• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یکم مئی مزدوروں کا عالمی دن

عبدالقیوم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 25، 2013
پیغامات
825
ری ایکشن اسکور
433
پوائنٹ
142
حکومت کی ذمہ داری اجیر و مستاجر کے حقوق و فرائض کی تعیین ہے۔ یوں تو اجیر و مستاجر کو اُجرت کے سلسلہ میں معاہدہ اُجرت کی پوری آزادی ہو گی مگر اجیر کو یہ حق ہو گا کہ وہ جو محنت اپنے لیے پسند کرے اختیار کرے اور جس شرط پر چاہے مستاجر سے معاہدہ کرے۔ اسی طرح مستاجر کو یہ حق ہو گا کہ وہ جس مزدور کو چاہے اپنے یہاں کام پر رکھے اور جو اُجرت چاہے مقرر کرے، مگر اس آزادی کے باوجود حکومت چند باتیں اُصولی طور پر طے کرے گی جن کی پابندی دونوں کو لازم ہو گی۔
عبدالقیوم صحافی
 

عبدالقیوم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 25، 2013
پیغامات
825
ری ایکشن اسکور
433
پوائنٹ
142
آج یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دن ہے۔ اس موقع پر نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں مختلف تقریبات، سیمینارزکانفرنسز اور ریلیاں منعقد ہوتی ہیں۔جن میں شکاگو کے محنت کشوں کے ساتھ اظہار یکجہتی سمیت مزدوروں، محنت کشوں کے مسائل کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ مسائل کے حل کا مطالبہ اور محنت کشوں کو ان کے حقوق کی فراہمی کے لئے آواز اٹھائی جا رہی ہے۔
یہ دن 1886میں شکاگو کے مقام پر مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہونے والے احتجاج کا نتیجہ ہے۔ مزدوروں نے اجرت، میڈیکل اور کام کا دورانیہ 8گھنٹے کرنے کا مطالبہ کیا تھا جس کی وجہ سے اس آواز کو دبانے کے لیے ان مظلوموں ، محکوموں اور مجبوروں کو بے پناہ مشکلات سہنی پڑیں۔
اس وجہ اس سے دن کانام یکم مئی رکھا گیا اس لیے اس دن مزدوروں کے عالمی دن کےنام سے یاد کیاجاتا ہے میں یہاں پر سلام مزدور کی اہمیت بیان کروگا اور اس میں چند مزدور صحابہ کرام کا ذ کروگابعض صحابہ کرام رزق حلال کےلیے ہرقسم کی محنت مشقت کرتے تھے۔مختلف پیشوں کے ذریعے اپنی روزی کماتے تھے مثلا حضرت خباب بن ارت لوہار تھے، حضرت عبداللہ بن مسعود چرواہے تھے، حضرت سعدبن ابی وقاص تیر سازتھے، حضرت زبیر بن عوام درزی تھے، حضر ت بلا ل بن رباح گھریلو نوکر تھے، حضر ت سلمان فارسی حجام تھے، حضرت عمر و بن العاص قصائی تھے، حضر ت علی کھیتوں میں مزدوری کرتے تھے، حضرت ابوبکر کپڑا بیچتے تھے۔ خلیفہ بن جانے کے بعد بھی وہ کپڑوں کی گٹھڑی کمر پر لاد کر گھر سے نکلے تو راستہ میں حضرت عمر اور ابو عبیدہ ملے انہوں نے کہا اب آپ یہ کام کیسے کر سکتے ہیں آپ تو اب مسلمانوں کے معاملات کے والی ہیں۔ انہوں نے جواب دیا اپنے بال بچوں کو کہاں سے کھلاؤں ؟تو ان دونوں نے کہا ہم تمہارے لیے روزی (تنخواہ )مقرر کر دیتے ہیں۔ انہوں نے شورٰی میں ان کی تنخواہ کے متعلق فیصلہ کر دیا۔
اس کے علاوہ صحابیات بھی محنت مزدور کرتی تھیں مثلا ازواج مطہرات گھروں میں اُون کاتتی تھیں، کھالوں کی دباغت کرتی تھیں۔ حضرت زینب کھالوں کی دباغت کرتی تھیں۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر جانوروں کی خدمت اور جنگل سے لکڑیاں چن کر لا نے کا کام کرتی تھیں۔ کچھ خواتین کھانا پکا کر فروخت کر نے کا م کرتی تھیں۔ کچھ دایہ کا کام کرتی تھیں۔ کچھ بچوں کا ختنہ کرتی تھیں۔ کچھ خو شبو فروخت کرتیں تھیں کچھ کپڑا بنتی تھیں۔ کچھ زراعت کرتی تھیں۔ اور کچھ بڑھئی کا کام کرتی تھیں۔ حضرت عاآج یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دن ہے۔ اس موقع پر نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں مختلف تقریبات، سیمینارزکانفرنسز اور ریلیاں منعقد ہوتی ہیں۔جن میں شکاگو کے محنت کشوں کے ساتھ اظہار یکجہتی سمیت مزدوروں، محنت کشوں کے مسائل کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ مسائل کے حل کا مطالبہ اور محنت کشوں کو ان کے حقوق کی فراہمی کے لئے آواز اٹھائی جا رہی ہے۔
یہ دن 1886میں شکاگو کے مقام پر مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہونے والے احتجاج کا نتیجہ ہے۔ مزدوروں نے اجرت، میڈیکل اور کام کا دورانیہ 8گھنٹے کرنے کا مطالبہ کیا تھا جس کی وجہ سے اس آواز کو دبانے کے لیے ان مظلوموں ، محکوموں اور مجبوروں کو بے پناہ مشکلات سہنی پڑیں۔
