• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’مدینہ طیبہ‘ سے ’پاکستان‘ کا سفر

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مدینہ طیبہ سے ’پاکستان‘ کا سفر
ماہ مئی کے نصف سے لیکر جولائی کے درمیان تک کا عرصہ پاکستان میں گزرا، بہت دنوں سے سوچ تھی، اس سفرنامے کے احوال کو قلمبند کرلیا جائے۔
آج تھوڑا سا لکھا ہے .. امید ہے پندرہ بیس صفحات میں سمیٹ لوں گا.
اور تھوڑا تھوڑا کرکے نشر کرتا رہوں گا .إن شاءاللہ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
دو ہزار دس سے میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں زیر تعلیم ہوں، سال بعد پاکستان کا چکر لگ جاتا تھا، لیکن پچھلے تین سال سے اہل و عیال سمیت مدنی اقامت اختیار کی تو پاکستان آنے کا موقعہ نہ مل سکا، ایک عرصے بعد کا یہ سفر پہلے تجربات سے ذرا مختلف رہا۔
تین بچے ساتھ تھے، چوتھا مہمان آنے کی امید تھی، سامان ساتھ کافی زیادہ تھا، لیکن احتیاط یہ کی کہ ہینڈ کیری اٹھانے کا طمع نہیں کیا، جو کچھ آسکتا تھا، سب جمع کروادیا، میرے پاس ایک لیپ ٹاپ، اور ساتھ ایک سکول بیگ تھا، جس میں ضروری ڈاکو منٹس تھے، اور ساتھ چھوٹی بیٹی حوریہ کو اٹھانے کی ذمہ داری تھی۔
باقی دو بچوں خولہ اور عبد المنان نے خود اپنی مدد آپ کے تحت چلنا تھا، جو کردار انھوں نے خوب نبھایا۔
ہم سب میں سیریس مسئلہ ام خولہ کا تھا، کیونکہ جہاز میں بعض دفعہ اچھے بھلے آدمی کی طبیعت خراب ہوجاتی ہے، جبکہ سانس کے مریضوں یا حاملہ خواتین کے لیے زیادہ پریشانی ہونے کا امکان ہوتا ہے۔
مدینہ سے جدہ والی فلائٹ چھوٹا جہاز تھا، جس میں واقعتا سانس لینے کی الجھن ہورہی تھی، بڑی مشکل سے خدا خدا کرکے جدہ ایئر پورٹ پہنچے، وہاں کسی وجہ سے جہاز بروقت اتر نہ سکا، بیگم تو پریشان تھی ہی، ساتھ مجھے بھی کافی بے چینی ہوئی کہ اگر زیادہ دیر جہاز میں رکنا پڑا تو سانس کی مشکل مزید نہ بڑھ جائے۔ لیکن الحمد للہ بیگم ذکر اذکار کرتی رہیں، میں نے بھی اللہ سے دعا کی ، اور یہ ڈیڑھ گھنٹے کا سفر بغیر کسی بڑی پریشانی سے مکمل ہوا۔
اب اس سے آگے جدہ سے لاہور چار پانچ گھنٹے کا سفر پہاڑ نظر آرہا تھا، سمجھ نہیں آرہی تھی ، کیا کیا جائے، خیر ایئر پورٹ پر اتر کر جلدی جلدی جوازات سے فارغ ہو کر ویٹنگ روم کی طرف بڑھے، فلائٹ میں وقت بہت کم تھا، لیکن پھر بھی ہم نے مغرب اور عشا کی نماز ادا کی، اللہ سے دعا کی یا اللہ سفر میں آسانی رکھنا، خدشات کے برعکس جب بورڈنگ ہوئی، ہم جاکر جہاز میں بیٹھے تو وہاں کا ماحول پہلے جہاز سے بہت بہتر تھا، کولنگ بھی اچھی تھی، سانس لینے میں بھی کوئی پرابلم نہ تھی، اور دوران سفر موسم میں بھی کوئی ایسا اتار چڑھاؤ نہیں آیا کہ جس سے جہاز کا توازن برہم ہوا ہو، یوں یہ طویل سفر الحمد للہ ، بہت ہی اچھی طرح سے گزر گیا۔
مدینہ ایئر پورٹ پر ہمارے جامعہ کا ایک نمائندہ آیا، جنہوں نے ہمیں جامعہ کے مونوگرام والی چھوٹی چھوٹی تھیلیاں دیں، میں نے سب پاسپورٹ اور بورڈنگ کارڈ اس میں رکھ لیے، جدہ میں جب جوازات والے کے پاس پہنچے، اس نے پاسپورٹ مانگا، میں نے ایک ایک نکال کر دینے کی بجائے ، وہ تھیلی آگے کردی (میں نے یہ اس لیے کیا تاکہ مجھے بچی اور بیگ وغیرہ اتارنا نہ پڑے ، یہ بات حاشیہ خیال میں بھی نہیں تھی کہ میں جامعہ کا نام استعمال کرکے یہاں سے کوئی رعایت لینا چاہتا ہوں )لیکن جوابا اس نے حقارت کے ساتھ میری طرف تھیلی اور اس کے ساتھ ایک جملہ اچھالا، جس کا مطلب تھا کہ تم سے پاسپورٹ مانگا ہے، اور تم ساتھ یہ بتارہے ہو کہ میں جامعہ اسلامیہ کا سٹوڈنٹ ہوں، خیر یہ رویہ ہمارے لیے کوئی نیا نہیں، اس ملک کے بڑوں کے ہمارے اوپر جتنے احسانات ہے، ان سب سے جلن کا اظہار اس قسم کےبد تمیز ملازمین موقعہ بہ موقعہ کرتے رہتے ہیں۔ دفتروں ،ایئر پورٹس حتی کہ خود جامعہ کے اندر کئی جگہوں پر(جہاں علما و مشایخ کی ذمہ داریاں نہیں) اس قسم کے جاہلی رویے گاہے بہ گاہے دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔
پاکستان ایئر پورٹ پر سعودی ایئر لائن سے اترتے ہی ، یوں محسوس ہوتا ہے، گویا ہماری ’عزت نفس‘ محفوظ ہوگئی ہے، گو دیگر بہت ساری چیزوں کے لالے پڑ جاتے ہیں، سعودیہ میں آپ جو سامان جہاں مرضی رکھ دیں، اطمینان رہتا ہے کہ چوری بالکل نہ ہوگی، اور گم ہونے کا بھی امکان بہت کم ہے، جبکہ پاکستان میں آتے ہی یہ دونوں خطرے منڈلانے لگتے ہیں۔
پاکستان اور سعودیہ کے ایئر پورٹ ملازمین کا ایک اور فرق ہے، سعودیہ میں سیکڑوں لوگوں کی لائن لگ جائے گی، لیکن آگے بیٹھے ملازمین اپنی مرضی اور عیش سے کام کریں گے، موبائل دیکھیں گے، گپیں ہانکیں گے، جب جی چاہے گا، کاؤنٹر بند کرکے لائن دوسری طرف موڑ دیں گے، جبکہ پاکستان میں اس سردرد سے بھی آپ کی جان چھوٹ جاتی ہے، وہی مراحل جو سعودی ایئر پورٹ پر گھنٹوں میں طے ہوتے ہیں، وہ پاک ملازمین منٹوں میں نپٹا دیتے ہیں۔
ایئر پورٹ پر جس جہاز سے ہم اترے ، اسی جہاز سے کئی ایک مزدور بھی اترے، آتے ہی جب سب انٹری کی مہر لگوا نے والی لائن میں لگ رہے تھے ، یہ سب ایک جگہ پر اکٹھے ہو کر کسی کو فون ملانے کی بات کررہے تھے، برا بھلا بھی کہہ رہے تھے، ایک شخص میرے پاس بھی آیا، کہتا میں نے فون کرناہے، جبکہ خود میرے پاس نہ پاکستانی روپے تھے، اور نہ ہی سم میں بیلنس تھا، محسوس ہوتا تھا، یہ لوگ ’باہر ملک‘ پیسے کمانے کے خواب لے کرگئے تھے، لیکن ایجنٹ نے دو نمبری کی، اور سب ارمانوں سمیت وہیں سے واپسی کی فلائٹ پر چڑھا دیے گئے۔
سامان کافی زیادہ تھا، مدینہ ایئر پورٹ پر توجو ساتھی چھوڑنے آئے تھے، وہ جمع کروا گئے، جبکہ اب یہاں سے وصول کرکے باہر پہنچنا، میرے اکیلے کے بس کی بات نہ تھی، اس لیے وہاں سے سول ایوی ایشن والوں سے مدد لی ، اور دو قلی ریڑیاں لے کر پہنچ گئے،میں نے پوچھا ، اجرت کتنی ہوگی ؟ بولے جو مرضی دے دینا، اس قسم کے جملے کا مطلب ہوتا ہے کہ باہر جاکر ہم جتنا مرضی مطالبہ کریں، آپ دے دینا۔ خیر ایسے ہی ہوا، باہر آکر دونوں کوہزار ہزار روپیہ دینا پڑا، لیکن فائدہ یہ ہوا کہ انہوں نے خود ہی سامان ڈھونڈ لیا، بلکہ ہمارے زمزم کی چار بوتلوں میں سے دو انہوں نے خود ہی ڈھونڈیں، اگر یہ معاملہ میرے اوپر ہوتا، تو سمجھیے کہ گم ہوچکی تھیں۔
