• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

۴۶۔ شیطان سے بچو۔ ۔ اسعد الزوجین

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۴۶۔ شیطان سے بچو۔
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شیطان اپنا تخت پانی کے اوپر رکھتا ہے اس کے بعد اپنے لشکر بھیجتا ہے۔ اس کے سب سے قریب وہ شیطان ہوتا ہے جس نے سب سے زیادہ فتنہ و فساد برپا کیا ہوتا ہے۔ چنانچہ ان میں ایک آتا ہے اور کہتا ہے میں نے یہ یہ کیا۔ شیطان کہتا ہے تم نے کچھ بھی نہیں کیا۔ اس کے بعد دوسرا آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے شوہر کو بیوی سے الگ کر دیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: شیطان اس شیطان کو اپنے قریب کرتا ہے اور کہتا ہے تم نے صحیح کام کیا۔
امام ائمہ فرماتے ہیں: میرے خیال میں آپ نے فرمایا: پھر اسے گلے لگانا ہے۔ (۱) (مسلم)

اس حدیث سے پتہ چلا کہ شیطان میاں بیوی میں پھوٹ ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے اس لئے اسے جب بھی دونوں کی زندگی برباد کرنے کا کوئی موقع ملتا ہے تو وہ اس موقع سے فائدہ اٹھانا ہے اور اپنے سارے لشکر کو لے کر پہنچ جاتا ہے یہاں تک کہ چھوٹی سی بات کو اتنا بڑا کر دیتا ہے کہ آگے کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا اور صلح کا وقت ختم ہوجاتا ہے۔ شیطان کے مختلف حیلے اور طریقے ہیں جن میں حد سے زیادہ شک بے ضرورت غیرت، چھوٹی غلطیوں کو حد سے زیادہ بڑا کرکے دکھانا، میاں بیوی میں لڑائی کروانا وغیرہ۔ اس کے بعد وہ دونوں کے ذہنوں میں یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ اب طلاق کے سوائے کوئی چارہ نہیں۔ اس لئے میاں بیوی کو چاہیے کہ وہ شیطان کو پھوٹ ڈالنے کا کوئی موقع نہ دیں۔ اس کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ اگر میاں بیوی یہ محسوس کریں کہ دونوں کے درمیان ہونے والی محبت طول پکڑ رہی ہے اور شدید ہوتی جارہی ہے تو ایسے میں اس بحث کو کسی اور وقت کے لئے ٹال دیں یہاں تک کہ دونوں نارمل ہوجائیں۔ یہ طرزِ عمل دونوں کے لیے مفید ہے۔
شوہر کے واجبات اور اس کی ذمہ داریاں
۱۔ بیوی کے گھریلو کاموں کو سراہنا اور اس کی تعریف کرنا:
عورت گھر کے اندر سخت محنت کرتی ہے گھر کی تربیت، اس کی صفائی کھانا پکانا، بچوں کی دیکھ بھال، شوہر کے کام کاج، گھر کی اشیاء کی حفاظت، گھر کے ماحول کو سنوارنا وغیرہ۔ اگر عورت کی ان کاموں پر حوصلہ افزائی نہیں کی جائے گی تو اس کی ہمت کمزور پڑ جائے گی اور اس کے کاموں میں پہلے کی سی چستی مفقود نظر آئے گی۔ اس لیے شوہر کو چاہیے اپنی بیوی کے گھریلو کاموں کی تعریف کرے اور اس کا شکریہ ادا کرے۔ کبھی اس کے لئے دعا کرے اور کبھی اس کی حوصلہ افزائی کرے اور تعریف کرے اور کبھی اس کو گھمانے لے جائے۔ اچھا شوہر کبھی شکریہ ادا کرنے سے نہیں تھکتا بلکہ ہر بار اسے مختلف انداز میں ادا کرتا ہے۔ اگر شوہر کو بیوی کے کسی کام میں کوئی کوتاہی یا غلطی نظر آئے تو اسے چاہیے کہ اسے نظر انداز کرے یا بغیر کسی گالم گلوچ کے اچھے طریقے سے نصیحت کرکے سمجھائے۔

اور اگر شوہر بیوی کو کوئی کام کرنے کو کہے اور بیوی اپنی پوری کوشش کرنے کے باوجود شوہر کا وہ کام نہ کرے پائے تو شوہر کا کام ہے کہ بیوی کی اس محنت و کوشش کی قدر کرے اور اس کی تعریف کرے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۲۔ بیوی کی مہربانی اور اچھائی کا اعتراف کرنا:
عموماً بیوی کا شوہر پر کوئی نہ کوئی احسان ہوتا ہے چاہے وہ بڑا ہو یا چھوٹا۔ چاہے وہ کوئی چھوٹا سا کام ہو جو شوہر نے کرنے کو کہا یا وہ گھر کا کوئی معمولی سا کام ہو جیسے کھانا پکانا یا صفائی وغیرہ۔ اس کے علاوہ بھی بیوی کے شوہر پر احسانات ہوتے ہیں جیسے اس کے طالبِ علم پر صبر کرنا یا اس کی کسی آزمائش میں اس کے ساتھ کھڑا ہونا یا اس کی غریبی پر صبر کرنا اس لیے ایک اچھا شوہر کبھی بھی بیوی کے احسانات کا انکار نہیں کرتا۔

