• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’آخر ہمارا مسئلہ کون حل کرے گا‘،ایک دل سوز تحریر

شمولیت
اگست 30، 2012
پیغامات
348
ری ایکشن اسکور
970
پوائنٹ
91
طالبان ہم سے بات کرنے کو تیار نہیں اور حکومت کچھ کرنے کو آمادہ نہیں۔ آخر ہمارا مسئلہ حل کون کروائے گا؟ صومالیہ کے قزاقوں کے ہاتھوں اغوا غیر سرکاری افراد کی رہائی کے لیے تو اربوں روپے ادا کیے گئے ہمارے پیارے تو سرکاری ملازمین ہیں ان کے لیے کیوں نہیں؟‘

یہ الفاظ ہیں اسلام آباد کے قومی پریس کلب کے باہر میدان میں جمع چند درجن قریبی رشتہ داروں کے جن کے پیارے اس سال عیدالفطر سے تین روز قبل یعنی پندرہ اگست کو ڈیم سے واپسی پر راستے میں اغوا کر لیے گئے تھے۔
ان افراد کے مطابق وہ احتجاج کرنے نہیں بلکہ محض حکومت کے سامنے التجا کرنے وہاں جمع ہوئے تھے۔

ایک مغوی شاہد علی کے چچازاد بلال خان کا کہنا تھا کہ ’ہم غریب لوگ ہیں۔ ہم تو اتنی رقم ادا نہیں کر سکتے جس کی مانگ طالبان کر رہے ہیں۔

اس بابت چند ہفتے قبل پشاور ہائی کورٹ نے بھی حکومت کو ان افراد کی بحفاظت بازیابی کے لیے حکم دیا تھا تاہم بات ابھی تک نہیں بنی ہے۔تاہم قبائلی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اغوا کاروں کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں۔اغوا کار نہ صرف دباؤ بڑھانے کی خاطر مغویوں کو ہلاک کرنے کی دھمکیاں دیتے ہیں بلکہ ان کی ویڈیوز بھی جاری کی گئی ہیں۔ ایک مغوی ذیشان کی والدہ کے سامنے جب مائیک رکھا گیا تو انہوں نے تیز سسکیاں اور رونا شروع کر دیا جس کے بعد سوال پوچھنے کی ہمت نہ رہی۔

بلال خان سے پوچھا کہ قبائلی علاقوں میں تو بڑی تعداد میں ملکی اور غیر ملکی اہم شخصیات اغوا ہوئے ہیں تو ایسے میں وہ کتنے پرامید ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو کچھ کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ’حکومت کو چاہیے کہ غریب کے ساتھ غریب ہو امیر کے ساتھ امیر اور بدمعاش کے ساتھ بدمعاش۔‘

اغوا ہونے والے تمام افراد کا تعلق قبائلی علاقوں سے نہیں تھا۔ کوئی ملاکنڈ تو کوئی کسی اور علاقے کا تھا۔ ملاکنڈ سے تعلق رکھنے والے کریم شاہ اپنے بیٹے کی بازیابی کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ حکومت میں گورنر خیبر پختونخوا سے لیکر سیکرٹریوں اور وزیر اعظم تک پہنچے لیکن کچھ فائدہ اب تک نہیں ہوا ہے۔

بیٹے کو ایسے علاقے میں ملازمت کی اجازت کے بارے میں سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ سب تو ان کی نوکری لگ جانے کی وجہ سے ہی خوش تھے۔ ’ہمیں کیا معلوم تھا کہ یہ ہو جائے گا۔‘
ہارون رشید
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد​
یہ الفاظ ہیں ان متاثرین کے جن کے پیارے اس زمانے کے خوارج کی زد میں ہیں۔اور وہ عالم کفر پر شریعت نافذ کرنے کے لیے اپنے گھروں سے نکلے ہیں۔
اب اس رپورٹ کو کوئی دجالی میڈیا کی رپورٹ کہے،من گھڑت کہے،تاویل کرے یا پھرفورم کا ایڈمن میری اس پوسٹ کو ڈلیٹ کر دے۔

میں اس پر اپنے کوئی بھی کمنٹس نہیں دوں گا۔
لیکن اہل فورم کو درخواست کروں گا کہ ایک بار ان غریبوں کی حالت زاراور ان کے پیاروں پر ہونے والے ظلم کو محسوس کریں اور ان کی
آواز بن کر ہر محاذ پر اہل شر اور اہل فتنہ کا رد کریں اور اسلام کو بدنام ہونے بچالیں۔
میں ایک ہی بات کہہ کر تحریر کا اختتام کرتا ہوں،باقی آپ حضرات کے سامنے ساری صورت حال ہے،سمجھ دار سمجھ جائیں گے۔
"اللہ کی قسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جہاد کا کبھی حکم نہیں دیا جو تحریک طالبان والوں نے ان بے گناہوں کے بچوں کو
اغوا کر کے تاوان لینے کی صورت میں شروع کر رکھا ہے۔"
 
Top