• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’’تقلید کی حقیقت اور اہمیت ایک علمی جائزہ‘‘

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
حقیقت تقلید
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس فورم میں مجھ سے بڑے بڑے علماء موجودہیں جو اپنی علمی کاوشوں سے عوام الناس کو مستفیض فرمارہے ہیں نیز مجھ احقر کوبھی ان کے علوم سےاستفادہ کا موقع ملا ہے اللہ ان تمام حضرات کی کاوشوں اور اخلاص کو قبو ل فرمائے اور ان کے علوم میں بشمول میرے ترقی عطا فرمائے ۔آمین
ناظرین کرام میرا یہ مضمون اختصار کی کافی کوششوں کے باوجود طویل ہوگیا ہے ،لیکن فائدے سے خالی نہیں ،اس مضمون کو لکھنے میں مجھے کافی محنت کرنی پڑی ہے ،باوجود دیگر مشاغل مدرسہ کا اہتمام اوردوسری مشغولیات ہیں بہر حال وقت نکال کر یہ مضمون کپیوٹر پر ہی ترتیب دیا ہے اس لئے زیادہ گہرائی سے پروف ریڈنگ نہیں کرسکا ہوں ،اگر مضمون کی میں بے ترتیبی یا کمپوزنگ کی اغلاط ہوں تو اس کو نظر انداز کردیا جا ئے اور اگر تنقید تبصرےکی ضرورت ہوتو مناسب انداز میں تنقیداور تبصرہ کیا جاسکتا ہے،
تقلید کےلغوی معنی
تقلید کےمعنی لغت میں پیروی ہے اور لغت کے اعتبار سے تقلید، اتباع، اطاعت اور اقتداء کے سب ہم معنی ہیں۔
تقلید کےاصطلاحی معنی
اصولین کے نزدیک تقلید کے اصطلاحی معنی : (قول مجتہد کو بغیر دلیل قطعی ومعرفت تامہ کے بعینہ قبول کرلینا (بوجہ اعتماد کلی کے)
اور التقلید: ھول العمل الغیر من غیر حجۃ ملزمۃ ( بغیر کسی لازمی حجت کے دوسرے کوے عمل کو قبول کرنا)
اور جناب قاضی محمدعلی صاحب فرماتے ہیں:
"التقلید اتباع الانسان غیرہ فیما یقول او یفعل معتقدا للحقیقة من غیر نظر الی الدلیل"۔ (کشف اصطلاحات الفنون:۱۱۷۸)
ترجمہ: تقلید کے معنی ہیں کسی آدمی کا کسی دوسرے کے قول و فعل میں دلیل طلب کئے بغیر اس کو حق سمجھتے ہوئے اتباع کرے۔
جائز و ناجائز اتباع و تقلید
تقلید کی بھی دو قسمیں ہیں۔ اگرحق کی مخالفت کے لئے کسی کی تقلید کرے تو یہ مذموم ہے جیسا کہ کفار و مشرکین، خدا اور رسول صلی الله علیہ وسلم کی مخالفت کے لئے اپنےآباء واجداداور پیشواؤںکی تقلید کرتے تھے۔ اگر حق پر عمل کرنے کے لئےوہ اس وجہ سے تقلید کرتا ہےکہ وہ مسائل کا براہ راست استنباط نہیں کرسکتا اور مجتہد کیونکہ کتاب و سنت کواسسے زیادہ سمجھتا ہے ۔ اسلئے اگر اسکو اللہ ا و رسول صلی الله علیہ وسلم کی بات سمجھ کر عمل کرے تویہ تقلید جائز اور واجب ہے ۔
علامہ خطیب بغدادی شافعی (٣٩٢-٤٦٢ھ) فرماتے ہیں:
احکام کی دو قسمیں ہیں: عقلی اور شرعی۔
عقلی احکام (ایمانیات یا عقائد)میں تقلید جائز نہیں، جیسے ایمان باللہ ،صانع عالم (جہاں کا بنانےوالا) اور اس کی جملہ صفات (خوبیوں) کی معرفت (پہچان)اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھرانا، اللہ کو عالم الغیب جاننا، حیات ممات میں اللہ کی قدرت کاملہ کا اقرارکرنا اقرا ربالسان اور تصدیق بالقلب کے ساتھ، اسی طرح رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تصدیق اور آپ کے برحق ہونےکی معرفت وغیرہ
عبید الله بن حسن عنبری سے منقول ہے کہ وہ اصول دین میں بھی تقلید کو جائز کہتے ہیں، لیکن یہ غلط ہے اس لئے کہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ "تمہارے رب کی طرف سے جو وحی آئی اسی پر عمل کرو، اس کے علاوہ دوسرے اولیاء کی اتباع نہ کرو، کس قدر کم تم لوگ نصیحت حاصل کرتے ہو" (٧:٣)۔
اسی طرح الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ "جب ان سے کہا جاتا ہے کہ الله کی اتاری ہوئی کتاب کی اتباع کرو تو وہ لوگ کہتے ہیں کہ نہیں، ہم اس چیز کی اتباع کرینگے جس پر ہم نے اپنے باپ دادہ کو پایا، چاہے ان کے باپ دادا بے عقل اور بے ہدایت ہوں" (٢:١٧٠)
اسی طرح الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ"ٹھہرالیا اپنے عالموں اور درویشوں کو خدا (یعنی الله کے واضح احکام حلال و حرام کے خلاف ان کو حاکم (حکم دینے والا) اللہ کو چھوڑ کر)... "(٩:٣١)
دوسری قسم: احکام شرعیہ کی ہے، اور ان کی دو قسمیں ہیں:
(۱) دین کے وہ احکام جو وضاحت و صراحت سے معلوم ہوں، جیسے زنا و شراب کی حرمت ہونا وغیرہ تو ان میں تقلید جائز نہیں ہے کیونکہ ان کے جاننے میں سارے لوگ برابر ہیں،
(۲)دین کے وہ احکام جن کو نظر و استدلال کے بغیر نہیں جانا جاسکتا، جیسے: عبادات، معاملات، نکاح وغیرہ کے "فروعی" مسائل، تو ان میں تقلید کرنی ہے۔
وہ لوگ جن کو تقلید کرنی ہے (یہ) وہ حضرات ہیں جن کو احکام شرعیہ کے استنباط کے طریقے معلوم نہیں ہیں، تو ان کے لئے "کسی" عالم کی تقلید اور اس کے قول پر عمل کے بغیر چارہ کارنہیں ہے
الله تعالیٰ کا ارشاد ہے: " فَسـَٔلوا أَهلَ الذِّكرِ إِن كُنتُم لا تَعلَمونَ (النحل:۴۳والانبیا:۷) پس تم سوال کرو اہل علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے"۔
یہ آیت شریفہ گو اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی مگر قاعدہ ہے
العبرۃ بعموم اللفظ لا بخصوص السبب (لفظ کے عموم کا اعتبار ہوگا نہ کہ شان نزول کا سبب) اسلئے یہاں ’’ اہل الذکر‘‘ بوجہ عموم مسلمان بھی شامل ہیں،وہ کیسے،لیجئے
وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیہم ولعلہم یتفکرون (نحل :۴۴) یہ ذکر(کتاب) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے ،لوگوں کی جانب نازل فرمایا ہے ،آپ اسے کھول کھول کر بیان کردیں ،شاید کہ لوگ غور و فکر کریں۔
یہاں ذکر سے مراد قرآن شریف ہے ۔اس لئے اہل ذکر میں مسلمان آتے ہیں۔
اور بحوالہ حدیث شریف:
(ترجمہ حدیث)حضرت ابن عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے دور میں زخمی ہوگیا پھر انھیں غسل کی حاجت ہوگئی، "لوگوں" نے انھیں غسل کا حکم دے دیا جس کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوگئی. اس کی اطلاع نبی صلے الله علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ نے فرمایا: الله ان کو قتل (برباد) کرے کہ ان لوگوں نے اس کو قتل کردیا. ، ناواقفیت کا علاج (اہل علم سے) دریافت کرنا نہ تھا؟...الخ (سنن أبي داود كتاب الطهارة ، باب فی المجروح يتيم) (رقم الحديث: ۲۸۴:۳۳۶)
ان نصوص سے مقلد کے لئے مجتہد کی تقلید کرنا ثابت ہے۔دوسری دلیل یہ ہے کہ اگر کوئی اہل اجتہاد میں سے نہیں ہے تو اس پر تقلید ہی فرض ہے. جیسا کہ نابینا، کہ اسکے پاس ذریعہ علم نہیں ہے تواس کو قبلہ کے سلسلے میں کسی دیکھنے والے(بینا) کی بات ماننی ہوگی.وقس علیٰ ھٰذا، اور مجتہد کیونکہ علوم شرعیہ سے بخوبی واقف ہوتا ہے اس لئے اس کو کسی تقلید کرنا لازم نہیں۔اور اس طرح کی تقلید شخصیت پرست نہیں بلکہ احکام شرعیہ اور معرفت الٰہیہ کے معلوم کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔اور اگر کوئی کسی کی ذاتی طور پر تقلید کرتا ہے تو حرام ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے
اس تقلید کا حکم دیتا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يَاايّهَا الَذِينَ آمَنُوا اَطِيعُوا اللّهَ وَاَطِيعُوا الرّسُولَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ"۔ (النساء:۵۹)
ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ اور رسول اللہ (صلی الله علیہ وسلم) کی اطاعت کرو اور تم میں جوصاحب امر ہیں ان کی اطاعت کرو۔
