• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک

عاصم

رکن
شمولیت
اکتوبر 20، 2011
پیغامات
44
ری ایکشن اسکور
186
پوائنٹ
66
[اس مضمون کے لیے بنیادی استفادہ غلام رسول مہرکی کتابوں''سید احمد شہید،تحریکِ مجاہدین اورسرگزشتِ مجاہدین''سے کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سید مودودی ؒ کی ''تجدید و احیائے دین '' اور ابوالحسن علی ندوی ؒ کی تاریخِ دعوت و عزیمت حصہ ششم'' بھی پیشِ نظر رہیں۔یہ مضمون پندرہ روزہ "نشور" کراچی کی 16تا 30 نومبر ،2014 کی اشاعت میں شامل تھا]۔
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْہُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہ وَ مِنْہُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا
''ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے انہوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی''

جذبہ ء جہاد اورشوقِ شہادت امتِ مسلمہ کی وراثت ہیں۔نسل در نسل یہ جذبات گویاہر مسلمان کی گھٹی میں پڑے ہوتے ہیں۔ اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے، تبدیلی و انقلاب کے یہ دوایسے کارگر ہتھیارہیں جن کی مدد سے ہردور میں اس امت کے جواں عزم مردانِ کار نے کٹھن حالات میں اپنے خون سے جانبازی وسرفروشی کی بے مثال تاریخ رقم کی اور حالات کا دھارا موڑ کررکھ دیا ۔
اخلاص و فدائیت کے ان جذبات کی جڑیںایمان سے پھوٹتی ہیں۔ بندہئ مومن جب'' مسلم '' کے پیکر میں ڈحلتا ہے تو اس کی شخصیت کی وہ نمایاں تبدیلیاںجو اسے اپنے گردوپیش سے ممتاز کرتی ہیں ان میں ایک رضائے الٰہی حاصل کرنے کاجذبہ، اس کاذوق اورتڑپ اور شوقِِ شہادت ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی اس جہان سے رخصت کو ۱۵ صدیاں گذر چکیں لیکن آج بھی امت کے نوجوانوں میں یہ جذبہ اسی طرح موجزن ہے جو ان کا خون گرماتا اور باطل کو خاک چٹاتا رہتا ہے۔حالات کی آندھیاں جب امید کے دیے جھلملانے لگتی ہیں ،ایسے میں ان سرفروشوں کے واقعات کا مطالعہ ایمان کی بالیدگی اور تذکیر کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔
رسول اللہ ﷺکے تربیت یافتہ اصحاب سے لے کر حال کے دنوں تک فدائیت و سرفروشی کی اعلیٰ مثالیں قائم کرنے والے ہر دور میں موجود رہے ہیں۔
تحریک اور قائد
''تاریخ عظیم انسانوں کی سوانح کا نام ہے ''۔
ہر انقلابی جماعت کسی نظریے کی بنیاد پر وجود میںآتی ہے۔لیکن محض نظریہ کسی تحریک میں جان ڈالنے کے لیے کافی نہیں ہوتاجب تک اسے کوئی قائد میسر نہ آجائے۔ قائد کی اہمیت جماعت میں روح کی سی ہے ۔ جماعت کی پیش رفت اور لائحہئ عمل کا بہت بڑا انحصار قائد کے فہم و عمل پر ہوتا ہے۔ لہٰذا کسی انقلابی تحریک کا مطالعہ کرتے ہوئے اس کے قائد کے بارے میں جاننا بھی ضروری ہے۔
تحریکِ مجاہدین
