• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہند

شمولیت
نومبر 11، 2013
پیغامات
79
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
63
ئی دہلی : ۳ مارچ ۲۱۰۲ء
امام کعبہ ڈاکٹر سعود بن ابراہیم الشریم حفظہ اللہ نے عدالۃ الصحابہ کے عنوان پر خطاب کرتے ہوئے صحابہ کرام کی فضیلت قرآن وسنت کی روشنی میں بیان فرمائی اور کہا کہ صحابہ کرام کی طرف انگلی اٹھانا در اصل دین کی تنقیص اور دین کا کفر ہے ۔
صحابی کی تعریف میں مہاجرین ، انصار اور وہ تمام لوگ شامل ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی فضیلت کہیں تفصیل سے اور کہیں اجمالا بیان فرمائی۔ اور وضاحت سے فرمادیا ہے کہ’’رضی اللہ عنہ ورضوا عنہ‘‘» اللہ ان سے راضی ہوا اوروہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہوگئی«۔

امام کعبہ نے کہا کہ صحابہ کرام کی فضیلت کے سلسلے میں ذخیرہ احادیث بھرے پڑے ہی۔ چنانچہ اللہ کے رسول نے فرمایا: لا تسبوا اصحابی فواللہ لو انفق احدکم مثل احدذہبا لم یبلغ مدا احدہم ولا نصیفہ »میر ے صحابہ کوگالی مت دو قسم ہے اللہ کی اگرتم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کردے گا تووہ ان کے دوڈھائی کلو اناج کے برابر بھی ثواب حاصل نہیں کرسکتا«۔
عدالت صحابہ قرآن وسنت سے ثابت ہے ، صحابہ کرام انسانیت کے بہی خواہ اور اخلاق وکردار کے معیار تھے ، انہوں نے دین کو صحیح صورت میں ہم تک پہونچایا یہ اللہ کے رسول ؐ کے تربیت یافتہ گروہ تھی۔ انہوں نے دین وانسانیت کی خدمت کے لیے خود کو وقف کردیا تھا۔ اور زندگی کے ہر شعبہ میں قابل تقلید نمونہ چھوڑ گئی۔ آج انسانیت صحابہ کرام کے اسوہ کو اپنا کر موجودہ زمانے کی مشکلات کا مقابلہ کرسکتی ہے اور اسوہ صحابہ پر عمل کرنے والا انسان ملک وقوم اور انسانیت کے لیے ہرطرح کی قربانی پیش کرسکتا ہی۔
امام کعبہ نے اپنی تقریر میں ملک وملت اورانسانیت کی بھلائی کے لیے دعائیں کی ۔
مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے جنرل سکریٹری مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی نے استقبالیہ کلمات میں امام محترم کی تشریف آوری کو ہندوستانیوں کے لیے باعث سعادت قرار دیا ، ان کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ مرکزی جمعیت اہل حدیث قدیم ترین تنظیم ہے جو دین ، ملک وملت اور انسانیت کی بھلائی کے کام انجام دے رہی ہی۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث ایک اصولی اور دستوری تنظیم ہے اور وہ امن وسکون اور خدمت انسانیت میں یقین رکھتی ہی۔قرآن وسنت اس کی اساس ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ہم صحابہ کرام کا احترام کرتے ہیں۔ عدالۃ الصحابۃ کے عنوان پریہ کانفرنس اس لیے منعقد کی گئی کہ صحابہ کرام ؓ دین پر عمل کرنے اور انسانیت کی خدمت کرنے کے حوالے سے رول ماڈل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گاندھی جی نے کہا تھا کہ ملک آزاد ہونے پر ہم خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق کی خلافت قائم کریںگی۔
