• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ وَالنَّصَارٰی اَوْلِیَاء سے مراد عام

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
السلام علیکم !

احباب گرامی ! زیر نظر تھریڈ کے ابتدائی مرسلات ایک اور تھریڈ میں پائے جاتے تھے جنہیں اب انتظامیہ نے مفید خیال کرتے ہوئے گفتگو کے لیے الگ تھریڈ کی صورت دے دی ہے ۔ اس لیے پس منظر بارے کچھ چیزوں کی وضاحت لازمی ہو گئی ہے۔

خوارج کی علامات نامی طویل تھریڈ میں اس بحث کا آغاز برادر @محمد ارسلان کے ایک استفسار سے ہوا جو محدث فتوی کمیٹی سے مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد و نصرف کے موضوع پر کیا گیا۔ جواب اس لنک میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں سورہ المائدہ کی آیت:١٥ کو بنیاد بنایا گیا (جیسے آیت ولایت کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے)۔ یہی فتویٰ شیخ ابن باز اور شیخ محمد صالح المنجد کا بھی نقل کیا جاتا ہے۔
مسلمانوں کے خلاف کفار کی معاونت

حكم من يطالب بتحكيم المبادئ الاشتراكية والشيوعية |

Islam Question and Answer - مسلمانوں کے خلاف کافرفوج کی مدد کرنے کا حکم

اس پر بحث چل نکلی اور برادر یاسر اکرم نے حافظ زبیر صاحب (ابو الحسن علوی) کا مضمون آیت ولایت پر نقل کیا جو بذات خود تکفیر کی بنیادؤں پر ایک طویل مقالے کا حصہ ہے۔ اس مضمون میں حافط صاحب ایت ولایت کی رو سے حکمرانوں کی تکفیر کیے جانے کا رد کرتے نظر آتے ہیں ۔

اس آیت پر انہوں نے نکتہ وار گفتگو کی ہے جو مفصل بات کی متقاضی ہے ۔ البتہ زیر نظر مراسلہ میں ان میں سے نکتہ اول اور کسی قدر نکتہ سوم کا جائزہ لیا گیا ہے ، یہ دونون نکات آپس میں مربوط ہیں۔ حافظ صاحب کے مطابق:

اول: ایت کریمہ کے اصلا مراد اعتقادی منافقین ہیں۔

دوم: چونکہ اصل میں یہ ایت نازل منافقین کے لیے ہوئی تھی اس لیے آیت مبارکہ کی رو سے اگر اعتقادی منافق کفار کی مددونصرت کرے تو وہ کفر و ارتداد ہے، البتہ عام مسلمان ایسا کریں تو کفر نہیں ہے۔

سوم: اعتقادی منافقین کا علم اللہ کی ذات کے علاوہ کسی کو اس وقت نہیں ہو سکتا جب تک وہ خود سے اپنے نفاق کا اعلان نہ کر دیں۔

مزید یہ کہ وہ "تعلق ولایت" جیسی اصطلاحیں استعمال کرتے ہوئے ، اور بالخصوص "اعتقادی نفاق" اور "قلبی دوستی" کے استعمال سے ایک ایسا ناقابل تسخیر حصار تعمیر کرتے ہیں کہ اس کی رو سے از وفات نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم تا قیام قیامت آیہ مبارکہ کی تطبیق عملا ممکن نہیں رہتی۔

انہی صغریٰ کبریٰ کا مشاہدہ کرتے یہ بات بھی سامنے آئی کہ حافظ صاحب ایات قرآنی کا ترجمہ کرتے ہوئے ولی ۔ اولیاء کا ترجمہ ( نہ کہ مفہوم!) کہیں "دوستی" تو کہیں " قلبی دوستی" کرتے نظر اتے ہیں۔ مراجعہ کرنے سے یہ سامنے آیا کہ اردو کے معروف اور مستند مترجم علماء نے کہیں بھی یہ چیز روا نہیں رکھی ہے۔ اس پر بھی ایک مراسلہ "" چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر"" کے مصداق آپ کو ملے گا۔

یہی "سلوک" امام طبری رحمہ اللہ عبارت کے ساتھ رکھا گیا ہے! اب کی "رواں دواں گفتگو" بعد کے مراسلوں میں اسی "قلبی دوستی" پر نظر ائے گی، البتہ حافط زیر صآحب کے اس سارے ہی مقالے پر ازسرنو تحقیق مزید کی ضرورت موجود ہے ۔(اور جیسا کہ زیر نظر مراسلے میں بھی آخر میں بھی اس کا ذکر موجود ہے)

بعض اصحاب کو شاید بادی النظر میں یہ ایک لفظی بحث زیادہ معلوم ہو ، لیکن جو حضرات موصوف کا مضمون دیکھ لیں گے ان پر ذرا سے تامل کرنے سے واضح ہو جائے گا کہ اس یک لفظی اضافے نے حافظ صاحب کو استدلال میں کس بنیادی تبدیلی کی راہ نکال دی ہے۔ مضمون کا لنک یہ ہے :
http://www.kitabosunnat.com/forum/یونیکوڈ-119/توحید-حاکمیت-اور-فاسق-وظالم-حکمرانوں-کی-تکفیر-726/index2.html#post3607

ابن تیمیہ و ابن عبدالوہاب رحمہ اللہ کے کچھ اقتباسات بھی موجود ہیں جو اقوال فیصل اور قابل توجہ ہیں۔ بحث جاری ہے ، آُپ پڑھتے بھی رہیں گے اور اللہ وصول الی لحق کی توفیق بھی عطا فرمائیں ،بس دو سطروں میں سلف کا موقف بس اتنا سا ہے کہ :

""سورہ المائدہ کی اس آیت مبارکہ میں تمام مسلمانوں کو کفار سے دوستی سے منع کیا گیا ہے اور اس کا حکم (صرف منافقین نہیں بلکہ)تمام مسلمانوں کے لیے قیامت تک باقی ہے۔نیز آیت کی رو سے عملی دوستی کی قوی ترین صورت "مسلمانوں کے خلاف کفار کی مددو نصرت کرنا" بذات خود کفرو ارتداد ہے اور نواقض اسلام میں سے ایک ہے۔""
سلف کی عبارات آیت مبارکہ میں ذکر کردہ دوستی کو کسی "خاص قسم کی دوستی" تک محصور کرنے کی بھی تردید کرتی ہیں ۔ اور دلی دوستی کی قباحت کے ساتھ ساتھ وہ عملی مددونصرت مستقل طور پر ارتداد قرار دیتے ہیں ، اگرچہ وہ دلی تعلق کے بغیر ہی کیوں نہ ہو!