برصغیر کی تاریخ کی پہلی اسلامی احیائی تحریک ''تحریکِ مجاہدین''ہے۔یہ تحریک امیرالمومنین سید احمد شہیدؒ کی سرابراہی میں چلی اور اس میں شاہ اسمٰعیل شہیدؒ جیسا جلیل القدر عالم و مجاہدان کے معاون کے طور پر شریک تھا۔''تحریک مجاہدین ''کا مطالعہ سید احمد شہید کی سوانح کے بغیر نامکمل ہے ۔
''سیرت سید احمدشہیدؒ''اور تحریکِ مجاہدین کا مطالعہ ہمارے لیے کیا اہمیت رکھتا ہے اسے غلام رسول مہر کے الفاظ میں پڑھیے:
''یہ ایک شخصیت کی سیرت نہیں بلکہ ایک نہایت اہم دینی تحریک کی مفصل سرگزشت ہے ، جو اس عاجز کے علم کے مطابق پاک و ہند کی اسلامی تاریخ میںاپنی نوعیت کی یگانہ تحریک تھی ۔یہ جن حالات میں شروع ہوئی وہ ہمارے عہد کے حالات سے بہت مشابہ تھے ۔لہٰذا اس شرگزشت میں ہمارے لیے عبرت و موعظت کا زیادہ سے زیادہ سرمایہ موجود تھا۔اس کے باب میں بیگانوں کی غلط فہمیاں اور مغالطہ انگیزیاں چنداں تعجب انگیز نہ تھیں ، لیکن جن یگانوں نے ان پر قلم اٹھایا وہ بھی اس کی عظمت یا صاحبِ دعوت کی بلند نگہی اور عزیمت کا صحیح اندازہ نہ کرسکے ۔ یا تو ٹھوکریں کھا کھا کر اس کی آبرو لٹاتے رہے یا قلتِ معلومات کی بناء پر تذبذب میں پڑکر کوئی واضح راہِ فیصلہ پیدا نہ کرسکے ۔۔۔۔تاریخِ پاک وہند میں جس عہد کو مسلمانوں کا دورِ زوال کہا جاتا ہے، یہ اسی کا ایک باب ہے۔ لیکن کیا کوئی حق پسند اور حق شناس انسان اس اعتراف میں تأمل کرکے گاکہ مسلمانوں کے عہدِعروج واقبال کا بھی کوئی حصہ اصولاً اس سے زیادہ شان دار یا زیادہ قابلِ فخر نہیں ہوسکتا؟حَکم و فیصلہ کا انحصار نتائج پر نہیں بلکہ عزمِ جہاد، ہمت و عمل اور راہِ حق میں کمال استقامت پرہوتا ہے۔ کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ کمالِ عزیمت اور کمالِ ہمت و استقامت کی ایسی مثالیں ہمارے عہدِ عروج کی داستانوں میں مل سکتی ہیں جن میں مقصود نصب العین دین اور صرف دین رہا ہو؟''(سید احمد شہیدؒ۔ ٖغلام رسول مہر)
اس مضمون میں ہم سید احمد شہید ؒ کے کردار کے اہم گوشوںاور تحریکِ مجاہدین کے بنیادی خدوخال اور اس کے اثرات کے مختصربیان پر اکتفا کریں گے کہ دوسری صورت میں یہ موضوع ایک مضمون نہیں بلکہ ایک طویل کتاب کا متقاضی ہے ۔
مختصر سوانحی وتحریکی خاکہ
شاہ علم اللہ ؒ ایک انتہائی دین دار اور متبع سنت بزرگ گزرے ہیں ان کے خاندان میںسید احمد (۶ صفر ۱۲۰۱ ھ /۹ نومبر ۱۷۸۶ء - ۲۴ذیقعدہ ۱۲۴۶ ھ/۶ مئی۱۸۳۱ء )کی پیدائش ہندوستان کے صوبہ اترپردیش کے ضلع رائے بریلی کے ایک قصبہ دائرہ شاہ علم اللہ میں ہوئی۔ آپ کا خاندان کئی پشتوں سے ارشاد و تلقین کی مسند پر فائز رہا اور اپنے حسنِ عمل اور خوبیئ کردار سے مرجع خلائق رہا۔ بچپن سے ہی شوقِ جہاد آپ کے دل میں گھر کرچکا تھا۔ گھڑ سواری، مردانہ و سپاہیانہ کھیلوں اور ورزشوں سے خاصا شغف تھا۔ والد کے انتقال کے بعد اپنے بعض ساتھیوں کے ساتھ(جو تلاشِ روز گار کے لیے عازمِ سفر تھے) لکھنؤگئے لیکن وہاں سے دہلی ،شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کی خدمت میں حاضری اور حصولِ علم کے لیے روانہ ہوگئے۔،وہاں شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ اور شاہ عبد القادر دہلویؒ کی صحبت میں تحصیل علم او ر تزکیے کے مراحل طے کیے۔اس کے بعدآپ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی تحریک اور انکے تجدیدی کام کو لے کر میدانِ عمل میں آگئے۔
یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی طاقت فنا ہو رہی تھی، مشرکانہ رسوم و بدعات اسلامی معاشرہ میں زور پکڑ رہے تھے، سارے پنجاب پر سکھ اور بقیہ ہندوستان پر انگریز قابض ہو چکے تھے۔ سید احمد شہید کا مشن اسلام کی سربلندی تھا۔جس کے لیے آپ نے مختلف تدابیر اختیار کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کی ۔ابتداً آپ نے بریلی میں نواب امیر خان کے لشکر میں ملازمت اختیار کی جوکہ آخری دور کے آزاد ہندوستانی امیروں میں سب سے طاقت ور تھا۔ سید صاحب کا مقصد نواب کی قوت کو اسلام کی سطوت کے احیاء کے لیے استعمال کرنا تھا۔ آپ نے لشکر میں دعوت و تبلیغ کا سلسلہ شروع کر دیا اور اس کا مثبت اثر ہوالیکن آخر کار سید صاحب پر واضح ہوا کہ نواب امیر خان سے وابستہ امیدیں پوری نہیں ہوسکتیں لہٰذا آپ نے اس سے علیحدگی اختیار کی۔ اسی دوران آپ کی دینداری اورخدارسیدگی کی شہرت عام ہوچکی تھی ۔شاہ ولی اللہ کے پوتے اور حضرت شاہ عبدالغنی کے صاحبزادے ، شاہ اسماعیل شہید(آپ کی تعلیم و تربیت آپ کے چچا حضرت شاہ عبدالعزیز کے سائے میں ہوئی۔ آپ نے سیف و قلم دونوں سے اسلام کی خدمت کی۔ سید احمد شہید بریلوی نے سکھوں کے خلاف جو جہاد کیا تھا۔ شاہ اسماعیل اس میں اُن کے دست راست رہے اور بالاخر بالاکوٹ ضلع ہزارہ میں بڑی جرات و مردانگی کے ساتھ سکھوں کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے)، محمد یوسف (شاہ ولی اللہ کے بھائی کے پوتے)اور شاہ عبد الحئی جیسے بزرگ آپ کی بیعت میں شامل ہو گئے۔ابتدا میںآپ نے مسلمانوں میں رائج فضول رسوم وبدعات کو ختم کرنے کا بیڑا اٹھایااور اپنے مریدین و متبعین میں سادگی اورخالص اتباعِ سنت کے اوصاف پید ا کرنے پر زور دیا۔آپ نے اپنے ساتھیوں میں مجاہدانہ صفت پیدا کی اور ہندوستان میں اسلامی حکومت کے احیاء کے لیے جہاد پر آمادہ کیا۔ اس تحریک کو تحریک مجاہدین کا نام دیا گیا۔آپ کی کوششوں کا بنیادی محوراسلامی حکومت کا قیام تھا جس کے لیے آپ نے اپنے متبعین کو جہاد فی سبیل اللہ کی تلقین کی اور ان میں بدعتوں اور فضول رسومات سے بڑھ کر خالص اتباعِ سنت کرنے کا جذبہ پیدا کیا۔آپ نے مختلف علاقوں کے تبلیغی و اصلاحی دورے کیے اور بے شمار لوگوں کی اصلاح کی ۔ ۱۸۲۱ء میں سید صاحب نے حج کا قصد ان حالات میں کیا کہ رستے کے مسائل کے سبب فریضہ ئ حج کی مشروعیت ساقط قرار دی جارہی تھی لیکن آپ نے اس سنگین فتنے کا سدباب کیااور اپنے ساتھ بے سروسامانی کے باوجود مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت کو ساتھ لے کر حج کرنے گئے ااور دو سال تک وہاں قیام کیا۔حرم سے واپسی کے بعد آپ اپنے اولین مقصد (اسلامی حکومت کے قیام )کے لیے ہمہ تن مصروف ہوگئے۔ بالآخرآپ اس نتیجے پر پہنچے کہ انگریزوں اور سکھوں کی یورش کا مقابلہ کرنے کے لیے آزاد قبائلی علاقہ جات کو مرکز بنانا موزوں ہوگا۔ چنانچہ آپ نے اپنے ساتھیوں کے ہم راہ ان علاقوں میں ہجرت کی اوروہاں سے پرچمِ جہاد بلند کیا۔ اس بلند آہنگ نعرے کی بازگشت غلام ہندوستان کے گوشے گوشے میں سنی گئی اوراپنے فرائض کی بجا آوری کا بھولا سبق مسلمانوں کے اس طبقے نے جس کا دل مردہ نہیں تھا، انتہائی جذب و شوق کے عالم میں پڑھا اور اس کے نتیجے میںایک ایسی تحریک وجود میں آئی جس کی مثال آخری صدیوں میں نہیں ملتی۔آپ نے خلافتِ اسلامی کا احیاء کیا اور زیرِ نگیں علاقوں میں شرعی قوانین نافذ کیے ۔سکھوں اور انگریزوں سے زیادہ آپ کو مسلمانوں کے شوریدہ سر مفادپرست امیروں اور سرداروں کی مخالفت اور محاذ آرائی کا سامنا رہا۔سکھوں سے بھی آپ کے کئی معرکے ہوئے۔پہلا معرکہ اکوڑہ کے مقام پر ہوا۔ جس میں سکھوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری لڑائی حضرد میں ہوئی اور مسلمانوں نے یہ جنگ بھی جیت لی۔۱۸۳۰ء میں پشاور پر مجاہدین کا قبضہ ہو گیا۔ سید صاحب کو ابتدائی فتوحات کے بعد امیر المومنین تسلیم کر لیا گیا اور مفتوحہ علاقوں میں اسلامی قوانین نافذ کر دیئے گئے۔
سکھ راجہ رنجیت سنگھ نے سید صاحب کے خلاف اندرونی اور بیرونی محاذ کھول دیئے۔ ایک طرف اپنے فرانسیسی جرنیل ونٹورا کو فوجیں دے کر بھیجا اور دوسری جانب پٹھانوں اور سید صاحب کے ہندوستانی متبعین میں اختلاف ع عناد کے بیج بودیئے۔ جس کی وجہ سے بعض مقامی پٹھانوں نے بے وفائی کی۔ ۱۸۳۱ء میں ایبٹ آباد میں بالا کوٹ کے مقام پر سید صاحب اور سکھوں کے درمیان زبردست مقابلہ ہوا۔ سید احمد، شاہ اسماعیل اور کئی دوسرے اکابر شہید ہوگئے۔ یہ جنگ سکھوں نے جیت لی۔
اس جنگ کے بعد بچے کھچے مجاہدین پہاڑوں پر چلے گئے اور وہاں اپنی جدوجہد جاری رکھی۔اس تحریک کے پہلے امیر سید نصیر الدین دہلویؒتھے۔آپ کی وفات کے بعد عبدالرحیم سورتی، مولانا ولایت علی صادقپوری،مولانا عنایت علی غازی اورمولانا عبداللہ نے اس تحریک کی رہنمائی و قیادت کے فرائض انجام دیے ۔ یہ تحریک قیام پاکستان تک کسی نا کسی صورت میں جاری رہی ،بلکہ اس تحریک کے مجاہدین نے پاکستان بننے کے بعد کشمیر کے محاذ پر بھی جنگ لڑ کر قربانیاں دی ہیں۔(جاری ہے)
 
Top