• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یزید کے پاس حسین رضی اللہ عنہ کا سر لایا گااس پر ایک صحیح سند

محمد أحمد

مبتدی
شمولیت
فروری 16، 2015
پیغامات
11
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
21
أَخْبَرَنَا عبد الوهاب بن المبارك قال: أخبرنا أبو الحسين بن عبد الجبار قال: أخبرنا الحسين بن علي الطناجيري قال: أخبرنا عمر بن أحمد بن شاهين قَالَ: أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سالم قَالَ: حَدَّثَنَا علي بن سهل قال: حدثنا خالد بن خداس قَالَ: حَدَّثَنَا حماد بن زيد، عن حميل بن مرة، عن أبي الوصي قال: نحرت الإبل التي حمل عليها رأس الحسين وأصحابه، فلم يستطيعوا أكلها، كانت لحومها أمر من الصبر.
قَالَ مؤلف الكتاب : ولما جلس يزيد وضع الرأس بين يديه وجعل ينكث بالقضيب على فيه ويقول: يفلقن هاما من رجال أعزة ... علينا وهم كانوا أعق وأظلما
فقَالَ أبو برزة- وكان حاضرا: ارفع قضيبك، فو الله لرأيت فاه رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ علي فيه يلثمه. (المنتظم في تاريخ الملوك والأمم 5/ 342)

یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ میں اس سند کے بارے میں کہا گیا کہ أحمد بن عبد الله بن سالم کی توثیق نہیں ملی اور علي بن سهل کا تعین نہیں ہورہاہے۔
لیکن ایک آدمی نے ان دونوں کی توثیق بھی پیش کی ہے اور تعین بھی بتایا ہے ۔اس کا کہنا ہے کہ أحمد بن عبد الله بن سالم یہ (((أحمد بن عبد الله بن أحمد بن العباس بن سالم بن مهران أبو جعفر البزار المعروف بابن النيري))) اس کا ذکر عمر بن أحمد بن شاهين کے استادوں میں ملتا ہے اوریہ ثقہ ہے (تاريخ بغداد رقم 2200)
اور علي بن سهل یہ (((على بن سهل بن المغيرة البزاز))) ہے جو ثقہ ہے ابن شاہین سے اس کی سند سے امام احمد کاایک قول نقل کیا ہے اور امام مزی نے یہی قول نقل کیا تو على بن سهل بن المغيرة کے واسطے نقل کیا ہے (تہذیب اکمال ج31 ص556)

اس لئے سند صحیح ہے۔

@کفایت اللہ
 
Last edited:

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
ابن الجوزي رحمه الله (المتوفى597) نے کہا:
أخبرنا عبد الوهاب بن المبارك قال: أخبرنا أبو الحسين بن عبد الجبار قال:أخبرنا الحسين بن علي الطناجيري قال: أخبرنا عمر بن أحمد بن شاهين قال: أخبرنا أحمد بن عبد الله بن سالم قال: حدثنا علي بن سهل قال: حدثنا خالد بن خداش قال:حدثنا حماد بن زيد، عن جميل بن مرة، عن أبي الوصي قال: نحرت الإبل التي حمل عليها رأس الحسين وأصحابه، فلم يستطيعوا أكلها، كانت لحومها أمر من الصبر.
قال مؤلف الكتاب : ولما جلس يزيد وضع الرأس بين يديه وجعل ينكث بالقضيب على فيه ۔۔۔
[المنتظم لابن الجوزي: 5/ 342]

رواۃ کے تعین پر نظر ثانی کے لئے لمبا وقت درکارہے جو فی الحال میسر نہیں ۔
لیکن بالفرض مان لیں کہ اس سند کے دونوں راوی ثقہ ہیں تو بھی اس میں ایک اور زبردست علت ہے جس پر ہمیں بعد میں آگاہی ہوئی اس لئے اس کا تذکرہ مطبوعہ کتاب میں نہیں ہے ۔

علت یہ ہے کہ اس روایت کو حماد بن زید سے دو رواۃ نے بیان کیا ہے:

  • سليمان بن حرب بن بجيل الأزدى
  • خالد بن خداش بن عجلان الأزدى

سليمان بن حرب بن بجيل الأزدى کی روایت:
أخبرنا أبو الحسن أخبرنا عبد الله، حدثنا يعقوب، حدثنا سليمان بن حرب حدثنا حماد بن زيد قال: حدثني جميل بن مرة قال: (؟)أصابوا إبلا في عسكر الحسين يوم قتل فنحروها وطبخوها قال فصارت مثل العلقم فما استطاعوا أن يسيغوا منها شيئا.[دلائل النبوة للبيهقي 6/ 472 واخرجہ ابن عساکر فی تاريخ دمشق 14/ 231 و ابن العدیم فی بغية الطلب فى تاريخ حلب 6/ 2641 کلھم من طریق محمد بن الحسين بن الفضل بہ]

