• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’’ربنا لک الحمد۔۔۔‘‘ آہستہ پڑھیں یا بآواز بلند؟

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
بسم اللہ الرحمن الرحیم​

کتابچہ: ربنالک الحمد آہستہ پڑھیں یا بآواز بلند؟ (اختصار: ارشاد العبد الی اخفاء ربنالک الحمد
اعداو واختصار: کفایت اللہ سنابلی۔
ناشر: دارالسنہ للتحقیق والنشر والطباعہ





نماز سے متعلق بہت سے مسائل میں زمانہ قدیم ہی سے اختلاف چلا آرہا ہے، انہیں مختلف فیہ مسائل میں نماز کی بعض دعاؤں کو بالجہر یا بالسر پڑھنے کے مسائل بھی ہیں، لیکن اس سلسلے میں اب تک صرف دو ہی مسئلے زیر اختلاف تھے،ایک آمین بالجہریا بالسر کا مسئلہ اور دو سرا بسم اللہ الرحمٰن الرحیم بالجہریا بالسر کا مسئلہ،لیکن عصر حاضر میں اسی نوعیت کے ایک اور مسئلے کا اضافہ ہو گیاہے اور وہ ہے : ''امام و مقتدی کا دعاء قو مہ یعنی رَبّنَا لَکَ الْحَمْدُ بالجہر یا بالسر پڑھنا'' میرے علم کی حد تک سلف صالحین صحابہ وتابعین کے بیچ اس مسئلے میں بالکل اختلاف نہ تھا، متقدمین محدثین وفقہاء کی کتابوں میں جس طرح رکوع وسجودکی دعاؤںکاتذکرہ ہے،ٹھیک اسی طرح دعاء قومہ کا بھی تذکرہ ہے،کسی نے بھی اسے بالجہر یا بالسر پڑھنے کا اختلاف ذکر نہیں کیا ہے،جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ یہ مسئلہ ان کے بیچ مختلف فیہ تھا ہی نہیں بلکہ یہ عصر حاضر کی پیداوار ہے۔
ہمارے نزدیک راجح یہی ہے کہ رَبّنَا لَکَ الْحَمْدْ آہستہ پڑھاجائے قرانی آیات ، احادیث صحیحہ اوراجماع امت سے اسی بات کی تائید ہوتی ہے تفصیل ملاحظہ ہو:
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
حصہ اول

’’ربنا لک الحمد‘‘ بالسر پڑھنے کے دلائل۔​

قرآنی آیات:

{ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ } [الأعراف: 55]تم اپنے رب سے دعاء کیا کرو گڑگڑا کر کے اور چپکے چپکے بھی، واقعی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو نا پسند کرتا ہے جو حد سے نکل جائیں۔
ایک دوسری جگہ ارشاد ہے:{ وَاذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُنْ مِنَ الْغَافِلِينَ } [الأعراف: 205]اپنے رب کو اپنے دل میں یاد کرو عاجزی اور خوف کے ساتھ اور زور کی آواز کی نسبت کم آواز کیساتھ۔

مذکورہ دونوں آیتوں میں اللہ ربّ العالمین نے دعاء کرنے کا یہ طریقہ بتلایا ہے کہ دعائیں آہستہ اور خفیہ طورپر کی جائیں،

امام طبری فرماتے ہیں :
حدثنا القاسم قال، حدثنا الحسين قال، حدثني حجاج، عن ابن جريج، عن عطاء الخراساني، عن ابن عباس قوله:"ادعوا ربكم تضرعًا وخفية"، قال: السر. ،یعنی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تفسیر میں کہاہے کہ اس سے آہستہ دعاء کرنامراد ہے''( تفسیرطبری:٤٨٦١٢رقم١٤٧٧٩، رجالہ ثقات عدالحسین، وھومقبول،وبعضہم مدلسون ، وانظرأیضا: الدر المنثور :٤٧٥٣،ابن کثیر:٤٢٨٣،فتح القدیر:٣١٢٢)۔

اور پہلی آیت میں جوإِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ہے اس میں ''اعتداء'' کی جو تفسیریں کی گئی ہیں انہیں میں سے ایک دعاء میں آواز بلند کرنا بھی ہے،چنانچہ ابن أبی حاتم فرماتے ہیں :
حَدَّثَنَا أَبِي، ثنا أَبُو الْجُمَاهِرِ، وَسُلَيْمَانُ ابْنُ بِنْتِ شُرَحْبِيلَ، وَالْحَكَمُ بْنُ مُوسَى، قَالُوا: ثنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الرِّجَالِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، فِي قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: " {ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ} [الأعراف: 55] ، قَالَ: كَانَ يُرَى أَنَّ الْجَهْرَ بِالدُّعَاءِ الِاعْتِدَاءُ "
(تفسیر ابن أبی حاتم:٧٣٦رقم٨٦٢٥،واسنادہ صحیح،وانظرأیضا: الدر المنثور :٤٧٥٣)۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
''وفسرالاعتداء برفع الصوت ـایضاـ فی الدعاء یعنی ''اعتداء'' (حدسے آگے بڑھنے کی)کی تفسیر دعاء میں آواز بلند کرنے سے بھی کی گئی ہے ''(مجموعة الفتاوی ٢٢١٥)۔

اور دوسری آیت میں( فِیْ نَفْسِکَ)دل میں دعا کرنے کا حکم دیا گیاہے۔

اس سلسلے میں امام طبری فرماتے ہیں :
حدثني يونس قال: أخبرنا ابن وهب قال: قال ابن زيد، في قوله: (واذكر ربك في نفسك تضرعًا وخيفة ودون الجهر من القول) ، لا يجهر بذلك. یعنی ابن زیدفرماتے ہیں کہ اس آیت کامطلب یہ ہے کہ اللہ کے ذکرمیں آوازبلند نہ کی جائے(تفسیر طبری:٣٥٤١٣رقم١٥٦١٩واسنادہ صحیح الی ابن زید)۔

امام طبری آگے فرماتے ہیں :
حدثني الحارث قال: حدثنا عبد العزيز قال: حدثنا أبو سعد قال: سمعت مجاهدًا يقول في قوله: (واذكر ربك في نفسك تضرعًا وخيفة ودون الجهر من القول) ، الآية قال: أمروا أن يذكروه في الصدور تضرعًا وخيفة.یعنی امام مجاہد فرماتے ہیں کہ اس آیت میں لوگوں کو حکم دیا گیا کہ وہ اللہ کا ذکراپنے دلوں میں کریں، گریہ وزاری و عاجزی کے ساتھ،(تفسیر طبری:٣٥٤١٣رقم١٥٦٢٠واسنادہ صحیح)۔

امام طبری آگے فرماتے ہیں :
حدثنا القاسم قال: حدثنا الحسين قال: حدثني حجاج، عن ابن جريج، قوله: (واذكر ربك في نفسك تضرعًا وخيفة) قال: يؤمر بالتضرع في الدعاء والاستكانة، ويكره رفع الصوت والنداء والصياح بالدعاء،یعنی امام ابن جریج فرماتے ہیں کہ اس آیت میں دعاء میں گریہ وزاری و عاجزی حکم دیاگیاہے اورچیخ وپکاراوربلندآوازکے ساتھ دعاء کرنے کوناپسندقراردیاگیاہے،(تفسیر طبری:٣٥٤١٣رقم١٥٦٢٢،،رجالہ ثقات عدالحسین، وھومقبول وبعضہم مدلسون ، وانظرأیضا: الدر المنثور:٤٧٦٣)۔

علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ امام مجاہد اور امام ابن جریج کا قول نقل کرتے ہوے لکھتے ہیں:
'' قال مجاھدوابن جریج:أمروا أن یذکروہ فی الصدوربالتضرع والاستکانة دون رفع الصوت والصیاح،امام مجاہد اور امام ابن جریج کہتے ہیں کہ اس آیت میں لوگوں کو حکم دیا گیا کہ وہ اللہ کا ذکراپنے دلوں میں کریں، گریہ وزاری و عاجزی کے ساتھ، نہ کہ بلندآواز اورچیخ وپکارکے ساتھ '' (مجموعة الفتاویٰ ١٩١٥)۔