موجودہ جائزہ محض سرسری اور سرراہے قسم کا سمجھ لیں ، البتہ زیر نقد مقالہ کی تمام جوانب کے تحقیقی "مطالعے" کے لیے انتظار فرمائیں اور دعا کریں کہ اللہ اپنے کسی بندے کو اس کی کما حقہ توفیق عطا فرمائے۔ آمین

١٠.٠٣.١٣
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اصل مراسلہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک غلطی کا ازالہ :
اس آیت مبارکہ سے مسلم حکمرانوں اور اداروں کی تکفیر پر ظاہری استدلال بوجوہ ناقص ہے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ اس سے اگلی آیت میں یہ بات بالکل واضح موجود ہے کہ یہ خطاب اعتقاد ی منافقین سے ہے۔
کیونکہ اگلی آیت مبارکہ کے الفاظ ہیں:
(فَتَرَی الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَض یُّسَارِعُوْنَ فِیْھِمْ یَقُوْلُوْنَ نَخْشٰی اَنْ تُصِیْبَنَا دَائِرَة) (المائدة : ٥٢)
'' پس آپﷺ دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ انہی یہود و نصاری میں گھستے چلے جاتے ہیں اور وہ کہتے ہیں ہمیں اندیشہ ہے کہ ہم پر کوئی گردش دوراں نہ آ جائے۔''
اسی طرح اس سے اگلی دو آیات میں بھی منافقین ہی کا تذکرہ ہے ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(وَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ھٰؤُلَآئِ الَّذِیْنَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰہِ جَھْدَ اَیْمَانِھِمْ اِنَّھُمْ لَمَعَکُمْ حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ فَاَصْبَحُوْا خٰسِرِیْنَ )۔(یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہ فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰہُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّھُمْ وَیُحِبُّوْنَہ اَذِلَّةٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّةٍ عَلَی الْکَافرِیْنَ)
(المائدة : ٥٣۔٥٤)
'' اور اہل ایمان(ایک دوسرے سے )کہتے ہیں: کیا یہ ہیں وہ لوگ( یعنی منافقین) جنہوں نے اللہ کے بارے میں سخت قسمیں کھاکر کہا تھا کہ وہ لازماً تمہارے (یعنی مسلمانوں) کے ساتھ ہیں۔ان(منافقین) کے اعمال ضائع ہو گئے اور وہ خسارہ پانے والوں میں سے ہوگئے۔اے ایمان والو! اگر کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا(مثلاً منافق ہو جائے گا) تو اللہ تعالی ایسی قوم کو لائیں گے جو اللہ سے محبت کرتی ہو گی اور اللہ اس سے محبت کرتے ہوں گے اور یہ قوم اہل ایمان کے لیے نرم اور کافروں پر سخت ہو گی۔ ''

اسی لیے امام المفسرین' امام ابن جریر طبری نے لکھا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ آیات منافقین ہی کے بارے میں نازل ہوئی تھیں۔
امام ابن جریر طبری فرماتے ہیں:
'' غیر أنہ لا شک أن الآیة نزلت فی منافق کان یوالی یھودا أو نصاری خوفا علی نفسہ من دوائر الدھر لأن الآیة التی بعدہ ھذہ تدل علی ذلک وذلک قولہ : فَتَرَی الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَض یُسَارِعُوْنَ فِیْھِمْ یَقُوْلُوْنَ نَخْشٰی اَنْ تُصِیْبَنَا دَائِرَة.'' (تفسیر طبری : المائدة : ٥١)
'' اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ آیت مبارکہ ایسے منافق کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو اپنے بارے میں آنے والے حالات کے خوف سے کسی یہودی یا عیسائی کو قلبی دوست بنا لیتا تھا۔

اس آیت مبارکہ کے بعد والی آیت اس بات پر دلالت کر رہی ہے اور وہ یہ آیت ہے:
"فتری الذین فی قلوبھم مرض یسارعون فیھم یقولون نخشی أن تصیبنا دائرة۔''
برادر یاسر! اپ نے ایک علمی بات کرنے کی کوشش کی ہے ، لیکن حق یہ تھا کہ اپ حوالہ پیش کرنے سے پہلے دیکھ لیتے ۔ حقیقت یہ ہے کہ امام طبری کی عبارت جس مقام سے "اچکی" گئی ہے وہ کچھ یوں ہے:

"" فإذ كان ذلك كذلك فـالصواب أن يُحْكم لظاهر التنزيـل بـالعموم علـى ما عمّ، ويجوز ما قاله أهل التأويـل فـيه۔۔۔۔۔ غرہ أنہ لا شک أن الآیة نزلت فی منافق کان یوالی یھودا أو نصاری خوفا علی نفسہ۔۔۔۔۔ الخ ""
""درست بات یہی ہے کہ اس آیت میں مسلمانوں کو جو عام حکم دیا گیا اس کو عام ہی سمجھا جائے ․․․․․․․․اگرچہ یہ بات اپنی جگہ بجاہے کہ یہ آیت ایک منافق کے بارے میں نازل ہوئی تھی ۔وہ منافق یہودیوں اور عیسائیوں سے دوستیاں کرتا تھا۔اس کے دل میں یہ خوف سوار تھا کہ کہیں یہودیوں وعیسائیوں کی طرف سے مجھے ناگفتہ بہ اور ناساز گار حالات کا سامنا نہ کرنا پڑجائے۔یہی وجہ ہے کہ سورۃ المائدہ کی آیت :۵کے بعد والی جو اگلی آیت ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے اس خوف کی وضاحت بھی فرمائی ہے ۔""

اب پہلا جملہ علوی صاحب نے چھوڑ کر باقی عبارت لے لی!اور یہ بھی دیکھ لیں کہ ایک ایک جملے کو کاٹ پھینکنا کلام کا مفہوم کیا سے کیا کر سکتا ہے۔اب یہ تصویر سامنے اتی ہےکہ امام صاحب اس آیت کو سب مسلمانوں کے لیے جانتے ہیں اور قیامت تک اسے حکم عام بتلاتے ہیں ۔
امام طبری رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں :

""والصواب من القول فـي ذلك عندنا أن يقال: إن الله تعالـى ذكره
نهى الـمؤمنـين جميعاً
أن يتـخذوا الـيهود والنصارى أنصاراً وحلفـاء علـى أهل الإيـمان بـالله ورسوله، وأخبر أنه من اتـخذهم نصيراً وحلـيفـاً وولـياً من دون الله ورسوله والـمؤمنـين، فإنَّه منهم فـي التـحزّب علـى الله وعلـى رسوله والـمؤمنـين، وأن الله ورسوله منه بريئان.
وقد يجوز أن تكون الآية نزلت فـي شأن عُبـادة بن الصامت وعبد الله بن أبـيّ ابن سلول وحلفـائهما من الـيهود، ويجوز أن تكون نزلت فـي أبـي لُبـابة بسبب فعله فـي بنـي قريظة، ويجوز أن تكون نزلت فـي شأن الرجلـين اللذين ذكر السدّيّ أن أحدهما همّ بـاللـحاق بدهلك الـيهودي والآخر بنصرانـي بـالشأم، ولـم يصحّ بواحد من هذه الأقوال الثلاثة خبر يثبت بـمثله حجة فـيسلـم لصحته القول بأنه كما قـيـل.


’’ہمارے نزدیک یوں کہنا درست ہے کہ اللہ رب العزت نے تمام مسلمانوں کومنع کیا ہے ۔اس بات سے کہ وہ یہودیوں اور عیسائیوں کو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے آخری رسول جناب محمد ﷺپر ایمان رکھنے والے مومنوں کے خلاف اپنے حمایتی ،مددگار اور حلیف بنائیں ۔اللہ تعالیٰ نے اس بات سے بھی خبردار کیا ہے کہ جو مسلمان ۔اللہ تعالیٰ ،اس کے رسول ﷺکو اور مومنوں کو چھوڑ کر ان کافروں کو اپنا حمایتی ،مددگار اور دوست بنائے گا پھر وہ ان یہودیوں اور عیسائی کافروں کی پارٹی کا ہی فرد گردانا جائے گا ۔گویایہ شخص اللہ رب العالمین ،رسول اللہﷺاور مومنوں کے مدمقابل کافروں کی پارٹی اور جماعت کا ایک کارکن اور ورکر (worker)ہوگا۔اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺاس سے کلیتاً بیزار اور لاتعلق ہوں گے۔""

Altafsir.com - The Tafsirs - التفاسير


اب حضرات خود دیکھ سکتے ہیں کہ امام طبری رحمہ اللہ تویہ کہیں کہ اس آیت کے مخاطب سارے ہی مسلمان ہیں اور اس کا حکم قیامت تک ہے اور ہمارے امام علوی صاحب ان کی تفسیر سے کیا دکھا رہے ہیں !

