محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
وَلَنْ تَرْضٰى عَنْكَ الْيَہُوْدُ وَلَا النَّصٰرٰى حَتّٰى تَتَّبِعَ مِلَّتَھُمْ۰ۭ قُلْ اِنَّ ھُدَى اللہِ ھُوَالْہُدٰى۰ۭ وَلَىِٕنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَاۗءَھُمْ بَعْدَ الَّذِيْ جَاۗءَكَ مِنَ الْعِلْمِ۰ۙ مَا لَكَ مِنَ اللہِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْرٍ۱۲۰ؔ اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰھُمُ الْكِتٰبَ يَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ يُؤْمِنُوْنَ بِہٖ۰ۭ وَمَنْ يَّكْفُرْ بِہٖ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ۱۲۱ۧ يٰبَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِىَ الَّتِىْٓ اَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَاَنِّىْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ۱۲۲
۱؎ یعنی یہودی اور عیسائی اپنے غلط عقائد پر قانع ہیں ۔ چاہتے ہیں کہ آپ ان کی گمراہیوں کا ساتھ دیں۔ مگر یہ کیسے ممکن ہے ۔ آپ کا اور عام مسلمانوں کا یہ منصب نہیں کہ ان کے خیالات کو کوئی وقعت دیں۔
۲؎ وہ جن کو کتاب دی گئی اور وہ اسے پڑھتے ہیں۔ اس کے مصداق کون لوگ ہیں؟ مفسرین کا اس میں اختلاف ہے ۔ بعض کے خیال میں اس سے مراد مسلمان ہیں کیوں کہ اس کے بعد فرمایا ہے کہ یہی لوگ ا س کتاب پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کے بعد یہ فرمایا کہ جوشخص انکار کرے گا، وہ خائب وخاسر رہے گا۔ ظاہر ہے کہ قرآن حکیم کے سوا کوئی کتاب اس درجہ شائستۂ عمل نہیں کہ اسے چھوڑ کرخسران لازمی طورپر ہو۔ بعض کی رائے ہے کہ ''کتاب'' سے مرادتوریت وانجیل ہے ۔ آیات کا سیاق وسباق یہی بتاتا ہے کہ اس صورت میں مرقومہ بالاشبہات کا جواب یہ ہوگا کہ توراۃ وانجیل گوانسانی وبشری دستبرد سے محفوظ نہیں ۔دونوں محرف ومبدل ہیں، تاہم ان میں اتنی سچائیاں ضرور ہیں کہ یہودی وعیسائی فراخ دلی اورتعمق سے کام لیں توپھر ان میں اورمسلمانوں میں زیادہ اختلاف نہ رہے اور وہ اسلام وایمان کے زیادہ قریب ہوجائیں گے۔ وجہ یہ ہے کہ قرآن اس صداقت مثقلہ اور حق مجرد کا نام ہے جس کا انکار ہراس شخص کے لیے ناممکن ہے جسے ذرا بھی الہامی کتب سے ذوق وعقیدت ہے ۔ اسی وجہ سے قرآن حکیم کہتا ہے کہ اہل کتاب اگر اپنی ہی کتابوں کو بغور پڑھیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اسلام سے دور رہیں۔
{وَلِیٌّ}دوست۔
اور یہودی ۱؎اور نصاریٰ تجھ سے کبھی راضی نہ ہوں گے جب تک تو ان کے دین کے تابع نہ ہو۔ توکہہ کہ ہدایت وہی ہے جو اللہ کی ہدایت ہے اور اگر تو علم پانے کے بعد ان کی خواہشوں کے تابع ہوگا تو اللہ کے ہاتھ سے تیرا کوئی حامی اور مددگار نہ ہوگا۔(۱۲۰)جن کو ہم نے کتاب دی۲؎۔ وہ اس کو جیسے پڑھنا چاہیے پڑھتے ہیں۔ وہی اس پر ایمان لاتے ہیں اور جو اس کے منکر ہیں، وہی خسارہ میں ہیں۔(۱۲۱) اے بنی اسرائیل میرے فضل کو یاد کرو جو میں نے تم پر کیا ہے اور میں نے تمھیں سارے جہان پر فضیلت (بڑائی) دی ہے۔(۱۲۲)
یہود و نصاری مسلمانوں سے کس وقت خوش ہوں گے
۲؎ وہ جن کو کتاب دی گئی اور وہ اسے پڑھتے ہیں۔ اس کے مصداق کون لوگ ہیں؟ مفسرین کا اس میں اختلاف ہے ۔ بعض کے خیال میں اس سے مراد مسلمان ہیں کیوں کہ اس کے بعد فرمایا ہے کہ یہی لوگ ا س کتاب پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کے بعد یہ فرمایا کہ جوشخص انکار کرے گا، وہ خائب وخاسر رہے گا۔ ظاہر ہے کہ قرآن حکیم کے سوا کوئی کتاب اس درجہ شائستۂ عمل نہیں کہ اسے چھوڑ کرخسران لازمی طورپر ہو۔ بعض کی رائے ہے کہ ''کتاب'' سے مرادتوریت وانجیل ہے ۔ آیات کا سیاق وسباق یہی بتاتا ہے کہ اس صورت میں مرقومہ بالاشبہات کا جواب یہ ہوگا کہ توراۃ وانجیل گوانسانی وبشری دستبرد سے محفوظ نہیں ۔دونوں محرف ومبدل ہیں، تاہم ان میں اتنی سچائیاں ضرور ہیں کہ یہودی وعیسائی فراخ دلی اورتعمق سے کام لیں توپھر ان میں اورمسلمانوں میں زیادہ اختلاف نہ رہے اور وہ اسلام وایمان کے زیادہ قریب ہوجائیں گے۔ وجہ یہ ہے کہ قرآن اس صداقت مثقلہ اور حق مجرد کا نام ہے جس کا انکار ہراس شخص کے لیے ناممکن ہے جسے ذرا بھی الہامی کتب سے ذوق وعقیدت ہے ۔ اسی وجہ سے قرآن حکیم کہتا ہے کہ اہل کتاب اگر اپنی ہی کتابوں کو بغور پڑھیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اسلام سے دور رہیں۔
حل لغات