• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’امامتِ عظمی‘ سلفی اصول وضوابط کا بیان اور مخالفین کے شبہات کا ازالہ

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
’امامتِ عظمی‘ سلفی اصول وضوابط کا بیان اور مخالفین کے شبہات کا ازالہ

اس دنیا کو بنانے کا مقصد وحید اللہ کی عبادت ہے، اللہ تعالی کی اطاعت و فرمانبرداری میں جینے کے لیے دنیاوی وسائل و ذرائع کی ضرورت ہے،مقصدِحیات ہو یا پھر ضرورتِ زندگی ہر دو پہلوں سے اللہ اور اس کے رسول کی رہنمائی کو مدنظر رکھنا ضروری ہے، شیطان کا ہمیشہ سے یہ ہدف ہے کہ وہ لوگوں کو ہر دو میدانوں میں راہ راست سے ہٹائے، عبادت الہی سے غافل کرے، اور اللہ کے بندوں کے حقوق کو متاثر کرے۔ شیطان کے ہتھکنڈوں کو ناکام کرنے کے لیے اللہ تعالی نے انبیا ورسل بھیجے تاکہ وہ لوگوں کو اللہ کے قریب کریں اور شیطان کی پہنچ سے دور رکھیں۔
لوگوں کے دین کے لیے کیا بہتر ہے؟ اور ان کے دنیاوی مصالح و مفاسد کیاہے؟ انبیاء ورسل دونوں قسم کی رہنمائی کیا کرتے تھے، لہذا ان کی اطاعت دین و دنیا دونوں کی بہتری کی ضمانت تھی۔
اللہ اور اس کے رسول کے بعد لوگوں کے دینی و دنیاوی ہر دو قسم کے مفادات کے تحفظ کی ذمہ داری علما اور حکمرانوں پر آتی ہے۔ عالم کے پاس دلیل وبرہان کی قوت اور حکمران کے پاس سیف وسنان کی طاقت ہوتی ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جس طرح عام لوگ علما سے دور ہوئے، حکمرانوں سے بھی بدظن ہوئے، جب مسند علم اور تخت شاہی پر نااہل لوگ براجمان ہوئے تو وہی علم کی قوت اور حکمرانی کی طاقت جو لوگوں کی دین و دنیا میں بہتری کے لیے تھی، دونوں طرف فساد کا ذریعہ بن گئی۔

وهل أفسد الدين إلا الملوك وأحبار سوء ورهبانها
حق وباطل، برائی و اچھائی کی کشمکش شروع سے جاری ہے، جہاں برائی ہے، وہاں اس کی اصلاح کے لیے جدوجہد اور کوشش کرنے والے بھی ہیں، لیکن اللہ تعالی کی حکمت بالغہ ہے کہ بعض دفعہ برائی کو اچھائی میں بدلنے کے لیے دو لوگوں، یا دو جماعتوں یا دو طبقوں کا آپس میں ایسا اختلاف ہوتا ہے کہ ایک کی برائی دوسرے کے ہاں اچھائی اور دوسرے کی اچھائی پہلے کے ہائی برائی سمجھی جاتی ہے۔
اس وقت معاشرے میں دین و دنیا میں پھیلتے فساد کو دور کرنے میں بھی لوگوں کا یہی حال ہے۔
کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ خرابی کی ایک بنیادی وجہ بے دین حکمرانوں کی چاپلوسی اور ان کا خوف ہے، لہذا یہ رواج ختم ہونا چاہیے، کچھ دوسرے سمجھتے ہیں کہ حکمران کیسا بھی ہو، اس کے خلاف لوگوں میں شعور پیدا کرنا مسئلے کاحل نہیں، بلکہ مزید فساد کو بڑھاوا دینے کے مترادف ہے۔
ہر دو طبقوں نے اس موضوع پر اپنے اپنے انداز سے لکھا ہے ۔
ڈاکٹر عبد العزیز الریس حفظہ اللہ سعودیہ میں مدخلی طرزِ فکر و سوچ کے اہل علم میں نمایاں مقام رکھتے ہیں، اور آپ کا شمار دوسرے طبقے کے علما میں ہوتا ہے ، آپ نے ایک کتاب تصنیف کی ہے، جس کا عنوان ہے:’’الإمامۃ العظمی ،تأصیلات أہل السنۃ السلفین والرد على شبہات المخالفین‘‘ جس میں انہوں نے اپنے نقطہ نظر کو شدومد کے ساتھ بیان کیا ہے، اور پہلے طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے افکار ونظریات کو اعتراضات وشبہات قرار دے کر ان کا تفصیلی جواب دیا ہے ۔امامتِ عظمی سے مراد حکمرانی اور امام سے مراد حکمران ہے۔
کتاب کے صفحات کی تعداد تقریبا ساڑھے چار سو کے قریب ہے۔ جبکہ مضمونِ کتاب چھے فصلوں میں تقسیم کیا ہوا ہے ۔ سب سے پہلے امامتِ عظمی سے متعلق نو اصول بیان کیے گئے ہیں، دوسری فصل میں موضو ع سے متعلق چھیاسٹھ اعتراضات وشبہات کا ذکر کرکے، ان کی تردید کی گئی ہے۔ اور بقیہ چار فصلوں میں کچھ معاصر کتب اور مقالات پر استدراکات پیش کیے گئےہیں۔