ان آیات سے ایک اصولی بات معلوم ہوئی کہ دعاؤں میں اصل اسرار (یعنی انہیں آہستہ پڑھنے کا حکم )ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
قَالَ تَعَالَى: {ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ} وَقَالَ تَعَالَى عَنْ زَكَرِيَّا: {إذْ نَادَى رَبَّهُ نِدَاءً خَفِيًّا} . بَلْ السُّنَّةُ فِي الذِّكْرِ كُلِّهِ ذَلِكَ كَمَا قَالَ تَعَالَى: {وَاذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ} . وَفِي الصَّحِيحَيْنِ أَنَّ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانُوا مَعَهُ فِي سَفَرٍ فَجَعَلُوا يَرْفَعُونَ أَصْوَاتَهُمْ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ {أَيُّهَا النَّاسُ أَرْبِعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ؛ فَإِنَّكُمْ لَا تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلَا غَائِبًا وَإِنَّمَا تَدْعُونَ سَمِيعًا قَرِيبًا إنَّ الَّذِي تَدْعُونَهُ أَقْرَبُ إلَى أَحَدِكُمْ مِنْ عُنُقِ رَاحِلَتِهِ}
[مجموع الفتاوى 22/ 469]

ہرقسم کی دعا میں سنت یہ ہے کہ اسے آہستہ پڑھا جا ئے الا یہ کہ کسی سبب کسی دعاء میں جہر مشروع ہو،اللہ تعا لیٰ کا فرمان ہے:(تم اپنے رب سے دعاء کیا کرو گڑگڑا کر کے اور چپکے چپکے بھی، واقعی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو نا پسند کرتا ہے جو حد سے نکل جائیں)اور زکریا علیہ السلام کی دعا ء کے بارے میں اللہ تعا لیٰ فرماتا ہے:(جب انھوں نے اپنے رب سے چپکے چپکے دعاء کی ) نیز تمام اذکار میں بھی یہی چیز سنت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:(اپنے رب کو اپنے دل میں یاد کرو عاجزی اور خوف کے ساتھ اور زور کی آواز کی نسبت کم آواز کے سا تھ) اور بخاری اور مسلم کی حدیث ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ایک سفر میں آپ کے ساتھ تھے توصحابہ نے دعا ء میںاپنی آواز بلند کرنی شروع کردی ،اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' اے لوگو! اپنے آپ پر رحم کرو کیونکہ تم کسی بہرے اور غائب کو نہیں پکار رہے ہو بلکہ اسے پکار رہے ہو جوسننے والا اور قریب ہے، بے شک جسے تم پکار رہے ہو وہ تم سے تمہارے ا و نٹ کی گردن سے زیادہ قریب ہے'' (مجموعة الفتاویٰ: ٢٢ ٤٦٨ـ٤٦٩)۔
قرآنی آیات سے استدلال کرتے ہوے یہی بات دیگر بہت سے اہل علم نے بھی کہہ رکھی ہے،ملاحظہ ہو: الام للشافعی(١١٠١) نیز دیکھیں: سلسلة الأحادیث الصحیحة: ٤٥٤٧ تحت الرقم(٣١٦٠)،تمام المنة فی التعلیق علی فقہ السنة:ص١٧٧۔

تنبیہ:
واضح رہے کہ بعض آیات میں اللہ رب العٰلمین نے اپنے بندوں کی دعاؤں کا تذکرہ کرتے ہو ئے '' نداء '' کا لفظ استعمال کیا ہے، تویہ اس بات کی صریح دلیل نہیں ہے کہ ا ن کی دعائیں بآواز بلند تھیں ، کیونکہ '' نداء '' کا اطلاق گرچہ اونچی آوا ز پر ہوتا ہے لیکن قرآن میں خفیہ آواز کے لئے بھی یہ لفظ مستعمل ہے ، چنانچہ زکریا علیہ السلام کی دعا ء کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : { إِذْ نَادَى رَبَّهُ نِدَاءً خَفِيًّا}(مریم١٩:٣)یہاں پر غور کیجئے کہ زکریا علیہ السلام کی دعا ء خفیہ اور آہستہ تھی پھربھی اس پر '' نداء'' کا اطلاق ہوا ہے ، لہٰذا معلوم ہوا کہ خفیہ اور آہستہ کی گئی دعا ؤں پر بھی لفظ''نداء''کا اطلاق ہوتا ہے،نیز اگر یہ تسلیم کرلیں کہ دعاء کے لئے مستعمل '' نداء''ہرحال میں جہر پر دلالت کرتا ہے اور اس لفظ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی جن دعاؤں کا تذکرہ کیا ہے وہ بآواز بلند تھی ، تو اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ بعض خاص حالتوں میں بآواز بلند دعا ء کی جاسکتی ہے لیکن یہ حکم انہیں خاص حالات کے ساتھ ہی مختص ہوگا ، کیونکہ یہ واقعات محض فعل کی حکایات ہیں اللہ کا حکم وفرمان نہیں ، نیز یہ خاص حالات سے تعلق رکھتے ہیں ،اور عام حالات میں اور عام دعاؤں میں اس پر عمل نہیں ہوسکتا کیونکہ عام حالات میں اللہ کا حکم و فرمان یہ ہے کہ آہستہ دعاء کی جائے جیسا کہ اوپر تفصیل کی گئی۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
احادیث صحیحۃ:
(١):
عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ:: " كُنَّا نَتَكَلَّمُ فِي الصَّلَاةِ يُكَلِّمُ الرَّجُلُ صَاحِبَهُ وَهُوَ إِلَى جَنْبِهِ فِي الصَّلَاةِ حَتَّى نَزَلَتْ {وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ} [البقرة: 238] فَأُمِرْنَا بِالسُّكُوتِ، وَنُهِينَا عَنِ الْكَلَامِ " زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم (پہلے ) نماز میں کلام کیا کرتے تھے، ایک شخص نماز میں اپنے بغل والے شخص سے بات کرلیا کرتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی {وقوموا لله قانتين} [البقرة: 238]اس کے بعد ہمیں نماز میں خاموش رہنے کا حکم دے دیا گیا اور بات چیت سے روک دیا گیا '' (مسلم : کتاب المساجد: باب تحریم الکلام فی الصلوة...رقم٥٣٩)۔

اس حدیث میں ہے ''فأمرنا بالسكوت ''یعنی ہمیں نماز میں خاموش رہنے کا حکم دیا گیا، اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ نماز کی اصلی حالت سکوت اور خاموشی کی ہے ، لہٰذا نماز کا کوئی بھی رکن ہو کوئی بھی جزء ہو ہر جگہ خاموشی ہی اپنائیں گے اس اصول کے خلاف کہیں پر جہر کرنے کے لئے واضح دلیل ہونی چاہئے۔

مولانامحمد داؤدارشد صاحب اس حدیث سے اذکارنماز کو بالسر پڑھنے پر استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
'' یہ حدیث اس بات کی واضح اور حجت قاطع ہے کہ نماز کی اصل حالت سکوت ہے اور نماز میں جہر صرف اور صرف وہاں ہی کیا جائے گا جہاں نص سے جہر ثابت ہو '' ( تحفۂ حنفیہ بجواب تحفۂ اہلحدیث: ص ٩٦ )۔


معلوم ہوا کہ''ربنالک الحمد'' ہو یا کوئی اور دعا اس حدیث کی رو سے اسے آہستہ ہی پڑھیں گے،نیزبعض احادیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امام کے پیچھے بآواز بلند پڑھنے سے منع فرما تے ہوئے اسے منازعت قرار دیا ہے (مسلم :کتاب الصلوة:باب نھی الماموم عن جھرہ بالقرأة .. .، رقم ٣٩٨)۔

