• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہیپی برتھ ڈے (HAPPY BIRTH DAY)

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
سات دسمبر راقم کا یوم پیدائش تھا۔ بہت سے دوستوں اور شاگردوں نے ہیپی برتھ ڈے کا میسج بھیجا یا وش کیا۔ فوری طور تو میسج کرنے والوں کو یہ کہا کہ بھائی اس موقع پر کوئی دعا بھی دے دینی چاہیے لیکن اس موضوع پر مذہبی حوالے سے کچھ گفتگو کرنے کا دل چاہ رہا ہے۔

ہمارے ہاں عام طور اہل علم کا خیال ہے کہ برتھ ڈے منانا ایک بدعت ہے۔ اگرچہ میں نہیں مناتا لیکن ایک سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ بدعت تو دین میں اضافے کا نام ہے جبکہ برتھ ڈے کسی دینی شعائر کے طور نہیں منایا جاتا۔

ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ یہ انگریز اقوام سے تشبہ ہے کیونکہ یہ رسم ان سے آئی ہے۔ اگر کوئی رسم مسلمان معاشروں میں اس قدر عام ہو جائے کہ ان کا عرف بن جائے تو پھر تشبہ کا اعتراض باقی نہیں رہنا چاہیے کیونکہ اب تو یہ خود مسلمان معاشروں کا رواج ہے۔ ہاں اگر کسی رسم یا رواج کے خلاف کتاب وسنت میں کوئی صریح نص موجود ہو تو پھر اس کا رائج ہو جانا دلیل نہیں بنے گا بلکہ یہ عرف فاسد کہلائے گا۔

انسانی جبلت یا تقاضوں میں یہ بات شامل ہے کہ وہ دوسروں کو خوش کرنا چاہتا ہے یا ان کی خوشیوں میں شریک ہونا چاہتا ہے، چاہے اس کا مقصد اس سرگرمی سے دراصل اپنی خوشی ہی کیوں نہ ہو۔ اور یہ مقاصد کے اعتبار سے اچھی چیز ہے۔ اس لیے میرے خیال میں اگر ہم مغرب کی نقالی کو درمیان سے نکال دیں اور اس موقع کو اپنے دین سے جوڑ دیں تو اس طرح ایک رسم کا ہم امالہ کر سکتے ہیں یعنی اسے ایک صحیح رخ دے سکتے ہیں جو کہ نسبتا آسان ہے اس سے کہ ہم اس رسم کا ازالہ کر سکیں کہ اسے ختم کر سکیں۔

اس ضمن میں پہلی تجویز تو یہ ہے کہ کسی کو اس کا جنم دن اپنی زبان میں وش کیا جائے مثلا ہیپی برتھ ڈے نہ کہے بلکہ جنم دن مبارک ہو، یوم پیدائش مبارک ہو یا یوم ولادت مبارک ہو۔ صرف زبان کے بدل دینے سے اس رسم پر اگر انگریز کی کچھ چھاپ موجود بھی ہے تو وہ ختم ہو جائے گا۔ مزید اس کو اسلامی کلچر سے جوڑنے کے لیے یہ کیا جائے کہ اس موقع پر کوئی دعا دی جائے جیسا کہ اللہ تعالی آپ کو جنم دن مبارک کرے۔ اب اس رسم میں خدا کا تصور آ گیا، دعا شامل ہو گئی، برکت بھی آ گئی اور انسان کی خواہش بھی پوری ہو گئی۔

ہم میں سے بعض لوگوں نے عید کے موقع ہر گلے ملنے کو بھی بدعت قرار دے دیا حالانکہ اتنی سختی کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ اسلام تو ایسی چیزوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ جو مسلمانوں میں باہمی محبت اور الفت بڑھانے میں اہم کردار ادا کریں۔