لینے کے لیے میرے خالہ زاد بھائی ( جو میرے بہنوئی بھی ہیں) آئے تھے، اپنی کار کی بجائے وہ احتیاطا کیری ڈبہ لائے تھے، ساتھ بھی کوئی نہیں تھا، لیکن پھر بھی سامان رکھا تو بچوں کو آگے بٹھانے کے بعد میرے بیٹھنے کی کوئی جگہ نہیں تھی، تھوڑا سائڈ پر کرکے انہوں نے سامان ادھر ادھر کیا، میں سامان کے درمیان ایک جگہ دبک گیا ، انہوں نے دروازہ باہر سے بند کردیا، اور ہم لاہور ایئر پورٹ سے شیخوپورہ کی جانب روانہ ہوئے۔
ایئر پورٹ سے شاہدرے کا رستہ نہیں مل رہا تھا، ایک جگہ پر جاکر بھائی نے اپنے ایک ہم پیشہ یعنی پولیس والے سے رستہ پوچھا، اس نے کہا، کہ آپ تھوڑا آگے نکل آئے ہیں، تین چار سو میٹر پہلے جو سڑک اوپر کی جانب مڑ رہی ہے، یہ شاہ محمود بوٹی روڈ آپ کو منزل مقصود تک لے جائے گی، میں نےسوچا، آگے کہیں جاکر یوٹرن لے کرواپس آئیں گے، لیکن انہوں نے وہیں سے گاڑی بیک گیئر میں پیچھے کو بڑھا دی، پاکستان میں یہ میرے لیے پہلا شاک تھا،کیونکہ خود پولیس والا جس نے رستہ بتایا تھا، اس نے بھی یہی مشورہ دیا تھا۔
اس کے بعد شیخوپورہ تک ٹریفک قوانین کی دھجیاں اڑاتے کئی ایک مناظر دیکھے تو یہ پہلی حیرت جاتی رہی ، کیونکہ آگے تو لوگ ریورس کا تکلف کرنے کی بجائے سیدھا سیدھا الٹی سائڈ پر جا رہے تھے، گویا ٹریفک سلوگن یہ تھا، خود بچ سکتے ہیں، تو بچ جائیں، ہم سے کوئی حسن ظن نہ رکھے۔ جو شخص سعودیہ میں ڈرائیونگ سیکھتا ہے، اس کے لیے پاکستان آکر گاڑی چلانا شروع شروع میں کسی چیلنج سے کم نہیں، کیونکہ یہاں رکشہ ، چنگ چی، موٹر سائکل، اور اچانک سڑک پر آجانے والے جانور وہ مشکلات ہیں، جو سعودیہ میں عموما نہیں ہوتیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے طور پر سڑکوں پر ’اڑنے‘ والے ’ بلوچ، گجر، خان، جٹ، ڈھلوں ، کھوکر، وڑائچ ‘ طیارے بھی کسی بھی وقت آپ کو یا آپ کی گاڑی کو اڑا سکتے ہیں۔(اس خلائی مخلوق کے حوالے سے مزید کچھ تاثرات آگے ذکر کرتا ہوں)۔
(جاری ہے)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
تین سال سے مسلسل مدینہ تھا، یہاں آہستہ آہستہ سعودی لباس یعنی ’ثوب ‘پہننے کی عادت ہوگئی، شلوار قمیض کی صورت میں جو چند ایک جوڑے تھے، کچھ چھوٹے ہوگئے، اکثر پھٹ گئے، جب میں پاکستان پہنچا تو میرے پاس صرف ایک ہی سوٹ تھا، جو میں نے پہنا ہوا تھا،اسی دن شام کو تراویح پڑھانے بھی جانا تھا، ثوب پہن کر باہر نکلنا ، کتوں کو دعوت چیر پھاڑ دینے کے مترادف تھا، لہذا ایمر جنسی سوٹ سلائی کے لیے دیے، دو ایک درزی کو، اور دوسرے دو ایک دوسرے درزی کو۔ چنددنوں بعد ہی اندازہ ہوا کہ قمیض کی لمبائی جو خدشہ تھا کہ کہیں کم نہ رہی ہو، وہ عام لوگوں سے کافی زیادہ ہے، اور یہ سب ایک عرصہ تک جبہ پہننے اور اہل جبہ کے درمیان رہنے کی وجہ سے تھا۔
رمضان میں یہ روٹین رہی کہ ہر روز ہلکی پھلکی افطاری کرکے مغرب کی نماز بتی چوک مولوی عبد اللہ شیخوپوری صاحب کی مسجد میں ادا کرتا، اور پھر وہاں سے پیدل گھنگ روڈ گلی نمبر تین کی طرف روانہ ہوجاتا،جو تقریبا چالیس پچاس منٹ کا سفر تھا۔ وہاں پہنچتے پہنچتے اگر پارہ پڑھنا ہوتا تو وہ پڑھ لیتا ، ورنہ اساتذہ کرام اور رشتہ داروں کو فون کرلیتا، یوں تھوڑی ورزش بھی ہوجاتی، اور کئی ایک اہم و غیر اہم کام بھی ہوجاتے، واٹس ایپ میسج دیکھنا بھی اسی سفر کا معمول تھا۔ واپسی پر وہاں سے کوئی بھائی گاڑی پر چھوڑ جاتے۔
بتی چوک سے فاروق آباد روڈ پر جائیں، تو رستے میں ایک بڑا سرکاری ہسپتال بھی آتا ہے، اس کی دیواروں پر تحریک پاکستان میں حصہ لینے والی کئی ایک شخصیات کے نام بمع تصاویر چسپاں ہیں، یہ چیزیں دیکھ کر سوچ آتی ہے کہ احسان فراموشی کے اس دور میں ان شخصیات کو یاد رکھنے والا بلکہ دوسروں کو یاد دلانے والا ضرور کوئی صاحب ذوق ہی ہوگا۔ ( ان تصویروں کا اگر کوئی خاص پس منظر ہو تو وہ میرے علم میں نہیں۔)
صبج ایک جگہ پر نماز پڑھانے کے لیے جایا کرتا تھا، ان دونوں رستوں میں شام اور رات کے ان اوقات میں کئی نوجوان نظر آئے ، جو ’ ولا تلقوا بأیدیکم إلی التہلکۃ‘ کی واضح قرآنی نصیحت اور رہنمائی کےباوجود خود کو نشہ کی ہلاکت کے سپرد کررہے ہوتے تھے، سگریٹ نوشی کے ساتھ ساتھ ٹیکوں کے ذریعے رگوں میں زہر انڈیلنے کی یہ وبا عام دیکھنے کو ملی۔ پہلے پہل یہ ہوتا تھا اگر کہیں کوئی نوجوان مخصوص حالت میں بیٹھا ہے تو مطلب یہ ہوتا کہ قضائے حاجت کر رہا ہوگا، لیکن اب یہ صورت حال ہے، عموما ان جگہوں پر اور ان حالات و حرکات میں نوجوان خود کو ٹیکے لگا رہے ہوتے ہیں۔ منشیات، صنف مخالف اورموبائل جیسے نشوں نے امت مسلمہ کے’نوجوانوں‘ سے ان کی ’ جوانیاں‘ چھین لی ہیں، چلتی پھرتی لاشیں محسوس ہوتی ہیں۔ جو بچ گئے انہیں اخلاقیاتی کرپشن اور نظریاتی فساد نے کسی کام کانہیں چھوڑا، اقبال کا وہ نوجوان جو قبیلے کی آنکھ کا تارا ہوا کرتا تھا، ایک ’نایاب صنف‘ بن چکا ہے۔ اللہ امت مسلمہ کے نوجوانوں کو بالخصوص راہ ہدایت کی طرف لوٹائے۔
سڑک اور گلی بازار میں پیدل چلتے ہوئے ایک اور بات جو میں نے بہت شدت سے محسوس کی، وہ سوار لوگوں کا کثرت سے ہارن بجانا تھا، بعض ملکوں میں ہارن بجانا، باقاعدہ بد تمیزی سمجھا جاتا ہے، لیکن ہمارے ہاں ایسا مزاج بن چکا ہے، کہ بار بار اور مسلسل ہارن شاید ثواب کا کام سمجھ کر بجایا جاتا ہے۔ میں نے اس الجھن کا ساتھیوں سے ذکر کیا، کہنے لگے، یہاں تو ہارن بجانا ایک خوبی بن چکا ہے، جس کے ذریعے کسی بھی خطرناک حادثے سے بچا جاسکتا ہے۔ اور آخری دنوں تک مجھے بھی اس بات کا احساس ہوا کہ واقعتا اب یہ قوم ہارن پر لگ چکی ہے، نہیں بجائیں گے تو حادثہ کی صورت میں خود کو بھی مجرم سمجھیں گے، دوسرے بھی آپ کو قصور وار ٹھہرائیں گے ۔