حکمران سے متعلق نو اصول
کتاب میں ہر ہر اصول کے دلائل اور اس کی ضروری تفصیلات بھی مذکور ہیں، البتہ میں اختصار کی غرض سے صرف اصولی باتیں ذکرنے پر اکتفا کروں گا۔
(1)حکمران اورسلطان کا ہونا ضروری ہے۔ یعنی بغیر کسی حکمران اور سلطان کے رہنا خلاف شریعت ہے۔
(2) ولایت وسلطہ لذاتہ مقصود نہیں، بلکہ اصلاح دین و دنیا ، اتحاد واتفاق اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضے کے لیے اسے مشروع کیا گیا ہے۔
(3) کافر کو حکمران اختیار کرنا اور اس کی بیعت کرنا جائز نہیں،ہاں البتہ اگر مجبورا کسی کافر ملک میں رہنا پڑے تو ان کے جائز نظاموں کا احترام کیا جائے گا۔اگر کوئی حالت ِاسلام میں حکمران بنے، پھر بعد میں اس کا دائرہ اسلام سے خارج ہونا واضح ہوجائے تو اس کی بیعت ختم ہوجاتی ہے، بلکہ قدرت وطاقت ہو تو ایسے شخص کے خلاف خروج کرنا اور اسے تختہ حکمرانی سے اتارنا واجب ہے۔
(4) حکمران بننے کے لیے ضروری ہے کہ وہ شخص عادل و پاکباز مسلمان ہو، فاسق کو حکمران اختیار کرنا جائز نہیں۔ہاں البتہ اگر کوئی حکمران بننے کے بعد فسق و فجور میں مبتلا ہو جائے تو اس کے خلاف خروج کرنا جائز نہیں۔
(5۔6) حکمران کے خلاف خروج کرنا قطعا جائز نہیں، اور نہ ہی اس کو نااہل کرنے کا مطالبہ و کوشش درست ہے، چاہے وہ ظالم وفاسق اور بدعتی ہی کیوں نہ ہو۔
(7)حکمران طبقے کے عیوب اور برائیوں کو اچھالنا حرام ہے، چاہے یہ نصیحت کے نام پر ہی کیوں نہ ہو،کیونکہ اس سے ایک حرام کام یعنی خروج کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ ہاں ایسے لوگوں کے لیے دعا کرنا بعض سلف صالحین سے ثابت ہے۔
(8) حکمرانوں کو نصیحت کرنے کا صرف یہی طریقہ ہے کہ ان کے سامنے جاکر بات کی جائے، ادھر ادھر اور ان کی پیٹھ پیچھے باتیں کرنا جائز نہیں۔ یہاں یہ کہنا درست نہیں کہ جو اعلانیہ غلطی کرے، اس پر رد بھی علی الاعلان ہی ہونا چاہیے، کیونکہ اس عام قاعدے سے حکمران مستثنی ہیں۔
(9) کسی کے شرعی حکمران ہونے کی درج ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں: پہلا حکمران بعد والے کو حکمرانی سونپ دے، اہل مشورہ ملکر کسی کو حکمران اختیار کرلیں، البتہ انتخابات کے ذریعے سے حکمران اختیار کرنا شرعی طریقہ نہیں ہے، لیکن اگر کوئی منتخب ہو کر یا پھر طاقت کے زور پر تخت نشین ہوجائے تو ایسے حکمران کی اطاعت کرنا ضروری ہے۔
ان تمام اصولوں اور ان کے لیے پیش کیے گئے دلائل کی کیفیت وسیاق وسباق ملاحظہ کرنے کے لیے اصل کتا ب کی طرف رجوع کیا جائے۔
مخالفین کے شبہات اور ان کا جائزہ
یہاں سے دوسری فصل شروع ہوتی ہے ،ذیل میں اہم شبہات اور شیخ کی طرف سے دیے گئے جوابات کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے ۔
(1) حکمران کی اطاعت ہر حال میں واجب ہے، الا کہ وہ کسی معصیت اور گناہ کرنے کا حکم دے، گویا جن چیزوں میں شریعت خاموش ہے، اگر اس کام کا حاکم حکم دے تو اسے بجا لانا ضروری ہے، حاکم سے یہ مطالبہ درست نہیں کہ پہلے کسی کام کو کرنے کی دلیل قرآن وسنت سے پیش کرے، بلکہ صرف اتنا کافی ہے کہ حکمِ حاکم خلافِ شریعت نہ ہو۔یہاں مخالفین ابن تیمیہ کے بعض اقوال کو ذکر کرتے ہیں،لیکن شیخ نے اس کا جواب یہ دیا کہ ابن تیمیہ کی یہ باتیں کتاب وسنت ، ائمہ عقائد اور خود ان کی اپنی دیگر باتوں سے مطابقت نہیں رکھتیں۔
