• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’اَہْلُ السُّنَّۃ وَالْجَمَاعَۃ‘‘ کون؟ چشم کشا تحریریں

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
25تا27اگست 2016ء کو ریاستِ چیچنیا کے دارالحکومت ''گروزنی‘‘میں علمائے اسلام کی ایک عالمی کانفرنس''اَلْمُؤْتَمَرُ الْعَالَمِی لِعُلَمَائِ الْمُسْلِمِیْن‘‘ منعقد ہوئی۔اس کانفرنس کاموضوع تھا:''مَنْ ھُمْ اَھْلُ السُّنَّۃ وَالْجَمَاعَۃ ؟‘‘،یعنی ''اَہلُ السُّنَّۃ والجماعۃکون ہیں؟‘‘،بالفاظِ دیگر اہلُ السُّنَّۃ والجماعۃ کی متفقہ تعریف مقصود تھی۔اس کانفرنس میں شیخ الازہر ڈاکٹر محمد احمد الطیب ، جامعہ الازہر کے ریکٹر شیخ ابراہیم،مفتی اعظم چیچنیا شوکی الیَم،ڈاکٹر شیخ سعید عبداللطیف فُودہ (اردن)، شیخ الحبیب علی الجُفری (یمن)، شیخ ابوبکر (کیرالہ،انڈیا) اور دیگر علمائے کِبار شریک تھے۔چیچنیا کے صدر رمضان قدیروف نے اس کانفرنس کی صدارت کی ۔ کانفرنس کی قرارداد اور اعلامیہ حسبِ ذیل ہے :
اہل السنۃ والجماعۃ اعتقادی یعنی کلامی مسائل میں اَشاعِرہ (جو امام ابوالحسن الاشعری کی طرف منسوب ہیں)،ماتُریدیہ (جو امام ابومنصور ماتریدی کی طرف منسوب ہیں)اور ''اَھْلُ الْحَدِیْثِ الْمُفَوِّضَہ‘‘شامل ہیں (یعنی وہ اہلِ حدیث جو اعتقادی مسائل میں صفاتِ الٰہی سے متعلق آیاتِ متشابہات پر ایمان لاتے ہیں اور اُن کے مرادی یا حقیقی معنی کو اللہ تعالیٰ کے علم کی طرف تفویض کردیتے ہیں،یعنی وہ ان الفاظ کے ظاہری معنی مراد نہیں لیتے ۔ان آیاتِ متشابہات میں اللہ تعالیٰ کے لیے ''یَدْ،وَجْہ،ساق، نفس، عَین اور جہت وغیرہا‘‘ کلمات آئے ہیں ۔پس جن اہلِ حدیث نے اِن کلمات کو اعضاء وجوارح (Organs)کے معنی میں لیا ہے، اس کانفرنس کی قرارداد کی رُو سے انہیں ''اہلُ السُّنَّۃ والجماعۃ‘‘ سے خارج قرار دیا گیا ہے، اس فکر کے حاملین کو علمائے علم الکلام نے ''مُجَسِّمین‘‘ سے تعبیر کیا
ہے)۔ ان میں چار فقہی مذاہب کے ماننے والے حنفیہ ،مالکیہ، شافعیہ اور حنابلَہ شامل ہیںاور ان کے علاوہ سید الطائفہ امام جُنید اورعلم ،اَخلاق اور تزکیہ میں اُن کے طریقِ اصلاح کے حامل ائمّہ ھُدیٰ شامل ہیں۔یہ علمی مَنہَج اُن علوم کا احترام کرتا ہے جو، وحیِ ربّانی کو سمجھنے کے لیے خادم کا درجہ رکھتے ہیں اور نفس وفکر کی اصلاح ،دین کو تحریف اور بے مقصد باتوں سے محفوظ رکھنے اور اموال اور آبرو کی حفاظت اور نظامِ اخلاق کی حفاظت کرنے میں ،اس دین کی اَقدار اور مقاصد کو واضح کرتے ہیں۔
قرآنِ کریم کی حدود ہیںاور یہ تمام دینی علوم اس معنی میں بطورِ خادم اُس کا احاطہ کیے ہوئے ہیںکہ جو اُس کے معنی ومراد کو سمجھنے میں مددگار ہوتے ہیں اورحیات ،تمدُّن ،آداب واخلاق ،رحمت وراحت ،ایمان وعرفان اور دنیا میں امن وسلامتی کے فروغ سے متعلق قرآن میں ودیعت کیے ہوئے اِن علوم کا استخراج (Deduction) کرتے ہیں اور اِس کے سبب اقوامِ عالَم ،مختلف طرزِ بودوباش رکھنے والوں اورمختلف تہذیب وتمدُّن کے حاملین پر یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ دین تمام جہانوں کے لیے رحمت ہے اور دنیا اور آخرت کی سعادت کا باعث ہے ۔
اَھْلُ السنّۃ والجماعۃ کامَنْہَج تمام مَناہِجِ اسلام میں سے زیادہ جامع ،زیادہ ثِقہ ،زیادہ مضبوط ، علمی کُتب اور تدریس کے اعتبار سے شرعِ شریف کے مقاصدکے ادراک اور عقلِ سلیم کے لیے صحیح تعبیر کا حامل ہے اور تمام علوم اورحیاتِ انسانی کے تمام شعبوں میں بہترین ربط اور حسنِ تعلق کا آئینہ دار ہے۔اَہل السّنّہ والجماعہ کی علمی درس گاہوں نے صدیوں سے ہزاروں عُلَماء اورفُضَلاء پیدا کیے ہیں جو سائبیریا سے نائجیریا تک اور طنجہ(جبرالٹر کے بالمقابل مراکش کاساحلی شہر) سے جکارتا تک پھیلے ہوئے ہیں اور اِفتاء، قَضاء، تدریس اورخطابت کے شعبوں میں اعلیٰ ترین مناصب پر فائز رہے ہیں ۔اِن کی برکت سے انسانی معاشرت کو امان ملی ،فتنوں اور جنگوں کی آگ بجھی ،ممالک میں قرار وسکون آیا اور علم وعلوم کی اشاعت ہوئی۔
اَھل السنّۃ والجماعۃ اپنی پوری تاریخ میں اسلام کی صحیح تعبیر کر کے انحرافی فکر سے اِس کی حفاظت کرتے رہے ہیں ،وہ مختلف فرقوں کے نظریات اور مفاہیم کا جائزہ لیتے ہیں اور اُن کے لیے علم، نقد وجرح اورثبوت کے معیارات مقرر کرتے ہیں ،اِلحاد وانحراف کی کوششوں کا سدِّ باب کرتے ہیں ،تحقیق وتنقیح کے شِعار کے ذریعے خطا وصواب میں امتیاز کرنے کے لیے علوم کی ترویج کرتے ہیں ۔انہی کے منہَجِ علمی کے فروغ کے باعث انتہا پسندی کا سدِّ باب ہوااور امتِ محمدیہ کے تمدُّن کو فروغ ملا ۔اسی طبقے میں اسلام کے وہ عَبقری علماء پیدا ہوئے، جنہوںنے الجبرا،ریاضی، جیومیٹری، لوگارتھم، انجینئرنگ ،طب و جراحت، فارمیسی، حیاتیات، ارضیات، کیمیا، طبیعیات، فلکیات ،صوتیات وبصریات اور دیگر علوم میں کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں ۔
انحرافی فکر کا فتنہ ہر دور میں سر اٹھاتا رہا ہے ،یہ لوگ ہردور میں اپنی فکر کو قرآن وسنت کی طرف منسوب کرکے صحیح مَنہَجِ علمی کو مٹانے کی کوشش کرتے رہے ہیں،ان کی وجہ سے عام لوگوں کا امن وسکون غارت ہوجاتا ہے ،ایسی ہی گمراہ فکر کے حاملین قدیم دور کے خوارج تھے جن کاتسلسل ہمارے عہد کے وہ خوارج ہیں جو اپنے آپ کو سَلَفیت کی طرف منسوب کرتے ہیں اور مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں ۔ داعش اور اُن کی انتہا پسندانہ فکر کی حامل ساری تنظیموں میں یہ چیز بھی مشترک ہے کہ وہ دین کی مُسَلَّمہ اور مُتفقہ تعلیمات میں تحریف کرتے ہیں ، انتہا پسند ہیں ،جہالت پر مبنی باطل تاویلات کو دین سے منسوب کرتے ہیں ،اس کے نتیجے میں مسلمانوں میں فکری انتشار پیدا ہوتا ہے۔ اِن باطل تاویلات کے بَطن سے تکفیری اور تباہ کُن فکر،خوں ریزی اور تخریب وفساد جنم لیتا ہے اور اسلام کا نام بدنام ہوتا ہے۔اِن کی برپاکردہ جنگوںاور حق سے تجاوز کا تقاضا ہے کہ دینِ حنیف کے حاملین برملا اِن سے برائت کا اعلان کریں اور یہ رسول اللہﷺ کی اس حدیث کا مصداق ہوگا:''بعد میں آنے والوں میں سے اس دین کے حامل وہ انتہائی منصف مزاج علماء ہوں گے، جواِس دین کو انتہا پسندوں کی تحریف ، باطل پرستوں کی بے اصل باتوں اور جاہلوں کی تاویلوں سے پاک کریں گے،(شرح مشکل الآثار:3884) ‘‘۔
اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے یہ کانفرنس ایسا سنگِ میل ثابت ہوگی جو اِلحادی فکر کی اصلاح کرے گی اور انتہا پسندوں کے باطل اجتہاد ات وتاویلات کے ذریعے اھل السّنّۃ والجماعۃ کے لیے جو خطرات پیدا ہوچکے ہیں ،اُن سے نجات کا باعث ہوگی۔اس کا احسن طریقہ یہ ہے کہ ہماری بڑی درس گاہوں میں اس اِنحرافی فکر کو رد کرنے کے لیے مضبوط علمی استدلال کا طریقہ اختیار کیا جائے اورتکفیر اور انتہاپسندی سے نجات پانے کے لیے امن وسلامتی کے اسلامی پیغام کو پورے عالَمِ انسانیت کے لیے عام کیا جائے تاکہ ہمارے ممالک سب کے سب ہدایت کے سرچشمے اور مَنارۂ نور بنیں ۔
یہ تفصیلات میں نے سہل انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ امتِ مسلمہ میں عالَمی سطح پر جو اضطراب ہے ، تمام مذہبی طبقات کو اس کا صحیح ادراک ہوجائے ۔میری دانست میں اِس کی ضرورت، دورِ حاضر میں بعض لوگوں کے خود وضع کیے ہوئے جہادی اور تکفیری کلچر کے نتیجے میں، محسوس کی گئی ہے ،کیونکہ اس تخریب وفساد کا نشانہ سب سے زیادہ خود مسلم ممالک بن رہے ہیں ۔اس کانفرنس کے اعلامیے سے روس اور ایران کی دلچسپی شام کے حالات کے تناظر میں واضح ہے اور چیچنیا میں بھی کسی نہ کسی سطح پر جہادی فکر موجود ہے،اگرچہ جوہر دودائیف کے زوال کے بعد اسے دبادیا گیا ہے۔حال ہی میں ایک امریکی پروفیسر عمر نے بتایا کہ خلیفہ کے لیے قرشی ہونے کی شرط کے سبب داعش کے لوگ افغان طالبان کے امیر کی بیعت سے کنارہ کش ہوگئے ہیں۔سعودی عرب کے علماء جو ایک وقت میں اس تصورِ جہاد کے حامی تھے اور وہاں سے اِن گروہوں کو اعانت بھی مل رہی تھی ،اب وہ برملا اِس سے برائت کا اعلان کر رہے ہیں اوراس طبقے کوتکفیری اور خارجی قرار دے رہے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ گروزنی کی اس عالمی کانفرنس کو اختلاف کی خلیج کو وسیع کرنے کے لیے استعمال نہ کیا جائے بلکہ سعودی عرب سمیت تمام علمائے امت کو اِس سے استفادہ کرتے ہوئے دین کے مُسلَّمہ اور مُشتَرکہ اصولوں پر اجماع کے قیام کے لیے استعمال کیا جائے۔سعودی عرب جو اپنے دینی نظریات کے فروغ کے لیے بے پناہ سرمایہ خرچ کرتا تھا،اب وہ خود اِن فسادیوں کے نشانے پر ہے ۔لہٰذا انہیں اب یہ مصارف دین اور امت کی وحدت کے لیے استعمال کرنے چاہییں اور امت میں تفریق کے اسباب کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ حقیقی معنی میں اتحادِ امت کا خواب اپنی تعبیر کو پاسکے( ۔مفتی منیب الرحمن کا کالم )
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
صوفی کانفرنس کی آڑ میں اہل حدیث مکتبہ فکر كے خلاف ہرزہ سرائی



فرقہ واریت کے علمبردار۔۔ ۔فرقہ پرست۔ ۔ ۔ذہنی فکری فقر کا شکار۔ ۔ تکفیری مفتی کی ہرزہ سرائی۔ ۔۔ ۔ نہایت افسوس اور دکھ کی بات یہ ہے جب کبھی معاشرے اتحاد کے متقاضی ہوتے ہیں تب ہی ارود کے لفظ مفت سے مشتق نام نہاد مفتی جنکا کام صرف مفت کے فتوے داغنا ہوتا ہے ۔ ۔ محبت اور پیاد کی فضا کو زہر آلود کر دیتے ہیں۔ ۔ ۔

صوفی کانفرنس کی آڑ میں۔ ۔کفار کو اسلام کا محسن جان کر ۔ ۔اس مفتی نے اہل حدیث مکتبہ فکر کے بارے میں جس بنیاد پر ہرزہ سرائی کی ہے قارئین ذرا ملاحظہ فرمائیں۔ ۔ ۔ ۔

اللہ کے وجود کے منکروں نے اہل حدیث کو اہل سنت سے خارج کرنے کا فتوی جاری کیا اور نظر انتخاب اس پر پڑی جسکے تعصب سے پوری قوم پہلے ہی بخوبی آگاہ ہے ۔ جو ثقہ گواہوں کو رد کرتا ہے خود چاند دیکھ کر اسکا منکر ہوجاتا ہے۔ ۔ مفتی لا منیب نے اہل حدیث کا جرم بیان کیا ہے ۔ ۔ کہ اہل حدیث اس لیے اہل سنت سے خارج ہیں ۔ ۔ ۔کہ وہ قرآن کی آیات کو من و عن تسلیم کرتے ہیں۔ ۔ ۔اس میں تحریف اور تاویل کے قائل نہیں۔ ۔ اللہ رسول کی بات کو اسی طرح مانتے جیسے نصوص میں آتا ہے۔ ۔ ہے نا اچنبہ کی بات؟۔ ۔ جس بات پر تعریف ہونی چاہیے اسی کو ہدف تنقید بنا کر ایک مفت بر نے اپنا عقید خوب بیان کیا ہے ۔ ۔ کہ ہم نا ہی قرآن کومن و عن مانتے ہیں نا ہی اللہ کے کلام کو بالکہ ہم اس ترجمہ تفسیر کو مانتے ہیں ۔ ۔ جو اللہ ہونے کا انا الحق کا دعوی کرنے والا منصور کرے ۔ ۔جو ابن عربی کا گندا فلسفہ کرے۔ ۔ یا بابا بلھے شاہ کے تو ہین آمیز الفاظ کریں کہ نعوذ باللہ اللہ ایک گورکھ دھندہ ہے ۔ ۔ ۔ہر مخلوق میں اللہ کے وجود کو ماننے والا ۔ ۔ہر حقیر پست نا پسندیدہ جگہ کو بھی اللہ کی ذات کا حصہ کہنے والوں کو اہل حدیث پر اعتراض یہ ہے۔ ۔ کہ اہل حدیث اللہ کا وجود کیوں مانتے ہیں وہ بھی مخلوق سے جدا۔ ۔ اہل حدیث اللہ کے ہاتھوں کے ترجمے میں تحریف کیوں نہیں کرتے۔ ۔اہل حدیث کیوں کہتے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ اپنے چہرے سے نقابوں کو اٹھائے گا جنتی اپنے رب کا یوں دیدار کریں گے جیسے مخلوق چودھویں کے چاند کا کرتی ہے۔ ۔ وجوہ یومئذ ناضرہ الی ربہا ناظرہ۔ ۔ چمک دار چہرے کل قیامت کے دن اپنے رب کا دیدار کر رہے ہوں گے۔ ۔ ۔