دور رہ کر پاکستان سے ہمارا تعلق سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔ لیکن خود معاشرے کو براہ راست دیکھ کر حالات بہت مختلف لگتے ہیں، مسجد میں درس وغیرہ دیتا رہا، لوگ سوال بھی کرتے تھے، تاثرات کا اظہار بھی کرتے تھے، مختلف مساجد میں خطبات جمعہ بھی دیے، لوگوں سے گفتگو کرکے محسوس ہوتا تو کچھ خطرات و خدشات واقعتا میڈیا اور سوشل میڈیا کی حد تک ہی ہیں، حقیقی معاشرے میں یہ فتنے نہ ہونے کے برابر ہیں، لہذا عوام کی اکثریت، انکار حدیث، الحاداور الیکٹرانک دنیا کے دیگر فتنوں سے آپ کو بالکل بے خبر نظر آئے گی۔ میں نے پورے دو ماہ میں سوشل میڈیا پر گرم رہنے والی بحثوں میں سے صرف دو کو مسجد کے منبر سے ذکر کیا، ایک دفعہ ہلکے پھلکے انداز میں عامر لیاقت کے پروگرام پر تنقید، اور دوسری مرتبہ گستاخانہ خاکوں والی ناپاک جسارت کا تذکرہ جس کے اعلانات نیندر لینڈ وغیرہ سے کیے جارہے ہیں۔
رمضان میں ٹی وی چینلز نے نیا ہی لچ تلا ہوتا ہے ، سحر ٹرانسمیشن ، افطار ٹرانسمیشن۔ اس پر طنز کرتے ہوئے بعض دفعہ میں تراویح کی نماز کی اقامت کے وقت کہہ دیا کرتا تھا کہ ہمیں اپنے نیک اوقات ان الیکٹرانک ٹرانسمشنوں کی ریٹنگ بڑھانے میں ضائع کرنے کی بجائے ، اللہ کے گھر مساجد کی رونق بڑھانے میں صرف کرنے چاہییں، ایک دو دفعہ میں نے یہ بھی کہا کہ ’ تراویح ٹرانسمیشن‘ کا وقت ہوا چاہتا ہے، صفیں درست کر لیجیے‘۔
پاکستان میں آٹھ جمعے آئے، جن میں ایک نہیں پڑھا سکا، باقی بالترتیب یوں تھے: رمضان اور ہم، رمضان اور دعا، یہ دو جمعے اپنے ننھیالی گاؤں گوپی رائے میں پڑھائے۔ غزوہ بدر، حالات و واقعات، تعلیم و تربیت کے مختلف پہلو، یہ جمعہ فاروق آباد سے آگے ایک گاؤں میں پڑھایا، اچھرہ (لاہور) ہمارے ایک گاؤں کے شیخ شعیب صاحب کی مسجد ہے، خوش بختی اور سعادت کے اصول کے عنوان سے ایک جمعہ ان کے پاس، دوسرا انہیں کے کہنے پر ساتھ ایک اور چھوٹی مسجد میں، شیطان کے وار اور اس سے بچاؤ کے عنوان سے پڑھایا، ایک مختصر خطبہ گاؤں کی چھوٹی مسجد میں ’ قرآن کامیابی کا راز‘ کے عنوان سے تھا، آخری جمعہ شیخ ہشام الہی ظہیر صاحب کے مرکز قرآن وسنہ میں’ حرمت رسول اور اس کے تقاضے‘ کے عنوان سے پڑھایا۔
( جاری ہے)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
محترم خرم شہزاد صاحب سے ملاقات:
چند سالوں سے خرم شہزاد نام سے ایک محقق منظر عام پر آئےہیں، شہزاد بھائی سے آٹھ دس سال پہلے سے تعارف ہے، محنتی آدمی ہیں، علوم حدیث کا بہت ذوق رکھتےہیں، لیکن علوم اسلامیہ کی مبادیات میں کمزور ہونے کے سبب ، ان کی تحقیقات عجیب و غریب رخ اختیار کر جاتی ہیں، شروع سے اب تک ایک متنازعہ شخصیت ہیں، لیکن کم از کم مجھے ان کے مخلص ہونے پر کوئی شک نہیں۔ انہوں نے پہلے بھی اپنی بعض کتابیں مجھے ارسال کی تھیں، پچھلے سال پھر کچھ کتابیں بھیجیں، خصی جانور کی قربانی کے حوالے سے ان کی ایک کتاب کو میں نے حرف بہ حرف پڑھا تھا، جس میں طرز استدلال اور عبارت کی رکاکت بعض مقامات میں بالکل نمایاں تھی، ایسی چیزوں کا رد لکھنے بیٹھ جانا کوئی فائدہ مند چیز نہیں۔
لیکن بالکل خاموشی بھی درست نہیں، میرے ذہن میں تھا کہ شہزا د صاحب سے مل کر اس حوالے سے کچھ باتیں عرض کروں گا، پھر بات ذہن سے نکل گئی۔ اس دفعہ میں پاکستان آیا، پتہ چلا شہزاد صاحب یہاں ساتھ والے محلے میں ہی رہتے ہیں، ان سے ملاقات ہوئی، بڑی خوشی سے ملے، باتوں باتوں میں ، عرض کیا کہ آپ تھوڑا مجھے وقت دیں، تاکہ آپ کی کچھ تصنیفات پر آپ سے مذاکرہ کیا جائے، لیکن ان کا کہنا تھا کہ آپ مجھے جو قابل اعتراض چیزیں ہیں، لکھ کر دے دیں، میں نے پھر براہ راست تبادلہ خیال والی بات عرض کی، کہنے لگے، ٹھیک ہے، کوئی ٹائم نکالتے ہیں، اور پھر بیٹھیں گے، اس کے بعد بھی ایک دو مرتبہ میں نے اس حوالے سے ان سے رابطہ کیا، لیکن ہمارے مل بیٹھنے کی کوئی صورت پیدا نہ ہوسکی۔
بالکل قریب رہتے ہوئے، کسی بھائی کے لیے وقت نہ نکال پانا، اس میں میں اپنی بھی کمزوری سمجھتا ہوں، اور شہزاد صاحب کے لیے بھی یہ رویہ نقصان دہ ہے، جب تک طالبعلموں کے ساتھ بیٹھیں گے نہیں، تحریر میں موجود کمزوریاں کبھی دور نہیں کرسکتے، دوسرا عوام الناس میں سے کچھ لوگ تو بات سے متاثر ہوں گے، لیکن اہل علم اور طلبا ان کی تحقیقات و تصنیفات کو کوئی حیثیت نہیں دیں گے۔
خرم صاحب پھر ایک مخلص آدمی ہیں، لیکن میں سمجھتا ہوں، یہ نت نئی تحقیق و تنقید والے فتنے اسی لیے سامنے آرہے ہیں، کہ علم والوں کے پاس علمی موضوعات کے لیے ٹائم نہیں، اور جو وقت نکالتے اور محنت کر رہے ہیں، بدقسمتی سے ، ان کے پاس مطلوبہ علمی استعداد نہیں ہے۔
خرم شہزاد صاحب کے ساتھ واٹس ایپ وغیرہ پر جو لوگ موجود ہیں، انہیں تواتر کے ساتھ ان کی پوسٹیں ملتی رہتی ہوں گی۔ ہر روز قرآن کریم کی ایک آیت کا ترجمہ، ایک صحیح حدیث ، ایک ضعیف حدیث، ساتھ ہجری و عیسوی تاریخ، اور یہ سب چیزیں وہ ہر روز موبائل پر خود لکھ کر سینڈ کرتے ہیں۔
کمپیوٹر ان کے پاس ہے، لیکن فائدہ اس سے اسی قدر اٹھاتے ہیں، جتنا کسی فریزر کو کپڑوں والی الماری بناکر اٹھا یا جاسکتا ہے، جب میں نے ان کی یہ صورت حال دیکھی، خود اپنی سستی و کاہلی پر شرمندگی بھی ہوئی، ان کی محنت اور لگن پر رشک بھی آیا، لیکن ساتھ بے چینی بھی ہوئی کہ وہ کام جو کمپیوٹر کے ذریعے دو منٹ میں ہوسکتا ہے، اس کے لیے یہ صاحب ہر روز دو گھنٹے صرف کرتے ہوں گے۔ ابھی تک کتابیں ساری خود کاپی پینسل سے لکھتے ہیں، اور بعد میں ہزاروں روپیہ دے کر اس کی ٹائپنگ اور ڈیزائننگ کرواتےہیں، ان کا ایک بیٹا کمپیوٹر کے متعلق کچھ سیکھ رہا ہے، میں نے عرض کیا، ترجیحی بنیادوں پر اسے ان پیج، ورڈ، اور کمپیوٹر میں واٹس ایپ وغیرہ استعمال کرنا سیکھنا چاہیے، مجھے جو آتا تھا، سکھانے کا وعدہ بھی کیا، لیکن افسوس بعد میں ملاقات کا ٹائم ہی نہ مل سکا۔