مولانا محمد داؤدارشد صاحب ایسی احادیث سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''جب مقتدی تکبیرات و تحمید (ربنالک الحمد)اور باقی اذکار کو جہر سے ادا کرے گا تومنازعت کی صورت پیدا ہو گی اور یہ بالاتفاق نا جائز ہے ''۔(تحفہ حنفیہ:ص٤٨٦)۔



(٢):
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ نُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: اللهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيرًا، وَسُبْحَانَ اللهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مِنَ الْقَائِلُ كَلِمَةَ كَذَا وَكَذَا؟»(وفی روایة للنسائی:مَنْ صَاحِبُ الْكَلِمَةِ؟) قَالَ رَجُلٌ مَنِ الْقَوْمِ: أَنَا، يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: «عَجِبْتُ لَهَا، فُتِحَتْ لَهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ»(وفی روایة للنسائی:لَقَدْ ابْتَدَرَهَا اثْنَا عَشَرَ مَلَكًا )'' قَالَ ابْنُ عُمَرَ: «فَمَا تَرَكْتُهُنَّ مُنْذُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ ذَلِكَ»

صحابی رسول عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ہم اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے (جب آپ نے نماز شروع فرما کر اللہ اکبر کہا) تو (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے) لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا: '' اللہ أکبر کبیرا، والحمدللہ کثیرا،وسبحان اللہ بکرة و أصیلا''، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (نماز سے فراغت کے بعد) فرمایا:''یہ کلمات کس نے کہے ؟'' (اور نسائی کی روایت میں ہے کہ دوران نماز جو کلمات سنائی دئے ہیں ان کا کہنے والاکون ہے؟) تو لوگوں میں سے اس شخص نے کہا: اللہ کے رسول میں نے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''مجھے تعجب ہوا کہ اس کے لئے آسمان کے دروازے کھول دئے گئے(اور نسائی کی روایت میں ہے بارہ فرشتے جلدی کررہے تھے کہ کون ان کلمات کو پہلے لے جائے )عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب سے میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تب سے ان کلمات کو پڑھنا کبھی نہیں چھوڑا'' (مسلم:کتاب المساجد:باب ما یقول بین تکبیرة الاحرام والقرأة،رقم (٦٠١) نسائی مع تحقیق الألبانی:کتاب الافتتاح: باب القول الذی یفتتح بہ الصلوٰة، رقم الحدیث(٨٨٥)وصححہ الألبانی)۔

اس حدیث میں جو دعا ء مذکور ہے وہ بالاتفاق دعاء ثناء ہے، چنانچہ امام نسائی نے اس حدیث پر یہ باب قائم کیا ہے : ''باب القول الذی یفتتح بہ الصلوٰة '' یعنی'' اس دعا کا بیان جس کے ذریعہ نماز شروع کی جائے''۔

اور مسلم میں موجود اس حدیث پر امام نووی نے یہ باب قائم کیا ہے:''باب ما یقول بین تکبیرة الاحرام والقرأة '' یعنی ''اس بات کا بیان کہ نمازی تکبیر تحریمہ کے بعد اور قرأت سے پہلے کیا پڑھے''۔

نیز نماز پر کتاب لکھنے والے جتنے بھی مصنفین نے اس حدیث کو بیان کیا ہے سبھوں نے اسے دعاء ثناء کے محل میں ذکر کیا ہے مثال کے طور پر دیکھئے : ''صفة صلاة النبی''للألبانی(عربی)ص٨٢، ( ترجمہ شیخ عبدالباری) ص٥٦۔''نمازنبوی'' ازسید شفیق الرحمان ص ١٤٦، خلاصہ یہ کہ مذکورہ دعاء بالاتفاق ثناء کی دعاء ہے۔

اب ذرا غور کیجئے کہ اس حدیث میں بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک ہی صحابی کے بارے میں کہا کہ ''من القائل کلمة کذاوکذا'' یعنی یہ کلمات کس نے کہے ؟ اور نسائی کی روایت میں ہے ''من صاحب الکلمة''یعنی دوران نماز جو کلمات سنائی دئے ہیں ان کا کہنے والاکون ہے؟ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعہ میں بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صرف ایک ہی صحابی کی آواز بلند ہوئی تھی، لیکن یہاں یہ چیز نماز کے ابتدائی حصے یعنی دعاء ثناء کے وقت پیش آئی، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اس واقعہ کے وقت ''دعاء ثناء'' کے علاوہ کسی اور دعاء مثلاً دعاء قومہ وغیرہ میں کسی ایک بھی صحابی کی آواز بلند نہیں ہوئی تھی، لہٰذا یہ حدیث اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تمام صحابہ دعاء قومہ کو آہستہ ہی پڑھتے تھے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
اجماع امت:

''ربنالک الحمد'' کو بالجہر پڑھنے کارواج ماضی قریب میں ہوا ہے، اور وہ بھی صرف ایک جماعت اور ان میں بھی صرف چند ہی لوگوں کے بیچ، اس کے بر خلاف حنفیہ، شافعیہ، مالکیہ ، حنابلہ، اور دیگر تمام فرقوں کے یہاں اس مسئلہ کا نام و نشان تک نہیں ہے، سلف صالحین، صحابہ و تابعین کے ادوارمیں اس مسئلہ کا کوئی سراغ نہیں ملتا، عہد صحابہ سے لیکر عصر حاضر تک حدیث و فقہ اور تفسیر قرآن کا جتنا مطبوعہ اور غیر مطبوعہ ذخیرہ موجود ہے کسی میں بھی اس مسئلہ کی جانب ادنیٰ اشارہ تک نہیں، قرآن کے بعد سب سے معتبر کتاب ''صحیح بخاری'' ہے، اس میں ہمیں یہ ابواب تو نظر آتے ہیں: ''باب جھرالامام بالتا مین '' ،''باب جھر الماموم بالتامین'' مگر ''باب الجھر باللھم ربنا لک الحمد'' یعنی دعاء قومہ کو بلند آواز سے پڑھنا، اس کے اثبات میں کوئی باب نظر نہیں آتا، حالانکہ دعاء قومہ میں جہر کے قائلین جن احادیث سے استد لال کرتے ہیں وہ صحیح بخاری میں موجود ہیں۔
حیرت ہے کہ امام بخاری جن کے بارے میں ''امام الدنیا فی فقہ الحدیث'' اور ''فقہ البخاری فی تراجمہ'' کہا گیا ہے، ان کے ذہن کی رسائی بھی اس مسئلہ تک نہ ہو سکی جسے آج پیدا کیا جا رہا ہے ،امام بخاری پر کیا موقوف دنیا کے کسی محدث نے بھی دعاء قومہ میں جہر کا فتویٰ نہیں دیا ہے، عصر حاضر کے سب سے متأخر محدث علامہ نا صر الدین الالبانی رحمہ اللہ ہیں انہوں نے صفة صلوٰة پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے ، اس کتاب میں یہ مسئلہ تو مل جائے گا کہ ''آمین بآواز بلند کہنا چاہئے'' مگر''ربنالک الحمد'' بلند آواز سے پڑھنا، اس کا بیان کیا نام و نشان تک نہ ملے گا ،بلکہ ''اصل صفة الصلوٰة ''کی بعض کی عبارات سے لگتاہے کہ علامہ البانی کے نزدیک ربنالک الحمد کاآہستہ پڑھنامتفق علیہ مسئلہ ہے، دیکھئے: اصل صفة الصلوٰة:ج٢ص٦٧٨۔
قرون مشہود لہا بالخیر اور اس کے بعد کے ادوار میں کسی کا اس مسئلہ کو بیان نہ کرنا ، اور نہ ہی اس پر کسی کے عمل کا منقول ہونا اس بات پر صاف دلالت کرتا ہے کہ ان ادوار میں عملی یا قولی کسی بھی شکل میں اس مسئلہ کا وجود نہیں تھا، بلکہ سب کا اس بات پر اتفاق و اجماع تھا کہ''ربنالک الحمد'' آہستہ ہی پڑھیں گے،غور کیجئے کہ سلف آمین بالجہر پر عمل کرتے تھے اور یہ ہم تک منقول ہو گیا ، پس اگر وہ''ربنالک الحمد'' بھی بالجہر پڑھتے تو یہ بھی ہم تک نقل ہو جاتا ، لیکن اس سلسلے میں سلف سے کچھ منقول نہ ہونا اس بات پر صاف دلالت کرتا ہے کہ سلف صالحین متفقہ اور اجماعی طور پر اس دعاء کو آہستہ ہی پڑھتے تھے۔