سلیمان بن حرب کی روایت کے مطابق جمیل بن مرۃ نے اس روایت کو مرسلا منقطعا روایت کیا ہے کیونکہ انہوں نے واقعہ کربلا کا زمانہ نہیں پایا ہے۔
حافظ ابن حجر نے انہیں چھٹے طبقہ کا راوی بتلایا یعنی وہ لوگ جنہوں نے صغار تابعین کو دیکھا ہے [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 971]
اور ظاہر ہے کہ ان لوگوں نے واقعہ کربلا کا دور نہیں پایا ہے ، اس لئے اس طبقہ میں سے کوئی راوی واقعہ کربلا کا کوئی قصہ بلا سند بیان کرے تو وہ بے سند وغیر ثابت قرارپائے گا۔


خالد بن خداش بن عجلان الأزدى کی روایت :
ابن الجوزي رحمه الله (المتوفى597) نے کہا:
أخبرنا عبد الوهاب بن المبارك قال: أخبرنا أبو الحسين بن عبد الجبار قال:أخبرنا الحسين بن علي الطناجيري قال: أخبرنا عمر بن أحمد بن شاهين قال: أخبرنا أحمد بن عبد الله بن سالم قال: حدثنا علي بن سهل قال: حدثنا خالد بن خداش قال:حدثنا حماد بن زيد، عن جميل بن مرة، عن أبي الوصي قال: نحرت الإبل التي حمل عليها رأس الحسين وأصحابه، فلم يستطيعوا أكلها، كانت لحومها أمر من الصبر. [المنتظم لابن الجوزي: 5/ 342]

خالدبن خداش نے بھی حماد بن زید عن جمیل بن مرۃ ہی کے طریق سے اسے روایت کیا ہے لیکن اس نے سند میں جمیل بن مرۃ کے بعد ایک اور واسطہ کا اضافہ کردیا ہے ۔
اور یہ اضافہ باطل و مردود ہے اور سلیمان بن حرب کا بیان ہی راجح ہے اس کی درج ذیل وجوہات ہیں:

اولا:
سليمان بن حرب بن بجيل الأزدى صحیح بخاری اور صحیح مسلم سمیت کتب ستہ کے راوی اور بہت بڑے ثقہ و مامون اور متقن و ثبت بلکہ حافظ و امام اور ناقد فن ہیں۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
الإمام، الثقة، الحافظ، شيخ الإسلام، أبو أيوب الواشحي ، الأزدي، البصري، قاضي مكة
آپ امام ، ثقہ ، حافظ ، شیخ الاسلام ، ابوایوب الواشحی ، ازدی ، بصری اور مکہ کے قاضی تھے[سير أعلام النبلاء للذهبي: 10/ 330]

ان کے شاگرد امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277) کہتے ہیں :
إمام من الأئمة، كان لا يدلس ويتكلم في الرجال وفي الفقه
یہ ائمہ میں سے امام تھے ، تدلیس نہیں کرتے تھے اور رجال اور فقہ سے متعلق بھی گفتگو کرتے تھے [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 4/ 108]

جبکہ ان کے مقابل میں خالد بن خداش جو سند میں ایک واسطہ کا اضافہ کرکے روایت کرتے ہیں یہ ثقاہت میں سلیمان بن حرب کے برابر تو دور کی بات ان کے قریب بھی نہیں ہیں بلکہ بدرجہا ان سے کم تر ہے ۔

ثانیا:
سليمان بن حرب بن بجيل الأزدى پرکسی نے جرح نہیں کی ہے جبکہ خالد بن خداش پر جرح ہوئی ہے :
امام زكريا بن يحيى الساجى رحمه الله (المتوفى307) نے کہا:
فيه ضعف
اس میں ضعف ہے [تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 8/ 306 واسنادہ حسن]

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385) نے کہا:
ثقة وربما وهم
یہ ثقہ ہے بسا اوقات وہم کا شکار ہوجاتا ہے[العلل للدارقطني، ت محفوظ السلفي: 11/ 203]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
صدوق يخطىء
یہ سچا ہے اور غلطی کرنے والا ہے [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 1623]

بلکہ بعض نے تو اسے سرے سے ضعیف ہی کہا ہے چنانچہ:
امام علي بن المديني رحمه الله (المتوفى234)نے کہا:
ضعيف
یہ ضعیف ہے [تاريخ مدينة السلام للخطيب البغدادي: 9/ 246 واسنادہ مقبول]

