• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

۱۲ربیع الاول میلاد کے دن کو میلاد کے دشمنوں نے تردد کا شکار کر ڈالا

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۱۲ربیع الاول میلاد کے دن کو میلاد کے دشمنوں نے تردد کا شکار کر ڈالا

سعیدی: ۱۲ربیع الاول، دنیائے اسلام کا یہ وہ مشہور دن ہے جس دن محبوب خدا سید المرسلین و الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے شہر میں آمنہ کے گھر جلوہ گر ہوئے مگر میلاد النبی کے دشمنوں نے اپنی ریشہ دوانیوں سے اس دن کو بھی معاف نہیں کیا اور بھولے بھالے مسلمانوں کو اس دن کے بارے میں تردد کا شکار کر ڈالا حالانکہ نواب آف غیر مقلد نے لکھا ہے کہ آپ کی ولادت مکہ میں بوقت طلوع فجر بروز دو شنبہ (سوموار) شب دوازدہم (۱۲) ربیع الاول کو ہوئی۔ جمہور علماء کا یہی قول ہے۔ ابن جوزی نے اس پر اتفاق نقل کیا ہے… دو ازدہم (۱۲) ماہ مذکور اہل مکہ کا عمل اسی پر ہے (ہم میلاد کیوں مناتے ہیں ص:۱۷)

محمدی: کیا ۱۲ربیع الاول دنیا و اسلام کا وہ مشہور دن نہیں جس دن محبوب خدا سید المرسلین والانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے شہر میں وفات پائی۔ ۱۲ربیع الاول کو میلادیوں سعیدیوں کے اعلیٰ حضرت احمد رضا بریلوی بھی ۱۲وفات مان چکے ہیں (ملفوظات احمد رضا حصہ دوم ص:۲۲۰) اگر تاریخ میلاد کے دن تردد پیش کرنے والے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ہیں تو: سب سے پہلے تمہارا میلادی گرو ملک مظفر کوکبری ہے جس نے سب سے پہلے میلاد منانے کی رسم کی بنیاد رکھی۔ وہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن نظر آتا ہے کیونکہ اختلاف کی وجہ سے ایک سال ۸ربیع الاول کو اورایک سال ۱۲ربیع الاول کو میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم مناتا تھا۔
وکان یعملہ سنۃ فی ثامن الشھر وسنۃً فی ثانی عشرۃ لاجل الاختلاف الذی فیہ۔(ابن خلکان ص:۴۳۷دوسری طبع ص:۵۵۲ج:اول)

چونکہ اس اختلاف کو نقل کرنے والے ابن خلکان ہیں لہٰذا بقول سعیدی میلادی، تردد کا شکار کرنے کی وجہ سے وہ بھی دشمن میلاد ہو گئے۔ نیز ولادت کے دن میں اختلاف اس بات کی طرف بھی اشارہ کر رہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام تابعین عظام سال بہ سال روایتی انداز میں میلاد نبوی نہیں مناتے تھے ورنہ اختلاف نہ ہوتا۔ جیسے حج کی تاریخ میں اختلاف نہیں کیونکہ حج کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام تابعین عظام سال بہ سال مناتے تھے۔

اور علامہ مفتی محمد عمیم الاحسان المجددی البرکتی نے بھی اختلاف نقل کیا ، لکھتے ہیں کہ:
ولدت آمنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم الاثنین عام الفیل ثمان اوتسع خلون من ربیع الاول او فی الثانی عشر منہ (اوجز السیر ملحق بمشکوٰۃ ص:۵۸۶)
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت آمنہ نے پیر کے دن عام الفیل میں بتاریخ ۸یا ۹یا ۱۲ربیع الاول کوجنا۔

مولوی اشرف علی تھانوی نے بھی ولادت کے دن میں اختلاف بتایا ہے چنانچہ لکھتے ہیں کہ یوم و تاریخ سب کا اتفاق ہے کہ دو شنبہ تھا اور تاریخ میں اختلاف ہے۔ آٹھویں یا بارھویں (کذا فی الشمامہ) (نشر الطیب ص:۲۸) چونکہ تھانوی صاحب نے یہ اختلاف شمامہ عنبریہ سے نقل کیا ہے اور شمامہ عنبریہ اصل میں مومن شبلنجی کی کتاب کی تلخیص ہے لہٰذا مومن صاحب بھی اختلاف نقل کر کے میلاد کے دشمن بن گئے۔