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ فرماتی ہیں مجھے کسی عورت پر اتنی غیرت نہیں آتی جتنی خدیجہؓ پر آتی۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا بکثرت ذکر فرماتے تھے۔ ایک دن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ذکر کیا تو میں نے کہا: آپ اس عمر دراز خاتون کا کیا کریں گے؟ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے بہتر دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! اس سے بہتر عورت مجھے نہیں ملی۔ جب لوگوں نے میرا انکار کیا تو یہ مجھ پر ایمان لائی اور جب مجھے جھٹلایا تو اس نے میری تصدیق کی اور جب لوگوں نے مجھے محروم کیا تو اس نے اپنی دولت سے میری مدد کی اور اللہ تعالیٰ نے اس سے مجھے بیٹا عطا فرمایا جو دوسری بیویوں سے نہیں فرمایا: (۱) (بخاری)

اس حدیث سے پتہ چلا کہ خدیجہؓ کی موت کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے احسانات نہیں بھولے اور انھیں یاد رکھا۔ بلکہ بعض روایات میں یہاں تک وارد ہوا ہے کہ آپؐ انؓ کے لیے استغفار فرماتے اور ان کی سہیلیوں سے صلۂ رحمی فرماتے۔ اور یہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے وفاء اور ان کے احسانات کے اعتراف کے طور پر کرتے۔ جب آپؓ کی موت کے بعد اللہ کے رسول کا یہ عالم تھا تو موت سے پہلے کیا حال ہوگا؟

۳۔ شوہر کو سلیقہ مند اور تہذیب یافتہ ہونا چاہیے
بعض شوہر ایسے ہوتے ہیں ۔ وہ بالکل بھی صفائی اور تربیت کا خیال نہیں کرتے۔ ان کے کپڑے گھر کو ہر کونے میں پڑے ہوئے نظر آتے ہیں اور اگر کسی جگہ اتفاق سے بیٹھ جائیں تو وہاں سے اس جگہ کا ستیا ناس کرکے ہی اٹھتے ہیں۔ اگر انھیں کوئی کھانا یا مشروب پیش کیا جاتا ہے تو اس کا زیادہ تر حصہ زمین پر پھینک دیتے ہیں۔ بیوی نے اس جگہ اس کھانے یا اس مشروب پر کتنی محنت کی ہوگی۔ اس کی انھیں کوئی پرواہ نہیں ہوتی اور وہ جگہ کو اسی طرح سے بے ترتیب چھوڑ کر نکل جاتے ہیں۔

شوہر کو صفائی پسند اور سلیقہ مند ہونا چاہیے چاہے وہ اپنی ذات میں ہو یا گھر میں یا کام کاج میں کیونکہ اگر وہ کسی چیز کو خراب کرتا ہے تو اس کی ٹھیک کرنے میں استعمال ہونے والا وقت گھر اور میاں بیوی کے دوسرے کاموں میں صرف ہوسکتا ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۴۔ شوہر کو صاف ستھرا اور صفائی پسند ہونا چاہیے۔
اسلام نے ہماری صفائی ستھرائی کا پورا پورا بندوبست کیا ہے تاکہ میل کچیل کے ذرات بھی ہمارے جسموں کو نہ چھو سکیں۔ چنانچہ دن میں پانچ مرتبہ ہم نماز کے لئے وضوء کرتے ہیں۔ ہر جمعہ کو ہم غسل کرتے ہیں۔ احتلام یا جماع کے بعد ہم الگ غسل کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ مسلمان پاک صاف رہتا ہے اور اپنی صفائی سے پہچانا جاتا ہے اسلام نے منہ اور دانتوں کو صاف رکھنے کی تلقین کی ہے اور مسواک کرنے کی ترغیب دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: اگر مجھے اپنی امت پر مشقت کا خوف نہیں ہوتا تو میں ہر نماز میں مسواک کرنے کا حکم دینا۔ (۱) (ابو دائود) ایک اور روایت میں جسے عائشہؓ نے روایت کیا ہے۔ آپ نے دس چیزوں کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ فطرت میں سے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: دس چیزیں فطرت میں سے ہیں: موچھوں کا چھوٹا کرنا، داڑھی کا بڑھانا، مسواک کرنا، پانی ناک میں سونتنا، ناخن کاٹنا، کہنیاں دھونا، بغل کے بال لینا، زیر ناف بال لینا اور استنجاء کرنا۔ زکریا کہتے ہیں کہ مصعب نے فرمایا: میں دسویں چیز بھول گیا ہوسکتا ہے کہ کلی کرنا ہو اور وکیع نے اضافہ کیا کہ انتقامی کا مطلب استنجاء کرنا ہے۔ (۲) (مسلم)

حدیث پڑھنے سے یہ بات پتہ چلتی ہے کہ صفائی عین فطرت ہے اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اوپری ہونٹ سے آگے آنے والے موچھوں کے بال کاٹ دیں۔ اور ناک صاف کریں، زیر ناف بال لیں، بغل کے بال لیں، مسواک کریں، ناخن کاٹیں استنجاء کریں اور کہنیوں کو دھوئیں، یہ سب صفائی کی نشانیاں ہیں۔ اگر شوہر یہ تمام سنتیں ادا کرے گا تو پاک صاف رہے گا اور اگر خوشبو لگائے تو اور بھی اچھی بات ہے۔

عائشہ ؓ فرماتی ہیں گویا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوڑوں میں خوشبو کی سفیدی دیکھ رہی ہوں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم احرام باندھ ہوتے تھے۔ (۱)(بخاری)

اور ایک اور حدیث میں آپؐ کے متعلق آتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جب انتقال ہوا تو آپ کے سر اور داڑھی کے بیس بال بھی مفید نہیں تھے۔ ربیعہ کہتے ہیں میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بال دیکھا وہ خوشبو سے لال ہو رہا تھا۔ (۲) (مسلم)