اس آیتِ کریمہ میں اللہ اور اس کے رسو ل الله صلی الله علیہ وسلم کے بعد "أُولِي الْأَمْرِ " کی اتباع کا حکم فرمایا گیا ہے "أُولِي الْأَمْرِ" سے کون لوگ مراد ہیں؛ اگرچہ اس میں علماء کی رائیں مختلف ہیں؛ لیکن اکثرمفسرین اس سے فقہاء اور علماء مراد لیتے ہیں، حاکم نے حضرت عبداللہ ابن جابر کا قول نقل کیا ہے:
"اُولِي الْامْرِ، قال الفقہ والخیر"۔ (مستدرک:۱/۱۲۳)
ترجمہ: "اُولِي الْاَمْرِ" سے مراد اصحابِ فقہ وخیر ہیں۔
ترجمان القرآن میں حضرت ابن عباسؓ کی بھی یہی تفسیر نقل کی گئی ہے:"اُولِي الْامْرِ، یعنی اهل الفقه والدین"۔ (مستدرک:۱/۱۲۳)
ترجمہ: "اُولِي الْامْرِ" سے اصحاب فقہ اور اہلِ دین مراد ہیں۔
فَان تَنٰزَعتُم فى شَيءٍ فَرُدّوهُ اِلَى اللہ وَالرّسولِ ان كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللہ وَاليَوم الاخر ذٰلِكَ خَيرٌ وَاحسَنُ تَاويلًا
پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو لوٹاؤ طرف اللہ کے اور رسول کے اگر یقین رکھتے ہو اللہ پر اور قیامت کے دن پر یہ بات اچھی ہے اور بہت بہتر ہے اس کا انجام.
مفسر امام ابو بکر جصاص رح نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہیں کہ:
"’اولو الامر" ،‘کی اطاعت دینے کے فورا بعد الله تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ "پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو لوٹاؤ اللہ اور رسول کی طرف" یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اولو الامر سے مراد "علماء و فقہاء" ہیں، کیونکہ الله تعا لیٰ نے لوگوں کو ان کی اطاعت کا حکم دیا (یعنی جس بات پر ان کا اتفاق و اجماع جو وہ بھی قرآن و سنّت کےبعد قطعی دلیل و حکم ہے)، "پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں" فرماکر اولو الامر (علماء) کو حکم دیا کہ جس معاملہ میں ان کے درمیاں اختلاف ہو اسے الله کی کتاب اور نبی کی سنّت کی طرف لوتادو، یہ حکم "علماء و فقہاء" ہی کو ہو سکتا ہے، کتونکہ عوام الناس اور غیر عالم کا یہ مقام نہیں ہے، اس لئے کہ وہ اس بات س واقف نہیں ہوتے کہ کتاب الله و سنّت کی طرف کسی معاملہ کو لوٹانے کا کیا طریقہ ہے اور نہ انھیں نت نئے مسائل (کا حل قرآن و سنّت سے اجتہاد کرتے) مستنبط کرنے کے دلائل کے طریقوں کا علم ہوتا ہے، لہذا ثابت ہوگیا کہ یہ خطاب علماء و فقہاء کو ہے. [ احکام القرآن (۲:۲۵۷)
فَسـَٔلوا أَهلَ الذِّكرِ إِن كُنتُم لا تَعلَمونَ (النحل:٤٣) پس تم سوال کرو اہل علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے.
اس آیت میں یہ اصولی ہدایت دیدی گئی ہے کہ جو لوگ کسی علم و فن کے ماہر نہ ہوں، انھیں چاہیے کہ اس علم و فن کے ماہرین سے پوچھ پوچھ کر عمل کرلیا کریں، یہی چیز تقلید کہلاتی ہے چناچہ علامہ آلوسی بغدادی (الحنفی) اس طرح فرماتے ہیں: اور اس آیت میں اس بات پر بھی استدلال کیا گیا ہے کہ جس چیز کا علم اسے خود نہ ہو اس میں علماء سے رجوع کرنا واجب ہے. اور علامہ جلال الدین السیوطی (الشافعی) ’’اقلیل‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اس آیت میں اس بات پر استدلال کیا گیا ہے کہ عام آدمیوں کے لئے فروعی مسائل میں تقلید جائز ہے [تفسیر روح المعانی: ١٤/١٤٨،سورہ النحل]
حضرت جابر (رضی الله عنہ) سے روایت ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عالم (دینی بات جاننے والے) کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ جانتے ہوے خاموش رہے اور جاہل (نہ جاننے والے) کے لئے مناسب نہیں ہے کہ اپنی جہالت پر خاموش رہے، الله تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: پس تم سوال کرو اہل علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے (النحل:٤٣) [المعجم الأوسط للطبراني [بَابُ الْمِيمِ ]مَنِ اسْمُهُ مُحَمّدٌ، رقم الحديث: ٥٥١١(٥٣٦٥) بحوالہ تفسیردرمنثور] تابعین میں، جیسے عطاء، حسن بصریؒ وغیرہ سے بھی "’’اولی الامر‘‘ " کے معنی اہلِ علم اور اصحاب فقہ کے منقول ہیں، آیتِ مذکورہ کے علاوہ قرآن پاک کی بعض اور آیات (النساء، التوبۃ) میں بھی اس کی طرف اشارہ موجود ہے، حدیثیں تواس پرکثرت سے شاہد ہیں اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا طرزِ عمل بھی تقلید مطلق کی تائید میں ہے۔
تقلیدِ شخصی
تقلید کی دوسری قسم تقلید شخصی ہے، یعنی کسی ناواقف عامی (غیر عالم شخص) کا کسی متعین شخص کے علم و کمال پر بھروسہ کر کے اسی کے بتائے ہوئے طریقہ کار پر عمل کرنے کو تقلید شخصی کہتے ہیں.
مشہور حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی الله علیہ وسلم) نے حضرت معاذ ابنِ جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا حاکم بناکر بھیجا؛ تاکہ وہ لوگوں کو دین کے مسائل بتائیں اور فیصلہ کریں:
"عَنْ مُعَاذٍ اَنّ رَسُولَ اللّهِ صَلّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلّمَ بَعَثَ مُعَاذًا ِلَى الْيَمَنِ فَقَالَ كَيْفَ تَقْضِيا(الیٰ آخر الحدیث ) ، وَقَالَ : الْحَمْدُ لِلّهِ الَذِي وَفّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللّهِ لِمَا يُرْضِي رَسُولَ اللّهِ " (سنن ابوداؤد:جلد سوم: فیصلوں کا بیان :قضاء میں اپنی رائے سے اجتہاد کرنے کا بیان ، (جامع ترمذی ،حدیث نمبر:۱۲۴۹)
ترجمہ: جب حضور اکرم نے حضرت معاذ کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجنے کا ارادہ کیا فرمایا تم کس طرح فیصلہ کرو گے جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ پیش ہو جائے انہوں نے فرمایا کہ اللہ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا آپ نے فرمایا اگر تم اللہ کی کتاب میں وہ مسئلہ نہ پاؤ تو فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر سنت رسول میں بھی نہ پاؤ تو اور کتاب اللہ میں بھی نہ پاؤ تو ،انہوں نے کہا کہ اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کوئی کمی کوتاہی نہیں کروں گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے سینہ کو تھپتھپایا اور فرمایا کہ اللہ ہی کیلئے تمام تعریفیں ہیں جس نے اللہ کے رسول کے رسول (معاذ) کو اس چیز کی توفیق دی جس سے رسول اللہ راضی ہیں۔ پس گویا اہلِ یمن کو حضرتِ معاذؓ کی شخصی تقلید کا حکم دیا گیا.
کن مسائل میں تقلید کی جاتی ہے؟
درج بالا حدیث اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اگر مجتہد کوئی مسئلہ کتاب و سنت میں نہ پائے تو اجتہاد کرسکتا ہے اور لوگوں کے لیے اس کی اتباع و تقلید ضروری ہوگی.
مثال کے طور پر چند جدید مسائل اجتہادیہ؛ جن کا واضح حکم نہ قرآن پاک میں ہے اورنہ حدیث شریف میں:
(۱) نکاح بذریعہ ٹیلیفون (۲) چاند کی شہاد ت بذر یعہ ٹیلیفون (۳) خون کا عطیہ (۴) اعضاء کی پیوندکاری (۵) حالت روزہ میں انجکشن کا مسئلہ(۶) لاؤڈاسپیکر پر اذان کا مسئلہ(۷) ہوائی جہاز میں نماز (۸)کرنسی کی مالی حیثیت (۹) ہوائی اڈوں پر انسانی اسکیننگ (۱۰) ڈیجیٹل تصویر کا مسئلہ وغیرہ
کن کی تقلید کی جائے ؟
ظاہر ہے مسائل اجتہاديہ میں مجتہد کی ہی تقلید کی جائے گی اور مجتہد کا اعلان ہے کہ ’’ قیاس مظہر لامثبت‘‘ (شرح عقائد نسفی)
یعنی ہم کوئی مسئلہ اپنی ذاتی رائے سے نہیں بتاتے بلکہ ہر مسئلہ کتاب و سنت و اجماع سے ہی ظاہر کر کے بیان کرتے ہیں