ناظم عمومی نے جمعیت اہل حدیث کی خدمات اور جنگ آزادی میں ان کی گرانقدر خدمات کے حوالے سے کہا کہ پنڈت جواہر لال نہروں نے کہا تھا کہ’’ اگر پورے ہندوستان کے مجاہدین آزادی کی قربانیاں ایک پلڑے میں رکھ دی جائے اورصادق پور کے اہل حدیثوں کی قربانیاں دوسرے پلڑے میںہوں تو صادق پور کے اہل حدیثوں کی قربانیاں بھاری پڑجائیں گی‘‘۔
معروف عالم دین مولانا انیس الرحمن اعظمی (تمل ناڈو) نے کہا کہ اتحاد واتفاق وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے شذوز پسندی صحابہ کا اسوہ نہیں ہی۔
جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے مرکزی جمعیت اہل حدیث کو مبارکباد دی کہ اس نے عدالۃ الصحابہ کے عنوان پر منعقد کی وہ بہت ہی بروقت ہے جس سے صحابہ کرام ؓ کی تعلیمات کو عوام الناس کے سامنے پیش کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس دو روزہ کانفرنس میں امام کعبہ کی مستقل شرکت نے اسے زینت بخشی۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ صحابہ کرام ؓ کے اسوہ پر عمل کر کے ہی موجودہ دور کے مسائل کا حل ممکن ہی۔ صحابہ کرام بلاشبہ محسن انسانیت تھی۔ انہوں نے توقع کی کہ جمعیت کی اس کوشش کو بڑھاوا ملے گا۔
اس اختتامی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی ہند مولانا سید جلال الدین عمری نے کہا کہ عدالت صحابہ کا نفرنس کے حوالہ سے مجھے آپ کے روبرو ہونے کی سعادت نصیب ہورہی ہی۔ اس کے لئے میں آپ کا اپنی جانب سے اورجماعت اسلامی کی جانب سے شکر گزار ہوں۔ تمسک بالکتاب والسنۃ ہی کامیابی کی اصل ضمانت ہے ۔ ہماری ذلت کا اصل سبب ان بنیادی اصولوں سے انحراف ہی۔ انہوں نے کہا کہ امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دین صحیح کوپہچانے میں صحابہ کرام سے کوئی چوک نہیں ہوئی۔ جمعیت اہل حدیث کا میں شکرگزار ہوں کہ انہوںنے یہ کانفرنس منعقد کی۔
رکن پارلیمنٹ محمدادیب نے کہا کہ ہم مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے شکر گزار ہیں کہ اس نے ہمیں سوتے ہوئے سے اٹھایااور عدالۃالصحابہ جیسے اہم موضوع پر یہ کانفرنس کراکر ہم سب کو امام کعبہ کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع فراہم کیا۔ ہم زمین پر رحمت بنیں، زحمت نہ بنیںاور امن وامان قائم رکھیں۔
مولانا سید سلمان حسنی ندوی نے کہاکہ یہ ہمارے لیے فخر کی بات ہے کہ امام کعبہ مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کی جانب سے منعقد اکتیسویں اہل حدیث کانفرنس میں بنفس نفیس موجود ہیںاور ہمیں عدالۃ الصحابہ کے تعلق سے قیمتی باتوں کے ذریعہ مستفیض کررہے ہیں۔