اس لیے شوہر کو چاہیے کہ اپنا جسم پاک صاف رکھے اور بیوی کو بھی پاک صاف رہنے کو کہے۔

انس بن مالکؓ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم موچھوں (ص ۸۶) ناخونوں، بغلوں کے بال، زیر ناف بال چالیس راتوں سے زیادہ نہ چھوڑیں (۳) (مسلم) اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے ایک اور حد مقرر کر دی ہے جس نے پہلے ہمیں مذکورہ بال اور ناخن کاٹ لینے چاہیے کیونکہ اس کے بعد وہ گندگی میں شامل ہوجاتے ہیں۔

۵۔ بیوی کے گھر والوں اور رشتے داروں کا احترام کرنا۔
بیوی کے گھر والوں اور رشتے داروں کا احترام کرنا اس بات کی نشانی ہے کہ شوہر بیوی سے محبت کرتا ہہے اور اس کی قدرت کرتا ہے۔ اس لئے شوہر کو چاہیے کہ بیوی کے رشتے داروں سے اچھا برتائو کرے۔ اگر وہ گھر میں آئیں تو ان کا اچھی طرح استقبال کرے اگر چائیں تو انھیں اچھی طرح سے رخصت کرے۔ ان کی عزت و تکریم کرے۔ ان کی خوبیوں کو بیان کرے اور ان کے عیوب کو چھپائے اور ان سے صلۂ رحمی کرے۔ بلکہ اگر بیوی کے رشتے دار اہل دین اور اہل تقوی میں سے ہیں تو اسے اور زیادہ ان امور کا خیال رکھنا چاہیے بہرحال وہ اس کی بیوی کے گھر والے اور اس کی بیٹوں کے ماموں زاد ہیں اگر ان سے کوئی غلطی سرزد ہو بھی جاتی ہے تو اسے چاہیے کہ درگذر کرے اور اگر وہ اسے غصہ دلاتیں تو چاہیے کہ اپنے غصے کو دبائے۔

ان کے احترام کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر ان میں کوئی بد اخلاق یا بد چلنی شخص موجود ہے تو بیوی کو اس کا طعنہ نہ دیا جائے اور نہ ہی اس کے خاندان کے سامنے اس کی مثال دی جائے بلکہ بہتر ہے کہ اسے چھوڑ دیا جائے۔ اور جب اس کا ذذکر ہو تو بیوی کی موافقت سے ہوتا کہ بچے اس کی برائی سے بچ سکیں اور وہ ان کے اخلاق و آداب پر اثرانداز نہ ہونے پائے۔

بیوی کے رشتے داروں کے احترام کا یہ تقاضا ہے کہ ان کی تقریبات اور نوشیوں میں شرکت کی جائے اور غم کے وقت اُن کی غم گساری کی جائے اور آزمائشوں میں اور کٹھن وقت میں ان کا ساتھ دیا جائے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۶۔ ہر تھوڑے عرصے کے بعد طرزِ زندگی (لائف سٹائل ) کو تبدیل کرتا:
بہت سے شوہروں کو یہ وطیرہ بن چکا ہے کہ ایک ہی طرح کے طرزِ زندگی کے عادی ہوچکے ہیں۔ ان میں بعض ایسے ہیں جو اس کو بدلنا چاہتے اور بعض ایسے جو اسے بدلنا نہیں جانتے۔ مثال کے طور پر ایک شوہر صبح اپنے کام پر نکلتا ہے یا دکان پر جاتا ہے اس کے بعد دوپر کے کھانے کے لیے گھر لوٹتا ہے پھر سو کر اٹھ کے دوبارہ کام پر چلا جاتا ہے اور اگر بالفرض ظہر کے بعد اسے کوئی کام نہیں ہے تو ٹی وی کے آگے یا کمپیوٹر کے آگے بیٹھ جاتا ہے یہاں تک کہ عشاء کا وقت ہوجاتا ہہے پھر دوستوں سے ملنے جاتا ہے اور آدھی رات تک باہر رہتا ہے اور چھٹی کے دنوں میں یا وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ یا سسرال کے ساتھ ایک عرصے سے اس کا یہی طریقہ ہے جو آج تک نہیں بدلا اور یہ بہت ہی بڑی غلطی ہے۔

بہتر یہ ہے کہ تھوڑے عرصے کے بعد اپنا ٹائم ٹیبل تبدیل کرے۔ مثال کے طور پر اپنے گھر والوں اور بچوں کو باہر گھمانے کے لیے لے جائے یا انھیں شہر کے عجائب گھر کی سیر کرائے یا دوپہر یا رات کا کھانا اکٹھے باہر سمندر کے کنارے پر کھائیں یا ہفتے کے آخر میں شہر سے قریبی تفریحی مقامات کی سیر کرائے لے جائے۔ ان سب میں وہ مناسب وقت اور ان کا انتخاب کرے۔ اس طرح کے طرز عمل کے ازدواجی تعلقات میں ایک نئی تازگی پیدا ہوتی ہے اور زندگی میں ایک نیا پن آتا ہے اور حقیقی شوہر ایسا کرنے کے لئے مختلف طریقے استعمال کرتا رہتا ہے۔