اور علامہ یوسف بن اسماعیل نبھانی بھی بقول سعیدی میلادی، میلاد کا دشمن ہے کیونکہ اس نے بھی تردد کیا ہے اور تردد نقل کیا ہے اور اس تردد کو خود سعیدی نے بھی نقل کیا ہے:
والمشہور الذی علیہ الجمہور انہ صلی اللہ علیہ وسلم ولد یوم الاثنین ثانی عشر من شھر ربیع الاول ۔(حجۃ اللہ علی العالمین ص:۲۳۱) (بحوالہ ہم میلا د کیوں مناتے ہیں ص:۱۸)
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا مشہور قول جس پر جمہور علماء ہیں ۱۲ربیع الاول ہے ۔ کیونکہ نبھانی صاحب نے بھی تسلیم کیا کہ جمہور کی رائے اور مشہور قول یہ ہے کہ ولادت نبوی ۱۲ربیع الاول کو ہوئی یعنی غیر مشہور قول اور غیر جمہور کا قول اس کے خلاف ہے اور سعیدی صاحب کے علامہ ابن دحیہ نے بھی اس دن کے بارہ میں تردد نقل کیا ہے (البدایہ والنھایہ ص:۲۶۰، ج:۲) جس کا معنی یہ ہے کہ ابن دحیہ بھی میلاد کا دشمن ہے بلکہ اس نے ۸ربیع الاول کو پیدائش نبوی (میلاد) کی تاریخ کو راجح قرار دیا ہے (التنویر فی مولد البشیر والنذیر بحوالہ البدایہ والنھایہ ص:۲۶۰ج:۲) اور ۱۷ربیع الاول کی تاریخ میلاد بھی ابن دحیہ نے نقل کی ہے (البدایہ والنھایہ ج:۲، ص:۲۶۰) اور احمد رضا بریلوی بھی میلاد کا دشمن ہے کہ اس نے بھی ۱۲میلاد کے موقعہ کو ۱۲وفات تسلیم کیا ہے (ملفوظات احمد رضا حصہ دوم ص:۲۲۰)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تھانوی صاحب نے نشر الطیب میں ۱۲کا قول بھی نقل کیا

سعیدی: تھانوی صاحب نے نشر الطیب ص:۲۸میں ۱۲کا قول بھی نقل کیا ہے مگر ۱۲ربیع الاول کے جشن میلاد کا دشمن ایسا اندھا ہوا ہے کہ اس کو اپنے گھر کی بھی خبر نہیں (ہم میلاد کیوں مناتے ہیں ص:۱۷)

محمدی : اندھا تو جشن منانے والا سعیدی ہے کہ تھانوی صاحب کی اس عبارت کو نہ دیکھ سکا اور نہ سمجھ سکا۔ ’’ تاریخ میں اختلاف ہے آٹھویں یا بارھویں‘‘ (نشر الطیب ص:۲۸)

کون کہتا ہے کہ ۱۲ربیع الاول تاریخ ولادت کسی نے کہی نہیں۔ بات یہ نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ میلاد کی تاریخ میں اختلا ف ہے اور اسی تاریخ کو تھانوی صاحب نے بھی نقل کر دیا۔ طعنہ اوروں کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا۔ خود سعیدی میلادی کے الفاظ بھی یہی واضح کر رہے ہیں کیونکہ سعیدی کے اپنے الفاظ یہ ہیں: ۱۲کا قول بھی نقل کیا ہے ۔ جس کا واضح مطلب ہے کہ ۱۲کے علاوہ دیگر اقوال بھی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
شیخ محقق فرماتےہیں

سعیدی: شیخ محقق فرماتے ہیں : آپ کی ولادت کیلئے بارہ ربیع الاول کا قول زیادہ مشہور اور اکثر ہے الخ… (مدارج النبوت اردو ج:۲، ص:۲۳ ۔ ما ثبت بالسنہ عربی ص:۲۸۸اُردو ص:۸۱)

محمدی: اس عبارت میں بھی واضح ہے کہ ولادت مبارک کی تاریخ میں اختلاف ہے اگرچہ مشہور اور اکثر کا قول ۱۲ربیع الاول ہے معنی یہ ہے کہ غیر مشہور اور کچھ حضرات کا قول ۱۲کے علاوہ بھی ہے اور یہی تردد ہے۔ گویا شیخ محقق نے بھی تردد نقل کر کے لوگوں کو تردد میں شکار کر ڈالا اور بقول سعیدی، یہ بھی دشمن میلاد بن گئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
امام یوسف بن اسماعیل نبھانی