میں نے یہ بات بھی عرض کی تھی کہ تحقیق کا مطلب صرف روز مرہ مسائل کو تختہ مشق بنالینا ہی نہیں ہوتا، تحقیق کےلیے اور بھی کئی میدان اختیار کیے جاسکتے ہیں، جس سے نتیجہ صحیح نکلے یا غلط، کم از کم لوگوں کےنماز ، روزہ، حج، زکاۃ، قربانی، سحری افطاری کے مسائل میں نت نئی الجھنیں پیدا نہیں ہوں گی۔ خود عوام کو بھی چاہیے کہ ان مسائل میں فتوی یا تحقیق پڑھتے ہوئے ، قابل اعتماد اور مستند عالم دین کی طرف رجوع کریں۔
چند دن پہلے انہوں نے خصی جانور کی قربانی والی روایت کے متعلق اپنی تحقیق کسی مجموعہ میں ارسال کی، اس پر فضیلۃ الشیخ حافظ شریف صاحب حفظہ اللہ نے ٹھیک ٹھاک علمی تبصرہ کیا، روایت کی تضعیف میں خرم صاحب نے ثوری کی تدلیس اور ایک اور راوی کا عند الجمہور ضعیف ہونا نکالا تھا، جبکہ حضرت حافظ صاحب نے واضح کیا کہ دونوں علتیں در حقیقت علت ہے ہی نہیں ہیں۔ ( تفصیل اس آڈیو میں سنی جاسکتی ہے۔) حقیقت یہی ہے کہ بعض معاصر علما نے اجتہادا اس قسم کی تعلیلات کو متعار ف کروایا، اور اس کے بعد ان کے خوشہ چینوں نے انہیں باقاعدہ مسلمہ قاعدہ سمجھ کر ایک تیزدھار چھری بناکر احادیث پر پھیرنا شروع کردیا۔
یہاں مدارس سے جڑے طبقے کو بھی اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرنا چاہیے، دیکھیے خرم شہزاد صاحب کی تحقیق صحیح ہے یا غلط، لیکن ان کی محنت اس حد تک ہے کہ جو لوگ ان سے مسائل پوچھتے ہیں، ان عامۃ الناس کو بھی احادیث کے حوالہ جات اور راویوں تک کی تفصیلات یاد ہوتی ہیں، جبکہ دوسری طرف میرے جیسے مدرسے کے فارغ التحصیل سے کوئی مسئلہ پوچھ لیا جائے، تو مسئلے کا صحیح علم ہو بھی تو ڈھنگ سے دلیل اور اس کا حوالہ یاد نہیں ہوتا۔ ضرورت یہ ہے کہ جدید محققین علمی گہرائی پیدا کریں، اور قدیم نظام کے فارغ التحصیل علما احتیاط اور گہرائی تھوڑی کم کرکے، عوام الناس کوفائدہ دینے کی صلاحیت و جرات پیدا کریں۔
(جاری ہے)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
خضر حیات بھائی اعزکم اللہ آپ کا سفر پاکستان کی یادیں پڑھ کر تو دل کر رہا ہے کہ میں بھی اپنی کچھ یادیں لکھ ہی دوں لیکن پھر فی الحال صحت اور مصروفیت آڑے آنے کے خدشے بمع اندیشے ہیں اور نہ لکھ سکوں گا لیکن آپ کے قلم کے لیے دعاگو ہوں اللھم زد فزد
جہاں تک بات ہے خؒرم شہزاد صاحب کی تو میری زندگی کا خلاصہ ہے علم دوست اپنی اصلاح کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے اور علم عاجزی سکھاتا ہے جبکہ کئی ساتھیوں نے ان سے گفتگو کے لیے رابطے کیے لیکن یہ بالمشافہ گفتگو کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے آپ تیسرے یا چوتھے ساتھی ہیں جنہوں نے یہ ذکر کیا
رہی بات کسی موقف پر تنقید کی تو موصوف کو آداب اختلاف اور آدان تنقید بھی نہیں آتے علم جرح و تعدیل ، رجال پر کتب کے اردو تراجم دیکھ دیکھ کر اتنی علمی جرات میرے لیے واقعی حیران کن ہے
بہرحال اصلاح طلب کام ہے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
خضر حیات بھائی اعزکم اللہ آپ کا سفر پاکستان کی یادیں پڑھ کر تو دل کر رہا ہے کہ میں بھی اپنی کچھ یادیں لکھ ہی دوں لیکن پھر فی الحال صحت اور مصروفیت آڑے آنے کے خدشے بمع اندیشے ہیں اور نہ لکھ سکوں گا لیکن آپ کے قلم کے لیے دعاگو ہوں اللھم زد فزد
جہاں تک بات ہے خؒرم شہزاد صاحب کی تو میری زندگی کا خلاصہ ہے علم دوست اپنی اصلاح کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے اور علم عاجزی سکھاتا ہے جبکہ کئی ساتھیوں نے ان سے گفتگو کے لیے رابطے کیے لیکن یہ بالمشافہ گفتگو کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے آپ تیسرے یا چوتھے ساتھی ہیں جنہوں نے یہ ذکر کیا
رہی بات کسی موقف پر تنقید کی تو موصوف کو آداب اختلاف اور آدان تنقید بھی نہیں آتے علم جرح و تعدیل ، رجال پر کتب کے اردو تراجم دیکھ دیکھ کر اتنی علمی جرات میرے لیے واقعی حیران کن ہے
بہرحال اصلاح طلب کام ہے
وقت نکال کر ضرور لکھیے۔
ویسے مجھے خرم شہزاد صاحب سے اس رویے کی امید نہیں تھی۔ سمجھ رہا تھا، خوشی خوشی ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار ہوں گے۔ خیر۔ اللہ اصلاح فرمائے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
لاہور میں مادر علمی اور اساتذہ کرام کی زیارت:
رمضان کا مکمل مہینہ شیخوپورہ میں ہی گزرا، شوال میں جب مدارس شروع ہوئے، تو اساتذہ کرام سے ملنے کا قصد کیا، خطبہ جمعہ سمن آباد مسجد ابراہیم میں پڑھا کر وہاں ایک بھائی مبین اکرم کے ہمراہ عبید الرحمن شفیق صاحب کو ملنے کا پروگرام بنا، بارش مسلسل ہورہی تھی، کافی انتظارکےبعد بھی جب نہ رکی، تو چھتری تلے دب کر چل نکلے، لاہور کے بعض علاقوں میں گلیاں اتنی تنگ، اور بجلی کی تاریں اتنی نیچے ہیں، خطرہ لاحق تھا، اگر کہیں بے احتیاطی ہوئی تو چھتری کی نوک اوپر بجلی کی سلور کی تاروں کو جا چھوئے گی۔
حالانکہ گاؤں میں بھی کم از کم اس قسم کی تاریں بہت اونچی ہوتی ہیں،بس وغیرہ کی چھت پر بیٹھے لوگ احتیاط کرتےہیں، لیکن موٹر سائیکل سوار کو ہی جان کے لالے پڑھ جائیں، یہ تجربہ مجھے پہلی مرتبہ اسی دن ہوا۔
ان دنوں اساتذہ مدارس کے ہیش ٹیگ سے ایک ہلکی پھلکی تحریک شروع تھی، میں نے عبید الرحمن شفیق صاحب سے عرض کیا کہ آپ اساتذہ مدارس کے مالی معاملات و مشکلات کے حل کے لیے کوئی لائحہ عمل مرتب کرکے دیں، تاکہ جو لوگ اس مسئلے کا حل چاہتےہیں، ان کے لیے علمی اقدام میں آسانی ہو۔ عبید صاحب مین سٹریم میڈیا کا حصہ بننا چاہتے ہیں، ہماری ان سے نیک توقعات ہیں، لیکن ساتھ خدشات بھی ہیں، کہ ہمارے بعض دینی حلقوں کے لوگ دنیا داروں میں جاکر موثر ہونے کی بجائے متاثر زیادہ ہو جاتے ہیں۔
استاذ الاساتذہ ہر دلعزیز شخصیت شیخ عبد الرشید خلیق حفظہ اللہ بھی اچھرہ میں ہی جامعہ فتحیہ میں رہائش پذیر ہوتے ہیں، ملاقات کے لیے ان کے پاس حاضر ہوا، پہلے فون کیا، بہت پیار محبت اور شفقت سے پیش آئے، کافی عرصے بعد ان کے پاس حاضر ہوا تھا، اساتذہ کرام کے حق میں اس بے رخی پر بھی انہوں نےاپنےمخصوص انداز میں نصیحت کی، ایک طالبعلم کا اساتذہ کے ساتھ کیسا تعلق ہونا چاہیے، خود ان کی اپنی زندگی ایک مستقل کتاب ہے، تین چار نسلوں کے استاد بن چکے ہیں، لیکن خود اپنے اساتذہ کے ساتھ ان کا رویہ ایسا ہے اور ان کا تذکرہ ایسے کرتے ہیں، جیسے خود ابھی مبتدی طالبعلم ہیں، اور ان اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کر رہے ہیں۔ اللہ ان کو صحت و عافیت والی لمبی زندگی عطا کرے۔
