• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یہ ہوتا ہے انصاف ! ’’قانون کا بول بالا ‘‘ سعودی شہزادے کا سر قلم کر دیا گیا ۔۔۔

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
یہ ہوتا ہے انصاف !



سعودی عرب کا دارالحکومت الریاض ،شاہی خاندان کا چشم و چراغ شہزادہ ترکی بن سعود الکبیر ،بادشاہ وقت کا بھتیجا،شباب کباب اور دھن دولت کے نشے میں اپنے ہی دوست عادل المحیمید کے قتل کا مرتکب ہوتا ہے ، پولیس انہیں گرفتار کرتی ہے ،عدالت میں مقدمہ چلتا ہے ،عدالت پوری آزادی سے اپنی کارروائی مکمل کرتی ہے ترکی بن سعود الکبیر قصاص کے طور پر سزائے موت کا حقدار ٹھرتا ہے ، عدالت پر کوئی دباؤ ہوتا ہے نہ جج کا قلم و ضمیر خریدنے کی کوئی کوشش، شہزادے کو بیرون ملک فرار کرانے کی کوئی ترکیب سوجھی اور سوچی جاتی ہے نہ ہی منصف کو اوپر سے کوئی فون آتا ہے ، شہزادے کو قصاصا 18 اکتوبر 2016 کو قتل کیا جاتا ہے ، یہ ہوتا ہے انصاف ! یہ ہوتا ہے عدل !
ایک ہماری بھی عدالتیں ہیں 19 سال تک بے گناہ جیل کی کال کوٹھری میں پڑے پڑے موت کے آگے زندگی ہارنے والا مظھر حسین اپنی موت کے ڈھائی سال بعد جاکر سپریم کورٹ سے اپنا کیس جیت جاتا ہے ، شاہ زیب قتل کیس میں جج کو اسلام آباد سے کس کس کا فون نہیں آتا کہ قاتل شاہ رخ جتوئی اپنا بچہ ہے خیال رکھنا ، ڈالر گرل ایان علی کا کیس بھی قوم نے دیکھا ملزم ہائی پروفائل ہو تو پورے پروٹوکول کے ساتھ ملک سے باہر فرار کرانے کا پورا بندوبست ہوتا ہے!!!

فردوس جمال
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
اور شہزادے کا سر قلم ہو گیا

...
زلزلے نے زمین کو جو ہلایا تو حکمران چونک اٹھا ، ہلکا سا اضطراب ، کچھ برہمی چہرے پر آئی ، کوڑا اٹھایا اور زمین پر دے مارا - اک سوال لبوں سے آزاد ہوا
"کیا میں تیرے اوپر انصاف نہیں کرتا ؟ " -
سوال کیا تھا جیسے کوئی مجرب دوا کہ دلوں کو سکوں دے دے - زمین ساکت ہو گئی - سنا ہے پھر سیدنا عمر کے دور میں کبھی مدینے میں زلزلہ نہیں آیا -
کابینہ کا اجلاس جاری تھا ، اور باہر جرمنی کے طیاروں کی شدید بمباری بھی ، اضطراب کے تاثرات ہر چہرے پر نمایاں تھے ، آخر ایک رکن نے وزیر اعظم چرچل کو مخاطب کیا اور خوف کا اظہار کیا ، لندن کی تباہی کی خبر سنائی - چرچل نے ہولے سے ایک ہی سوال کیا " کیا لندن کی عدالتوں میں انصاف ہو رہا ہے ؟ "
جواب یہی تھا کہ جی ہاں ایسا ہی ہے ...
" تو پھر دشمن لندن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا "
جی ہاں ازل سے قدرت کا قانون ہے کہ کفر کی حکومت کو گوارہ کر لیا جاتا ہے ، لیکن ظلم کی حکومت کو تباہی مقدر ہے
کل شاہی خاندان نے اضطراب میں دن تو گزارا ، کہ ان کا جواں بچہ دنیا سے گذر گیا لیکن انصاف کا سر بلند کر دیا - جلاد نے اس کا سر قلم کیا تو اس کی ماں بھی تڑپی ہو گی لیکن انصاف نے اس ماں کے آنسو پوچھنے تھے کہ جس کے بیٹے کو اس نے قتل کیا -
وہ شاہ سلمان ، بادشاہ سعودی عرب کا بھتیجا تھا ، ان کا خون تھا ...لیکن اس نے ایک بے گناہ کو قتل کیا تھا - معاملہ عدالت میں گیا اور جرم ثابت ہو گیا ، مجرم کے لیے ممکن ہے سفارشیں بھی آی ہوں ، لمبی چوڑی دیت کی بھی پیشکش ہوئی ہو ، لیکن سب بے کار رہا اور کل شاہی خانداں کے اس چشم و چراغ کا سر قلم کر دیا گیا