اس وجہ اس سے دن کانام یکم مئی رکھا گیا اس لیے اس دن مزدوروں کے عالمی دن کےنام سے یاد کیاجاتا ہے میں یہاں پر سلام مزدور کی اہمیت بیان کروگا اور اس میں چند مزدور صحابہ کرام کا ذ کروگابعض صحابہ کرام رزق حلال کےلیے ہرقسم کی محنت مشقت کرتے تھے۔مختلف پیشوں کے ذریعے اپنی روزی کماتے تھے مثلا حضرت خباب بن ارت لوہار تھے، حضرت عبداللہ بن مسعود چرواہے تھے، حضرت سعدبن ابی وقاص تیر سازتھے، حضرت زبیر بن عوام درزی تھے، حضر ت بلا ل بن رباح گھریلو نوکر تھے، حضر ت سلمان فارسی حجام تھے، حضرت عمر و بن العاص قصائی تھے، حضر ت علی کھیتوں میں مزدوری کرتے تھے، حضرت ابوبکر کپڑا بیچتے تھے۔ خلیفہ بن جانے کے بعد بھی وہ کپڑوں کی گٹھڑی کمر پر لاد کر گھر سے نکلے تو راستہ میں حضرت عمر اور ابو عبیدہ ملے انہوں نے کہا اب آپ یہ کام کیسے کر سکتے ہیں آپ تو اب مسلمانوں کے معاملات کے والی ہیں۔ انہوں نے جواب دیا اپنے بال بچوں کو کہاں سے کھلاؤں ؟تو ان دونوں نے کہا ہم تمہارے لیے روزی (تنخواہ )مقرر کر دیتے ہیں۔ انہوں نے شورٰی میں ان کی تنخواہ کے متعلق فیصلہ کر دیا۔
اس کے علاوہ صحابیات بھی محنت مزدور کرتی تھیں مثلا ازواج مطہرات گھروں میں اُون کاتتی تھیں، کھالوں کی دباغت کرتی تھیں۔ حضرت زینب کھالوں کی دباغت کرتی تھیں۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر جانوروں کی خدمت اور جنگل سے لکڑیاں چن کر لا نے کا کام کرتی تھیں۔ کچھ خواتین کھانا پکا کر فروخت کر نے کا م کرتی تھیں۔ کچھ دایہ کا کام کرتی تھیں۔ کچھ بچوں کا ختنہ کرتی تھیں۔ کچھ خو شبو فروخت کرتیں تھیں کچھ کپڑا بنتی تھیں۔ کچھ زراعت کرتی تھیں۔ اور کچھ بڑھئی کا کام کرتی تھیں۔ حضرت عائشہ نے زینب بنت حجش زوجہ رسولﷺ کے بارے میں فرمایا۔" وہ اپنی محنت سے کماتیں اور للہ کی راہ میں صدقہ کرتیں تھیں۔
ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء کرام، صحابہ کرام اور صحابیات بھی محنت کر کے ضروریات زندگی حاصل کرتے تھے۔ اسلام نے جہاں محنت کے فضائل بیان کئے وہاں مزدور کے حقوق و فرائض بھی بیان کئے ہیں اور اس توازن کو قائم رکھنے کی ذمہ داری حکومت کی ہے۔
حکومت کی ذمہ داری اجیر و مستاجر کے حقوق و فرائض کی تعیین ہے۔ یوں تو اجیر و مستاجر کو اُجرت کے سلسلہ میں معاہدہ اُجرت کی پوری آزادی ہو گی مگر اجیر کو یہ حق ہو گا کہ وہ جو محنت اپنے لیے پسند کرے اختیار کرے اور جس شرط پر چاہے مستاجر سے معاہدہ کرے۔ اسی طرح مستاجر کو یہ حق ہو گا کہ وہ جس مزدور کو چاہے اپنے یہاں کام پر رکھے اور جو اُجرت چاہے مقرر کرے، مگر اس آزادی کے باوجود حکومت چند باتیں اُصولی طور پر طے کرے گی جن کی پابندی دونوں کو لازم ہو گی۔
مزدور کے حقوق و فرائض
حکومت کی ذمہ داری اجیر و مستاجر کے حقوق و فرائض کی تعیین ہے۔ یوں تو اجیر و مستاجر کو اُجرت کے سلسلہ میں معاہدہ اُجرت کی پوری آزادی ہو گی مگر اجیر کو یہ حق ہو گا کہ وہ جو محنت اپنے لیے پسند کرے اختیار کرے اور جس شرط پر چاہے مستاجر سے معاہدہ کرے۔ اسی طرح مستاجر کو یہ حق ہو گا کہ وہ جس مزدور کو چاہے اپنے یہاں کام پر رکھے اور جو اُجرت چاہے مقرر کرے، مگر اس آزادی کے باوجود حکومت چند باتیں اُصولی طور پر طے کرے گی جن کی پابندی دونوں کو لازم ہو گی۔
(1)ان کو کم از کم اتنی اُجرت دی جائے کہ ان کی ضروریات آسانی کے ساتھ پوری ہوسکیں۔
(٢) ان کے کام کا وقت متعین ہو مگر اس وقت میں بھی ان سے اتنا کام اور ایسا کام نہ لیا جائے جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو اور وہ کام عام حالات میں آدمیوں سے نہ لیا جاتا ہو یا جن کی وجہ سے ان کی صحت اور قوت کار پر جلد برا اثر پڑنے کا اندیشہ ہو۔
(٣) مدت ملازمت میں بیماری کی دیکھ بھال اور علاج کی ذمہ داری مستاجر پر ہو گی۔
(٤) مزدور سے اگر اچانک کوئی غلطی یا نقصان ہو جائے تو اس پر کوئی باز پرس نہیں کی جا سکتی لیکن اگر اس نے قصداً کوئی نقصان کیا ہے تو مستاجرکو یہ حق ہو گا کہ وہ اس سے اس کا تاوان وصول کرے گا اگر وہ تاوان ادا نہ کر سکے تو یہ حکومت کا فرض ہو گا کہ وہ مزدور کی طرف سے خود تاوان ادا کرے۔