گھنٹہ ڈیڑھ ان کے لطف و عنایت سے محظوظ ہونے کے بعد اجازت لی، باہر پہنچا تو لاہور المعروف پیرس کی گلیاں سمندر کا سماں پیش کر رہی تھیں، تھوڑی دیر ادھر ادھر دیکھا، اور اگلے ہی لمحے میں بھی دوسروں کی طرح کپڑے سمیٹ کر ’ ما ء طہور‘ میں اتر گیا، قدم احتیاط سے رکھنا ضروری تھا، کیونکہ ذرا سی غلطی کسی گٹر میں جانے کا سبب بن سکتی تھی۔
اگلی منزل محسن و استاد قاری نعمان مختار لکھوی صاحب کا مرکز الفیصل تھا، استاد محترم سے ملا، ان کے مرکز میں کچھ عرصے سے جو بدمزگی پیدا کی گئی، اس کے آثار ابھی تک موجود تھے، جماعت کے بعض ذمہ داران اور افراد کی طرف سے اس سلسلے میں جو غیر ذمہ دارانہ رویےزبان زد عام رہے، قاری صاحب نے بھی ان کی تصدیق کی، عشا کا وقت ہوا چاہتا تھا، استاد محترم نے اصرار کے ساتھ کھانا کھلایا، اور بعد از نماز درس دینے کا حکم کیا، جس کے لیے میں ذہنی طور پر بالکل بھی تیار نہیں تھا، خیر وہاں ہمارے ایک کلاس فیلو تھے، جنہوں نے اعلان کیا کہ ’ پی ایچ ڈی اسکالر۔۔۔ صاحب درس ارشاد فرمائیں گے‘ یہ سن کر وقتی طور پر خود کو سکالر فرض کرکے پانچ سات منٹ کے لیے ’ رمضان کے بعد کیا کرنا چاہیے؟‘ کے عنوان سے مختصر گفتگو کی۔ بوقت رخصت میں نے استاد جی سے کہا کہ آپ کی جگہ پر درس دے کر مجھے واقعتا محسوس ہورہا ہے کہ میں کوئی اسکالر ٹائپ چیز بن گیا ہوں ، اس حوصلہ افزائی پر شکر گزار ہوں۔
استاد محترم شفیق مدنی صاحب کے مرکز ابن مسعود الاسلامی میں پہنچے،اپنے مدرسے کا نظام الاوقات یا اس قسم کا کوئی شیڈول مرتب فرما رہے تھے، ہلکی ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ بغلگیر ہونے کا موقعہ دیا، پیار محبت، شفقت کے ساتھ کچھ نصیحتیں انہوں نے شکوے کے انداز میں بھی فرمائیں، معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے دینی کے متعلق فرمانے لگے ہم کالج اور یونیورسٹیز کے بعض طلبہ و طالبات کو دیکھتے ہیں، ان کی چال ڈھال اور لباس سے محسوس نہیں ہوتا کہ وہ ایک اسلامی ملک کے شہری ہیں۔ موبائل کی بیماری کے متعلق فرمایا، طالبعلم تو کیا بعض دفعہ اساتذہ کرام بھی کلاسوں میں اس کے ساتھ مصروف ہوتے ہیں۔ پابندی لگانے کی بات کی جائے تو دونوں طرف سے ایسے عذر پیش کیے جاتےہیں، گویا موبائل نہیں،آکسیجن ہے، نہ ہوا تو کاروبار زندگی ختم۔

الحکمۃ انٹرنیشنل میں:
ہمارے کلاس فیلو قاری حبیب الرحمن ساتھ ہی تھے، وہی موٹر سائیکل پر جوہر ٹاؤن سے ٹاؤن شپ منہاج یونیورسٹی کے پڑوس میں واقع ’ الحکمۃ انٹرنیشنل‘ میں لے گئے، اس ادارے کے روح رواں قاری شفیق الرحمن زاہد صاحب سے فون پر دو تین گھنٹے پہلے ہی میں عرض کرچکا تھا کہ آپ کے پاس حاضر ہونا ہے۔
قاری صاحب کے پاس اگلے دن ظہر تک ٹھہرنا ہوا، انہوں نے بھرپور عزت و تکریم اور حوصلہ افزائی کی، اور ساتھ عملی زندگی اور بالخصوص ’اساتذہ مدارس‘ کے حوالے سے کوئی ادارہ بنانے کے متعلق کئی ایک مفید تجاویز اور مشورے عنایت فرمائے۔
الحکمۃ انٹرنیشنل ایک منفرد ادارہ ہے، جس میں دینی کام کی کئی جہات ہیں، کالج یونیورسٹیز کے لڑکوں کے لیے فری ہاسٹل کی سہولت ہے، بالمقابل ان کی دینی تعلیم و تربیت کی جاتی ہے، بلکہ ہاسٹل میں رہنے کے لیے ادارے میں ہونے والے تعلیمی و تربیتی پروگرامز میں شرکت لازمی شرط ہے۔
قاری صاحب دم درود کے ذریعے روحانی معالج کے طور پر بھی مشہور ہیں، اوراس ذریعہ کو بھی دین کی ترویج و تبلیغ کے لیے خوب استعمال کرتے ہیں۔
یومیہ، ہفتہ وار، ماہانہ دروس کے ساتھ ساتھ سالانہ پروگرامز بھی منعقد کرواتے ہیں، جن میں روایتی اندازپر اکتفا کرنے کی بجائےلوگوں کے فائدہ کے لیے ہر مناسب اقدام کیا جاتا ہے۔
باقاعدہ ایک اسٹوڈیو اور میڈیا سیل بھی بنایا ہوا ہے، جس کے ذریعے اپنے ادارے کے پروگرام بھی ریکارڈ کرتے ہیں، اور اگر کہیں اور مفید کلاس یا درس یا کانفرنس ہو تو اسے بھی کوریج دیتے ہیں۔
ہر ہفتے بدھ یا جمعرات کے دن ان کے ادارے کی طرف سے ایک تیار شدہ ’خطبہ‘ بھی پیش کیا جاسکتا ہے، تاکہ اگر کوئی حالات کی مناسبت سے کہیں خطبہ جمعہ دینا چاہے تو اسے قرآن وسنت کے دلائل اور مواد کی کمی محسوس نہ ہو۔
یہیں پر میں نے مختصر تین کلپس بھی ریکارڈ کروائے تھے، تین کامیاب کاروبار، قلبی غذا کی اہمیت، قرآن کریم کے ساتھ تعلق۔
ادارے سے منسلک جتنے لوگ ہیں، ان کے لیے فیملی رہائش کا بندوبست ہے، پرکشش تنخواہیں ہیں، اور اپنے اپنے میدان میں آگے بڑھنے کے مکمل مواقع میسر ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ ماضی حال اور مستقبل کے جتنے پراجیکٹس اور عزائم ہیں، سب اپنی باریک اور دقیق تفصیلات کے ساتھ منضبط انداز سے موجود ہیں، میں سمجھتا ہوں، ادارے کی کامیابی میں مدیر کے اخلاص و دردِ دل کے ساتھ ساتھ ، محنت و جانفشانی ، ادارتی امور کی شفافیت اور مستقل پلاننگ کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔
(جاری ہے)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مادر علمی جامعہ رحمانیہ میں:
91 بابر بلاک جب میں پہنچا تو ظہر کی نماز ہورہی تھی، طالبعلموں میں تو کسی سے کوئی جان پہچان نہیں تھی، نماز کے بعد استاد محترم رمضان سلفی صاحب سےمل کر دعائیں لیں، پھر استاد محترم ڈاکٹر حسن مدنی صاحب اپنے ساتھ دفتر میں لے گئے، ہماری پڑھائی کے بارے میں پوچھا، وہاں جامعہ کے حالات کے بارے میں بتایا، دفتر میں نئی کتابیں پیک شدہ حالت میں موجود تھیں، استفسار کرنے پر معلوم ہوا، یہ طلبا جامعہ کے لیے خریدی گئی نصابی کتابیں ہیں، جو انہیں قیمت خرید میں سے بھی نصف قیمت پر مہیا کی جائیں گی۔ ترمذی والے لڑکوں کے لیے حافظ ثناء اللہ مدنی صاحب والی جائزۃ الاحوذی خریدی گئی، جو بازار سے غالبا چو بیس سو کی ملی تھی، جبکہ طالبعلم کو صرف بارہ سو روپے دینے تھے، اسی طرح دیگر کتابیں۔