(2) اعتراض :صحیح مسلم کی حدیث’یقودکم بکتاب اللہ‘ کے مطابق حاکم کی اطاعت تبھی تک ہوگی جب تک وہ شریعت کے مطابق حکمرانی کرتا ہے ، جب وہ شریعت سے ہٹ جائے، تو اس کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ اس کا جواب شیخ صاحب نے یہ دیا کہ یہ قید احترازی نہیں بلکہ اتفاقی ہے،دوسری بات حکم بغیر ما انزل اللہ کی بنیاد پر تکفیر ایک اختلافی مسئلہ ہے، اور اس میں تاویل کی بھی گنجائش ہے کہ یہ ہر دفعہ کفر ہی نہیں ہوتا، بلکہ فسق بھی ہوسکتا ہے، بلکہ بعض دفعہ حکمران اضطرار کی وجہ سے حکم بغیر ما انزل اللہ کو اختیار کرتا ہے، جبکہ دلی طور پر وہ راضی نہیں ہوتا ۔ لہذا ان باتوں( اختلاف، اضطرار، تاویل و احتمال) کی بنیاد پر حاکم کی تکفیر نہیں کی جائے گی، بلکہ وہ فاسق وفاجر بھی مانا جائے تو مسلمان ہی ہوگا، اور مسلم حاکم کی اطاعت سے ہاتھ کھینچنا درست نہیں، اور نہ اس کے خلاف خروج کرنا جائز ہے۔ بعض متاخرین نے فسق کی بنیاد پر حکمران کو ناہل کرنے کی بات کی ہے، جو کہ نصوص شریعت اور اجماع امت کے خلاف ہونے کی بنیاد پر قابل التفات نہیں۔
(3) اعتراض: ایک وقت میں ایک ہی حاکم ہوسکتا ہے، عصر حاضر میں درجنوں حکام کا ہونا اس بات کی دلیل ہے یہ سب شرعی حکمران اور ولاۃ الامور نہیں، بالخصوص فرمان نبوی ہے، اگر ایک ہی وقت میں دو خلیفہ کی بیعت شروع ہوجائے تو ایک کو قتل کردیا جائے۔ اور اس مسئلے پر امت کا اجماع ہے۔
اس اعتراض کے جواب میں درج ذیل باتیں کی گئی ہیں: ایک سے زائد حاکم کی ممانعت کا تعلق ایک ہی ریاست سے ہے، جبکہ ریاستیں اور ولایات زیادہ ہوجائیں، تو حاکم بھی زیادہ ہوسکتے ہیں، جیساکہ ابن تیمیہ وغیرہ نے فرمایا۔ دوسری بات یہ اصول اختیاری حالت میں ہے کہ ایک سے زیادہ حکمران منتخب نہ کیے جائیں، لیکن جب اضطرار ہو جیسا کہ اب ہے کہ مسلمانوں کے درجنوں ممالک ہیں اور وہ اکٹھے نہیں ہوسکتے توپھر ہر ملک کے لیے الگ حاکم ہی ہوگا۔ اور یہ صورت حال امت میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے زمانے سے ہی شروع ہوگئی تھی، سب جانتے ہیں کہ ابن زبیر حجاز کے والی تھے، بنی مروان شام پر قابض ہوگئے، اور مختار ثقفی وغیرہ نے عراق کی حکومت سنبھال لی تھی، الغرض جس کا جہاں زور چل گیا، علماء کرام نے اس کی اطاعت میں پس و پیش نہیں کیا، کبھی کسی نے نہیں کہا کہ چونکہ اب مسلمان ایک ہی خلیفہ کے تحت نہیں، لہذاکسی کی اطاعت نہیں کی جائے گی، اور وہ حدیث جس میں ’الامیر الاعظم‘ کی اطاعت کی بات ہے، وہ ضعیف ہے۔ معترضین اس سلسلے میں امام احمد کا بھی قول پیش کرتے ہیں، جو کہ قابل استدلال نہیں۔ حیرانی کی بات ہے کیا ایسے لوگ بلا امیر جاہلیت کی موت مرنا چاہتے ہیں؟
(4)امام ابن حزم نے الفصل فی الملل والنحل میں شد ومد کے ساتھ اس موقف کو بیان کیا کہ حاکم کی بے راہ روی ، ظلم و ستم اور منکرات پر خاموشی قطعا درست نہیں، اور نہ ہی یہ شارع حکیم کا مقصد ہے، اس سلسلے میں وارد نصوص پر انہوں نے تفصیلی کلام کیاہے۔ شیخ ریس صاحب نے ابن حزم کے تمام استدلالات وشبہات ذکر کرکے ان کا رد پیش کیا ہے ۔
(5) حاکم کا قرشی ہونا ضروری نہیں ، اس کے جواب میں شیخ نے ثابت کیا کہ قرشی ہونا حاکم کے لیے بنیادی شرط ہے، البتہ اگر کوئی غیر قرشی قوت بازو سےغلبہ حاصل کرلیے تو اسے حکمران ماننا ضروری ہے۔
(6) قرطبی وغیرہ کی بات سے استدلال کیا جاتا ہے کہ حاکم کا ’عالم‘ ہونا ضروری ہے،غیر عالم حاکم کی اطاعت نہیں ہوگی۔ جبکہ یہ بات درست نہیں، حاکم کے عالم ہونے کی شرط بلا دلیل ہے۔ غیر عالم حاکم معصیت کا حکم نہ دے تو ماننا ضروری اور اگر عالم حاکم بھی معصیت کا کہے تو اطاعت نہیں ہوگی۔