۷۔ بیوی کی خدمت پر اس کا شکریہ ادا کرنا:
شکریہ ادا کرن نیک اور اعلیٰ ظرف لوگوں کی خصلت رہی ہے۔ جب شکریہ ادا کرنے والا شکریہ ادا کرتا ہے تو مشکور اپنی ساری محنت اور تھکن بھول جاتا ہے اور اسے احساس ہوتا ہے اگلے نے اس کی محنت کی قدر کی ہے اور اس کے احسان کو یاد رکھا ہے۔ اس لیے ہمارے دین نے حکم دیا ہے کہ جو بھی کوئی ہمارے ساتھ اچھائی کرے تو ہم اس کا شکریہ ادا کریں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں۔

''جو تمہارے ساتھ اچھائی کرے تو اسے اس کا بدل دو اور اگر بدل نہ دے سکو تو اس کے لئے دعا کرو۔ (۱) (صحیح الجامع الصغیر ج۲ (۵۹۲۷) ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں، جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کرتا (۲) (صحیح الجامع الصغیر ج۲ (۶۵۴۱) اور ہمیں انسان کو شکریہ قول سے بھی ادا ہوسکتا ہے اور فعل سے بھی۔
مثال کے طور پر اگر بیوی گھر میں کوئی بہت اچھا کام کرے مثال کے طور پر مہمانوں کی خاطر داری بہت اچھے طریقے سے کرے تو اس کا شکریہ بہت ہی اچھے اور منفرد انداز میں ادا کرنا چاہیے۔ جیسے کہ اُس کی پیشانی پر تقبیل یا (Kiss)کا نشان بنایا جائے اور ساتھ میں اس کا شکریہ بھی ادا کیا جائے اور اس کے کام کی خوبی اور مہارت کی بھی تعریف کی جائے۔ بعض دفعہ شکریہ فعل یا عمل کے ذریعے بھی ادا کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر چھوٹی سی پکنک پر باہر جایا جائے یا گھر سے باہر چائے کی دعوت کی جائے یا کسی ریسٹورنٹ دعوتی دی جائے یا اس کے لیے کوئی خاص تحفہ خریدا جائے یا کوئی بھی فعل میں جس کے ظاہر ہوتا ہو کہ فلانے کام پر شوہر بیوی کا شکرگزار اور احسان مند ہے، اس طرح کے شکریہ بیوی کو شوہر کا کام کرنے میں جو بھی تھکاوٹ ہوئی وہ اسے بھول جاتی ہے۔

لیکن جس بیوی کا شکریہ نہ ادا کیا جائے تو نہ تو اس کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور نہ وہ اگلی مرتبہ شوہر کی خدمت کرنے یا اس کا کوئی کرنے میں دلچسپی دکھاتی ہے بلکہ ہر کام میں وہ ایک عام انسان کی طرح ہوتی ہے اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ہوسکتا ہے کہ بیوی کو شوہر کے اس کام یا عمل میں دلچسپی نہ رہے اور جب بھی کوئی ایسا موقع آئے وہ اپنے آپ کو بیمار ظاہر کردید یا اور کوئی بہانہ بنا دے کیونکہ وہ کسی ایسے انسان کے لیے کام نہیں چاہتی جو اس کی محنت اور اس کے کام کی قدر نہیں کرتا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۸۔ بعض خطائوں سے درگذر کرنا:
شاعر کہتا ہے ترجمہ : اگر تم ہر چیز میں اپنے دوست کو تنقید و ملامت کا نشانہ بنائو گے تو کوئی بھی تمہاری تنقید سے محفوظ نہیں رہے سکے گا۔

پس یا تو اکیلے رہو یا پھرے دوست کے ساتھ وہ ایک بار غلطی کرے گا لیکن اگلی بار غلطی کرنے سے گریز کرے گا۔
اگر تم گدلے پانی کو بار بار نہیں پیوگے تو پیاسے ہی رہو گے اور لوگوں میں سے کون ایسا ہے جس کا مشرب (پانی پینے کی جگہ) صاف ہو۔

ہر انسان جو محنت کرتا ہے اور کام کرتا ہے اس سے غلطی کا صدور ممکن ہوتا ہے۔ غلطی کرنا ہی کام اور محنت کی دلیل ہے اور چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو نظر انداز کرنے سے کام پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ بلکہ یہ استاد کی ذہانت اور اس کی حکمت و دانائی ک دلیل ہے۔ اور بیوی کی غلطیوں کو درگذر کرنا اس کی محبت اور اس کے احترام کی دلیل کیونکہ انسان کو ہر غلطی میں نہیں ٹوکا جاتا اور نہ ہی غلطی کرنے والا ہر غلطی پر محاسبہ کیا جاتا ہے بلکہ بعض غلطیوں کو معاف بھی کیا جاتا ہے لیکن بعض غلطیاں ایسی ہیں جن پر ٹوکنا اور منع کرنا ضروری ہے جیسے کہ وہ غلطیاں جو بار بار کی جاتی ہوں یا وہ غلطیاں جو اس سے زیادہ بڑی غلطیوں کی طرف راہ نمائی کرتی ہوں یا ایسی غلطیاں جو شرعی طور پر قابلِ مؤاخذہ ہوں لیکن یہ بات دھیان میں رہے کہ غلطی کرنے والے کو حکمت، دانائی اور اچھے اسلوب کے ساتھ سمجھایا جائے اور اس کی غلطی پر ٹوکا جائے۔