وہیں ضلع قصور کے ایک مشہور عوامی خطیب مولانا عنایت اللہ صاحب اپنے بیٹے کو داخل کروانے تشریف لے آئے، انہوں نے جائزۃ الاحوذی کے حصول میں رغبت ظاہر کی، لیکن اس کے نسخے طلبہ کی تعداد کے برابر ہونے کے سبب انہیں سیرت خلفا راشدین پر اوردیگر کتابیں ہدیہ کردی گئیں۔
جب ہم پڑھتے تھے، تو جامعہ کی لائبریری سے کتابیں عاریتا ملتی تھیں، جس نے اپنی خریدنی ہیں، وہ خود اردو بازا سے لے کر آتا۔ میرے خیال میں ’اعارۃ‘ کا نظام ختم کرکے، طلبہ کو کم قیمت پر کتابیں لے کر دینے کا رجحان زیادہ مناسب ہے، تاکہ ہرطالبعلم کے پاس اپنی کتاب دستیاب ہو۔
ہر کلاس روم میں اے سی لگا ہوا ہے، لیکن اس سہولت سے جو کلاس فائدہ اٹھانا چاہے، انہیں ہر مہینے اے سی کا بل جمع کروانا ہوگا،اس غرض سے ہر کلاس روم کے ساتھ ایک چھوٹا میٹر بھی لگا ہوا ہے۔
صبح فجر کے بعد ’قرآن کلاس‘ ہوتی ہے، قراءات والےطلبہ اپنا اجرا مکمل کرتے ہیں، جبکہ کلیہ شریعہ کے طلبہ یا تو منزل یاد کرتے ہیں، یا پھر حفظ کرتے ہیں، اور یہ سب باقاعدہ کلاسز اور اساتذہ کی نگرانی میں ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک اچھا سلسلہ ہے، جو ہمارے دور میں نہیں تھا۔
جامعہ میں پڑھانے والے جتنے اساتذہ کرام ہیں، دو تین کے علاوہ سب صبح کلاس کے وقت آتے ہیں، اور ظہر تک پڑھا کر واپس اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ اساتذہ کرام کو ملنے کے لیے اگلی صبح تک رکنا ضروری تھا۔ صبح کلاسیں شروع ہوئیں، نیچے دفترمیں آیا، شیخ اجمل بھٹی صاحب سے ملاقات ہوئی ، بڑے پرتپاک انداز میں ملے، استاد محترم شاکر محمود صاحب نے بھی آؤ بھگت کی، ناشتہ کروایا، استاد محترم اسحاق طاہر صاحب بھی تشریف لے آئے، زبیر احمد غازی اور عبد المنان صاحب تو ہمارے کلاس فیلو ہیں، اور چند دن پہلے ان سے تفصیلی ملاقات ہوچکی تھی ، دوبارہ پھر ملکر یادیں تازہ ہوگئیں۔ مولانا یحیی عارفی صاحب، مولاناخاور رشید بٹ صاحب بھی یہاں ہونے چاہییں تھے، ان سے ملنے کا اشتیاق بھی تھا، لیکن پتہ چلا کہ انہوں نے اچانک اس سال سے جامعہ چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے، اب غالبا شیخنا و مولانا مبشر احمد ربانی صاحب کے ادارے میں تدریس کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔

ادارہ مجلس التحقیق الاسلامی میں:
جامعہ رحمانیہ سے کچھ فاصلے پر 99 جے بلاک ماڈل ٹاؤن میں مجلس التحقیق الاسلامی کا دفتر ہے، شیخ المشایخ حافظ عبد الرحمن مدنی مدظلہ العالی ، اور ہمارے اساتذہ کرام ڈاکٹر انس نضر ، قاری حمزہ مدنی صاحبان کی اقامت گاہیں بھی وہیں ہیں، انس صاحب سے فون کے ذریعے رابطہ ہوا، کہا میں مصروف ہوں، فارغ ہو کر آپ سے رابطہ کرتا ہوں، حمزہ صاحب بھی ان کے ساتھ ہی تھے، کہنے لگے، شام کو اکٹھے ہی ملتے ہیں۔ ماڈل ٹاؤن کے اسی علاقے میں ایک معروف مسجد ہے، رحمانی مسجد، اس مسجد کے ساتھ ہماری بہت یادیں وابستہ ہیں، میٹرک کی تیاری کے دوران ہم ساتھی اکثر یہاں آجایا کرتے تھے، اس مسجد کے امام بابا صالح مرحوم تھے، کافی خوش طبیعت انسان تھے، عرصہ ہوا اگلے جہاں سدھار گئے۔ میں 99 جے جانے کی بجائے اس طرف چلا گیا، وہاں ساتھیوں نے حفاوت و گرمجوشی کا اظہار کیا، نماز مغرب میں دو گھنٹے تھے، اجازت لے کر میں کچھ دیر کے لیے لیٹ گیا، کیونکہ مسلسل دو دن سے گھر سے باہر تھا، تھکاوٹ محسوس ہورہی تھی۔ وہاں ہمارے جامعہ رحمانیہ کلیۃ القرآن کے فارغ التحصیل قاری شعیب صاحب حفظ کے استاد ہیں، شاید امامت کی ذمہ داری بھی انہیں کی ہوگی، مغرب کا وقت ہوا انہوں نے زبردستی امامت کے لیے کہہ دیا، درس دلوانے پر بھی مصر تھے، اب یاد نہیں ان کا اصرار غالب رہا یا پھر میری معذرت ۔ اسی مسجد میں ایک چھوٹا بچا ہوتا ہے عبد اللہ، بہت مودب اور محبت رکھنے والا ہے، جامعہ اسلامیہ مدینہ میں داخلہ کا خواہشمند ہے، اللہ اس کی یہ نیک تمنا پوری فرمائے۔
اسی مسجد میں سیف اللہ فیضی صاحب سے ملاقات ہوئی، فیضی صاحب سے میری کوئی جان پہچان نہیں، لیکن جب میں جامعہ رحمانیہ میں داخل ہوا، اس وقت سے ان کے بارے میں معروف تھا، بہت نیک پرہیز گار، محنتی اور اصلاحی و تحریکی ذہن رکھنے والے ہیں، کئی ایک ذہین طالبعلم ان سے رہنمائی لیتے ، اور اس پر عمل پیرا بھی ہوتے، فیضی صاحب کے متعلق علم ہوا، ایم فل، اور پی ایچ ڈی کرچکے ہیں، اور آج کل لاہور میں کسی کالج یا یونیورسٹی میں شعبہ اسلامیات کے انچارج ہیں، میرے پاس تھوڑی دیر کے لیے بیٹھے، ایک لفظ یاد ہے، کہنے لگے: ’ ہم نے مشن کی زندگی گزارنی ہے، إن شاءاللہ‘۔
نماز کے بعد استاد محترم انس صاحب کا فون آگیا، میں نے عرض کیا، رحمانی مسجد میں ہوں، تھوڑی دیر تک وہیں تشریف لے آئے، گاڑی سے اتر کر بڑی گرمجوشی سے ملے، فرمایا: خضر اب تو تم ماشاء اللہ شیخ بن گئے ہو۔ پھر ہم برکت مارکیٹ چلے گئے، انس صاحب نے کھانے پینے کا آرڈر دیا،تھوڑی دیر تک حمزہ صاحب بھی وہیں تشریف لے آئے، دونوں اساتذہ کرام نے میری بہت حوصلہ افزائی کی، حمزہ صاحب نے ساتھ دو نصیحتیں بھی کیں، ایک تو مزاج میں تیزی کم کرو، دوسرا ان بحثوں میں حصہ نہ لو، جن سے بے دین لوگ کسی کو خارجی یا تکفیری سمجھنا شروع ہوجاتے ہیں،۔ انس صاحب نے پوچھا، کب تک واپس آرہے ہو، اور پھر حکم فرمایا کہ واپس آپ نے یہیں ہمارے پاس آنا ہے۔ ویسے بہت کم لوگوں کو علم ہوگا، میں 2014 سے اب تک مجلس التحقیق الاسلامی کے ایک ملازم کی حیثیت سے روزانہ آن لائن ڈیوٹی سرانجام دیتا ہوں، محدث ویب سائٹس کی مکمل ذمہ داری انس صاحب کی ہے، اس حوالے سے کئی ایک باتیں ہوئیں، مزید کچھ پراجیکٹس شروع کرنے کا ارادہ ہے، جس کے لیے انس صاحب مجھے ساتھ شامل ہونے کے لیے توجہ دلاتے رہتے ہیں، میں بھی ان کی توجہ اور شفقت کا جواب ہمیشہ ادب واخلاص کے ساتھ ہاں میں ہی دیتا ہوں۔