سعیدی: (امام یوسف بن اسماعیل نبھانی) دوسرے مقام پر فرماتے ہیں: المشہور الذی علیہ الجمہور انہ صلی اللہ علیہ وسلم ولد یوم الاثنین ثانی عشر ربیع الاول (حجۃ اللہ علی العالمین ص:۲۳۱، ص:۱۸) یعنی آپ کی ولادت کا مشہور قول جس پر جمہور علماء ہیں ۱۲ربیع الاول ہی ہے (ہم میلاد کیوں مناتے ہیں ص:۱۸)

محمدی: اس قول سے بھی ولادت کی تاریخ میں تردد کی طرف واضح اشارہ موجود ہے کہ جمہور کے نزدیک قول مشہور ۱۲ربیع الاول ہے معنی یہ کہ غیر مشہور اور غیر جمہور کے نزدیک دیگر تاریخ ولادت بھی ہے۔ گویا امام نبھانی نے تردد یوم ولادت نقل کر کے تردد کا شکار کر ڈالا تو یہ بھی دشمن میلاد ہوگیا۔
اگر یہاں جمہور کا قول قبول ہے تو وفات کے دن کے متعلق جمہور کا قول کیوں قبول نہیں۔
امام سیوطی فرماتے ہیں:
فالجمہور علی ما ذکرہ المصنف انہ فی یوم الثانی عشرا الخ۔ (تدریب الراوی، شرح تقریب النواوی ص:۳۵۱، ج:۲)
پس جمہور کا قول وہی ہے جو مصنف (امام نووی) نے ذکر کیا ہے کہ ۱۲ربیع الاول (وفات کا دن) ہے اور امام نووی نے تقریب النواوی میں یوں لکھا ہے:
قبض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضحی الاثنین لثنتی عشرۃ حلت من شھر ربیع الاول من ھجرتہ صلی اللہ علیہ وسلم الی المدینۃ ۔(تقریب النواوی ص:۳۵۱،ج:۲)
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے گیارہویں سال ۱۲ربیع الاول کے شروع دن میں وفات پائی۔

اور علامہ محمد سلیمان منصور پوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
ولادت میں مؤرخین نے اختلاف کیا ہے۔ طبری۔ ابن خلدون نے۱۲ (ربیع الاول) تاریخ اور ابو الفداء نے ۱۰لکھی ہے مگر سب کا اتفاق ہے کہ دو شنبہ (سوموار) کا دن ۹ربیع الاول کے سوا کسی اور تاریخ سے مطابقت نہیں کھاتا اس لئے ۹ربیع الاول ہی صحیح ہے ، تاریخ دول العرب والاسلام میں محمد طلعت نے بھی ۹تاریخ ہی کو صحیح قرار دیا ہے

اور علامہ ابن الجوزی التنقیح میں لکھتے ہیں:
اتفقوا علی ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولد یوم الاثنین فی شھر ربیع الاول عام الفیل واختلفوا فیما مضی من ذلک من ولادتہ علی اربعۃ اقوالٍ احدہا انہ ولد للیلتین خلتا منہ والثانی لثمان خلون فیہ والثالث لعشر خلون منہ والرابع لاثنتی عشرۃ خلت منہ انتھی۔(تحفۃ الاحوذی شرح ترمذی ص:۲۹۵، ج:۴، مصنفہ علامہ عبد الرحمن مبارکپوری)
کہ اس بات پر تو اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوموار کے دن ماہ ربیع الاول عام الفیل میں پید ا ہوئے اور اختلاف کیا ہے اس بات میں کہ ولادت کے وقت ربیع الاول کے مہینہ کے کتنی دن گزر چکے تھے چار قول ہیں۔ ایک قول ۲ربیع الاول۔ دوسرا قول ۸ربیع الاول۔ تیسرا قول ۱۰ربیع الاول اور چوتھا قول ۱۲ربیع الاول۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وہابیوں کے امام حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں

سعیدی: وہابیوں کے امام حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں:
عن ابن عباس وجابر انہ ولد علیہ السلام فی الثانی عشر من ربیع الاول یوم الاثنین ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ و حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ کی ولادت باسعادت ۱۲ربیع الاول پیر کے دن ہوئی تھی (ہم میلاد کیوں مناتے ہیں ص:۱۸)