(7) حاکم متغلب کی اطاعت ضروری نہیں، اسی طرح جواز خروج کے متعلق کئی ایک شبہات و اعتراض پیش کیے گئے، جن میں خلفا راشدین ودیگر صحابہ کرام اور ائمہ اربعہ سے استدلال کیا گیا۔شیخ نے ان سب کا تفصیلی جواب پیش کیا ہے ۔
(8) ایک شبہہ یہ بھی ہے کہ حاکم کی اطاعت اسی کے لیے ضروری ہے جس نے براہ راست اس کی بیعت کی ہو، جس نے بیعت ہی نہیں کی، اس کے لیے اطاعت کیوں ضروری ہوگی؟ بقول شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ یہ شیطانی شبہہ ہے،یہ بات بدیہی ہے کہ بیعت سے مراد اہل حل وعقد اور ذمہ داران کا بیعت کرنا کافی ہے، جیسا کہ خیر القرون میں بھی اسی پر عمل تھا، جب کسی ملک کے بڑے کسی کو حکمران مان لیں، تو وہاں موجود چھوٹے بڑے سب کو اس حکمران کی اطاعت کرنا ضروری ہے۔
(9) بعض لوگ کہتے ہیں کہ حکمرانی حاکم و محکوم کے درمیان عقد کا نام ہے، طرفین میں سے کوئی بھی اس عقدپر راضی نہ ہوگا، یا اس کے تقاضے پورے نہ کرے گا، تو یہ بالکل اسی طرح فاسد ہے، جیساکہ فریقین کے اختلاف کے وقت خرید وفروخت کے معاملات پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ پاتے۔ بعض کہتے ہیں کہ حاکم تو اصل میں عوام کا وکیل یا اجیر ( مزدور ) ہوتا ہے،عوام جب چاہیں، اسے ختم کرسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ابو مسلم الخولانی کا قصہ بھی بیان کیا جاتا ہے، وہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہیں ’السلام علیک أیہا الأجیر‘ کہہ کر مخاطب کیا۔
شیخ صاحب فرماتے ہیں کہ حاکم و محکوم کے متعلق قرآن وسنت کی نصوص اس فلسفہ بازی اور قیاس آرائی کے بالکل خلاف ہے، لہذا اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ اور ابو مسلم الخولانی والا واقعہ سندا ضعیف ہے، اگر درست بھی ہو تو اجیر سے مراد عوام کا نہیں، بلکہ اللہ کی طرف سے اجیر مراد ہوگا، جیساکہ ابن تیمیہ وغیرہ نے یہ توجیہ فرمائی ہے۔ یہ درست ہے کہ حاکم یا محکوم میں سے جو بھی اپنے حقوق ادا نہ کرے گا گناہ گار ہوگا۔
(10) اعتراض: فاسق حکمران کے خلاف خروج کرنا یا اس کا جواز سلف صالحین کی ایک جماعت سے ثابت ہے، لہذا قائلین خروج کو اہل سنت سے نکالنا درست نہیں،کم ازکم مسئلہ کو مختلف فیہ سمجھتے ہوئے فریق ثانی کو رعایت دینی چاہیے۔ شیخ نے اس کے درج ذیل جوابات دیے ہیں: پہلی بات یہ مسئلہ پہلے اختلافی تھا، لیکن خروج کے مفاسد دیکھ کر بعد میں تمام امت کا اس کی حرمت پر اجماع ہوگیا تھا، چنانچہ ابن تیمیہ، ابن مجاہد، نووی اور ابن حجر وغیرہ علماء نے حرمت خروج پر اجماع نقل کیا ہے، اور اس مسئلہ کو کتب عقائد میں ذکر کرتے ہوئے مخالفین کو بدعتی شمار کیا گیا ہے۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے متعلق فرماتے ہیں: ایک تو صحابہ کرام اور اس وقت کے علماء نے انہیں اس خروج سے منع کیا تھا، دوسری بات حضرت حسین رضی اللہ عنہ سمجھتے تھے کہ انہوں نے یزید کی بیعت کی ہی نہیں ، لہذا ان کے اس فعل سے خروج کی دلیل لینا درست نہیں۔ تیسری بات حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے خود لوٹنے کی خواہش کی اور یزید کی بیت پر رضامندی کا اظہار کیا، لہذا ’رجوع حسین‘ کے بعد اس حادثے سے استدلال درست نہیں۔
حضرت عبد اللہ بن زبیر کے فعل کو بھی خروج نہیں کہا جاسکتا ، بلکہ انہوں نے حاکم وقت کی بیعت کرلی تھی، لیکن جب معاویہ بن یزید بن معاویہ کی موت ہوئی، تو انہوں نے خود خلافت کا اعلان کردیا، اور لوگوں نے جوق در جوق ان کی بیعت کرنا شروع کردی، سوائے شام یا اردن کے تمام علاقوں کے مسلمان ان کی بیعت میں آگئے تھے، اور انہیں امیر المؤمنین کہا جاتاتھا، ایسی صورت حال میں انہیں ’خروج‘ کاالزام دینا درست نہیں۔