سینڈ وچ کے ساتھ چپس بھی ملتی ہے، جبکہ شوارما کنوارہ ہی پیش کی جاتا ہے، میں نے مؤخر الذکر چسکا اختیار کیا تھا، اس لیے انس صاحب اور حمزہ صاحب نے چپس میں مجھے بھی شریک کرلیا، آخر میں ’ٹھاہ ٹھاہ، لکڑ ہضم ، پتھر ہضم ‘ کا ایک ایک ’مگ‘ تناول کیا، اور یہ مجلس برخاست ہوئی۔
اساتذہ کرام کی طرف سے شاگردوں کی حوصلہ افزائی کے مختلف انداز ہوتے ہیں، انس صاحب اور حمزہ صاحب کا اپنے ایک شاگرد کے لیے یوں وقت نکالنا، بہت اچھا لگا۔ اسی طرح پچھلے سال میں نے ڈاکٹر حمزہ ملیباری کی کتابوں کے تعارف و تجزیہ پر ایک تحریر لکھی تھی، الاعتصام میں چھپی، حضرت عبد الرحمن مدنی صاحب کی نظر سے گزری، حسن مدنی صاحب سے کہہ کر مجھے فون کیا، فرمانے لگے، خضر بیٹا میں نے آپ کا مضمون پڑھا ہے، اتنی بات سن کر اگلی چیزیں سننے کا مجھے ہوش ہی نہیں رہا، بعد میں پتہ چلا کہ مدنی صاحب نے مضمون میں کی گئی محنت کی تعریف و تحسین فرمائی، البتہ موقف ان کے نزدیک تقریبا حمزہ ملیباری صاحب والا ہی درست ہے، اس وقت مدنی صاحب نے مجھ سے ملیباری صاحب کی پی ڈی ایف کتابیں بھی منگوائیں، اور میں نے حمزہ ملیباری صاحب کا نمبر لے کر بھی انہیں ارسال کیا۔
انس صاحب اور قاری مصطفی راسخ صاحب کے ذریعے مدنی صاحب سے شرف باریابی حاصل ہوا، مدنی صاحب کوجب میرا علم ہوا تو انہوں نے از راہ شفقت توجہ اور اہتمام کے ساتھ وقت دےدیا، میں صبح کے وقت ناشتہ کر چکا تھا، لیکن جب مدنی صاحب کے پاس پہنچا، تو انہوں نے ایک بار پھر بہترین حکیمانہ ناشتہ پیش کیا، چائے تھی، اور ساتھ کشمش،گریاں اور اس قسم کی چیزوں سے بنے ہوئے بہترین لڈو ، نیچے بلا کر خود ناشتہ لاکر میرے سامنے رکھا، فرمانے لگے، تم ناشتہ کرلو، میں بھی دوائی لے کر آتا ہوں، تھوڑی دیر بعد مدنی صاحب واپس تشریف لے آئے،قاری مصطفی راسخ صاحب اور اسی طرح ان کے ساتھ ایک بھائی عبد الباسط عابد صاحب تھے، جو غالبا نئے مجلس التحقیق الاسلامی کی ٹیم کا حصہ بنے تھے، یہ دونوں حضرات بھی شریک مجلس ہو گئے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
خضر حیات بھائی ہمارے زمانہ طالب علمی میں نہ تو موبائل تھا اور نہ ہی انٹر نیٹ کمیپوٹر خال خال ملتا تھا اور وہ بھی میرا خیال ہے 486 یا پیٹیم ون شاید ابھی شروع نہیں ہوا تھا یا شروع ہو چکا تھا پاکستان فون کرنے کے لیے فون بوتھ لگے ہوتے تھے اور وہاں سے ہلالے خرید کر فون کیا جاتا تھا بہرحال آپ کی یادداشت میں اجمل بھٹی صاحب کا ذکر خیر پڑھا یہ میرے ہم عصر یا ایک سال جونئیر تھے شاید ، مجھے اپنے معاصرین بھی یاد آ رہے ہیں بالخصوص شفیع طاہر صاحب ، قاری صہیب صاحب عبدالرزاق ساجد صاحب حفظہم اللہ جمعیا
ہم ایک ساتھ ہی گئے تھے اور ایک ساتھ فارغ ہوئے تھے سوائے شیخ عبدالرزاق ساجد جو ایک سال سئینر تھے،
اور بھی یاد کروں گا تو بہت سارے نام آ جائیں گے خیر بشرط فرصت ان شاء اللہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
حضرت مدنی صاحب کی گفتگو شروع ہوئی، جسے قاری مصطفی راسخ صاحب بھی ریکارڈ کر رہے تھے، اور میں نے بھی ریکارڈ کرلیا، مدنی صاحب شخصیات، تنظیموں ، جماعتوں، کے متعلق ایک انسائیکلو پیڈیا ہیں، فقہی مسائل اور اصولی مباحث سے متعلق فی البدیہہ نکتہ رسی ان کی گفتگو کا خاصہ ہے، ان کی گفتگو کے سحر میں انسان گرفتار ہو جائے، تو محسوس ہوتا ہے، محدث روپڑی، حافظ گوندلوی ، مولاناغزنوی، مولانا اسماعیل سلفی جیسے اکابرین کو انسان خود دیکھ رہا ہے، معلومات کا ٹھاٹیں مارتا سمندر ہے، ایک لہر آئے گی، آپ کو دار الحدیث رحمانیہ دہلی کے در و دیوار تک بہا کر لے جائے گی، دوسرے ہی لمحے آپ خود کو جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں شیخ البانی، شیخ شنقیطی، شیخ ابن باز کے حلقہ درس میں محسوس کریں گے، کبھی ایسا محسوس ہوگا کہ مذہبی جماعتوں اور اسلامی تنظیموں کا سنگ بنیاد ابھی ابھی رکھا جارہا ہے۔ ہم اس وقت نیچے کی جانب سے اوپر بیٹھی جماعتوں اور شخصیات کو دیکھ رہے ہوتے ہیں، جبکہ مدنی صاحب جیسے بزرگوں کے لیے ان شخصیات اور جماعتوں کی ایک ایک پرت نمایاں ہوتی ہے ۔
عرب ممالک میں مشایخ کے درس و دروس ریکارڈ اور محفوظ رکھنے کا بہت اچھا نظام ہے، بطور مثال شیخ ابن عثیمین کو لے لیں، ان کی جتنی ضخیم ضخیم کتابیں آج لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں، یہ اصل میں ان کے صوتی دروس ہیں، جو بعد میں تحریری شکل میں آئے۔
مدنی صاحب کے افادات محفوظ کرنے کا اب انتظام کیا گیا ہے، معلوم ہوا، جب بھی کوئی گفتگو ہوتی ہے، اسے ریکارڈ کرلیا جاتا ہے، اور بعد میں مجلس التحقیق الاسلامی کے رفقا کے ذریعے اسے تحریری شکل میں بھی منتقل کیا جاتا ہے۔
حضرت مدنی صاحب نہ تو کوئی دھواں دار خطیب ہیں، نہ ہی کثیر التالیف مصنف، اس کے باوجود اپنے حقیقی اورروحانی ابنا کے ذریعے علمی و فکری حلقوں میں مقبول ہیں، آپ مدنی صاحب کی تقریر یا تصنیف تلاش کریں، تو شاید نہ ملے، لیکن ’ مدنی صاحب کا فکر و مزاج‘ آپ کو اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ نظر آئے گا۔ مدنی صاحب نے اپنی اس گفتگو میں بھی بعض شخصیات کا ذکر کیا، جن کے مضامین وہ درست کیا کرتے تھے، انہیں اصلاح دیا کرتے تھے، کئی اسکالرز کی انہوں نے تربیت کی، ماہنامہ محدث میں بہت سارے لوگوں کو موضوعات دے کر مضامین لکھوائے، اور کئی ایک قلمکاروں کے مضامین کی اصلاح کرکے انہیں چھاپتے رہے۔
محدث فورم وغیرہ پر مدنی صاحب کے کئی ایک تفصیلی انٹرویوز موجودہیں، جن سے ان کے اسلوب و منہج، فکر اور مشن کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

حافظ الوقت فقیہ العصر، استاد محترم ثناء اللہ مدنی صاحب کے حضور:
حافظ ثناء اللہ مدنی صاحب آج کل کسی مدرسہ میں باقاعدہ تدریس نہیں فرمارہے، ان کے صاحبزادے کا نمبر حاصل کرکے ان کے پاس گھر حاضر ہونے کی اجازت چاہی، ان کے بیٹے صہیب صاحب نے کہا، آپ ظہر کے وقت آجائیں، صبح کے وقت حافظ صاحب اپنے داماد قاری عبد الرؤف صاحب کی معاونت سے شرح بخاری کی تصنیف و تالیف کا کام کرتے ہیں۔