کون تقلید کرے؟
مسائل اجتہادیہ میں کتاب وسنت پر عمل کرنے کے دو ہی طریقے ہیں:
جو شخص خود مجتہد ہو گا وہ خود قواعد اجتہادیہ سے مسئلہ تلاش کر کے کتاب و سنت پر عمل کرے گااس کے لئے کسی کی تقلید جائز نہیں بوجہ تفہیم کتاب و سنت۔
اور غیر مجتہد اس وجہ سے تقلید کریگا کہ اس میں خود کتاب و سنت سے مسئلہ استنباط کرنے کی اہلیت نہیں ہوتی، اس لیے وہ کتاب و سنت کے ماہرین سے پوچھ لیتاہےکہ کتاب و سنت کا کیا حکم ہے۔ اس طرح کے عمل کرنے کو تقلید کہتے ہیں۔ واضح رہےکہ مقلد ان مسائل کو ان کی ذاتی رائے سمجھ کرعمل نہیں کرتا بلکہ یہ سمجھ کر کہ مجتہد نے ہمیں مراد اللہ تعالیٰ اور مراد رسول صلی الله علیہ وسلم سے آگاہ کیا ہے۔
تقلید شخصی حیات نبوی (صلی الله علیہ وسلم) میں
ایک اور موقع پر رسول صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
حَدّثَنَا مُوسَى بْنُ إسْمَاعِيل ، حَدّثَنَا اَبَانُ ، حَدّثَنَا قَتَادَةُ ، حَدّثَنِي أَبُو حَسّانَ ، عَنْ الْاسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ ، انَ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ ، وَرّثَ اخْتًا وَابْنَةً فَجَعَلَ لِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا النِّصْفَ ، وَهُوَ بِالْيَمَنِ وَنَبِيّ اللّهِ صَلّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَمَ يَوْمَئِذٍ حَيٌ.(تیسیر کلکتہ : صفحہ٣٧٩، کتاب الفرائض، فصل ثانی)
ترجمہ: اسود بن يزيد سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ ہمارے پاس معاذ (بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ) یمن میں معلم اور امیر ہو کر آئے تو ہم نے ان سے اس شخص کے متعلق پوچھا جو فوت ہوگیا اور ایک بیٹی اور ایک بہن چھوڑ کر گیا تو انہوں نے بیٹی کو نصف اور بہن کو نصف دلایا۔
فائدہ: اس حدیث سے تقلید شخصی ثابت ہوتی ہے اور وہ بھی حیات رسول الله صلے الله علیہ وسلم میں. کیونکہ جب رسول الله صلے الله علیہ وسلم نے معاذ(رضی اللہ عنہ) کو یمن کا قاضی مقرر فرمایا تھا تو اہل یمن کو اجازت دی تھی کہ تعلیم احکام اور فیصلوں کے لئے ہر مسئلے میں حضرت معاذ (رضی الله عنہ) سے رجوع کریں اور یہی تقلیدشخصی ہے، جیسا ابھی اوپر بیان ہوا.
تقلیدِ شخصی حیات نبوی (صلی الله علیہ وسلم) کے بعد
عَنْ مُحَمّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ ابِيهِ : " انَ امْرَاةً سَالَتْ رَسُولَ اللّهِ صَلّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَمَ شَيْئًا ، فَامَرَهَا انْ تَرْجِعَ الَيْهِ ، فَقَالَتْ : يَا رَسُولَ اللّهِ ، ارَاَيْتَ انْ جِئْتُ فَلَمْ اجِدْكَ ؟ قَالَ ابِي : كَانَهَا تَعْنِي الْمَوْتَ ، قَالَ : فَانْ لَمْ تَجِدِينِي فَاتِي ابَا بَكْرٍ " (صحيح مسلم(كتاب فضائل الصحابة باب من فضائل ابي بكر الصديق رضي اللہ عنہ )
ترجمہ: حضرت محمد بن جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز کا سوال کیا تو آپ نے اس عورت کو دوبارہ آنے کے لئے فرمایا، اس عورت نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر میں پھر آؤں اور آپ کو (موجود) نہ پاؤں؟ (یعنی آپ اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہوں تو) آپ نے فرمایا اگر تو مجھے نہ پائے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰیٰ عنہ کے پاس آ جانا (اس حدیث سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰیٰ عنہ کی خلافت بلا فصل اور تقلیدشخصی ثابت اور واضح ہے اس عورت کو آپ صلے الله علیہ وسلم سے مسئلہ ہی تو پوچھنا تھا۔اس حدیث میں سوال کا لفظ واضح لکھا ہے۔
من بعدی" سے ان کی تقلیدشخصی ثابت اور واضح ہے، پس ایک معین شخص کی اتباع کا حکم فرمایا اور یہ کہیں نہیں فرمایا کہ ان سے احکام کی دلیل بھی دریافت کرلیا کرنا اور نہ یہ عادت مستمرہ (جاریہ) تھی کہ دلیل کی تحقیق ہر مسئلے میں کی جاتی ہو اور یہی تقلید شخصی ہے.اورحقیقت تقلید شخصی یہ ہےکہ اگر کسی کو کوئی مسئلہ درپیش آئے تو اس کے لئے لازم ہے کہ وہ کسی مرجح کی وجہ سے ایک ہی عالم سے رجوع کیا کرے ۔
ایک دوسری حدیث شریف میں ہے،جس کا امام بخاری اور امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔
ترجمہ: حضرت هذيل بن شرحبيل رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو موسیٰ رضی الله عنہ سے ایک مسئلہ پوچھا گیا پھر وہی مسئلہ حضرت ابن مسعود رضی الله عنہ سے پوچھا گیا اور حضرت ابو موسیٰ رضی الله عنہ کے فتویٰ کی بھی ان کو خبر دی گئی تو انہوں نے اور طور سے فتویٰ دیا، پھر ان کے فتویٰ کی خبر حضرت ابو موسیٰ رضی الله عنہ کو دی گئی تو انہوں نے فرمایا کہ جب تک یہ عالم متبحر تم لوگوں میں موجود ہیں تم مجھ سے مت پوچھا کرو.- صحيح البخاري ، كِتَاب الْفَرَائِضِ ، بَاب مِيرَاثِ ابْنَةِ الِابْنِ مَعَ بِنْتٍ، رقم الحديث: (۶۲۶۹)
فائدہ: حضرت ابو موسیٰ رضی الله عنہ کے اس فرمانے سے کہ ان کے ہوتے ہوے مجھ سے مت پوچھو، ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ہر مسئلہ میں ان سے پوچھنے کے لئے فرمایا ہے اور یہی تقلید شخصی ہے کہ ہر مسئلہ میں کسی مرجح کی وجہ سے کسی ایک عالم سے رجوع کر کے عمل کرے.
صحابہ کرام رضی الله عنھم اور تقلید
اس بات میں ذرہ برابر بھی گنجائش نہیں کہ نبی صلے الله علیہ وسلم کے جملہ صحابہ کرام رضی الله عنہ شرف صحبت نبوی کے فیض و برکت سے سب کے سب عادل، ثقه ، متقی ، خداپرست اور پاکباز تھے، مگر فہم قرآن، تدبرحدیث اور تفقہ فی الدین میں سب یکساں نہ تھے، بلکہ اس لحاظ سے ان کے آپس میں مختلف درجات اور متفاوت مراتب تھے.
امام الفقیہ اور احد الاعلام حضرت امام مسروق رح (المتوفی ٢٣-ہجری) سے مروی ہے کہ میں نے اصحاب رسول الله صلے الله علیہ وسلم کے علم کی خوشبو حاصل کی تو میں نے ان کے علم کی انتہا چھ (٦) پر پائی، حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبدالله، حضرت معاذ(بن جبل)، حضرت ابو درداء اور حضرت زید بن ثابت رضی الله عنہم. میں نے ان کے علم کی خوشبو پائی تو مجھے تو مجھے ان کے علم کی انتہا حضرت علی اور حضرت عبدالله (بن مسعود) رضی الله عنہم پر ملی(طبقات ابن سعد:٢/٢٥تذكرة الحفاظ:١/٢٤ و مقدمه ابن صلاح:٢٦٢ مع شرح العراقي، مستدرك حاكم:٣/٤٦٥، اور اس روایت پر امام حاکم اور امام ذہبی خاموش رہے یعنی جرح نہیں فرمائی)
معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی فقہ دین پر عمل پیرا تھے اور اپنے دور کے چھے بڑے معتبر اصحاب کی تقلید کرتے تھے. کتب احادیث مصنف عبد الرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ، تہذیب الآثار طبری، شرح معانی الآثار طحاوی، کتاب الآثار امام محمّد، کتاب الآثار امام ابی یوسف میں صحابہ اور تابعین کے ہزارہا فتاویٰ درج ہیں جن کے ساتھ دلائل مذکور نہیں، انہوں نے بلاذکردلیل یہ فتاویٰ صادر فرماتے، اور سب لوگوں نے بلامطالبہ دلیل ان پر عمل کیا، یہ عمل اسلام میں پہلے دن سے آج تک تواتر سے ثابت ہے۔
تقلید پر اجماع صحابہ
اسی لئے امام غزالی (حنبلی) فرماتے ہیں: "تقلید تو اجماع صحابہ سے بھی ثابت ہے، کیونکہ وہ عوام کو فتویٰ دیتے اور عوام کو یہ حکم نہیں دیتے تھے کہ تم (خود عربی دان ہو) اجتہاد کرو، اور یہ بات ان کے علماء اور عوام کے تواتر سے مثل ضروریات دین ثابت ہے" [المستصفى:٢/٣٨٥]