محمدی: اس منہ پھٹ سعیدی میلادی بریلوی مفتی علامہ الخ کو ہم کیا کہیں کیا لکھیں جس نے حافظ ابن کثیر کی نقل کردہ روایت کو مکمل نقل نہیں کیا حالانکہ ان الفاظ کے بعد آگے یوں عبارت موجود ہے۔ وبعث فیہ وفیہ عرج بہ الی السماء وفیہ ہاجر وفیہ مات۔ وہذا ہو المشہور عند الجمہور واللہ اعلم (البدایہ والنھایہ ص:۲۶۰، ج:۲) کہ آپ کی ولادت باسعادت ۱۲ربیع الاول پیر کے دن ہوئی اور اسی تاریخ و دن میں آپ مبعوث ہوئے اور اسی تاریخ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج ہوئی اور اسی تاریخ میں آپ نے ہجرت فرمائی اور اسی تاریخ میں آپ نے وفات پائی اور یہی جمہور کے نزدیک مشہور بات ہے۔ واللہ اعلم۔

اگر بریلویوں میلادیوں کا منہ پھٹ مفتی سعیدی یہ روایت مکمل نقل کر دیتا تو ایک طرف اگر سعیدی کی یہ بات پکی ہو جاتی کہ میلاد ۱۲ربیع الاول کو ہوا تو دوسری طرف سعیدی غبارہ سے ہوا نکل جاتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۱۲ربیع الاول کو وفات پائی۔ کیونکہ یہ روایت ۱۲ربیع الاول سوموار کے دن کو وفات کا دن بھی ثابت کرتی ہے۔

گویا یہ روایت بھی میلاد اور وفات کا دن اور تاریخ( ۱۲ربیع الاول اور سوموار کا دن ) بتا کر میلاد کے دشمنوں کو ہتھیار دے رہی ہے اور دشمنی ظاہر کر رہی ہے اور بقول سعیدی گویا یہ دونوں صحابی بھی میلاد کے دشمن تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وفات النبی صلی اللہ علیہ وسلم عفریت وہابیت کے متاثرین

سعیدی: وفات النبی صلی اللہ علیہ وسلم عفریت وہابیت کے متاثرین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو (معاذ اللہ) مردہ تصور کرتے ہیں حالانکہ آپ کی امت کے شہید و صالحینِ کاملین بعد از وصال جسمانی طور پر زندہ ہیں۔ قرآن و سنت نے ان کی برزخی حیات جسمانی طور پر ٹھوس دلائل قائم کئے ہیں۔ جب غلاموں کا حال یہ ہے کہ تو انبیاء و مرسلین اور سید الانبیاء کی حیات برزخی کا عالم کیا ہو گا۔(ہم میلاد کیوں مناتے ہیں ص:۱۸، ۱۹)

محمدی: عفریت بریلویت کے متاثرین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اگر معاذ اللہ دنیاوی زندگی والی حیات تسلیم کرتے ہیں تو پھر گویا چودہ سو سال سے امت کی طرف آپ پر زیادتی اور آپ کی گستاخی ہو رہی ہے کہ آپ زندہ سلامت بحیات دنیویہ جسمانیہ بھی ہیں اور قبر مبارک سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کے اندر زمین پر مکہ و مدینہ میں مسجد حرام و مسجد نبوی جو نبی کی اپنی مسجد ہے میں کسی نے نہیں لا بٹھایا۔ نہ کسی صحابی نے نہ کسی تابعی نے نہ کسی تبع تابعی نے نہ کسی امام از ائمہ اربعہ ۔ نہ کسی محدث نے نہ کسی فقیہ نے نہ کسی ولی و بزرگ نے جبکہ آپ جب حیات جسمانیہ دنیویہ میں بیمار ہوتے تھے اور مسجد نبوی میں خود چل کر آنے سے قاصر ہوتے تو آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ کو آپ کے گھر مبارک سے (جس گھر میں اب قبرو روضہ مبارک ہے) آپ کو سہارا دے کر مسجد نبوی میں مصلی مبارک تک لے آتے تھے اور آپ کو امامت کیلئے مصلی نبوی پر آن بٹھاتے تھے۔(مشکوٰۃص:۱۰۲)