بس اس تناظر میں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ مغرب یا دوسرے معاشروں سے جو بہت سے رسمیں ہمارے ہاں آ گئی ہیں تو ان میں ازالے بجائے اگر امالے کا تصور دیا جائے کہ ان رسموں یا رواجات کو اس طرف موڑ دیا جائے کہ دینی مقاصد پورے ہو جائیں اور وہ اسلامی کلچر یا تہذیب کے فریم ورک میں فٹ ہو جائیں تو یہ بھی ایک کرنے کا کام ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

میں کوئی مفتی نہیں کہ اس پوسٹ کو فتوی کے انداز میں دیکھا جائے۔ ایک بات دل میں آئی، سو شیئر کر دی، اگر کسی بھائی کے ملاحظات ہوں تو غور کیا جا سکتا ہے۔​
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
شیخ میرے خیال میں اس سے بچا جائے تو بہتر ہے کیونکہ

سالگرہ منانے كا حكم

سال يا دو سال يا اس سے زيادہ برس گزرنے پر سالگرہ منانے كا حكم كيا ہے، اور اس ميں موم بتياں بھجانا كيسا ہے، اور اس طرح كى تقريبات ميں شامل ہونے كا حكم كيا ہو گا، اور اگر كسى شخص كو اس طرح كى دعوت دى جائے تو كيا اس كے ليے اس ميں شريك ہونا ضرورى ہے، برائے مہربانى معلومات فراہم كريں، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.

الحمد للہ:

كتاب و سنت كے شرعى دلائل سے معلوم ہوتا ہے كہ سالگرہ منانا بدعت ہے، جو دين ميں نيا كام ايجاد كر ليا گيا ہے شريعت اسلاميہ ميں اس كى كوئى دليل نہيں، اور نہ ہى اس طرح كى دعوت قبول كرنى جائز ہے، كيونكہ اس ميں شريك ہونا اور دعوت قبول كرنا بدعت كى تائيد اور اسے ابھارنے كا باعث ہوگا.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{ كيا ان لوگوں نے ( اللہ كے ) ايسے شريك مقرر كر ركھے ہيں جنہوں نے ايسے احكام دين مقرر كر ديئے ہيں جو اللہ كے فرمائے ہوئے نہيں ہيں }الشورى ( 21 ).

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

{ پھر ہم نے آپ كو دين كى راہ پر قائم كر ديا سو آپ اسى پر لگے رہيں اور نادانوں كى خواہشوں كى پيروى نہ كريں }

{ يہ لوگ ہرگز اللہ كے سامنے آپ كے كچھ كام نہيں آ سكتے كيونكہ ظالم لوگ آپس ميں ايك دوسرے كے دوست ہوتے ہيں اور اللہ تعالى پرہيزگاروں كا كارساز ہے }الجاثيۃ ( 18 - 19 ).

اور اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{ اللہ تعالى كى جانب سے جو تمہارى طرف نازل كيا گيا ہے اس كى پيروى كرو، اور اللہ كو چھوڑ كر من گھڑت سرپرستوں كى پيروى مت كرو، تم لوگ بہت ہى كم نصيحت پكڑتے ہو }الاعراف ( 3 ).

اور صحيح حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں ہے تو وہ مردود ہے "

اسے امام مسلم نے صحيح مسلم ميں روايت كيا ہے.

اور ايك دوسرى حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" سب سے بہتر بات اللہ كى كتاب ہے، اور سب سے بہتر راہنمائى محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى ہے، اور سب سے برے امور بدعات ہيں اور ہر بدعت گمراہى ہے "

اس موضوع كى احاديث بہت زيادہ ہيں.

پھر ان تقريبات كا بدعت اور برائى ہونے كے ساتھ ساتھ شريعت اسلاميہ ميں اس كى كوئى اصل بھى نہيں ہے، بلكہ يہ تو يہود و نصارى كے ساتھ مشابہت ہے، كيونكہ يہ تقريبات وہى مناتے ہيں.


اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى امت كو ان كے طريقہ اور راہ پر چلنے سے اجتناب كرنے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا:

" تم لوگ ضرور اپنے سے پہلے لوگوں كى پيروى اور اتباع كرو گے بالكل اسى طرح جس طرح جوتا دوسرے دوسرے كے برابر ہوتا ہے، حتى كہ اگر وہ گوہ كے سوراخ اور بل ميں داخل ہوئے تو تم ميں اس ميں داخل ہونے كى كوشش كروگے.

صحابہ كرام نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اس سے مراد يہود و نصارى ہيں ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اور كون "

اسے بخارى اور مسلم نے روايت كيا ہے.

اور كون ؟ كا معنى يہ ہے كہ اس كلام سے مراد اور كون ہو سكتے ہيں.

اور ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس كسى نے بھى كسى قوم سے مشابہت اختيار كى تو وہ انہى ميں سے ہے "

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 1 / 115 )

http://islamqa.info/ur/1027
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ہر سال شادى كى تاريخ بيوى كو تحفہ پيش كرنا !!!

كيا شادى كى تاريخ ميں ہر سال بيوى كو تحفہ پيش كرنا جائز ہے ؟

الحمد للہ:

جب خاوند اپنى بيوى كو تحفہ پيش كرنا چاہے تو وہ اسے كسى بھى وقت اور كسى بھى دن كسى موقع كى مناسبت دے سكتا ہے، يا كوئى سبب اس كا متقاضى ہو، ليكن اسے تحفہ دينے كے ليے ہر برس شادى كى تاريخ كا انتظار نہيں كرنا چاہيے، كيونكہ اس طرح تو شادى كى سالگرہ بن جائيگى، اور مسلمانوں كے ليے سال ميں صرف دو تہوار بطور عيد ہيں يعنى عيد الفطر اور عيد الاضحى.

اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى زندگى ميں بھى آپ كى شادى كا يہ دن كئى بار آيا اور صحابہ كرام سلف صالحين كى زندگى ميں بھى ليكن كسى ايك سے بھى منقول نہيں كہ انہوں نے اپنى شادى كے دن ہر برس بلكہ كسى ايك برس اپنى بيوى كو تحفہ ديا ہو.

خير و بھلائى تو صرف نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ كرام كے طريقہ پر چلنے ميں ہے، نہ كہ اپنى طرف سے طريقے ايجاد كرنے ميں.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

كيا خاوند كے ليے اپنى بيوى كو ہر سال شادى كى سالگرہ كے موقع پر تحفہ دينا جائز ہے تا كہ خاوند اور بيوى كى محبت كى تجديد ہو، يہ علم ميں رہے كہ يہ صرف تحفہ دينے تك ہى محدود رہےگى اور اس كے ليے كوئى جشن اور اجتماع نہيں ہو گا ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

ميرے خيال ميں تو اس دروزاے كو بند ہى ركھنا چاہيے كيونكہ اس سال تو ہديہ ہو گا، اور آئندہ برس شادى كى سالگرہ كا جشن اور تقريب، پھر فقط اس مناسبت اور موقع پر ہديہ اور تحفہ دينے كى عادت بنا لينا عيد شمار ہوتا ہے، كيونكہ عيد بار بار آتى ہے اور اس ميں تكرار ہوتا ہے.

يہ ضرورى نہيں كہ ہر سال محبت كى تجديد كى جائے بلكہ ہر وقت محبت كى تجديد ہوتى ہے جب خاوند اپنى بيوى سے كوئى ايسى چيز ديكھے جو اسے خوش كر دے، اور بيوى اپنے خاوند سے وہ كچھ ديكھے جو اسے خوش كرے تو ان كى محبت كى تجديد ہو گى. اھـ

ديكھيں: فتاوى العلماء فى عشرۃ النساء ( 162 ).

الحمد للہ:

واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب

http://islamqa.info/ur/46665
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
كفار سے مشابہت كے ضوابط و اصول !!!