ائمہ اربعہ میں کسی ایک کی تقلید پر اجماع
ائمہ اربعہ میں کسی ایک کی تقلید پر امت کا اجماع ہوچکا ہے، اور امت کے اجماع کی دو صورتیں ہیں:
اول یہ کہ امت کے قابل قدر علماء متفق ہوکر یہ کہیں کہ ہم نے اس مسئلہ پر اجماع کرلیا ہے، جب کہ مسئلہ کا تعلق قول سے ہو، یا اگر مسئلہ کا تعلق کسی فعل سے ہے تو وہ اس فعل پر عمل شروع کردیں۔
دوسری صورت یہ ہے کہ امت کے کچھ بڑے علماء مذکورہ طریقہ پر اجماع کریں اور دوسرے قابل قدر علماء اس پر سکوت کریں اور اس پر ان کی طرف سے کوئی رد نہ ہو اس کو اجماعِ سکوتی کہتے ہیں۔
اجماع کی یہ دونوں صورتیں معتبر ہیں۔ نور الانوار میں ہے: رکن الإجماع نوعان: عزیمة وھو التکلم منھم بما یوجب الاتفاق أي اتفاق أي الکل علی الحکم بأین یقولوا أجمعنا علی ھذا إن کان ذلک الشيء من باب القول أو شروعھم في الفعل إن کان من بابہ ورخصة ، وھو أن یتکلم أو یفعل البعض دون البعض وسکت الباقون منھم ولا یردون بعد مضي مدة التأمل وھی ثلاثة أیام ومجلس العلم ویسمی ھذا إجماعا سکوتیًا وھو مقبول عندنا : ۲۱۹۔
چنانچہ جب علماء نے دیکھا کہ جو تقلید کا منکر ہوتا ہے وہ شتر بےمہار کی طرح زندگی بسر کرتے ہوئے اپنی خواہشات پر عمل کرتا ہے، اس لیے علماء نے ائمہ اربعہ میں کسی ایک کی تقلید پر اجماع کیا، اگرچہ ان کا یہ اجماع ایک جگہ متفق ہوکر نہیں ہوا؛ لیکن ان سب کے ائمہ اربعہ میں کسی ایک کی تقلید کرنے اور عدم تقلید پر نکیر کرنے کی وجہ سے یہ اجتماع منعقد ہوا ہے، چنانچہ اس سلسلہ میں بہت سے بڑے بڑے علماء نے عدم
تقلید پر اپنی آراء کا اظہار کیا اور امت کے سامنے عدم تقلید کے مفاسد کو کھل کر بیان کیا۔ اس کی چند مثالیں یہ ہیں:
(۱) علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وعلی ھذا ما ذکر بعض المتأخرین منع تقلید غیر الأربعة لانضباط مذاھبھم وتقلید مسائلھم وتخصیص عمومہا ولم یدر مثلہ في غیرھم الآن لانقراض اتباعھم وہو صحیح۔
ترجمہ: اور اسی بنیاد پر ائمہ اربعہ ہی کی تقلید متعین ہے نہ کہ دوسرے ائمہ کی، اس لیے کہ ائمہ اربعہ کے مذاہب مکمل منضبط ہوگئے ہیں اور ان مذاہب میں مسائل تحریر میں آچکے ہیں اور دوسرے ائمہ کے مذاہب میں یہ چیز نہیں ہے اور ان کے متبعین بھی ختم ہوچکے ہیں اور تقلید کا ان یہ چار اماموں میں منحصر ہوجانا صحیح ہے۔ (التحریر في اصول الفقہ: ۵۵۲)
(۲) علامہ ابن نجیم مصری لکھتے ہیں:
وما خالف الأئمة الأربعة فھومخالف للإجماع
یعنی ائمہ اربعہ کے خلاف فیصلہ اجماع کے خلاف فیصلہ ہے۔ (الأشباہ: ۱۳۱)
(۳) محدث ابن حجر مکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أما في زماننا فقال أئمتنا لا یجوز تقلید غیر الأئمة الأربعة: الشافعي ومالک وأبي حنیفة وأحمد رضوان اللہ علیھم أجمعین
یعنی ہمارے زمانے میں مشائخ کا یہی قول ہے کہ ائمہ اربعہ یعنی امام شافعی، مالک، ابوحنیفة اور احمد ہی کی تقلید جائز ہے اور ان کے علاوہ کسی اور امام کی جائز نہیں (فتح المبین ۱۶۶)
(۴) امام ابراہیم سرخسی مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
و أما في ما بعد ذلک فلا یجوز تقلید غیر الأئمة الأربعة
یعنی دورِ اول کے بعد ائمہ اربعہ کے سوا کسی کی تقلید جائز نہیں۔ (الفتوحات الوہبیہ: ۱۹۹)
(۵) مشہو رمحدث ومفسر قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فإن أھل السنة والجماعة قد افترق بعد القرن الثلثة أو الأربعة علی أربعة المذاھب، ولم یبق في فروع المسائل سوی ھذہ المذھب الأربعة فقد انعقد الإجماع المرکب علی بطلان قول من یخالف کلھم․ یعنی تیسری یا چوتھی صدی کے فروعی مسائل میں اہل سنت والجماعت کے مذاہب رہ گئے، کوئی پانچواں مذہب باقی نہیں رہا، پس گویا اس امر پر اجماع ہوگیا کہ جو قول ان چاروں کے خلاف ہے وہ باطل ہے (تفسیر مظہری:۲/۶۴)
(۶) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وھذہ المذاھب الأربعة المدونة المحررة قد اجتمعت الأمة أو من یعتد بھا منھا علی جواز تقلیدھا إلی یومنا ھذا یعنی یہ مذاہب اربعہ جو مدون ومرتب ہوگئے ہیں، پوری امت نے یا امت کے معتمد حضرات نے ان مذاہب اربعہ مشہورہ کی تقلید کے جواز پر اجماع کرلیا ہے۔ (اور یہ اجماع) آج تک باقی ہے۔ (حجة اللہ البالغہ: ۱/۳۶۱)
(۷)شارح مسلم شریف علامہ نووی فرماتے ہیں:
أما الاجتہاد المطلق فقالوا اختتم بالأئمة الأربعة الخ یعنی اجتہاد مطلق کے متعلق علماء فرماتے ہیں کہ ائمہ اربعہ پر ختم ہوگیا حتی کہ ان تمام مقتدر محققین علماء نے ان چار اماموں میں سے ایک ہی امام کی تقلید کو امت پر واجب فرمایا ہے اور امام الحرمین نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ (نور الہدایہ: ۱/۱۰)
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
ولا تقف ما لیس لک بہ علم ان السمع والبصر والفواد کل اولئک کان عنہ مسؤلا (القرآن۔ ۱۷:۶)
جس بات کا تجھے علم نہ ہو اس کی پیروی مت کر ،کیونکہ کان آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک کی پوجھ گچھ کی جانے والی ہے۔
اصل تو یہی ہے کہ ہر ایمان والا خود نصوص قرآنیہ اور احادیث جو کہ قرآن کی شرح ہیں سمجھنے کی کوشش کرے ،اور اس سے استنباط کرے ،مگر چونکہ آیت مذکورہ میں خطاب عام ہے کسی شخصے خاص یا جماعت سےخطاب نہیں ہے ،اس لئے جس نے بھی اس خطاب کو سنا اس پر لازم ہوگیا کہ وہ اس پر ایمان لائے ،اب چونکہ اس خطاب کو سمجھنے کی ہر ایک میں صلاحیت نہیں ہوتی ہے، اسلئے تقلید عاجزی اور مجبوری کی وجہ سے نا گزیر ہوجاتی ہے ،جب یہ معلوم ہوگیا کہ تقلید نام مجبوری کا ہے ، تو یہ بھی معلوم رہے کہ مقلد کے لئے لازم ہے کہ وہ کسی ایک مجتہد کی تقلید کرے ،ایسا نہیں کہ جہاں سے بھی اپنا مطلب نکلے اسی کی بات مان لی ،یہ جائزہے اس وجہ سے کہ ایسا کرنا اجماع کے خلاف ہے ،ہوائے نفسانی ہے، اور نفس کی پیروی کرنا حرام ہے ،اس وجہ سے کہ اسنے احکام الٰہی کی پیروی نہ کرکے اپنی خواہشات کی پیروی کی ،اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
’فلا تتبعو الھویٰ ( پس اپنے خواہشات کی پیوری مت کر)
خلاصہ کلام مقلد کی دو قسم ہیں (۱)عامی (۲) متبع
عامی وہ جو دلیل شرعی کی معرفت کے بغیر مجتہد کے قول بوجہ اعتماد کلی کے عمل کرے ،
متبع وہ جس کو بعض شرعی دلائل کی معرفت ہوتی ہے ،اور اسی معرفت کی بنیاد پر مجتہد کی تقلید کرتا ہے، لیکن اس کے پاس اتنا علم نہیں ہوتا کہ وہ خود اجتہاد کرے ۔بھر دونوں قسم کے عاملین بوجہ اتباع فرمان الٰہی مستحق اجر ہونگے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دعا کا طالب
عابد الرحمٰن بجنوری
انڈیا
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
محترم عابدالرحمٰن صاحب،
مفصل آرٹیکل کے لئے شکریہ قبول کریں۔ اگرچہ آرٹیکل کےمندرجات میں ہر ہر ہیڈنگ پر بہت کچھ لکھا جانا ممکن ہے۔ اور جو آپ نے لکھا ہے اس میں سے اکثر حصہ ایسا ہے جس سے ہم بدلائل اختلاف کرتے ہیں۔ لیکن فی الحال چند اہم باتوں کی وضاحت مطلوب ہے۔ میں عامی ہوں، لہٰذا آپ سے مناظرہ مطلوب نہیں۔ فقط آپ کا موقف سمجھنا اور اپنا موقف سمجھانا مطلوب ہے۔ امید ہے کہ اس تناظر میں بات کرنے کو آپ بھی پسند کریں گے اور ہماری علمی پیاس بجھانے میں کچھ کردار ادا کریں گے۔ اور اس کے لئے پیشگی شکریہ۔