میں نے انس صاحب سے عرض کیا کہ حافظ صاحب کو ملنے جانا ہے، انہوں نے وہاں مجلس التحقیق الاسلامی کے ایک بھائی کو ساتھ بھیجا، اشفاق بھائی اور میں پاک عرب سوسائٹی میں پوچھ گچھ کرتے، حافظ صاحب کے گھر کے سامنے پہنچ گئے، ان کے صاحبزادے صہیب صاحب فون اٹینڈ نہیں کر رہے تھے، گیٹ پر موجود گھنٹی دینے کی ہمت بھی نہیں ہورہی تھی، کچھ عرصہ سوچ و بچار میں گزر گیا، آخر ہمت کرکے ہاتھ گھنٹی کی طرف بڑھ گئے، حافظ صاحب کا پوتا آیا، میں نے کہا، حافظ صاحب کو بتائیں، فلاں نام کا آپ کا شاگرد ہے، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے۔ الحمد للہ حافظ صاحب نے ملنے کے لیے وقت دے دیا۔
مجھے دیکھتے ہی مسکرائے، گلے لگایا، فرمایا، بہت دیر بعد آئے ہو، بھول ہی گئے تھے۔
سلام دعا ، خیریت دریافت کرتے ہوئے، حافظ صاحب چارپائی پر بیٹھ گئے، ہم نے نیچے بیٹھنا چاہا، حافظ صاحب نے اپنے ساتھ اوپر بیٹھنے کا حکم دیا،یوں حافظ صاحب نے ایک تکیہ سے ٹیک لگالی، اور ہم دونوں ساتھ بیٹھ کر پاؤں اور بازو دبانا شروع ہوگئے۔ حافظ صاحب کافی کمزور ہو چکے ہیں، لیکن پھر بھی تصنیف و تالیف کے کام میں مصروف ہیں، اور عرب ممالک سے کئی اہل ذوق طلاب علم ان سے ہر روز السنن الکبری للبیہقی کا درس بھی لیتے ہیں، حافظ صاحب نے سعودیہ اور جامعہ اسلامیہ کے حالات دریافت فرمائے، میں نے حال ہی میں کچھ آنے والی تبدیلیوں کا تذکرہ کیا، ساتھ شیخ عبدا لمحسن العباد صاحب کے کچھ مقالات کا بھی تذکرہ کیا، ایک شخصیت کا نام لے کر فرمانے لگے، لگتا ہے یہ سب خرابیاں اس کی وجہ سے ہیں، اسلامی ممالک میں بڑھتی ہوئی دین بیزاری پر تاسف کا اظہار کیا، اور فرمانے لگے، وہاں سب کومیری طرف سے سلام کہنا۔ پھر ہم نے حافظ صاحب سے اجازت لی، اور ان کی محبت و شفقت کا احساس دل میں بسائے واپس لوٹ آئے، جو بھائی ساتھ تھے، انہوں نے آنکھ بچا کر ایک دو تصویریں پتہ نہیں کس طرح لے لیں، ورنہ حافظ صاحب کے تلامذہ جانتے ہیں، ان کے حضور اس قسم کی سرگرمیاں کرنے کی ہمت کسی کو نہیں ہوتی۔
حضرت حافظ صاحب سے جب ہم درس بخاری لیا کرتے تھے، کبھی کبھی اپنے اساتذہ کرام کا تذکرہ کیا کرتے ، جس سے پتہ چلتا تھا کہ حافظ صاحب جیسے بزرگوں نے کس انداز سے اپنے اساتذہ کرام کی خدمت اور عزت و تکریم کی ہے، لیکن آج جب ہمیں یہ ذمہ داری نبھانی ہے، تو دامن میں سوائے ندامت و خجالت کے اور کچھ نہیں۔
میں سمجھتا ہوں، ہمارے بزرگ علما کے ارد گرد ہر وقت اہل علم اور طلبہ کی ایک ٹیم ہونی چاہیے، جو ان کی ضروریات، مزاج کو مد نظر رکھتے ہوئے، ان کے علم و فن اور تجربات کو محفوظ رکھنے کی کوشش کریں، ان کے علمی منصوبہ جات اور تحقیقی تمناؤں اور خواہشات کو نوٹ کرکے، انہیں عملی جامہ پہنانے کی سعی کریں۔
مدارس کے معاملات تھوڑا منظم کرنے کی ضرورت ہے، فضلا و متخرجین کی درجہ بندی کی جائے، نوجوانوں کے لیے مفید مصروفیات پیدا کی جاسکتی ہیں، بزرگ علما کے بڑھاپے کا سہارا بنا جاسکتا ہے۔

مرکز قرآن وسنہ ، یو ای ٹی سوسائٹی میں:
ان دنوں مولانا محمد حسین ظاہری کسی شیعہ افسر کی دلچسپی سے پس دیوار زنداں تھے، ’ حُسین‘ پر شیعہ کی مہربانیاں نئی نہیں ہیں ، جب حسین بن علی ان کے ڈنگ سے نہیں بچ سکے، تو حسین ظاہری کیسے محفوظ رہتے، خیر قصہ مختصر، اس حادثے کے سبب’ تحفظ علما‘ کے حوالے سے ایک کمیٹی زیر بحث آنا شروع ہوگئی، جس کے متعلق پہلے بھی گاہے بہ گاہے باتیں ہوتی رہتی تھیں، کہ ہمارا ایک ایسا پینل ہونا چاہیے، جو عدالتی و قانونی کاروائیوں میں اہل حق کا دفاع کرے، اور مذہب کی توہین کرنے والوں کو کٹہرے تک لے کر جائے۔
اس کمیٹی کے لیے چند لوگوں کا اجلاس بلایا گیا، جن سب کا تعلق مجموعہ علمائے اہل حدیث سے تھا، بزرگ علما کے ساتھ نوجوان بھی مدعو تھے، لاہور سے بھی اہل علم شریک ہوئے، گوجرانوالہ سے بھی احباب تشریف لائے، اجلاس کا ہدف تھا کمیٹی ترتیب دینا، اس کے لیے ہونے والے اخراجات کا بندو بست کرنا،
حافظ ارشد صاحب، شیخ مبشر ربانی صاحب، قاری حمزہ صاحب، ہشام الہی ظہیر صاحب، قدوسی برادران اور دیگر مشارکین اجلاس کی آراء اور کوششوں سے اس کمیٹی کا ایک مکمل خاکہ زیر ترتیب آگیا، ذمہ داریاں تقسیم ہوگئیں، مطلوبہ فنڈ کا بھی اعلان کردیا گیا، قاری صہیب صاحب ، حافظ عابد الہی صاحب نے فورا اپنا حصہ ڈال دیا، عبد المالک مجاہد صاحب نے بھی اپنا حصہ اپنے صاحبزادے کے ذریعے پہنچا دیا، شروع سے لیکر آخر تک قاری صہیب صاحب مجلس پر چھائے رہے، کبھی خوشگوار موڈ میں، اکثر سنجیدہ انداز میں انہوں نے کئی ایک علمی و عملی باتیں ارشاد فرمائیں، بعد میں ایک بھائی کہنے لگے ، یار قاری صہیب صاحب کو ہم نے عوامی جلسوں میں ہی سناہے، یہ تو علماء کی مجلس میں بھی خوب بولتے ہیں، میرا بھی یہی احساس تھا، دیگر کئی احباب بھی ان کی گفتگو کے سحر میں جکڑے نظر آئے۔ بلاشبہ اللہ تعالی نے قاری صاحب کو کئی ایک صلاحتیوں سے نوازا ہے، اللہ مزید اضافہ فرمائے اور ہم سب کو اخلاص کی دولت سے نوازے۔ اس اجلاس کی مکمل کاروائی بعض احباب کے پاس لکھی ہوئی محفوظ ہے۔ جو لوگ عصر سے پہلے آئے، کھانا کھا چکے تھے، میٹنگ ختم ہوتے ہی واپس ہولیے ، ہم لیٹ آنے والوں میں سے تھے، اس لیے بعد میں کھانا کھانے کے لیے بیٹھ گئے۔
نماز مغرب قاری حمزہ صاحب کی اقتدا میں ادا کی گئی، درس کے لیے انس صاحب کو کہا گیا، ان کی معذرت پر مجھے آگے کردیا گیا، جو ٹوٹے پھوٹے الفاظ پہلے کئی جگہ پر کہہ چکا تھا، ایک بار پھر وہی دہرا دیے کہ جس طرح ہم جسمانی غذا کا خیال رکھتے ہیں، اسی طرح روحانی غذا کی بھی فکر کرنی چاہیے۔
اس مجلس کا ایک اور فائدہ یہ ہوا کہ کئی ایک شخصیات جنہیں میں نے خصوصی ملنے جانا تھا، ان سے یہیں ملاقات ہوگئی ، اور واپسی پر ساتھ ہی مرکز البیت العتیق تھا، استاد محترم حمزہ صاحب مجھے اور استاد محترم قاری خالد فاروق صاحب کو وہاں ’ڈراپ‘ کر گئے۔
 
Last edited:
Top