اس موقع پر مولانا اقبال محمدی، کنوینر کانفرنس نے مرکزی جمعیت کے ذمہ دران کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے ان پر اعتماد کرتے ہوئے اتنی بڑی ذمہ داری سونپی نیز تمام ذمہ داران و کارکنان ہمارے شکریے کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ہمارا ہر ممکن تعاون فرمایا۔
ناظم عمومی مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند نے آخر میں حکومت کے ذمہ داران ، پولیس انتظامیہ ، ٹریفک، ایم سی ڈی ، میڈیا ، علماء کرام اور قرب وجوار اور دور دور سے آئے ہوئے لاکھوںشرکاء نیز صوبائی و دیگر ذیلی جمعیات ، اراکین مجالس عاملہ وشوریٰ واستقبالیہ وابستگان جماعت کے ساتھ ساتھ دیگر سیاسی ، سماجی و ملی تنظیموں کا شکریہ ادا کیاکہ انہوں نے اس کانفرنس کی کامیابی کے لیے بھر پور تعاون پیش کیا۔
اجلاس کے آخر میں مولانا خورشید عالم مدنی نے دینی وسماجی ، قومی وملی اور عالمی امور پر مشتمل ۲۳رکنی قراداد پیش کی جسے اتفاق رائے سے پاس کیا گیا۔
جو درج ذیل ہیں:
دینی وسماجی امور
۱ اکتیسویں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس ،مرکزی جمعیت اہل حدیث ہندکے زیراہتمام عدالت صحابہ کرامؓ کے عنوان سے انعقاد کا خیر مقدم کرتی ہی۔ اسے موجودہ حالات میں بروقت، ضروری اور اپنے مقصد میں کامیاب قرار دیتی ہی۔
۲ بلاشبہ صحابہ کرام کے حوالے سے ہمارا عقیدہ وہی ہے جو کتاب وسنت میں ہے اور جسے سلف صالحین اور ائمہ کرام نے اپنایا ہی۔ صحابہ کرام انبیاء کے بعد افضل البشر ہیں۔ان صاف دل، پاکبازوں اور اللہ کے ولیوں کے خلاف زبان درازی کرنا ایمانی روح کے منافی ہی۔چنانچہ یہ کانفرنس عامۃ المسلمین سے اپیل کرتی ہے کہ وہ شریعت میں مقررہ ضابطوں کے مطابق صحابہ کرام سے محبت رکھیں اور ان کا ادب کریں۔
۳ یہ کانفرنس امام حرم ڈاکٹر شیخ سعود بن ابراہیم الشریم حفظہ اللہ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہے کہ انہوں نے یہاں آکر دو روزہ کانفرنس کو زینت بخشی اور اسلام کے توحید، امن واخوت کا پیغام عام انسانوں کے سامنے پیش کیا۔
۴ آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس ملک کے کونے کونے سے آئے ہوئے علمائے کرام ، ادباء عظام اور ضلعی وصوبائی ذمہ داران جمعیت اہل حدیث سے گذارش کرتا ہے کہ وہ اپنے اپنے جلسوں، اجتماعات، خطبات جمعہ اور حلقہ ہائے دروس میں فضائل صحابہ واہل بیت اور عظمت صحابہ سے متعلق مختلف موضوعات پر روشنی ڈالتے رہیں تاکہ عوام وخواص صحابہ کرام اور ان کی دینی وانسانی خدمات سے واقف ہوسکیں اور مسائل کے گرداب میں پھنسی ہوئی اور مصائب وآلام سے سسکتی ہوئی انسانیت کو اسوۂ صحابہ سے حقیقی زندگی مل سکی۔ نیز یہ کانفرنس ارباب مدارس سے اپیل کرتی ہے کہ اپنے نصاب تعلیم میں مناقب وفضائل صحابہ واہل بیت کے تحت آنے والے ابواب ضرور شامل کرلیں تاکہ صحابہ کرام ہماری نوجوان نسل کے لئے معیار ہدایت بن سکیں۔ اسی طرح یہ کانفرنس اہل قلم وصحافیوں سے اپیل کرتی ہے کہ ان موضوعات پر خصوصی تصانیف اور مخصوص کالمزلکھیں تاکہ صحابہ کرام کی زندگی کے روشن نقوش نکھر کر سامنے آئیں۔نیز یہ کانفرنس ان تنظیموں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے جو صحابہ کرام کی رفعت شان کے سلسلے میں کام کررہی ہیں۔
