• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یہ واقع درست ہے یا نہیں

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
جب مصعب ابن زبیر کا سر اموی خلیفہ عبدالملک کے سامنے لایا گیا تو وہ کوفہ میں اپنے بالا خانے پر بیٹھا ہوا تھا۔ ابن عمیر بھی وہی موجود تھے۔ یہ دیکھ کر وہ کانپ اٹھے۔ عبدالمالک نے اس کا سبب دریافت کیا تو انہوں نے کہا۔ اللہ محفوظ رکھے، میں اسی بالا خانے پر عبید اللہ ابن زیاد کے ساتھ بیٹا تھا کہ حسین ابن علی کا سر اسی طرح لایا گیا۔ اس کے بعد میں مختار ابن ابو عبیدہ کے ساتھ بیٹھا تھا کہ عبیداللہ ابن زیاد کا سر اسی طرح پیش کیا گیا۔ اس کے بعد مصعب ابن زبیر کے ساتھ بیٹھا تھا کہ مختار بن ابو عبیدہ کا سر اسی طرح لایا گیا۔ عبدالمالک یہ سن کر خوفزدہ ہو گیا اور بالاخانے کو منہدم کروا دیا
 
Last edited by a moderator:

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198

جب مصعب ابن زبیر کا سر اموی خلیفہ عبدالملک کے سامنے لایا گیا تو وہ کوفہ میں اپنے بالا خانے پر بیٹھا ہوا تھا۔ ابن عمیر بھی وہی موجود تھے۔ یہ دیکھ کر وہ کانپ اٹھے۔ عبدالمالک نے اس کا سبب دریافت کیا تو انہوں نے کہا۔ اللہ محفوظ رکھے، میں اسی بالا خانے پر عبید اللہ ابن زیاد کے ساتھ بیٹا تھا کہ حسین ابن علی کا سر اسی طرح لایا گیا۔ اس کے بعد میں مختار ابن ابو عبیدہ کے ساتھ بیٹھا تھا کہ عبیداللہ ابن زیاد کا سر اسی طرح پیش کیا گیا۔ اس کے بعد مصعب ابن زبیر کے ساتھ بیٹھا تھا کہ مختار بن ابو عبیدہ کا سر اسی طرح لایا گیا۔ عبدالمالک یہ سن کر خوفزدہ ہو گیا اور بالاخانے کو منہدم کروا دیا
۔
@خضر حیات
@اسحاق سلفی
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
جب مصعب ابن زبیر کا سر اموی خلیفہ عبدالملک کے سامنے لایا گیا تو وہ کوفہ میں اپنے بالا خانے پر بیٹھا ہوا تھا۔ ابن عمیر بھی وہی موجود تھے۔ یہ دیکھ کر وہ کانپ اٹھے۔ عبدالمالک نے اس کا سبب دریافت کیا تو انہوں نے کہا۔ اللہ محفوظ رکھے، میں اسی بالا خانے پر عبید اللہ ابن زیاد کے ساتھ بیٹا تھا کہ حسین ابن علی کا سر اسی طرح لایا گیا۔ اس کے بعد میں مختار ابن ابو عبیدہ کے ساتھ بیٹھا تھا کہ عبیداللہ ابن زیاد کا سر اسی طرح پیش کیا گیا۔ اس کے بعد مصعب ابن زبیر کے ساتھ بیٹھا تھا کہ مختار بن ابو عبیدہ کا سر اسی طرح لایا گیا۔ عبدالمالک یہ سن کر خوفزدہ ہو گیا اور بالاخانے کو منہدم کروا دیا
محترم بھائی !
یہ واقعہ امام ابن عساکر نے تاریخ دمشق ( جلد ۵۸ ص ۲۴۵ ) میں بالاسناد نقل کیا ہے ،( اور مجھے ابھی اس کی سند کا حال معلوم نہیں )
لیکن اس میں بالا خانے کو منہدم کرنے کی بات نہیں ؛
یہ تین طرق سے مروی ہے :
(۱) ويروى عنه يعني عبد الملك بن عمير أنه قال (5) رأيت عجبا رأيت رأس الحسين أتي به حتى وضع بين يدي عبيد الله بن زياد ثم رأيت رأس عبيد الله أتي به حتى وضع بين يدي المختار ثم رأيت رأس المختار أتي به حتى وضع بين يدي مصعب بن الزبير ثم أتي برأس مصعب حتى وضع بين يدي الحجاج