تاریخ سے بے رحم قصہ گو کوئی نہیں ، کہ جس کے سینے میں دل ہے نہ جذبات - اور میں تاریخ کا طالب علم ، کبھی یوں بھی سوچتا تھا کہ سعودی خاندان کتنی دیر تک نا موافق ہواؤں کے سامنے کھڑا رہ سکے گا ، خاندانی حکومت کی طبعی عمر تو پوری ہونے کو ہے - شاہ سلمان مجھے ہمیشہ اورنگ زیب لگے - آخر شب کے چراغ ، کہ جو بجھنے سے پہلے خوب تیز لو دیتا ہو اور پھر اسی تیز لو کے بیچ جل بھجتا ہو ... میں دل مسوس کے رہ جاتا کہ تاریخ کے ورق ایک کے بعد ایک الٹتے جاتے ہیں اور ہم بے بس تماشائی محض کہ جو قطار اندر قطار کھڑے اپنے اپنے حصے کی "یادوں کا عذاب" دیکھتے ہیں

لیکن آج میرے دل میں امید کا ایک چراغ روشن ہو گیا ہے ، مجھے لگا کہ جہاں انصاف ابھی مرا نہیں ، جہاں شہزادے بھی جرم کریں تو سولی لٹک سکتے ہیں ، اس دیس کو ابھی زوال نہیں ، وہاں ابھی بہاریں رقص کریں گی ، ابھی کچھ دن اور وہاں کے باسی چین کی نیند سو سکیں گے ، ابھی وہاں کی کسی فصل گل کو اندیشہ زوال نہیں ...کہ انصاف کی اس سے بڑی مثال کیا ہو گی ؟ -

لیکی اس کے ساتھ ساتھ میں کچھ دکھی بھی ہوں - میں اس ملک کا باسی ہوں کہ جس پر ایک دانائے راز کا یہ قول صادق آتا ہے کہ جس نے ایک بار فرمایا تھا کہ

" تم سے پہلے قومیں اس لیے تباہ ہو گئیں کہ ان کے بااثر جرائم کرتے تو عافیت میں رہتے ، اور کمزور ماخوذ ہوتے "

جی ہاں یہ الفاظ دنیا کے سب سے سچے انسان کے تھے ، ہمارے نبی آخر کے - اور آپ کو شاہ زیب کا کراچی میں قتل یاد ہو گا ، وہ بھی ایک غریب کا بچہ تھا ، اور قاتل ایک شاہ زادہ - جی ہاں اس قاتل کا نام شاہ رخ تھا ، بادشاہ کا چہرہ - یہ بادشاہوں کی وہ چھوٹی چھوٹی سی نسل ہے جو ہر اسمبلی کے حلقے میں پائی جاتی ہے ، تو انصاف تب بھی خوب ہوا تھا ..کہ مظلوم مقتول کی ماں یہ کہہ کے اپنا کیس عدالت سے اٹھا لے گئی کہ "میری جوان بچیاں ہے مرنے والا تو مر گیا "