۹۔ کھیل تفریح وغیرہ کے لیے کچھ وقت الگ کرے:
مناسب ہے کہ شوہر کچھ وقت ایسا مقرر کرے جس میں وہ اپنی بیوی اور بچوں کے ہنس کھیل سکے۔ مثال کے طور پر ان کو کوئی کھلونا وغیرہ لادے جس سے وہ کھیل سکیں یا آپس میں کوئی معلوماتی مقابلہ جس میں ایک دوسرے میں وال کرے اور اس کا امتحان لے۔ اور ایک پرچے پر حاصل کردہ نمبر لکھتا جائے پھر آخر میں دیکھے کہ اس نے زیادہ نمبر حاصل کیا یا پھر شعر و شاعری کا مقابلہ وغیرہ اور عقلمند شوہر وہی ہوتا ہے جو اس قسم کے کھیل یا مقابلے وغیرہ کروا کے اپنی بیوی اور بچوں کو خوش کرتا ہے اور گھر کی فضا سے اکتاہٹ اور بوریت کی دھند کو دور کرکے اس کی جگہ خوشیاں مسرتیں بکھیرتا ہے۔

اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ دوڑے۔ چنانچہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ ایک سفر میں نکلی اس وقت میں لڑکی تھی اور دبلی پتلی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے کہا آگے آگے ہوجائو چنانچہ لوگ آگے آگے ہوگئے پھر آپ نے مجھ سے کہا آئو دوڑ لگائیں چنانچہ میں نے آپ کے ساتھ دوڑ لگائی اور میں جیت گئی پھر جب میں تھوڑی موٹی ہوگئی اور یہ واقعہ بھول گئی تو ایک سفر میں آپ نے لوگوں سے کہا آگے بڑھو چنانچہ لوگ آگے آگئے پھر آپ نے مجھ سے فرمایا: آؤ دوڑ لگائیں چنانچہ میں نے آپ کے ساتھ دوڑ لگائی اور آپ مجھ سے جیت گئے۔ آپ ہنسنے لگے اور فرمانے لگے یہ اس ہار کا بدلہ ہے۔ (۱) مسند احمد (۲۵۷۴۵)

تو ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہؓ کے ساتھ دوڑ لگائی تاکہ وہ خوش ہوں اس طرح کے مقابلوں سے گھر کی فضا خوشگوار ہوتی ہے اور میاں بیوی کے درمیان محبت بڑھتی ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۱۰۔ بچوں کے سامنے لڑائی جھگڑے سے پرہیز کرنا۔
بعض دفعہ میاں بیوی کے درمیان کسی بات پر یا گھر میں کسی غیر مناسب واقعے یا حرکت پر بحث چھڑ جاتی ہے۔ بعض دفعہ یہ بحث پرسکون ماحول میں ہوتی ہے۔ لیکن بعض دفعہ اس میں شدت بھی آسکتی ہے۔ اس قسم کی بحث میں مندرجہ ذیل باتوں کو خیال رکھنا چاہیے۔
ا۔ ایسی بحث بچوں کے سامنے نہ کی جائے کیونکہ اس کے گھر سے مضر اثرات پڑتے ہیں مثال کے طور پر

۱۔ فیملی میں ایک طرح کا تنائو اور کھچاؤو پیدا ہوجاتا ہے۔
۲۔ بچوں کی نظروں میں میاں بیوی میں کسی ایک کی قدرو قیمت گھٹ جاتی ہے۔
۳۔ بچوں کی نگاہیں سکون کی تلاش میں تیسرے شخص کو تلاش کرنے لگتی ہیں اور ہوسکتا ہے کہ یہ تیسرا شخص قابل اعتبار نہ ہو۔
۴۔ کسی بات یا حرکت کی بنا پر بچے میاں بیوی میں سے کسی کو بھی ناپسند کرنے لگتے ہیں۔
۵۔ گھر کے اندر جاری تربیت کے عمل میں رکاوٹ آجاتی ہے اور اس سے حاصل ہونے والا فائدہ کم ہوجاتا ہسے۔

ب۔ بحث کے دوران گالم گلوچ یا ایک دوسرے سے مذاق اڑانے سے پرہیز کریں،
بعض شوہر بحث کرنے کے طریقے سے لاعلم ہوتے ہیں اور بیوی کو اپنے موقف پر قائل کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں چنانچہ ایسے لوگ جب بحث شروع کرتے ہیں تو آپ کو ایسے بے ہودہ الفاظ سنائی دیتے ہیں (تم احمق ہو اور تمہیں رتی بر سمجھ نہیں ہے) (جاہل عورت!!) کب تک یہ حماقتیں کرتی رہو گی) وغیرہ قسم کی نامناسب باتیں جو الجھن کو سلجھانے کے بجائے اسے مزید پیچیدہ بنا دیتی ہیں۔ عائشہؓ سے روایت ہے ک آپ صلی اللہ علیہ وسلم منہ سے برے اور فحش (۱) (فحش نہ طبیعت میں نہ قول میں نہ فعل میں چاہے کم ہو چاہے زیادہ ) الفاظ نہیں نکالتے تھے اور نہ بازاروں میں چیختے تھے اور نہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے تھے مگر آپ معاف فرماتے اور درگذر فرماتے تھے (۲) (سنن ترمذی کتاب البر و الصلۃ حدیث (۲۰۱۶) )