۵ اس کانفرنس کا یہ احساس ہے کہ عصر حاضر میں مسلمانوں کی تمام پریشانیوں کا سبب قرآن وحدیث سے دوری ہی۔ اس لیے مسلمان اپنے جملہ مسائل کے حل کے لیے قرآن وحدیث کو صحابہ کرام ؓ کی طرح اپنا آئیڈیل بنائیں۔
۶ یہ کانفرنس عالم انسانیت سے بالعموم اور مسلمانوں سے بالخصوص مؤدبانہ گذارش کرتی ہے کہ صحابۂ کرام کے طریقۂ عبادت کے مطابق توحید وسنت کے ساتھ اپنا معاملہ بہتر کرلیں اور صحابہ کرام کے اعمال کو خیرالناس قرنی کے پس منظر میں حرف آخر تصور کریں۔ دین میں اپنی طرف سے عبادت کے نئے طریقے ایجاد نہ کریں ،نہ محبت کے نام پر حقوق اللہ اور حقوق العباد میں خلط ملط کریں تاکہ دین اپنی اصل شکل میں محفوظ ومامون رہی۔
۷ یہ کانفرنس سماج میں پھیلی ہوئی مختلف قسم کی برائیوں پر اظہار تشویش کرتی ہے اوروہ محسوس کرتی ہے کہ ان برائیوں کا خاتمہ ہونا چاہئے اور ایک صالح معاشرے کا قیام عمل میں آنا چاہئی۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ملی ودینی تنظیمیں اور جماعتیں اصلاح معاشرہ کی مہم شروع کریں اور صحابہ کرام کی تعلیمات اور اسوہ کی روشنی میں سماجی برائیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں۔
۸ یہ کانفرنس عام مسلمانوں سے گزارش کرتی ہے کہ صحابہ کرام کے پاکیزہ معاشرے کو رول ماڈ ل (ole Model)بناتے ہوئے اپنے معاشرے کو شراب، منشیات ، جنسی بے راہ روی، لوٹ مار، چوربازاری، دھوکہ دہی اور ہر طرح کی مضر حرکات سے محفوظ رکھیں۔
۹ آج نوجوانوں میں پائی جانے والی مخرب اخلاق عادات کو دور کرنے کی شدید ضرورت ہی۔ لہذا یہ کانفرنس دینی جماعتوں سے اپیل کرتی ہے کہ نوجوانوں کے اندر اسلام کی صحیح تعلیمات واخلاق کو پروان چڑھانے کی کوشش کریں۔
۰۱ یہ کانفرنس سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر اظہار تشویش کرتی ہے جس میں بغیر شادی کے مرد وعورت کے ایک ساتھ رہنے اور زندگی گزارنے کو صحیح اور جائز ٹھہر ا یا گیا ہی۔ اسے مذہبی اور سماجی نقطہ نظر سے کسی بھی طرح قبول نہیں کیا جاسکتا۔ اسی کے ساتھ ساتھ یہ اجلاس ہم جنسی کو سماج کے لیے خطرناک قرار دیتے ہوئے حکومت ہند سے مطالبہ کرتی ہے کہ اس سلسلہ میں اخلاقی قدروں اور عوامی احساسات کا خیال کر تے ہوئے ہم جنسی تعلق پر قانون میں ترمیم کے ذریعہ روک لگائی جائی۔
۱۱ گھریلو تشدد ایکٹ (Domestic Violence Act)میں بھی موجوداسی قسم کی Live-in-Relationshipکے جُز پر بھی یہ کانفرنس تشویش ظاہر کرتی ہے اور مرکزی حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اس ایکٹ سے اس حصہ کو خارج کری۔
ملی وقومی امور:
۲۱ مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کی یہ کانفرنس اقلیتوں کے لئے 4.5فیصدریزرویشن کا خیر مقدم کرتی ہے لیکن یہ کوٹہ آبادی کے تناسب سے ناکافی ہی۔ لہذا حکومت مسلمانوں کی سماجی ترقی کے لیے سچرکمیٹی اورمشرا کمیشن کی سفارشات جلد ازجلد نافذ کری۔
۳۱ یہ کانفرنس ملک اور بیرون ملک میں ہونے والے دہشت گردانہ واقعات اوربم دھماکوں کی پر زور مذمت کرتی ہے اور حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ ان مجرمانہ واقعات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کر کے مجرمین کو قرار واقعی سزا دی جائے اور کسی بھی طرح بے قصور اس کے شکار نہ ہوں اور محض شک کی بنیاد پر کسی بے قصور کو نہ ستا یا جائی۔
۴۱ یہ کانفرنس حکومت ہند سے دیگرانکاؤنٹروں کی طرح بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کی بھی تحقیقات کا مطالبہ کرتی ہی۔اور کانفرنس کا یہ احساس ہے کہ ان تحقیقات سے کسی بھی ادارہ کا حوصلہ نہیں گرے گابلکہ قانون وانصاف کی بالا دستی ثابت ہوگی۔
۵۱ یہ کانفرنس ملک کے مختلف حصوں میں بے قصور مسلم نوجوانوں کی گاہے بگاہے گرفتاری پر اظہار تشویش کرتی ہے اورحکومت ہند سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اس سلسلے میں انصاف و غیرجانبداری سے کام لے اور ایک ایسے وقت میں جب کہ ہندوتو گروپ سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد نے اقبال جرم کر لیا ہے انہیں معاملوں میں بے قصور و معصوم مسلمانوں کو جلد از جلد رہا کیا جائے اور برسوں سے بند بے قصور افراد کی رہائی کے بعد سماج میں ان کی عزت وقار سے بحالی اور باز آبادکاری ہو اور انہیں مناسب اور معقول معاوضہ دیا جائی۔
۶۱ یہ کانفرنس حکومت ہندسے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ فرقہ وارانہ فسادات کے رونما ہونے پر انتظامیہ کوجواب دہ بنائے اور ملوث افراد کوقرارواقعی سزادی، علاوہ ازیں متاثرین کی بازآبادکاری اور معقول معاوضہ کو یقینی بنائی۔
۷۱ یہ کانفرنس حکومت ہند سے مطالبہ کرتی ہے کہ مذہب کوبنیاد بناکر مسلم اقلیت کے ساتھ سوتیلا رویہ نہ اپنایاجائے کیونکہ سچرکمیٹی نے دلائل اورشواہد کی بنیاد پر مسلمانوں کودلتوں سے بھی زیادہ پسماندہ قرار دیاہے ۔ اس لئے پسماندگی کو بنیاد بناکر پوری مسلم اقلیت کورزرویشن کے دائرہ میں لایا جائی۔ا س میں کسی طرح کی کوئی آئینی رکاوٹ نہیں ہی۔
۸۱ یہ کانفرنس انگریزی وہندی ہفتہ وار انڈیا ٹوڈے میںشائع اس خبر کی بھر پور مذمت کرتی ہے جس میں جمعیت اہل حدیث پر دہشت گردی کے حوالے سے بے سروپا الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ اور مطالبہ کرتی ہے کہ وہ فوری طور پر اپنی اس بیجا حرکت کے لیے معافی مانگے اور آئندہ اس طرح کی بے بنیاد خبریں شائع کرنے سے قطعی طور پر احتراز کری۔ اسی کے ساتھ ساتھ یہ کانفرنس میڈیاسے عمومی طورپرگذارش کرتی ہے کہ وہ اس تعلق سے خصوصی توجہ دے کیونکہ آزادی وطن کے لیے بیش بہا قربانیاں پیش کرنے والی تنظیم پر اس قسم کے الزامات قطعا غیر مناسب اور غیر اخلاقی ہیں۔