آپ کو بھول گیا ، یاد رکھیں بھی تو کیا کیا ؟...لاھور کے کمشنر صاحب کے بیٹے نے شغل ہی شغل میں شاہ عالمی کے ایک تاجر کا اکلوتا بچہ مار دیا - میں اس روز بہت دکھی تھا ، علم غیب نہیں لیکن میں نے اسی روز اپنی اہلیہ سے کھا دیکھنا اک روز یہ لڑکا بری ہو جائے گا ...اور پھر میری بات ہی پوری ہوئی ...شاہ سلمان بہت سادہ ہیں ، ان کو چاہیے تھا کہ عارضی طور پر ہی سہی
عدالت ہمارے لاھور میں سجاتے ،
مقتول کی بہنوں کو یہاں لا بساتے ،
پولیس ہماری ہوتی ، قانون ہمارا
....کچھ ہی روز میں لڑکے کی ماں خود عدالت میں پیش ہوتی ....اور بول اٹھتی
"جج صاحب میں نے معاف کیا ، میرا بیٹا تو مرنا ہی تھا ، کسی اور کا کیوں پھانسی چڑھے ....اور جج صاحب ایک اور بات میری جوان بچیاں بھی ہیں اور مرنے والا تو مر گیا "

................ابوبکرقدوسی
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
آج کے دور میں انصاف کی سنہری داستان :

غلام نبی مدنی

کہانی 13 دسمبر 2012ء سے شروع ہوتی ہے۔ عیش و عشرت اور ناز و نعم میں پلا سعودی شاہی خاندان کا نوجوان شہزادہ اپنے دوستوں کے ساتھ سعودی عرب کے دارالخلافہ ریاض کے شمال میں واقع سیاحتی مقام ”ثمامہ“ کی طرف جاتا ہے۔ شہزادے کی گاڑی کے ساتھ اس کے دوستوں کی دوگاڑیاں بھی تھیں۔ ایک گاڑی میں شہزادے کا دوست عادل المحمید تھا۔ ثمامہ کے سیاحتی مقام پر اسلحہ سے لیس چند نوجوانوں میں جھگڑا چل رہا تھا، جن میں اسلحہ کا بلیک ڈیلر حداد نامی شخص بھی تھا۔ شہزادے کے دوست صورتحال کا اندازہ کرنے گاڑی سے نیچے اترتے ہیں۔ اچانک زبردست فائرنگ شروع ہو جاتی ہے۔ نوجوان شہزادے نے بھی اپنی پسٹل سے اندھا دھند فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں ایک گولی شہزادے کے دوست عادل المحمید کو جا لگی، جو بعد میں عادل کے پیچھے کھڑے شہزادے کے دوسرے دوست عبدالرحمن التمیمی کو بھی لگی۔ نتیجتا شہزادہ کا دوست عادل موقع پر جاں بحق ہوگیا اور دوسرا دوست بری طرح زخمی ہوگیا۔ پولیس موقع پر پہنچتی ہے، شہزادے سمیت وہاں موجود لوگوں کو گرفتار کیا جاتا ہے۔ اس دوران شہزادے کو پتہ چلتا ہے کہ اس کا دوست عادل اس کی گولی سے مارا گیا تو وہ سخت صدمے سے دوچار ہوتا ہے۔ پولیس کی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ شہزادہ اس وقت نشے کی حالت میں تھا۔ معاملہ عدالت میں جاتا ہے جہاں کیس کا بھرپور جائزہ لیا جاتا ہے اور جرم ثابت ہونے پر شہزادے کو عادل المحمید نامی شخص کے قتل کے جرم میں قصاصا قتل کی سزا سنادی جاتی ہے۔


