اور شہزادے کا سر قلم ہو گیا
...
زلزلے نے زمین کو جو ہلایا تو حکمران چونک اٹھا ، ہلکا سا اضطراب ، کچھ برہمی چہرے پر آئی ، کوڑا اٹھایا اور زمین پر دے مارا - اک سوال لبوں سے آزاد ہوا
"کیا میں تیرے اوپر انصاف نہیں کرتا ؟ " -
سوال کیا تھا جیسے کوئی مجرب دوا کہ دلوں کو سکوں دے دے - زمین ساکت ہو گئی - سنا ہے پھر سیدنا عمر کے دور میں کبھی مدینے میں زلزلہ نہیں آیا -
کابینہ کا اجلاس جاری تھا ، اور باہر جرمنی کے طیاروں کی شدید بمباری بھی ، اضطراب کے تاثرات ہر چہرے پر نمایاں تھے ، آخر ایک رکن نے وزیر اعظم چرچل کو مخاطب کیا اور خوف کا اظہار کیا ، لندن کی تباہی کی خبر سنائی - چرچل نے ہولے سے ایک ہی سوال کیا " کیا لندن کی عدالتوں میں انصاف ہو رہا ہے ؟ "
جواب یہی تھا کہ جی ہاں ایسا ہی ہے ...
" تو پھر دشمن لندن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا "
جی ہاں ازل سے قدرت کا قانون ہے کہ کفر کی حکومت کو گوارہ کر لیا جاتا ہے ، لیکن ظلم کی حکومت کو تباہی مقدر ہے
کل شاہی خاندان نے اضطراب میں دن تو گزارا ، کہ ان کا جواں بچہ دنیا سے گذر گیا لیکن انصاف کا سر بلند کر دیا - جلاد نے اس کا سر قلم کیا تو اس کی ماں بھی تڑپی ہو گی لیکن انصاف نے اس ماں کے آنسو پوچھنے تھے کہ جس کے بیٹے کو اس نے قتل کیا -
وہ شاہ سلمان ، بادشاہ سعودی عرب کا بھتیجا تھا ، ان کا خون تھا ...لیکن اس نے ایک بے گناہ کو قتل کیا تھا - معاملہ عدالت میں گیا اور جرم ثابت ہو گیا ، مجرم کے لیے ممکن ہے سفارشیں بھی آی ہوں ، لمبی چوڑی دیت کی بھی پیشکش ہوئی ہو ، لیکن سب بے کار رہا اور کل شاہی خانداں کے اس چشم و چراغ کا سر قلم کر دیا گیا
تاریخ سے بے رحم قصہ گو کوئی نہیں ، کہ جس کے سینے میں دل ہے نہ جذبات - اور میں تاریخ کا طالب علم ، کبھی یوں بھی سوچتا تھا کہ سعودی خاندان کتنی دیر تک نا موافق ہواؤں کے سامنے کھڑا رہ سکے گا ، خاندانی حکومت کی طبعی عمر تو پوری ہونے کو ہے - شاہ سلمان مجھے ہمیشہ اورنگ زیب لگے - آخر شب کے چراغ ، کہ جو بجھنے سے پہلے خوب تیز لو دیتا ہو اور پھر اسی تیز لو کے بیچ جل بھجتا ہو ... میں دل مسوس کے رہ جاتا کہ تاریخ کے ورق ایک کے بعد ایک الٹتے جاتے ہیں اور ہم بے بس تماشائی محض کہ جو قطار اندر قطار کھڑے اپنے اپنے حصے کی "یادوں کا عذاب" دیکھتے ہیں
لیکن آج میرے دل میں امید کا ایک چراغ روشن ہو گیا ہے ، مجھے لگا کہ جہاں انصاف ابھی مرا نہیں ، جہاں شہزادے بھی جرم کریں تو سولی لٹک سکتے ہیں ، اس دیس کو ابھی زوال نہیں ، وہاں ابھی بہاریں رقص کریں گی ، ابھی کچھ دن اور وہاں کے باسی چین کی نیند سو سکیں گے ، ابھی وہاں کی کسی فصل گل کو اندیشہ زوال نہیں ...کہ انصاف کی اس سے بڑی مثال کیا ہو گی ؟ -
لیکی اس کے ساتھ ساتھ میں کچھ دکھی بھی ہوں - میں اس ملک کا باسی ہوں کہ جس پر ایک دانائے راز کا یہ قول صادق آتا ہے کہ جس نے ایک بار فرمایا تھا کہ
" تم سے پہلے قومیں اس لیے تباہ ہو گئیں کہ ان کے بااثر جرائم کرتے تو عافیت میں رہتے ، اور کمزور ماخوذ ہوتے "
جی ہاں یہ الفاظ دنیا کے سب سے سچے انسان کے تھے ، ہمارے نبی آخر کے - اور آپ کو شاہ زیب کا کراچی میں قتل یاد ہو گا ، وہ بھی ایک غریب کا بچہ تھا ، اور قاتل ایک شاہ زادہ - جی ہاں اس قاتل کا نام شاہ رخ تھا ، بادشاہ کا چہرہ - یہ بادشاہوں کی وہ چھوٹی چھوٹی سی نسل ہے جو ہر اسمبلی کے حلقے میں پائی جاتی ہے ، تو انصاف تب بھی خوب ہوا تھا ..کہ مظلوم مقتول کی ماں یہ کہہ کے اپنا کیس عدالت سے اٹھا لے گئی کہ "میری جوان بچیاں ہے مرنے والا تو مر گیا "
آپ کو بھول گیا ، یاد رکھیں بھی تو کیا کیا ؟...لاھور کے کمشنر صاحب کے بیٹے نے شغل ہی شغل میں شاہ عالمی کے ایک تاجر کا اکلوتا بچہ مار دیا - میں اس روز بہت دکھی تھا ، علم غیب نہیں لیکن میں نے اسی روز اپنی اہلیہ سے کھا دیکھنا اک روز یہ لڑکا بری ہو جائے گا ...اور پھر میری بات ہی پوری ہوئی ...شاہ سلمان بہت سادہ ہیں ، ان کو چاہیے تھا کہ عارضی طور پر ہی سہی
عدالت ہمارے لاھور میں سجاتے ،
مقتول کی بہنوں کو یہاں لا بساتے ،
پولیس ہماری ہوتی ، قانون ہمارا
....کچھ ہی روز میں لڑکے کی ماں خود عدالت میں پیش ہوتی ....اور بول اٹھتی
"جج صاحب میں نے معاف کیا ، میرا بیٹا تو مرنا ہی تھا ، کسی اور کا کیوں پھانسی چڑھے ....اور جج صاحب ایک اور بات میری جوان بچیاں بھی ہیں اور مرنے والا تو مر گیا "
................ابوبکرقدوسی