قال ابن عساكر (6) كذا قال والصواب بين يدي عبد الملك

(۲) أخبرنا أبو المظفر بن القشيري أنا أبو سعد الجنزرودي أنا أبو عمرو بن حمدان أنا أبو يعلى نا محمد بن عقبة السدوسي نا علي أبو محمد القرشي نا ابن عبد الرحمن الغنوي عن عبد الملك بن عمير قال رأيت رأس الحسين بن علي أتي به عبيد الله بن زياد ورأيت رأس عبيد الله بن زياد أتي به المختار بن أبي عبيد ورأيت رأس المختار أتي به مصعب بن الزبير ورأيت رأس مصعب أتي به عبد الملك بن مروان قال أبو يعلى ما كان لهؤلاء عمل إلا الرؤوس

(۳) أخبرنا أبو القاسم بن السمرقندي أنا أبو الحسين بن النقور نا عيسى بن علي إملاء نا أبو عبد الله محمد بن مخلد العطار سنة سبع عشرة وثلاثمئة نا أبو حاتم محمد بن إدريس الرازي نا يحيى بن مصعب الكلبي نا أبو بكر بن عياش عن عبد الملك بن عمير قال (1) دخلت القصر بالكوفة فإذا رأس الحسين على ترس بين يدي عبيد الله بن زياد وعبيد الله على السرير (2) ثم دخلت القصر بعد ذلك بحين فرأيت رأس عبيد الله بن زياد على ترس بين يدي المختار والمختار على السرير ثم دخلت القصر بعد ذلك بحين فرأيت رأس المختار بين يدي مصعب ومصعب على السرير ثم دخلت بعد ذلك بحين فرأيت رأس مصعب بن الزبير بين يدي عبد الملك وعبد الملك على السرير ‘‘ انتہی
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
محترم بھائی !
یہ واقعہ امام ابن عساکر نے تاریخ دمشق ( جلد ۵۸ ص ۲۴۵ ) میں بالاسناد نقل کیا ہے ،( اور مجھے ابھی اس کی سند کا حال معلوم نہیں )
لیکن اس میں بالا خانے کو منہدم کرنے کی بات نہیں ؛
یہ تین طرق سے مروی ہے :
(۱) ويروى عنه يعني عبد الملك بن عمير أنه قال (5) رأيت عجبا رأيت رأس الحسين أتي به حتى وضع بين يدي عبيد الله بن زياد ثم رأيت رأس عبيد الله أتي به حتى وضع بين يدي المختار ثم رأيت رأس المختار أتي به حتى وضع بين يدي مصعب بن الزبير ثم أتي برأس مصعب حتى وضع بين يدي الحجاج

قال ابن عساكر (6) كذا قال والصواب بين يدي عبد الملك

(۲) أخبرنا أبو المظفر بن القشيري أنا أبو سعد الجنزرودي أنا أبو عمرو بن حمدان أنا أبو يعلى نا محمد بن عقبة السدوسي نا علي أبو محمد القرشي نا ابن عبد الرحمن الغنوي عن عبد الملك بن عمير قال رأيت رأس الحسين بن علي أتي به عبيد الله بن زياد ورأيت رأس عبيد الله بن زياد أتي به المختار بن أبي عبيد ورأيت رأس المختار أتي به مصعب بن الزبير ورأيت رأس مصعب أتي به عبد الملك بن مروان قال أبو يعلى ما كان لهؤلاء عمل إلا الرؤوس

(۳) أخبرنا أبو القاسم بن السمرقندي أنا أبو الحسين بن النقور نا عيسى بن علي إملاء نا أبو عبد الله محمد بن مخلد العطار سنة سبع عشرة وثلاثمئة نا أبو حاتم محمد بن إدريس الرازي نا يحيى بن مصعب الكلبي نا أبو بكر بن عياش عن عبد الملك بن عمير قال (1) دخلت القصر بالكوفة فإذا رأس الحسين على ترس بين يدي عبيد الله بن زياد وعبيد الله على السرير (2) ثم دخلت القصر بعد ذلك بحين فرأيت رأس عبيد الله بن زياد على ترس بين يدي المختار والمختار على السرير ثم دخلت القصر بعد ذلك بحين فرأيت رأس المختار بين يدي مصعب ومصعب على السرير ثم دخلت بعد ذلك بحين فرأيت رأس مصعب بن الزبير بين يدي عبد الملك وعبد الملك على السرير ‘‘ انتہی
جزاک اللہ خیر
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
@خضر حیات @اسحاق سلفی
عبد الملک بن عمیر راوی بخاری کے بھی راوی ہیں ۔۔۔ ان پر اختلاط کا الزام بھی ہے قبل الموت (الجرح و تعدیل) تو سوال یہ ہے کہ اختلاط سے پہلے کون کون راویوں سے ان کا سماع ہے ؟