مزید یہ کہ جو ترجمہ ابو الحسن علوی صاحب نے "قلبی دوستی" کیا ہے وہ بھی محل نظر ہے! امام طبری فرماتے ہیں کہ:

منافق کان یوالی یھودا أو نصاری خوفا علی نفسہ من دوائر الدھر
یعنی وہ منافق زمانے کی گردشوں کے ڈر کر یہودیوں یا عیسائیوں سے دوستی رکھتا تھا۔

اب کیا حآلات سے ڈر کر قائم کی جانے والی دوستی "قلبی دوستی" ہوتی ہے؟؟

یہی بات اگلی آیت بھی کہہ رہی ہے کہ اصل بات کیاتھی ::
یُّسَارِعُوْنَ فِیْھِمْ یَقُوْلُوْنَ نَخْشٰی اَنْ تُصِیْبَنَا دَائِرَة
ان میں گھسے جاتے ہیں کہتے ہیں ہم پر کوئی گردش دوراں نہ آ جائے۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اﷲ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

قََالَ اللّٰہُ تَعَالٰی ﴿وَ مَنْ یَّتَوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ﴾ فَیُوَافِقْھُمْ وَ یُعِینُھُمْ ﴿فَاِنَّہٗ مِنْہُمْ﴾ وَ قَالَ أَیْضًا فِی تَفْسِیر ھٰذِہِ الْآیۃ: وَالْمُفَسِّرُوْنَ مُتَّفِقُوْنَ عَلٰی أَنَّھَا نَزَلَتْ بِسَبَبِ قَوْمٍ مِمَّنْ کَانَ یُظْھِرُ الْاِسْلَامَ وَ فِیْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ خَاف أَنْ یَغْلِبَ أَھْلُ الاِسْلَام فَیُوَالِی الْکُفَّارَ مِنَ الْیَھُودِ وَالنَّصَارٰی وَ غَیْرِھِمْ لِلْخَوفِ الَّذِیْ فِیْ قُلُوْبِھِمْ لَا لاِعْتِقَادِھِمْ أَنَّ مُحَِمَّدًا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَاذِبٌ وَأَنَّ الْیَھُودَ وَالنَّصَارٰی صَادِقُوْنَ‘‘

’’اﷲ تعالیٰ کے زیر تفسیر فرمان ﴿وَ مَنْ یَّتَوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ﴾کامعنی ہے کہ ’’فَیُوَافِقْھُمْ وَ یُعِینُھُم‘‘۔
ترجمہ: یعنی جو یہودیوں اور عیسائیوں کی موافقت کرتا ہے اور ان کی مدد اور تعاون کرتا ہے تو ﴿فَاِنَّہٗ مِنْہُمْ﴾وہ ان میں سے ہی شمار ہوگا۔‘‘امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں: تمام مفسرین کرام اس بات پر متفق ومتحد ہیں کہ :

مذکورہ بالا آیت کا شانِ نزول ایک ایسی قوم کے افراد سے متعلق ہے جو بظاہر اسلام کا دعوٰی اور اظہار کرتے تھے مگر ان کے دلوں میں یہ خوف جاگزیں تھاکہ اگر بالفرض اہل اسلام کافروں کے ہاتھوں شکست کھاگئے توپھر ہمارا کیا بنے گا ،ہم کدھر جائیں گے ۔بس اس خوف سے ہی وہ کلمہ پڑھنے کے باجوود یہودیوں ،عیسائیوں اور دیگر کافروں کے ساتھ بنارکھتے تھے ۔ان کے دوستانہ تعلقات کی بنیاد فقط وہ خوف تھا جو ان کے دل ودماغ پر بُری طرح سوار تھا۔کافروں سے دوستیاں کرنے والے اور ان سے بناکر رکھنے والوں کے دلوں میں یہ اعتقاد ونظریہ بالکل نہ تھا کہ (نعوذ باﷲ من ذلک)محمد صلی اﷲ علیہ و سلمجھوٹے پیغمبر ہیں اور یہود ونصارٰی سچے ہیں ۔‘‘
(مجموع الفتاوی:۱۹۳/۷،۱۹۴)

برادر یاسر ! آپ اپ کا بجا طور پر حق بنتا ہے کہ آپ اس "تحریر" اور صاحب تحریر دونوں پر "ایمان بالغیب" ترک کر دیں اور خود سے تحقیق کریں ۔

باقی اسی مضمون " ظالم فاسق حکمرانوں کی تکفیر" کے آخر میں کفار کی جو "شاندار" تقسیم کی گئی ہے اور اس کی بنیاد پر انہیں دوست بنانے یا نہ بنانے کا جو "مجتہدانہ" موقف قائم کیا گیا ہے ، اس بارے بھی قابل احترام محترم عبدالغفار مدنی حفظہ اللہ، عبد الرحمان مکی یا عبد السلام بھٹوی حفظھم اللہ سے پوچھ لیجئے گا ۔

مجھے لگتا ہے کہ اس سارے مضمون پر ہی کوئی ماری موٹی نظر ثانی کرنی پڑے مجھے کسی دن ، آپ لوگ تو مانو "بلائنڈ ٹرسٹ" کرتے جا رہے ہو ان ایک دو تحریروں پر!!

ویسے بھی ساری تحقیقات اور "ارشادات" صرف اہل تقلید کے لیے ہی مخصوص نہیں رہنی چاہییں ، اس فورم پر اہل علم موجود رہتے ہیں ۔ انہیں ہی کچھ کرنا چاہیے !!

والسلام
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
اسلام و-علیکم

میرے خیال میں مزید بحث سے پہلے ہم قرآن کی اس آیت پر بھی غور کر لیں -کیا ہمیں یہ زیب دیتا ہے کہ ہر اس شخص کو خوارج یا دہشت گرد قرار دے دیں جس کو ہمارا مغرب پرست میڈیا دہشت گرد قرار دے رہا ہے ؟؟

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ

اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہاے پاس کوئی خبر لے آے تو اس کی تحقیق کر لیا کروکہ کہیں کسی قوم پر بے خبری سے نہ جا پڑو پھر اپنے کیے پر پشیمان ہونے لگو (سورہ حجرات آیت ٦ )


وسلام
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
مزید یہ کہ جو ترجمہ ابو الحسن علوی صاحب نے "قلبی دوستی" کیا ہے وہ بھی محل نظر ہے! امام طبری فرماتے ہیں کہ:


یعنی وہ منافق زمانے کی گردشوں کے ڈر کر یہودیوں یا عیسائیوں سے دوستی رکھتا تھا۔

اب کیا حآلات سے ڈر کر قائم کی جانے والی دوستی "قلبی دوستی" ہوتی ہے؟؟
قرآن قرآن کی تفسیر کرتا ہے:

فرمانِ باری ہے:
﴿ يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّخِذوا بِطانَةً مِن دونِكُم ١١٨ ﴾ ۔۔۔ سورة آل عمران
اے ایمان والو! تم اپنا دلی دوست ایمان والوں کے سوا اور کسی کو نہ بناؤ۔ (118)

بطانۃ بطن سے ہے، اس کا مطلب دلی اور قلبی دوستی کے علاوہ اور کیا ہے؟؟؟
 
شمولیت
اگست 30، 2012
پیغامات
348
ری ایکشن اسکور
970
پوائنٹ
91
قرآن قرآن کی تفسیر کرتا ہے:

فرمانِ باری ہے:
﴿ يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّخِذوا بِطانَةً مِن دونِكُم ١١٨ ﴾ ۔۔۔ سورة آل عمران
اے ایمان والو! تم اپنا دلی دوست ایمان والوں کے سوا اور کسی کو نہ بناؤ۔ (118)

بطانۃ بطن سے ہے، اس کا مطلب دلی اور قلبی دوستی کے علاوہ اور کیا ہے؟؟؟
بارک اللہ فی العلم والعمل۔
 

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
قرآن قرآن کی تفسیر کرتا ہے:

فرمانِ باری ہے:
﴿ يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّخِذوا بِطانَةً مِن دونِكُم ١١٨ ﴾ ۔۔۔ سورة آل عمران
اے ایمان والو! تم اپنا دلی دوست ایمان والوں کے سوا اور کسی کو نہ بناؤ۔ (118)

بطانۃ بطن سے ہے، اس کا مطلب دلی اور قلبی دوستی کے علاوہ اور کیا ہے؟؟؟
http://www.kitabosunnat.com/forum/گرافکس-216/خوارج-کی-علامات-10714/index8.html#post73932

جناب شاید آپ یہ بھول گئے ہیں کہ یہ پوائنٹ امام طبری کی عبارت کے ترجمے پر اٹھایا گیا ہے ، نہ کہ نص قرانی کے ترجمے پر جس کے لیے آپ "یفسر بعضہ بعضا" کی بات کریں۔ ((ویسے آیت کا ترجمہ بھی تمام مترجم " یہود و نصاری کو دوست نہ بناؤ" ہی کرتے ہیں نہ کہ "یہود و نصاریٰ کو "قلبی دوست" نہ بناؤ" !! ))

امام صاحب رحمہ اللہ نے مطلقا لفظ "یوالی" بیان کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے "قلبی دوستی" کہنا درست نہیں اس لیے کہ ساتھ ہی وہ اس کا خارجی سبب بھی بتا رہے ہیں کہ زمانے کی گردشوں کا خوف اس کا سبب بنا!

"ڈر کی دوستی" کیسے "قلبی دوستی" ہو سکتی ہے؟اس کا فیصلہ خود کر لیجئے گا۔ ساتھ ہی ترجمان سلف ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی عبارت بھی دوبارہ دیکھ لیجئے گا جو اسی واسطے پیش کی تھی کہ اس میں اس دوستی کا حال بیان کیا گیا تھا !


جزک اللہ خیرا۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
قرآن قرآن کی تفسیر کرتا ہے:

فرمانِ باری ہے:
﴿ يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّخِذوا بِطانَةً مِن دونِكُم ١١٨ ﴾ ۔۔۔ سورة آل عمران
اے ایمان والو! تم اپنا دلی دوست ایمان والوں کے سوا اور کسی کو نہ بناؤ۔ (118)

بطانۃ بطن سے ہے، اس کا مطلب دلی اور قلبی دوستی کے علاوہ اور کیا ہے؟؟؟
http://www.kitabosunnat.com/forum/گرافکس-216/خوارج-کی-علامات-10714/index8.html#post73932

جناب شاید آپ یہ بھول گئے ہیں کہ یہ پوائنٹ امام طبری کی عبارت کے ترجمے پر اٹھایا گیا ہے ، نہ کہ نص قرانی کے ترجمے پر جس کے لیے آپ "یفسر بعضہ بعضا" کی بات کریں۔ ((ویسے آیت کا ترجمہ بھی تمام مترجم " یہود و نصاری کو دوست نہ بناؤ" ہی کرتے ہیں نہ کہ "یہود و نصاریٰ کو "قلبی دوست" نہ بناؤ" !! ))
محترم بھائی! آپ کے لکھے گئے پیراگراف کا پہلا حصہ دوسرے حصّے کی نفی کر رہا ہے۔

پیراگراف کے شروع میں آپ کا کہنا یہ ہے کہ آپ کو اعتراض نص قرآنی کے نہیں بلکہ امام طبری﷫ کی عبارت کے ترجمے پر ہے، لہٰذا یہاں القرآن يفسر بعضه بعضا کی بات نہیں بنتی۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ کے نزدیک بھی نص قرآنی کا ترجمہ قلبی دوستی ہی ہے۔

لیکن اسی پیراگراف کے آخر میں آپ کا زور یہی ہے کہ لا تتخذوا اليهود والنصٰرى أولياء کا معنیٰ صرف دوستی ہونا چاہئے، قلبی دوستی نہیں۔
 

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
محترم بھائی! آپ کے لکھے گئے پیراگراف کا پہلا حصہ دوسرے حصّے کی نفی کر رہا ہے۔

پیراگراف کے شروع میں آپ کا کہنا یہ ہے کہ آپ کو اعتراض نص قرآنی کے نہیں بلکہ امام طبری﷫ کی عبارت کے ترجمے پر ہے، لہٰذا یہاں القرآن يفسر بعضه بعضا کی بات نہیں بنتی۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ کے نزدیک بھی نص قرآنی کا ترجمہ قلبی دوستی ہی ہے۔

لیکن اسی پیراگراف کے آخر میں آپ کا زور یہی ہے کہ لا تتخذوا اليهود والنصٰرى أولياء کا معنیٰ صرف دوستی ہونا چاہئے، قلبی دوستی نہیں۔
بھائی جان آپ کو ایک ہی بات پر میرا یہ تیسرا مراسلہ ہے ! طبری کی عبارت سے آیت قرآنی اور آیت قرانی سے میرے تضاد تک آنے کا شکریہ۔ امام طبری کی عبارت سے آپ کے محقق نے جو سلوک کیا تھا وہ تو آپ دیکھ ہی چکے ، اب ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے

یہ آیات کا ترجمہ دیکھیں، تضاد یا جو بھی اور توجیہہ کر لیں اور سر دھنیں کہ کس طرح ترجمہ قرآن تک کو اپنا مطلب نکالنے کے لیے بے دریغ استعمالا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ سب بھائی ذرا پہلی آیت اور باقی آیات میں لفظ "اولیاء" کے (علوی صاحب کے دست مبارک سے کیے گئے) ترجمے پر نظر رکھیں جنہیں ہائی لائٹ کیا گیا ہے۔::

(یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ وَالنَّصَارٰی اَوْلِیَائَ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَائُ بَعْضٍ وَمَنْ یَتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاِنَّہ مِنْھُمْ)(المائدة : ٥١)
'' اے اہل ایمان! تم یہود و نصاری کو دوست نہ بناؤ' وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو کوئی تم میںسے ان سے دوستی رکھے گا تو وہ بھی انہی میں سے ہے ۔''