ثالثا:
سلیمان بن حرب سے سندوں میں گڑبڑی کرنا ثابت نہیں ہے جبکہ خالدبن خداش نے بہت سی سندوں میں الٹ پھیر کردی ہے بالخصوص کئی مرسل و منقطع سندوں کو متصل بناکر پیش کیا ہے مثلا: دیکھئے:[العلل للدارقطني، ت محفوظ السلفي: 4/ 369]نیز دیکھئے:[العلل للدارقطني، ت محفوظ السلفي: 14/ 121]
زیر بحث روایت میں بھی اس نے ایسا ہی کیا ہے اس لئے اس کی یہ روایت بھی مردود ہے۔

رابعا:
امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277) کہتے ہیں :
كان لا يدلس
یہ تدلیس نہیں کرتے تھے [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 4/ 108]

جس راوی پر تدلیس کا سرے سے کوئی الزام ہی نہ ہو اس راوی کے بارے میں کسی امام کا یہ کہنا کہ وہ تدلیس نہیں کرتے تھے تواس کا یہی مطلب ہوگا کہ وہ سندوں میں کسی طرح کی بھی کمی وبیشی نہیں کرتے تھے یعنی عام اصطلاحی تدلیس اور ارسال دونوں سے اجتناب کرتے تھے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ یہ اپنی طرف سے سند میں کسی راوی کو ساقط نہیں کرسکتے اس لئے ان کی یبان کردہ سند میں جو ایک واسطہ نہیں ہے تو اس کا مطلب یہی ہوا کہ یہ سند پہلے سے ایسے ہی ہے ۔اور ان کے مقابل میں خالد بن خداش نے جو اضافہ بیان کیا ہے وہ خالد بن خداش ہی کے ذہن کی کوتاہی ہے ۔

خامسا:
سليمان بن حرب کی روایت میں مخالفۃ الجادہ ہے جبکہ خالد بن خداش کی روایت میں سلوک الجادہ ہے ۔ یہ بھی ایک قرینہ ہے کہ سلیمان بن حرب کی بیان کردہ سند ہی صحیح ہے۔

سادسا:
حماد بن زيد سے کئی روایات نقل کرنے میں خالد بن خداش منفرد ہے ۔
امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233) نے کہا:
تفرد عن حماد بن زيد بأحاديث
یہ حماد بن زید سے کئی روایات نقل کرنے میں منفرد ہے [تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 8/ 306 واسنادہ حسن]

بلکہ حماد بن زید سے نقل کردہ اس کی کوئی روایت پر محدثین نے نکارت کا حکم لگایا ہے۔[تهذيب الكمال للمزي: 8/ 47]
اوریہاں بھی اس نے حماد ہی سے روایت بیان کی جو حماد کے بڑے و اعلی شاگرد سلیمان بن حرب کے خلاف ہے ۔
اس لئے اس خالد بن خداش کی روایت مردود ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ اس روایت کی وہی سند معتبر ہے جسے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ہے اور اس سند کی رو سے یہ روایت مرسل ومنقطع ہے لہٰذا مردود ہے۔

امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس روایت کو موضوع اور من گھڑت قراردیا ہے ۔
چنانچہ کئی روایات کے ضمن میں اسے بھی پیش کرنے کے بعد کہا :
من الأكاذيب والأحاديث الموضوعة التى لا يصح منها شىء
یہ جھوٹی اور من گھڑت روایات ہیں ان میں سے کچھ بھی صحیح نہیں ہے[البداية والنهاية، مكتبة المعارف: 8/ 201]

ابن الجوزی نے یہی روایت یزید کی مذمت والی کتاب میں نقل کی ہے جس پر حاشیہ لگاتے ہوئے محقق لکھتاہے :
البداية 8/ 201، وقال: إن هذه من المفتريات
ابن کثیر نے البداية 8/ 201 میں نقل کیا ہے اور کہا : یہ من گھڑت باتوں میں سے ہے[الرد على المتعصب العنيد المانع من ذم يزيد لابن الجوزي ص: 57]


تنبیہ بلیغ:
واضح رہے کہ اگر اس روایت کو بالفرض صحیح بھی مان لیں تو بھی اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کا سر یزیدکے پاس لے جایا گیا؟؟
روایت میں صرف اس اونٹ کی حالت ذکر ہے جس پر حسین رضی اللہ عنہ کا سر لے جایا گیا ! لیکن کہاں لے جایا گیا؟ اس کی وضاحت روایت میں قطعا نہیں ہے۔
یادر ہے کہ روایت کے بعد جو یہ عبارت ہے:
قال مؤلف الكتاب : ولما جلس يزيد وضع الرأس بين يديه وجعل ينكث بالقضيب على فيه۔۔
تو یہ روایت کا حصہ نہیں ہے بلکہ امام ابن الجوزی کی بے سند بات ہے جیساکہ خود ناسخ نے قال ’’مؤلف الكتاب‘‘ کہہ کر وضاحت کردی ہے۔
 
Top