HUMAIR YOUSUF
رکن
- شمولیت
- مارچ 22، 2014
- پیغامات
- 191
- ری ایکشن اسکور
- 56
- پوائنٹ
- 57
ہندوستان میں شیعت کا آغاز کب ہوا؟
شہنشاہ بابر جو مغلیہ سلطنت کا بانی مانا جاتا ہے۔ اس وقت تک اس خظہ پاک و ہند یعنی ہندوستان میں شیعہ خال خال ، گنی چنی جگہوں پر ہی پائے جاتے تھے۔ ملتان میں انکی اکثریت تھی لیکن سلطان محمود اور بابر شاہ غوری نے انکی اکثریت کو تباہ کردیا تھا۔ اسکے بعد ہندوستان میں کسی بھی مقام پر اہل تشیع کا مرکز قائم نہ ہوسکا۔ بابر کے عہد میں ایران میں شیعہ حکومت قائم تھی اور صفوی اپنے شباب پر حکومت کررہے تھے۔ بابر نے مختلف مقاصد کی بناء پر شیعوں اور صفویوں کی ہمدردی لینا چاہی۔ تزک بابری میں بابر اپنے ولی عہد ہمایوں کے لئے وصیت کرتا ہے:
٭ تم مذہبی تعصب کو اپنے دل میں ہرگز جگہ نہ دو اور لوگوں کے مذہبی جذبات اور مذہبی رسوم کا خیال رکھتے ہوئے اور رعایت کے بغیر سب لوگوں کے ساتھ پورا انصاف کرنا۔
٭ شیعہ سنی اختلافات کو ہمیشہ نظر انداز کرتے رہو، کیونکہ ان سے اسلام کمزور ہوجائے گا۔
(تزک بابری۔ اردو ترجمہ صفحہ 23)
جب ہمایوں نے سفر ایران کے بعد ہندوستان واپس آیا تو اسکے ساتھ بے شمار ایرانی سپاہی ، امراء اور علماء تھے اور اس وقت ایران اور ہندوستان کے زیادہ قریبی تعلقات کا آغاز ہوا۔ جسکی وجہ سے ہندوستان کی اسلامی تہذیب میں ایرانی اثرات تورانی (ترک) اور عرب اثرات سے بھی نمایاں ہوگئے۔
مورخ کہتے ہیں کہ جب ہمایوں ایران جاکر شیعہ ہوگیااور اسے شاہ ایران سے مدد اس وعدہ پر ملی تھی کہ وہ اپنی مملکت میں شیعہ عقائد کی ترویج کرے گا۔ یہ غالبا غلط ہے، لیکن اتنا قرین قیاس ہے کہ ہمایوں نے حضرت علی رض سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہوگا اور ذیل کی رباعی اس سے منسوب کی جاتی ہے۔
اسکے علاوہ جب وہ ہندوستان واپس آیا تو شیعہ عمال کا زیادہ عمل دخل ہوگیا اور انہیں اپنے مذہبی معاملات میں زیادہ آزادی مل گئی تھی۔ ہمایوں کا وزیر باتدبیر بیرم خان خود شیعہ تھا اور شیخ گرائی جنہیں عہد اکبری میں سب سے پہلے شیخ اسلام کا عہدہ ملا، شیعہ عقائد کے مالک تھے۔ حضرت علی رض کی تعریف میں بیرم خان کا ایک پرجوش قصیدہ ماثر رحیمی میں نقل ہوا ہے، جسکا مطلع یہ ہے
اورنگزیب کے امراء میں بھی اکثریت شیعوں کی تھی۔ ایرانی نسل افراد کے علاوہ سادات بارہہ شیعہ تھے۔ مشہور شیعہ جنکی اہل سنت میں بھی کچھ قدر ہے، ان میں غالب، آزاد اور سید امیر علی تھے۔ اسلامی ہند کی تاریخ میں شیعہ اور سنی شخصیتوں کو علیحدہ کرنا بڑا مشکل ہے، کیونکہ ایک تو بعض شیعہ حضرات افشائے مذہب کے معاملے میں تقیہ اور احتیاط کے قائل تھے، دوسرے پاکستانی ہندوستانی اہل سنت و الجماعت میں بھی تفضیلیوں کی کوئی کمی نہیں۔ چنانچہ متعدد ممتاز شیعوں مثلا میر سید علی ہمدانی، خواجہ محمود گاوان اور حضرت گیسو دراز کی نسبت اختلاف ہے کہ وہ شیعہ تھے یا سنی۔