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب باقی آیات :

(یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِیْنَ اتَخَّذُوْا دِیْنَکُمْ ھُزُوًا وَّلَعِبًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَالْکُفَّارَ اَوْلِیَائَ) (المائدة : ٥٧)
'' اے اہل ایمان! نہ تم ان کافروں اور اہل کتاب کو قلبی دوست بناؤ جنہوں نے تمہارے دین کو مذاق اور کھیل تماشہ بنا لیا۔''
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
(یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَائَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ عَلَیْکُمْ سُلْطَانًا مُّبِیْنًا) (النساء : ١٤٤)
''اے اہل ایمان! تم اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو قلبی دوست نہ بناؤ۔کیا تم چاہتے ہو کہ تم اللہ کے لیے اپنے خلاف کوئی واضح دلیل بناؤ۔''
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
(یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا آبَآئَ کُمْ وَاِخْوَانُکُمْ اَوْلِیَآئَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْکُفْرَ عَلَی الْاِیْمَانِ وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ) (التوبة: ٢٣)'
'اے اہل ایمان! اپنے آباء و اجدار اور بھائیوں کو قلبی دوست نہ بناؤ اگر وہ کفر کو ایمان پر ترجیح دیں۔ اور جو کوئی تم میں سے ان سے تعلق ولایت رکھے گا تو وہی لوگ ظالم ہیں۔''

لنک یہ رہا::http://www.kitabosunnat.com/forum/یونیکوڈ-119/توحید-حاکمیت-اور-فاسق-وظالم-حکمرانوں-کی-تکفیر-726/index2.html#post3607

اور یہاں قرآنی تراجم موجود ہیں ، تسلی کرتے جائیں : openburhan.com

محترم بھائی ! اول تو آپ ترجمے کے اس عدیم النظیر نمونے کی تائید میں کہیں سے کسی کونے کھدرے سے کوئی دلیل لائیں، کوئی مفسر مترجم محقق مدقق ۔۔۔۔۔۔۔ کوئی تو ہو !! ہاں البتہ اس "فنامنا" کی نظیر اعلیٰ حضرت احمد رضاخان صاحب بریلوی اور طاہر القادری کے ہاں ملتی ہے کہ ایک ہی لفظ کا ترجمہ دو جگہوں پر مختلف کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور صاف نظر آتا ہے کہ اپنی مطلب براری مقصود ہے اور کوئی بات نہیں !!

اور دوم اولیاء اور ولی کا ترجمہ اپنے حسب منشاء کرنے پر صرف اقبال کا ایک شعر کہ:

خود بدلتے نہیں قران کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق

انا للہ وانا الیہ راجعون
 

ابو بصیر

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 30، 2012
پیغامات
1,420
ری ایکشن اسکور
4,198
پوائنٹ
239
دوسری بات یہ ہے کہ یہ امر بالکل واضح ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی اکثریت یہود و نصاریٰ سے دوستیاں اس وجہ سے کرتی ہے کہ وہ ان سے ڈرتے ہیں۔یعنی یہود و نصاریٰ کی ٹیکنالوجی کا ڈر' عیش پرستی' کاہلی و سستی ' موت کا خوف، مال اور عہدے کی محبت وغیرہ ایسے امور ہیں کہ جن کی وجہ سے ہمارے حکمران حربی یہود و نصاری سے دوستی کرتے ہیں۔پس اس صورت میں یہ حکمران فاسق و فاجر اور عملی منافق تو قرار پائیں گے لیکن ایسے کافر نہیں کہ جس کی وجہ سے وہ ملت اسلامیہ سے خارج ہوں۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مسلمانوں کو کفار سے اپنے بچاؤ کی تدبیر کے طور پر ان سے ظاہری دوستی کی اجازت دی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَائَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَمَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْئٍ اِلاَّ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقَاةً) (آل عمران : ٢٨)
''پس اہل ایمان' اہل ایمان کو چھوڑتے ہوئے کافروں کودوست نہ بنائیں اور جو کوئی بھی ایسا کرے گا تو اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہے سوائے اس کے کہ تم (یعنی اہل ایمان) ان کافروں (کی اذیت )سے بچنا چاہو کچھ بچنا''۔
حکمرانوں کے دلوں میں کافروں اور یہود و نصاری کا جو خوف ، دبدبہ اور رعب بیٹھا ہوا ہے اس کے بارے میں یہ بحث تو ہو سکتی ہے کہ وہ ہونا چاہیے یا نہیں لیکن اس آیت مبارکہ کایہ استثناء بہر حال یہود و نصاریٰ سے دوستی کی بنیاد پر حکمرانوں کی تکفیر میں ایک صریح مانع ہے۔اس آیت مبارکہ میں'تقاة'سے مراد سلف صالحین نے تقیہ اور خوف دونوں لیے ہیں۔امام شنقیطیالمالکی فرماتے ہیں کہ اگر دشمن کے خوف کے سبب سے کوئی مسلمان ان سے تعلق ولایت کا اظہار کرے تو یہ جائز ہے۔وہ 'یأیھا الذین آمنوا لا تتخذوا الیھود والنصاری أولیاء ' کے تحت لکھتے ہیں:
'' وبین فی مو ضع آخر : أن محل ذلک،فیماا ذا لم تکن الموالاة بسبب خوف وتقیة ون کانت بسبب ذلک فصاحبھا معذور وھو قولہ تعالی : لاَ یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْئٍ اِلاَّ اَنْتَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقَاة.'' (أضواء البیان : المائدة : ٥١)
'' ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو واضح کیا ہے کہ یہود و نصاری سے یہ تعلق ولایت کسی خوف یا بچاؤ کے سبب سے نہ ہو' اور اگر یہود و نصاری سے تعلق ولایت اس سبب( یعنی خوف یا ان کی اذیت سے بچاؤ) کے تحت ہو تو ایسا شخص معذور ہے اور اللہ سبحانہ و تعالی کا قول ہے:''پس اہل ایمان' اہل ایمان کو چھوڑتے ہوئے کافروں کودوست نہ بنائیں اور جو کوئی بھی ایسا کرے گا تو اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہے سوائے اس کے کہ تم (یعنی اہل ایمان) ان کافروں (کی اذیت )سے بچنا چاہو کچھ بچنا''۔
امام نسفی الحنفی نے بھی یہی معنی بیان فرمایا ہے۔وہ لکھتے ہیں:
'' (اِلاَّ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقَاة) الا أن تخافوا من جھتھم أمرا یجب اتقاؤہ أی لا أن یکون للکافر علیک سلطان فتخافہ علی نفسک ومالک فحینئذ یجوز لک ا ظھار الموالاة وابطان المعاداة.'' (تفسیر نسفی : آل عمران : ٢٨)
'الا أن تتقوا منھم تقاة' کا معنی یہ ہے کہ تمہیں ان کی طرف سے کسی ایسے امر کا اندیشہ ہو کہ جس سے بچنا لازم ہویعنی یہ کہ کسی کافر کو تم پر غلبہ حاصل ہو اور تمہیں اس کافر سے اپنے جان اور مال کا خوف لاحق ہو تو اس وقت تمہارے لیے یہ جائز ہے کہ تم کافر سے دوستی کا اظہار کرو اور اس سے دشمنی کو چھپا لو۔''
امام بیضاوی الشافعی نے بھی یہی معنی بیان کیا ہے کہ خوف کے وقت دشمن کافر سے تعلق ولایت کا اظہار جائز ہے۔وہ لکھتے ہیں:
'' منع عن موالاتھم ظاھرا وباطنا فی الأوقات کلھا لا وقت المخافة فن اظھار الموالاة حینئذ جائز.''(تفسیر بیضاوی : آل عمران : ٢٨)'
'اللہ تعالیٰ نے جمیع حالات میں کفار سے ظاہری یا باطنی تعلق ولایت قائم کرنے سے منع فرمایا ہے سوائے خوف کی حالت کے ' کیونکہ اس حالت میں کافر سے تعلق ولایت کا اظہار جائز ہے۔''
 