رہا ابن اشعث کے ساتھ ملکر بہت سارے لوگوں کا حجاج کے خلاف خروج تو اس سے بھی کوئی خیر برآمد نہیں ہوئی، بہت سارے مارے گئے، جو باقی بچے عمر بھر ندامت سے چھٹکارا حاصل نہ کرپائے۔
(11) بعض لوگ کہتے ہیں کہ خروج کا مسئلہ مصالح و مفاسد سے جڑا ہوا ہے، اگر مصلحت راجح ہو تو پھر جواز خروج پر کوئی قدغن نہیں لگانی چاہیے۔ شیخ صاحب نے اس کا جواب دیا ہے کہ خروج کی حرمت میں نصوص واضح ہیں، جنہیں ظن وتخمین سے چھوڑنا درست نہیں، دوسری بات خروج کے جتنے بھی واقعات پیش آئے، ان میں اصلاح کم اور فساد زیادہ ہوا، جیسا کہ ابن تیمیہ وغیرہ نے اس کی وضاحت کی ہے، واقعہ حرہ، ابن اشعث کا خروج، اور منصور کے خلاف خروج اس کی واضح مثالیں ہیں۔
(12) بعض لوگ فرقہ خوارج اور اہل سنت میں سے خروج کرنے والوں میں فرق کرتے ہیں، حالانکہ یہ درست نہیں کیونکہ ان لوگوں کے ہاں خارجی کا مفہوم واضح نہیں۔ خارجی ہر اس شخص کو کہا جائے گا جو معصیت کی بنا پر تکفیر کرے، چاہے وہ ہر گناہ کو باعث تکفیر سمجھے یا پھر کسی ایک گناہ کی وجہ سے ہی تکفیر کا قائل ہو۔بلکہ اگر کوئی خروج میں عملی طور پر شریک نہ بھی ہو، لیکن یہ عقیدہ رکھے تو وہ بھی خارجی شمار ہوگا، ایسے لوگوں کو ’ خوارج قعدیہ‘ کہا جاتا ہے۔ گویا جس طرح خارجیوں کو قتل کرنے کا حکم ہے، آج بھی اگر کوئی خروج کا فاعل یا قائل ہو تو اسے قتل کرنا درست ہے! بلکہ اسلامی ریاست میں اگر کوئی بھی شخص فتنہ و فساد اور شر انگیزی کا باعث بن رہا ہو ، اور توبہ اور اصلاح کی امید نہ ہو تو فتنہ ختم کرنے کے لیے اسے قتل کرنا جائز ہے۔
(13) مظاہرات اور دھرنے جائز ہیں، کیونکہ یہ خروج نہیں بلکہ اظہار رائے کا ایک طریقہ ہے۔
شیخ صاحب نے جواز مظاہرات کو درج ذیل اسباب کی بنیاد پر حرام کہا ہے: یہ حاکم کے ظلم و ستم پر صبر کے خلاف ہے۔ حاکم کی اصلاح کے لیے شرعی طریقہ نہیں ہے۔ یہ ایسی بدعت ہے جو خیر القرون میں اختیار کی جاسکتی تھی، لیکن باوجود اسباب کے اسے اختیار نہیں کیا گیا۔ مظاہرات امن وامان کو خراب اور فساد وشرانگیزی عام کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ مظاہرات کی حرمت کے متعلق شیخ کی مستقل تصنیف اور تقریر بھی ہے۔
(14) امام احمد بن نصر الخزاعی نے واثق کے خلاف خروج کیا تھا، امام احمد وغیرہ ائمہ نے ان کی تعریف کی تھی، حالانکہ اگر خروج کرنے والا بدعتی ہوتا تو ائمہ کرام اس کی مدح سرائی کیوں کرتے؟
شیخ نے اس کی درج ذیل تاویلات کی ہیں: احمد الخزاعی کا قتل خروج کی بنا ہو، یہ بات ثابت نہیں، انہیں فتنہ خلق قرآن میں قتل کیا گیا تھا۔ ائمہ کی مدح و نثا بھی اس بات کی دلیل ہے، اگر خروج کی سزا پائی ہوتی تو ائمہ کرام ’ شہیدِ خروج‘ کی تعریف کیونکر کرتے؟
(15) اعتراض: محمد بن سعود اور محمد بن عبد الوہاب نے بھی خلافت عثمانیہ کے خلاف خروج کیا تھا، کیا انہوں نے غلط کام کیا؟ اس کے جواب میں درج ذیل باتیں کی گئی ہیں: امام محمد بن عبد الوہاب نے اپنی تصنیفات میں خروج کی مذمت کی ہے، وہ خود کیوں خروج کریں گے؟ دوسری بات درعیہ وغیرہ کا علاقہ خلافت عثمانیہ میں آتا ہی نہیں تھا،تو اس میں قیام حکومت کو خروج کہنا کیونکر درست ہوسکتا ہے۔