مگر وفات نبوی کے بعد چودہ سو سال ہو گئے آپ کو جو بقول سعیدی بحیات دنیویہ و جسمانیہ بھی ہیں کسی نے ایک بار بھی حجرہ عائشہ روضہ مبارک سے مسجد نبوی تک لے آنے کی کوشش نہیں کی۔ حتیٰ کہ احمد رضا بریلوی جو اپنے آپ کو سب سے بڑا عاشق رسول گردانتا ہے وہ بھی جب ہندوستان سے حج کیلئے عرب گیا تو اس کوبھی صاحب روضہ کو روضہ مبارک سے مسجد نبوی تک لانے کی نہیں سوجھی اور نہ توفیق ہوئی۔ آخرکیوں؟

لوگو ں نے یہ تو مشہور کر رکھا ہے کہ فلاں ولی، فلاں بزرگ روضہ نبوی پر گیا سلام کیا، سلام کا جواب قبر کے اندر سے آیا اور ہاتھ مبارک نکال کر اس سے مصافحہ کیا مگر مصافحہ کرنے والے بزرگ ولی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ آپ کو مسجد نبوی میں تشریف آوری کی دعوت دے دیتا اور آپ کو مسجد نبوی کے مصلی نبوی پر آن بٹھاتا۔ اگر قبر مبارک سے مصافحہ کیلئے ہاتھ نبوی باہر آ سکتا ہے اور واپس جا سکتا ہے تو پھر خود ذات نبوی وجود نبوی باہر کیوں نہیں آ جا سکتی ؟

نبی و رسول بحیات جسمانیہ دنیاویہ کا دنیا میں مسجد نبوی مصلی نبوی میں اپنے ماننے والوں جان نثاروں کے درمیان رہنا بہتر ہے یا قبر شریف میں؟۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اللہ تعالیٰ کی قسم! اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیاوی جسمانی زندگی کے ساتھ قبر میں ہوتے تو سب سے پہلے آپ پر قربان ہونے والے جان نثار صحابہ کرام مہاجرین و انصار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد نبوی کے اندر لا بٹھاتے اور یوں آپ کے دیدار سے مواعظ حسنہ سے محروم نہ ہوتے۔ نہ دیدار سے محرومی ہوتی ، نہ وحی کا سلسلہ بند ہوتا، نہ خلیفہ اول، خلیفہ ثانی، خلیفہ ثالث خلیفہ رابع کے چنائو کی نوبت آتی، نہ مدینہ والوں کیلئے صحابی تابعی کا فرق ہوتا ،نہ امام ابوحنیفہ کے تابعی تبع تابعی کا اختلاف ہوتا اور نہ تقلیدی بدعت چالو ہوتی ، نہ میلاد النبی منانے نہ منانے کا مسئلہ پیدا ہوتا کیونکہ زندہ نبی بحیات دنیا ویہ جسمانیہ سے مدینہ جا کر پوچھ لیا جاتا کہ آپ کا میلاد منائیں یا نہ منائیں، نہ وراثت نبوی کی بحث شیعہ و سنی کے درمیان چلتی اور نہ حضرت فاطمہ اپنے باپ کی وراثت طلب کرنے کیلئے حضرت ابوبکر کے پاس جاتی ۔بلکہ سرے سے جسمانی اور دنیاوی پر زندہ نبی کو دفن ہی نہ کیاجاتا۔ کیونکہ بقول احمد رضا،بدھ کے دن آپ دوبارہ جسمانی دنیاوی حیات میں واپس آ چکے تھے تو پھر حیات النبی کو دفن کرنا کیسا۔

یا پھر تسلیم کرو! کہ سوموار کے دن کی وفات سے برزخی زندگی آپ کی شروع ہو گئی تھی جس کا تعلق دنیاوی زندگی سے نہیں تھا جہاں تبدیل ہو چکا تھا تو جو کچھ صحابہ کرام نے اپنے نبی سے دفن کے معاملہ میں کیا وہ سب ٹھیک تھا کہ برزخی جہاں والے کو دنیاوی جہاں میں نہیں رکھا جا سکتا کیونکہ برزخی جہاں کے زندہ انسان اور دنیاوی جہاں کے زندہ انسان کے حالات ایک جیسے نہیں ہوتے۔ دنیا کا زندہ انسان بالفرض اگر دو سال تک بھی لایموت ولایحی کی کیفیت اور کشمکش میں پڑا رہے لوگ اس کو دفن نہیں کرتے کہ جان چھوٹے بلکہ اگر کوئی ایسا کرے گا تو گویا وہ زندہ انسان کو زندہ درگور کرنے کا مجرم ہو گا مگر شہید جو مرنے کے بعد بھی بقول ذوالجلال والاکرام زندہ ہے مگر یہ زندگی برزخی ہے اب اس کو لازماً دفن کرنا ہے جو ایسے شہید کو دفن نہیں کرے گا وہ شریعت اسلامیہ کا مجرم اور اپنے مسلمان شہید بھائی کا حق ادا کرنے والا نہیں ہو گا۔ کیونکہ اس مرنے والے کے کفن دفن میں شامل ہونا دوسرے مسلمان پر حق ہے۔(مشکوٰۃ ص:۳۹۸) گویا یہی فرق ہے دنیاوی اور برزخی زندگی والے انسان کا۔