ذرا غور کیجیے اللہ مجھے اور آپ کو ہدایت دے آپ کی یہ تعریف کون بیان کر رہا ہے آپ کے سچے دوست ابو بکر صدیق کی بیٹی اور آپ کی سچی بیوی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دکھ سکھ خوشی، ناراضگی بحث و مباحثے ہر طرح سے آپ کے ساتھ رہی۔ اسی لیے وہ آپ کی عادات و شمائل سے بخوبی واقف تھیں اس لیے انھوں نے اپنا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
ج۔ اگر بیوی نے اچھے وقت میں شوہر کو کوئی اپنا راز بتایا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے اس کے خلاف نہ استعمال کرے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کی بیوی شوکر اپنی کسی غلطی کے بارے میں بتاتی ہے یا گھر والوں کے میں کوئی بات راط کے طور پر بتاتی ہے۔ جیسے کہ اس نے کسی وقت والدین سے بدتمیزی کی تھی اور اس سے پورا قصہ بیان کرتی ہے۔ پھر بعد میں میاں بیوی کے درمیان کسی بات پر گرم سے گرم گرما بحث چھڑ جاتی ہے اور بیوی کی آواز بلند ہوجاتی ہے۔ اس وقت شوہر اس سے کہتا ہے؟ تم نے تو اپنے باپ کے سامنے آواز بلند کی تو میرے سامنے کیسے نہیں کرو گی۔ بدتمیزی کرنا تمہاری پرانی عادت ہے۔ شوہر کو چاہیے کہ اس قسم کا طریقہ اختیار نہ کرے تاکہ بعد میں بیوی کا اعتماد اس پر قائم رہے اور وہ بغیر کسی خوف کے ہر بات شوہر کو بتائے۔

د۔ حد سے زیادہ چیخنے چلانے سے گریز کرنا۔
بعض شوہر جنہیں بحث کرنے کے آداب و سلیقہ کا علم نہیں ہوتا بات شروع کرتے ہی چیخنا چلانا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کے گال آواز کی شدت سے سرخ ہوجاتے ہیں۔ ایسا اسلوب قطعاً فائدہ نہیں دیتا اور نہ ہی اس کا نتیجہ اچھا نکلتا ہے بلکہ اس کے نقصانات اس کے فوائد سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔

۱۱۔ طلاق یا دوسری شادی کو دھمکی کے طور پر استعمال نہ کریں۔
اللہ تعالیٰ نے طلاق کو ایک حل کے طور پر شروع فرمایاہے اور طلاق اس وقت دی جاتی ہے جب پانی سر سے گذر جاتا ہے اور صلح صفائی کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔ اس طرح طلاق کے دونوں میاں بیوی کو آرام مل جاتا ہے۔ اسی طرح سے ایک سے زیادہ شادی کرنے کا معاملہ ہے۔ طلاق یا تعددِ زواج کی دھمکی کے طور پر استعمال کرنا اور بیوی کو اس کے ذریعے نفسیاتی عذاب سے دوچار کرنا قطعاً درست نہیں۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (طلاق دو مرتبہ ہے پھر اس کے بعد یا تو اپنے پاس ٹھہرائو یا اچھی طرح سے رخصت کردو)(۱) (سورۃ بقرہ آیت ۲۲۹)

ایک اور جگہ فرمایا: (عورتوں میں سے جو تمہیں پسند آئیں ان سے نکاح کرو دو دو تین تین چار چار ) (۲) (سورۃ نساء ۲)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ دوسری تیسری اور چوتھی شادی کرنا شرعاً جائز فعل ہے اور اس میں کسی انسان کی رائے یا خیال کی کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن اسے بیوی کے لیے دھمکی کے طور پر استعمال کرنا قطعاً غلط ہے۔ میں آپ کو یہاں ایک مثال کے ذریعے سمجھانا چاہوں گا کہ عورتوں کو دھمکی سے کس قدر پریشانی لاحق ہوتی ہے اگر ایک انسان یا ملازم کسی مدیر کے تحت کام کرتا ہو اور یہ مدیر ہر روز اسے نوکری سے نکالنے کی دھمکی دیتا ہو اور جب بھی دونوں کے درمیان کوئی جھگڑا ہو مدیر اسے نکال باہر کرنے کی دھمکی دے تو ذرا سوچیے ملازم کی کیا نفسیاتی حالت ہوگی؟
٭ کیا وہ آرام و سکون کے ساتھ کام کرپائے گا۔
٭ کیا وہ آسانی سے کمپنی کو فائدہ پہنچا سکے گا؟
٭ کیا اس کے تمام کاموں اور تصرفات پر نوکری سے نکالے جانے کا خوف نہیں چھا جائے گا؟
٭ کیا جب بھی وہ مدیر کی دھمکی یاد کرے گا اس سے کام میں غلطیاں سرزد نہیں ہوں گی ہے طلاق اور دوسری شادی کی دھمکیاں، بیوی کو پریشان کر سکتی ہیں اور اس کی سوچ و فکر کو متاثر کر سکتی ہے جس کی وجہ سے اس کے گھریلو کام کاج اور بچوں کی تربیت میں خلل پیدا ہوسکتا ہے جس کے نتائج خطرناک نکل سکتے ہیں اور ان تمام نتائج کا اصل ذمہ دار وہ شوہر ہوتا ہے جس نے طلاق اور دوسری شادی کی دھمکیاں دے کر بیوی کے ذہن کو منتشر کر دیا ہوتا ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۱۲۔ ایام حیض کے دوران شوہر بیوی کے مزاج کی تبدیلی کو سمجھے اور خیال رکھے۔
ذرا تصور کریں کہ اگر آپ کے ہاتھ پر معمولی سا زخم آجائے اور اس زخم سے ساتھ دن تک خون نکلتا رہے اور آپ ہر روز اس خون کو نکلتا دیکھتے رہیں تو آپ کی کیا حالت ہوگی؟ کیا آپ ہنستے کھیلتے یہ دن گذرایں گے؟ کیا بے فکری سے ادھر ادھر گھومتے پھریں گے یا آپ کو غصہ آئے گا کہ یہ کیا ہوگیا اور آپ زخم کے علاج پر توجہ دیں گے؟ ایسے وقت میں آپ کی طبیعت پر سکون ہوگی کہ اُس میں ہلچل مچی ہوگی کیا زخم لگنے سے پہلے جس طرح آپ کی طبیعت ہشاش بشاش تھی زخم لگنے کے بعد بھی ویسی ہی رہے گی؟ کیا آپ اپنی ذمے داریاں اسی تندہی سے نبھاتے رہیں گے جیسا کہ پہلے نباہ رہے تھے یا اس میں فرق آئے گا؟

