محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
یومِ عاشوراء کواہل و عیال پر فراخی کرنا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ:
مَن وَسَّعَ عَلَی عَیَالِهِ یَومَ عَاشُورَاءَ وَسَّعَ اللہُ عَلَیهِ سَائِرَ سَنَتِهِ
" جو شخص عاشوراء کے دن اپنے اہل وعیال پر (کھانے میں) کشادگی
کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس پر پورے سال کشادگی کرے گا۔"
" جو شخص عاشوراء کے دن اپنے اہل وعیال پر (کھانے میں) کشادگی
کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس پر پورے سال کشادگی کرے گا۔"
ضعیف:
اس حدیث کو امام بیہقی نے کئی سندوں سے روایت کیا ہے اور اس حدیث کی استنادی حیثیت کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :" یعنی یہ تمام سندیں اگرچہ ضعیف (کمزور) ہیں لیکن ایک دوسرے کو ملانے سے قوی ہو جاتی ہے۔"
٭امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں۔
(کما فی المنار المنیف لابن القیم : ص۱۱۱)
٭امام شوکانی، علامہ طاہر پٹنی اور علامہ ابن عراق رحمہم اللہ نے فرمایا ہے کہ اس میں سلیمان راوی مجہول ہے۔
(الفوائد المجموعة: ص۹۸، تذکرۃ الموضوعات: ص۱۱۸، تنزیعه الشریعة: ۱۸۸/۲)
٭امام سخاوی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اس کی تمام اسناد ضعیف ہیں۔ (المقاصد الحسنة: ص ۶۷۴)
٭شیخ البانی نے اس حدیث کو ’’ضعیف‘‘ کہا ہے اور اس کی وارد تمام سندوں کے بارے میں کہا ہے کہ : "یعنی اس کی تمام سندیں واہی (کمزور) ہیں اور بعض سندیں ضعف کے اعتبار سے شدید ہیں (الضعیفۃ: ۶۸۲۴)
٭ مزید دیکھئے:
أسنی المطالب (ص۲۹۲)، العلل المتناھیة (۵۵۳/۲)، الاسرار المرفوعة (ص۴۷۴)، (الآثار المرفوعة فی الاخبار الموضوعة: ص ۱۰۰)
فائدہ:
یومِ عاشوراء کو قسما قسم کے کھانے پکا کر کھنا اور اپنے اہل و عیال وغیرہ کو کھلانا، حلوہ تقسیم کرنا یا اس دن سرمہ ڈالنا وغیرہ، ان کا موں میں سے کوئی کام نہ تو نبی ﷺ سے ثابت ہے اور نہ سلف صالحین سے اور نہ ہی کسی مستند عالم نے اسے جائز قراردیاہے اور اس کے استحباب و فضیلت کے بارے میں جو کچھ مروی ہے وہ تمام ضعیف وناقابل حجت ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"اس سلسلے میں نہ نبی ﷺ سے کوئی صحیح حدیث وارد ہے اور نہ کسی صحابی سے، نہ اسے ائمہ مسلمین بشمول ائمہ اربعہ وغیرہم نے مستحب گردانا ہے اور نہ کسی مستند کتاب میں اس کا تذکرہ منقول ہے۔ نبی ﷺ، صحابہ اور تابعین سے کوئی روایت نہیں، نہ صحیح ، نہ ضعیف ، نہ کتب صحاح میں اس کا ذکر ہے اور نہ کتب سنن میں اور خیر القرون میں سے بھی ایسی کوئی روایت معلوم نہیں۔"
اس حدیث کو امام بیہقی نے کئی سندوں سے روایت کیا ہے اور اس حدیث کی استنادی حیثیت کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :" یعنی یہ تمام سندیں اگرچہ ضعیف (کمزور) ہیں لیکن ایک دوسرے کو ملانے سے قوی ہو جاتی ہے۔"
٭امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں۔
(کما فی المنار المنیف لابن القیم : ص۱۱۱)
٭امام شوکانی، علامہ طاہر پٹنی اور علامہ ابن عراق رحمہم اللہ نے فرمایا ہے کہ اس میں سلیمان راوی مجہول ہے۔
(الفوائد المجموعة: ص۹۸، تذکرۃ الموضوعات: ص۱۱۸، تنزیعه الشریعة: ۱۸۸/۲)
٭امام سخاوی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اس کی تمام اسناد ضعیف ہیں۔ (المقاصد الحسنة: ص ۶۷۴)
٭شیخ البانی نے اس حدیث کو ’’ضعیف‘‘ کہا ہے اور اس کی وارد تمام سندوں کے بارے میں کہا ہے کہ : "یعنی اس کی تمام سندیں واہی (کمزور) ہیں اور بعض سندیں ضعف کے اعتبار سے شدید ہیں (الضعیفۃ: ۶۸۲۴)
٭ مزید دیکھئے:
أسنی المطالب (ص۲۹۲)، العلل المتناھیة (۵۵۳/۲)، الاسرار المرفوعة (ص۴۷۴)، (الآثار المرفوعة فی الاخبار الموضوعة: ص ۱۰۰)
فائدہ:
یومِ عاشوراء کو قسما قسم کے کھانے پکا کر کھنا اور اپنے اہل و عیال وغیرہ کو کھلانا، حلوہ تقسیم کرنا یا اس دن سرمہ ڈالنا وغیرہ، ان کا موں میں سے کوئی کام نہ تو نبی ﷺ سے ثابت ہے اور نہ سلف صالحین سے اور نہ ہی کسی مستند عالم نے اسے جائز قراردیاہے اور اس کے استحباب و فضیلت کے بارے میں جو کچھ مروی ہے وہ تمام ضعیف وناقابل حجت ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"اس سلسلے میں نہ نبی ﷺ سے کوئی صحیح حدیث وارد ہے اور نہ کسی صحابی سے، نہ اسے ائمہ مسلمین بشمول ائمہ اربعہ وغیرہم نے مستحب گردانا ہے اور نہ کسی مستند کتاب میں اس کا تذکرہ منقول ہے۔ نبی ﷺ، صحابہ اور تابعین سے کوئی روایت نہیں، نہ صحیح ، نہ ضعیف ، نہ کتب صحاح میں اس کا ذکر ہے اور نہ کتب سنن میں اور خیر القرون میں سے بھی ایسی کوئی روایت معلوم نہیں۔"
(مجموع الفتاویٰ: ۲۹۹/۲۵)
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"اور ان (موضوع احادیث) میں سے عاشوراء کے دن سرمہ ڈالنا، زیب وزینت، وسیع خرچ کرنا اور (مخصوص) نمازیں پڑھنا وغیرہ فضیلتوں میں سے کچھ بھی ثابت نہیں ہے، صرف روزوں کی فضیلت ثابت ہے، ان کے علاوہ سب کچھ باطل ہے۔"
"اور ان (موضوع احادیث) میں سے عاشوراء کے دن سرمہ ڈالنا، زیب وزینت، وسیع خرچ کرنا اور (مخصوص) نمازیں پڑھنا وغیرہ فضیلتوں میں سے کچھ بھی ثابت نہیں ہے، صرف روزوں کی فضیلت ثابت ہے، ان کے علاوہ سب کچھ باطل ہے۔"
(المنار المنیف: ص۱۱۱)