہ رضی اللہ عنہ ہیں یہ جب بلکل چھوٹے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سےفرمایا تھا:
اے عائشہ! تم اسامہ سے محبت کیا کرو میں بھی اس سے محبت کرتا ہوں۔


دلیل نمبر : ۶

رب کعبہ کی قسم! جو صحابہ کرام تیسرے گروہ میں تھے انکے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی واضح احادیث تھیں جن میں بار بار یہی وصیت تھی کہ ایسے اختلاف و فتنوں سے بچ کر رہنا اور پہاڑوں پہ چڑھ جانا۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ عظیم صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں وہ بھی ان ہزاروں صحابہ کرام میں شامل تھے جنہوں نے جنگ صفین میں کسی گروہ کا ساتھ نہیں دیا تھا اسکی وجہ یہ تھی کہ انکے سامنے بھی رسول اللہ ﷺ کی یہ نصیحت موجود تھی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

سَتَكُونُ فِتَنٌ الْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْقَائِمِ وَالْقَائِمُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْمَاشِي ، وَالْمَاشِي فِيهَا خَيْرٌ مِنَ السَّاعِي وَمَنْ يُشْرِفْ لَهَا تَسْتَشْرِفْهُ وَمَنْ وَجَدَ مَلْجَأً أَوْ مَعَاذًا فَلْيَعُذْ بِهِ

”فتنوں کا دور جب آئے گا تو اس میں بیٹھنے والا کھڑا رہنے والے سے بہتر ہو گا، کھڑا رہنے والا چلنے والے سے بہتر ہو گا اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہو گا جو اس میں جھانکے گا فتنہ بھی اسے اچک لے گا اور اس وقت جسے جہاں بھی پناہ مل جائے بس وہیں پناہ پکڑ لے تاکہ اپنے دین کو فتنوں سے بچا سکے۔“
(صحیح بخاری:3601)


یہ حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے علم میں تھی کہ فتنوں کے دور میں خود کو اس سے دور رکھنا ہے اس لیے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس جنگ صفین میں کسی گروہ کا بھی ساتھ نہیں دیا تھا۔

دلیل نمبر : ۷

اب آپ ظلم کی انتہاء دیکھیں کیسے مرزا جہلمی لوگوں کی آخرت برباد کر رہا یے اور لوگوں کو اس گروہ کے متعلق سرے سے بتا ہی نہیں رہا کہ وہ ہزاروں صحابہ پر مشتمل سب سے بڑا تیسرا گروہ کیوں جنگ سے دور رہا!
اس دور میں دو گروہ نہیں بلکہ تین گروہ تھے؛
۱ : سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا گروہ
۲ : سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ گروہ
۳ : صحابہ کا تیسرا گروہ (جو ان میں سے کسی کے ساتھ بھی نہیں تھا) جیسا کہ ہم اوپر بتا چکے ہیں۔

عَنْ اَبِیْ بُرْدَۃَ قَالَ: مَرَرْتُ بِالرَّبْذَۃِ فَاِذَا فُسْطَاطٌ فَقُلْتُ: لِمَنْ ہٰذَا؟ فَقِیْلَ: لِمُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَۃَ، فَاسْتَاْذَنْتُ عَلَیْہِ فَدَخَلْتُ عَلَیْہِ فَقُلْتُ: رَحِمَکَ اللّٰہُ اِنَّکَ مِنْ ہٰذَا الْاَمْرِبِمَکَانٍ، فَلَوْ خَرَجْتَ اِلَی النَّاسِ فَاَمَرْتَ وَنَہَیْتَ، فَقَالَ: اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّہُ سَتَکُوْنُ فِتْنَۃٌ وَفُرْقَۃٌ وَاخْتِلَافٌ فَاِذَا کَانَ ذٰلِکَ فَأْتِ بِسَیْفِکَ اُحُدًا فَاضْرِبْ بِہٖعَرْضَہٗوَاکْسِرْنَبْلَکَوَاقْطَعْوَتَرَکَوَاجْلِسْ فِیْ بَیْتِکَ۔)) فَقَدْ کَانَ ذٰلِکَ۔ فَقَدْ کَانَ مَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَفَعَلْتُ مَا اَمَرَنِیْ بِہٖ،ثُمَّاسْتَنْزَلَسَیْفًا کَانَ مُعَلَّقًا بِعَمُوْد الْفُسْطَاطِ فَاخْتَرَطَہُ فَاِذَا سَیْفٌ مِنْ خَشَبٍ، فَقَالَ: قَدْ فَعَلْتُ مَا اَمَرَنِیْ بِہٖرَسُوْلُاللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاتَّخَذْتُ ہٰذَا اُرَھِّبُ بِہٖالنَّاسَ۔