(٥) اگر کام کے درمیان میں مزدور کو کوئی حادثہ پیش آ جائے تو اس کی تلافی مستاجر کو کرنی پڑے گی، اس کی کوئی متعین صورت نہیں بتائی جا سکتی۔ اس کی تعیین حالات اور حادثہ کی کیفیت و کمیت کے مطابق ہی متعین ہو گی۔
(٦) اگر مزدور کام میں سستی کرے یا دل نہ لگا ئے تو مستاجر کو اس کی اُجرت میں کمی کر دینے کا حق ہو گا اور اگر اس کا رکھنا اس کے لیے نقصان دہ ہو تو وہ علیحدہ بھی کر سکتا ہے مگر علیحدہ کرنے سے پہلے اس کو سمجھانے بجھانے اور کام کی رغبت پیدا کرنے کی تدبیریں اختیار کرنی ضروری ہوں گی اس لیے کہ ممکن ہے کہ یہ چیز کسی عذر یا بددلی کی وجہ سے ہو۔
(٧) محض نفع کی کمی یا معمولی نقصان کی بناء پر مزدور کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا اس کے لیے ضروری ہو گا کہ یا تو وہ مزدور کو خود اس پر راضی کرے یا مستاجر حکومت کے سامنے اس کو علیحدہ کرنے کی وجہ بیان کر کے اس کے لیے اجازت حاصل کرے۔
حکومت کی ذمہ داریاں
یہ اصول طے کر دینے کے بعد حکومت کا کام ختم نہیں ہوتا بلکہ ان اصولوں پر عمل درآمد بھی ہو رہا ہے یا نہیں اس کی نگرانی کے لیے حکومت ایک "مزدور نگران "محکمہ قائم کرے گی جو ہر وقت اس بات کی نگرانی کرتا رہے گا کہ مزدوروں پر کوئی زیادتی تو نہیں ہو رہی ہے، مزدوروں اور مالکوں میں کوئی کشمکش تو نہیں پیدا ہو رہی ہے۔ اس محکمہ کے متعلق حسب ذیل کا م ہوں گے۔
(١) کوئی مستاجر اجیر پر زیادتی تو نہیں کر رہا ہے یہ زیادتی دو طرح کی ہو سکتی ہے ایک اجرت کی کمی کی دوسرے کام کی زیادتی کی۔ ان دونوں صورتوں میں محکمہ کے ذمہ داروں کا کام یہ ہو گا کہ وہ اس کا دفعیہ کریں۔ امام ابویعلی محتسب کے فرائض کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
جب کو ئی مستاجر اجیر پر( کام کی )زیادتی یا اجرت کی کمی کے سلسلہ میں زیادتی کرے تو یہ زیادتی سے روکے۔
اگر مستاجر اجیر کی شکایت کو غلط قرار دے دے یا اس سے انکار کرے تو اس کا انکار کرنا کافی نہیں بلکہ اس کا انکار اس وقت معتبر ہو گا جب مزدور کے حالات اور دوسرے ذرائع سے اس کا غلط ہونا ثابت ہو جائے۔ وکان الا نکار معتبر ابشواھد حالہ (بحوالہ سابق)مستاجر کا انکار مزدور کے حالات کے اندازے کے بعد معتبر ہو گا۔
(٢) اسی طرح اگر کوئی ا جیر کام میں کوتاہی کرے یا اجرت معاہدہ یا حکومت کے مقرر کردہ معیار سے زیادہ اُجرت مانگے تو اس کو وہ اس سے روکے گا اور اس کو تنبیہ کرے گا۔
اجیر اگر مستاجر کے حق میں کوئی کوتاہی کرے یعنی کام کم کرے یا مقررہ معیار سے اُجرت زیادہ مانگے تو اس کو بھی اس سے روکا جائے گا۔ اگر اس محکمہ کے ذمہ داروں کی تنبیہ اور ہدایت کے بعد بھی وہ باز نہ آئیں یا آپس میں کشمکش کریں تو فوراً یہ معاملہ سول کورٹ کے سپرد کر دیا جائے اور وہ اس بارے میں اپنی صواب دید کے مطابق فیصلہ کرے گی۔
جب آپس میں اختلاف اور کشمکش زیادہ ہو تو یہ معاملہ حکومت کی عدالت کے سپرد ہو گا۔
سول کورٹ فیصلہ کرنے میں اسلام کا یہ مسلمہ اصول پیش نظر رکھے گا۔
لایظلمون ولا یظلمون
نہ وہ خود ظلم کرتے ہیں اور نہ ان پر ظلم کیا جاتا ہے۔
حدیث میں ہے : لاضرر و لا ضرارنہ نقصان اٹھانا صحیح ہے اور نہ نقصان پہنچانا۔ اس کے پیش نظر فقہا ء نے یہ اُصول بنایا ہے الضرر یزال تکلیف اور نقصان کو حتی الامکان دور کیا جائے گا۔ اسی طرح حکومت کے مذکورہ طے کردہ اُصولوں میں سے جس کسی اصول کی بھی مخالفت کوئی فریق کرے گا تو حکومت اس میں مداخلت کر کے اس کا منصفانہ تصفیہ کرے گی۔ وہ تماشائی بن کر دونوں کی کُشتی نہیں دیکھے گی۔
اس محکمہ کے سپرد صرف انہیں مزدوروں کے حقوق کی نگرانی نہیں ہو گی جو کسی کارخانہ یا سرکاری محکمہ میں ملازم ہیں بلکہ ذاتی ملازموں، اہل پیشہ اجیروں، صناعوں، معلموں، طبیبوں اور محنت کش جانوروں کے حقوق کی حفاظت بھی اس کے دائرہ اختیار میں ہو گی۔ امام ابو یعلی نجی ملازموں کے بارے میں لکھتے ہیں :
"اگر کوئی آقا اپنے ملازم یا خادم سے اتنا کام لے جس کو وہ ہمیشہ نہ کر سکے تو پھر مزدوروں کے نگراں کا فرض ہے کہ اس سے وہ آقا کو بطور نصیحت روکے۔ یہ تو اس صورت میں ہے کہ جب نگران خود محسوس کرے اور اگر ملازم خود شکایت کرے تو پھر سختی کے ساتھ ممانعت کرے۔ " خلاصہ کلام یہ کہ محنت و مزدوری کے ذریعہ رزق حلال کمانا اور پیشہ بھی جائز اختیار کرنا دراصل بہت بڑی عبادت کا کام ہے جس طرح نماز عبادت ہے روزہ عبادت ہے اسی طرح یہ بھی عبادت ہے جیسا کہ میں ثابت کر چکی ہوں کہ انبیاء صلحاء سب نے محنت کے ذریعہ ضروریات زندگی حاصل کیں۔ جو لوگ دوسروں کی محنت کی کمائی پر اپنی زندگی گزارتے ہیں وہ خود اپنی نگاہ میں بھی گر جاتے ہیں اور لوگوں کی نگاہ میں بھی گر جاتے ہیں۔