يورپ والوں سے مشابہت كے ضوابط كيا ہيں ؟؟

كيا ہر وہ نئى اور جديد چيز جو يورپ سے ہمارے ہاں آئے وہ ان سے مشابہت ہے ؟

يعنى دوسروں معنوں ميں اس طرح كہ: ہم كسى چيز پر كفار سے مشابہت ہونے كى بنا پر حكم كيا اطلاق كيسے كر سكتے ہيں كہ وہ حرام ہے ؟


الحمد للہ:

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے بھى كسى قوم سے مشابہت اختيار كى وہ انہي ميں سے ہے "

سنن ابو داود كتاب اللباس حديث نمبر ( 3512 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود حديث نمبر ( 3401 ) ميں اسے حسن صحيح قرار ديا ہے.

المناوى اور العلقمى كہتے ہيں:

يعنى ظاہر ميں ا نكى شكل و صورت اختيار كرے، اور ان جيسا لباس پہنے، اور لباس پہننے اور بعض افعال ميں ان كے طريقہ پر چلے.

اور ملا على القارى كہتے ہيں:

يعنى مثلا جو شخص لباس وغيرہ ميں اپنے آپ كو كفار كے مشابہ بنائے، يا فاسق و فاجر قسم لوگوں، يا صوفيوں اور صالح و ابرار لوگوں سے مشابہت كرے، " تو وہ انہي ميں سے ہے " يعنى گناہ اور بھلائى ميں.

شيخ الاسلام ابن تيميہ " الصراط المستقيم " ميں لكھتے ہيں:

امام احمد وغيرہ نے اس حديث سے استدلال كيا ہے، اور اس حديث سے كم از كم چيز كفار سے مشابہت كى حرمت ثابت ہوتى ہے، جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فرمان ميں ہے:

" تم ميں سے جو انہيں اپنا دوست بنائے تو وہ انہي ميں سے ہے "

اور يہ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كے قول جيسا ہى ہے كہ انہوں نے فرمايا:

" جس نے مشركوں كى زمين ميں گھر بنايا، يا ان كے نيروز اور مہرجان تہوار منائے، اور ان سے مشابہت اختيار كى حتى كہ مر گيا، تو اسے روز قيامت انہيں كے ساتھ اٹھايا جائيگا "

اور اس پر بھى محمول كيا جا سكتا ہے كہ جس قدر وہ ان سے مشابہت اختيار كريگا اسى حساب سے وہ ان ميں شامل ہوگا، اگر تو وہ كفر يا معصيت يا ا نكى علامت اور شعار ہو تو اس كا حكم بھى اسى طرح كا ہو گا.

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اعاجم سے مشابہت اختيار كرنے سے منع كيا اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے كسى قوم سے مشابہت اختيار كى تو وہ انہى ميں سے ہے "

اسے ابو قاضى ابو يعلى نے ذكر كيا ہے، اور اس سے كئى ايك علماء نے غير مسلمانوں كى شكل و شباہت اختيار كرنے كى كراہت پر استدلال كيا ہے " اھـ

ديكھيں: عون المعبود شرح سنن ابو داود.

اور پھر كفار سے مشابہت دو طرح كى ہے:

حرام مشابہت.

اور مباح مشابہت.

پہلى قسم: حرام مشابہت:

وہ يہ ہے كہ كسى ايسے فعل كو سرانجام دينا جو كفار كے دين كے خصائص ميں سے ہے، اور ا سكا علم بھى ہو، اور يہ چيز ہمارى شرع ميں نہ پائى جائے... تو يہ حرام ہے، اور بعض اوقات تو كبيرہ گناہ ميں شامل ہو گى، بلكہ دليل كے حساب سے تو بعض اوقات كفر بن جائيگى.

چاہے كسى شخص نے اسے كفار كى موافقت كرتے ہوئے كيا ہو، يا پھر اپنى خواہش كے پيچھے چل كر، يا كسى شبہ كى بنا پر جو اس كے خيال ميں لائے كہ يہ چيز دنيا و آخرت ميں فائدہ مند ہے.

