• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’’انفارمیشن کی وبا

شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
85
انفارمیشن کی وبا

لیکن آج کل انفارمیشن کا دور ہے اور معلومات کی بہتات (Too much information) ہے۔ لیکن انسانی ذہن محدود ہے اور محدود انفارمیشن (معلومات) ہی وہ برداشت کر سکتا ہے۔ حد سے زیادہ انفارمیشن انسانی ذہن پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ انفارمیشن کی زیادتی کبھی اچھی نہیں ہوتی ۔ ۔ ۔ “Too much information is always bad”

اس لئے اسلام انسان کو غیر ضروری باتوں کی جستجوں کرنے سے منع کرتا ہے اور صرف فائدہ مند انفارمیشن پر ہی اکتفا کرنا سکھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایمان والوں سے فرماتے ہیں:

’’بہت گمان کرنے سے بچو‘‘ ۔ ۔ ۔ ’’ تجسس نہ کرو‘‘

اور وعید بھی فرماتے ہیں کہ ’’کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو، یقینا آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے ‘‘۔(سورہ الإسراء : 36)

لہذا جس انفارمیشن کا فائدہ نہیں اس کے پیچھے پڑنا ایک مسلمان کا کام نہیں۔ اسی طرح ہر انفارمیشن کو آگے بڑھائا بھی اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’آدمی کے گناہگار ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ جو کچھ سنے، اسے آگے بیان کر دے‘‘۔ (سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی: 2025)

اور آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’ آدمی کے جھوٹا ہونے کیلئے یہ کافی ہے کہ جو سنے اس کو بیان کرے“۔ (صحيح مسلم: 7)

لیکن آج کے مسلمان اپنے نبی ﷺ کی باتوں کی کب پرواہ کرتے ہیں؟

انفارمیشن شیئر کرتے وقت مثبت و منفی یا سچ و جھوٹ کے بارے میں کتنے لوگ سوچتے ہیں؟
آج ہر کسی کے ہاتھ میں انفارمیشن پھیلانے کی ڈیوائس (موبائل) ہے اور سب کو اظہارِ رائے کی آزادی (Freedom of Speech) ہے۔

لہذا ہر کوئی انفارمیشن شیئر کر رہا ہے اور ’’انفارمیشن آلودگی‘‘ (Information Pollution) پھیلا رہا ہے لیکن کوئی روکنے والا نہیں!

آج ’’انفارمیشن کی وبا‘‘ نے تو ہر انسان کے ذہن کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے اور پوری بنی آدم کو ہی متعدد ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں مبتلا کر دیا ہے جن میں چند درج ذیل ہیں:

- خوف کا غلبہ
- ہائی یا لو بلڈ پریشر
- ذہنی دباؤ اور ڈپریشن
- ذہنی و جسمانی کمزاری
- تھکاوٹ کا احساس اور کمزوری
- قوت مدافعت اور توانائی کا فقدان
- قوت فیصلہ اور کارکردگی میں کمی
- نیند کا نہ آنا اور ڈراؤنے خواب دیکنا
- لو موڈ، بد مزاجی اور کام میں دل نہ لگنا
- ہر وقت موبائل کی طرف دھیان کا جانا اور اسی میں لگے رہنا
- وغیرہ وغیرہ

اسلام اعتدال کا درس دیتا ہے۔ اعتدال پر رہنا ہی فطرت ہے اور فطرت کی طرف لوٹنے میں ہی انسانیت کی بقا ہے۔اگر یہی انفارمیشن مثبت ہو اور اعتدال کے ساتھ ہو تو اس میں کوئی بُرائی نہیں بلکہ اس سے انسانیت کا فائدہ ہے۔ لیکن انفارمیشن جب اعتدال سے بڑھ جائے تو چاہے مثبت ہی کیوں نہ ہو شور بن جاتا ہے اور شور مچاتا ہے۔ لہذا شور مچانے والوں کو روکنا ہوگا۔

سوشل میڈیا پر ہم سبھوں کو اللہ تعالٰی سے ڈرتے ہوئے پوری تحقیق و تصدیق کے بعد صرف مثبت اور فائدہ مند مواد ہی شیئر کرنی چاہئے۔ لائیک لینے یا نمبر بنانے کیلئے بغیر تحقیق شدہ غیر ضروری مواد شیئر کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے۔

یاد رکھئے، فرمانِ باری تعالی ہے: ’’وہ منہ سے کوئی بات نہیں کہنے پاتا مگر اس کے پاس ایک نگہبان (لکھنے کے لئے) تیار رہتا ہے ‘‘ ( سورہ ق : 18)

پس اگر ہر مسلمان یہ یقین کر لے کہ اس کے ہر قول و فعل کو لکھنے والا ایک نگہبان ہر وقت تیار رہتا ہے تو وہ کوئی بھی انفارمیشن بغیر تحقیق و تصدیق کے شیئرکرکے جھوٹا نہ بنے اور اپنا اعمال نامہ گناہوں سے نہ بھرے۔
اللہ تعالیٰ ہم سبھوں کو ہدایت دے۔ ہمیں مثبت سوچنے اور مثبت انفارمیشن ہی شیئر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

تحریر: انجنیئر محمد اجمل خان
 
Top