٭٭٭آج یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دن ہے۔ اس موقع پر نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں مختلف تقریبات، سیمینارزکانفرنسز اور ریلیاں منعقد ہوتی ہیں۔جن میں شکاگو کے محنت کشوں کے ساتھ اظہار یکجہتی سمیت مزدوروں، محنت کشوں کے مسائل کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ مسائل کے حل کا مطالبہ اور محنت کشوں کو ان کے حقوق کی فراہمی کے لئے آواز اٹھائی جا رہی ہے۔
یہ دن 1886میں شکاگو کے مقام پر مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہونے والے احتجاج کا نتیجہ ہے۔ مزدوروں نے اجرت، میڈیکل اور کام کا دورانیہ 8گھنٹے کرنے کا مطالبہ کیا تھا جس کی وجہ سے اس آواز کو دبانے کے لیے ان مظلوموں ، محکوموں اور مجبوروں کو بے پناہ مشکلات سہنی پڑیں۔
اس وجہ اس سے دن کانام یکم مئی رکھا گیا اس لیے اس دن مزدوروں کے عالمی دن کےنام سے یاد کیاجاتا ہے میں یہاں پر سلام مزدور کی اہمیت بیان کروگا اور اس میں چند مزدور صحابہ کرام کا ذ کروگابعض صحابہ کرام رزق حلال کےلیے ہرقسم کی محنت مشقت کرتے تھے۔مختلف پیشوں کے ذریعے اپنی روزی کماتے تھے مثلا حضرت خباب بن ارت لوہار تھے، حضرت عبداللہ بن مسعود چرواہے تھے، حضرت سعدبن ابی وقاص تیر سازتھے، حضرت زبیر بن عوام درزی تھے، حضر ت بلا ل بن رباح گھریلو نوکر تھے، حضر ت سلمان فارسی حجام تھے، حضرت عمر و بن العاص قصائی تھے، حضر ت علی کھیتوں میں مزدوری کرتے تھے، حضرت ابوبکر کپڑا بیچتے تھے۔ خلیفہ بن جانے کے بعد بھی وہ کپڑوں کی گٹھڑی کمر پر لاد کر گھر سے نکلے تو راستہ میں حضرت عمر اور ابو عبیدہ ملے انہوں نے کہا اب آپ یہ کام کیسے کر سکتے ہیں آپ تو اب مسلمانوں کے معاملات کے والی ہیں۔ انہوں نے جواب دیا اپنے بال بچوں کو کہاں سے کھلاؤں ؟تو ان دونوں نے کہا ہم تمہارے لیے روزی (تنخواہ )مقرر کر دیتے ہیں۔ انہوں نے شورٰی میں ان کی تنخواہ کے متعلق فیصلہ کر دیا۔
اس کے علاوہ صحابیات بھی محنت مزدور کرتی تھیں مثلا ازواج مطہرات گھروں میں اُون کاتتی تھیں، کھالوں کی دباغت کرتی تھیں۔ حضرت زینب کھالوں کی دباغت کرتی تھیں۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر جانوروں کی خدمت اور جنگل سے لکڑیاں چن کر لا نے کا کام کرتی تھیں۔ کچھ خواتین کھانا پکا کر فروخت کر نے کا م کرتی تھیں۔ کچھ دایہ کا کام کرتی تھیں۔ کچھ بچوں کا ختنہ کرتی تھیں۔ کچھ خو شبو فروخت کرتیں تھیں کچھ کپڑا بنتی تھیں۔ کچھ زراعت کرتی تھیں۔ اور کچھ بڑھئی کا کام کرتی تھیں۔ حضرت عائشہ نے زینب بنت حجش زوجہ رسولﷺ کے بارے میں فرمایا۔" وہ اپنی محنت سے کماتیں اور للہ کی راہ میں صدقہ کرتیں تھیں۔
ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء کرام، صحابہ کرام اور صحابیات بھی محنت کر کے ضروریات زندگی حاصل کرتے تھے۔ اسلام نے جہاں محنت کے فضائل بیان کئے وہاں مزدور کے حقوق و فرائض بھی بیان کئے ہیں اور اس توازن کو قائم رکھنے کی ذمہ داری حکومت کی ہے۔
حکومت کی ذمہ داری اجیر و مستاجر کے حقوق و فرائض کی تعیین ہے۔ یوں تو اجیر و مستاجر کو اُجرت کے سلسلہ میں معاہدہ اُجرت کی پوری آزادی ہو گی مگر اجیر کو یہ حق ہو گا کہ وہ جو محنت اپنے لیے پسند کرے اختیار کرے اور جس شرط پر چاہے مستاجر سے معاہدہ کرے۔ اسی طرح مستاجر کو یہ حق ہو گا کہ وہ جس مزدور کو چاہے اپنے یہاں کام پر رکھے اور جو اُجرت چاہے مقرر کرے، مگر اس آزادی کے باوجود حکومت چند باتیں اُصولی طور پر طے کرے گی جن کی پابندی دونوں کو لازم ہو گی۔
مزدور کے حقوق و فرائض
حکومت کی ذمہ داری اجیر و مستاجر کے حقوق و فرائض کی تعیین ہے۔ یوں تو اجیر و مستاجر کو اُجرت کے سلسلہ میں معاہدہ اُجرت کی پوری آزادی ہو گی مگر اجیر کو یہ حق ہو گا کہ وہ جو محنت اپنے لیے پسند کرے اختیار کرے اور جس شرط پر چاہے مستاجر سے معاہدہ کرے۔ اسی طرح مستاجر کو یہ حق ہو گا کہ وہ جس مزدور کو چاہے اپنے یہاں کام پر رکھے اور جو اُجرت چاہے مقرر کرے، مگر اس آزادی کے باوجود حکومت چند باتیں اُصولی طور پر طے کرے گی جن کی پابندی دونوں کو لازم ہو گی۔
