جیسے کہ ابھی گزرا کہ حکایت میں ہے: مشورے کرنے والا اپنے کے لئے پے نادم نہیں ہونا، مشورے کرنے کے انسان کو معاملات و امور کے نئے چلو پتہ چلتے ہیں اور اس کی نظر ان پر مزیدگہری ہوجاتی ہے۔ اس لئے بہتر ہے کہ استخارہ کرنے کے بعد اہل عقل و علم سے مشورہ کیا جائے۔ نیز مشورہ ہر ایک کے نہیں کیا جاتا بلکہ انتہائی قریب و امانت دار لوگوں سے کیا جاتا ہے۔ چنانچہ میں نے پہلے انسان اپنے گھر میں اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے مشورہ کرتا ہے۔ چنانچہ جس لڑکی سے وہ شادی کرنا چاہتا ہے ان سے ان کے گھر کے بارے می پوچھتا ہے، ان کی دینداری کے بارے میں پوچھتا ہے ان کے گھر کے بارے میں پوچھتا ہے، ان کی دینداری کے بارے میں پوچھتا ہے ان کے گھر میں ایک دوسرے کے برتائو و سلوک کے بارے میں پوچھتا ہے تاکہ لڑکی کے بارے میں صحیح طور پے اندازہ ہوسکے۔ ایک اور بات جو یہاں قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ جس شخص نے مشورہ کیا جائے وہ اہل عقل و اہل دین میں سے ہو اور جس شخص کے بارے میں اس سے پوچھا جائے، وہ اس کے بارے میں پوری دیانت کے ساتھ سب کچھ بتا دے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس شخص نے مشورہ کیا جائے تو اس کے پاس ایک امانت رکھوالی گئی۔ (۱) صحیح الجامع الصغیر۔ البانی ج۷ (۶۷۰)
اس حدیث سے پتہ چلا کہ ہر وہ کام جس کے بارے میں مشورہ دینے والے سے پوچھا جائے، وہ کام اس کے لئے ایک امانت کی طرح ہے اس لئے وہ کسی دوھوکہ بازی کا مظاہرہ نہ کرے اور نہ کوئی چیز چھپائے۔ مشورہ دینے والے کو چاہیے کہ پوری ایمانداری کے ساتھ سوال کرنے والے کو لڑکی کے محاسن و عیوب کے بارے میں بتادے اور اسے اس بارے میں اپنی رائے کے آگاہ کرے اور کسی قسم کی خوشامد یا چاپلوسی سے کام نہ لے تاکہ مشورہ لینے والا کسی دھوکے میں نہ رہے اور علی وجہ البصیرہ رشتے کے بارے میں فیصلہ کرسکے۔