یہی وجہ ہے کہ شہداء جن کو قرآن زندہ مانتا ہے اسلام ان کی وراثتوں کی تقسیم اور ان کی ازواج کی عدت اور بعد از عدت دوسری جگہ عقد ثانی کرنے کی اجازت دیتا ہے ایسے شہیدوں کے متعلق یہ میلادی سعیدی مفتی بھی ان کی زندگی کو تسلیم کر کے بھی ان کی وراثت کی تقسیم اور ان کی بیویوں کی بعد از عدت عقد ثانی کرنے کی اجازت و فتویٰ دیتا ہے۔

نیز اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں ان شہیدوں کیلئے پہلے موت کا سارٹیفکیٹ دیتا ہے کہ : ’’قتلوا فی سبیل اللہ‘‘ فرماتا ہے۔ (جس کا معنی احمد رضا بریلوی یوں کرتا ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے )(پ:۴، آل عمران :۱۶۹) پھر ان کیلئے فرماتا ہے کہ ’’جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ہیں ان کو مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں ‘‘ گویا مرنے کے بعد زندہ ہیں مگر زندہ کہاں ہیں ؟دنیا میں نہیں اگر دنیاوی طو پر زندہ ہوتے تو اس کی بیوی بیوہ نہ ہوتی بعد عدت عقد ثانی نہ کرتی اس کی وراثت تقسیم نہ ہوتی جس سے معلوم ہوا کہ وہ دنیاوی طور پر زندہ نہیں ہیں۔ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس بل احیائٌ عند ربہم اور حدیث شریف میں ہے احیاء فی الجنۃ ۔(مشکوٰۃ ص:۳۳۴) کہ وہ بہشت میں زندہ ہیں۔

اگر وہ دنیا کے حساب سے زندہ ہوتے تو زمین پر ہی رہتے اپنے گھروں میں اپنی بیوی بچوں کے پاس رہتے ۔دنیاوی تبدیلی جو آنی تھی آ گئی مگر اللہ کے ہاں شہادت کی وجہ سے بلند زندگی کے مالک بن گئے اور اللہ تعالیٰ کے انعامات رنگ برنگ کے حقدار بن گئے اور جنت کے عیش و عشرت کے مستحق ہو گئے ۔اگر شہداء روح مع الجسد اپنے دنیاوی جسموں کے ساتھ زندہ ہیں تو حدیث میں کیوں آیا ہے کہ شہداء شھادت کا درجہ پا کر بہشتی اور جنتی عیش میں وقت گزارنے لگے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی بڑی عزت و تکریم ہونے لگی تو ایسے میں اللہ تعالیٰ نے ان کو فرما دیا مانگو جو چیز مانگتے ہو میں عطا فرمائوں گا۔ شہدا نے کہا یا اللہ بن مانگے سب کچھ مل گیا ہے اب کیا مانگیں اللہ تعالیٰ نے ان کو پھر فرمایا مانگو میں تمہیں دوں گا۔ آخر انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ : یا رب نرید ان ترد ارواحنا فی اجسادنا حتی نقتل فی سبیلک مرۃ اخری (مسلم شریف ج:۲، ص:۱۳۶) کہ ہماری روحوں کو واپس ہمارے جسموں میں لوٹا دے تا کہ تیرے راستہ میں دوبارہ شہید ہوں ۔