(1)ان کو کم از کم اتنی اُجرت دی جائے کہ ان کی ضروریات آسانی کے ساتھ پوری ہوسکیں۔
(٢) ان کے کام کا وقت متعین ہو مگر اس وقت میں بھی ان سے اتنا کام اور ایسا کام نہ لیا جائے جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو اور وہ کام عام حالات میں آدمیوں سے نہ لیا جاتا ہو یا جن کی وجہ سے ان کی صحت اور قوت کار پر جلد برا اثر پڑنے کا اندیشہ ہو۔
(٣) مدت ملازمت میں بیماری کی دیکھ بھال اور علاج کی ذمہ داری مستاجر پر ہو گی۔
(٤) مزدور سے اگر اچانک کوئی غلطی یا نقصان ہو جائے تو اس پر کوئی باز پرس نہیں کی جا سکتی لیکن اگر اس نے قصداً کوئی نقصان کیا ہے تو مستاجرکو یہ حق ہو گا کہ وہ اس سے اس کا تاوان وصول کرے گا اگر وہ تاوان ادا نہ کر سکے تو یہ حکومت کا فرض ہو گا کہ وہ مزدور کی طرف سے خود تاوان ادا کرے۔
(٥) اگر کام کے درمیان میں مزدور کو کوئی حادثہ پیش آ جائے تو اس کی تلافی مستاجر کو کرنی پڑے گی، اس کی کوئی متعین صورت نہیں بتائی جا سکتی۔ اس کی تعیین حالات اور حادثہ کی کیفیت و کمیت کے مطابق ہی متعین ہو گی۔
(٦) اگر مزدور کام میں سستی کرے یا دل نہ لگا ئے تو مستاجر کو اس کی اُجرت میں کمی کر دینے کا حق ہو گا اور اگر اس کا رکھنا اس کے لیے نقصان دہ ہو تو وہ علیحدہ بھی کر سکتا ہے مگر علیحدہ کرنے سے پہلے اس کو سمجھانے بجھانے اور کام کی رغبت پیدا کرنے کی تدبیریں اختیار کرنی ضروری ہوں گی اس لیے کہ ممکن ہے کہ یہ چیز کسی عذر یا بددلی کی وجہ سے ہو۔
(٧) محض نفع کی کمی یا معمولی نقصان کی بناء پر مزدور کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا اس کے لیے ضروری ہو گا کہ یا تو وہ مزدور کو خود اس پر راضی کرے یا مستاجر حکومت کے سامنے اس کو علیحدہ کرنے کی وجہ بیان کر کے اس کے لیے اجازت حاصل کرے۔
حکومت کی ذمہ داریاں
یہ اصول طے کر دینے کے بعد حکومت کا کام ختم نہیں ہوتا بلکہ ان اصولوں پر عمل درآمد بھی ہو رہا ہے یا نہیں اس کی نگرانی کے لیے حکومت ایک "مزدور نگران "محکمہ قائم کرے گی جو ہر وقت اس بات کی نگرانی کرتا رہے گا کہ مزدوروں پر کوئی زیادتی تو نہیں ہو رہی ہے، مزدوروں اور مالکوں میں کوئی کشمکش تو نہیں پیدا ہو رہی ہے۔ اس محکمہ کے متعلق حسب ذیل کا م ہوں گے۔
(١) کوئی مستاجر اجیر پر زیادتی تو نہیں کر رہا ہے یہ زیادتی دو طرح کی ہو سکتی ہے ایک اجرت کی کمی کی دوسرے کام کی زیادتی کی۔ ان دونوں صورتوں میں محکمہ کے ذمہ داروں کا کام یہ ہو گا کہ وہ اس کا دفعیہ کریں۔ امام ابویعلی محتسب کے فرائض کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
جب کو ئی مستاجر اجیر پر( کام کی )زیادتی یا اجرت کی کمی کے سلسلہ میں زیادتی کرے تو یہ زیادتی سے روکے۔
اگر مستاجر اجیر کی شکایت کو غلط قرار دے دے یا اس سے انکار کرے تو اس کا انکار کرنا کافی نہیں بلکہ اس کا انکار اس وقت معتبر ہو گا جب مزدور کے حالات اور دوسرے ذرائع سے اس کا غلط ہونا ثابت ہو جائے۔ وکان الا نکار معتبر ابشواھد حالہ (بحوالہ سابق)مستاجر کا انکار مزدور کے حالات کے اندازے کے بعد معتبر ہو گا۔
(٢) اسی طرح اگر کوئی ا جیر کام میں کوتاہی کرے یا اجرت معاہدہ یا حکومت کے مقرر کردہ معیار سے زیادہ اُجرت مانگے تو اس کو وہ اس سے روکے گا اور اس کو تنبیہ کرے گا۔
اجیر اگر مستاجر کے حق میں کوئی کوتاہی کرے یعنی کام کم کرے یا مقررہ معیار سے اُجرت زیادہ مانگے تو اس کو بھی اس سے روکا جائے گا۔ اگر اس محکمہ کے ذمہ داروں کی تنبیہ اور ہدایت کے بعد بھی وہ باز نہ آئیں یا آپس میں کشمکش کریں تو فوراً یہ معاملہ سول کورٹ کے سپرد کر دیا جائے اور وہ اس بارے میں اپنی صواب دید کے مطابق فیصلہ کرے گی۔
جب آپس میں اختلاف اور کشمکش زیادہ ہو تو یہ معاملہ حکومت کی عدالت کے سپرد ہو گا۔
سول کورٹ فیصلہ کرنے میں اسلام کا یہ مسلمہ اصول پیش نظر رکھے گا۔
لایظلمون ولا یظلمون
نہ وہ خود ظلم کرتے ہیں اور نہ ان پر ظلم کیا جاتا ہے۔