عورت اپنی ایک تہائی عمر نیم بیمار حالت میں گذارتی ہے ہر مہینے میں اسے ماہوار کا خون آتا ہے جو اس کی طاقت اور قوت کو کافی حد تک سلب کر لیتا ہے اور کبھی اس خون کے ساتھ پیٹ ، کمر اور سینے میں بھی درد ہوتا ہے اور کبھی نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ ڈاکٹر کو دکھانا پڑ جاتا ہے۔ اسی طرح سے جب عورت امید سے ہوتی ہے تو ۹ مہینے وہ بچے کو پیٹ میں لیے گذارتی ہے پھر ولادت کے بعد ۴۰ دن حالتِ نفاس میں گذارتی ہے اور ان دونوں مدتوں کے درمیان اسے دوسری بیماریاں یا فکر یں بھی لاحق ہوسکتی ہیں جو دیگر لوگوں کو ہوتی ہیں۔ ایسے دنوں میں اس کے مزاج میں تبدیلی واقع ہوجاتی ہے اور اس کی ذہنی و نفسیاتی حالت قدرے مختلف ہوجاتی ہے۔ وہ پہلے چپ جیسا کام نہیں کر پاتی۔ ایسی صورتحال میں شوہر کو چاہیے وہ اس کا خیال رکھے۔ مثال کے طور پر اگر وہ زیادہ سوگئی یا کوئی چیز تیار نہیں کرسکی تو شوہر اسے آرام کا موقع دے اور اس سے کام کرنے کو نہ کہے۔

حیض و نفاس میں اللہ تعالیٰ نے عورت کی دینی ذمے داریاں کم کر دی ہیں چنانچہ حیض و نفاس والی عورت نہ نماز پڑھتی ہے اور نہ روزہ رکھتی ہے اور طبعی حالت میں لوٹنے کے بعد بھی اس کو صرف روزے کی قضا کا حکم جبکہ وہ نماز قضا نہیں کرتی۔

اس لیے شوہر کو بھی چاہیے کہ وہ ان حالتوں میں اپنی بیوی کا خیال رکھے اور اس سے وہ کچھ کرنے کو نہ کہے جو وہ حالتِ صحت میں کرتی تھی بلکہ اس کا خیال رکھے اور اس کی حتی الامکان مدد کرے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۱۳۔ حسنِ ظن:
ارشاد باری تعالیٰ:
اے ایمان والو بہت سے گمانوں سے بچو کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں (۱) (سورۃ حجرات: آیت ۱۲)

اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو بہت گمان کرنے سے منع فرما رہا ہے۔ گمان کا مطلب ہے عزیز و اقارب اہل و عیال اور لوگوں سے خیانت اور تہمت کیونکہ اس میں سے بعض گناہ ہے اس لیے احتیاطی طور پر بہت سے گمان سے بچا جائے (۲) (تفسیر ابن کثیر ج۴ ص ۳۴۷)

عمر بن خطابؓ فرماتے ہیں: اپنے مومن بھائی کے منہ سے ہر نکلے ہوئے لفظ کے اچھے معنی لو جب تک اس میں اچھائی کے مطلب نکلتے ہوں۔

علماء فرماتے ہیں یہاں ظن سے مراد متمت ہے جب پر کوئی قرینہ دلالت یا اشارہ نہ کرتا ہو۔ برے گمان کے متعلق آپ سے صحیح طور پر ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: گمان سے بچو کیونکہ گمان جھوٹی ترین بات ہے اور نجس مت کرو اور نہ کسی کی ٹو میں رہو اور نہ آپس میں حسد کرو اور نہ ایک دوسرے بغض رکھو اور نہ الگ الگ ہو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن کر رہو۔ (۳) (اسیر التفاسیر او کلام العلی بقدیر/ ابو بکر الجزازی ج ۵ / ص ۹۲۰)

اللہ تعالیٰ معاشرے کو امن اور سلامتی کا گہوارہ بنانا چاہتا ہے ایسے معاشرے میں نہ بدگمانی ہوتی ہے نہ حسد نہ بغض کیونکہ یہ تمام ناسور نفرت اور عداوت کو جنم دیتے ہیں اور اس بناء پر شوہر کو بھی چاہیے کہ اپنی بیوی سے حسنِ ظن رکھے کیونکہ ہر لفظ کے معنی و مطلب غلط نہیں ہوتے اور نہ ہی ہر حرکت کا مقصد برا ہوتا ہے اور ضروری نہیں کہ جو انسان دیکھ رہا ہو وہی حقیقت بھی ہو بلکہ شوہر کو چہایے کہ اپنی عقل کا استعمال کرے اور حماقت سے کام نہ لے کہ یا تو حسنِ ظن کے بہانے آنے والی لے اجنبی کے رسی بالکل ہی ڈھیلی چھوڑ دی یا بدگمانی کے بہانے اپنے گھر والوں کا جینا مشکل کر دیا۔ شوہر کے چاہیے کہ اگر کوئی مشکوک بات سے یا اسے نظر آئے تو اس کی تحقیق کرے اور اس کے بارے میں کامل اطمینان کرے اور اس کے پاس اپنے دعوے پر واضح دلیل موجود ہو۔