(اور دوبارہ یہ مرتبہ حاصل ہو) جس سے واضح ہے کہ جن کو قرآن زندہ کہتا ہے ان کی روحیں ان کے دنیاوی جسموں میں نہیں ہوتیں تو پھر وہ جسموں سمیت دنیا میں زندہ کیسے ؟اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آرزو فرمائی ہے:
والذی نفسی بیدہ لودوت ان اقتل فی سبیل اللہ ثم احیی ثم اقتل ثم احیی ثم اقتل ثم احیی ثم اقتل۔(بخاری و مسلم مشکوۃ ص:۳۲۹)

کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں پسند کرتا ہوں کہ قتل کیا جائوں اللہ تعالیٰ کی راہ میں پھر زندہ کیا جائوں پھر قتل کیا جائوں پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیا جائوں پھر زندہ کیا جائوں پھر قتل کیا جائوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اس حدیث میں کس قدر صراحت ہے کہ شہادت میں بھی موت آتی ہے اس لئے آپ نے پھر زندہ ہونے کی آرزو فرمائی اگر شہادت میں آدمی فوت ہی نہیں ہوتا تو پھر دوبارہ زندگی کی آرزو کیوں نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر بالفرض آپ اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہو جاتے اور آپ کو شہادت اصلی نصیب ہو جاتی تو آپ بھی اس شہادت میں فوت ہو چکے ہوتے اور دنیاوی زندگی بھی آپ کو نصیب نہ ہوتی۔ ورنہ دوبارہ زندگی کی آرزو کیسی۔ شہادت کے بعد دوبارہ زندگی کی آرزو، واضح کہہ رہی ہے کہ شہید کو دنیاوی زندگی حاصل نہیں ہوتی اور اس پر یہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الا الشھید یتمنی ان یرجع الی الدنیا فیقتل عشرة مرات الخ (بخاری و مسلم، مشکوٰۃ ص:۳۳۰)مگر شہید آرزو کرتا ہے کہ وہ دنیا میں جائے اور اس کو دس دفعہ قتل کیا جائے اس عزت و تکریم کی وجہ سے جو اس نے شہادت کے بعد دیکھی ہے۔ اگر شہید کو دنیاوی زندگی حاصل ہوتی تو وہ دوبارہ دنیاوی زندگی حاصل کر کے شہید ہونے کی آرزو نہ کرتا ۔

بہرحال اہلحدیث کا یہ عقیدہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں دنیاوی زندگی کے ساتھ زندہ نہیں ہیں بلکہ برزخی زندگی کے ساتھ زندہ ہیں اور شہداء اور دیگر انبیاء ورسل سے بڑھ کر نعمتوں میں ہیں البتہ اس برزخی زندگی کاکما حقہ شعور کسی کو حاصل نہیں۔

اللہ تعالیٰ کے انبیاء کرام علیہم السلام پر وفات آئی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی وفات آئی ، صحابہ کرام نے آپ کو فوت شدہ مان کر ہی کفن و دفن کا انتظام کیا تھا اور فوتگی کے بعد ہی خلافت کا مسئلہ پیدا ہوا تھا ، موت کے بعد ہی جائے دفن میں اختلاف کیا تھا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ہی حدیث نبوی سنا کر اس اختلاف کو ختم کیا کہ نہ مکہ میں نہ بیت المقدس میں نہ جنت البقیع میں بلکہ آپ کے وجود مبارک کی جائے دفن، وہ مقام ہے جہاں آپ نے وفات پائی ہے یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا گھر مبارک اور حضرت ابوبکر صدیق نے آپ کے چہرہ انور کو دیکھ کر آپ کی موت کا اعلان قرآنی آیات پڑھ کر فرمایا تھا اور یہ بھی فرمایا کہ:
من کان یعبد محمدًا فان محمدًا قد مات۔(بخاری ، مشکوٰۃ)
کہ جو آدمی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا معبود سمجھتا تھا وہ سمجھ لے کہ (اس کا معبود) حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مگر احمد رضابریلوی کی بھی سنئے
وہ لکھتا ہے:
لا موت لہم الا آنیاً تصدیقاً للوعدثم ہم احیائٌ ابداً بحیاۃ حقیقیۃ دنیاویۃ وجسمانیۃٍ ۔(فتاوی رضویہ ج: اول ص:۶۱۰)
کہ انبیاء علیہم السلام پر ایک آن (لحظہ) کیلئے موت طاری ہوتی ہے محض تصدیق وعدہ الٰہیہ کیلئے پھر اس کے بعد روحانی جسمانی لحاظ سے ان کو حقیقی دنیاوی جسمانی و روحانی ابدی حیات حاصل ہوجاتی ہے، یہی اعلیٰ حضرت اپنی دوسری کتاب ملفوظات میں لکھتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر ایک آن کو محض تصدیق وعدہ الٰہیہ کیلئے موت طاری ہوتی ہے۔ بعد اس کے پھر ان کو حیات حقیقی حسی دنیوی عطا ہوتی ہے۔(ملفوظات حصہ سوم ص:۳۸۰) اور انوار ابشارہ فی مسائل الحج والزیارة۔ مصنف اعلی حضرت بریلوی ص:۷۶میں بھی اسی طرح ہے۔بلکہ احمد رضا نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی قبور میں ازواج مطہرات پیش کی جاتی ہیں وہ ان کے ساتھ شب باشی فرماتے ہیں (ملفوظات حصہ سوم ص:۲۷۲) کیا یہ کلمات انبیاء کرام علیہم السلام کیلئے گستاخانہ نہیں ہیں؟اگر انبیاء کرام کیلئے موت بری چیز ہے اور ان کے شان کے خلاف ہے تو پھر انبیاء کرام علیہم السلام کیلئے ایک آن کی بھی موت نہیں آنی چاہئے۔ اگر موت مقام نبوت کے منافی ہے تو ایک آن کیلئے کیوں؟ جبکہ مومن کیلئے موت تو خیر ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اثنان یکرھھما ابن آدم یکرہ الموت والموت خیرٌ للمومن من الفتنۃ ۔(مشکوۃ ص:۴۴۸)