حدیث میں ہے : لاضرر و لا ضرارنہ نقصان اٹھانا صحیح ہے اور نہ نقصان پہنچانا۔ اس کے پیش نظر فقہا ء نے یہ اُصول بنایا ہے الضرر یزال تکلیف اور نقصان کو حتی الامکان دور کیا جائے گا۔ اسی طرح حکومت کے مذکورہ طے کردہ اُصولوں میں سے جس کسی اصول کی بھی مخالفت کوئی فریق کرے گا تو حکومت اس میں مداخلت کر کے اس کا منصفانہ تصفیہ کرے گی۔ وہ تماشائی بن کر دونوں کی کُشتی نہیں دیکھے گی۔
اس محکمہ کے سپرد صرف انہیں مزدوروں کے حقوق کی نگرانی نہیں ہو گی جو کسی کارخانہ یا سرکاری محکمہ میں ملازم ہیں بلکہ ذاتی ملازموں، اہل پیشہ اجیروں، صناعوں، معلموں، طبیبوں اور محنت کش جانوروں کے حقوق کی حفاظت بھی اس کے دائرہ اختیار میں ہو گی۔ امام ابو یعلی نجی ملازموں کے بارے میں لکھتے ہیں :
"اگر کوئی آقا اپنے ملازم یا خادم سے اتنا کام لے جس کو وہ ہمیشہ نہ کر سکے تو پھر مزدوروں کے نگراں کا فرض ہے کہ اس سے وہ آقا کو بطور نصیحت روکے۔ یہ تو اس صورت میں ہے کہ جب نگران خود محسوس کرے اور اگر ملازم خود شکایت کرے تو پھر سختی کے ساتھ ممانعت کرے۔ " خلاصہ کلام یہ کہ محنت و مزدوری کے ذریعہ رزق حلال کمانا اور پیشہ بھی جائز اختیار کرنا دراصل بہت بڑی عبادت کا کام ہے جس طرح نماز عبادت ہے روزہ عبادت ہے اسی طرح یہ بھی عبادت ہے جیسا کہ میں ثابت کر چکی ہوں کہ انبیاء صلحاء سب نے محنت کے ذریعہ ضروریات زندگی حاصل کیں۔ جو لوگ دوسروں کی محنت کی کمائی پر اپنی زندگی گزارتے ہیں وہ خود اپنی نگاہ میں بھی گر جاتے ہیں اور لوگوں کی نگاہ میں بھی گر جاتے ہیں۔
٭٭٭ئشہ نے زینب بنت حجش زوجہ رسولﷺ کے بارے میں فرمایا۔" وہ اپنی محنت سے کماتیں اور للہ کی راہ میں صدقہ کرتیں تھیں۔
ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء کرام، صحابہ کرام اور صحابیات بھی محنت کر کے ضروریات زندگی حاصل کرتے تھے۔ اسلام نے جہاں محنت کے فضائل بیان کئے وہاں مزدور کے حقوق و فرائض بھی بیان کئے ہیں اور اس توازن کو قائم رکھنے کی ذمہ داری حکومت کی ہے۔
حکومت کی ذمہ داری اجیر و مستاجر کے حقوق و فرائض کی تعیین ہے۔ یوں تو اجیر و مستاجر کو اُجرت کے سلسلہ میں معاہدہ اُجرت کی پوری آزادی ہو گی مگر اجیر کو یہ حق ہو گا کہ وہ جو محنت اپنے لیے پسند کرے اختیار کرے اور جس شرط پر چاہے مستاجر سے معاہدہ کرے۔ اسی طرح مستاجر کو یہ حق ہو گا کہ وہ جس مزدور کو چاہے اپنے یہاں کام پر رکھے اور جو اُجرت چاہے مقرر کرے، مگر اس آزادی کے باوجود حکومت چند باتیں اُصولی طور پر طے کرے گی جن کی پابندی دونوں کو لازم ہو گی۔
مزدور کے حقوق و فرائض
حکومت کی ذمہ داری اجیر و مستاجر کے حقوق و فرائض کی تعیین ہے۔ یوں تو اجیر و مستاجر کو اُجرت کے سلسلہ میں معاہدہ اُجرت کی پوری آزادی ہو گی مگر اجیر کو یہ حق ہو گا کہ وہ جو محنت اپنے لیے پسند کرے اختیار کرے اور جس شرط پر چاہے مستاجر سے معاہدہ کرے۔ اسی طرح مستاجر کو یہ حق ہو گا کہ وہ جس مزدور کو چاہے اپنے یہاں کام پر رکھے اور جو اُجرت چاہے مقرر کرے، مگر اس آزادی کے باوجود حکومت چند باتیں اُصولی طور پر طے کرے گی جن کی پابندی دونوں کو لازم ہو گی۔
(1)ان کو کم از کم اتنی اُجرت دی جائے کہ ان کی ضروریات آسانی کے ساتھ پوری ہوسکیں۔
(٢) ان کے کام کا وقت متعین ہو مگر اس وقت میں بھی ان سے اتنا کام اور ایسا کام نہ لیا جائے جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو اور وہ کام عام حالات میں آدمیوں سے نہ لیا جاتا ہو یا جن کی وجہ سے ان کی صحت اور قوت کار پر جلد برا اثر پڑنے کا اندیشہ ہو۔
(٣) مدت ملازمت میں بیماری کی دیکھ بھال اور علاج کی ذمہ داری مستاجر پر ہو گی۔
(٤) مزدور سے اگر اچانک کوئی غلطی یا نقصان ہو جائے تو اس پر کوئی باز پرس نہیں کی جا سکتی لیکن اگر اس نے قصداً کوئی نقصان کیا ہے تو مستاجرکو یہ حق ہو گا کہ وہ اس سے اس کا تاوان وصول کرے گا اگر وہ تاوان ادا نہ کر سکے تو یہ حکومت کا فرض ہو گا کہ وہ مزدور کی طرف سے خود تاوان ادا کرے۔
(٥) اگر کام کے درمیان میں مزدور کو کوئی حادثہ پیش آ جائے تو اس کی تلافی مستاجر کو کرنی پڑے گی، اس کی کوئی متعین صورت نہیں بتائی جا سکتی۔ اس کی تعیین حالات اور حادثہ کی کیفیت و کمیت کے مطابق ہی متعین ہو گی۔
(٦) اگر مزدور کام میں سستی کرے یا دل نہ لگا ئے تو مستاجر کو اس کی اُجرت میں کمی کر دینے کا حق ہو گا اور اگر اس کا رکھنا اس کے لیے نقصان دہ ہو تو وہ علیحدہ بھی کر سکتا ہے مگر علیحدہ کرنے سے پہلے اس کو سمجھانے بجھانے اور کام کی رغبت پیدا کرنے کی تدبیریں اختیار کرنی ضروری ہوں گی اس لیے کہ ممکن ہے کہ یہ چیز کسی عذر یا بددلی کی وجہ سے ہو۔