جائز و ناجائز اتباع و تقلید
تقلید کی بھی دو قسمیں ہیں۔ اگرحق کی مخالفت کے لئے کسی کی تقلید کرے تو یہ مذموم ہے جیسا کہ کفار و مشرکین، خدا اور رسول صلی الله علیہ وسلم کی مخالفت کے لئے اپنےآباء واجداداور پیشواؤںکی تقلید کرتے تھے۔ اگر حق پر عمل کرنے کے لئےوہ اس وجہ سے تقلید کرتا ہےکہ وہ مسائل کا براہ راست استنباط نہیں کرسکتا اور مجتہد کیونکہ کتاب و سنت کواسسے زیادہ سمجھتا ہے ۔ اسلئے اگر اسکو اللہ ا و رسول صلی الله علیہ وسلم کی بات سمجھ کر عمل کرے تویہ تقلید جائز اور واجب ہے ۔
آپ یہ بتائیے کہ عامی کو یہ کیسے معلوم ہوگا کہ وہ حق کی مخالفت کر رہا ہے یا حق پر عمل کر رہا ہے، جبکہ وہ دلیل نہ تو طلب کرتا ہے اور نہ سمجھتا ہے؟
دوسرا یہ سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ بھلا حق کی مخالفت کے لئے آج تک کسی نے کسی کی تقلید کی ہے؟ آپ کا یہ کہنا کہ کفار و مشرکین، خدا و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کے لئے اپنے آباء و اجداد اور پیشواؤں کی تقلید کرتے تھے، بالکل غلط ہے اور قرآن کی درج ذیل آیت سے متصادم بھی۔

{وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْمِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآئَ مَا نَعْبُدُھُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَـآ اِلَی اﷲِ زُلْفٰی} (الزمر:3)
’’جن لوگوں نے اللہ کے علاوہ دوسروں کو ولی بنا رکھا ہے(ان کی بابت وہ کہتے ہیں کہ) ہم ان کی بندگی ہی اس غرض کے لیے کرتے ہیں کہ یہ ہم کو اللہ کے قریب کر دیں‘‘۔

یہ اور بات کہ اللہ کا قرب حاصل کرنے کا طریقہ غلط تھا۔ لیکن نیت بہرحال اللہ کی مخالفت نہیں، اللہ کے قرب کا حصول ہی تھا اور یہی بات درج بالا آیت سے ثابت اور آپ کی پیش کردہ مذموم تقلید کی مثال سے راست متصادم ہے۔ اس تفصیل کے بعد سوال یہ ہوا کہ دور حاضر یا گزشتہ ادوار میں وہ کون سا گروہ ہے جو "حق کی مخالفت کی نیت" سے کسی کی تقلید کرتا ہے؟ یاد رہے زور ہے "نیت" پر نہ کہ "عمل" پر۔

احکام کی دو قسمیں ہیں: عقلی اور شرعی۔
عقلی احکام (ایمانیات یا عقائد)میں تقلید جائز نہیں،
یہاں آپ نے ایمانیات یا عقائد میں تقلید کو ناجائز کہا ہے۔ جبکہ ایک دوسرے دھاگے میں اس پوسٹ میں آپ ہی احناف کو عقائد میں مقلد قرار دیتے ہیں۔ ملاحظہ کیجئے:

یہ ایک طویل خط ہے جس میں امام صاحب نےاپنے عقائد کی وضاحت کی ہے۔جس کو تفصیل میں جانا ہو امام صاحب کے حالات کا مطالعہ فرمالیں ،اس وضاحت کے بعد الحمدللہ اصول دین ہوں یا عقائد،ان میں احناف مقلد ہیں
اسی طرح شاید المہند میں بھی احناف کو عقائد میں مقلد قرار دیا گیا ہے اور دارالافتا دیوبند کی ویب سائٹ پر بھی آن لائن فتویٰ میں حنفیوں کو عقائد میں مقلد قرار دیا گیا ہے۔ اس کی وضاحت درج بالا دھاگے میں ہی شاید کر دی گئی ہے۔

لہٰذا آپ یہ بتائیے کہ کس کی مانیں، کس کی چھوڑیں؟ عقیدہ میں تقلید پر واضح موقف کیا ہے؟ کیا یہ ناجائز ہے یا جائز؟
۔ اگر یہ ناجائز ہے تو عامی جو کہ عام فقہی مسائل کی پیچیدگیوں میں امام پر اعتبار کرتا ہے، تو عقائد کی اہم تر پیچیدگیوں میں کیونکر خود تحقیق کر سکتا ہے؟
۔ اگر عقائد میں تقلید جائز ہے تو پھر دو سوال ہیں کہ
+ ائمہ اربعہ کی جس تقلید پر آپ نے اجماع ذکر کیا ہے، کیا اس تقلید میں عقائد بھی شامل ہیں یا نہیں؟
+ عقیدہ میں گمراہ مقلد عامیوں کو راہ راست پر لانا کیسے ممکن ہوگا؟ وضاحت ایک مثال کی صورت میں پیش کرتا ہوں:

ایک عامی شخص بریلوی المسلک ہے اور عقیدہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب بھی مانتا ہے، حاضر ناظر مانتا ہے اور غیراللہ سے مافوق الاسباب امداد بھی طلب کرتا ہے۔ گویا کئی ایسے عقائد میں لتھڑا ہوا ہے جو یا تو شرک ہیں یا شرک تک جانے کا بڑا ذریعہ ہیں۔ اب یہ شخص بھی مقلد ہے اور عقائد اور فقہ دونوں میں دیوبندیوں کی طرح امام اشعری ، ماتریدی اور امام ابو حنیفہ رحمہم اللہ اجمعین کی تقلید کرتا ہے۔ اب تقلید کی وجہ سے وہ نہ تو دلیل میں نظر کرتا ہے، نہ دلیل سنتا ہے، نہ سمجھتا ہے۔ نہ سمجھنے کی کوشش ہی کرتا ہے، کیونکہ وہ اپنے ائمہ کرام اور مفتیان وغیرہ پر اعتماد کرتے ہوئے یہی سمجھتا ہے کہ یہ عقائد کتاب و سنت سے ثابت ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسا شخص جب تک تقلید چھوڑ کر کتاب و سنت کے دلائل کو سمجھنے کی کم سے کم کوشش نہیں کرتا، تب تک اسے اس کے ان شرکیہ عقائد سے کیسے دور کیا جا سکتا ہے؟ اسے کیسے باور کروایا جائے کہ اس معاملے میں تم جن لوگوں کی تقلید کرتے ہو، وہ غلطی پر ہیں۔ اور کتاب و سنت سے بالکل برعکس عقائد ثابت ہیں۔

برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ عقائد میں تقلید کے ناجائز ہونے کی دلیل کے طور پر جو آپ نے یہ آیت پیش کی:
"ٹھہرالیا اپنے عالموں اور درویشوں کو خدا (یعنی الله کے واضح احکام حلال و حرام کے خلاف ان کو حاکم (حکم دینے والا) اللہ کو چھوڑ کر)... "(٩:٣١)
اس کا عقیدہ سے تعلق نہیں۔ حلال و حرام عقیدہ میں نہیں، اعمال میں ہوتا ہے۔ اور یہی آیت علماء پر بلا دلیل اعتماد کرنے (تقلید) کی مخالفت میں ہماری سب سے بڑی دلیل ہے۔