مثلا سنن الکبری نسائی کی ایک روایت ہے جس کو ماہنامہ الحدیث میں سند حسن کہا گیا ہے وہ روایت یہ ہے ۔

- أخبرنا قريش بن عبد الرحمن الباوردي قال: حدثنا علي بن الحسن قال: أخبرنا الحسين بن واقد قال: حدثنا عبد الملك بن عمير قال: سمعت ابن الزبير يقول: سمعت عمر بن الخطاب يخطب يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يخطب فقال: «أكرموا أصحابي، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم، ثم يظهر الكذب حتى يشهد الرجل ولا يستشهد، ويحلف الرجل، ولا يستحلف، فمن أحب منكم بحبحة الجنة فليلزم الجماعة، فإن الشيطان مع الواحد وهو من الاثنين أبعد، ولا يخلون رجل بامرأة، فإن ثالثهما الشيطان، ومن سرته حسنته وساءته سيئته فهو مؤمن»

سنن الكبري النسائي سنده حسن

ایک بھائی نے یہ اعتراض کیا ہے کہ عمرو بن عبد الملک اختلاط کا شکار ہو گیا تھا ۔۔۔ اس متعلق رہنمائی کر دیں۔ جزاک اللہ خیرا
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
عبد الملک بن عمیر راوی بخاری کے بھی راوی ہیں ۔۔۔ ان پر اختلاط کا الزام بھی ہے قبل الموت (الجرح و تعدیل) تو سوال یہ ہے کہ اختلاط سے پہلے کون کون راویوں سے ان کا سماع ہے ؟
کتب المختلطین میں اس بات کی وضاحت نہیں ہے کہ کس نے اختلاط سے پہلے سنا اور کس نے بعد میں۔
البتہ صحیحین میں ان سے بیان کردہ زیادہ روایات شعبہ، سفیان الثوری ، ابو عوانۃ الیشکری وغیرہ کبار محدثین کی ہیں۔
اوپر آپ نے جو روایت بیان کی، یہ حسین بن واقد سے ہے، صحیحین میں حسین بن واقد عن عبد الملک بن عمیر سے کوئی بھی روایت نظر نہیں آئی۔
سفیان ثوری اور شعبہ اور حسین بن واقد تینوں ایک ہی طبقے میں ہیں، لیکن حسین بن واقد کا درجہ ان محدثین سے کافی نیچے ہے۔
بلکہ اس حدیث میں عبد الملک کے شاگردوں کے مابین اختلاف بھی ہے، شعبۃ بن الحجاج اور سفیان الثوری وغیرہ نے اس کو اور انداز سے بیان کیا ہے، دارقطنی نے سند کے اختلاف کا ذمہ دار عبد الملک بن عمیر کو ٹھہرایا ہے۔ فرماتے ہیں:
ويُشبِهُ أَن يَكُون الاضطِرابُ فِي هَذا الإِسنادِ مِن عَبدِ المَلِكِ بنِ عُمَيرٍ ، لِكَثرَةِ اختِلاَفِ الثِّقاتِ عَنهُ فِي الإِسنادِ( العلل (ج2ص125)
سنن الكبري النسائي سنده حسن
جنہوں نے ’حسن‘ کا حکم لگایا ہے، ان سے اس کی توجیہ پوچھ لی جائے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
ایک بھائی نے یہ اعتراض کیا ہے کہ عمرو بن عبد الملک اختلاط کا شکار ہو گیا تھا ۔۔۔ اس متعلق رہنمائی کر دیں۔ جزاک اللہ خیرا
سند میں مذکور راوی عبد الملک بن عمیر ہیں۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
سنن الکبری نسائی کی ایک روایت ہے جس کو ماہنامہ الحدیث میں سند حسن کہا گیا ہے وہ روایت یہ ہے ۔
أخبرنا قريش بن عبد الرحمن الباوردي قال: حدثنا علي بن الحسن قال: أخبرنا الحسين بن واقد قال: حدثنا عبد الملك بن عمير قال: سمعت ابن الزبير يقول: سمعت عمر بن الخطاب يخطب
یہ حدیث صحیح ہے ،کئی اسانید سے منقول ہے ،تفصیل کا وقت نہیں
اگر کسی کو ۔۔عبدالملک بن عمیر ۔۔ والی سند پر اعتراض ہے ،تو عبدالملک بن عمیر کے علاوہ دوسری اسناد سے پیش کئے دیتے ہیں :
امام ترمذیؒ نے روایت کیا کہ :
حدثنا احمد بن منيع، حدثنا النضر بن إسماعيل ابو المغيرة، عن محمد بن سوقة، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، قال:‏‏‏‏ خطبنا عمر بالجابية، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ يا ايها الناس، ‏‏‏‏‏‏إني قمت فيكم كمقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فينا، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ " اوصيكم باصحابي، ‏‏‏‏‏‏ثم الذين يلونهم، ‏‏‏‏‏‏ثم الذين يلونهم، ‏‏‏‏‏‏ثم يفشو الكذب، ‏‏‏‏‏‏حتى يحلف الرجل ولا يستحلف ويشهد الشاهد ولا يستشهد، ‏‏‏‏‏‏الا لا يخلون رجل بامراة إلا كان ثالثهما الشيطان، ‏‏‏‏‏‏عليكم بالجماعة وإياكم والفرقة فإن الشيطان مع الواحد وهو من الاثنين ابعد، ‏‏‏‏‏‏من اراد بحبوحة الجنة فليلزم الجماعة، ‏‏‏‏‏‏من سرته حسنته وساءته سيئته فذلك المؤمن "، ‏‏‏‏‏‏قال ابو عيسى:‏‏‏‏ هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه، ‏‏‏‏‏‏وقد رواه ابن المبارك، ‏‏‏‏‏‏عن محمد بن سوقة، ‏‏‏‏‏‏وقد روي هذا الحديث من غير وجه، ‏‏‏‏‏‏عن عمر، ‏‏‏‏‏‏عن النبي صلى الله عليه وسلم.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ مقام جابیہ میں (میرے والد) عمر رضی الله عنہ ہمارے درمیان خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے، انہوں نے کہا: لوگو! میں تمہارے درمیان اسی طرح (خطبہ دینے کے لیے) کھڑا ہوا ہوں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں اپنے صحابہ کی پیروی کی وصیت کرتا ہوں، پھر ان کے بعد آنے والوں (یعنی تابعین) کی پھر ان کے بعد آنے والوں (یعنی تبع تابعین) کی، پھر جھوٹ عام ہو جائے گا، یہاں تک کہ قسم کھلائے بغیر آدمی قسم کھائے گا اور گواہ گواہی طلب کیے جانے سے پہلے ہی گواہی دے گا، خبردار! جب بھی کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ خلوت میں ہوتا ہے تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے، تم لوگ جماعت کو لازم پکڑو اور پارٹی بندی سے بچو، کیونکہ شیطان اکیلے آدمی کے ساتھ رہتا ہے، دو کے ساتھ اس کا رہنا نسبۃً زیادہ دور کی بات ہے، جو شخص جنت کے درمیانی حصہ میں جانا چاہتا ہو وہ جماعت سے لازمی طور پر جڑا رہے اور جسے اپنی نیکی سے خوشی ملے اور گناہ سے غم لاحق ہو حقیقت میں وہی مومن ہے“۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- اسے ابن مبارک نے بھی محمد بن سوقہ سے روایت کیا ہے، ۳- یہ حدیث کئی سندوں سے عمر کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آئی ہے۔