اور اگر يہ كہا جائے كہ:

كيا اگر كسى نے يہ عمل جہالت كى بنا پر كيا تو كيا وہ اس سے گنہگار ہو گا، مثلا جيسے كوئى عيد ميلاد يا سالگرہ منائے ؟

تواس كا جواب يہ ہے كہ:

جاہل اپنى جہالت كى بنا پر گنہگار نہيں ہوگا، ليكن اسے تعليم دى جائيگى اور بتايا جائيگا، اور اگر وہ پھر بھى اصرار كرے تو گنہگار ہوگا.

دوسرى قسم: جائز تشبہ:

يہ ايسا فعل سرانجام دينا ہے جو اصل ميں كفار سے ماخوذ نہيں، ليكن كفار بھى وہ عمل كرتے ہيں، تو اس ميں ممنوع مشابہت نہيں، ليكن ہو سكتا ہے اسميں مخالفت كى منفعت فوت ہو رہى ہو.

اہل كتاب كے ساتھ دينى امور ميں مشابہت كچھ شروط كے ساتھ مباح ہے:

1 - وہ عمل ا نكى عادات اور شعار ميں شامل نہ ہوتا ہو، جس سے ان كفاركى پہچان ہوتى ہے.

2 - يہ كہ وہ عمل اور امر انكى شريعت ميں سے نہ ہو، اور ا سكا انكى شريعت ميں سے ہونے كو كوئى ثقہ ناقل ہى ثابت كر سكتا ہے، مثلا اللہ تعالى ہميں اپنى كتاب قرآن مجيد ميں بتا دے، يا پھر اپنے رسول كى زبان سے بتا دے، يا پھر متواتر نقل سے ثابت ہو جائے، جيسا كہ پہلى امتوں ميں سلام كے وقت جھكنا جائز تھا.

3 - ہمارى شريعت ميں ا سكا خاص بيان نہ ہو، ليكن اگر موافقت يا مخالفت ميں خاص بيان ہو تو ہم اس پر اكتفا كرينگے جو ہمارى شريعت ميں آيا ہے.

4 - يہ موافقت كسى شرعى امور كى مخالفت كا باعث نہ بن رہى ہو.

5 - ان كے تہواروں ميں موافت نہ ہو.

6 - اس ميں موافقت مطلوبہ ضرورت كے مطابق ہو، اس سے زائد نہ ہو.

ديكھيں: كتاب السنن والآثار فى النھى عن التشبہ بالكفار تاليف سھيل حسن صفحہ ( 58 - 59 ).

واللہ اعلم .

الشيخ محمد صالح المنجد

http://islamqa.info/ur/21694
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
سوال یہ ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ جس دن انسان پیدا ہوتا ہے کیا اس دن اس کے ماں باپ کے لیے اس کے پیدائش کی خوشی منانا جائز ہے مثلا مٹھائی وغیرہ بانٹنا جیسا کہ ہمارے معاشرے کا رواج ہے۔ اگر پہلے دن جائز ہے تو اس کے بعد ناجائز ہونے کی کیا دلیل ہے؟

دوسری بات یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سوموار کو روزہ رکھا اور کہا کہ اس لیے رکھتا ہوں کہ اللہ نے مجھے اس دن میں پیدا کیا ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیدائش کے دن کی خوشی کو اللہ کی رضا کے حصول سے جوڑ دیا۔ بس یہی مطلوب تھا کہ پیدائش کے دن کی خوشی کو مغرب کے رسوم ورواج کی بجائے دینی مقاصد کے حصول سے جوڑ دیا جائے۔ واللہ اعلم

چمچ کے ساتھ یا میز کرسی پر بیٹھ کر کھانا کھانے میں یہود ونصاری کے ساتھ مشابہت کا سوال کیوں نہیں پیدا کیا گیا؟
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
شیخ جہاں تک میری عقل کام کرتی ہے وہ میں شیئر کر دیتا ہو کیونکہ میں ایک عدنہ سا طالب علم ہو