اہل حدیث اس لیے اہل سنت نہیں ۔ ۔ کیوں کہ یہ اللہ کو ایسی ذات مانتے ہیں جو کلام کرتی ہے وکلم اللہ موسی تکلیما یقینا اللہ نے موسی سے کلام کیا۔ ۔ ۔ انکو اعتراض یہ ہے اہل حدیث اللہ کی ذات میں مشکوک کیوں نہیں یہ کیوں کہتے ہیں۔ ۔ ۔الرحمن علی العرش استوی۔ ۔ رب رحمن اپنے عرش پر مستوی ہے جیسے اس کی شان کو لائق ہے۔ ۔ ۔یہ اہل حدیث اہل سنت نہیں کیوں کہ یہ مانتے ہیں اللہ آسمان دنیا پر اپنی شان کے مطابق رات کے پچھلے پہر ہاتھ پھیلا کر اعلان کرتا ہے ۔ ۔ ان اللہ یبسط یدہ بالیل ۔ ۔لیتوب مسیء النہار ہے کوئی گناہ گار آئےتا کہ اس کے دن بھر کے گناہوں کو معاف کیا جائے۔ ۔ ۔یہ اہل حدیث بہت ظالم ہیں یہ لوگوں کو وسوسہ نہیں ڈالنے دیتے یہ کہتے ہیں۔ ۔ قد نری تقلب وجھک فی السماء فلنولینک قبلت ترضہا۔ ۔ اللہ پیارے حبیب کے چہرے کو آسمان کی طرف اٹھتا ہوا دیکھتا تھا تو اس نے نبی کی خواہش کے مطابق قبلہ کا رخ تبدیل کر دیا۔ ۔ ۔یہ اہل حدیث اللہ کو عرش پر کیوں مانتے ہیں۔ ۔ آسمانوں سے اوپر کیوں مانتے ہیں ۔ ۔انکا جرم یہ ہے یہ اللہ کو بد عقیدہ صوفیوں کی شاعری کی طرح ہر مندر گرجے گوردوارے گندی پاک جگہ میں اپنے وجود کے ساتھ کیوں نہیں مانتے۔ ۔ ۔ہم اہل سنت ہیں اصلی۔ ۔ کہ ہم اللہ کو ہر شے میں ہر جگہ میں اپنے وجود کے ساتھ حاضر ناظر جانتے ہیں ۔ ۔ہم اصلی اہل سنت ہیں کہ ہم نا قرآن کی مانتے ہیں نا حدیث کی مانتے ہیں ۔ ۔ ہم میں اللہ موجود ہے ہم اللہ کے وجود کا حصہ ہیں ۔ ۔ ۔اسی نام نہاد اہل سنت کے اکابر صوفیاء نے یہ دعوی بھی کیا کہ ہم میں رب بولتا ہے یہ پھر بھی اہل سنت ۔ ۔ اور اہل حدیث اہل سنت سے خارج کیوں کہ ۔ ۔وہ اللہ کی سماعت بصارت کے قائل ہیں اللہ کے وجود کو مخلوق سے جدا مانتے ہیں ۔ ۔ یہ مخلوق میں مان کر بھی پوتر اور اعلی اہل سنت ہیں ۔ ۔ کوئی شرم ہوتی ہے ۔ کوئی حیا ہوتی ہے ۔ ۔اللہ دنیا کے پاک ترین وجودوں میں اپنے ہونے کا انکار کرتا ہے۔ ۔ لقد کفر الذین قالوا ان اللہ ثالث ثلاثہ جس نے اللہ کو تین کا تیسرا کہا وہ کافر ۔ ۔ تم نے تین کا تیسرا نہیں پوری مخلوق کا حصہ بنا دیا ۔ ۔لیکن پھر بھی تم اہل سنت۔ ۔ اور اس بات پر فخر ہے؟ سنو اللہ تمہارے بارے میں کیا کہ رہا ہے کچھ ظالم ایسے ہیں جو کہتے ہیں ۔ ۔ ۔وجعلوا لہ من عبادہ جزءا ۔ ۔ بعض ظالموں نے اللہ کو بندوں کا ہی حصہ بنا ڈالا مطلب مخلوق کا حصہ بنا ڈالا۔ ۔ جو اللہ اولاد کی طرف نسبت کرنے کو گالی سے تعبیر کرے۔ ۔تم اسے اولاد کی بجائے پوری مخلوق میں تسلیم کرو تم پھر بھی اہل سنت۔ ۔۔ ۔ او ظالموا اللہ کہتا ہے ۔ ۔قل ان کان للرحمن ولد فانا اول العابدین۔ ۔ ۔اگر اللہ کا بیٹا ہوتا تو پیارے محمد صلی اللع علیہ وسلم اعلان کردی جئے کہ میں محمد سب سے پہلے اس کی بھی عبادت کرتا ۔ ۔ کیا مطلب؟ ہاں اللہ عبادت کے لائق ہے۔ ۔ خالق ہے ۔ ۔اگر اس کا بیٹا ہوتا تو وہ بھی عبادت کے لائق ہوتا۔ ۔ ۔لیکن تم نے تو ایک طرف اللہ کے وجود کا انکار کرتے ہوئے ۔ ۔اہل حدیثوں پر خود ساختہ تجسیمی لفظ کا الزام لگایا۔ ۔ ایک طرف اللہ کے وجود سے چڑ اور انکار ۔ ۔دوسری طرف ایسا اقرار کہ ہر ایک میں وجود تسلیم کر لیا۔ ۔ ۔ ۔

مفتی صاحب اللہ کا خوف کریں اللہ سے ڈریں اور اپنے اکابرین کی زبان استعمال نا کریں سب جانتے ہیں جب وہ بولتے تھے تو ان کے علاوہ دنیا کا ہر مسلک کافر قرار پاتا تھا۔ ۔ ۔آج جس وقت معاشرہ اتحاد کا طالب ہے آپ نے پھر کفر کی فیکڑی ڈالنے کی کوشش کی ہے ۔ ۔اور اپنے ردی باطل وحدت الوجود کے عقیدہ کو امام پیوٹن کے زیر سایہ پروان چڑھانے کی کوشش کی ہے کہ ہم پر سایہ فگن رہو ہم صوفیوں سے کفار کو تا قیامت کوئی خطرہ نہیں کیوں کہ کفر کے خلاف جہاد ہم کرتے نہیں۔ ۔ بلکہ جہاد کو ہی کفر جانتے ہیں۔ ۔ ۔واہ مفتی صاحب واہ۔ ۔آپ ہیں مسند دعوت ارشاد کے امین۔ ۔ ؟ہر گز نہیں آپ نے نام رسالت پر کمائی کی ہے۔ ۔

اللہ مسلمانوں کو ایسی شر انگیزی اور فرقع واریت سے دور رکھے اور محفوظ رکھے آمین

ہشام الہی ظہیر
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
زمان و مکان ہر اعتبار سے بے محل کانفرنس کا تذکرہ ایک ماہ بعد دوبارہ چھیڑ کر ، مفتی صاحب پتہ نہیں اس سے کیا نکالنا چاہتے تھے ۔ دنیا نیوز والوں نے مفتی صاحب کا کالم تو چھاپا ہے ، لیکن اس پر اہل حدیث اور سلفی حضرات کے موقف کو قارئین کے سامنے رکھنے سے پتہ نہیں وہ کیوں گھبرا گئے ہیں ، بہر صورت ذیل میں چند مزید تحریریں پیش خدمت ہیں ، جو مفتی منیب صاحب کے کالمِ بالا کی خوب خوب حقیقت واضح کرتی ہیں ، آئندہ مراسلوں میں ملاحظہ کیجیے ۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
گروزنی کی صوفی کا نفرنس ..اورامام پیوٹن کے ہمنواؤں کا " سلفیوں " کے اہل سنت سے اخراج کا فتوی

تحریر : ابو بکر قدوسی
سترہ مارچ ٢٠١٦ کو نریندرا مودی ہاتھوں میں گلدستہ اٹھائے سفید کپڑے پہنے ہال میں داخل ہوے ، مودی کی کسی بھی مسلم کانفرنس میں یہ پہلی شرکت تھی - کانفرنس کے منتظم سید اشرف کچھوچھوی نے اس کانفرنس سے کئی ماہ قبل صوفیا اور سجادہ نشینوں کے ایک وفد کی قیادت کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی سے ملاقات کی تھی۔ اس موقع پر مودی نے کہا تھا کہ " اگر مسلمان صوفیا کے اسلام پر چلتے تو دنیا میں کہیں بھی دہشت گردی نہیں ہوتی۔"
بتایا جاتا ہے کہ اسی ملاقات میں یا اس کے بعد ہی ایک بین الاقوامی صوفی کانفرنس کے انعقاد کا خیال پیش کیا گیا اور پھر حکومت کی نگرانی میں اسے منعقد کیا گیا۔ یہ کانفرنس اپنے انعقاد کے بہت پہلے ہی متنازعہ ہو گئی۔ ہوا یوں کہ بریلوی مسلک کے علماء نے اس پر صرف ہونے والے کروڑوں روپے پر سوال اٹھا دیے - خیر یہ ان کا داخلی معاملہ تھا لیکن ایک بات انہوں نے اہم کی کہ یہ مسلمانوں میں باہم پھوٹ ڈلوانے والی بات ہے ...کانفرنس چار روز جاری رہی .آخری روز رام لیلا میدان میں جلسہ بھی کیا گیا - کانفرنس میں دنیا بھر سے دو سو علماء اور صوفیوں نے شرکت کی ۔
جس روز یہ کانفرنس ہو رہی تھی ، ٹھیک اسی روز لاہور میں بھی ایک صوفی کانفرنس منعقد ہوئی جس کے روح رواں امریکی صوفی عمر فاروق عبدللہ تھے ۔
اب گروزنی میں نسبتا بڑے پیمانے پر صوفی کانفرنس منعقد ہوئی ہے ، جس نے اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہووے امت مسلمہ میں ایک نئے تفرقے کی بناء رکھی ہے - اور باوجود گہرے فکری اختلاف کے امت جس معاملے میں متفق تھی ، اس نظریاتی اتحاد کو پاش پاش کرنے کی کوشش کی ہے ۔
اس کانفرنس کی صدارت چیچنیا کے صدر رمضان قدیروف نے کی ( جو احمد قدیروف کے بیٹے ہیں ، پیوٹن کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں ) اور مفتی جامعہ ازہر بھی شامل ہوے ۔
یہ تو تھا ان کانفرنسوں کا پس منظر کہ آپ جان سکیں کفر اب کس کس دروازے سے نقب زن ہے ۔
کمال نہیں ہو رہا ؟
کہ امریکہ ، مودی ، اور اب سفاک قاتل پیوٹن سب کو امت مسلمہ کی فکری جہتیں طے کرنے کی فکریں بے چین کیے دے رہی ہیں - جی ہاں اس کانفرنس میں بنیادی فیصلہ یہ کیا گیا کہ کون اہل سنت ہے اور کون اس سے خارج ہے - کنفرنس کے اختتامی اعلامیے میں اہل سنت کی نئی تعریف جاری کی گئی :
"اہلسنت اعتقاد اور کلامی مذاہب کے اعتبار سے اشعری اور ماتریدی ہیں اور فقہی اعتبار سے چار مسلک حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی ہیں اور علمی، اخلاقی اور تزکیہ نفس کےاعتبار سے صوفی امام الجنید (جنید بغدادی) اور ایسے اہل تصوفِ پاک کے ماننے والے ہیں۔‘‘
اس کانفرنس میں زور دیکر کہا گیا کہ :
" سلفیت امت اسلامی کے تفرقے اور اسلام کی بدنامی کا سبب بنی ہوئی ہے۔ اختتامی بیان میں یہ بھی ذکر ہوا کہ :
’’اہلسنت والجماعت کے مفہوم کو خطرے اور انحراف سے بچانا سب سے اہم اور ضروری مسئلہ ہے، ایسا مفہوم جسے انتہا پسند اس مقدس عنوان کو چرا کر اپنے لئے محدود و مخصوص کرنے کے درپے ہیں۔"
اس پس منظر کے بعد آپ غور کیجئے کہ اس میں امت مسلمہ کے لیے کیسا بربادی کا منصوبہ چھپا ہوا ہے - بدقسمتی سے اسلام کی ظہور اور غلبے کے بعد پہلی صدی میں ہی پیش آنے والے المیے کے نتیجے میں سیاسی اختلاف عقیدے کے اختلاف میں تبدیل ہو گیا - اور مستقل دو گروہ شیعہ اور اہل سنت وجود میں آگئے ...اہل سنت میں پھر کئی فقہی مسالک بنے جو آج ایک حقیقت ہیں لیکن اس سب کے باوجود یہ سب خود کو اہل سنت جانتے اور دوسرے مسالک کو بھی اہل سنت ہی سمجھتے تھے - اس فرقہ وارانہ کانفرنس کا گھناونہ مقصد امت کے اس فکری اتحاد کو پارہ پارہ کرنا ہے
مفتی منیب صاحب جو معتدل اور سنجیدہ فکر کے عالم ہیں انہوں نے اس کانفرنس کے پیچھے چھپے تخریب کے عنصر کو نا جانے کیوں نظر انداز کیا ہے ، دانستہ یا نادانستہ ؟
سلفیت عالم اسلام میں کسی بھی نام سے پھیلی تحریک ہو ہمیشہ اس کو اہل سنت کا ہی ایک فکری گروہ خیال کیا گیا -
مفتی صاحب کانفرنس کے اعلامیے کے ایک حصے کو نقل کرتے ہیں ، آپ بھی پڑھیے :
"اہل السنۃ والجماعۃ اعتقادی یعنی کلامی مسائل میں اَشاعِرہ (جو امام ابوالحسن الاشعری کی طرف منسوب ہیں)،ماتُریدیہ (جو امام ابومنصور ماتریدی کی طرف منسوب ہیں)اور ”اَھْلُ الْحَدِیْثِ الْمُفَوِّضَہ‘‘شامل ہیں (یعنی وہ اہلِ حدیث جو اعتقادی مسائل میں صفاتِ الٰہی سے متعلق آیاتِ متشابہات پر ایمان لاتے ہیں اور اُن کے مرادی یا حقیقی معنی کو اللہ تعالیٰ کے علم کی طرف تفویض کردیتے ہیں،یعنی وہ ان الفاظ کے ظاہری معنی مراد نہیں لیتے ۔ان آیاتِ متشابہات میں اللہ تعالیٰ کے لیے ”یَدْ،وَجْہ،ساق، نفس، عَین اور جہت وغیرہا‘‘ کلمات آئے ہیں ۔پس جن اہلِ حدیث نے اِن کلمات کو اعضاء وجوارح (Organs)کے معنی میں لیا ہے، اس کانفرنس کی قرارداد کی رُو سے انہیں ”اہلُ السُّنَّۃ والجماعۃ‘‘ سے خارج قرار دیا گیا ہے، اس فکر کے حاملین کو علمائے علم الکلام نے ”مُجَسِّمین‘‘ سے تعبیر کیا ہے"
اندازہ کیجئے کہ صفات الہی کے ایک علمی مسلۓ کو بنیاد بنا کر اہل حدیث کو اہل سنت سے خارج قرار دیا جا رہا ہے ، اور پھر سلفیت کا لفظ استعمال کر کے اس کو انتہا پسندی کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے - کیا مفتی صاحب نہیں جانتے کہ سعودی علماء اللہ کی صفات اور (organs) کے اسی طرح قائل ہیں جیسے سلف صالحین تھے ، اور اس اعلامیے کے ذریعے تمام دنیا کے سلفیوں کو اور اہل حدیث کو اہل سنت سے خارج قرار دے دیا گیا ہے ...ہمارا سوال یہی ہے کہ کیا اب امت کے علمی معاملے بھی پیوٹن جیسوں کے اشارہ ابرو کے محتاج ہوں گے ؟
آپ نے سعودیہ کے حوالے سے بہت "درد دل " مظاھرہ کیا ہے ..آپ کا شکریہ ، آپ کی عنایت ہے اگر آپ یہ لطف و کرم بھی نہ کرتے تو سلفی کہاں جاتے ؟
امام ابن ابی العزالحنفی شرح عقیدہ طحاویہ والے اپنی تمام تر کتاب میں جہاں اللہ کی ان صفات کا ذکر آتا ہے اس سے یہی مراد لیتے ہیں جو آج کے دنیا بھر کے سلفیوں کا عقیدہ ہے اور باوجود حنفی ہونے کے انہوں اشاعرہ اور ماتریده کا رد کیا ہے
خود امام طحاوی جو حنفیہ کے بہت بڑے وکیل تھےان کا یہی عقیدہ تھا - کیا آپ جانتے ہیں کہ کلام اللہ کے بارے میں انہوں نے کیا لکھا ؟...جی انہوں نے اس کو اللہ کا لفظی کلام کہا جو بولنے سے پیدا ہوتا ہے
اور خود امام ابوحنیفہ کا کیا عقیدہ تھا ؟
امام صاحب سے اللہ کے بارے میں سوال کیا گیا کہ اللہ کہاں ہے ؟ ، بولے کل پوچھنا - اگلے روز پوچھا گیا تو فرمایا :
" اللہ عرش پر مستوی ہیں اور جس نے اس کا انکار کیا اس نے کفر کیا "
جی مفتی صاحب نکالیے امام صاحب کو بھی اہل سنت سے- اور کیا ماتریدیہ اور اشاعرہ کا عقیدہ عرش پر جلوسِ ربِ کائنات کے بارے میں یہی ہے ؟.... وہ تواستوا کے قائل ہی نہیں ہیں ۔
جی ایک اور بات کہوں انہیں سلفی عقائد کے سبب امام ابن تیمیہ کو بھی گروزنی کانفرنس کے بعد اہل سنت نہیں کہا جائے گا - ہاں یہ بھی یاد کروا دوں کہ ملاعلی قاری نے ایک بار امام کے لیے کہا کہ :
" اگر ابن تیمیہ شیخ السلام نہیں تو کوئی بھی شیخ السلام نہیں "
امام ابن تیمیہ سے جب یہ سوال ہوا کہ دو اشخاص کا آپس میں جھگڑا ہوا ہے اور ان میں سے ایک یہ کہتا ہے کہ جو شخص اللہ کے آسمان میں ہونے کا اعتقاد نہ رکھے تو وہ گمراہ ہے اور دوسرا شخص یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی جگہ میں منحصر نہیں ہے تو اس بارے امام شافعی کا عقیدہ کیا ہے؟ توامام صاحب اس سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:
«الحمد ﷲ، اعتقاد الشافعي رضي اﷲ عنه واعتقاد سلف الإسلام کمَالك والثوري والأوزاعي وابن المبارك وأحمد بن حنبل وإسحٰق بن راهویه وهو اعتقاد المشایخ المقتدٰی بهم کالفُضیل بن عیاض وأبي سلیمان الداراني وسهل بن عبد اﷲ التستري وغیرهم، فإنه لیس بین هؤلاء الأئمة وأمثالهم نزاع في أصول الدین وکذٰلك أبو حنیفة رحمة اﷲ علیه فإن الاعتقاد الثابت عنه في التوحید والقدر ونحو ذلك موافق لاعتقاد هؤلاء واعتقاد هؤلاء هو ما کان عليه الصحابة والتابعون لهم بـإحسان وهو ما نطق به الکتاب والسنة»(1)
''امام شافعی رضی اللہ عنہ اور سلف صالحین امام مالک، امام اوزاعی، امام عبد اللہ بن مبارک، امام احمد بن حنبل، امام اسحق بن راہویہ رحمہم اللہ کا بھی وہی عقیدہ ہے جو ان مشائخ کا ہے جن کی لوگوں نے پیروی کی ہے جیسا کہ فضیل بن عیاض، ابو سلیمان دارنی اور سہیل بن عبد اللہ تستری رحمہم اللہ وغیرہ ۔ ان تمام ائمہ میں اُصولِ دین یعنی عقائد میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اسی طرح کا معاملہ امام ابو حنیفہ کا بھی ہے یعنی توحید اور تقدیر وغیرہ کے مسائل میں امام ابو حنیفہ سے جو عقیدہ ثابت ہے، وہ وہی عقیدہ ہے جو مذکورہ بالا ائمہ کا ہے۔ اور ان ائمہ کا عقیدہ وہی ہے جوصحابہ اور تابعین کا ہے۔ اور صحابہ و تابعین کا عقیدہ وہی ہے جو کتاب وسنت میں صراحتاً بیان ہوا ہے۔''
جی ہاں ! نکال دیجئے ان سب ائمہ کو اہل سنت سے ۔
محترم یہ سیاسی جنگ ہے جو مذھب کے پردے میں لڑی جا رہی ہے - ان کا خیال ہے کہ شام میں صرف سلفی لڑ رہے ہیں ، عراق میں اور افغانستان میں صرف سلفی جنگ جو ہیں ، جب کہ معاملہ مختلف ہے ، جہاں ظلم ہو گا جس کے بچے مریں گے جس کا گھر اجڑے گا ، وہ لڑے گا ۔
جناب یہ سعودیہ کو تنہا کرنے کا کھیل ہے ،جس میں ہمارے اہل سنت بھولے پن میں شریک ہو رہے ہیں ،
آپ بھی جانتے ہیں کہ عراق ، شام اور افغانستان میں دن رات بمباری صرف اہل سنت پر ہوئی ، بچے ہمارے مرے ،گھر ہمارے اجڑے ، آپ کے کالم لکھنے کے دن حلب پر اتنی بمباری ہوئی کہ کہ محلے کے محلے صاف ہو گئے ، ایسے میں ایک نوجوان شدت پسند نہ ہو جائیں تو کیا کریں ، پھر بھی دنیا بھر کے سلفی اکابرین نے اور سعودیہ کے کبار علماء نے ان کی مذمت کی .... لیکن اس کانفرنس نے بلا تخصیص تمام سلفیت کو اہل سنت سے دیس نکالا دے دیا ... کاش پیوٹن کے خرچے پر ہونے والی کانفرنس ان اسباب کا بھی تجزیہ کرتی کہ جس نے مسلم معاشرے میں اس انتہا پسندی اور تکفیری سوچ کو جنم دیا ...اس کے پیچھے انہی پیوٹن اور اوبامہ کے مظالم ہی نظر پڑیں گے ...
آپ نے لکھا :
" یہ کانفرنس ایسا سنگِ میل ثابت ہوگی جو اِلحادی فکر کی اصلاح کرے گی "
انہوں نے تو اہل سنت سے نکالا آپ نے الحادی فکر کے کھاتے میں ڈال دیا ، جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
آپ لکھتے ہیں :
"ضرورت اس امر کی ہے کہ گروزنی کی اس عالمی کانفرنس کو اختلاف کی خلیج کو وسیع کرنے کے لیے استعمال نہ کیا جائے بلکہ سعودی عرب سمیت تمام علمائے امت کو اِس سے استفادہ کرتے ہوئے دین کے مُسلَّمہ اور مُشتَرکہ اصولوں پر اجماع کے قیام کے لیے استعمال کیا جائے۔سعودی عرب جو اپنے دینی نظریات کے فروغ کے لیے بے پناہ سرمایہ خرچ کرتا تھا،اب وہ خود اِن فسادیوں کے نشانے پر ہے ۔لہٰذا انہیں اب یہ مصارف دین اور امت کی وحدت کے لیے استعمال کرنے چاہییں اور امت میں تفریق کے اسباب کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ حقیقی معنی میں اتحادِ امت کا خواب اپنی تعبیر کو پاسکے ۔"
مفتی صاحب آپ بھول گئے سعودیوں کو اور سلفیوں کو آپ کی کانفرنس اہل سنت سے نکال چکی ، تمام تر سلفیوں کو ان کے عقائد کی بناء پر خارجی قرار دے چکی ، تو پھر کن مشترکہ اصولوں کی آپ بات کرتے ہیں ؟
امت کی تفریق کے اسباب تو اس کانفرنس نے خود پیدا کر دیے ہیں - انتہا پسندی کو بڑھاوا تو خود اس کانفرنس کا اعلامیہ دے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) امام صاحب کی یہ عبارت ڈاکٹر محمد زبیر حفظہ اللہ کےایک مضمون سے کاپی کی گئی ۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
قصہ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم

تحریر : احسان الہی ظہیر
مفتی منیب الرحمٰن صاحب کو میں معتدل بریلوی علماء میں سے سمجھتا تھا لیکن کل ان کا کالم ’’ اہل سنت والجماعت کون ‘‘ پڑھ کر اندازہ ہوا کہ’’ شریف صرف وہ ہے جسے موقعہ نہیں ملتا ‘‘۔ اپنے اس کالم میں انہوں نے چیچنیا کے دارالحکومت گروزنی میں منعقدہ ایک کانفرنس کا اعلامیہ اور قرار داد بیان کی اور اس سے اتفاق کا اظہار بھی فرمایا ۔
اس کانفرنس کا مقصد ان کے بقول اہل سنت کی متفقہ تعریف متعین کرنا تھا ، لیکن یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ متفقہ سے ان کی کیا مراد ہے ؟ بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ کانفرنس کے شرکاء کی متفقہ رائے مقصود ہو گی کیونکہ اگرتمام مکاتب فکر کی متفقہ رائے بیان کرنا مقصود تھا تو ہر مکتب فکر کا نمائندہ بھی اس میں موجود ہوناضروری تھا ، سو ’’اندھے کی شیرینی گھر کے لئے ‘‘ کے مصداق ایک ہی مکتب فکر کے پانچ یا دس افراد کا جمع ہو کر ایک بات کرنا اور اسے متفقہ قرار دینا ایک مضحکہ خیز بات ہے ۔
قرار داد میں کہا گیا کہ ’’ اہل سنت والجماعت اعتقادی یعنی کلامی مسائل میں اشاعرہ (جو امام ابو الحسن اشعری ؒ کی طرف منسوب ہیں) ، ماتریدیہ (جو امام ابو منصور ماتریدی ؒ کی طرف منسوب ہیں ) اور اہل حدیث مفوضہ ( یعنی وہ اہل حدیث جو اعتقادی مسائل میں صفات الہی سے متعلق آیات متشابہات پر ایمان لاتے ہیں اور ان کے مرادی یا حقیقی معنی کو اللہ تعالیٰ کے علم کی طرف تفویض کردیتے ہیں ، یعنی وہ ان الفاظ کے ظاہری معنی مراد نہیں لیتے ۔ ان آیات متشابہات میں اللہ تعالیٰ کے لئے ید وجہ ساق نفس عین اور جہت وغیرہا کلمات آئے ہیں ، پس جن اہل حدیث نے ان کلمات کو اعضاء وجوارح (organs) کے معنی میں لیا ہے ، اس کانفرنس کی رو سے انہیں اہل سنت والجماعت سے خارج قرار دیا گیا ہے ، اس فکر کے حاملین کو علمائے علم الکلام نے مجسمین سے تعبیر کیا ہے ۔) ‘‘
کانفرنس کی طرف سے پیش کردہ’’اہل سنت والجماعت ‘‘ کی اس گنجلک اور غلط تعریف کا جائزہ لینے سے پہلے ہم اس کی واضح اور صحیح تعریف پیش کرتے ہیں ۔
اہل سنت والجماعت کے لفظی معنیٰ ہیں ’’سنت اور جماعت والے ‘‘ ۔ یعنی وہ لوگ جو عقائد و اعمال اور اخلاق و کردار میں سنت نبوی ﷺ کو اپنا راہنما مانتے ہوں اور مسلمانوں کی اجتماعیت سے الگ نہ ہوتےہوں ۔ قارئین کرام ! ’’اہل سنت والجماعت ‘‘ کی اس سادہ تعریف میں کون سی سمجھ میں نہ آنے والی بات تھی کہ اس کے لئے باقاعدہ ایک کانفرنس کا انعقاد کر کے اس میں اس کا معنیٰ تلاش کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی ؟؟؟ اور پھر اگر کوئی پیچیدگی تھی بھی تو کانفرنس کا کام اس پیچیدگی کو دور کر کے اس کو سہل بنانا تھا نا کہ اسے مزید پیچیدہ بنانا ۔
آئیے اب ہم اس تعریف کا جائزہ لیں جو مفتی صاحب نے پیش کی ہے :
اس میں سب سے پہلی قابل غور چیز یہ ہے کہ انہوں نے فرمایا : ’’ اہل سنت والجماعت اعتقادی یعنی کلامی مسائل میں ...‘‘ ۔ گویا انہوں نے لفظ اعتقاد کی وضاحت ’’ کلامی مسائل‘‘ کہہ کر کی ہے ۔ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے اعتقاد کا لفظ زیادہ واضح ہے یا ’’ کلامی مسائل ‘‘ کا ؟؟؟ جواب واضح ہے لیکن یقیناً آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوگا کہ پھر مفتی صاحب نے ایک واضح لفظ کی وضاحت کے لئے ایک غیر واضح لفظ کیوں استعمال کیا ؟؟؟ تو جناب اس کے پیچھے بھی ایک لمبی داستان ہے ،کبھی فرصت ملی تو اس پر بھی بات کریں گے لیکن مختصراً سن لیجئے کہ یونان کی بے خدا تہذیب میں رسولوں کی لائی ہوئی تعلیمات سے صرف نظر کر کے عقلی گھوڑے دوڑاتے ہوئے کائنات کی حقیقتوں اور اس کی ابتداء و انتہاء کے متعلق قیاس آرائیاں کی جاتی تھیں ، اور ان قیاس آرائیوں کی روشنی میں فلاسفۂ یونان نے کچھ اصول و ضوابط طے کئے تھے جن کی بنیاد پر وہ مزید قیاس آرائیاں کرتے تھے ، آپ یقیناً پریشان ہوں گے کہ یہ کیا بات ہوئی خود ہی اپنی عقل کی بنیاد پر اصول وضع کئے اور پھر انہیں خدا بنا کے بیٹھ گئے ، تو بھائی ان کے پاس قرآنی ہدایت تو تھی نہیں کہ اسے بنیاد بناتے سو آپ انہیں کسی درجے میں معذور جانئے ، المیہ تو یہ ہوا کہ اس فتنے کا شکار بعض مسلمان مفکرین بھی ہوگئے اور لگے اسلامی عقائد کو فلسفۂ یونان کی کسوٹی پرپرکھنے ۔ اسلامی عقائد کو فلسفۂ یونان کی کسوٹی پر پرکھنے کے اسی عمل کو علم کلام کہا جاتا ہے ۔ اب سمجھے کہ مفتی منیب صاحب کو کیوں یہ زحمت اٹھانا پڑی کہ ایک واضح لفظ کی تشریح ایک پیچیدہ لفظ سے کریں؟؟؟ اس علم کلام نے اسلامی عقائد کا کیا حشر کیا اور کیا کیا گل کھلائے یہ بھی اک الگ حکایت ہے ، اس کو بھی پھر پر اٹھا رکھئے ۔ البتہ اس علم کے متعلق ائمۂ کرام رحمہم اللہ أجمعین کا تبصرہ سن لیں :
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قابل ترین شاگرد امام ابو یوسف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ علم کلام کو(درست سمجھتے ہوئے )سیکھنا جہالت ہے اور علم کلام سے جاہل رہنا(اس کو غلط سمجھنا) علم ہے ، جب کوئی شخص علم کلام میں بہت بڑے مقام پر پہنچ جاتا ہے تو وہ زندیق (بے دین) ہو جاتا ہے ‘‘ ( دیکھئے شرح عقیدہ طحاویہ ص 15۔16 )۔
اور فرمایا :
’’ جو شخص علم کلام سیکھتا ہے وہ زندیق(بے دین ) ہو جاتا ہے ۔‘‘ ( حوالۂ مذکورہ )
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ اہل کلام کے بارے میں میرا یہ فیصلہ ہے کہ انہیں ڈنڈوں سے پیٹا جائے اور جوتے مارتے ہوئے چوکوں چوراہوں میں گھمایا جائے اور یہ اعلان کیا جائے جو شخص قرآن وسنت کوپس پشت ڈال کر علم کلام کو سیکھتا ہے اس کی یہی سزا ہے ۔‘‘
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ علم کلام والوں کی مجلس میں نہ بیٹھو اگرچہ وہ سنت کا دفاع ہی کیوں نہ کر رہے ہوں کیونکہ اس (اندازدفاع )کا نتیجہ کبھی اچھا نہیں نکل سکتا ۔ ‘‘
اور فرمایا :
’’ علم کلام کو اختیار کرنے والا شخص کبھی فلاح نہیں پائے گا ۔ ‘‘ (دیکھئے الابانہ :جلد دوم ، ص 538۔540)
یہ تو ہے علم کلام کی حیثیت ائمۂ کرام رحمہم اللہ أجمعین کی نظر میں ۔ اب آئیے ان فرقوں کی طرف جو علم کلام کی وجہ سے وجود میں آٖئے ، وہ بہت سے فرقے ہیں سب کا ذکر کریں گے تو بات لمبی ہوجائے گی ہم ان میں سے صرف ان دو فرقوں کا ذکر کرتے ہیں جن کو گروزنی کانفرنس میں معیار حق اور اہل سنت والجماعت قرار دیا گیا ہے یعنی اشاعرہ اور ماتریدیہ ۔
اشاعرہ کے بانی امام ابو الحسن اشعریؒ ہیں اور ماتریدیہ کے بانی امام ابو منصور ماتریدی ؒ ہیں۔ دونوں مستقل الگ الگ کلامی فرقے ہیں اور دونوں فرقوں کے مابین عقیدے سے متعلق بہت سے بنیادی مسائل میں اختلاف پایا جاتا ہے، جس کی تفصیل کا یہ موقعہ نہیں ۔
اور تیسرا گروہ ، جس کو اس کانفرنس میں معیار حق کہا گیا وہ اہل حدیث مفوضہ کا گروہ ہے ، اس گروہ کے متعلق ان شاء اللہ ہم بعد میں بات کریں گے ۔سردست عرض یہ ہے کہ :
1۔ جب اشاعرہ اور ماتریدیہ دو الگ الگ فرقے ہیں اور دونوں کے مابین عقیدے کے بہت سےبنیادی مسائل میں اختلاف بھی ہے تو آپ بیک وقت دونوں کی تقلید کیسے کر سکتے ہیں ؟؟؟
2۔ امام ابو الحسن اشعریؒ 260 ؁ ہجری میں پیدا ہوئے اور 324 ؁ ہجری میں انہوں نے وفات پائی ، اسی طرح امام ابو منصور ماتریدی ؒ تقریباً 247 ؁ ہجری میں پیدا ہوئے اور 333؁ ہجری میں وفات پائی ، اب اگر اہل سنت والجماعت اشاعرہ اور ماتریدیہ میں ہی منحصرہیں تو ان فرقوں کے وجود میں آنے سے پہلے کیا اہل سنت والجماعت کا کوئی وجود نہیں تھا ؟؟؟ اور کیا اس سے پہلے کے تمام لوگ گمراہ تھے والعیاذ باللہ ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ بھی ان فرقوں کے وجود میں آنے سے پہلے اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے ، ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟
3۔ اگر اشاعرہ اور ماتریدیہ کے وجود میں آنے سے پہلے اہل سنت والجماعت کا گروہ موجود تھا اور یقیناً تھا تو وہ کون لوگ تھے ، اور وہ کس کی طرف اپنی نسبت کرتے تھے ؟؟ ؟ اور کیا اشاعرہ اور ماتریدیہ کی طرف نسبت کئے بغیر ان کی نجات ہو گی یا نہیں ؟؟؟
4۔ بر صغیر میں عقیدہ کے باب میں خود کو اشاعرہ اور ماتریدیہ کہنے والے لوگ فقہی مسائل میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کا دعویٰ کرتے ہیں تو یہاں یہ نہایت اہم سوال اٹھتا ہے کہ وہ عقیدے میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کیوں نہیں کرتے جبکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا عقیدہ مدون صورت میں موجود ہے ، خود امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی کتاب ’’ فقہ اکبر ‘‘ موجود ہے اسی طرح امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’ عقیدہ طحاویہ ‘‘ میں امام ابو حنیفہ اور ان کے شاگردوں امام ابو یوسف اور امام محمد بن حسن شیبانی رحمہم اللہ کا عقیدہ بیان کیا ہے ، اور اس کتاب کی تشریح وتبیین بھی ایک حنفی عالم امام ابن ابی العز رحمہ اللہ نے کی ہے ۔کیا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے عقیدے پر آپ کو اعتماد نہیں ؟ فقہ میں ان کی اندھی تقلید جبکہ عقیدے میں عدم اعتماد چہ معنیٰ دارد ؟ اب یہ مت کہئے گا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا عقیدہ وہی تھاجو اشاعرہ اور ماتریدیہ کا عقیدہ ہے کیونکہ اشاعرہ اور ماتریدیہ کلامی فرقے ہیں جبکہ علم کلام کے متعلق امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے معتبر ترین شاگرد امام ابو یوسف رحمہ اللہ کی رائے آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں ۔
5۔ اس سے بھی پرلطف بات یہ ہے کہ امام ابو الحسن اشعریؒ کے جس عقیدے سے آپ آج تک چمٹےہوئے ہیں اور ان کے جس منہج کی تقلید کا دعویٰ کرتے ہیں وہ خود امام اشعری ؒ نے چھوڑ دیا تھا اور اس سے رجوع کرلیا تھا ۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ کی زندگی کے تین ادوار ہیں :
اپنی زندگی کے پہلے دور میں امام ابوالحسن اشعری رحمہ اللہ ایک کلامی فرقے معتزلہ کے مذہب پر تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے سوتیلے والد ابو علی الجبائی معتزلہ کے بہت بڑے امام تھے اور امام اشعری رحمہ اللہ نے ابتدائی طور پر عقیدہ انہی سے پڑھا تھا ، اس دور میں انہوں نے معتزلی مذہب پر اس قدر محنت کی کہ معتزلہ کے کبار ائمہ میں شمار ہونے لگے ،لیکن جب ان پر مذہب اعتزال کا بطلان واضح ہوا تو انہوں نے اسے خیرباد کہہ دیا، کہا جاتا ہے کہ اس دور کے آخر میں یہ سخت اضطراب اور بے چینی کا شکار ہو گئے حتیٰ کہ پندرہ دن تک اپنے گھر سے باہر نہ نکلے( سوائے نماز وغیرہ کے ) اور اس دوران اللہ سے ہدایت اور صراط مستقیم کی دعا کرتے رہے ، آخر ایک رات خواب میں رسول اللہ ﷺکی زیارت ہوئی اور انہوں نے فرمایا کہ جو کچھ میری احادیث میں آیا ہے اس کو تسلیم کرو ، تو اگلے دن جمعہ کی نماز کے بعد یہ منبر پر چڑھے اورفرمایا میں مذہب اعتزال سے ایسے الگ ہو رہا ہوں جیسے یہ جبہ میرےجسم سے الگ ہو رہا ہے ، اور یہ کہہ کر کپڑوں کے اوپر پہنا ہوا جبہ اتار کر پھینک دیا اور یوں مذہب اعتزال سے توبہ کرلی ۔ (دیکھئے تبیین کذب المفتری ص 40۔ 41 )
مذہب اعتزال کو ترک کرنے کے بعد انہوں نے ایک اور کلامی فرقے کُلّابیہ کا مذہب اختیار کر لیا ، معتزلہ اور کلابیہ میں فرق یہ ہے کہ معتزلہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا انکار کرتے ہیں جبکہ کلابیہ صرف صفات ذاتیہ کو مانتے تھے ( یعنی وہ صفات جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہر حال میں متصف ہوتا ہے اور کبھی بھی ذات باری تعالیٰ سے جدا نہیں ہوتیں مثلاً علم ، قدرت ، ارادہ ،حیات ، چہرہ ، ہاتھ وغیرہ ) اور صفات فعلیہ کا انکار کرتے تھے ( وہ صفات جن کے ساتھ متصف ہونا اللہ تعالیٰ کے ارادے اور مشیت پر موقوف ہے یعنی جب اللہ تعالیٰ جب چاہے ان کے ساتھ متصف ہوتا ہے اور جب چاہے نہیں ہوتا مثلاً اللہ تعالیٰ کا آسمان دنیا پر نزول فرمانا ، مسکرانا وغیرہ ) ۔ چنانچہ یہ امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ کی زندگی کا دوسرا دور تھا ۔ ان کی کتاب ’’اللمع فی الرد علی أہل الزیغ واللمع ‘‘ اسی زمانے کی تالیف ہے ۔
امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ نے اپنی زندگی کے تیسرے اور آخری دور میں اہل سنت والجماعت کا مذہب اختیار کر لیا تھا اور اس کی دلیل ان کی کتاب ’’ الإبانہ عن أصول الدیانہ‘‘ ہے ، جس کے مقدمے میں انہوں نے اس بات کی وضاحت فرمائی کہ وہ صفات باری تعالیٰ کے معاملے میں اہل سنت والجماعت کے مذہب پر ہیں چنانچہ وہ فرماتے ہیں :
’’ اگر ہم سے کوئی کہے کہ آپ نے معتزلہ ، قدریہ ، جہمیہ ، حروریہ ، رافضہ اور مرجئہ کے مذہب کو تو غلط قرار دے دیا ہے تو اب آپ ہمیں یہ بتائیے کہ آپ کا کیا موقف ہے اور آپ کس عقیدے پر ہیں ؟ تو میرا جواب یہ ہے کہ : ہمارا موقف اور عقیدہ یہ ہے کہ ہم اپنے رب ﷯ کی کتاب اور اپنے نبی علیہ السلام کی سنت کو مضبوطی سے تھام کر رکھتے ہیں ، اور انہی ( دو امور ) کے ذریعے ہم ( فتنوں اور گمراہیوں سے ) اپنی حفاظت کرتے ہیں اور (عقیدہ کے باب میں ) ہمارا وہی موقف ہے جو ابو عبداللہ احمد بن محمد بن حنبل رحمہ اللہ کا موقف تھا ، اللہ تعالیٰ ان کے چہرے کو تروتازہ رکھے ، ان کے درجات کو بلند فرمائے اور انہیں اجر عظیم عطا فرمائے ، اور ان کے عقیدے کے خلاف ہر بات کی ہم تردید کرتے ہیں ، کیونکہ وہ بڑے بلند مرتبہ امام اور عظیم قائد تھے ، اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعے حق کو واضح کیا ، گمراہی کا خاتمہ کیا ، صحیح منہج کو نمایاں کیا ، اور ان کے ذریعے اہل بدعت کی بدعات ، گمراہوں کی گمراہیوں اور شکوک و شبہات کاشکار لوگوں کے شکوک و شبہات کا قلع قمع کیا سو اللہ کی رحمتیں ہوں اس جلیل القدر اورعظیم المرتبت امام وپیشوا پر . ‘‘
گویا اپنی زندگی کے آخری دور میں امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ نےامام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا عقیدہ اختیار کر لیا تھا ،اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا عقیدہ جاننا ہو تو ان کی کتاب ’’ الرد علی الزنادقۃوالجہمیۃ ‘‘ دیکھنے کی زحمت فرما لیں ۔ انتہائی حیرت کی بات ہے کہ امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ نے تو تاویل کی راہ چھوڑ کر اہل سنت کا طریق اپنا لیا اور ان کی تقلید کا دعویٰ کرنے والے تاویل سے دامن چھڑانے کے لئے تیار نہیں ۔
تو جناب بے وفائی کی یہ خُو اچھی نہیں ، پہلے آپ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا دامن پکڑا اور چند قدم بھی نہ چلے تھے کہ چھوڑ دیا ، پھر امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ کے ساتھ یہی سلوک کیا ، کسی سے تو وفا کی ہوتی
ہرگز مرا وحشی نہ ہوا رام کسی کا
وہ صبح کو ہے یار مرا شام کسی کا
6۔ اب آتے ہیں ’’اہل حدیث مفوضہ کی طرف ‘‘ تو اس سلسلے میں سب سے پہلےیہ سمجھ لیں کہ اہل حدیث ایک مکتبِ فکر کا نام ہے اشخاص کا نہیں ۔ ہر وہ شخص اہل حدیث میں سے ہے جو اعتقادی اور عملی مسائل میں قرآن و حدیث کو حرف آخر مانتا ہے اور قرآن و حدیث کے خلاف ہر قول ، فعل ، رائے ، قیاس ، ذوق ، خواہش ، خواب کو مسترد کرتا ہے ۔ ‘‘ چنانچہ جو شخص قرآن و حدیث کی نصوص کے مقابلے میں اپنی یا کسی کی رائے ، عقل ، قیاس ، ذوق ، خواہش یا خواب وغیرہ کو ترجیح دیتاہے وہ اہل حدیث میں سے نہیں خواہ وہ اپنے ماتھے پر اہل حدیث ہونے کی تختی لگوا لے ۔
اس عبارت میں دوسرا قابل وضاحت لفظ ’’مفوضہ ‘‘ کا ہے ، مفوضہ کا معنی ہے ’’تفویض کرنے والے‘‘ ، اور تفویض کا معنیٰ ہے ’’ سپرد کردینا ‘‘ ۔اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کے باب میں تفویض کرنےوالے دو طرح کے لوگ ہیں :
پہلی قسم : وہ لوگ جو اسماء وصفات ِ باری تعالیٰ کے معنیٰ میں تفویض کرتے ہیں یعنی وہ کہتے ہیں ان الفاظ کے معانی معلوم نہیں ، بلکہ یہ ایسے ہی ہیں جیسے حروف مُقَطّعات ( مثلاً اـل۔م )۔
دوسری قسم : وہ لوگ جو اسماء وصفات باری تعالیٰ کے سلسلے میں وارد الفاظ کا ترجمہ اور معنیٰ تو بیان کرتے ہیں لیکن ان کی کیفیت اور حقیقت میں تفویض کرتے ہیں ، مثلاً وہ یہ کہتے ہیں کہ ید کا معنیٰ ہاتھ ہے ، اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے خود بتایا ہے کہ اللہ کا ہاتھ ہے تو ہم بھی تسلیم کرتے ہیں البتہ اس کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں ، ہم نہیں جانتے کہ اللہ کا ہاتھ کیسا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اللہ کا ہاتھ جیسا بھی ہو البتہ مخلوق کے ہاتھ جیسا نہیں۔کیونکہ خالق اور مخلوق میں فرق ہے ۔
یہ مؤخر الذکر عقیدہ اہل حدیث کا ہے ،اول الذکر عقیدے کا اہل حدیث سے کوئی تعلق نہیں ، اہل حدیث کو مفوضہ کہہ کر اگر کسی کی مراد یہ ہے کہ وہ کیفیت ِصفات ِباری تعالیٰ میں تفویض کے قائل ہیں تو اس میں کوئی شک نہیں اور اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اہل حدیث معانی صفات میں تفویض کے قائل ہیں تو یہ اہل حدیث کے عقیدے سے ناواقفیت کی دلیل ہے ۔
چنانچہ مفوضہ کا جو معنیٰ مفتی صاحب نے بیان کیا ہے اس اعتبار سے اہل حدیث اور مفوضہ دو الگ الگ مکاتب ِفکرہیں اور ’’ اہل حدیث مفوضہ ‘‘کہہ کر یہ مغالطہ دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ اہل حدیث میں بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی صفات پر دلالت کرنے والے الفاظ کے معانی بیان کرنے میں تفویض کرتےہیں ، حالانکہ یہ بات سراسر غلط ہے ۔
7۔ مفتی صاحب نے فرمایا : ’’ پس جن اہل حدیث نے ان کلمات کو اعضاء وجوارح (organs) کے معنی میں لیا ہے ، اس کانفرنس کی رو سے انہیں اہل سنت والجماعت سے خارج قرار دیا گیا ہے ، اس فکر کے حاملین کو علمائے علم الکلام نے مجسمین سے تعبیر کیا ہے ۔‘‘
یہ بھی مذہب اہل حدیث پر سراسر بہتان ہے ، اہل حدیث نے صفات باری تعالیٰ پر دلالت کرنے والے الفاظ کو اعضاء وجوارح کے معنیٰ میں نہیں لیا بلکہ انہیں صفات قرار دیا ہے ، اعضاء وجوارح کہہ کر لوگوں کو مذہب اہل حدیث سے متنفر کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اور یہی وہ بنیادی غلطی ہے جس کی وجہ سے تمام کلامی فرقوں نے صفات ِ باری تعالیٰ کا انکار کیا ، انہوں نے سمجھا کہ اگر ہم اللہ تعالیٰ کے لئے ہاتھوں اور چہرے وغیرہ کا اقرار کریں گے تو اس کامعنیٰ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ اور چہرہ ہمارے ہاتھوں اور چہرے جیسا ہے ،حالانکہ یہ سراسر غلط ہے ۔
قارئین کرام ! جب ہم یہ کہتے ہیں کہ شیر ، بلی ، چوہے کا منہ ہے تو کیا اس کا یہ مطلب ہوگا کہ ان کا منہ ہمارےمنہ جیسا ہے ؟؟؟ ہرگز نہیں ، حالانکہ مذکورہ جانور بھی مخلوق ہیں اور انسان بھی مخلوق ہے ، جب یہ کہنے سے مخلوق کی مخلوق کے ساتھ مشابہت لازم نہیں آتی تو خالق کی مخلوق کے ساتھ مشابہت کیونکر لازم آئے گی ؟؟؟
8۔ نیزاگر صفات ِ باری تعالیٰ کے اثبات سے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ تشبیہ لازم آتی ہے تو پھر اشاعرہ اور ماتریدیہ جن صفات کا اثبات کرتے ہیں ان کے اثبات سے یہ مشابہت لازم کیوں نہیں آتی ؟
آخر میں اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کے حوالے سے اہل سنت والجماعت ( اہل حدیث ) کے موقف کا خلاصہ ملاحظہ فرمالیں :
’’ ہم قرآن و حدیث میں بیان شدہ اللہ تعالیٰ کے تمام ناموں اور صفات کو مانتے ہیں اور ان میں تحریف وتعطیل اور تکییف و تمثیل کی راہ اختیار نہیں کرتے ‘‘
تحریف : اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کے معانی کو تبدیل کرنا
تعطیل : اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کو بے معنیٰ قرار دینا
تکییف : اللہ تعالیٰ کی صفات کی کیفیت بیان کرنا
تمثیل : اللہ تعالیٰ کی صفات کو مخلوق کی صفات کے مماثل قرار دینا ۔
نوٹ : مضمون میں بہت سےپہلوتشنہ رہ گئےہیں لیکن وقت تنگی داماں کی شکایت کر رہا ہے سو ’’یار زندہ صحبت باقی ‘‘۔
آخر میں گروزنی کانفرنس منعقد کرنے والوں اور اس پر بغلیں بجانے والوں کے نام
ہم ایسے سادہ دلوں کی نیاز مندی سے
بتوں نے کی ہیں جہاں میں خدائیاں کیا کیا
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
اہل سنت ، سلفی اور صوفی ازم