(٧) محض نفع کی کمی یا معمولی نقصان کی بناء پر مزدور کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا اس کے لیے ضروری ہو گا کہ یا تو وہ مزدور کو خود اس پر راضی کرے یا مستاجر حکومت کے سامنے اس کو علیحدہ کرنے کی وجہ بیان کر کے اس کے لیے اجازت حاصل کرے۔
حکومت کی ذمہ داریاں
یہ اصول طے کر دینے کے بعد حکومت کا کام ختم نہیں ہوتا بلکہ ان اصولوں پر عمل درآمد بھی ہو رہا ہے یا نہیں اس کی نگرانی کے لیے حکومت ایک "مزدور نگران "محکمہ قائم کرے گی جو ہر وقت اس بات کی نگرانی کرتا رہے گا کہ مزدوروں پر کوئی زیادتی تو نہیں ہو رہی ہے، مزدوروں اور مالکوں میں کوئی کشمکش تو نہیں پیدا ہو رہی ہے۔ اس محکمہ کے متعلق حسب ذیل کا م ہوں گے۔
(١) کوئی مستاجر اجیر پر زیادتی تو نہیں کر رہا ہے یہ زیادتی دو طرح کی ہو سکتی ہے ایک اجرت کی کمی کی دوسرے کام کی زیادتی کی۔ ان دونوں صورتوں میں محکمہ کے ذمہ داروں کا کام یہ ہو گا کہ وہ اس کا دفعیہ کریں۔ امام ابویعلی محتسب کے فرائض کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
جب کو ئی مستاجر اجیر پر( کام کی )زیادتی یا اجرت کی کمی کے سلسلہ میں زیادتی کرے تو یہ زیادتی سے روکے۔
اگر مستاجر اجیر کی شکایت کو غلط قرار دے دے یا اس سے انکار کرے تو اس کا انکار کرنا کافی نہیں بلکہ اس کا انکار اس وقت معتبر ہو گا جب مزدور کے حالات اور دوسرے ذرائع سے اس کا غلط ہونا ثابت ہو جائے۔ وکان الا نکار معتبر ابشواھد حالہ (بحوالہ سابق)مستاجر کا انکار مزدور کے حالات کے اندازے کے بعد معتبر ہو گا۔
(٢) اسی طرح اگر کوئی ا جیر کام میں کوتاہی کرے یا اجرت معاہدہ یا حکومت کے مقرر کردہ معیار سے زیادہ اُجرت مانگے تو اس کو وہ اس سے روکے گا اور اس کو تنبیہ کرے گا۔
اجیر اگر مستاجر کے حق میں کوئی کوتاہی کرے یعنی کام کم کرے یا مقررہ معیار سے اُجرت زیادہ مانگے تو اس کو بھی اس سے روکا جائے گا۔ اگر اس محکمہ کے ذمہ داروں کی تنبیہ اور ہدایت کے بعد بھی وہ باز نہ آئیں یا آپس میں کشمکش کریں تو فوراً یہ معاملہ سول کورٹ کے سپرد کر دیا جائے اور وہ اس بارے میں اپنی صواب دید کے مطابق فیصلہ کرے گی۔
جب آپس میں اختلاف اور کشمکش زیادہ ہو تو یہ معاملہ حکومت کی عدالت کے سپرد ہو گا۔
سول کورٹ فیصلہ کرنے میں اسلام کا یہ مسلمہ اصول پیش نظر رکھے گا۔
لایظلمون ولا یظلمون
نہ وہ خود ظلم کرتے ہیں اور نہ ان پر ظلم کیا جاتا ہے۔
حدیث میں ہے : لاضرر و لا ضرارنہ نقصان اٹھانا صحیح ہے اور نہ نقصان پہنچانا۔ اس کے پیش نظر فقہا ء نے یہ اُصول بنایا ہے الضرر یزال تکلیف اور نقصان کو حتی الامکان دور کیا جائے گا۔ اسی طرح حکومت کے مذکورہ طے کردہ اُصولوں میں سے جس کسی اصول کی بھی مخالفت کوئی فریق کرے گا تو حکومت اس میں مداخلت کر کے اس کا منصفانہ تصفیہ کرے گی۔ وہ تماشائی بن کر دونوں کی کُشتی نہیں دیکھے گی۔
اس محکمہ کے سپرد صرف انہیں مزدوروں کے حقوق کی نگرانی نہیں ہو گی جو کسی کارخانہ یا سرکاری محکمہ میں ملازم ہیں بلکہ ذاتی ملازموں، اہل پیشہ اجیروں، صناعوں، معلموں، طبیبوں اور محنت کش جانوروں کے حقوق کی حفاظت بھی اس کے دائرہ اختیار میں ہو گی۔ امام ابو یعلی نجی ملازموں کے بارے میں لکھتے ہیں :
"اگر کوئی آقا اپنے ملازم یا خادم سے اتنا کام لے جس کو وہ ہمیشہ نہ کر سکے تو پھر مزدوروں کے نگراں کا فرض ہے کہ اس سے وہ آقا کو بطور نصیحت روکے۔ یہ تو اس صورت میں ہے کہ جب نگران خود محسوس کرے اور اگر ملازم خود شکایت کرے تو پھر سختی کے ساتھ ممانعت کرے۔ " خلاصہ کلام یہ کہ محنت و مزدوری کے ذریعہ رزق حلال کمانا اور پیشہ بھی جائز اختیار کرنا دراصل بہت بڑی عبادت کا کام ہے جس طرح نماز عبادت ہے روزہ عبادت ہے اسی طرح یہ بھی عبادت ہے جیسا کہ میں ثابت کر چکی ہوں کہ انبیاء صلحاء سب نے محنت کے ذریعہ ضروریات زندگی حاصل کیں۔ جو لوگ دوسروں کی محنت کی کمائی پر اپنی زندگی گزارتے ہیں وہ خود اپنی نگاہ میں بھی گر جاتے ہیں اور لوگوں کی نگاہ میں بھی گر جاتے ہیں۔
عبدالقیوم صحافی یہ مکمل مضمون ہے
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