سنن الترمذی 2165 ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ۲۷ (۲۳۶۳) (والنسائي في الکبری:
https://archive.org/stream/waq51186/snk08#page/n286
و مسند احمد (۱/۱۸، ۲۶) (تحفة الأشراف: ۱۰۵۳۰)

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2363)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور امام حمیدیؒ نے روایت کیا کہ :

حدثنا الحميدي، ثنا سفيان، عن ابن أبي لبيد، عن ابن سليمان بن يسار، عن أبيه عن عمر بن الخطاب أنه خطب للناس بالجابية فقال: قام فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم كقيامي فيكم فقال: «أكرموا أصحابي، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم، ثم يظهر الكذب حتى يشهد الرجل ولم يستشهد، ويحلف ولم يستحلف، ألا لا يخلون رجل بامرأة فإن ثالثهما الشيطان، ألا ومن سرته بحبحة الجنة فليلزم الجماعة فإن الشيطان مع الفذ وهو من الاثنين أبعد، ألا ومن سرته حسنته وساءته سيئته فهو مؤمن»
https://archive.org/stream/MusnadHumaidi/Musnad Humaidi#page/n31
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
جزاک اللہ خیرا محترم شیوخ
اللہ آپ دونوں کے علم میں مزید اضافہ فرمائے۔ آمین۔

شیخ @اسحاق سلفی
یہ حدیث صحیح ہے
کیا یہ حدیث شاہد کی بناء پر صحیح ہے؟ کیونکہ ماہنامہ الحدیث میں ایک دوسری جگہ اس حدیث پر حکم لگاتے ہوئے لکھا ہے " سندہ حسن وھو صحیح بالشواھد "
اس متعلق تھوڑا عرض کر دیں۔
جزاک اللہ خیرا
 
Top