۹۱ یہ کانفرنس حکومت ہند سے مطالبہ کرتی ہے کہ ڈائریکٹ ٹیکس بل سے مذہبی اداروں، عبادت گاہوں اورمذہبی تنظیموں کومستثنی رکھاجائی۔
۰۲ یہ کانفرنس حکومت ہند سے مطالبہ کرتی ہے کہ وقف ترمیمی بل میں قابل اعتراض امورپر نظر ثانی کی جائے کیونکہ اگر بل کے قابل اعتراض مجوزہ نکات کوحذف نہیں کیا گیا تواس سے ہزاروں وقف اراضی ضائع ہوجائیںگی۔
۱۲ یہ کانفرنس حکومت ہند سے مطالبہ کرتی ہے کہ حق تعلیم ایکٹ میں شامل ان نکات کو ختم کیاجائے جن سے اقلیتوں کے تعلیمی اداروں پر ضرب پڑتی ہی۔
۲۲ یہ کانفرنس حالیہ دنوں ملک کی پانچ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے حوالے سے عوام کے ان بہتر رجحانات کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتی ہے جن میں سیکولر اور ایماندار فرض شناس امیداروں کو ووٹ حاصل ہوا ہی
عالمی مسائل:
۳۲ مملکت سعودی عرب جو امن کا گہوارہ ہی، جو امن کے سلسلے میں مثالی مملکت ہے اور جس ارض مقدس میں حرمین شریفین ہی، یہ کانفرنس اس میں کسی طرح کی بدامنی پھیلانے کی کوشش اور دہشت گردی کے ارتکاب کی مذمت کرتی ہے اور اسی طرح خادم حرمین شریفین کے ذریعہ عالمی مکالمے کے انعقاد کو ساری انسانی برادری کے لئے خو ش آئندگردانتی ہے اور اسے انسانی بھائی چارہ کے لئے اہم پیش رفت اور دہشت گردی کے خلاف مملکت سعودی عرب کی کامیاب کوششوں کا اہم حصہ قرار دیتی ہی۔ نیز اس یقین کا اعادہ کرتی ہے کہ قرآن وسنت کی روشن تعلیمات پر مبنی اسلامی مملکت سعودی عرب انسانیت کی فلاح وبہبود کے کاموںاور دہشت گردی مخالف مہم کی قیادت کرسکتی ہی۔
۴۲ عراق اور افغانستان کئی دہائیوں سے عالمی سیاسی ڈپلومیٹک مہروں کی چالوں سے سخت پریشان ہیں۔ انھیں کرب کے تمام حالات سے گذرنا پڑا اوراب بھی انھیں امن واطمینان نصیب نہیں ہی۔ عدالت صحابہ کرام ؓ کے تناظر میں ۱۳ ویں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس چاہتی ہے کہ عراقی اور افغان عوام کے زمینی حقائق ان کے مسائل کے حل میں بنیادی کردار ادا کریں اوران پر سازشی سیاست نہ تھوپی جائی۔
۵۲ عالم اسلام کے سیاسی مسائل کو عالمی طاقتوں نے پیچیدہ بنادیا ہے اوران کے متعلق دوہرا کردار اپنایا جارہا ہے اورہرطرح سے خطہ خلیج کو لوٹنے ڈرانے اوردھمکانے کی کوشش کی جارہی ہی۔ یہ کانفرنس عالمی طاقتوں کے اس رویے پر دکھ کا اظہار کرتی ہے اور چاہتی ہے کہ عدالت صحابہ کرامؓ کانفرنس کے حوالے سے یہ طاقتیں انسانیت، شرافت، انصاف اوراصلاح خلق کا پیغام قبول کریں اورمنفی ڈپلومیسی وسیاست سے باز آجائیں۔
۶۲ اسرائیل کی جارحیت مصالحتی اٹھک بیٹھک کے سائے میں نقطۂ عروج کو پہنچ چکی ہے اوراس کی ساری گھناؤنی کاوشیں اس پر لگ گئی ہیں کہ وہ اسلامی مقدس مقامات کو تباہ وبرباد کردی، قبلہ اول کو ڈھادے اورفلسطینیوں کی نسل کشی کرڈالے اور ان پر عرصۂ حیات تنگ کری۔ یہ کانفرنس اسرائیل کی بھرپور مذمت کرتی ہے اوراس طرح اس کے مظالم میں ساتھ دینے والوں کے رویے پر تشویش کا اظہار کرتی ہے اورفلسطین کاز سے ہمدردی رکھنے والوں کی ستائش کرتی ہی۔