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
دوسری بات یہ ہے کہ یہ امر بالکل واضح ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی اکثریت یہود و نصاریٰ سے دوستیاں اس وجہ سے کرتی ہے کہ وہ ان سے ڈرتے ہیں۔یعنی یہود و نصاریٰ کی ٹیکنالوجی کا ڈر' عیش پرستی' کاہلی و سستی ' موت کا خوف، مال اور عہدے کی محبت وغیرہ ایسے امور ہیں کہ جن کی وجہ سے ہمارے حکمران حربی یہود و نصاری سے دوستی کرتے ہیں۔
بھائی میرے مراسلے ذرا غور سے پرھا کریں ، تیسری بار اسی تھریڈ میں نقل کر رہا ہوں::

ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں::

’’قَالَ اللہ تَعَالٰی ﴿وَ مَنْ یَّتَوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ﴾ فَیُوَافِقْھُمْ وَ یُعِینُھُمْ ﴿فَاِنَّہ، مِنْہُمْ﴾وَ قَالَ أَیْضًا فِی تَفْسِیر ھٰذِہِ الْآیۃ: وَالْمُفَسِّرُوْنَ مُتَّفِقُوْنَ عَلٰی أَنَّھَا نَزَلَتْ بِسَبَبِ قَوْمٍ مِمَّنْ کَانَ یُظْھِرُ الْاِسْلَامَ وَ فِیْ قَلْبِہٰ مَرَضٌ خَافَ أَنْ یَغْلِبَ أَھْلُ الاِسْلَام فَیُوَالِی الْکُفَّارَ مِنَ الْیَھُودِ وَالنَّصَارٰی وَ غَیْرِھِمْ لِلْخَوفِ الَّذِیْ فِیْ قُلُوْبِھِمْ لَا لاِعْتِقَادِھِمْ أَنَّ مُحِمَّدًا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَاذِبٌ وَأَنَّ الْیَھُودَ وَالنَّصَارٰی صَادِقُوْنَ‘‘
’’اللہ تعالیٰ کے زیر تفسیر فرمان وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ کامعنی ہے کہ ’’فَیُوَافِقْھُمْ وَ یُعِینُھُم‘‘ یعنی جو یہودیوں اور عیسائیوں کی موافقت کرتا ہے اور ان کی مدد اور تعاون کرتا ہے تو (فَإِنَّهُ مِنْهُمْوہ ان میں سے ہی شمار ہوگا۔‘‘)امام ابن تیمیہ ﷫مزید فرماتے ہیں :(تمام مفسرین کرام اس بات پر متفق ومتحد ہیں کہ مذکورہ بالا آیت کا شانِ نزول ایک ایسی قوم کے افراد سے متعلق ہے جو بظاہر اسلام کا دعوٰی اور اظہار کرتے تھے مگر ان کے دلوں میں یہ خوف جاگزیں تھاکہ اگر بالفرض اہل اسلام کافروں کے ہاتھوں شکست کھاگئے توپھر ہمارا کیا بنے گا ،ہم کدھر جائیں گے ۔بس اس خوف سے ہی وہ کلمہ پڑھنے کے باجوود یہودیوں ،عیسائیوں اور دیگر کافروں کے ساتھ بنارکھتے تھے ۔ان کے دوستانہ تعلقات کی بنیاد فقط وہ خوف تھا جو ان کے دل ودماغ پر بُری طرح سوار تھا۔کافروں سے دوستیاں کرنے والے اور ان سے بناکر رکھنے والوں کے دلوں میں یہ اعتقاد ونظریہ بالکل نہ تھا کہ )نعوذ باللہ من ذلک(محمدﷺجھوٹے پیغمبر ہیں اور یہود ونصارٰی سچے ہیں ۔‘‘

مجموع الفتاوی:194-193/7


امام نسفی الحنفی نے بھی یہی معنی بیان فرمایا ہے۔وہ لکھتے ہیں:
'' (اِلاَّ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقَاة) الا أن تخافوا من جھتھم أمرا یجب اتقاؤہ أی لا أن یکون للکافر علیک سلطان فتخافہ علی نفسک ومالک فحینئذ یجوز لک ا ظھار الموالاة وابطان المعاداة.'' (تفسیر نسفی : آل عمران : ٢٨)
امام بیضاوی الشافعی نے بھی یہی معنی بیان کیا ہے کہ خوف کے وقت دشمن کافر سے تعلق ولایت کا اظہار جائز ہے۔وہ لکھتے ہیں:
'' منع عن موالاتھم ظاھرا وباطنا فی الأوقات کلھا لا وقت المخافة فن اظھار الموالاة حینئذ جائز.''(تفسیر بیضاوی : آل عمران : ٢٨)'
جو اقوال نقل کیے گئے ہیں مختلف مفسرین کے ان میں ازروئے قرآن صرف زبانی کلامی ""اظہار ولایت"" کی رخصت ہے، جسے تقیہ کہتے ہیں نہ کہ عملی دست و بازو بننے کی کھلی چھٹی دے دی گئی ہےاور یہ قرآن نے بھی الفاظ استعمال کیے ہیں ۔ اس میں اور دوستی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔یہ اصطلاح شیعہ حضرات کے ہاں مستعمل ہے اور سب بخوبی سمجھتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب لیا جاتا ہے ۔

مفسر قران عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ تقیہ زبان سے ہوتا ہے عمل سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ (ابن کثیرفی تفسیر الایہ :الا ان تتقوا منھم تقاۃ)

امام قرطبی رحمہ اللہ ابن عباس کا ایک اور قول نقل فرماتے ہیں :

ھُوَ أَنْ یَّتَکَلَّمَ بِلِسَانِہٖ وَ قَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّ بِالْاِیْمَانِ وَ لَا یَقْتُلْ وَ لَا مَأثَمًا
’’تقیہ اس کو کہتے ہیں کہ کوئی مسلمان شخص کفار کے شر سے بچنے کے لیے اپنی زبان سے کوئی ایسی بات کہہ دے جس سے بچاؤ ممکن ہو۔اس کا دل ایمان کے ساتھ مطمئن ہو۔تقیہ کرتے وقت نہ توکسی مسلمان کو قتل کرنا جائز ہے نہ ہی کسی گناہ کا ارتکاب کرنا جائز ہے۔‘‘

اسی طرح حسن بصری کا قول بھی منقول ہے کہ خون ناحق میں کوئی تقیہ نہیں ہے۔

امام ابن قیم رحمہ اللہ تقیہ کی وضاحت یوں کرتے ہیں :