تحریر : عبدالرحمن عزیز
روس کے زیر تسلط ریاستوں میں ایک چیچنیا بھی ہے ، اس کا دار حکومت گروزنی ہے ، دریا سنرہار کے کنارے ، پہاڑوں کےبیچ نہایت خوبصورت جگہ ہے ، لیکن میں یہ دیکھ کو چونک گیا کہ روسی زبان میں " گروزنی " کا معنی ڈراونا اور خوفناک ہے ۔ اس لیے کہ اس قدر خوبصورت شہر کو خوفناک ہونے کا لقب کیوں دیا گیاہے ، چند دن بیشتر اس راز کا پردہ فاش ہوا تو میرے منہ سے اچانک نکلا کہ جس نے بھی اس کا نام رکھا ہے بالکل صحیح رکھا اور نام کی بھی تاثیر ہوتی ہے ۔
گزشتہ 21 ذو القعدہ 1437 ھجری مطابق 25 اگست 2016عیسوی کو گروزنی میں روسی حکومت کے تعاون سے چیچن حکومت کے زیر انتظام ایک تین روزہ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ۔ جس میں تصوف سے تعلق رکھنے والے تقریبا 200 زعماء کو دنیا بھر سے دعوت دی گئی ۔ اس کا عنوان تھا ( من ہم اہل السنۃ والجماعۃ ) "اہل السنۃ والجماعۃ کو ن ہیں ؟"۔ یعنی یہ کانفرنس چودہ سو سال کے بعد نئے سرے سے "اہل سنت "کی تعریف کرنے کے لیے منعقد ہوئی تھی ۔
کانفرنس کا آغاز چیچنیا کےصدر رمضان قدیروف کے خطاب سے ہونا تھا لیکن مصروفیت کے سبب ان کے نائب نے ان کی نمائندگی کی ۔ اس کے بعد روس کے صدر پیوٹن کے نمائندے نے خطاب کیا ۔ پھر دوسرے خطابات ہوئے اور مقالات پیش کئے گئے ۔ تین دنوں میں مختلف زعماء نے ۔۔۔۔۔ مقالات پیش کیے ، جو کانفرنس کے ذمہ داران نے ان کے ذمہ لگائے تھے ۔ مقالات کے عناوین پر ایک نظر ڈالی جائے تو کانفرنس کے انعقاد کی وجہ معلوم ہوجاتی ہے ، اور روس جیسے اسلام اور مسلم دشمن ملک کی اس کانفرنس سے محبت اور سرپرستی کا سبب کھل کے سامنے آجاتا ہے ۔ عناوین یہ ہیں :
1. تعریف عام باہل السنۃ والجماعۃ ۔ (اہل السنۃ کی تعریف ، یعنی اہل سنت کون ہیں)۔
2. مذاہب الاربعۃ ، ہی اہل السنۃ ۔ (مذاہب اربعہ کو ماننے والے ہی اہل سنت ہیں )۔
3. الاشاعرۃ والماتریدیۃ ہم السواد الاعظم ،(اشعری اور ماتریدی مسلک کو ماننے والے ہی بڑی جماعت ہیں )۔
4. اہمیۃ المذہب ، واثر ۔۔۔۔ علی حیاۃ ۔ (مذہبیت کی اہمیت اور زمینی زندگی پر لامذہبیت کی بدنظمی کا اثر )۔
5. بیان انہ علی مدی التاریخ اہل السنۃ والجماعۃ ہم الصوفیۃ ، ( پوری تاریخ میں صوفیاء ہی اہل سنت وجماعت رہے ہیں ) ۔
6. ماہیۃ التصوف وسمات اہل الطریق (تصوف کی ماہیت اور اہل سلاسل کی خصوصیات )۔
7. عقیدۃ المحدثین مذاہبہم وصلتہم بالتصوف ،(محدثین کرام کے مذاہب اور ان کا تصوف سے تعلق )۔
8. الخروج عن مذہب اہل السنۃ واثرہ فی الواقع ،( اہل سنت سے بغاوت اور معاشرے پر اس کے اثرات )۔
9. آثار الخروج عن المنھج الاصیل لاھل السنۃ والجماعۃ ،(معاشرے پر اہل سنت وجماعت کے اصلی منہج سے بغاوت کے آثار )۔
آخر پر ایک قرار داد پیش کی گئی ، جس کی تمام شرکاء نے تائید کی ۔ قرار داد کےمتعلق مفتی منیب الرحمن لکھتے ہیں :
" کانفرنس کی قرار داد اور اعلامیہ حسب ذیل ہے :
اہل السنۃ والجماعۃ اعتقادی یعنی کلامی مسائل میں اشاعرہ (جو اہم ابو الحسن الاشعری کی طرف منسوب ہیں ) ، ماتریدیہ ( جو امام ابو منصور ماتریدی کی طرف منسوب ہیں ) اور "اہل الحدیث المفوضہ " شامل ہیں ، یعنی وہ اہل حدیث جو اعتقادی مسائل میں صفاء الہی سے متعلق آیات متشابہات پر ایمان لاتے ہیں ، اور ان کے مرادی یا حقیقی معنی کو اللہ تعالی کے علم کی طرف تفویض کر دیتے ہیں ، یعنی وہ ان الفاظ کے ظاہری معنی مراد نہیں لیتے ۔ ان آیات متشابہات میں اللہ تعالی کےلیے " ید ، وجہ ، ساق ، نفس ، عین اور جہت وغیرہا " کلمات آئے ہیں ، پس جن اہل حدیث نے ان کلمات کو اعضاء وجوارح (Organs) کےمعنی میں لیا ہے ، ان کانفرنس کے قرار داد کی رو سے انھیں اہل النسۃ والجماعۃ " سے خارج قرار دیا گیا ہے ۔۔۔۔ ان میں چار فقہی مذاہب کے ماننے والے حنفیہ ، مالکیہ ، شافعیہ اور حنابلہ شامل ہیں ، اور ان کے علاوہ سید الطائفہ امام جنید اور علم ، اخلاق اور تزکیہ میں اکے طریق اصلاح کے حامل ائمہ ہدی شامل ہیں ۔"
مذکورہ کانفرنس میں سعودی عرب اور اس کے زیر اثر ممالک کے علاوہ تمام دنیا عالم سے زعماء کو دعوت دی گئی ، مزید وہاں پڑھے گئے مقالات کے عناوین اور قرار داد کے مضمون سے واضح ہوگیا کہ کانفرنس کا مقصد سلف صالحین کے مسلک پر چلنے والے اور اس کا پرچار کرنےوالے سلفی اور اہل حدیث کو اہل سنت سےخارج کرنا اور سیاسی طور پر سعودی عرب کے خلاف اتحاد قائم کرنا تھا ، چند ماہ قبل سعودی عرب نے 34 مسلم ممالک کا جو فوجی اتحاد قائم کیا تھا ، اس کے اثر کو زائل کرنا تھا ۔ دوسرے لفظوں میں دنیا میں کافر اور کفریہ نظاموں کے خلاف جو لوگ جہاد کر رہے ہیں ، ان کی اکثریت چونکہ سلفی اور اہل حدیث سےتعلق رکھتی ہے ، اس کانفرنس کےذریعے انھیں عام مسلمانوں سے کاٹ کر الگ کرنا ، ان سے تعاون کرنے سے لوگوں کو روکنا اور دنیا بھر میں پھیلی ہوئی جہادی تحاریک کو ناکام کرکے مسلمان ملکوں پر کفر کا تسلط قائم کرنا ہے ۔ پاکستان میں مفتی منیب الرحمن نے اس کانفرنس کی تحسین پر جوکالم لکھا اس سے بھی یہ مقاصد واضح ہوجاتے ہیں ۔ جیساکہ مفتی منیب الرحمن صاحب نے اپنے کالم میں لکھا ہے :
"سعودی عرب کے علماء جو ایک وقت میں اس تصور جہاد کے حامی تھے اور وہاں سے ان گروہوں کو اعانت بھی مل رہی تھی ، اب وہ برملا اس سے برائت کا اعلان کررہے ہیں ، اور اس طبقے کو تکفیری اور خارجی قرار دے رہے ہیں ۔ ۔۔۔ سعودی عرب جو اپنے دینی نظریات کے فروغ کے لیے بے پناہ سرمایہ خرچ کرتا تھا ، اب وہ خود ان ےک فسادیوں کے نشانےپر ہے ۔ "
اگر تاریخ کو دیکھیں تو سعودی عرب کی حکومت اور علماء نے صرف افغانستان میں روس کے خلاف جہاد کی حمایت کی تھی ، اور اب شام میں شیعہ کے اہل سنت پر مظالم کے خلاف اٹھنے والی تحریک کی حمایت کی ہے ۔ اب اگر آپ افغانستان میں روس کے خلاف جہاد اور آج شام کی نصیری حکومت کے اہل سنت پر بے انتہا مظالم کے خلاف جدو جہد کو فساد کہہ رہےہیں ، تو اس کا واضح مطلب ہےکہ آپ اور آپ کا فرقہ افغانستان میں روس اور شام میں نصیری حکومت کے مظالم کی حمایت کررہے ہیں ۔
مزید مفتی صاحب دنیا بھر کی جہادی تحریکوں کو دعش سے جوڑ کر خلط مبحث کررہے ہیں ۔ فرماتے ہیں :
" گمراہ کن فکر کے حاملین قدیم دور میں خوارج تھے ، جن کا تسلسل ہمارے عہد کے وہ خوارج ہیں جو اپنے آپ کو سلفیت کی طرف منسوب کرتے ہیں ، اور مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں ۔ دعش اور ان کی انتہا پسندانہ فکر کے حامل ساری تنظیموں میں یہ چیز مشترک ہے کہ وہ دین کی مسلمہ اور متفقہ تعلیمات میں تحریف کرتے ہیں ، انتہا پسند ہیں ۔"
مفتی صاحب نے سلفیت کو خوارج سےمنسوب کردیا ، حالانکہ تاریخ کا ادنی طالب علم بھی جانتا ہے کہ سلفیوں نے تاریخ کے ہر دور میں اورہر میدان میں اسلام اور مسلمانوں کے دفاع کا فریضہ انجام دیا ۔ اور دعش کو سلفیت سے منسوب کرنا کتمان علم اور دھوکہ ہے ۔ کیونکہ نہ دعش خود کو سلفی کہتے ہیں ، اور نہ سلفی ان کی فکر کی حمایت کرتے ہیں ۔ بلکہ دعش کے خلاف سب سے پہلے سعودی عرب کے علماء نے آواز بلند کی تھی ۔ اور جب آپ مانے رہے ہیں کہ سعودی عرب والے برملا دعش سے برائت کا اعلان کررہے ہیں ، اور اس طبقے کو تکفیری اور خارجی قرار دے رہے ہیں، بلکہ اس کے خلاف میدان عمل میں ہے ، تو سوال پیدا ہوتا ہےکہ پھر اسے اس کانفرنس میں اسے دعوت کیوں نہ دی گئی ؟۔ یہ بالکل واضح ہےکہ یہ دراصل سعودی مخالف قوتوں کا اجتماع تھا ۔ روس اور ایران شام کے مسئلہ پر سعودی عرب کےخلاف معرکہ آراء ہیں ، اور امریکا نائن الیون کے معاملےمیں سعودی عرب کو پھنسا کر اس کے امریکا میں پڑے ہوئے دس کھرب ڈالر ہتھیانے کے چکر میں ہے ۔ لیکن اس سے پہلے وہ سعودی عرب کو تنہا کرنا چاہتے ہیں ۔ مفتی صاحب کے قلم سے نکلی ہوئی اندر کی بات پڑھئے اور سر دھنئے :
" اس کانفرنس کے اعلامیے سے روس اور ایران کی دلچسبی شام کے حالات کے تناظر میں واضح ہے ، اور چیچنیا میں بھی کسی نہ کسی سطح پر جہادی فکر موجود ہے ، اگر چہ جوہر داود ئیف کے زوال کے بعد اسے دبادیا گیا ہے ۔ "
اور یہ بھی طرفہ تماشا کہ صفات الہیہ کے جس علمی مسئلہ کو بنیاد بنا کر سلفیوں کو اہل سنت کے خارج قرار دیا گیا ہے ، وہ سلفیوں کا مسئلہ ہی نہیں ہے ۔
اس سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی ہے کہ یہ کانفرنس دراصل ان طاقتوں کی جہاد کے خلاف ایک جد وجہد ہے جن کے ظلم وستم کے خلاف مسلمان جہاد کررہے ہیں ۔ اگر آنکھیں کھول کر دیکھیں ، تو افغانستان ، عراق ، شام اور فلسطین میں دن رات اہل السنۃ پر ظلم وستم کے پہاڑے توڑے جارہے ہیں ۔ اور یہ ظلم انہی طاقتوں کی طرف سے ہورہے ہیں جو آپ کی کانفرنس کے کرتا دھرتا ہیں ۔ان کے مظالم ہی نے امت میں انتہاپسندانہ سوچ کو جنم دیا ہے ۔اور یہ بات بھی اب کسی اہل خبر سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ دعش کو جنم دینے والے بھی یہی لوگ ہیں ، اور اس کا مقصد اسرائیل کے ارد گرد عرب ممالک میں جہادی سوچ رکھنےوالے نوجوانوں کو تلاش کرنا اور ان کا خاتمہ کرنا ہے ۔
افسوس ! ہمارے صوفی زعماء روس الشیاطین کے ساتھ مل کر جہاد کو ختم کرنے کی کوشش کرے کریں گے ، اور ایک بارپھر انھوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کفار کے آلہ کار بننے کا عہد کرلیا ہے ۔
میرےلیے یہ کوئی باعث حیرت اور اجنبے کی بات نہیں ہے ، کیونکہ تاریخ کا طالب علم یہ جانتا ہے کہ کافروں کا اہل تصوف سے یہ کوئی پہلا رابطہ نہیں ہے ، اور کفر کے باطل نظاموں کو توڑنے اور اسلام کے احیا اور نفاذ کے لیے اپنا تن من دھن قربان کرنے والوں سے عوام کے مقاطعہ کی یہ کوئی پہلی کوشش نہیں ہے ، بلکہ اہل تصوف کا کفر سے یہ ربط اورتعاون صدیوں پر محیط ہے ۔اسی لیے پاک وہند کے علماء کرام نے علم ہونے کے باوجود اسے اہمیت نہیں ، اگر مفتی صاحب اس کانفرنس پر کالم لکھ کر پتھر نہ پھینکتے تو شائد یہ بدبو گروزنی کے فلک پوش پہاڑوں سے باہر نہ نکلتی یا کم از کم پاکستانی عوام اسے محفوظ رہتی ، لیکن جب انھوں نے پتھر پھینک کر گندگی کے چھینٹے چاروں طرف بکھیر دیئے ہیں تو ضروری ہے کہ اپنے معاشرے کو ان چھینٹوں سے پاک کیا جائے ، کیونکہ پاک طینت دماغوں کے لیے بدبو تکلیف کا باعث ہوتی ہے ۔
تاریخ کے اوراق کھنگالنے سے پہلے ضروری ہے کہ اپنی بھولی عوام کو بتایا جائے کہ سلفی (صحابہ کرام کے طریقے پر چلنے )کون ہیں ، اور صوفی ازم کیا ہے ؟۔
محمد انسانوں کی طرف اللہ کے آخری رسول اور پیامر ہیں ، آپ نے تئیس سال تک اللہ کا پیغام انسانوں تک پہنچایا ، قرآن اور اس کی قولی وعملی تفسیر حدیث کی صورت میں مکمل دین اپنی امت کے حوالےکیا ۔ اپنا مشن اور ذمہ ادا کرکے دنیا سے تشریف لے جاتے ہوئے امت کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا:
((تركت فيكم أمرين , لن تضلوا ما تمسكتم بهما كتاب الله و سنتي ))[۔۔۔۔۔]
" میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں ، اگر تم انھیں مضبوطی سےتھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے ، اوروہ کتاب اللہ اور میری سنت ہے ۔"
مزید حضرت عرباض بن ساریہ بیان کرتے ہیں :
(( فينا رسول الله صلى الله عليه و سلم ذات يوم فوعظنا موعظة بليغة وجلت منها القلوب وذرفت منها العيون . فقيل يا رسول الله صلى الله عليه و سلم . وعظتنا موعظة مودع . فاعهد إلينا بعهد . فقال ( عليكم بتقوى الله . والسمع والطاعة وإن عبدا حبشيا . وسترون من بعدي اختلافا شديدا . فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين . عضوا عليها بالنواجذ . وإياكم والأمور المحدثات . فان كل بدعة ضلالة ))[ابن ماجه :42- صحيح ]
" ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور ایسا جامع وعظ کیا کہ دل کانپ اٹھے اور آنکھیں آنسووں سے بہہ نکلیں ، عرض کیا گیا ، اے اللہ کے رسول ! آپ نے ہمیں ایسی نصیحت فرمائی ہے جس طرح رخصت ہونے والا نصیحت کرتا ہے ، آپ ہم سے کوئی عہد لے لیں ، انھوں نے فرمایا: " اللہ کے ڈر کو مضبوطی سے پکڑ لو ، امیر کا حکم سننا اور ماننا لازم کرلو ، اگر چہ وہ حبشی غلام ہو ۔ میرےبعد جلد ہی تم سخت اختلاف دیکھو گے ، پس تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء کی سنت کو لازم پکڑ لینا ، ان کےطریقے کو داڑھوں کے ساتھ مضبوطی سےپکڑ لینا ، بدعات سے بچنا ، کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے ۔"
حضرت عثمان کی شہادت پر مسلمانوں میں اختلاف ہوگیا ، ایک گروہ مسلمانوں سے نکل کر جدا ہوگیا ، اور تمام صحابہ کرام کے مقابلے میں صرف اہل بیت کی محبت کا نعرہ بلند کرنے لگا ، انھوں نے خود شیعان علی یا شیعان اہل بیت کا نام دیا ، مقابلے میں عام مسلمانوں کو مذکورہ بالا حدیث کی رو سے اہل السنۃ والجماعۃ کہا جانے لگا ۔ یعنی اہل السنۃ والجماعۃ کی اصطلاح شیعوں کے مقابلے میں وجود میں آئی ۔ اور اس کا معنی تھا ، نبی کی سنت اور صحابہ کرام خصوصا خلفاء راشدین کے طریقے پر چلنے والے ۔
خلافت عباسیہ میں یونان سے فلسفے کی کتابیں میں درآمد کی گئیں ،تو پورے اسلامی معاشرے میں فلسفے کا غلغلہ بلند ہوگیا ۔ لوگ "کل جدید لذیذ "سمجھ کر اس کی طرف لپکے، ہر فرد خود کو عقل مندثابت کرنے کے لیے اسے حاصل کرنے لگا ، لوگ بے لگام تعقل پسندی کا شکار ہوگئے ، کوئی شخص یہ ماننے کے لیے تیار نہیں تھا کہ انسان کی عقل محدود ہے ، بہت ساری چیزیں اس کی عقل سے بلند تر مقام رکھتی ہیں ۔ وہ ہر چیز عقل اور فلسفے کے اصولوں پر پرکھنے لگے ، حتی کہ ایمانیات بلکہ اللہ تعالی کی ذات اور صفات کو بھی انھیں اصولوں پر جانچا جانے لگا ، نتیجہ یہ نکلا کہ ایمانیات اللہ تعالی کی ذات اور صفات کے حوالے سے حقیقت اور اعتدال سے ہٹ گئے ، کلامی فرقوں نے جنم لیا ، ایک فرقہ اگر ایک انتہا پر کھڑا ہوا تو دوسرا فرقہ دوسری انتہا پر پہنچ گیا ۔ باقی رہی عوام ، وہ تو گڈگڑی بجانے والے کے ارد گرد بھی جمع ہوجاتی ہے ۔ جن لوگوں نے ذات باری تعالی کو اپنے خود ساختہ اصولوں کا نشانہ بنایا ، ان میں معتزلہ ، اشاعرہ، ماتریدیہ اور جہمیہ کے نام سے مختلف فرقے وجود میں آگے ، جنھوں نےشہرت پائی ۔
معتزلہ جو یونانی فلسفہ کی بنیاد پر خالص عقلیت پسند ہوگئے ۔ انھوں نے عقل کو نقل پر ترجیح دی ہے، عقل کے خلاف ہر دلیل کا انکار یا تاویل کرتے ہیں ۔ عقائد کو بھی عقلی پیمانے پر پرکھنے لگے ، اور اپنی عقل سانچے میں پورا نہ اترنے والے عقائد میں تشکیک پیدا کرنے لگے ۔ اللہ تعالیٰ کے افعال کو بندوں کے افعال پر قیاس کرتے ہیں، بندوں کے افعال کے اچھے اور برے ہونے کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کے افعال کو اچھا یا برا قرار دیتے ۔ انھیں اہل السنۃ و الجماعۃ کے عقائد سے الگ ہوجانے کی بناء پر معتزلہ کہا جاتا ہے۔ مامون الرشید کے عہد میں یہ سرکاری مذہب بن گیا تھا۔ انھوں نے خلق قرآن کا مسئلہ گھڑا اور اہل سنت علماء پر حکومتی سرپرستی میں ظلم کے پہاڑ توڑے ۔
ماتریدیہ ،کی بنیاد ابو منصور ماتردی سمر قندی (333-238ہجری ) نے رکھی ۔ ماتریدیہ کے نزدیک عقل و سمع دین و شریعت کے سمجھنے کے دواہم منابع ہیں ۔ ان کا عقیدہ ہےکہ خدا کی معرفت حصول نقل سے پہلے عقل سے ثابت ہوتی ہے ، لہذا ہر انسان پر لازم ہے کہ وہ خدا کی معرفت عقل کے ذریعے حاصل کرے ۔ وہ عقل کی بنیاد پر اشیاء کے اچھا یا برا ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں ۔ ان کے نزدیک نصوص (قرآن وحدیث ) کے الفاظ کو ان کے حقیقی معنی پر حمل کرنے سے تجسم وتشبیہ لازم آتی ہے بنابریں قرآن و حدیث میں مجاز کا استعمال ہواہے ۔
اشاعرہ کی بنیاد ابو الحسن اشعری (324-260 ہجری ) نے رکھی اسی بنا پر انہیں اشعری کہلاتے ہیں۔ ابوالحسن اشعری ابتداء میں معتزلی تھے ،لیکن آخر کار معتزلیوں کی انتہاپسندانہ عقلیت پسندی اور اہل حدیث کے منہج کہ قرآن وسنت برتر ہیں کے درمیان ایک راستہ نکالنے کا عزم کیا۔ لیکن چونکہ طریقہ کار میں عقل پسندی بھی تھی ، اس لیے یہ اہل سنت اور معتزلہ کے درمیانہ ایک الگ فرقہ بن گیا ۔
فرقہ جہمیہ کو جہم بن صفوان (موت 128ہجری ) نے قائم کیا ۔ یہ شخص فرقہ جبریہ میں سے تھا جو اصلا کوفی نسل میں سے اور مذہبا یہودی تھا ۔یہ بھیمعتزلہ کی طرح تعقل پسند تھا ، اس کی بنیاد پر انھوں نے ایسے عقائد گھڑے جو اہل سنت کے عقائد سے بالکل منحرف اور جدا ہوگئے ، مثلا :
1. ایمان صرف معرفت قلب کا نام ہے اگر وہ حاصل ہے تو انکار لسان کے باوجود بندہ کامل الایمان ہے ۔
2. ایمان کے بعد اعمال صالحہ کی کوئی ضرورت نہیں اور افعال سیۂ سے بھی ایمان متا ثر نہیں ہوتا ۔
3. بندہ مجبور محض ہے اسے کوئی اختیار نہیں ۔
4. اللہ تعالیٰ کا علم حادث ہے کسی چیز کے وجود اور اسکی خلقت سے پہلے اللہ کو اس کا علم نہیں ہوتا ۔
5. اللہ کو کسی ایسی صفت کے ساتھ متصف کرنا جائز نہیں جو بندوں میں پائی جاتی ہو یہی وجہ ہے کہ جہمیہ نے اللہ تعالیٰ کے حی اور عالم ہو نے کا انکار کردیا، کیونکہ یہ بندوں کے بھی اوصاف ہیں اور اللہ تعالیٰ کو صرف فاعل وقادر قراردیا کیونکہ یہ بندوں کے اوصاف نہیں ہیں ۔
جہمیہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا صراحتا انکار کرتے ہیں ۔
6. معتزلہ کی طرح یہ بھی ہر اس غیبی خارق عادت ثابت شدہ امر کا ناکار کرتے ہیں جو ان کی عقل سے با ہر ہو ۔
ان کے برعکس ایسےلوگ بھی تھے جو ان فرقوں کے اصولوں سے متاثر نہیں ہوئے ، انھوں نے بدستور قرآن وحدیث کے اپنے سینے سے لگائے رکھا ، وہ اپنے عقائد اور اعمال قرآن وحدیث سے ثابت کرتے تھے ، وہ ان کے مقابلے میں اہل الحدیث اور سلفی کہلانے لگے ،یعنی حدیث رسول اور سلف صالحین کے طریقوں پر چلنے والے ۔
آج قرآن وحدیث کے سادہ اصولوں کو چھوڑ کر خود ساختہ اصولوں پر کار بند رہنے والے صوفیا اہل الحدیث اور سلفی لوگوں کو اہل السنۃ والجماعۃ سے نکالنے کا اعلان کررہے ہیں ، گویا ناک کٹے ، ناک والوں کا مذاق اڑا رہے ہیں ۔ آپ نے دیکھا یہ سارے فرقے تیسری صدی میں ظاہر ہوئے ہیں ، اگر یہ بات درست ہے توپہلی دو صدیوں کے کروڑوں مسلمان اہل السنۃ سے خارج ہوگئے ، بلکہ جن کے لیے اہل السنۃ کا لفظ وجود میں آیا تھا ، وہی اس کے حقوق سے آج محروم ہوگئے ۔ کافروں کی سرپرستی میں ان مسلمانوں کو اہل السنۃ سے خارج کردیا گیا ، جو ہر میدان میں ان کافروں کا مقابلہ کررہے ہیں ، اور جن کے سینے اسلام اور مسلمانوں کے تحفظ کے لیے دیوار بنے ہوئے ہیں ۔
اے شیخ !آپ ہی اپنی اداوں پر غور کیجئے ، آپ کے کندھے کس کے خلاف استعمال ہورہے ہیں ، آپ کی یہ کاوشیں کس کے فائدے میں استعمال ہورہی ہیں ، اور ان کا نقصان کس کو پہنچے گا ؟۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
اجنبی سارے جہاں میں بن گیا تیرے لیے