شیخ ابن باز فرماتے ہیں، ہمارے مطابق محمد بن عبد الوہاب نے خروج نہیں کیا تھا، کیونکہ نجد میں ترکیوں کی کسی قسم کی ریاست و امارت موجود نہیں تھی، بلکہ چھوٹے چھوٹے علاقے اور بستیوں کے اپنے اپنے مستقل امیر تھے، ایک دوسرے کے ساتھ لڑنا جھگڑنا ان کا روز مرہ کا مشغلہ تھا، محمد بن عبد الوہاب نے نجد کے ان برے حالات کے خلاف خروج کیا تھا، نہ کہ عثمانی حکومت کے خلاف۔اس بات کی مزید تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ خلافت عثمانیہ کی طرف سے اس علاقے پر کبھی کوئی امیر یا والی مقرر کرکے نہیں بھیجا گیا، خلافت عثمانیہ کے تحت آنے والے علاقوں پر مشتمل دفاتر میں بھی نجد کا نام کہیں نہیں ملتا۔
(16) اعتراض: امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک عامل کو عبد اللہ بن عمرو بن عاص کی طرف بھیجا کہ ان سے وہط نامی جگہ لے لی جائے، حضرت ابن عمر وبن عاص اپنے ساتھیوں سمیت مسلح ہو کر مقابلہ کے لیے نکل آئے، اور حدیث پڑھی’من قتل دون عرضہ ومالہ فھو شہید‘ عامل نے امیر معاویہ کو خبر کی تو انہوں نے عامل کو واپس بلالیا، مصنف عبد الرزاق میں موجود اس واقعے سے ثابت ہوتا ہے کہ حکمران کا معارضہ کیا جاسکتا ہے۔ شیخ صاحب نے اس کا جواب دیا ہے کہ یہ صریح نصوص اور دیگر آثار صحابہ کے خلاف ہے۔

اسلامی ریاست کی نشانیاں
رائج الوقت مختلف ریاستی نظاموں سے متعلق کچھ شبہات کا جواب دینے کے بعد شیخ نے اسلامی حکومت یا اسلامی نظام کے تعارف کے طور پر سات نشانیاں بیا ن کی ہیں:
(1) نظام کتاب وسنت پر مبنی ہو، شریعت پر کوئی چیز کسی حالت میں بھی مقدم نہ ہو، اگر کافروں سے تعامل کے وقت مجبورا کچھ کرنا پڑے تو یہ تعامل بھی اہل علم کے بیان کردہ قواعد وضوابط کا پابند ہونا چاہیے۔
(2) علم شرعی اور اس کے علما کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے اور طبقہ علما کو اولیت حاصل ہونی چاہیے، البتہ سلطہ اور قوت نافذہ صرف حکمران کے پاس ہو۔
(3) معصیت سے ہٹ کر حکمران کی اطاعت کرنا ضروری ہے، اگر ظلم وستم بھی کرے تو اس پر صبر لازم ہے حتى يستريح بر أو يستراح من فاجر۔
(4) تعمیر وترقی اور نت نئی ایجادات کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے، لیکن جہاں شرعی آداب کی مخالفت ہو، معصیت کو بڑھاوا ملے ایسی ترقی اور ایجاد کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
(5) اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا، لیکن انہیں اپنے افکار ونظریات اور کفر کی نشرواشاعت کی ہرگز اجازت نہ ہو۔
(6) کافروں کے ساتھ معاشی اور تجارتی تعلقات رکھنے میں کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔
(7) اسلامی ریاست میں ڈیموکریسی اور اس فاسد نظام کے متعلقات کی کسی قسم کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔
ان سولہ سترہ شبہات و اعتراضات اور ان کے جوابات میں ان تمام باتوں کا خلاصہ آگیا ہے، جنہیں شیخ نے تفصیل کے ساتھ 66 نمبروں میں بیان کیا ہے ۔ بعض غیر اہم باتوں کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔
اس کے بعد کتاب کے بقیہ نصف حصے میں شیخ نے الإمامۃ العظمی للشیخ عبد اللہ الدمیجی پر 20 استدراکات ، پھر دکتور عبد العزیز آل عبد اللطیف کے دو مقالات پر 14 استدراکات پیش کیے ہیں، یہ رد دو طرح کا ہے، یا تو ان مصنفین کو خیانت یا اتباع الشبہات کا الزام دیا گیا ہے، یا پھر جن علما وفقہاء سے انہوں نے استدلال کیا، خود انہیں کو مسئلہ امامت عظمی میں غلط (یا بدعتی) قرار دیا گیاہے۔
تیسرے نمبر پر ایک روشن خیال مصنف حاکم عبیسان کی کتاب ’الحریۃ والطوفان ‘ پر اسی سے زائد استدراکات ہیں، اور آخر میں شیخ سلمان العودہ کی کتاب’ أسئلۃ الثورۃ‘ سے کچھ باتوں کو نمایاں کیا گیا ہے۔