مراجعہ بخاری کتاب الصلاۃ و لعان۔ ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک اعرابی آیا اور بولا: اے اللہ کے رسول! میری عورت نے کالے بچے کو پیدا کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے پاس اونٹ ہیںْ اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: ان کا رنگ کیا ہے، اس نے کہا: لال، آپ نے فرمایا: کیا اس میں کوئی کالے رنگ کا بھی اونٹ ہے۔ اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایاں: یہ کہاں سے آیا، اس نے کہا میرے خیال میں کسی رگ کا اتر آگیا۔ آپ نے فرمایا: ہوسکتا ہے کہ تمہارے بیٹے میں بھی کسی رگ کا اترا آیا ہو۔ (۱) (بخاری)

ذرا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزِ عمل ملاحظہ فرمائیں۔ کس طرح سے آپ نے اس کے شک کو دور کیا اور بیوی سے اچھے گمان رکھنے کی طرف اشارہ کیا۔ بیوی سے حد سے زیادہ بدگمانی بیوی کو بد چلنی پر مجبور کر سکتی ہے اور ہوسکتا ہے جو گمان شوہر اس سے کر رہا ہے بیوی فعلاً کسی کا ارتکاب کرے یا ممکن ہے کہ شوہر کے مسلسل الزامات اور طعنوں کے سبب وہ خوفزدہ رہے اور شوہر کی بدگمانی کے خوف سے کوئی کام بھی ٹھیک طریقے نہ کرپائے۔ ایسی صورتحال میں میاں بیوی دونوں میں بیکاری اور اکتاہٹ سے پر زندگی گذارتے ہیں جس کا خاتمہ عموماً طلاق پر ہی ہوتا ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۱۴۔ ایک سے زیادہ شادیوں کی صورت میں بیویوں کے درمیان عدل و انصاف ارشاد باری تعالیٰ ہے عورتوں میں سے جو بھی تم کو پسند آئیں ان سے نکاح کرو۔ دو تین اور چار پھراگر تمہیں خوف ہو کہ ان کے درمیان عدل نہیں کر پاؤ گے تو ایک ہی کافی ہے یا پھر تمہاری لونڈیا (۱) (سورۃ نساء آیت :۲)

فإلا فقہم ألا تعدلو فواحدہ: الایۃ کی شرط کیوں لگائی کیونکہ اگر متعدد بیویاں رکھتے ہوئے شوہر نے ان کے درمیان عدل سے کام نہ لیا تو ایسے شوہر نے دنیا و آخرت سے نقصان اٹھایا۔ دنیا میں اس لیے کہ مصیبتیں اور مشکلات کا شکار کیا پھر خمیر کی ملامت اور آخرت اس لیے کہ ایسا شخص آخرت میں ایسے حال میں آئے گا کہ اس کے جسم ک ایک حصہ ایک طرف جھکا ہوا ہوگا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جس شخص کی دو عورتیں ہوں اور وہ ان میں سے کسی ایک کی طرف مائل ہوجائے تو قیامت کے دن ایسی حالت میں آئے گا کہ اس کے جسم کا ایک حصہ جھکا ہوا ہوگا (۲) (أحمد سنن أربعہ سند صحیح ہے ارواء التعلیل میں البانی نے صحیح کہا (۳۰۱۷) )

یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ شوہر پر بیویوں کے درمیان عدل قائم کرنا فرض ہے اور کسی ایک کی طرف مائل ہونا حرام ہے۔ (۳) (سبل السلام شرح بلوغ المرم۔ شیخ محمد بن اسماعیل الصنعام)

نیز عدل سے مراد یہاں پر ان کے ساتھ رہنے، ان کو نان نفقہ دینے اور ان کے گھر مراد ہیں لیکن اگر کسی بیوی سے قلبی محبت زیادہ ہو تو وہ قابلِ ملامت نہیں۔

عائشہؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات میں تقسیم فرماتے اور برابری کرتے اور فرماتے: اے اللہ یہ تقسیم ان چیزوں میں سے جس کا میں مالک ہوں پس جس چیز کا تو مالک ہے اور جو میرے بس میں نہیں اس پر مجھے ملامت نہ کر۔ ۴۰) (ابو دائود، ترمذی، نسائی، جامع الاصول کے محقق عبد القادر ارنائوط نے حدیث کو صحیح کہا)۔

دل کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے اور محبت انسان کے ہاتھ میں نہیں بلکہ وہ بعض خصوصیات کی بنا پر ہوجاتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کسی بیوی میں کوئی ایسی خوبی ہو جو شوہر کو پسند ہو اور وہ قلبی طور پر دوسری بیویوں کی نسبت اس کی طرف زیادہ مائل ہو۔ یہ میلان ایسا ہے جو شوہر کے بس میں نہیں اس لیے وہ اس میلان پر قابلِ ملامت نہیں ہے لیکن اگر وہ جانتے بوجھتے کسی بیوی کے ساتھ زیادہ وقت گذارے یا اسے زیادہ تحفے تحائف دے یا بہترین رہائش مہیا کرے تو یہ عدل کے منافی اور قابلِ ملامت و مذمت فعل ہے۔

عقلمند اور امانت دار شوہر وہ ہوتا ہے جو جس بیوی کے پاس جاتا ہے وہ سمجھتی ہے یہ شوہر سے زیادہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔ اس رویے سے وہ خود بھی خوش رہتا ہے اور اس کو بھی خوش کرتا ہے۔
 
Top