• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یہ حدیث ایک جلیل القدر نبی کے مرتبہ و مقام کہ خلاف ہے،منکرین حدیث کا اعتراض

شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
ایک منکر حدیث سے گفتگو کے دوران مندرجہ ذیل اعتراض سامنے آیا جو کہ ایک عام آدمی کی عقل کو با آسانی گمراہ کر کہ انکار حدیث کے راستہ پر ڈال سکتا ھے۔

"ہم سے ابن بکیر نے حدیث بیان کی ان سے لیث نے حدیث بیان کی انہوں نے یونس سے ، انہوں نے ابن شہاب سے ، انہوں ابو قتادہ کے مولیٰ نافع سے اوران سے ابوہریرہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا: اس وقت تمہاری خوشی اور تمہارا فخر بیان سے باہر ہے کہ عیسیٰ ابن مریم تم میں اتریں ، تم میں رہیں تمہارے معین مدد گار بنےاور تمہارے امام مہدی علیہ السلام کے پیچھے نماز پڑھیں۔. ((صحیح بخاری ، کتاب بدالخلق ، باب نزول عیسیٰ ، ج۴، ص ۵۰۲، طبع بیروت، ج۲، ص ۱۵۳))

ہم سے حرملہ بن یحی نے حدیث بیان کی ان کو ابن وہب نے خبردی ، ان کویونس نے خبردی ، ان سے ابن شہاب نے ،انہوں نے کہا: مجھے ابو قتادہ انصاری کے مولا نافع نے خبردی ، ان سے ابا ہریرہ نے ، کہ انہوں نے کہا کہ رسول خدا صلّی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا: تمہارا اس وقت کیا حال ہوگا جب ابن مریم علیہ السلام تم میں اتریں گے اورتمہارا امام تمہیں میںسے ہوگا ())


ان احادیث میں بیان کیا گیا کہ ایک جلیل القدر نبی ایک امتی کی اقتدا میں نماز ادا کریگا، جس کا مطلب کہ امتی اس نبی سے بھی افضل ہوا۔ اس حدیث سے حضرت عیسی علیہ السلام کی تنقیص ہوتی ہے۔ اس قسم کی موضوع احادیث کو امام بخاری اور مسلم نے روایت کیا اور یہ بھی نا معلوم کر سکے کے کن رافضیوں نے یہ احادیث گھڑی ہیں۔ "

اس اعتراض کا مقصد بخاری و مسلم کی احادیث میں تشکیک پیدا کر کہ سادہ لوہ عوام کو انکار حدیث کی طرف مائل کرنا ہے۔
علماء سے ان احادیث کی صحیح تشریع و تطبیق درکار ہے، برائے مہربانی رہنمائی فرمایئں۔ جزاک اللہ۔

انس@اسلام ڈیفینڈر ۔۔۔۔ اللہ ہمیں دور حاظر کے فتنوں سے محفوظ رکھے، آمین۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
ان احادیث میں بیان کیا گیا کہ ایک جلیل القدر نبی ایک امتی کی اقتدا میں نماز ادا کریگا، جس کا مطلب کہ امتی اس نبی سے بھی افضل ہوا۔ اس حدیث سے حضرت عیسی علیہ السلام کی تنقیص ہوتی ہے۔ اس قسم کی موضوع احادیث کو امام بخاری اور مسلم نے روایت کیا اور یہ بھی نا معلوم کر سکے کے کن رافضیوں نے یہ احادیث گھڑی ہیں۔
اولاً: منکرین حدیث کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ اپنی لا علمی یا ناقص عقل کے بل بوتے پر اللہ کی وحی کا ردّ کر دیتے ہیں۔ حدیث (اللہ کی وحی) سے انہیں خاص دشمنی ہے۔ جو حدیث انہیں سمجھ نہ آئے وہ ان کے نزدیک ضعیف یا موضوع ہوتی ہے خواہ وہ صحیح ترین ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک حدیث وحی نہیں ہے۔ اگر یہ حضرات حدیث کو اللہ کی طرف سے وحی مانتے تو اس طرح کبھی ان کا ردّ نہ کرتے بلکہ علماء کرام سے ان کا مفہوم سمجھنے کی کوشش کرتے۔

حالانکہ لا علمی کا علاج علماء سے پوچھنا ہے۔ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے: « إنما شفاء العي السؤال » ۔۔۔ أبو داؤد کہ ’’لا علمی کا علاج (علماء سے) پوچھنا ہے۔‘‘

قرآن کریم ان لوگوں کی شدید مذمت کی گئی ہے جو لا علمی، جہالت یا ناقص عقل کی بناء اللہ کی کسی بات کا انکار کر دیں۔ فرمانِ باری ہے:
﴿ بل كذبوا بما لم يحيطوا بعلمه ولما يأتهم تأويله كذلك كذب الذين من قبلهم فانظر كيف كان عاقبة الظلمين ۔۔۔ سورة يونس ﴾