امت میں شرک کس طرح آیا :

شیطان کا وار کا اندازہ آپ اس پوسٹ میں دیکھ سکتے ہے کہ کس طرح اس نے امت کو شرک میں ڈالا

1524670_579004175527780_426977758_n (1).jpg


لہذا آج اگر ھم اس طرح کرے گے تو کل کو ھماری اولاد یا پھر ان کی اولاد سالگرہ جیسی بدعت کرنے لگے گی

ا
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
سوال یہ ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ جس دن انسان پیدا ہوتا ہے کیا اس دن اس کے ماں باپ کے لیے اس کے پیدائش کی خوشی منانا جائز ہے مثلا مٹھائی وغیرہ بانٹنا جیسا کہ ہمارے معاشرے کا رواج ہے۔ اگر پہلے دن جائز ہے تو اس کے بعد ناجائز ہونے کی کیا دلیل ہے؟

دوسری بات یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سوموار کو روزہ رکھا اور کہا کہ اس لیے رکھتا ہوں کہ اللہ نے مجھے اس دن میں پیدا کیا ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیدائش کے دن کی خوشی کو اللہ کی رضا کے حصول سے جوڑ دیا۔ بس یہی مطلوب تھا کہ پیدائش کے دن کی خوشی کو مغرب کے رسوم ورواج کی بجائے دینی مقاصد کے حصول سے جوڑ دیا جائے۔ واللہ اعلم

چمچ کے ساتھ یا میز کرسی پر بیٹھ کر کھانا کھانے میں یہود ونصاری کے ساتھ مشابہت کا سوال کیوں نہیں پیدا کیا گیا؟
شیخ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر برتھ ڈے پر وش کرنا خیر ہوتا تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کا حکم صحابہ کرام رضی اللہ عنہما کو ضرور دیتے لہذا میں سمجتھا ہو کہ ھم لوگوں کو ہر اس چیز سے بچنا چاھیے جو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہما سے ثابت نہ ہو -
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بچے پيدا ہونے كى خوشى ميں نرس كو مال يا نذرانہ پيش كرنا

ہاسپٹل ميں بچے كى ولادت كے بعد نرسيں آ كر باپ كو مباركباد ديتى ہيں، تو بچے كا باپ انہيں كچھ رقم مثلا پانچ روپے ہر نرس كو ديتا ہے ( معاشرے ميں اسے بچے كى سلامتى سے پيدائش كا نذرانہ كہا جاتا ہے ) تو كيا يہ جائز ہے يا حرام ؟

الحمد للہ:

اصل ميں خوشخبرى دينے والے كو ہديہ دينا جائز ہے، كوئى بھى خوشى كى خبر يا كسى غائب كے آنے كى خبر وغيرہ دوسرى خوشى كى خبر دينے والے كو ہديہ دينا جائز ہے.

بخارى اور مسلم نے كعب بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ كا جنگ تبوك سے پيچھے رہنے كى توبہ قبول ہونے كا قصہ روايت كيا ہے كہ:

" كعب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ اس كے بعد ميں نے دس راتيں اور اسى طرح گزاريں حتى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى جانب سے ہمارے ساتھ كلام نہ كرنے كو پچاس راتيں مكمل ہو گئيں، اور جب پچاسويں رات كى فجر كى نماز رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے پڑھائى تو ميں اپنے گھر كى چھت پر تھا، ميں نماز كے بعد ميں نماز كے اذكار كرنے والى حالت ميں ہى بيٹھا ہوا تھا، اور ميرا نفس تنگ ہو چكا تھا، اور زمين كھلى ہونے كے باوجود ميرے اوپر تنگ ہو چكى تھى، كہ اچانك ميں نے جبل سلع پر كسى شخص كى اونچى آواز سنے جو چيخ كر كہہ رہا تھا: اے كعب بن مالك خوش ہو جاؤ.