مولانامحمد داؤد ارشدصاحب لکھتے ہیں:
'' مقتدی کا تکبیرات وغیرہ کا بلند کہنا ثا بت نہیں، پوری امت محمدیہ کا نسل در نسل تواتر سے مقتدی کا آہستہ کہنا ہی عمل ہے '' (تحفۂ حنفیہ:ص٤٨٥)۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
فائدۃ:
ربنا لک الحمد آہستہ پڑھنے کی فضیلت اوراس کے اسباب:

دعاؤں کو آہستہ پڑھنے میں بڑی فضیلت ہے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس بات کوثابت کر کے اس کے دس اسباب بھی گنائے ہیں جنہیں ذیل میں اختصار کے ساتھ پیش کیاجارہا ہے:
(١):آہستہ دعا کرنا قوت ایمان کی دلیل ہے ، کیونکہ دریں صورت دعاء کرنے والے کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آہستہ دعا کوبھی سنتاہے۔
(٢):آہستہ دعا کرنے میں حد درجہ ادب و تعظیم ہے، کیونکہ جب اللہ تعالیٰ آہستہ دعا کو بھی سنتا ہے تو بلا و جہ اللہ کے سامنے شور مچانابے ادبی ہے ۔
(٣): آہستہ دعا پڑھنے میں خشوع و خضوع زیادہ ہوتا ہے، گویا کہ دعاء کرنے والے پر اس قدررقت طاری ہے کہ اس کی زبان ٹوٹ چکی ہے، اور اس کی آواز بند ہوگئی ہے۔
(٤): آہستہ دعا پڑھنے میں اخلاص و للہیت زیادہ ہوتی ہے کیونکہ اس میں ریاء و نمود کا امکان نہیں ۔
(٥):آہستہ دعا کرنے سے دعاء کرنے والے کا دل پورے طور سے اللہ کی جانب لگا ہوتا ہے اور بآواز بلند دعا ء پڑھنے سے دل منتشر ہو جاتا ہے ۔
(٦): آہستہ دعا پڑھنا اس بات کی دلیل ہے کہ دعا کرنے والا خود کو اللہ تعالیٰ سے بہت قریب تصور کرتا ہے ، اور بآواز بلند دعاء پڑھنے میں یہ بات نہیں ہوتی۔
(٧): آہستہ دعا کرنے سے دعاء کرنے والا اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتا ،جبکہ بآواز بلند دعاء پڑھنے سے دعاء کرنے والا اکتا جاتا ہے اور دعاء کی روحا نیت ختم ہوجاتی ہے۔
(٨): دعا ء بآواز بلندپڑھنے سے دعاء کرنے والا تشویش کا شکار ہو جاتا ہے،اس سے دعاء کا اثرکم ہو جاتا ہے،لہٰذاآہستہ دعا ء پڑھنا چاہئے۔
(٩): دعاء یہ ایک عظیم نعمت ہے اور ہر نعمت کے حاسدین ہوا کرتے ہیں،اور حاسدین سے بچنے کا راستہ یہ ہے کہ اس نعمت کو پوشیدہ رکھا جائے یعنی اسے آہستہ پڑھا جائے ۔
(١٠): دعاء میں عجز و انکساری و گریہ و زاری کا حکم دیا گیا ہے یہ چیز آہستہ دعا کرنے سے ہی حاصل ہو سکتی ہے(مجموعة الفتاویٰ لابن تیمیہ :ج ٨ ص١٣ ، ١٤، ١٥ )۔
واضح رہے کہ یہ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے کلام کا ترجمہ نہیں بلکہ محض خلاصہ ہے ،تفصیل کے لئے اصل کتاب دیکھیں جس میں علامہ موصوف کا کلام تین صفحات پر پھیلا ہوا ہے ۔


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
دوسراحصہ​

’’ربنا لک الحمد‘‘ بآواز بلند پڑھنے کے مزعومہ دلائل


جہر کی پہلی دلیل اور اس کا جائزہ
'' ا بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :'' رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تھے تو اپنے دونوں ہاتھ مبارک اپنے کندھوں تک اٹھاتے تھے اور اس طرح جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے سر مبارک اٹھاتے توبھی اسی طرح ہاتھ مبارک اٹھا تے اور '' سمع اللہ لمن حمدہ ربنا لک الحمد'' کہتے، اورسجدوںمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم رفع الیدین نہیںکیا کرتے تھے ،(صحیح بخاری)''(''نشاط العبدبجھر ربنالک الحمد'' ص٢٦ـ٢٧،از علامہ بدیع الدین راشدی رحمہ اللہ )۔

تقریر استدلال:
اس حدیث اوراس جیسی دیگراحادیث سے دوطرح استدلال کیاجاتاہے کہ ربنالک الحمدبآواز بلند پڑھنا چاہئے :

(الف) : اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہر سے نہیں پڑھا تھا تو صحابی نے بیان کیسے کیا ،اور صحابی کو معلوم کیسے ہوا ؟پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہر ہی سے پڑھا تھا کیونکہ صحابی کو معلوم ہونے کی کوئی اور وجہ نہیں ہے،( نشاط العبد: ص٢٦ ودیگر صفحات)۔

(ب) : ابن عمر رضی اللہ عنہ دونوں جملوں( سمع اللہ لمن حمدہ ربنا لک الحمد) کواکٹھا بتاتے ہیں اور یہ ہرگز درست نہیں کہ پہلے جملے کو جہر پر اور دوسرے کو سر پر محمول کیا جائے، اس تفریق پر کوئی دلیل نہیں ہے،( نشاط العبد:ص٢٧)۔


جواب: اب سلسلہ وار ان شبہات کے جوابات ملاحظہ فرمائے:

(الف) :ـ
اگرصحابی کو معلوم ہونے اور اس کے بیان کرنے سے یہ لازم آتاہے کہ وہ دعا ء بآواز بلند پڑھی گئی تھی اور اسے بآواز بلند ہی پڑھا جائے گاتو ایسی صورت میں پوری نماز تکبیر تحریمہ سے لیکر سلام تک بآواز بلند پڑھنا پڑے گا ، کیونکہ صحابہ نے صرف قومہ ہی کی دعا ء بیان نہیں کی ہے بلکہ رکوع ، سجود ،جلسہ،تشہد اور درود وغیرہ کی دعاؤں کو بھی بیان کیا ہے۔ملاحظہ ہو مسلم کی درج ذیل حدیث :

عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ كَانَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ، (وفی رواےةاذا قام الی الصلوٰةالمکتوبة)قَالَ: «وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا، وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلَاتِي، وَنُسُكِي، وَمَحْيَايَ، وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، لَا شَرِيكَ لَهُ، وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ، اللهُمَّ أَنْتَ الْمَلِكُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ أَنْتَ رَبِّي، وَأَنَا عَبْدُكَ، ظَلَمْتُ نَفْسِي، وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي، فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي جَمِيعًا، إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، وَاهْدِنِي لِأَحْسَنِ الْأَخْلَاقِ لَا يَهْدِي لِأَحْسَنِهَا إِلَّا أَنْتَ، وَاصْرِفْ عَنِّي سَيِّئَهَا لَا يَصْرِفُ عَنِّي سَيِّئَهَا إِلَّا أَنْتَ، لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِي يَدَيْكَ، وَالشَّرُّ لَيْسَ إِلَيْكَ، أَنَا بِكَ وَإِلَيْكَ، تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ» ، وَإِذَا رَكَعَ، قَالَ: «اللهُمَّ لَكَ رَكَعْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَلَكَ أَسْلَمْتُ، خَشَعَ لَكَ سَمْعِي، وَبَصَرِي، وَمُخِّي، وَعَظْمِي، وَعَصَبِي» ، وَإِذَا رَفَعَ، قَالَ: «اللهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَاوَاتِ، وَمِلْءَ الْأَرْضِ، وَمِلْءَ مَا بَيْنَهُمَا، وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ» ، وَإِذَا سَجَدَ، قَالَ: «اللهُمَّ لَكَ سَجَدْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَلَكَ أَسْلَمْتُ، سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ، وَصَوَّرَهُ، وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ، تَبَارَكَ اللهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ» ، ثُمَّ يَكُونُ مِنْ آخِرِ مَا يَقُولُ بَيْنَ التَّشَهُّدِ وَالتَّسْلِيمِ: «اللهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ، وَمَا أَسْرَفْتُ، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ» .
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لئے کھڑےہوتے تو کہتے : (اور ایک روایت میں ہے کہ جب فرض نمازکے لئے کھڑے ہوتے تو کہتے) ''وجھت و جھی للذی فطرالسماوات والأرض...اور جب رکوع کرتے توکہتے: اللہم!لک رکعت، وبک آمنت ولک أسلمت،خشع لک سمعیوبصری ومخی وعظمی وعصبی'' اور جب رکوع سے سر اٹھاتے توکہتے : ''اللہم ربّنا!لک الحمد،ملٔ السماوات والأرض، وما بینھماوملٔ ما شئت من شیٔ بعد''، اور جب سجدہ کرتے تو کہتے : ''اللہم !لک سجدت وبک آمنت ولک أسلمت،سجدوجھی للذی خلقہ وصورہ وشق سمعہ وبصرہ فتبارک اللہأحسن الخالقین'' پھر آپ اخیر میں تشہد اور سلام کے درمیان یہ کہتے: ''اللہم! اغفرلی...الی آخر الحدیث''( مسلم:کتاب صلٰوةالمسافرین وقصرھا:باب الدعاء فی صلٰوة اللیل و قیا مہ،،رقم الحدیث(٧٧١)،سنن الترمذی:کتاب الدعوات: رقم الحدیث (٣٤٢٣)قال الترمذی والألبانی: حسن صحیح)۔

غور کیجئے جس طرح اوپر راشدی صاحب کی مستدل حدیث میں ہے :'' قال: سمع اللہ لمن حمدہ ربنالک الحمد''ٹھیک اسی طرح اس حدیث میں بھی ہے: قال: ''اللہم ربّنا! لک الحمد'' لیکن اس حدیث میں یہ اسلوب صرف دعاء قومہ ہی کے لئے نہیں بلکہ یہاں ثناء ، رکوع ، سجود ، اور تشہد کی دعاء کو بھی اسی اسلوب میںبیان کیا گیا ہے، لہٰذا اگر ایک جگہ اس اسلوب سے بیان کردہ دعاء میں جہر کی دلیل ہے تو اسی اسلوب سے بیان کردہ دیگر مقامات میں بھی جہر کی دلیل ہونی چاہئے، پھر دریں صورت تو نماز کی ساری ہی دعائیں بالجہر پڑھنی پڑیں گی، اب فریق دوم بتلائیں کہ وہ اس حدیث کے ہوتے ہوئے ثناء ، رکوع ، سجود ، اور تشہد وغیرہ کی دعاؤں کو بلندآواز سے کیوں نہیں پڑھتے؟ فریق دوم جو بھی جواب اس حدیث اور اس جیسی دیگر احادیث کا دیں گے وہی جواب ہمارا اس حدیث کا بھی ہوگا۔

اس جیسی دیگر احادیث کے لئے دیکھیں :
بخاری: ٧٩٤ ۔
مسلم: ـ٤٨٤ ، ٤٨٧ ، ٤٨٩ ، (٧٠٩س) ، (٧٧٢) ۔
نسائی (بترقیم أبی غدہ): ـ(١٠٠٨) ، (١٠٤٦) ، ١٠٤٧ ، (١٠٤٩) ، ١٠٥٠ ، ١٠٥١ ، ١٠٥٢ ، (١٠٦٩س) ، ١١٠٠ ، ١١٢١ ، ١١٢٢ ، ١١٢٣ ، ١١٢٦ ، ١١٢٧ ، ١١٣٠س ، (١١٣٢) ، (١١٤٥) ۔
ترمذی : ـ(٢٦٢) ، ٢٨٤ ۔
ابوداؤد : ـ(٨٧١) ، ٨٧٢ ، ٨٧٣ ، ٨٧٤ ، ٨٨٧ ، ٨٧٨ ۔
ابن ماجہ:ـ ٨٨٨س ، ٨٨٩ ، ٨٩٧ ، ٨٩٨ وغیرہ ذالک کثیر..

جو نمبرات قوسین میں ہیں ان میں صراحت ہے کہ راوی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حالت نماز میں تھے ، اور جن نمبرات کے ساتھ'' س'' ہے ان میں راوی کے سماع کی صراحت ہے یعنی راوی نے کہا ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں یہ دعاء پڑھتے ہوئے سنا ۔

اب کیا ان دعاؤں کو بھی بآواز بلند پڑھاجائے گا ؟ پھر تو پوری نماز ہی جہراً ہو جائے گی ، اور اگرنہیں تو ان حدیثوں کا جو مطلب بھی بیان کیاجائے وہی مطلب ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بھی سمجھ لیں۔


(ب) :ـ
یہ بات کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ دونوں جملوں ( سمع اللہ لمن حمدہ ربنالک الحمد) کو اکٹھا بتاتے تھے ، پھر اس سے یہ استدلال کی دونوں کوجہرپڑھاجائے گا ، اس سلسلے میں عرض ہے کہ جس طرح یہاں تسمیع (سمع اللہ لمن حمدہ) اورتحمید (ربنالک الحمد) اکٹھے مذکور ہیں ، ٹھیک اسی طرح بعض روایات میں تکبیر تحریمہ اور دعاء ثناء بھی اکٹھے ہی مذکور ہیں ، ملاحظہ ہو :

كَانَ إِذَا قَامَ لِلصَّلَاةِ، قَالَ: " اللَّهُ أَكْبَرُ، وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ،
...
(مسند البزار:ج٢ ص١٦٨ رقم ٥٣٦من حدیث علی واسنادہ صحیح علی شرط مسلم،آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعاء فرض اورنفل ساری نمازوں میں پڑھتے تھے دیکھئے:صفة الصلوةللألبانی:ص٨١عربی)۔

اب بتلائے کہ اس روایت سے متعلق مذکورہ طرز استدلال کا کیا تقاضا ہے ؟ کیا دعاء ثنا ء بھی بآواز بلند پڑھیں گے ؟ آخر یہاں بھی تو تکبیر تحریمہ اور دعاء ثنا ء اکٹھے ذکر ہوئے ہیں ! اور کوئی کہہ سکتا ہے کہ پہلے کو جہر اور دوسرے کو سر پر محمول کرنا درست نہیں ! فماکان جوابکم فھوجوابنا۔
اور قابل غوربات یہ ہے کہ علامہ راشدی رحمہ اللہ نے اپنی تائید میں درج ذیل اثر نقل فرما یا ہے :