اور آخر میں مصادر و مراج کی ایک طویل فہرست ہے، جن میں بہت سارے دلچسپ اور مفید کتابوں کے نام موجود ہیں۔
میرے خیال میں یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک بہترین کاوش ہے، محسوس ہوتا ہے کہ مصنف فقہی اور اصولی مباحث میں کافی گرفت رکھتے ہیں، اور اس ضمن میں کتاب کے اندر کئی ایک فوائد وفرائد بھی نظر آتے ہیں۔مضامینِ کتاب کو ترتیب نو دی جائے تو اس میں مزید اختصار اور بہتری لائی جاسکتی ہے۔
جو یہ خلاصہ پڑھ کر اصل کتاب پڑھیں گے، انہیں جہاں اصل کتاب پڑھ کر لطف آئے گا، وہیں وہ مضامین و مسائل کے تکرار سے بھی اکتائیں گے جنہیں خلاصے میں ایک ہی جگہ عرض کردیا گیا ہے۔
میں نے کوشش کی ہے کہ اختصار یا جوڑ توڑ کرتے ہوئے کسی بھی جگہ مصنف کی مراد ومقصد متاثر نہ ہونے پائے، لیکن اس کوشش میں کامیابی کا دعوی ہرگز نہیں۔
میں سمجھتا ہوں اس کتاب کو بھی اور اس میں جن دو علما یعنی دمیجی اور آل عبد اللطیف پر رد کیا گیا ہے، اس قسم کی تصنیفات کو سب نوجوانوں کو پڑھنا چاہیے، اور ’سیاست شرعیہ‘ کے ان موضوعات پر ہمارے جمہوری ملکوں کے علما کو بھی تفصیل کے ساتھ لکھنا چاہیے، کہ یہ وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔
کتاب مطبوع بھی ہے، لیکن مکتبات میں دستیاب ہونے سے پہلے پی ڈی ایف میں بھی دستیاب تھی، لنک۔
شیخ عبد العزیز ریس کی ویب سائٹ کا لنک: www.islamancient.com
ٹویٹر اکاؤنٹ
 
Last edited:
شمولیت
مئی 27، 2016
پیغامات
256
ری ایکشن اسکور
75
پوائنٹ
85
محترم شیخ! کیا یہ بات درست ہے کہ شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ نے شیخ عبدالعزیز الریس کے متعلق یہ کہا ہے کہ وہ "مرجئ" ہیں ۔ نیز یہ کہ انہوں نے امام محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ کی کتاب نواقض الاسلام کی شرح نہیں کی بلکہ رد ہی کیا ہے ۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
@محترم خضرحیات صاحب
السلام علیکم
آپ کے خلاصے میں ذکر تمام اصول و ضوابط صرف اسی صورت میں قابل عمل ہوں گے جب اسلامی حکومت ہوگی یا جمہوری ، صدارتی اور مارشل لاء حکومتوں پر بھی اس کا اطلاق بعینہ ہوگا جس طرح اسلامی حکومتوں پر ہوگا۔؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
محترم شیخ! کیا یہ بات درست ہے کہ شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ نے شیخ عبدالعزیز الریس کے متعلق یہ کہا ہے کہ وہ "مرجئ" ہیں ۔ نیز یہ کہ انہوں نے امام محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ کی کتاب نواقض الاسلام کی شرح نہیں کی بلکہ رد ہی کیا ہے ۔
اللہ اعلم۔
هل وقع عبدالعزيز الريس في الإرجاء ؟
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه ومن والاه وبعد :
فقد صدرت فتاوى عديدة من كبار العلماء في المملكة العربية السعودية خصوصاً سماحة المفتي الشيخ : عبدالعزيز آل الشيخ ومعالي الشيخ صالح الفوزان حفظهما الله تعالى ، تحذر من بعض كتب ومؤلفات عبدالعزيز بن ريس الريس ، لما فيها من التعالم والإرجاء ،