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے شاگرد رشید علامہ ابن قیم رحمہ اللہ لفظ تقیہ کا مطلب بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :
وَمَعْلُوْمٌ أَنَّ التُقَاۃَ لَیْسَتْ بِمُوَالَاۃٍ ، وَ لٰکِنْ لَمَّا نَھَاھُمُ اللہُ عَنْ مَوَلَاۃِ الْکُفَّارِ اقْتَضٰی ذَالِکَ مُعَادَاتَھُمْ وَ الْبَرَاءَ ۃَ مِنْھُمْ وَ مُجَاھَرَتَھُمْ بِالْعُدْوَانِ فِیْ کُلِّ حَالٍ اِذَا خَافُوْا مِنْ شَرِّھِمْ فَأَبَاحَ لَھُمْ التَّقِیْۃَ ، وَلَیْسَتِ التَّقِیَّۃُ بِمَوَالَاۃ
’’یہ بات توبہرحال طے ہے کہ تقیہ ایک الگ چیز ہے اور موالات )یعنی کافروں سے دوستی(ایک الگ چیز ہے ۔دونوں میں بہت فرق ہے۔جب اللہ رب العزت نے کافروں سے دوستانہ مراسم استوار کرنے سے منع کردیا تو اس کا لازمی تقاضا تھا کہ کافروں سے دشمنی ہو ۔ان سے بیزاری اور نفرت کااظہار ہو۔ہرحالت میں ان سے علی الاعلان اورکھلے بندوں دشمنی کی جائے ۔لیکن کبھی حالات کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ علانیہ دشمنی کا اظہار کرنے سے کافروں کے شر سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔لہٰذا ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ نے ’’تقیہ‘‘کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی ہے ۔لیکن بہرحال ’’تقیہ کرنے ‘‘کا مطلب’’کافروں سے دوستی کرنا‘‘ہرگز نہیں ہے۔‘‘
بدائع الفوائد لابن القیم:69/3


چنانچہ دین کی اس انتہائی شدید حالات میں دی گئی رخصت کو ان نظاموں اور حکمرانوں کے لیے ڈھال بنانا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔جنہوں نے تقیہ اور "بچاؤ" تو کیا کرنا ہے بلکہ بالفعل اعلانیہ طور پر کفار کی ہر ممکن مدد و نصرت میں ان کے معمول بہ ہیں اور شرق و غرب کے مسلمان ان سے بچ نہیں پا رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناقابل فہم ہی نہیں مذموم بھی ہے۔
 

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
اور وہابیو ! یہ ذرا غور سے دیکھ لینا سارے میرے بھائی :

ایک شبہ اور اس کا ازالہ:


مجدد الدعوۃ الاسلامیہ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

’’وَلَکِنَّھُمْ یُجَادِلُوْنَکُمْ الْیَوْمَ بِشُبْھَۃٍ وَّاحِدَہٍ ، فَاصْنَعُوْا لِجَوَابِھَا ، وَذٰلِکَ أَنَّھُمْ یَقُوْلُوْنَ کُلُّ ھٰذَا حَقٌّ نَشْھَدُ أَنَّہُ دِینُ ا للہ ِوَ رَسُوْلِہٖ اِلَّا التَّکْفِیْرَ وَالْقِتَالَ ، وَالْعَجَبْ مِمَّنْ یَّخْفٰی عَلَیْہِ ھٰذَا اِذَا أَقّرُّوْھَا أَنَّ ھَذَا دِیْنُ اللہِ وَ رَسُوْلِہٖ کَیْفَ لَا یُکَفَّرُ مَنْ أَنْکَرَہُ وَ قَتَلَ مَنْ أَمَرَ بِہِ وَ حَسْبَھُمْ کَیْفَ لَا یُکَفَّرُ مَنْ أَمَرَ بِہِ بِحَبْسِھِمْ کَیْفَ لَا یُکَفَّرُ مَنْ جَآءَ اِلٰی أَھْلِ الشِّرْکِ یَحُثُّھُم عَلٰی لُزُوْمِ دِیْنِھِمْ وَ تَزِیِیْنِہٖ لَھُمْ وَ یَحُثُّھُمْ عَلٰی قَتْلِ الْمُوْحِدِیْنَ وَ أَخْذِ أَمْوَالِھِمْ کَیْفَ لَا یُکَفِّرُ وَ ھُوَ یَشْھَدُ أَنَّ الَّذِیْ یَحُثُّ عَلَیہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللہِﷺأَنْکَرَہُ وَ نَھٰی عَنْہُ وَ سَمَّاہُ الشِّرْکَ بِاللہِ وَیَشْھَدُ أَنَّ الَّذِیْ یُبْغِضُہُ وَ یُبْغِضُ أَھْلَہُ وَ یَامُرُ الْمُشْرِکِینَ بِقَتْلِھِمْ ھُوَ دِیْنُ اللہِ وَرَسُولِہِٗ وَاعْلَمُوْا أَنَّ الَّادِلَّۃَ عَلٰی تَکْفِیْرِ الْمُسْلِمِ الصَّالِحِ اِذَا أشْرَکَ بِا للہِ أَوْ صَارَ مَعَ الْمُشْرِکِیْنَ عَلَی الْمُوْحِّدِیْنَ وَ لَوْ لَمْ یُشْرِکَ أَکْثَرُ مِنْ أَنْ تُنحَصَرَ مِنْ کَلَامِ اللّہِ وَ کَلَامِ رَسُوْلِہوَکَلَامِ أَھْلِ الْعِلْمِ۔
وَأَنَا أَذْکُرُ لَکَ آیَۃً مِّنۡ کَلَامِ اﷲِ أَجْمَعَ أَھْلُ الْعِلمِ عَلٰی تَفْسِیرِھَا وَ أَنَّھَا فِی الْمُسْلِمِیْنَ وَ أَنَّ الرَّجُلَ اِذَا قَالَ ذَلِکَ فَھُوَ کَافِرٌ فِی أیِّ زَمَانٍ کَانَ ، قَالَ تَعَالٰی :﴿مَنْ کَفَرَ بِاﷲِ مِنْ بَعْدِ اِیْمَانِہٖ اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَ قَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّ بِالْاِیْمَانِ وَلکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْہِمْ غَضَبٌ مِّنَ اﷲِ وَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ﴾وَفِیْھَا ذِکْرُ أَنّھُمْ اسْتَحَبُّوْا الْحَیَاۃَ الدُّنْیَا عَلَی الْآخِرَۃِ۔
فَاِذَا کَانَ الْعُلْمَاءُ ذَکَرُوْا أَنَّھَا نَزَلَتْ فِی عَمَّارِ بْنِ یَاسِرِ رضِیَ اﷲُ عَنْہُ لَمَّا فَتَنَۃُ أَھْلُ مَکَّۃَ ، وَذَکَرُوْا أَنَّ الاِنْسَانَ اِذَا تَکَلَّمَ بِکَلَامِ الشِّرْکِ بِلِسَانِہٖ مَعَ بُغْضِہِ لِذٰلِکَ وَ عَدَاوَۃِ أَھْلِہٖ لٰکِنْ خَوْفًا مِّنْھُمْ فَھُوَ کَافِرٌ بَعَدَ اِیْمَانِہٖ۔‘‘
""بعض لوگ آج کل تم سے اس معاملہ میں بحث وتکرار اور جھگڑا کرتے ہوئے ایک شبہ پیش کرتے ہیں ۔وہ شبہ اور اس کا جواب خوب دل لگا کر پڑھ لیں ۔شبہ پیش کرنے والے بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ ساری باتیں جو آپ لوگ بیان کرتے ہیں بالکل درست ہیں ۔ہم مانتے ہیں کہ آپ لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکا ہی دین ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں ۔آپ کے ساتھ ہم درج ذیل دوباتوں کے سوا تمام باتوں میں اتفاق کرتے ہیں :
 کافروں کے ساتھ دوستی کرنے والوں کو کافر کہنے کے معاملہ میں اور
 ان کے ساتھ قتال کرنے کے معاملہ میں۔
اس کا جواب پیش خدمت ہے :انتہائی تعجب انگیز بات تویہی ہے کہ ایک ایسے شخص پراس شبہ کا جواب مخفی ہے جو اس بات کا اقرار بھی کرتا ہے کہ ہمارا موقف قرآن وسنت اور اللہ اور اس کے رسول کے دین کے مطابق ہے۔جب کوئی شخص صدق دل سے تسلیم کرتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسولﷺکا دین ’’اسلام‘‘برحق دین ہے۔توپھر:

 وہ شخص اس کو کافر کیوں نہیں کہتا ؟جو اس دین کا انکار کرتا ہے ؟اس دین کی طرف دعوت دینے والے اور اس دین کو قائم کرنے والے ،داعی اورمجاہد کو قتل اور گرفتار کیوں کرتا ہے؟

 پھر وہ شخص اس شخص کوکافرکیوں نہیں کہتا ؟جو اپنی فوج اور انتظامیہ کو حکم دیتا ہے کہ ان مجاہدوں اور داعیوں کو گرفتار کرکے قید وبند کی صعوبتوں سے دوچار کردو؟

 پھر وہ اس شخص کو کافر کیوں نہیں کہتا ؟جومشرکوں کے پاس جاکر انہیں برانگیختہ کرتا ہے کہ تم اپنے دین پر ڈٹے رہو، تمہارا دین ومذہب نظریہ ومؤقف بہت ہی بہترین اور خوبصورت ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ وہ مشرکوں اور کافروں کو خالص العقیدہ اہل توحید کے قتل اور ان کے اموال پر قبضہ کرنے )اکاؤنٹس منجمد کرنے(کے لیے ابھارتا ہے؟

 پھر وہ شخص اس شخص کے کافر ہونے کا عقیدہ کیوں نہیں رکھتا ؟حالانکہ وہ گواہی دیتاہے کہ کافروں اور مشرکوں کے پاس جاکر انہیں جس چیز پر برانگیختہ کرتا ہے ۔رسول اکرم جناب محمدﷺنے اس چیز کا انکار کیا ہے ، اس سے روکا ہے اور اس طرز عمل کو شرک قرار دیا ہے ۔علاوہ ازیں اس بات کی گواہی بھی دیتا ہے کہ اہل توحید اور مجاہدین کے جن اعمال واقدامات عقائد ونظریات کو وہ ناپسند کرتا ہے ۔اللہ کادین بہرحال یہی ہے اورمجاہدین اور مؤحدین ہی حقیقت میں دین کے اصل داعی اور نافذ کرنے والے ہیں ؟

یادرکھیے !کوئی کلمہ پڑھنے والانیک مسلمان جب اللہ کے ساتھ شرک کرنے لگ جائے اورموحدین کے مخالف ہوکر مشرکین کا ساتھی بن جائے وہ کافر ہوجاتا ہے اگرچہ وہ بذاتِ خود شرک کا ارتکاب نہ بھی کرے ۔قرآن مجید میں رسول اکرم ﷺکی احادیث مبارکہ میں اوراہل علم کی تالیفات وتصنیفات میں اس بارے میں اتنے دلائل ہیں کہ ان کو احاطہ تحریر میں لانا دشوار ہے۔

یہاں پر بطور مثال (For an Example)میں صرف قرآن مجید کی ایک آیت پیش کرنے پر اکتفا کروں گا ۔یہ وہ آیت ہے کہ تمام اہل علم نے اس کی تفسیر وتشریح بیان فرماتے ہوئے متفقہ طور پریہ بیان کیا ہے کہ آیت واقعتا ایک ایسے شخص کے بارے میں ہے جو پہلے کلمہ پڑھنے والا مسلمان ہو،پھر وہ کافروں اور مشرکوں کے ساتھ جاکر مل جائے اگر وہ ان کی طرح شرک بھی نہ کرے صرف مشرکوں کا ساتھی بن جانے کی بناپر وہ کافر ہوجاتا ہے ۔ایسے شخص پر اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر لفظ ’’کفر ‘‘استعمال فرمایا ہے۔ایسا شخص کسی بھی زمانہ میں ہوکسی بھی علاقہ میں ہو اس پر کافر ہونے کا حکم لگتا ہے ۔اللہ تعالیٰ سورۃ النحل کی آیت :۱۰۶ میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ تعالیٰ سے کفر کرے بجز اس کے جس پر جبر کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر برقرار ہو۔مگر جو کھلے دل سے کفر کرے تو ان لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اورانہی کے لیے بہت بڑا عذاب ہے ‘‘

سورۃ النحل کی مذکورہ بالا آیت سے اگلی آیت :۱۰۷ میں اللہ رب العزت نے ان ایمان لانے کے بعد کفر کرنے والوں کے کفر کا سبب بھی بیان فرمایا ہے۔ان کے کفر کرنے کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دی ۔

علماء کرام نے ذکر فرمایا ہے کہ یہ آیت سیدنا عمار بن یاسر کے بارے میں اس وقت نازل ہوئی جب اہل مکہ نے انہیں طرح طرح کی آزمائشوں اور ابتلاؤں میں مبتلارکھا تھا۔علماء کرام نے اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی واضح کیا ہے کہ کوئی انسان جب اپنی زبان سے شرک اور کفر والی بات نکال دیتا ہے ۔حالانکہ اس انسان کے دل میں کفر اور شرک کی نفرت اور عداوت موجود ہے محض کافروں اور مشرکوں سے ڈرتے ہوئے وہ شرکیہ اورکفریہ بات کہہ ڈالتا ہے تو ایسا شخص بھی ایمان لانے کے بعد کافر ہوجاتا ہے۔""

الرسائل الشخصیہ ، القسم الخامس من مؤلفات الشیخ محمد بن عبدالوہاب:272


((دوستی اور دشمنی کا اسلامی معیار از عبدلحکیم حسان حفظہ اللہ۔
ترجمہ از اعجاز احمد تنویر حفظہ اللہ مدرس جامعۃ الدعوۃ الاسلامیہ، مریدکے))

اب دیکھ لیں کہ قرآن و سنت میں جو کفر کی وجوہات بیان ہو رہی ہیں الٹا ان کو ہی آج کل کفر کے لیے ڈھال بنایا جا رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واللہ المستعان علی ما تصفون۔

ارے کفر کوئی شوقیہ چیز ہے کہ بندہ جان بوجھ کر خوشی سے کرتا ہے ہمیشہ !! کہیں تو اس کا سبب طمع و لالچ سے لیکر حرص و ہوس تک ہوتا ہے اور کہیں ڈر خوف اور اندیشہ ہائے دور دراز ہی ہوتے ہیں۔

اسی لیے برادر یاسر ! خود بھی تحقیق کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عرض مکرر ہے !

اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ۔ آمین
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top