كَانَ مُحَمَّدٌ، يَقُولُ: «إِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، قَالَ مَنْ خَلْفَهُ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ»
(مصنف ابن أبي شيبة 1/ 227رقم٢٦٠٠،نشاط:ص٤٩)۔
ہم کہتے ہیں ذرااس اثر میں غور کریں، اس میں بھی ''سمع اللہ لمن حمدہ اللہم ربنا لک الحمد '' اکٹھے مذکور ہے ،لیکن امام کے لئے نہیں بلکہ مقتدی کے لئے ، اورمحترم راشدی رحمہ اللہ کے نزدیک مقتدیوں کو''ربنالک الحمد ''بآوازبلند پڑھناچاہئے ،اب بتلائیں کہ کیا مقتدی حضرات سمع اللہ لمن حمدہ بھی بآواز بلند پڑھیں گے ؟ کیونکہ دونوں اکٹھے مذکور ہیں ! اور آپ کے بقول ایک کو جہر دوسرے کو سر پر محمول نہیں کر سکتے ، چنانچہ شیخ راشدی رحمہ اللہ بھی ایسانہیں کرسکے کہ اس اثر میں سمع اللہ لمن حمدہ کو سر اور اللہم ربنا لک الحمد کو جہر پر محمول کریں ، بلکہ موصوف نے اپنے اصول سے مجبور ہو کر دونوں کو جہر پر محمول کیا ہے، لیکن سمع اللہ لمن حمدہ کو جہر پرمحمول کرنے کے بعد یہ کہتے ہوئے اسے ردکردیتے ہیں :

'' سمع اللہ لمن حمدہ میں ان (محمد بن سیرین ) کا قول حجت نہیں ،کیونکہ تابعی کا قو ل کسی کے یہاں حجت نہیں ، ہاں ان کا قول تائیداً پیش کیا جا سکتا ہے ، سو جملہ دوم (اللہم ربنا لک الحمد)کے لئے تو احادیث و آثار ثابت ہیں مگر جملۂ اولی (سمع اللہ لمن حمدہ ) کے لئے نہیں ہیں'' ( نشاط العبد:ص٤٩)۔

گویا کہ موصوف کے نزدیک محمد بن سیرین مذکورہ اثر میں مقتدیوں کو سمع اللہ لمن حمدہ اور اللہم ربنا لک الحمد دونوں جہر سے پڑھنے کی تعلیم دے رہے ہیں ، قارئین کرام ! ملاحظہ فرمائیے کہ علامہ راشدی رحمہ اللہ کس قدرتکلف سے کام لے رہے ہیں اور محمد بن سیرین کی طرف کیسی عجیب بات منسوب کررہے ہیں ، غورکریں کہ آخر جب پوری امت سمع اللہ لمن حمدہ سراً پڑھنے پر متفق تھی اورہے ،تو انہوں نے اسے جہراً پڑھنے کا شوشہ کہاں سے چھوڑ دیا ؟ ہم تو کہتے ہیں کہ محمدبن سیرین اس قول سے بری ہیں ، دنیا کے کسی بھی محدث نے ابن سیرین کے اس قول کا یہ مفہوم ہرگز مراد نہیں لیا ہے، دراصل مذکورہ تمام روایات میں راوی کامقصود دعاؤں کاتذکرہ ہے نہ کہ جہر یا سر کے مسائل بیان کرنا، لہٰذاکسی دعاء کوعلیحدہ ذکرکیاجائے دیگردعاؤں کے ساتھ ذکر کیاجائے اس سے جہروسرکے مسائل پرکوئی فرق نہیں پڑتا۔

یہاں تک ہم نے پیش کردہ حدیث پر قائم کئے گئے دونوں استدلالوں کا الگ الگ جواب دے دیا ہے ،اب ذیل میں ہم کچھ اور جوابات تحریر کرتے ہیں ،جن کاتعلق بیک وقت مذکورہ دونوں استدلالات سے ہے :

أولاً:
پیش کردہ حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو عمل منقول ہوا ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دائمی عمل ہے چنانچہ اسی حدیث سے أہل حدیث رکوع کے بعد رفع الیدین ثابت کرتے ہیں اور لفظ ''کان ''سے ہمیشگی پر استدلال کرتے ہیں ، اوراحناف اس حدیث کو منسوخ مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ نے یہ عمل شروع شروع میں کیا تھا، بہر حال اس بات پر تو سبھی کا اتفاق ہے کہ ا س حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جن نمازوں کی کیفیت بیانی ہوئی ہے ، ان میںآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتدائی نمازیں قطعی طور پر شامل ہیں گویا کہ اس حدیث سے جہر کاجو مسئلہ ثابت کیا گیا ہے ا س پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم شروع ہی سے عمل پیرا تھے اور اگر یہ بات ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ربنا جہراً پڑھنے کا حکم شروع ہی سے تھا ۔

پھر یہ دیکھ کر عقل حیران رہ جاتی ہے کہ صحابۂ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طریقے کو جانتے ہوئے اس پر عمل کیوں نہ کیا ؟ حالانکہ صحابۂ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتو ں پر عمل کے سب سے زیادہ حریص تھے ! نیز یہ حکم بھی موجود تھا کہ''صلواکمارأیتمونی أصلی'' (بخاری٧٢٤٦)بلکہ علامہ راشدی رحمہ اللہ کے نزدیک صحابہ کے بارے میں یہ خیال کرنا کہ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو جان لینے کے باوجود اس پرعمل نہ کیا ، صحابہ کے بارے میں سؤ ظن ہے ،( نشاط العبد:ص٣٠)بلکہ ایسا گمان ان میں قدح کا موجب ہے، ( نشاط :ص٣٦)۔ اب اس بات کی دلیل ملاحظہ فرمائیے کہ صحابۂ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب اس اسوہ پر عمل نہیں کیا :
''رفاعہ بن رافع زرقی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع سے سر اٹھا کر ''سمع اللہ لمن حمدہ''کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک شخص نے کہا: ''ربنا لک الحمدحمدًاکثیرًاطیبًامبارکًا فیہ'' آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے فراغت کے بعد فرمایا :'' (نماز میں) کون بول رہا تھا؟'' تو اس شخص نے کہا : میں ، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : '' میں نے تیس سے زائد فرشتوں کو دیکھا سبھی جلدی کر رہے تھے کہ کون ان کلمات کو پہلے لکھے '' (بخاری:کتاب الاذان:رقم الباب (١٢٦) ،رقم الحدیث(٧٩٩))۔

اس حدیث کے راوی رفاعہ بن رافع الزرقی رضی اللہ عنہ یہ أنصاری صحابی ہیں ان کے خاندان میں سب سے پہلے ان کے والد نے اسلام قبول کیا ، اپنے والد کے بعد انھوں نے اپنی والدہ کے ساتھ ١٢ نبوی میں اسلام قبول کیا ۔(تھذیب التھذیب:ج٣ص٢٤٣رقم ٥٣٠، نیز ملاحظہ ہو : صحابۂ کرام انسائیکلوپیڈیا : ص ٤١٢ ) چونکہ یہ انصاری صحابی ہیں اور رسول اکرم کے ساتھ اپنی باجماعت نماز کا واقعہ بیان کررہے ہیں لہٰذا ظاہر ہے کہ یہ واقعہ مدینہ میں مسجد نبوی کا ہے ،اور نماز کی فرضیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ آنے سے قبل مکہ ہی میں واقعہ معراج میں ہوئی ،جس کا مطلب یہ ہوا کہ فرضیت نماز کے بعد سے لیکر اس واقعہ کے پیش آنے تک تمام صحابۂ کرام ربنالک الحمد سراً ہی پڑھتے تھے ، یہ بات ذہن نشین رہے کہ رفاعہ رضی اللہ عنہ نے ایک خاص واقعہ نقل کیا ہے جو پہلی بار پیش آیا تھا اور رفاعہ خود اس میں موجود تھے جب کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دائمی عمل نقل کیا ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی میں ''ربنالک الحمد'' ایک ہی طرح پڑھاجانامنقول ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قولاًیافعلاً کبھی بھی اس میں دوطرح کی تعلیم نہیں دی ہے لہٰذاابن عمر رضی اللہ عنہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاجوعمل بیان کیاہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاشروع سے لیکر اخیر تک دائمی عمل ہے ۔

اب حدیث رفاعہ میں غورکیجئے ،علامہ راشدی رحمہ اللہ اور ان کے مؤیدین فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بارے میں بالکل صریح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک شخص نے بآواز بلند ربنالک الحمد پڑھا ،(نشاط:العبدص٢٨)۔