فی الوقت اتنا ہی، کیونکہ ایک ساتھ بہت سی باتیں کر دینے سے کسی بات کو بھی سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ تقلید کے ضمن میں ہی آپ سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کیونکہ آپ ماشاء اللہ عالم دین ہیں، کیا کبھی آپ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا کوئی ایسا قول پایا جس کی دلیل کتاب و سنت میں موجود نہ ہو، اور آپ نے فقط اس بنیاد پر امام کے قول کو چھوڑ دیا ہو کہ یہ کتاب و سنت کے مخالف ہے؟ یا مرجوح ہے لہٰذا راجح پر عمل کر لیا ہو؟ فقط آپ کی آپ بیتی درکار ہے، اس پر مفصل بات مت کیجئے گا۔ مختصرا بتا دیں۔
جزاکم اللہ خیرا۔
امید ہے کہ ہمارے انداز بیان سے آپ کو شکایت نہیں ہوئی ہوگی اور آپ سے بھی توقع ہے کہ شفقت سے ہی جواب دیں گے۔ شکریہ۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
محترم عابدالرحمٰن صاحب،
یہاں آپ نے ایمانیات یا عقائد میں تقلید کو ناجائز کہا ہے۔ جبکہ ایک دوسرے دھاگے میں"] اس پوسٹ میں[/URL] آپ ہی احناف کو عقائد میں مقلد قرار دیتے ہیں۔ ملاحظہ کیجئے:
اسی طرح شاید المہند میں بھی احناف کو عقائد میں مقلد قرار دیا گیا ہے اور دارالافتا دیوبند کی ویب سائٹ پر بھی آن لائن فتویٰ میں حنفیوں کو عقائد میں مقلد قرار دیا گیا ہے۔ اس کی وضاحت درج بالا دھاگے میں ہی شاید کر دی گئی ہے۔
لہٰذا آپ یہ بتائیے کہ کس کی مانیں، کس کی چھوڑیں؟ عقیدہ میں تقلید پر واضح موقف کیا ہے؟ کیا یہ ناجائز ہے یا جائز؟
+ ائمہ اربعہ کی جس تقلید پر آپ نے اجماع ذکر کیا ہے، کیا اس تقلید میں عقائد بھی شامل ہیں یا نہیں؟
+عقیدہ میں گمراہ مقلد عامیوں کو راہ راست پر لانا کیسے ممکن ہوگا؟ وضاحت ایک مثال کی صورت میں پیش کرتا ہوں
محترمی السلام علیکم
میں بحث مباحثہ اور مناظرہ کا آدمی نہیں ہوں کوئی بات اچھی لگتی ہے اس کو فوراً قبول کرلیتا ہوں ۔ بیشک میں نے سابقہ تھریڈ میں عقائد میں بھی تقلید کی بات کہی تھی لیکن دوسرے تھریڈ میں یا اسی میں اس کو معنیٰ مجازی پرمحمول کیا تھا ،جو حقیقت میں فرار کا راستہ ہے ،لیکن ایک سیدھی سی بات جو دل و دماغ کو اپیل کرتی ہےاس کو عرض کرتا ہوں،محترم آپ کو معلوم ہے کہ نبینا حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جو عقیدہ یا ایمان تھا وہی تمام انبیاء اورنبینا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی تھا اور آپ کے بعد قیامت تک یہی ایمان کا معیار ہو گا جو رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا،روز اول سےلیکر اور آج تک اس ایمان وعقیدہ میں نہ کوئی تبدلی ہوئی اور نہ ہوگی، اور آپ کو معلوم ہے کہ اسی تبدیلی کا نام ہی تو کفراورشرک ہے۔ ہاں البتہ احکام شرعیہ میں ہر’’نبی ‘‘ کے دور میں بمقتضائے حالات ترمیم وتبدیلی ہوتی رہی اور یہی طریقہ شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں تھا اور ہےاور رہیگا بشرطے کہ قرآن و سنت وآثار سے کوئی تعارض نہ ہو۔اس لئے کوئی کتنا بھی کہے کہ عقائد میں بھی تقلید کی جائے گی غلط ہے ۔ اس لئے کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ابولحسن اشعری اور ابومنصور ماتریدی عقائد میں کس کی تقلید کرتے تھے میرے حساب سے جواب منفی آئےگا ،اور یہی حال امام ابوحنفہ رحمۃ اللہ علیہ کاہے،جب یہ عقائد میں کسی کی تقلید نہیں کرتے تھے اور صرف کتاب وسنت کا علم ہی ان کی رہنمائی کرتا تھا جب یہ حضرات پابند نہیں تھے تو دوسرا کوئی کیوں پابند ہو۔
دیگر تقلید کے بارے میں میں بھی جانتا ہوں اور آپ بھی جانتے ہیں تقلید مجبوری کا نام ہے نہ سب عالم ہیں نہ سب عربی داں ہیں نہ سب کے پاس فہم برابر ہے کچھ کو جسمانی عارضہ ہوتا ، عورتوں کے بارے خاص کر سوچنے کی بات ہے کہ عقل میں کمزور ہوتی ہیں ان سب مصالح کے پیش نظر یہ طے پایا کہ مسائل میں کسی ایک سے ہی رجوع کیا جائے ،
تقلید ایک ایسا چوں چوں کا مربہ جو نہ کبھی حل ہوا نہ ہوگا کیونکہ یہ’’ انا ‘‘کا مسئلہ بنا ہوا ہے اور علمی موشگافیاں ہیں اور بس ،فقط والسلام
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
اس کا عقیدہ سے تعلق نہیں۔ حلال و حرام عقیدہ میں نہیں، اعمال میں ہوتا ہے۔ اور یہی آیت علماء پر بلا دلیل اعتماد کرنے (تقلید) کی مخالفت میں ہماری سب سے بڑی دلیل ہے۔
آپ تواعمال کو شاید ایمان میں شامل مانتے ہیں توپھرآپ کیلئے تویہ عبارت بڑی مشکل پیداکررہی ہے؟ذرااس کاکچھ شافی جواب عطاکیاجائے۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ،
بیشک میں نے سابقہ تھریڈ میں عقائد میں بھی تقلید کی بات کہی تھی لیکن دوسرے تھریڈ میں یا اسی میں اس کو معنیٰ مجازی پرمحمول کیا تھا ،جو حقیقت میں فرار کا راستہ ہے ،
غلطیاں ہم سب سے ہوتی ہیں۔ کوئی بات نہیں آپ سے بھی انجانے میں غلطی ہو گئی۔ بہرحال آخری بات یہ ہے کہ عقائد میں تقلید جائز نہیں۔ اس پر ہم اتفاق کر لیتے ہیں۔ گویا بے چارے حبیب زدران صاحب درست ہی کہہ رہے تھے کہ عقائد میں احناف مقلد نہیں ہیں۔ اب پتہ نہیں جمشید صاحب کا کیا فرمانا ہے بیچ اس مسئلے کے۔

لیکن ایک سیدھی سی بات جو دل و دماغ کو اپیل کرتی ہےاس کو عرض کرتا ہوں،محترم آپ کو معلوم ہے کہ نبینا حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جو عقیدہ یا ایمان تھا وہی تمام انبیاء اورنبینا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی تھا اور آپ کے بعد قیامت تک یہی ایمان کا معیار ہو گا جو رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا،روز اول سےلیکر اور آج تک اس ایمان وعقیدہ میں نہ کوئی تبدلی ہوئی اور نہ ہوگی، اور آپ کو معلوم ہے کہ اسی تبدیلی کا نام ہی تو کفراورشرک ہے۔ ہاں البتہ احکام شرعیہ میں ہر’’نبی ‘‘ کے دور میں بمقتضائے حالات ترمیم وتبدیلی ہوتی رہی اور یہی طریقہ شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں تھا اور ہےاور رہیگا بشرطے کہ قرآن و سنت وآثار سے کوئی تعارض نہ ہو۔اس لئے کوئی کتنا بھی کہے کہ عقائد میں بھی تقلید کی جائے گی غلط ہے ۔ اس لئے کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ابولحسن اشعری اور ابومنصور ماتریدی عقائد میں کس کی تقلید کرتے تھے میرے حساب سے جواب منفی آئےگا ،اور یہی حال امام ابوحنفہ رحمۃ اللہ علیہ کاہے،جب یہ عقائد میں کسی کی تقلید نہیں کرتے تھے اور صرف کتاب وسنت کا علم ہی ان کی رہنمائی کرتا تھا جب یہ حضرات پابند نہیں تھے تو دوسرا کوئی کیوں پابند ہو۔
ملین روپے کی بات کہی آپ نے۔ جو بات آپ عقائد کے معاملے میں کہتے ہیں، ہوبہو یہی بات اہلحدیث حضرات فقہی مسائل کے بارے میں کہتے ہیں کہ جب کتاب و سنت کا علم ہی ان کی رہنمائی کرتا تھا، جب یہ حضرات عقائد و مسائل میں پابند نہیں تھے تو دوسرا کوئی کیوں پابند ہو۔
رہی یہ بات کہ عقائد میں آج تک شریعت تبدیل نہیں ہوئی۔ بالکل درست۔
لیکن اسی بات کو عامی کی نظر سے دیکھئے۔

ایک عامی کے لئے درست فقہی مسئلہ تک پہنچنے میں وہی مشکل ہے جو درست عقیدہ تک پہنچنے میں ہے۔ اس کی مثال اوپر بریلوی عامی کی ذکر کر چکا ہوں۔
جب عقائد میں وہ شخص تقلید کئے بغیر درست عقیدہ تک پہنچ سکتا ہے، جیسا کہ آپ نے بھی تسلیم کیا کہ عقائد میں تقلید نہیں کی جائے گی۔
تو فقہی مسائل میں (جو کہ بہرحال عقیدہ سے کم تر اہمیت کے حامل ہیں) وہ کیسے درست مسئلہ تک نہیں پہنچ سکتا؟

جیسے فقہی مسائل میں اختلافات ہیں، ویسے ہی عقائد کے معاملات میں بھی متقدمین و متاخرین علمائے کرام کے سنگین اختلافات ہیں۔ دور حاضر میں اس کی مثال حیاتی و مماتی دیوبندیوں کا عقیدہ میں اختلاف پیش کیا جا سکتا ہے۔ اور خود بریلوی بھی تو حنفی ہیں۔ دیوبندی بریلوی عقیدے کے سنگین اختلافات کو آپ بھی تسلیم کرتے ہیں۔
لہٰذا ہمارا سوال اب بھی تشنہ جواب ہے کہ ایک عامی کیونکر بغیر تقلید کے، عقائد کے درجنوں سنگین اختلافات میں درست عقیدہ تک پہنچ پائے گا؟