سیدنا ابوبردہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ربذہ مقام سے میرا گزر ہوا، وہاں ایک خیمہ لگا ہوا تھا،میں نے پوچھا کہ یہ خیمہ کس کا ہے؟ کسی نے کہا کہ یہ محمدبن مسلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا ہے، پس میں نے ان کے پاس خیمہ میں داخل ہونے کی اجازت طلب کی اور اندر چلا گیا، میں نے کہا : آپ پر اللہ کی رحمت ہو، آپ کا اس جنگل میں کیا کام؟ بہتر ہوتا کہ آپ لوگوں میں رہتے اور ان کو نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے۔انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عنقریب فتنہ، تفرقہ بازی اور اختلاف پیدا ہو گا، اور اگر ایسے حالات پیدا ہوجائیں تو تم اپنی تلوار لے کر اس احد پہاڑ پر مار کر اسے کند کر دینا‘ تیر کو توڑ ڈالنا اور کمان کی تندی کاٹ دینا اوراپنے گھر میں بیٹھ جانا۔ اب ایسے ہی ہو چکا ہے، (اس لیے میں یہاں بیٹھا ہوا ہوں)۔ جو کچھ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا، وہ ہو چکا ہے، اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے جو حکم دیا تھا، میں نے اسی پر عمل کیا ہے۔ پھر انھوں نے خیمہ کے ستون سے لٹکی ہوئی تلوار اتروائی، لیکن جب اسے میان سے نکالا تو وہ تو لکڑی کی تلوار تھی، پھر انھوں نے کہا: میں نے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حکم پر عمل کر کے اپنے تلوار توڑ ڈالی ہے اور لوگوں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے یہ رکھی ہوئی ہے۔
(مسند احمد 12809)


غور فرمائیں یہ ان جہلاء کے لیے عبرت کا مقام یے جو کہتے ہیں ہم اس دور میں ہوتے تو صحابہ پر تلوار اٹھا لیتے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حق میں, جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نصیحت کی تھی کہ صحابہ پہ تلوار نہ اٹھانا آپس میں مت لڑنا پہاڑوں پہ چڑھ جانا۔

کیا مرزا جہلمی کے پیروکاروں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت پسند نہیں؟ وہ اسکی کی خواہش کیوں نہیں کرتے کہ ہم اس دور میں ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کے مطابق ان ہزاروں صحابہ کے گروہ میں شامل ہوتے جو جنگ سے دور رہا۔

ایک وسوسے کا خاتمہ:

مرزا جہلمی لوگوں کو ایک وسوسہ دیتا اور ان ہزاروں صحابہ میں سے 1/2 کے متعلق ضعیف روایات پیش کر کے کہتا یے
"وہ پچھتاتے تھے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ کیوں نہیں دیا"

انا لله و انا الیہ راجعون

یعنی میں حیران ہوں انکا دماغ کام نہیں کرتا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو ایسی وصیت کر سکتے تھے کہ جس پر عمل کرنے کے بعد انکو ذرا بھی پچھتاوا ہوتا؟
ہرگز نہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان جنگوں سے بچ کر رہنے کی وصیت اللہ کی وحی سے تھی اور اللہ اور اسکے رسول کی بات پر عمل کرنے کے بعد پچھتاوا نہیں ہوتا بلکہ اجر و انعامات ملتے ہیں۔

اللہ اور اسکا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر وصیت پر عمل کرنا ہی بہتر ہے اور اسی کا اجر عظیم ہے یہی والے کامیاب ہوں گے۔

لکھنے کو بہت کچھ ہے لیکن آخر میں اتنا کہوں گا ان سب دلائل سے یہی ثابت یوتا یے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا گروہ باغی نہ تھا ورنہ نہ ہزاروں صحابہ پہاڑوں پہ پناہ لیتے نہ جنگ سے دور رہتے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسی وصیتیں نہ کرتے کہ ایسے وقت میں تلوار توڑ دینا اور پہاڑوں پہ چڑھ جانا, بے شک اس میں اللہ اور اسکے رسول کی حکمت تھی۔

اور اس سے مقدمہ اہلسنت کی جیت ہوتی یے ,ہم یہی کہتے ہیں کہ دونوں گروہ حق پر تھے اپنی اپنی جگہ ٹھیک تھے ایک زیادہ حق پر ایک تھوڑا کم تبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی گروہ کا ساتھ نہ دینے کی نصیحت فرمائی تھی اپنے صحابہ کو, جس پر ہزاروں صحابہ نے عمل کیا, ہم نے حجت تمام کر دی یے باقی تو من نہ من کوئی زور تا نئیں۔
 
Last edited:
Top