ہم کہتے ہیں کہ ساتھ ہی ساتھ یہ حدیث اس بارے میں بھی بالکل صریح ہے کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک صحابی کے علاوہ کسی اور صحابی نے یہ دعاء جہر سے نہیں پڑھی ، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بعدصر ف ایک ہی شخص کے بارے کہا کہ : من المتکلم ؟(نماز میں کون بول رہا تھا ؟ ) معلوم ہوا کہ یہ صرف ایک ہی شخص کا عمل تھا ، چنانچہ علامہ راشدی رحمہ اللہ نے بھی اس بات کا اعترا ف کیا ہے کہ یہ صرف ایک ہی صحابی کا عمل تھا (نشاط:ص٢٩)،اب سوال یہ ہے کہ اگر پیش کردہ مذکورہ حدیث میں ربنالک الحمدجہر سے پڑھنے کی دلیل تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم شروع ہی سے اس پرعمل پیرا تھے تو اس واقعہ میں ایک صحابی کو چھوڑ کر بقیہ تمام صحابہ نے ربنالک الحمدسراً کیوں پڑھا ؟ اور اس واقعہ میں بھی جس صحابی نے جہر سے پڑھا تھا انھوں نے صرف پہلی رکعت میں جہر کیا تھا بقیہ رکعتوں میں وہ اور ان کے ساتھ تمام صحابہ نے سراً ہی پڑھا ، سوال یہ ہے کہ اس واقعہ سے قبل اور اس واقعہ میں صحابۂ کرام نے ربنالک الحمد سراً ہی پڑھا ، آخر کیوں ؟ جبکہ ان کے سامنے آپ کا طریقہ و عمل موجود تھا؟ اس سوال کا دو ہی جواب ہوسکتا ہے،یا تو یہ کہا جائے کہ صحابۂ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو بہتر نہیں سمجھا اور آپ کے فرمان صلوا کمارأیتمونی أصلیکے ہوتے ہوئے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی، یا یہ کہا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ربنالک الحمد سراً ہی پڑھتے تھے لہٰذا صحابۂ کرام کا عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے بالکل موافق تھا ۔

پہلی بات کہناصحابہ کرام کی شان میں واضح گستاخی ہے ،اور دوسری بات کہنے سے صحابہ کرام کا عمل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے مطابق اور فرمان رسول صلواکما رأیتمونی أصلی کے عین موافق قرار پاتا ہے ، لیکن اس صورت میں ابن عمر کی پیش کردہ مذکورہ حدیث میں اس بات کی دلیل نہیں رہ جاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہراًربنالک الحمد پڑھتے تھے، اب قارئین خود فیصلہ کریں کہ وہ کس بات کو اپنائیں گے ،پہلی یا دوسری ؟ رہی یہ بات کہ اس واقعہ کے بعد صحابہ کرام کاعمل کیاتھاتواس کی وضاحت آگے آرہی ہے ، یہاں صرف یہ بتلانامقصود ہے کہ اوپرپیش کردہ حدیث میںجہرکی دلیل نہیں ہے ۔

ثانیاً:
یہ حدیث صرف فرض نمازوں کے لئے اور امام و مقتدی ہی کے لئے نہیں ہے،بلکہ یہ حدیث عام ہے جس میں فرض نمازیں،نفل نمازیں، سب شامل ہیں اسی طرح یہ امام و مقتدی اور منفرد (اکیلے نماز پڑھنے والے)سب کے لئے ہے ،لہٰذا اگر اس حدیث میں امام و مقتدی کے لئے دعاء قومہ بالجہر کا ثبوت ہے ، تو اس میں منفرد (اکیلے نماز پڑھنے والے) کے لئے بھی دعاء قومہ بالجہر کا ثبوت ماننا لازمی ہے، اسی طرح سنن ونوافل میں بھی اس پر عمل ہونا چاہئے کیونکہ مذکورہ حدیث ان نمازوں کو بھی شامل ہے۔

لیکن افسوس ہے کہ اس سے صرف باجماعت نماز وں میں دعاء قومہ بالجہرپراستدلال کیا جاتا ہے ، حالانکہ اس حدیث کی رو سے تنہا فرض پڑھنے والے نیز سنن و نوافل ادا کرنے والے کو بھی دعاء قومہ بآواز بلند پڑھنا چاہئے۔

اور لطف تو یہ ہے کہ دعاء قومہ بالجہر کے قائلین کی مستدل احادیث میں سے ایک حدیث میں بالکل صراحت ہے کہ یہ حالت تمام نمازوں میں ہوتی تھی ،خواہ وہ فرض ہوں یا نہ ہوں ، رمضان کا مہینہ ہو یا کوئی اور ، اس کے باوجود بھی قائلین جہر اس سے صرف با جماعت نماز میں ہی استدلال کرتے ہیں ، چنانچہ محمد امیر علی صاحب نے اپنے موقف کی دوسری دلیل دیتے ہوئے اسی طرح کی درج ذیل حدیث پیش کی ہے :

'' ابو سلمہ بن عبدالرحمان فرماتے ہیں : '' ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ تمام نمازوں میں تکبیر کہا کرتے تھے خواہ وہ فرض ہوں یا نہ ہوں رمضان کا مہینہ ہو یا کوئی اور مہینہ ہو،چنانچہ جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے، رکوع میں جاتے تو تکبیر کہتے ، پھر ''سمع اللہ لمن حمدہ'' کہتے، اس کے بعد''ربنا لک الحمد''کہتے ''...الخ(بخاری:کتاب الصلوٰة، باب یھوی بالتکبیرحین یسجد)(جریدہ ترجمان : جلد ٢٨ شمارہ ٦ربیع الاول ١٤٢٩ھ ، مارچ،٢٠٠٨ء ص ١٠ ۔ نیز ملاحظہ ہو رسالہ : ''نماز کی متروکہ سنتوں کا احیاء اور بعض اہم مسائل'' ص ١٠)۔

خط کشیدہ الفاظ پر غور کیجئے یہاں یہ صراحت ہے کہ یہ حالت تمام نمازوں کی تھی، اس کے باوجود بھی اس سے صرف مخصوص نمازوں ہی میں استدلال کیا جارہا ہے ، ہم کہتے ہیں کہ اگر ان احادیث میں منفرد اور سنن ونوافل ادا کرنے والے کے لئے دعاء قومہ بآواز بلند پڑھنے کی دلیل نہیں ہے تو ان احادیث کی رو سے با جماعت نماز ادا کرنے والا بھی بلند آواز سے دعاء قومہ نہیں پڑھ سکتا۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
جہر کی دوسری دلیل اوراس کا جائزہ:


''عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِذَا قَالَ الإِمَامُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الحَمْدُ، فَإِنَّهُ مَنْ وَافَقَ قَوْلُهُ قَوْلَ المَلاَئِكَةِ، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ "

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ:'' جب امام سمع اللہ لمن حمدہکہے تو تم اللہم ربّناولک الحمدکہو ، کیونکہ جس کا قول فرشتوں کے کہنے سے موافق ہو گیا اس کے گذشتہ گناہ معاف کر دئے جائیں گے ،( بخاری )''،(''نشاط العبد بجہر ربنالک الحمد''ص١٠)۔

علامہ راشدی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں :
'' حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ : والقول اذاوقع بہ الخطاب مطلقاً حمل علی الجھر و متی أرید بہ الاسرارأوحدیث النفس قید بذالک.جب مطلقاً (بلا قید سر ) قول سے خطاب وارد ہو ، جہر ہی پر محمول ہوگا ، اور جب آہستہ یا دل میں پڑھنا مراد ہوتا ہے تو ایسی قیدلگائی جاتی ہے '' (''نشاط العبدبجھرربنالک الحمد''ص ١٠،١١)۔