كسی حدیث کا مفہوم سمجھ نہ آنے پر سیدھا ضعیف یا موضوع قرار دینا بہت بڑی جسارت ہے۔ صحیح طریقہ کار یہ ہے کہ حدیث کی سند دیکھی جائے، اسی کی بناء پر کسی حدیث کو ضعیف یا موضوع قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگر کسی حدیث کی سند متصل ہو، راوی عادل وضابط ہوں، شذوذ یا علت مخفی نہ ہو (ایسی حدیث کی نسبت نبی کریمﷺ کی طرف حتمی ہوتی ہے) تو اپنی ناقص عقل کے پیچھے لگ کر ایسی حدیث مبارکہ کا انکار انسان کو کفر تک لے جا سکتا ہے۔

اس کی مثال بالکل ایسے ہے جیسے نبی کسی کو کوئی حکم دیں اور وہ آگے سے کہے کہ میں اسے نہیں مانتا کیونکہ یہ عقل کے خلاف ہے، قرآن کے خلاف ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب سے بڑا ظلم ہے، فرمانِ باری ہے: ﴿ ومن أظلم ممن افترى على الله كذبا أو كذب بآيته

الله تعالیٰ سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیں!

ثانیا: افضل شخص کی نماز مفضول کے پیچھے ہو سکتی ہے۔ اس میں افضل شخص کی تنقیص نہیں ہے۔ خاص طور پر جب اس کی کوئی وجہ بھی ہو۔ کیونکہ سنن نسائی کی صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریمﷺ نے سیدنا عبد الرحمٰن بن عوف﷜ کی اقتداء میں نماز پڑھی ہے۔ اسی طرح جلیل القدر صحابہ کرام﷢ مرتبے میں اپنے سے کم تر (مثلاً حجاج بن یوسف) کے پیچھے نماز پڑھ لیتے تھے۔

بالکل اسی طرح امام مہدی کی امامت میں نماز پڑھنے میں سیدنا عیسیٰ﷤ کی کوئی تنقیص نہیں ہے، خاص طور پر جب اس کے پیچھے عظیم حکمتیں بھی ہیں۔
مثلاً
1۔ سیدنا عیسیٰ﷤ کے اس عمل سے یہ واضح ہوگا کہ محمدی شریعت قیامت تک کیلئے ہے۔ عیسیٰ﷤ کوئی نئی شریعت نہیں لائے، وہ محمدی شریعت کے ہی پیروکار ہوں گے، اور اسی کے مطابق باقی زندگی بسر فرمائیں گے۔ اس سے قادیانیوں کا یہ اعتراض بھی ختم ہوجاتا ہے کہ جب نبی کریمﷺ خاتم النبیین ہیں تو پھر سیدنا عیسیٰ﷤ کا قربِ قیامت نزول کیونکر ہوگا؟
2۔ اقامت امام مہدی کیلئے کہی جائے گی تو پھر امامت بھی انہیں ہی کرنی چاہئے۔ جیسا کہ بعض روایات میں اس کی صراحت بھی موجود ہے کہ یہ صبح کی نماز ہوگی، امام نماز کرانے کیلئے مصلّے پر آچکے ہوں گے کہ سیدنا عیسیٰ﷤ نازل ہوں گے۔ امام جب انہیں دیکھیں گے تو پیچھے ہٹنے لگیں گے تو سیدنا عیسیٰ﷤ ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمائیں گے: تَقَدَّمْ فَصَلِّ ؛ فإنها لك أُقِيمَتْ ۔۔۔ صحیح الجامع

ثالثا: بعض روایات میں آتا ہے کہ جب سیدنا عیسیٰ﷤ کا قربِ قیامت آسمان سے نزول ہوگا تو وہ مؤمنوں کی قیادت کریں گے۔ جیسے صحیح مسلم میں ہے: « كيف أنتم إذا نزل ابن مريم فيكم وأمَّكُمْ »
محدثین کرام﷭ نے واضح کیا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ پھر مؤمنوں کی قیادت سیدنا عیسیٰ﷤ فرمائیں گے اور ان کی یہ امامت وقیادت ہمارے دین (کتاب وسنت) کے مطابق ہوگی نہ کہ پرانی عیسوی یا کسی نئی شریعت کے مطابق۔ جیسا کہ بعض روایات میں صراحت ہے: « وأَمَّكُمْ مِنُكْم » سیدنا ابن ابی الذئب فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وأمكم بكتاب ربكم

واللہ تعالیٰ اعلم!
 
Top