تحریر : ابوبکر قدوسی
کمال کر دیا مجھ کو میرے ہی گھر سے نکالنے کی باتیں ہو رہی ہیں ، مدت گزری شائد ہزار برس ہووے ، مجھے تو خود بھول گیا ، احسان بھلا کیوں یاد رکھوں کہ کبھی بھی کم ظرف نا تھا ، ہاں اتنا یاد ہے امام ابوالحسن اشعری کو گزرے کچھ ہی دن ہووے تھے ، اک روز میں خیمے میں سویا ہوا تھا کہ اونٹ نے سردی سے پناہ مانگی اور میرے خیمے میں سر دے دیا ..اور میں سدا کا سادہ ، نرم دل ، پھر اونٹ نے ہزار برس گزرے اور گروزنی میں کہا کہ خیمہ میرا ہے ،
جی ہاں جنہوں نے اسلاف کی میراث بیچ کھائی ، جنہوں نے کفن کے تار بھی نہ چھوڑے وہ اگلے روز اعلان کرتے پائے گئے کہ میرا اہل سنت سے کوئی تعلق نہیں -
آج دل ایسا جلا کہ جی چاہا کہ ان سے پوچھ ہی لوں کہ جناب آپ کی تاریخ میں کوئی ابن حنبل آتا ہے ؟ کوئی ابن تیمیہ ؟
چلیے یہ تو بہت اونچے اونچے گھروندے ہیں ، بلند محل ہیں آپ ٹھرے کٹیا کے باسی ، آپ کو ہندوستان میں ہی لے آتے ہیں ۔
آپ کی تاریخ میں کہیں دور دور تک کوئی بخت خان دکھائی پڑتا ہے ؟ نظر تو دوڑائیے کہیں اسمٰعیل شہید کوئی سید احمد تلاش کیجئے ....کوئی صادق پور ، کوئی پٹنہ ، کہیں بہار اور بنگال ......کوئی پھانسی گھاٹ ڈھونڈیے جہاں کبھی کوئی آپ کا جبہ لہرایا ہو ؟ جی ہاں کوئی کالا پانی لائیے نا کبھی ہمارا کلیجہ بھی ٹھنڈا ہو ، کبھی ہم کو بھی معلوم ہو کہ ہزار برس پہلے جس اونٹ کو خیمے میں منہ چھپانے کو جگہ دی تھی وہ بھی آج ہمارے ساتھ والے پھانسی گھاٹ پر آ موجود ہے ۔
ہاۓ مگر کہاں سے آئے یاغستان آپ کی تاریخ میں ، چمرکنڈ ، بالاکوٹ کبھی نہیں کبھی نہیں آئے گا .....جی مگر میں تھا ہر دور میں تھا ...تب بھی تھا جب ابن علقمی نے میرے بغداد کو غداری سے برباد کیا...جی ہاں تب میں تھا نا ابن تیمیہ کی صورت ... آپ تب بھی مجھ پر فتوے لگا کر اہل سنت سے خروج کے نعرے لگا رہے تھے ۔
پھر میں دلی آیا جب آپ سپاسنامے پیش کر رہے تھے میں تھا بخت خان کی صورت ، کبھی تیتو میر کی صورت ،...جی آپ کے لیے لڑا ، آپ کے گھر کی جنگ کی اور آج جب آپ حال مست قال مست تھے جب چرسی دھم لگائے جا کھلم کھلا کے بیچ میلوں اور قوالوں کے بیچ حق ہو کے آوازے لگا کے قوم کو مذھب کے نام پر افیون پلا رہے تھے ......میں تھا جو افغانستان میں بھی تھا ، جو سوڈان میں بھی تھا ، جو عراق میں بھی ہے ، جو شام میں بھی ......
اور آپ کو ملا بھی تو پیوٹن....کہ جس نے چنگیز خان کو بھی شرما دیا ، جس نے شام کے شہروں پر یوں بمباری کی کہ محلے کے محلے شہر کے شہر جلس گئے ، برباد ہو گئے ...لاکھوں افراد کا قاتل آپ کی پناہ گاہ ٹہرا...
اور آپ ہیں جو پیوٹن کی گود میں بیٹھے ، اس کے خرچے پر اس کے گھر میں بیٹھ کر فتوے دے رہے ہیں کہ کہ جو غیرت مند تھے ، جو جان سے گذر گئے ، جو اللہ کے لیے سارے جہاں سے اجنبی ہو گئے ، ان سے آپ کا کوئی تعلق نہیں...
...جی ہاں پہلی بار آپ نے درست کہا ، سچ بولا ...بھلا بے حمیتی اور غیرت کا بھی کوئی ساتھ ہوتا ہے ؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
چیچنیا کی کانفرنس