مقتول نوجوان عادل المحمید
شہزادے کے اقرباء کی طرف سے مقتول کے لواحقین کو منہ مانگی دیت دینے کی آفر کی جاتی ہے۔ شہزادے کی جان خلاصی کے لیے ہر طرح کی کوششیں اور منتیں کی جاتی ہیں، یہاں تک کہ ریاض کے گورنر امیر فیصل بن بندر بن عبدالعزیز بھی مقتول کے لواحقین سے سفارش کرتے ہیں، لیکن مقتول کے والد قصاص پر قائم رہتے ہیں۔ بالآخر 18 اکتوبر 2016ء کو کہانی ختم ہونے لگتی ہے۔ 18 اکتوبر شہزادے کی زندگی کا آخری دن ہوتا ہے۔ آج کے دن شہزادے کو قصاص میں قتل ہونا ہے۔ آخری دن کے عینی شاہد ڈاکٹر محمد المصلوخی کے مطابق تہجد کے وقت شہزادے کو جیل سے نکالا جاتا ہے۔ شہزادہ تہجد کی نماز ادا کرتا ہے، پھر فجر کی نماز تک قرآن کی تلاوت کرتا ہے۔ صبح سات بجے جیلر دوبارہ شہزادے کو لے جایا جاتا ہے۔ شہزادہ اپنے ہاتھ سے کوئی وصیت نہیں لکھتا، بلکہ کسی کو اپنی وصیت لکھواتا ہے۔ دن 11 بجے شہزادے کو غسل کرا کر قصاص والے میدان کی طرف لےجایا جاتا ہے۔ جہاں شاہی خاندان کےسینکڑوں معزز لوگ اور دیگر حکومتی شخصیات شہزادے کی سفارش کے لیے اربوں ریال دیت دینے کے لیے تیار کھڑے تھے۔


شہزادہ ترکی بن سعود
دوسری طرف مقتول عادل کے والد اور لواحقین بھی آج انصاف کے نافذ ہونے کے منتظر تھے۔ یہاں تک کہ ظہر کا وقت ہو جاتا ہے، شہزادے سمیت سارے لوگ ظہر کی نماز ادا کرتے ہیں، نماز کے بعد ریاض کےگورنر امیر فیصل بذات خود شہزادے کی سفارش کے لیے مقتول عادل کے والد کے پاس جاتے ہیں، مگر مقتول کے والد گورنر کی درخواست کو ٹھکرا دیتے ہیں اور شریعت کا مطالبہ قصاص برقرار رکھتے ہیں۔ شام 4 بج کر 13 منٹ پر جلاد میدان میں آتا ہے اور مقتول عادل کے والد کے سامنے اللہ کے حکم (قصاص) کو نافذ کر دیا جاتا ہے۔ اس دوران مجمعے میں شہزادے کے والد کی زوردار چیخ سنائی دیتی ہے اور پھرمجمع پر خاموشی طاری ہوجاتی ہے۔

قصاص میں قتل ہونے والے سعودی شہزادے ترکی بن سعود کی اس کہانی کے بعد چودہ سو سال پیچھے لوٹیے، جہاں انصاف کی ایسی ہی داستان رقم کی گئی تھی۔ قریش ایسے معزز خاندان کی معززخاتون پر چوری کا الزام ہے۔ مقدمہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے دربار میں پیش کیا جاتا ہے۔ چوری ثابت ہونے پر خدا کی مقررکردہ ”ہاتھ کاٹنے کی سزا“ سنائی جاتی ہے۔ اس دوران خاتون کے خاندان نے سفارش کے لیے تگ و دو شروع کی کہ رسول خدا کے سامنے کون سفارش کرسکتاہے، لوگوں نے صحابی رسول اسامہ بن زید کا نام پیش کیا، چنانچہ اسامہ کو سفارش پر مجبور کیا گیا، اسامہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سفارش کرتے ہیں، آپ یہ سن کر غضبناک ہوتے اور فرماتے ہیں ”کیا تم اللہ کی بیان کردہ حدود میں مجھ سے سفارش کرتے ہو؟“ پھر منبر پر کھڑے ہوکر وہ سنہری الفاظ ارشادہ فرمائےجو قیامت تک ظلم کو مٹانے کے لیے بہترین اسوہ لیے ہوئے ہیں۔ فرمایا ”تم سے پہلی قومیں اس لیے ہلاک ہوئیں کہ ان میں اگر کوئی معزز چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا اور جب کوئی کمزور چوری میں پکڑا جاتا اس کو سزادی جاتی۔ خدا کی قسم اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دوں گا.“ (بخاری ومسلم)۔چنانچہ اس خاتون پر حدنافذ کی گئی۔