کہ دو چیزوں کو انسان ناپسند کرتا ہے موت کونا پسند کرتا ہے حالانکہ فتنوں کے مقابلہ میں موت مومن کیلئے خیر ہے الخ اور خود مولوی سراج احمد سعیدی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کو ’’فوتگی مبارک،، لکھا ہے۔(سراج اھل الہدایہ)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
احمد رضا کی آن: اور سعیدی بریلوی کی لکھت

مولوی سراج احمد سعیدی (اُچ والے) اپنی دوسری کتاب ، سراج اھل الہدایہ فی تحقیق الدعاء بعد الجنازہ۔ کے آخر میں، سوالات کے جوابات کے عنوان کے تحت لکھتا ہے۔ جواب نمبر۴ ۔ حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال (فوتگی) مبارک پیر کے دن ہوا اور دفن مقدس بدھ کو۔ گویا عفریت بریلویت احمد رضا کی یہ آن اتنی لمبی اور طویل ہو گئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال سوموار کو ہوا ،گھر والوں نے تجھیز و تکفین کے انتظامات کئے ،دوسرے ساتھیوں نے سقیفہ بنی ساعدہ میں آپ کی خلافت کیلئے فیصلہ فرمایا کہ خلیفہ ابوبکر صدیق ہے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ ملائکہ نے پڑھی، ایک لاکھ چوبیس ہزار سے زیادہ صحابہ کرام نے پڑھی، آپ کو غسل مبارک کپڑوں سمیت دیا جائے یا عام طریقہ پر کپڑے اتار کر ،آپ کو دفن کہاں کیا جائے مکہ میں بیت المقدس میں جنت البقیع میں ان باتوں کو طے کرنے میں بھی وقت لگا۔ منگل کا سالم دن بھی گزر گیا، بدھ کو آپ کو دفن کیا گیا مگر احمد رضا خان بریلوی کی آن ابھی ختم نہیں ہوئی یا پھر صحابہ کرام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیاوی زندگی کے دوبارہ لوٹ آنے کا احساس تک نہ ہو پایا اور تیسرے دن اپنے زندہ نبی کو بقول احمد رضا حقیقی حسی دنیاوی حیات عطا کئے ہوئے نبی کو زندہ دفن کر دیا۔ نعوذ باللہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دوبارہ لوٹ آنے والی زندگی کو ازواج مطہرات نہ سمجھ سکیں،حضرت فاطمہ نہ سمجھ سکیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ نہ سمجھ سکے، جنہوں نے غسل دیا ،حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہ نہ سمجھ سکے ، ان کو تو پتہ نہیں لگا دوبارہ زندگی لوٹ آنے کا مگر ۱۴سو سال بعد والے احمد رضا کو کیسے پتہ چل گیا کہ ایک آن کے بعد آپ کی زندگی دوبارہ لوٹ آئی تھی۔
 
Top