تحریر : موہب الرحیم
چند هفتے قبل چیچنیا میں ایک کانفرنس هوئی جس کا موضوع تها :اهل السنۃوالجماعۃ کون ؟
اس پروگرام میں یه طے پایا گیا که اشاعره، ماتریده، اور جنید بغدادی کیلے طریق پر چلنے والے صوفیاء هی اهل السنۃ و الجماعۃ هیں
اس کانفرنس میں دنیا بهر سے اشاعره، ماتریدیه اورصوفیاء مدعو کیے گئے، شریف حاتم عونی کو بهی بلایا گیا جو که ام القری یونیورسٹی میں پروفیسر هیں، یه اس کانفرنس کے سب سے افضل آدمی تهے اگرچه عقیدے کے اعتبار سے ان پر بهی کچھ درست جرحیں موجود هیں ۔
بر صغیر سے ابو بکر احمد کیرالوی هندی کو مدعو کیا گیا
همارے یهاں کے اکثر لوگ اس کانفرنس سے آگاه نهیں تهے حتی که جناب مفتی منیب صاحب نے اس کانفرنس کی حمایت میں یکم اکتوبر کو دنیا نیوز میں ایک کالم لکھ مارا
جو که بهت ساری تلبیسات اور مغلاطوں پر مشتمل هے، کالم پڑھ کر معلوم هوتا هے که کالم نگار کو کانفرنس کی درست معلومات بهی نهیں _
یاد رهے که اس کانفرنس میں ی اهل الحدیث کو اهل السنۃ سے خارج کر دیا گیا هے ۔
چیچنیا کانفرنس کی صدارت چیچنیا کے صدر رمضان قدیروف نے کی، یه شخص انتها درجے کا متعصب هے، اهل الحدیث سے تو بغض رکهتا هی هے عرب سے بهی رکھتا هے
کهتا هے میرے ملک میں کوئی بهی وهابی نظر آیا تو اسے قتل کر دوں گا، بلکه وهابی سے متشابه کو بهی ...!!
یه شخص خرافی صوفی بهی هے اور قبوری بهی
اور روس نواز بهی
وهی روس جس نے هزاروں معصوم سنیوں کو ایک لمحے میں درندگی سے موت کے گهاٹ اتار دیا ... !!
اس کے کرتوت نیچے دی گئی ویڈیوز میں دیکهیں
اور دیکهیں که مفتی منیب کے " اهل السنۃ " ڈانس کتنا اچھا کرتے هیں ... !!
اس کانفرنس میں موجود لوگوں میں ایک شخص حبیب علی جفری تها، یه شخص قبوری صوفی اور متعصب اشعری هے، رقص بهی کر لیتا هے
ویڈیو میں کانفرنس کے موقع پر رقص کرنے والوں کو کهه رها هے که اس طرح تم سنت رسول بلند کر رهے هو .... !!
اس شخص پر رافضی هونے کی تهمت بهی هے، یه بهی کها گیا هے که یه شخص بیان کرتا هے که میں نے تین سال سنی اور شیعی مﺫهب میں تحقیق کی تو شیعیت کو راجح پایا__ !!
یه شخص بوطی کے خوشه چینوں سے هے اور یه بوطی وهی هے جو حافظ الاسد بشار الاسد کے باپ کی حمایت کیا کرتا تها ....!!
پس اس جفری کا رافضی هونا بعید نهیں
اس کی ضلالت کی چند جھلکیاں آپ ان ویڈیوز میں دیکھ سکتے هیں:
اس کانفرنس میں سعید فوده بهی مدعو تهے، یه صاحب اشاعره کی طرف منسوب هیں اور اسی کی طرف دعوت بهی دیتے هیں، لیکن خود اشاعره کے کچھ لوگ ان سے تنگ هیں
جامعه ازهر کے ڈاکٹر محمد احمد طیب بهی اس کانفرنس میں شامل تهے یه بهی غالی صوفی هیں
ابو بكر احمد هندى اور مفتی مصر - جنهیں مفتی منیب صاحب نے شوکی الیم لکھا هے اور انهیں چیچنیا کا مفتی اعظم کها هے ...!! - یه دونوں حضرات بهی قبروں کو طواف کرنے والوں میں سے هیں ... !!
اس کے علاوه بهی کانفرنس میں بهت سے لوگ تهے، هم نے صرف انهیں کے عقیده کی مختصر وضاحت کی هے جن کا جناب مفتی منیب صاحب نے تﺫکره کیا هے
یه جفری صاحب - یک از علماء مؤتمر - یهود سے محبت بهی رکهتے هیں بلکه برملا اس کا اعتراف بهی کر رهے هیں
اهل السنۃ و الجماعۃ کوئی موم کی ناک نهیں که اس کو جو چاهے جهاں چاهے موڑ دے
اهل السنۃ و الجماعۃ کا وجود تب سے هے جب امام اشعری رحمه الله اور ابو منصور ماتریدی غفر الله له پیدا بهی نهیں هوے تهے
سب سے پهلے جس سے یه لقب بسند ثابت هے وه امام محمد بن سیرین مشهور تابعی هیں
ایوب سختیانی، ابن عون، مالک، اوزاعی، ابن عیینه، ثوری، شافعی، احمد، بخاری، حمادین، محمد بن نصر مروزی و غیرهم ان اهل السنۃ کے مشهور أئمه میں سے هیں
اب یه ممکن نهیں که کسی ایسے مﺫهب کو اهل السنۃ کا مﺫهب کها جائے جو ان أئمه کے مﺫهب کے خلاف هو ۔
الحمد لله ان أئمه کا عقیده مدون اور بسند صحیح هم تک پهنچا هے
اشاعره و ماتریدیه کا عقیده ان أئمه کے خلاف هے
اب یه کس رو سے اپنے آپ کو اهل السنۃ کهنے کے مستحق ٹھرے !!!!
کیا آپ کو معلوم هے که ما شاء الله چیچنیا کی کانفرنس میں " اهل السنۃ و الجماعۃ " سے صحابه، تابعین، تبع تابعین اور أئمه اربعه کو خارج کر دیا گیا هے ...!!
اور مفتی منیب صاحب نے اس اقدام کو " خراج تحسین " عطا کیا هے ....!!
مفتی منیب صاحب کهتے هیں :
" ان [ مزعومه ] ( اهل السنۃ و الجماعۃ ) میں چار فقهی مﺫاهب کے ماننے والے حنفیه، مالکیه، شافعیه اور حنابله شامل هیں، اور ان کے علاوه سید الطائفه امام جنید اور ان کے علم، اخلاق اور تزکیه میں ان کے طریق اصلاح کے حامل أئمه هدی شامل هیں "
میں کهتا هوں : جنید بغدادی اور ان کے طریق اصلاح کے حامل أئمه هدی کا تﺫکره کر کے ان لوگوں نے خود هی اپنا نقض کر دیا هے __
* جنید بغدادی علم الکلام کے سخت خلاف تهے، حتی که کها کرتے تهے : علم کلام کی سب سے هلکی مصیبت یه هے که یه الله کی هیبت دل سے ختم کر دیتا هے ___ جب که اشاعره ماتریدیه کا علم کلام کے بغیر گزاره هی نهیں ____
* جنید بغدادی کے طریقه اصلاح کے حامل بعض أئمه کلابیه پر لعنت کیا کرتے تهے، ابو اسماعیل انصاری هروی م 481 اپنی کتاب ﺫم الکلام میں نقل کرتے هیں که ابو عبد الرحمن سلمی کلابیه پر لعنت کرتے تهے
اور سلمی هی وه شخص هیں جن اهل صوفیاء پر احسان هے که انهوں نے ان کے لیے بهت کتب لکهی هیں اور بسند ان کے حالات جمع کیے هیں، طبقات الصوفیه وغیره ان کی مشهور کتب هیں ، کلابیه پر لعنت کا مطلب یه هے که آئمه صوفیا میں سے کوئی بهی کلابی نهیں تها _ وگرنه ایک جگه ایک شخص کی تعظیم اور دوسری جگه لعنت ....!!
* دل چسپ بات یه هے که ابوبکر کلاباﺫی نے صوفیا کا اجماع نقل کیا هے ، فرماتے هیں :
" و اجمعوا علی ان له سمعا و بصرا و یدا و وجها علی الحقیقۃ
" صوفیاء کا اجماع هے که حقیقتا الله کے لیے سمع و بصر اور چهره اور هاتھ هے "
اور یه موقف اشاعره ماتریدیه کے خلاف هے بلکه ان کے بعض أئمه کے هاں کفر هے ___ !!!
مفتی منیب صاحب کا خیال هے که ایسے اهل الحدیث بهی موجود هیں جو ید، وجه، ساق وغیره صفات کو اعضاء و جوارح قرار دیتے هیں
لیکن یه بالکل غلط هے مفتی صاحب کو عمر نوح هی کیا سیدنا آدم علیه السلام سے لے کر آخری آنے والے شخص کی موت تک کا وقت بهی دے دیا جائے تو وه دنیا میں کوئی ایسا اهل الحدیث نهیں دکها سکتے ... !!
اهل الحدیث تمام کے تمام الله کی صفات کو کما یلیق بجلاله قرار دیتے هیں، اور ان کو اعضاء، جوارح قرار دیتے هیں اور نه هی تکییف کے قائل هیں
اس کانفرنس میں سید الطائفه جنید بغدادی کے طریق اصلاح پر چلنے والوں کو اهل السنۃ قرار دیا گیا هے
دل چسپ بات یه هے که جن نے یه فیصله کیا هے وه خود جنید بغدادی کے طریق پر چلنے والے نهیں،
مجلس میں موجود صوفیاء، جفری، کیرالوی، شوقی علام وغیره قبوری قسم کے صوفی هیں، استغاثه و توسل کے قائل هیں جب که جنید بغدادی کے طریق پر چلنے والے صوفیاء تو کهتے هیں : استغاثۃ المخلوق بالمخلوق کاستغاثۃ الغریق بالغریق
" مخلوق سے استغاثه غرق هوے والے کا غرق هونے والے سے استغاثے کی مثل هیں
نیز جنید بغدادی رحمه الله کے طریق پر چلنے والے مخلوق کے استغاثے کو قیدی کے قیدی سے استغاثے کی طرح قرار دیتے هیں
جنید بغدادی سے حماقت پر مشتمل طریقه ﺫکر بهی ثابت نهیں جب کے جفری شفری اور مفتی منیب کے صوفیوں کا طریقه اﺫکار محدث اور متقدمین صوفیاء سے کوئی میل نهیں کهاتا .... !!
احناف کے دور حاضر کے شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب صفات الهی سے متعلق چار اقوال ﺫکر کرتے هیں
1 - معنی کی تفویض ، اس کو جمهور سلف کا موقف قرار دیتے هیں
2 - صفات سے حقیقی معانی مراد لینا لیکن ان کو مخلوق کی مشابهت سے پاک قرار دینا اور انهیں الله جل شأنه کی شان کے مطابق قرار دینا ___ اس مسلک کو #سلف_کی_ایک_جماعت کا موقف قرار دیتے هیں
3 - تاویل کا مسلک اور اس کو بعض سلف اور متأخرین کی ایک جماعت کا قول قرار دیتے هیں
4 - بعض علماء وهاں تاویل کے قائل هیں جهاں تاویل کی لغت میں کوئی گنجائش هو ، جهاں گنجائش نه هو وهاں پهلا یا دوسرا مﺫهب اختیار کرتے هیں __
[ تقدیمه علی القول التمام باثبات التفويض مذهبا للسلف الکرام :۲۳ ]
میں کهتا هوں یه دوسرا قول بعینه اهل الحدیث کا موقف هے، بلکه سلف سے اس کے سوا کچھ بهی ثابت نهیں اگرچه جهالت کا اظهار کرتے هوے یا تجاهل عارفانه برتتے هوے مفتی منیب صاحب نے اس حقیقی معنی مراد لینے میں صفات کو اعضاء سمجھنے کی اهل الحدیث پر تهمت لگا دی هے -
اس عبارت سے گهر کی گواهی بهی مل گئی که سلف میں ایسے لوگ موجود تهے جو اشعری یا ماتریدی نهیں تهے ___
بنا بریں اهل السنۃ سے جن کو اس کانفرنس میں خارج کیا گیا ان خارج کیے گئے لوگوں میں یه سلف بهی شامل هوے
اب بتائیے اس کانفرنس کی اس سے بڑ کر فضیحت کیا هوگی که جس میں ایک دو نهیں سلف کی ایک جماعت کو اهل السنۃ سے خارج قرار دے دیا گیا هے ___
یاد رهے که همارے نزدیک سلف میں کوئی بهی مؤول یا تفویض مطلق کا قائل نهیں تها ۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
⁠⁠⁠مفتی منیب صاحب ، نئے اہل سنت اور تازہ مظلوم