عدل وانصاف کی ان بےنظیر مثالوں کے بعد ہمارے عدالتی سسٹم پر غور کیجیے، جہاں 19 سال تک بےگناہ مظہر حسین کو قید میں رکھ کر مار دیا جاتا ہے، اس کی بےگناہی کا فیصلہ اس کے مرنے کے بعد سنایا جاتا ہے۔ ریمنڈڈیوس ایسے قاتل کو راتوں رات بچا کر رہا کروا دیا جاتا ہے۔ شاہ زیب قتل کیس میں جج کو فون کرکے کہا جاتا ہے کہ شاہ رخ جتوئی کا خیال کرنا اپنا بچہ ہے۔ پھر لواحقین کو مجبور کر کے قاتل شاہ رخ کو معاف کروا لیا جاتا ہے۔ ماڈل ڈالر گرل ایان علی کو رنگے ہاتھوں منی لانڈرنگ کرتے گرفتار کیا جاتا ہے، گرفتار کرنے والے افسر کو قتل کر دیا جاتا ہے، پھر مجرم ایان علی کو بچانے کے لیے سابق صدر سمیت بڑی بڑی حکومتی شخصیات اور سیاستدان سامنے آ جاتے ہیں، ملزمہ ایان علی رہا ہو جاتی ہے لیکن مقتول افسر کو انصاف نہیں مل پاتا۔ لال مسجد میں مظلوموں کا خون بہانے والے، امریکا کو اڈے دے کر قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں میں ہزاروں لوگوں کو مروانے والے اور قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی کو بیچنے والے آمر پرویز مشرف ایسے ظالم کے خلاف آج تک ہمار ا نظام عدل سوائے بیان اور پیشیاں دینے کے کچھ نہ کرسکا۔ لاپتہ کیے جانے والے افراد، کراچی میں ٹارگٹ کلنگ میں مارے جانے والے مظلوموں کے لواحقین آج تک انصاف کی بھیک مانگتے پھر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں انصاف کی اسی حالت کو دیکھ کر مظلوم لوگ پولیس اور عدالت کا نام سن کر خوف کھاتے ہیں۔ جب انصاف کا یہ عالم ہو تو معاشرہ کیسے پرامن ہو سکتا ہے؟ دہشت گردی، کرپشن، چوری، ڈکیتی اور ٹارگٹ کلنگ ایسے جرائم کیسے رک سکتے ہیں؟ شاہی خاندان کا شہزادہ ترکی بن سعود وقت کے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز کا بھتیجا تھا، جس کے عزیز واقارب نہ صرف حکومتی عہدے دار ہیں بلکہ دنیا کے امیر ترین لوگ ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود انصاف کی راہ میں نہ کوئی بادشاہ رکاوٹ بنتا ہے، نہ ان کی دولت انصاف کا راستہ روکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب دنیا کے پرامن ملکوں میں سے ایک ہے، جہاں قتل و غارت گری، چوری ڈکیتی، کرپشن اور رشوت ایسے جرائم کا تصور تک نہیں ہے۔ ایک عام آدمی وقت کے بادشاہ کو عدالت میں کھڑا کر سکتا ہے۔ خود سعودی بادشاہ نے عوام کو اس کا یقین دلایا۔ جب انصاف کا یہ عالم ہو تو یقینا قومیں ترقی کرتی ہیں اور معاشرے پرامن رہتے ہیں۔ اگر ہم ترقی کرنا چاہتے اور ملک کو پرامن بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے نظام ِانصاف کو آزاد کروانا ہوگا اور خدا کی مقررکردہ حدود کو بغیر کسی دباؤ کے نافذ کرناہوگا!

http://daleel.pk/2016/10/20/12207
 
Top