(شیخ محمد اکرم کی کتاب رود کوثر سے ایک اقتباس۔ صفحہ 23-32)
شہنشاہ بابر جو مغلیہ سلطنت کا بانی مانا جاتا ہے۔ اس وقت تک اس خظہ پاک و ہند یعنی ہندوستان میں شیعہ خال خال ، گنی چنی جگہوں پر ہی پائے جاتے تھے۔ ملتان میں انکی اکثریت تھی لیکن سلطان محمود اور بابر شاہ غوری نے انکی اکثریت کو تباہ کردیا تھا۔ اسکے بعد ہندوستان میں کسی بھی مقام پر اہل تشیع کا مرکز قائم نہ ہوسکا۔ بابر کے عہد میں ایران میں شیعہ حکومت قائم تھی اور صفوی اپنے شباب پر حکومت کررہے تھے۔ بابر نے مختلف مقاصد کی بناء پر شیعوں اور صفویوں کی ہمدردی لینا چاہی۔ تزک بابری میں بابر اپنے ولی عہد ہمایوں کے لئے وصیت کرتا ہے:
٭ تم مذہبی تعصب کو اپنے دل میں ہرگز جگہ نہ دو اور لوگوں کے مذہبی جذبات اور مذہبی رسوم کا خیال رکھتے ہوئے اور رعایت کے بغیر سب لوگوں کے ساتھ پورا انصاف کرنا۔
٭ شیعہ سنی اختلافات کو ہمیشہ نظر انداز کرتے رہو، کیونکہ ان سے اسلام کمزور ہوجائے گا۔
(تزک بابری۔ اردو ترجمہ صفحہ 23)
جب ہمایوں نے سفر ایران کے بعد ہندوستان واپس آیا تو اسکے ساتھ بے شمار ایرانی سپاہی ، امراء اور علماء تھے اور اس وقت ایران اور ہندوستان کے زیادہ قریبی تعلقات کا آغاز ہوا۔ جسکی وجہ سے ہندوستان کی اسلامی تہذیب میں ایرانی اثرات تورانی (ترک) اور عرب اثرات سے بھی نمایاں ہوگئے۔
مورخ کہتے ہیں کہ جب ہمایوں ایران جاکر شیعہ ہوگیااور اسے شاہ ایران سے مدد اس وعدہ پر ملی تھی کہ وہ اپنی مملکت میں شیعہ عقائد کی ترویج کرے گا۔ یہ غالبا غلط ہے، لیکن اتنا قرین قیاس ہے کہ ہمایوں نے حضرت علی رض سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہوگا اور ذیل کی رباعی اس سے منسوب کی جاتی ہے۔
ہستیم زباں بندہ اولاد علی ہستیم ہمیشہ با یادِ علی
چوں کہ میر ِولایت زعلی ظاہر شد کردیم ہمیشہ وردِ ناد علی
اسکے علاوہ جب وہ ہندوستان واپس آیا تو شیعہ عمال کا زیادہ عمل دخل ہوگیا اور انہیں اپنے مذہبی معاملات میں زیادہ آزادی مل گئی تھی۔ ہمایوں کا وزیر باتدبیر بیرم خان خود شیعہ تھا اور شیخ گرائی جنہیں عہد اکبری میں سب سے پہلے شیخ اسلام کا عہدہ ملا، شیعہ عقائد کے مالک تھے۔ حضرت علی رض کی تعریف میں بیرم خان کا ایک پرجوش قصیدہ ماثر رحیمی میں نقل ہوا ہے، جسکا مطلع یہ ہے
شہے کہ بگزرد از نہ سپہرا افراد اگر غلام علی نسبت خاک بر سراد!
(شیخ محمد اکرم کی کتاب رود کوثر سے ایک اقتباس۔ صفحہ 23-32)