دیگر تقلید کے بارے میں میں بھی جانتا ہوں اور آپ بھی جانتے ہیں تقلید مجبوری کا نام ہے نہ سب عالم ہیں نہ سب عربی داں ہیں نہ سب کے پاس فہم برابر ہے کچھ کو جسمانی عارضہ ہوتا ، عورتوں کے بارے خاص کر سوچنے کی بات ہے کہ عقل میں کمزور ہوتی ہیں ان سب مصالح کے پیش نظر یہ طے پایا کہ مسائل میں کسی ایک سے ہی رجوع کیا جائے ،
تقلید ایک ایسا چوں چوں کا مربہ جو نہ کبھی حل ہوا نہ ہوگا کیونکہ یہ’’ انا ‘‘کا مسئلہ بنا ہوا ہے اور علمی موشگافیاں ہیں اور بس ،فقط والسلام
اللہ ہمیں انا پرستی سے بھی بچائے اور لایعنی علمی موشگافیوں سے بھی اپنی پناہ میں رکھے۔ باقی یہ جو تقلید کی مجبوری ہے یہ فقط فقہی مسائل و اعمال میں ہی تو نہیں ہے نا۔ بالکل درست، کہ نہ سب عالم، نہ سب عربی داں، نہ سب کا فہم برابر، نہ سب کی عقل برابر۔ متفق۔ لیکن اس سب کے باوجود عامی عقیدہ میں تقلید نہ کرے اور مسائل میں کرے تو سمجھ یہ آتا ہے کہ شاید عقیدہ میں کوئی مجبوری نہیں ہے اور فقہی مسائل میں تقلید کوئی سنگین مجبوری ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک عامی کے لحاظ سے دونوں میں کیا جوہری فرق ہے ؟ کہ ایک میں تقلید کرے تو گمراہ اور دوسرے میں تقلید نہ کرے تو گمراہ؟
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
آپ تواعمال کو شاید ایمان میں شامل مانتے ہیں توپھرآپ کیلئے تویہ عبارت بڑی مشکل پیداکررہی ہے؟ذرااس کاکچھ شافی جواب عطاکیاجائے۔
محترم، اس کے لئے علیحدہ دھاگا کھول لیجئے۔ بدقسمتی سے موجودہ موضوع سے اس کا کچھ تعلق نہیں۔ نیا دھاگا کھولیں تو ایمان و عقیدہ کی تعریف بھی کر دیں، اور یہ بھی کہ اگر اعمال ایمان کا حصہ ہیں، تو اس سے دونوں پر علیحدہ احکامات کی نفی کیونکر ہوتی ہے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
محترم، اس کے لئے علیحدہ دھاگا کھول لیجئے۔ بدقسمتی سے موجودہ موضوع سے اس کا کچھ تعلق نہیں۔ نیا دھاگا کھولیں تو ایمان و عقیدہ کی تعریف بھی کر دیں، اور یہ بھی کہ اگر اعمال ایمان کا حصہ ہیں، تو اس سے دونوں پر علیحدہ احکامات کی نفی کیونکر ہوتی ہے۔
حضرت! جب یہاں تقلید پر بحث ہورہی تھی توآپ نے عقائد میں تقلید کا بحث چھیڑدی حالانکہ اس پورے موضوع میں اس تعلق سے کوئی بات نہیں ہے۔ ہم نے صرف آپ کے ایک زریں جملہ کی وضاحت چاہی تھی۔اگریہ وضاحت کرنامشکل ہورہاہے تورہنے دیں۔
اس کا عقیدہ سے تعلق نہیں۔ حلال و حرام عقیدہ میں نہیں، اعمال میں ہوتا ہے۔ اور یہی آیت علماء پر بلا دلیل اعتماد کرنے (تقلید) کی مخالفت میں ہماری سب سے بڑی دلیل ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ہمارے مقلدین بھائی تقلید کا جواز اور دیگر وضاحتیں کرنے کے لیے اجتہاد کا سہارا لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں یا ممکن ہے آسانی کے لیے ایسا کرتے ہیں۔۔۔۔ ( ابتسامہ )
اسی طرح کا ملتا جلتا حادثہ ایک شاعر کی ڈھارس بندھانےوالے کے ساتھ پہلے بھی پیش آ چکا ہے ملاحظہ فرمائیں
وقت خوش خوش کاٹنے کا مشورہ دیتے ہوئے
وہ شخص خود بھی رو پڑا مجھے حوصلہ دیتے ہوئے ۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
ہمارے مقلدین بھائی تقلید کا جواز اور دیگر وضاحتیں کرنے کے لیے اجتہاد کا سہارا لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں یا ممکن ہے آسانی کے لیے ایسا کرتے ہیں۔۔۔۔ ( ابتسامہ )
اسی طرح کا ملتا جلتا حادثہ ایک شاعر کی ڈھارس بندھانےوالے کے ساتھ پہلے بھی پیش آ چکا ہے ملاحظہ فرمائیں
وقت خوش خوش کاٹنے کا مشورہ دیتے ہوئے
وہ شخص خود بھی رو پڑا مجھے حوصلہ دیتے ہوئے ۔
السلام علیکم
ہھت خوب ما شاءاللہ
رونا تو اسی بات کا ہے۔ کبھی تو یہ غیر مقلدین حضرات کہتے ہیں قرآن سے ثابت کرو،وہاں سے ثابت کرتے ہیں تو کہتے ہیں احادیث سے ثابت کرو وہاں سے ثابت کرتے ہیں تو صحابہ میں آجاتے ہیں صحابہ سے اکابریں میں آجا تے اور ہم ہیں کہ ہر جگہ اپنے ہونے کا ثبوت دیتے ہیں ، جنت میں ہونے کا بھی ثبوت دیتے ہیں ، یاد رہےتقلید اور اجتہاد ہر جگہ ملے گی، دوسرا حال یہ ہے کہ ابھی ایک بحث پوری ہوتی دوسری شروع کردی جاتی ،یہ تو وقت کا ضیاع ہے اسی کو میں چوں چوں کا مربہ کہا تھا،
مگرخضر حیات بھائی کم از کم اس ڈھارس بندھا نے والے سے یہ تو معلوم کر لیتے کہ وہ کیوں رو پڑا، شاید وہ یہ سوچ رہا ہوگا،
’’حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے‘‘
اوریہ بھی مناسب حال رہیگا
رند خراب حال کو واعظ نہ چھیڑ تو
تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو
اور ہمارا تو یہ حال ہے،
حیا ت لے کے چلو، کا ئینا ت لے کے چلو
چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو
(ابتسامہ)
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
حضرت! جب یہاں تقلید پر بحث ہورہی تھی توآپ نے عقائد میں تقلید کا بحث چھیڑدی حالانکہ اس پورے موضوع میں اس تعلق سے کوئی بات نہیں ہے۔ ہم نے صرف آپ کے ایک زریں جملہ کی وضاحت چاہی تھی۔اگریہ وضاحت کرنامشکل ہورہاہے تورہنے دیں۔
آپ جوانی ہی میں بوڑھے ہوتے جا رہے ہیں!! ابتسامہ۔
عابد الرحمٰن صاحب کی پہلی پوسٹ دوبارہ غور سے دیکھیں۔ انہوں نے واضح طور پر لکھا ہے کہ:

احکام کی دو قسمیں ہیں: عقلی اور شرعی۔
عقلی احکام (ایمانیات یا عقائد)میں تقلید جائز نہیں،
ہمارا زریں جملہ بھی ادھر ہی ہے اور ہم اور آپ بھی۔ علیحدہ دھاگا کھولنے میں شان کے منافی تو کوئی بات نہیں۔ ہم تو وضاحت کو تیار ہیں۔ آپ خود پیچھے ہٹ رہے ہیں تو ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔
خیر، اس موضوع پر کچھ عرض کرنا ہے کہ عامی کو فقہی مسائل میں تقلید کی کیونکر حاجت ہے اور عقیدہ کے مسائل میں کیوں نہیں ہے۔ تو گفتگو کا سلسلہ آگے بڑھائیں۔ چونکہ عقیدہ میں تقلید کے معاملہ میں اب تک آپ نے کچھ لکھا نہیں ہے۔ یا کم سے کم میرے علم میں نہیں ہے۔ لہٰذا اسی بہانے اس موضوع پر آپ کا موقف بھی پڑھنے کو مل جائے گا۔
 
Top