وبعد مماحكات كثيرة ، وعناد طويل ، ذهب الريس للعلماء وأعلن تراجعه عن الإرجاء ، وكتب مختصراً في الإيمان علق عليه الشيخ العلامة صالح الفوزان ، وقد ذكر الشيخ الفوزان في تعليقه أن الريس (صرح برجوعه) ، ولكن الريس هداه الله عندما نشر ذلك التراجع المجمل ، سماه ( تزكية وتبرئة ) وليس ( تراجعاً ) !! وقدم له بمقدمة سيئة زعم فيها أن كتابة الشيخ الفوزان له ( تأكيد على أنه لم يقع في كتاباتي ومسموعاتي إرجاء )! ، وهذا تكذيب لفتاوى العلماء السابقة الصريحة ، وطعن في العلماء ، حيث أنهم وصفوا تلك الكتب بأنها كتب إرجاء ، ( ما تصلح ) و ( يجب أن تصادر ) ، وهي بريئة من الإرجاء على حد زعمه ، مما يعني أن العلماء يطعنون في عقائد الناس ومؤلفاتهم بلا بينة ولا برهان كما يدل عليه كلام الريس هداه الله ورده إلى رشده ، بل إن الريس قد تمادى في ذلك فكتب في إحدى تغريداته الكاذبة : ( أما ما يتعلق بالإلمام فبعد مراجعة شيخنا الفوزان تبين أنه لا شيء في الكتاب وإنما توسع في بعض النقولات كما بين ذلك بخطه جزاه الله خيرا ) وقد قرئت هذه التغريدة على الشيخ الفوزان فقال : (هذا كذب ، إلا فيه شيء بس هو جحده )، فقال السائل : هل فيه إرجاء ؟؟؟ فقال الشيخ : (إيه نعم) ، وهذا فيه نسف لتلك التبرئة المزعومة والحمد لله
ثم تمادى الريس أكثر وأكثر فزعم أنه كتب ذلك التراجع لكي لا يحرج الشيخ الفوزان مع الناس!! هذا ما ذكره الريس لبعض الشباب من حفر الباطن حسب ما جاء في موقع عبدالله بن صلفيق الظفيري .
وحيث أن بعض الشباب قد انطلت عليهم هذه الكذبات القبيحة ، فأحسنوا الظن بالريس وأساؤا الظن بالعلماء ، فقد أحببت أن أبين باختصار بعض ما في كتب الريس من الإرجاء الغالي ، فأقول وبالله التوفيق :

https://justpaste.it/wuy6

@محترم خضرحیات صاحب
السلام علیکم
آپ کے خلاصے میں ذکر تمام اصول و ضوابط صرف اسی صورت میں قابل عمل ہوں گے جب اسلامی حکومت ہوگی یا جمہوری ، صدارتی اور مارشل لاء حکومتوں پر بھی اس کا اطلاق بعینہ ہوگا جس طرح اسلامی حکومتوں پر ہوگا۔؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
صاحب کتاب کے نزدیک تو ہر جگہ پر یہی اصول ہیں۔
لیکن بہرصورت زمان و مکان اور حالات و ظروف کے بدلنے سے اصول وضواب میں نظرثانی کی ضرورت ہے۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
قال ذهبي العصر الشيخ عبدالرحمن المعلمي : قد مضت عدة قرون لا تكاد تسمع فيها بعالم قائم بالمعروف لا يخاف في الله لومة لائم، بل لا تجد رجلاً من أهل العلم إلا وهو حافظ لحديث: "حتى إذا رأيت هوى متَّبعًا وشُحًّا مطاعًا وإعجاب كل ذي رأي برأيه فعليك بخويصة نفسك ودع عنك أمر العامة" يعتذر به عن نفسه ويعذل به من رآه يتعرّض لإنكار شيءٍ من المنكر.
وقد وُجد ذلك في آخر عصر الصحابة بعد الثلاثين سنة, فكان أبو سعيد الخدري رضي الله عنه واحد عصره في التجاسُر على إنكار المنكر بقدْرِ الإمكان، حتى شدّد في ذلك عبد الملك بن مروان، خطب على منبر وقال: "والله لا يقول لي أحدٌ: اتق الله، إلا ضربت عنقه ... " ثم توارثها الملوك والأمراء إلا مَن شاء الله.
ولهذا عَظم عند الناس ابن طاووس وعمرو بن عبيد وغيرهما ممن كان يتجاسر على النهي عن المنكر.
وعلى كل حال فالمعروفون من العلماء بذلك أفراد يعدون بالأصابع والجمهور ساكتون. وأما في القرون المتأخرة فشاعت المنكرات بين الملوك والأمراء والعلماء والعامة ولم يبق إلا أفراد قليلون لا يجسرون على شيء فإذا تحمّس أحدهم وقال كلمةً، قالت العامة: هذا مخالف للعلماء ولما عرفنا عليه الآباء.
وقال العلماء: هذا خارق للإجماع مجاهر بالابتداع.
وقال الملوك والأمراء: هذا رجل يريد إحداث الفِتن والاضطرابات، ومن المحال أن يكون الحق معه، وهؤلاء العلماء ومن تقدمهم على باطل، وعلى كلًّ فالمصلحة تقتضي زجره وتأديبه!
وقال بقية الأفراد من المتمسكين بالحق: لقد خاطر بنفسه وعرّضها للهلاك، وكان يسعه ما وَسِع غيره!
وهكذا تمَّت غُربة الدين، فإنا لله وإنا إليه راجعون!
(موسوعة آثَار الشّيخ العَلّامَة عَبْد الرّحمن بْن يحْيَي المُعَلّمِيّ اليَماني 114/5)
 
Top