۷۲ برصغیرکے خطے میں یہ کانفرنس امن وسکون کا ماحول دیکھنے کی متمنی ہے اورجارحیت کا رویہ اپنانے والے ہرفریق سے تفاہم اورتعاون کی اپیل کرتی ہے اوریہ سمجھتی ہے کہ خطے کے عوام امن چاہتے ہیں اورامن کے ساتھ خوشحالی کو وابستہ سمجھتے ہیں اور اس سلسلے میں کسی بھی طرح کی مذاکراتی پیش رفت کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
۸۲ یہ کانفرنس مطالبہ کرتی ہے کہ مصرمیں حسنی مبارک کی حکومت کے خاتمے کے بعدوہاں کی عوام کی خواہش کے مطابق بسہولت حکومت قائم کرنے کی راہ ہموارکی جائی۔
۹۲ یہ کانفرنس حکومت شام کی جانب سے ملک میں جاری ظلم وبربریت کو تشویش کی نگا ہ سے دیکھتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ ملک میں خون خرابے کوفوری طورپرروکاجائے اور عوام کی مرضی کے مطابق اقتدار کی منتقلی کا راستہ ہموار ہونے دیاجائی۔
۰۳ بعض میڈیا نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جومعاندانہ رویہ اختیار کررکھا ہے اور آئے دن کوئی نہ کوئی شگوفہ چھوڑا جاتا ہی۔ خصوصا مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑنے کا سلسلہ جاری رکھا ہی، یہ کانفرنس اس کی سخت مذمت کرتے ہوئے حرف بحرف تردید کرتی ہی۔ خصوصا مصلح امت شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب اور امام ابن تیمیہ کی دعوت کو بدنام کرنے کی سازش اور اسے دہشت گردی سے جوڑنے کی سخت مذمت کرتی ہے ۔ اکتیسویں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس ایسی تمام ناروا کوششوں کو سخت ناپسند کرتی ہے اورپرنٹ والیکٹرانک دونوں میڈیا سے مطالبہ کرتی ہے کہ سنجیدہ اورباوقار رویہ اپنائیں۔ سطحیت سے باز رہیں انصاف پسندی اور انسان دوستی کا ثبوت دیں۔
۱۳ یہ کانفرنس افغانستان میں ناٹوافواج کے ذریعہ قرآن کریم کی بے حرمتی کی سخت مذمت کرتی ہے اور قومی وبین الاقوامی سطح پر مطالبہ کرتی ہے کہ وہاں نیز دیگر مقامات پر اس رجحان پر قدغن لگانے کی موثر کوشش و کارروائی کی جائی۔
۲۳ مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کی یہ کانفرنس محمد غالب یمانی،صدر، جامعات المفلحات حیدر آباد، مولانا عبدالسلام رحمانی طیب پوری، ڈاکٹر جاوید الاعظم ، صدر جامعہ سلفیہ بنارس، دبستان دار الحدیث رحمانیہ دہلی کے آخری چراغ مولانا عبد الحکیم مجاز اعظمی اور مولانا عبدالقدوس اطہرنقوی کی اہلیہ محترمہ کے انتقال پر اپنے رنجم وغم کا اظہار کرتے ہوئے مذکورین کے پسماندگان سے اظہار تعزیت کرتی ہی۔نیز دعا گو ہے کہ اللہ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائی، ان کی کوتاہیوں سے درگزرفرمائے نیز پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق بخشی۔آمین
جاری کردہ
میڈیا سیل
مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند
 
Top