پیشہ کے اعتبار سے ایک عام آدمی سے لے کر اسسٹنٹ ڈائریکٹر تک مزدور ہی کہلاتے ہیں۔

پاکستان سے تو پتہ نہیں مگر یہاں پر اگر کوئی چاہے تو لیبر یونین جائن کر سکتا ھے جس پر ہر ہفتہ اس پر فیس ادا کرنی پڑتی ھے اور جاب پر اگر کوئی مشکل درپیش ہو تو یہ اس پر جاب بحال کرنے کے لئے فائٹ کرتے ہیں اگر کورٹ میں بھی جانا پڑے تو سارے اخراجات بھی یہی ادا کرتے ہیں، اور اس کے علاوہ مزید اس کے بہت فائدے ہیں۔ اس کی ایک جھلک یہاں دیکھی جا سکتی ھے جو کل اور آج کی ھے۔

خیال رہے گلف میں لیبر یونین والا کوئی آپشن نہیں اور نہ ہی یہاں کوئی لیبر ڈے ھے، اگر کوئی سٹرئک کرنے کی کوشش کرے تو ڈپورٹ کر دیا جاتا ھے۔

والسلام
 
شمولیت
دسمبر 22، 2013
پیغامات
62
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
62
عبد القیوم بھائی ماشاء اللہ بہت اچھامضمون ہے اور محنت کریں اللہ آپ کو اورکامیابی عطا فرمائے
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
ہمارے ہاں یہ عجیب ٹرینڈ چل نکلا ہے کہ ہر دن کو کسی نہ کسی نام سے منسوب کرو ۔۔۔پھر اس خاص دن کے حوالے سے سیمینارز منعقد کرو ۔۔۔واکز میں شریک ہو۔۔۔آگاہی مہم میں شامل ہو جاؤ اور پھر باقی تمام سال اس اہم سلگتے ہوئے ایشو کو سرد خانے کے حوالے کر کے سکھ چین کی لمبی نیند سو جاؤ۔۔۔۔۔اخبار باقاعدگی سے پڑھنے والے حضرات بخوبی جانتے ہیں کہ تقریباً ہر دن ہی کسی خاص ایشو سے منسوب کیا جا چکا ہے۔۔۔۔کوئی ٹیچر ڈے ہے تو کوئی فادر ڈر ۔۔۔اور تو اور مدر ڈے بھی منایا جاتا ہے ۔۔۔والدین کو اولڈ ہومز میں پھینک کر یہ ایک دن ان کر ساتھ گذار کر اپنے تئیں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ فرائض کی ادائیگی کی جا چکی ۔۔۔۔پانچ فروری کو کشمیر ڈے منایا جاتا ہے ۔۔۔اور پھر بیانات داغے جاتے ہیں ۔۔۔جلسے ہوتے ہیں ۔۔۔۔اور باقی سارا سال بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کے لیے کو ششیں کی جاتی ہیں۔۔۔۔
یکم مئی کو یوم مزدور منایا جاتا ہے۔۔۔۔پورر ملک میں عام تعطیل ہوتی ہے ۔۔۔لیکن جس کے نام یہ دن ہے وہ صبح سے شام کر دیتا ہے ۔۔۔۔پیٹ کی چھٹّی تو نہیں ہوتی ناں!!!

تو کی جانے یار امیراں​
روٹی بندہ کھا جاندی اے​
اسلام میں دن منانے کا کوئی تصّور نہیں ۔۔۔۔ہمارا ہر دن ہی فادر ڈے‘ مدر ڈے‘ ٹیچر ڈے‘ مزدور ڈےاور کشمیر ڈے ہونا چاہیے۔۔۔ہر روز ہی مزدور کو اجرت پوری اور بروقت دی جانی چاہیے ۔۔۔۔اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کا معاوضہ اسے دینا چاہیے۔۔۔۔۔یقین کیجیے!! مزدور کو اس بات سے کوئی مطلب نہیں کہ اس کے نام پر کوئی دن منایا جائے۔۔۔اس کا مفاد اس کی اجرت سے وابستہ ہے!!!​
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج محنت کشوں کا دن منایا جا رہا ہے

یکم مئی مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اس دن کو منانے کا مقصد امریکہ کے شہر شکاگو کے محنت کشوں کی جدوجہد کو یاد کرنا ہے۔

لاہور: یوم مئی کا آغاز 1886ء میں محنت کشوں کی طرف سے آٹھ گھنٹے کے اوقات کار کے مطالبے سے ہوا۔

اس دن امریکا کے محنت کشوں نے مکمل ہڑتال کی۔

تین مئی کو اس سلسلے میں شکاگو میں منعقد مزدوروں کے احتجاجی جلسے پر حملہ ہوا جس میں 4 مزدور ہلاک ہوئے۔ اس بربریت اور ظلم کے خلاف محنت کش احتجاجی مظاہرے کے لئے جمع ہوئے تو پولیس نے مظاہرہ روکنے کے لئے محنت کشوں پر تشدد کیا، اسی دوران بم دھماکے میں ایک پولیس افسر ہلاک ہوا تو پولیس نے مظاہرین پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جس کے نتیجے میں بے شمار مزدور ہلاک ہوئے اور درجنوں کی تعداد میں زخمی ہو گئے۔

اس موقع پر سرمایہ داروں نے مزدور رہنماؤں کو گرفتار کر کے پھانسیاں دیں حالانکہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا کہ وہ اس واقعے میں ملوث ہیں۔

انہوں نے مزدور تحریک کے لئے شہادت دے کر سرمایہ دارانہ نظام کا انصاف اور بربریت واضح کر دی۔ ان رہنماؤں نے کہا تھا کہ ''تم ہمیں جسمانی طور پر ختم کر سکتے ہو لیکن ہماری آواز نہیں دبا سکتے''۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں دنیا بھر میں محنت کشوں نے آٹھ گھنٹے کے اوقات کار حاصل کئے۔

آج پاکستان بھر میں یکم مئی کے حوالے سے مختلف سیاسی، سماجی، مذہبی اور مزدور تنظیموں کے تحت ریلیاں، ورکشاپ، سیمینارز اور جلسے منعقد کئے جائیں گے جس سے مزدور تنظیموں کے رہنما خطاب کریں گے۔

ح
 

عبدالقیوم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 25، 2013
پیغامات
825
ری ایکشن اسکور
433
پوائنٹ
142
یہ دن کوئی منائے جاتے ہیں ان پر مضمون لکھوں گا انشاء اللہ
 
Top