تحریر : حافظ یوسف سراج
قائدِ اعظم سے صحافی نے پوچھا۔’’ آپ سیاستدان نہ ہوتے تو کیا ہوتے ‘‘ فرمایا ۔ ’’ صحافی ‘‘۔ پھر اس کی وضاحت یوں فرمائی’’ہم جہاز میں سوار ہوکے کسی جگہ اترتے ہیں توعین دروازے پر ایک صحافی کسی ایسے واقعہ پر ہم سے رائے جاننے کو آ موجود ہوتاہے،کہ جو واقعہ ابھی ابھی کہیں رونما ہوا ہوتا ہے اورجسے ہم نے ابھی قطعاجانا نہیں ہوتا۔ سو میں سیاستدان نہ ہوتا تویقینا ایک صحافی ہونا پسند کرتا۔‘‘
یہ قائدِ اعظم تھے ،اور ظاہر ہے ، ہماری طرح صحافی نہ تھے،سو ان کی مجبوری تھی کہ واقعہ جانے بغیراس پر رائے نہیں دیتے تھے ، ایک صحافی الحمدللہ چونکہ نہ قائدِ اعظم ہوتاہے اور نہ سیاستدان ، سو ثم الحمدللہ وہ ایسے ہر واقعہ پر ڈٹ کے رائے بھی دے سکتا ہے اور متعدد کالم بھی رقم فرما سکتاہے۔تفنن برطرف صحافت واقعی ایک مستعد بیداری، ہمہ وقتی ہوشیاری اورخرد مندانہ خبرداری کا نام ہے ، جس سے ہم جیسے کبھی تو دور ہوتے ہیں اور کبھی کوسوں دور۔ صاحبو! ہم بھی عجب ہی صحافی ہیں کہ جب کبھی کسی مصروفیت و غفلت کے جہاز سے اترتے ہیں تو سامنے کوئی مفتی عبدالقوی مد ظلہ العالی یا پھر مولانا الیاس گھمن صاحب اپنی گھمن گھیریوں سمیت ہماری بے خبری کا منہ چڑا رہے ہوتے ہیں ۔ اب کے پتا چلا کہ کسی اور نے نہیں یہ پھول شبلی ہی نے تاک مارا ہے ،میرا مطلب چاند چڑھانے والے (مفتی عبدالقوی صاحب)نے نہیں، بلکہ چاند دیکھنے والے سنجیدہ و متین مفتی صاحب کے کالم نے بہت سے مسلمانوں کو خوفزدہ کررکھاہے۔ خطِ نستعلیق میں بااعراب عربی (جس میں کہیں کہیں اردو بھی تھی) میں لکھا اوردنیا و دلیل پر چھپا یہ کالم دیکھا تو میں نے بھی تھا مگرپھر اسے مفتی صاحب کو عینک لگنے کی وجہ سمجھ کے چھوڑ ہی دیا تھا۔پھر مگر گھبرائی گھبرائی سی آتی تفصیلات کے مجبور کرنے پر یہ کالم پڑھنا ہی پڑا۔
جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار
اے کاش نہ جانتا تیری رہ گزر کو میں
واقعی یہ ایک حیران کن بلکہ پاکستان و عالم اسلام کے موجودہ حالات میں خاصا پریشان کن کالم تھا، جسے شاید مدیر صاحب نے بھی محض عربی سے متاثر ہو کے اور مضمرات کا اندازہ لگائے بغیر چھاپ دیا۔ قصہ یہ تھاکہ چیچنیاکے دارالحکومت میں جمع ہو کر چند بھاری بھرکم غیر ملکی ناموںوالے پروفیسروں نے، جو ظاہر ہے کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی یونیورسٹی وغیرہ میں زیرِ جاب بھی تھے ، ’’اہلِ سنت کون ؟‘‘ کے عنوان کے تحت یہ نیک کام کیا کہ امت کے کچھ لوگوں کو تو ازراہِ مہربانی اہلِ سنت ہی رہنے دیا جبکہ باقی کئی اہم ترین لوگوں کو اس دائرہ سنت والجماعت سے فی الفور نکال باہر کیا کہ چلو باہرنکلو ، کیا رش لگا رکھاہے۔
اب تک توہم نے اسلافِ امت سے یہی سنا تھا کہ فی الاصل اس امت کے دو ہی فرقے یا گروہ ہیں ،یعنی اہل تشیع اور اہلِ سنت ۔اگرچہ اس سے آگے یہ دونوں از خود بھی کافی خود کفیل ہیں۔ یہ مگر پہلی دفعہ ہوا کہ صدیوں سے چلی آتی اس تقسیم کو پیوٹن کے زیرِ سایہ تقسیم مزید کے عملِ زہ سے بھی گزارا گیا۔ یکلخت میں نےسوچا کہ جب سعودیہ ان دنوں ایران کے مقابل وہابیوں کے علاوہ بھی سبھی اہلِ سنت کو قریب بلکہ قریب تر کر رہا ہے تو پھر اس کانفرنس کومہبطِ وحی مکہ و مدینہ سے اتنی دور لے جانے کی آخر کیا ضرورت تھی؟ یادش بخیر، اقبال کے پاس غالباً مولانا ظفر علی خان پریشان آئے کہ انگریز حجاز میں ہسپتال کھولنے کے بہانے اپنا کوئی اڈا کھولنا اور مسلمانوں سے چندہ بٹورنا چاہتاہے ۔ اقبال نے کاغذ پکڑا اور یہ نسخہ لکھ کے تھما دیاکہ جاؤ اب یہ ہسپتال نہ بنے گا ؎
اک پیشوائے قوم نے اقبال سے کہا
کھلنے کو جدہ میں ہے شفاخانہ حجاز
اوروں کو دیں حضور یہ پیغامِ زندگی
میں موت ڈھونڈتا سرزمینِ حجاز میں
یاحیرت ! اقبال موت بھی حجاز میں ڈھونڈے ،اور اقبال کا شاہین اپنا دین بھی پیوٹن کے گروزنی میں جا ڈھونڈے ؟ویسے ظاہر ہے کہ جو چیر پھاڑ پنجۂ عیسیٰ میں آئے ہسپتال میں ممکن ہے وہ مطبِ نبوی کی حکیمانہ حکمت میں کہاں ممکن ہے۔ خیر، لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے فارمولۂ تقسیم کی طرح گروزنی کی تقسیم اہلِ سنت کا فارمولہ بھی بڑا سادہ سا تھا۔ یعنی جو مسلمان فلسفہ ٔیونان کی عقلی موشگافیوں کے وضع کردہ نظامِ علم الکلام کے بجائے محدثین کے بتائے سادہ طریقے سے رب کی صفات کو مانے،نکلے یہاں سے ، اس کاکوچۂ اہلِ سنت میں بھلا کیا کام؟ لارڈ ماؤنٹ بیٹنی یہ فارمولہ ہے کیا؟ آپ سادہ انداز میں یوں سمجھئے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر قرآنِ مجید ، سورہ فتح میں ایک آیت نازل ہوئی۔ ’’وہ جو تمھاری بیعت کرتے ہیں وہ تو اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے۔‘‘
( ترجمہ احمد رضا خاں بریلوی)
اب یہاں اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال ہوئے لفظ ’ہاتھ‘(ید)کو سمجھنے میں کچھ مسلمانوں کو مشکل پیش آئی۔ صحابہ کو نہیں، فلسفہ ٔ یونان کے علم الکلام کے زیر اثر آنے والے بعد کے کچھ لوگوں کو ۔ انھوں نے کہا ، ہیں ہیں ؟؟؟ تو گویا اللہ کا بھی ہاتھ ہے؟ہرگز نہیں، ہاتھ تومخلوق کا ہوتاہے ، اللہ کا ہاتھ مان لیا توگویا اللہ کو تونعوذ باللہ مخلوق جیسا مان لیا ، نہیں جی ، ہرگز نہیں ، یوں تو ہم نہ مانیں گے ، چلئے جلدی کیجئے ،اس ید کا معنیٰ کچھ اور کیجئے ، جو بھی کرو بس اللہ کا ہاتھ نہیں ہونا چاہئے۔ حالانکہ علاوہ اور علمی دلائل کے علماء نے علم بلاغت (زبان و بیان کے علم ) سے بھی انھیں سمجھایا کہ لفظی مشارکت اور تشبیہ سے یہ قطعا ًلازم نہیں آتا کہ جس سے تشبیہ دی گئی ہو ، تشبیہ دیا جانے والا بھی سو فی صد ویسا ہی مانا جائے۔ مثلاً ن لیگ والے نواز شریف کو اگر شیر کہتے ہیں تومعاف کیجئے گا کیا اس سے یہ بھی لازم آئے گاکہ اب میاں صاحب بے چارے کی شیر کی طرح دم بھی مانی جائے؟مثلاً منہ انسانوں کا بھی ہے اور جانوروں کا بھی ۔تو اگر انسان یہ کہیں کہ ہمارے منہ کو آج سے ٹانگ کا پٹ کہا جائے وگرنہ ہماری جانوروں سے مشابہت لازم آئے گی ؟ تو کیا ایسا سمجھنا درست ہو گا؟ یقینا نہیں۔ چنانچہ محدثین نے یہ رائے مسترد کردی، انھوں نے کہا کہ بھئی معنیٰ تو ہم وہی کریں گے جو بنتاہے، البتہ ہم یہ کہیں گے کہ ہے تو ہاتھ ہی مگر یہ ہاتھ مخلوق جیسا نہیں ہے ۔ پھر کیسا ہے؟ بھئی جیسا اللہ کی شان کے شایاں ہے۔ ہم نے دیکھا تھوڑی ہے؟ جنت میں دیکھیں گے تو تفصیل بھی بتا دیں گے.
لیجئے صاحب! اسی محدثین کے سچے اور سچے موقف والوں کو آج چند پروفیسروں کے زورِ بیاں نے گروزنی میں قابلِ گردن زدنی ٹھہرا دیا ہے۔کہئے نعرہ ٔ تکبیر!اللہ اکبر! دیکھا کیسی شاندار کانفرنس تھی!
قارئین! بات لیکن اتنی سادہ بھی نہیں کہ کسی کے پرجوش نعرۂ تکبیر میں لپیٹ دی جائے۔ کیونکہ اگریہی اصرار ہے توپھر امام بخاری ، امام مسلم سمیت سارے محدثین یعنی امام احمدابنِ حنبل ، امامِ مالک ، امام شافعی کے علاوہ فقہا و علماء امام ابو حنیفہ ، امام ابنِ تیمیہ ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، ابو الکلام آزاد ، ثنااللہ امرتسری ، مولانا داؤد غزنوی ، علامہ احسان الٰہی ظہیر ، پروفیسر ساجد میر، حافظ سعید، علامہ ابتسام الٰہی ظہیر اور نہ جانے کتنے اور لوگ اسی ایک گروزنی کانفرنس سے اور مفتی صاحب کے ایک کالم سے تا حکمِ ثانی کالعدم اہلِ سنت قرار پائیں گے۔ کیا یہ واقعی اتنا ہی آسان ہے؟ پھر یہ بھی تو سوچئے کہ جو صحابہ و تابعین دور عباسی میں فلسفہ ٔ یونان آنے سے پہلے پہلے رب کے پاس جا پہنچے ، آیا انھیں گروزنی کانفرنس سے بچا لیا جائے گا یا گئی ان کی بھی اہلِ سنیت ؟ شورش یاد آگیا۔ عجیب شخص تھا، ’ شب جائے کہ من بودم ‘کے نام سے اپنے سفرِ عمرہ کی روداد لکھی توشاہوں پر اپنے کاٹ دار انداز میں تنقید کی ، لکھا کہ وہ بدعت سے خائف ہوکے یا عدم توجہی کی بنا پر سنت کی یاد گاریں گم کر رہے ہیں۔ جی اسی شورش نے جب سنا کہ کسی نے قائدِ اعظم کے ساتھی اور مسلک ِ اہلِ حدیث کے رہنما داود غزنوی کے بارے میں کہا ہے کہ وہ جنت میں نہیں جائیں گے۔ پھر کیا تھا موچی دروازے میں شورش بپھر گیا۔ اپنے خاص طنطنے ، دبدبے ، دغدغے اور ہمہمے سے کہا ، اگر داؤد غزنوی جنت میں نہیں جائے گا تومیں اس کے ساتھ جہنم میں بھی جانے کو تیار ہوں ، لیکن تمھارے ساتھ تومیں جنت جانے کوبھی تیار نہیں۔ اللہ اللہ ! کیاخاص ڈکشن ، خاص سانچے کےاور خاص طرح کے بڑے اور باصفا لوگ تھے وہ ۔جناب مفتی صاحب! خدارا اتنا تو سوچئے کہ اگر اسلام کے صفِ اول کے یہ سارے متذکرہ لوگ اہلِ سنت نہیں تو پھر اہلِ سنت ہے کون؟ (صرف ایک کالم اور)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
مسجد ضرار کی تعمیر نو