كعب رضى اللہ تعالى عنہ كہتے ہيں: تو ميں فورا اللہ كے سامنے سجدہ ريز ہو گيا، اور مجھے پتہ چل گيا كہ نكلنے كى راہ آ چكى ہے، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جب فجر كى نماز پڑھائى تو لوگوں كو ہمارى توبہ قبول ہونے كا بتايا، تو لوگ ہميں خوشخبري دينے كے ليے بھاگے، اور ميرے دونوں ساتھيوں كو بھى لوگ خوشخبرى دينے كے ليے گئے، اور ايك شخص ميرے پاس آنے كے ليے تيزى سے گھوڑے پر سوار ہوا، اور اسلم قبيلہ كا ايك شخص پہاڑ پر چڑھ گيا، تو اس شخص كى آواز گھوڑے سے زيادہ تيز تھى، تو جب وہ شخص جس كى ميں نے آواز سنى تھى ميرے پاس خوشخبرى دينے كے ليے آيا تو ميں نے اس خوشخبرى كى بنا پر اپنے دونوں كپڑے اتار كر اسے پہنا ديے.

اللہ كى قسم ان دنوں ميں ان دو كپڑوں كے علاوہ كسى اور كپڑے مالك نہ تھا، اور ميں نے كسى سے دو كپڑے عاريتا لے كر زيب تن كيے، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف چل پڑا " الحديث.

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4418 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2769 ).


مسلم كى شرح ميں امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" چوبيسواں: خير و بھلائى كى خوشخبرى دينے كا استحباب

پچيسواں: جس كسى كو اللہ تعالى نے ظاہرى خير و بھلائى دى ، يا اللہ تعالى نے اس سے كوئى ظاہرى شر دور كر ديا تو اسے مباركباد دينا مستحب ہے.چھبيسواں: خوشخبرى دينے والے كو انعام وغيرہ دينے كا استحباب " انتہى.

اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:

" اور كعب رضى اللہ تعالى عنہ كے قصہ ميں ہے كہ جب ان كے پاس خوشخبرى دينے والا آيا تو انہوں نے اس خوشخبرى كے بدلے اپنے دونوں كپڑے اتار كر خوشخبرى دينے والے كو پہنا ديے، ابى نے قاضى عياض رحمہ اللہ سے نقل كيا ہے:

دنياوى اور اخروى امور ميں سے خوشى والے كى بشارت و مباركباد دينے، اور خوشخبرى دينے والے كو انعام دينے كے جواز كى دليل ہے، اور كعب رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ميں خير و بھلائى كى خوشخبرى دينے ميں سبقت لے جانے كى مشروعيت پائى جاتى ہے " انتہى

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 8 / 94 ).

چنانچہ جسے بھى بچے كى پيدائش كى خوشخبرى دى جائے اس كے ليے خوشخبرى دينے والے كو كوئى چيز دينا مستحب ہے، اس بنا پر نرس كو كچھ روپے دينے ميں كوئى حرج نہيں.

واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب

http://islamqa.info/ur/116823
 

حیدرآبادی

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2012
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
500
پوائنٹ
120
ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جب بھی کوئی اہل علم سماجی معاشرتی موضوع پر کچھ "مکالمہ" کرنا چاہتا ہے تو کچھ احباب کیوں کر علماء کے فتاویٰ کاپی پیسٹ کرنا شروع کر دیتے ہیں؟
ہم تو جناب اسے ادبی بدتہذیبی باور کرتے ہیں۔
یہ ایسے ہی ہے جیسے بڑے بزرگ اپنے گھرانے کے کسی لڑکے کی شادی کے معاملات پر سنجیدہ گفتگو کر رہے ہوں اور کوئی بچہ اٹھ کر کہہ دے کہ فلاں فلاں شادی خانہ زیادہ کشادہ اور مشہور ہے۔
 
Top