تحریر : عبدالرحمن عزیز
مدینہ کی چھوٹی سی سلطنت نو سالوں میں عرب کے سارے خطہ کو سر نگوں کرچکی تھی ، بڑے سے بڑا قبیلہ بھی ان کے سامنے میدان میں ٹھہرنے کی اپنے اندر ہمت نہ پاتا تھا ۔ لیکن مدینہ کے اندر رہنے والے آستیں کے سانپ بھی ہار ماننے والے نہ تھے ، انھوں نے اپنی امیدیں دنیا کی واحد سپر پاور روم سے وابستہ کرلیں تھیں ، دونوں کے نمائندے ایک دوسرے سے ملاقات کرکے مسلمانوں کے خلاف اتحاد قائم کرچکے تھے ، لیکن اپنے منصوبے کو حتمی اور عملی شکل دینے تک اسے مخفی رکھنا چاہتے تھے ۔ مدینہ کی چھوٹی سی بستی میں ایک دوسرے سے چھپ کر رہنا اور اتنی بڑی پلانگ کرنا مشکل نظر آرہا تھا ، اور ویسے بھی منافق بزدل ہوتاہے ، اگر بزدل نہ ہو تو منافق کیونکر بنے ؟۔ انھوں نے اپنے منصوبے کی پلانگ کے لیے گھروں کا استعمال کرنے کی بجائے مسجد کے نام سے ایک عمارت تعمیر کی ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر درخواست کی ، کہ سردی کے موسم اور بارش کی حالت میں مسجد قبا میں پہنچنا بعض اوقات مشکل ہوجاتا ہے ، لہذا ہم نے اپنے محلے میں ایک مسجد بنائی ہے ، اس کا افتتاح فرمادیں ۔ دلوں کےبھید اللہ کے علاوہ کون جانتا ہے ، ارشاد ہوا ابھی جنگ تبوک کی تیاری کے سلسلے میں مشغول ہوں ، واپسی پر دیکھا جائے گا ۔ سرور کونین کو خبر ملی تھی کہ روم جو اس دور میں دنیا کی واحد سپر پاور تھی ، مدینہ پر حملہ ہوناچاہتی ہے ، آپ نے بہترین جنگی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے اعلان کردیا کہ ہم دشمن کو اپنی زمین پر قدم رکھنے کی اجازت نہیں دیں گے ، اس کی سرزمین پر اس سے لڑیں گے ۔ ہر مسلمان کی اس میں حاضری ضروری ہے ۔ اورہر شخص اس کی تیاری میں حصہ بقدر جثہ ڈالے ۔ المختصر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم تیس ہزار قدسیوں کا لشکر لے کر روم کی سرحد تبوک میں جا پہنچے ۔ روم نے دیکھا کہ مدینہ کے بھوکے ،پیاسے ننگے پاوں زنگ آلود ہتھیاروں کے ساتھ سر پر دعوت مبارزت دینے پہنچ گئے ہیں تو اس کے اوسان خطا ہوگئے اور مقابلے کی جرات نہ کرسکا ۔ لیکن روم ایسی جری حکومت کو برداشت کرنےکےلیے ہرگز تیارنہ تھا ، منافقین مدینہ کے ساتھ برابر رابطے میں تھا ، اسی دوران اس کا ایلچی مسجد نما عمارت میں ان کے ساتھ ملاقات کرچکا تھا ۔ سرور کونین واپس تشریف لائے تو منافقین پھر حاضر خدمت ہوئے اور اپنی درخواست کا اعادہ کیا ، قبل اس کے کہ آپ افتتاح کرنے کی حامی بھرتی آسمان سے وحی آئی ، اور ان کا سارا منصوبہ فاش کردیا :
{وَالَّـذِيْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّكُفْرًا وَّتَفْرِيْقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَاِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللّـٰهَ وَرَسُوْلَـهٝ مِنْ قَبْلُ ۚ وَلَيَحْلِفُنَّ اِنْ اَرَدْنَـآ اِلَّا الْحُسْنٰى ۖ وَاللّـٰهُ يَشْهَدُ اِنَّـهُـمْ لَكَاذِبُوْنَ }[التوبۃ :107]
"اور جنہوں نے مسجد بنائی ہے(دراصل انھوں نے بنایا ہے اسلام اور مسلمانوں کو ) نقصان پہنچانے کے لیے ، اور کفر(کا پرچار) کرنے اور مسلمانوں میں تفریق ڈالنے کے لیے، اور ان لوگوں کے گھات لگانے کے لیے جو اللہ اور اس کے رسول سے پہلے لڑ چکے ہیں، اور البتہ قسمیں کھائیں گے کہ ہمارا مقصد تو صرف بھلائی تھی، اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ بے شک وہ جھوٹے ہیں۔"
افسوس مسلمانوں میں ہمیشہ آستیں کے سانپ رہے ہیں ، مسلمانوں کو باہر کی کوئی طاقت کبھی شکست نہیں دے سکی ، انھیں ہمیشہ آستیں کے سانپوں نے ہی ڈسا ہے ۔ نسیم حجازی کے بقول مسلمانوں کے قلعوں کے دروازے ہمیشہ اندر سے ہی کھلے ہیں ۔ جب بھی مسلمان کسی اہم کام کےلیے اٹھے ، اپنوں نے ہاتھ قلم ، اور پاوں کاٹنے کی کوشش کی ۔ جب بھی انھیں متحد کرنےکی کوشش کی گئی ، اپنے ہی کسی ساتھی نے وحدت کی عمارت کو بنیاد سے ہلا ڈالا ۔ ہمارے دشمن ہماری تاریخ کو ہم سے زیادہ جانتے ہیں ۔ وہ مسلمانوں کی اس عادت اور عداوت سے خوب واقف ہیں ۔ اسی لیے وہ ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف اپنی توانائیاں ضائع کرنے کی بجائے مسلمانوں ہی کے کسی گروہ کے منہ میں چھیچھڑا دیتے ، اور اس سے بھڑ جانے کا حکم صادر کرتے ہیں ، پھر سائڈ پر بیٹھ کر تالیاں پیٹتے ہیں ۔
ہندوستان پر انگریز نے قبضہ کیا تو مسلم قوم کے باہمت اور حوصلہ مند جوان اٹھے اور انگریز کو پوری طاقت سے للکارا ۔ بنگال کا پچیس سالہ نوجوان سراج الدولہ ان کے سامنے ڈٹ گیا ۔ لیکن پلاسی کے میدان میں (23 جون 1757 ء) اپنے کمانڈر انچیف میر جعفر کی غداری سے سراج الدولہ کی 50 ہزار فوج ، انگریز کی محض 3 ہزار فوج سے شکست کھا گئی ،میر جعفر کے بیٹے میراں نے سلطان کو شہید کردیا ، اور عملا بنگال میں مسلمانوں کی عروج واقتدار کو سورج غروب ہوگیا ۔
دوسری طرف میسور میں سلطان حیدر علی انگریزوں کے خلاف ڈٹ گیا ۔ ان کی شہادت کے بعد ان کے شیر دل بیٹے سلطان ٹیپو نے قیادت سنبھالی اور انگریزوں کے توسیع پسندانہ عزام کے راستے میں آخری چٹان بن گیا ۔ میر صادق (جو سلطان کی مجلس کا صدر تھا) نے انگریزوں کے ساتھ مل کر عین میدان جنگ میں غداری کی ، مسلمانوں کا سپوت اور اسلام کا محافظ جام شہادت نوش کرگیا ۔ اور میسور ہمیشہ کے لیے کافر سلطنت کا حصہ بن گیا ۔ میر صادق تو اسی وقت سلطان کے وفادار سپاہیوں کے ہاتھوں جہنم واصل ہوگیا ، لیکن اس غداری کے عوض اس کی اولادکو انگریز حکومت کی طرف سے وظیفہ ملتا رہا ۔ وظیفہ ملنے کے دن انگریز افسر کےد فتر کےسامنے ہرکارا آواز دیتا میر صاد ق غدار کے ورثا حاضر ہوں ۔
اسی طرح باقی ہندوستان کی آزادی کے لیے صادق آبادکے اہل حدیث (سلفی )علماء نے صحابہ کی یاد تازہ کردی ، وہ اس شعر کا مصداق بن گئے :
میں اکیلا ہی چلا تھا ، جانب منزل لیکن پھر لوگ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
پورے ہندوستان میں یہ تحریک جہاد پھیل گئی ، پورے ہند سے خفیہ طور پر چندہ ، بندہ اور ڈنڈا (یعنی افرادی قوت ، مال اور اسلحہ ) پہنچنا شروع ہوگیا ۔ بوڑھی مائیں آٹا گوندھتیں تو ایک مٹھی علیحدہ کرکے مجاہدین کے لیے رکھ دیتیں ، چند دنوں بعد ایک فقیر آتا اور بھیک مانگتا ، چند دنوں کے اندر اندر وہ غذا ور چندہ ہزاروں میل دور مجاہدین تک پہنچ جاتا ۔
انگریز ذبلیو ذبلیو ہنٹر نے لکھا کہ جب تک ایک بھی وہابی (اہل حدیث) موجود ہے ہم ہندوستان پر آسانی سے حکومت نہیں کرسکیں گے ۔ لہذا انگریز حکومت کو چاہئے ان کا مقابلہ کرنے کے لیے صوفی ازم کے ماننے والوں اور خانقاہوں کے گدی نشیوں سے مدد حاصل کرے ۔ پھر کیا تھا انگریز کے پیسوں اور تعاون سے انھوں نے مجاہدین کے خلاف ایسی تحریک برپا کی کہ دیہاتوں کے ان پڑھ لوگ وہابی کو کوئی خطر ناک جانور تصور کرنے لگے ۔ بلآخر تحریک جہاد ناکام ہوگئ ، اور انگریزکو پورے ہند پر بلاشرکت غیرے حکومت کرنے کا پروانہ مل گیا ۔
آج جب تمام کافر طاقتیں متحد ہوکر مسلمانوں کے وسائل پر قبضہ کرنے کےلیے حملہ آور ہیں ، مسلمان حکمران اپنی کرسیاں بچانے کے لیے منہ گھنگنیاں ڈالے بیٹھے ہیں ، بلکہ ان کے پیسوں سے عیاشی کررہے ہیں ، چند نوجوان اٹھے اور ظالم طاقتوں سے ٹکرا گئے ، ان میں اکثریت ان لوگوں کی تھی جنھیں لوگ سلفی ، وہابی یا اہل حدیث کہتے ہیں۔ آئمہ کفر کے لیے انھیں زیر کرنا آسان نہ رہا ، تو انھوں نے ایک بار پھر اپنے صوفی بھائیوں سے مدد لینے کا پروگرام بنایا ۔ روس جو جہاد افغانستان کے نتیجے میں کئی حصوں میں بٹ گیا اور اپنی عالمی حیثیت کھو بیٹھا ۔ چیچنیا،جہاں کے شیر دل مسلمان آج بھی روس سے آزادی کے لیے برسر میدان ہیں ،جبکہ وہاں کی گٹھ پتلی حکومت چیچنیا کو روس کی غلامی میں رکھنے کے لیے پوری تندوہی سے مجاہدین آزادی کا مقابلہ کررہی ہے ۔ ایران ,تاریخ شاہد ہے کہ وہ ہمیشہ اہل سنت کے مقابلے میں کافروں کے ساتھ دیتا آیا ہے ، آج بھی ایران ، کشمیر کے معاملے میں انڈیا ، افغانستان اور عراق کے محاذ پر امریکا اور شام کے مسئلے میں روس کا اتحادی ہے ، اور اہل سنت پر مظالم کے پہاڑ توڑنے میں سوری حکومت کا پوری طرح تعاون کررہا ہے ۔ اس کے برعکس دنیا بھر کی جہادی تحریکوں میں اکثر عرب خون ہے ، علاوہ ازیں عرب خطے میں ایران کے رسوخ میں سعودی عرب رکاوٹ بنا ہوا ہے ، لہذا عالم کفر ایران کے ساتھ مل کر سعودی عرب کو سزا دینا چاہتا ہے ،اور اس کے حصے بکھرے کرکے اسے ختم کرنا چاہتا ہے ۔ سعودی عرب نےدیکھا تو چند ماہ بیشتر 34 مسلم ممالک کا فوجی اتحاد قائم کرلیا ، اور تاریخ میں پہلی بار اتنے زیادہ مسلم ممالک نے ایک ساتھ فوجی مشقیں کیں ۔ اور سعودی عرب کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ۔ اس کے جواب میں ایران نے اپنے آقاوں سے مل کر مذہبی طبقے کو استعمال کرنے کا پروگرام بنایا ۔ اور چیچنیا کے دار حکومت گروزنی میں روس کے زیر سرپرستی ایک کانفرنس رکھی ، جس میں 200 کے قریب درباری ملا اور صوفی ازم کے زعما کو شرکت کی دعوت دی ۔ اور کانفرنس کا عنوان رکھا " اہل سنت کون ہے ؟"۔پہلی بات تو یہ ہے کہ آج کے ماحول میں اس کی ضرورت ہی کیا تھی ، دوسری بات کہ روس ، چیچنیا اور ایران کو اس خالص علمی مسئلہ سے کیا سروکار تھا ، کہ انھوں نے یہ جد و جہد کی ۔ دراصل اس کی آڑ میں سیاسی طور پر سعودی عرب کو تنہا کرنے اور مذہبی طور پر جہاد کرنے والے سلفیوں سے مسلمانوں کو بیزار کرنا اور ان کے تعاون اور حمایت سے دست کش کرنا تھا ۔ لہذا سعودی عرب اور ان کے ہم مسلک اہل حدیثوں کو اس سے باہر رکھا گیا ۔ جبکہ یہی وہ جماعت ہے جو کسی غیر نبی کی تقلید کرنے کی بجائےاپنا ایمان وعمل ڈریکٹ قرآن وحدیث سے اخذ کرتی ہے ، اور دنیا کی ہر دلیل پر قرآن وحدیث کی برتری کی قائل ہے ۔ اور دنیا بھر میں جہادی تحریکوںمیں انھیں کی اکثریت ہے ۔ کانفرنس نے سلفیت کو شدت پسندی کے ہم معنی قرار دیا ۔ اور انھیں اہل سنت سے خارج کردیا ۔ حضرت عثمان رضی اللہ کی شہادت کےمعاملے میں مسلمانوں میں اختلاف رونما ہوا ، تو ایک گروہ نے خود کو شیعان علی یا شیعان اہل بیت قرار دیا تو ، دوسرے عام مسلمانوں کے لیے اہل سنت کا لفظ بولا جانے لگا ۔ لیکن باعث تعجب ہے کہ کانفرنس نے تیسری صدی ہجری میں جنم لینے والے فرقوں کا نام لے کر انھیں اہل سنت قرار دیا ، بلکہ اہل سنت کے نام کو ان پر منحصر کردیا ۔ یعنی اصلی اہل سنت کے علاوہ سب کو اہل سنت قرار دے دیا گیا ۔ آج عالم کفر جس قدر مسلمانوں پر ظلم کررہا ہے ، اس کی مثال تاریخ انسانی سے ملنا مشکل ہے ، عالم کفر کے اس ظلم کے خلاف مسلمانوں کو اتحاد کی جس قدر آج ضرورت ہے ، شائد پہلے نہ ہو ۔ لیکن کفر کے ظلم کا نشانہ بننے والے اور ظالموں کا ہاتھ روکنے والے مسلمانوں کو اہل سنت سے خارج کرکے کیا حاصل کیا گیا ۔ یہی نا کہ کافر اور شیعہ جن مسلمانوں پر ظلم کررہے ہیں وہ اہل سنت سے خارج ہیں ، لہذا ان کے لیے اہل سنت کو پریشان ہونے یا انھیں روکنے کےلیے جدوجہد کرنے کی قطعا ضرورت نہیں ۔ مسلمانوں میں تفریق پیدا کرکے انھیں کمزور کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، اور ظالموں کی حمایت کرکے انھیں ظلم کرنے کی کھلی چھٹی دے دی گئی ہے ۔ یہ صورتحال دیکھ کر اور کانفرنس کی روداد پڑھ کر مجھے مدینہ میں بننے والی مسجد ضرار یاد آگئی ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اسے تعمیر کرنے والے منافق تھے ، اور اس کانفرنس کا انعقاد کرنے والے مسلمان ہیں ۔ ورنہ دونوں کی جد وجہد اور مقاصد یکساں ہیں ، ارشاد باری تعالی ہے : "اور جنہوں نے مسجد بنائی ہے(وہ دراصل بنائی ہے اسلام اور مسلمانوں کو ) نقصان پہنچانے کے لیے ، اور کفر(کا پرچار) کرنے اور مسلمانوں میں تفریق ڈالنے کے لیے، اور ان لوگوں کے گھات لگانے کے لیے جو اللہ اور اس کے رسول سے پہلے لڑ چکے ہیں، اور البتہ قسمیں کھائیں گے کہ ہمارا مقصد تو صرف بھلائی تھی، اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ بے شک وہ جھوٹے ہیں۔"​
 
Last edited:
Top