جواب:
اولًا:
مذکورہ حدیث کا جو اصل مقصود ہے اسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے ، دراصل اس حدیث کا اصل مقصود و مدعا یہ ہے کہ مقتدی کی تحمید(ربّنا لک الحمد) امام کی تسمیع (سمع اللہ لمن حمدہ)کے بعد ہونی چاہئے ، گویا کہ اس حدیث میں ربّنا لک الحمدکہنے کا موقع و محل بتلانا مقصود ہے ۔
اس حدیث کا یہ مقصد مراد لینا اس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ اس میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتدی کے لئے سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کا حکم نہیں دیا ہے اور نہ ہی امام کے لئے ربّنا لک الحمدپڑھنے کی تعلیم دی ہے ،لہٰذا اگریہ مان لیا جائے کہ اس کے ذریعہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم دعاء کے الفاظ اور اس کی کیفیت سکھلا رہے ہیں تو یہ لازم آئے گا کہ مقتدی کے لئے سمع اللہ لمن حمدہکہنا اسی طرح اما م کے لئے ربّنا لک الحمدکہنا مشروع نہیں ہے،چنانچہ بعض حضرات نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے یہی بات کہی ہے لیکن محدثین نے ان کا جواب دیتے ہوئے یہی کہا کہ اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم امام یا مقتدی کے لئے دعاء نہیںسکھلا رہے ہیں بلکہ دعاء پڑھنے کا موقع و محل بتلا رہے ہیں ، (مرعاةالمفاتیح ١٨٨٣، فتح الباری:٣٦١٢شرح الحدیث ٧٩٧ یہی بات علامہ البانی ر حمہ اللہ نے بھی کہی ہے ، دیکھیں: صفة صلاة النبی (عربی)ص ١١٨)۔

اور اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں آگے کہا : فانہ من وافق قولہ قول الملا ئکة غفر لہ ما تقدم من ذنبہ (کیونکہ جس کا یہ کہنا فرشتوں کے کہنے کے ساتھ ہو گا اس کے پچھلے تمام گناہ بخش دئے جائیں گے ) غور کیجئے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے...اذا قال . ..فقولوا...کے ذریعہ جو کچھ بھی حکم دیااس کا فائدہ یہ بتایا کہ فرشتوں کی موافقت حاصل ہو جائے ، اوریہ موافقت زمان ووقت ہی میں میں مطلوب ہے جیساکہ محدثین نے صراحت کی ہے (مرعاةالمفاتیح:١٩٠٣، تحفة الاحوذی بشرح الترمذی :ج ٢ص ١١٥) اسی موافقت کے حصول کا طریقہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ حدیث میں بتلایاہے ،لہٰذا اس حدیث کا وہ مفہوم نہیں ہے جسے فریق دوم سمجھ رہے ہیں بلکہ اس حدیث کا اصل مقصود و مدعاء یہ ہے کہ فرشتے '' اللہم ربّناولک الحمد''امام کی تسمیع کے بعد پڑھتے ہیں ،لہٰذا تم بھی اسی وقت اس دعاء کو پڑھو کیونکہ اگر تمہاری دعاء فرشتوں کی دعاء کے ساتھ پڑھی گئی تو یہ چیز تمہاری مغفرت کا ذریعہ بن جائے گی ۔

اورجہاں تک پیش کردہ قائدہ کی بات ہے تو یہ کوئی مسلم قائدہ نہیں ہے اصول فقہ اورقوائد کی کتابوں میں ہمیں یہ قائدہ نہیں ملا،نیزیہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ کاپیش کردہ قائدہ نہیں ہے بلکہ اسے ''الزین ابن المنیر''نے پیش کیاہے جسے حافظ ابن حجر نے بغیرکسی تائیدکے صرف نقل کیاہے ،دراصل امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک باب قائم کیاہے کہ ''جھر الماموم بالتامین''اور اس کے تحت جو حدیث پیش کی ہے اس میں ہے ''اذاقال الامام غیرالمغضوب علیھم ولاالضالین فقولوا آمین''اب اس حدیث کی باب سے مناسبت کیاہے یہ شارحین بخاری کے لئے ایک مشکل مسئلہ بن گیااورہرایک نے اپنی سمجھ کے مطابق باب سے مطابقت بتلانے کی کوشش کی ،ان میں ''الزین ابن المنیر''بھی ہیں ان کاکہناہے کہ جب قول سے مطلق خطاب وارد ہوتو جہرپردلالت کرتاہے اوریہاں پرایساہی ہے لہٰذاباب کامفہوم حدیث سے ثابت ہوگیا،جبکہ دیگرشارحین نے دیگر توجیہات پیش کی ہیں کمافی الفتح۔ اس تفصیل سے واضح ہے کہ ابن المنیراپنی پیش کردہ توجیہ میں منفردہیں ،کسی اور محدث نے ان کی تائید نہیں کی ہے۔
بلکہ علامہ عینی رحمہ اللہ نے ان کی زبردست تردید کی ہے لکھتے ہیں :

''قلت :المطلق یتناول الجھر والاخفاء ،وتخصیصیہ بالجہر والحمل علیہ تحکم لا یجوز''میں کہتاہوں :قول جب مطلق ہوتاہے توجہرواخفاء دونوں کوشامل ہوتا ہے اوراسے جہرکے ساتھ خاص کرنااوراسی پرمحمول کرنازورزبردستی ہے جو جائزنہیں (عمدة القاری:٥٢٦)۔

علامہ عینی رحمہ اللہ کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ بہت سے مقامات پرمذکورہ قائدہ فٹ نہیں ہوتاچند مثالیں ملاحظہ ہوں :
اذاسمعتم النداء فقولوا مثل مایقول المؤذن(بخاری :ـکتاب الأذان باب مایقول اذا سمع المنادی،رقم٥٨٦)۔
اذاأصبحتم فقولوا اللہم بک أصبحنا وبک امسینا...(ابن ماجہ:ـکتاب الدعاء: باب مایدعو بہ الرجل اذاأصبح...رقم٢٣٨٦٨وصححہ الألبانی)۔
لاتسبوالریح فاذارأیتم ماتکرھون فقولوا اللھم انانسألک من خیر... (ترمذی:ـ کتاب الفتن :باب ماجاء فی النھی عن سب الریاح ،رقم ٢٢٥٢وصححہ الألبانی)۔
کان یعلمھم ھذاالدعاء کمایعلمھم السورة من القرآن یقول:قولوا اللھم انانعوذ بک من عذاب جھنم...(مسلم :کتاب المساجد :باب مایستعاذ منہ،رقم٥٩٠)۔

غور کریں ان روایات میں بھی ''قولوا''سے مطلق خطاب وارد ہے اورمذکورہ قائدہ کا تقاضایہ ہے کہ یہاں جہرمراد ہو لیکن اس کاکوئی قائل نہیں،لہٰذاثابت ہواکہ مذکورہ قائدہ بے بنیاد ہے اور امام بخاری سے قطعاًامید نہیں کہ آں رحمہ اللہ نے اس بے بنیاد قائدہ کو پیش نظررکھاہو،اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اگریہ امام بخاری کا تسلیم کردہ اصول ہوتاتو امام بخاری ''قولوا ربنا '' والی حدیث پر بھی اس اصول کو منطبق کرتے اور اس پر بھی باب قائم کرتے کہ''باب الجھر باللہم ربنا لک الحمد ''کیونکہ یہ حدیث بھی امام بخاری کی شرط پرہے اور صحیح بخاری میں مذکور بھی ہے اور دونوں حدیثوں کے الفاظ میں کوئی فرق نہیں ہے جیسا کہ علامہ راشدی رحمہ اللہ خود لکھتے ہیں :

''دونوں روایتوں میں ایک جیسے الفاظ ہیں '' (نشاط العبد ص١١)۔
اب ہمیں بتلایاجائے کہ جب دونوں روایتوں میں ایک جیسے الفاظ ہیں تو آخر کیا وجہ ہے کہ پہلی روایت میں آپ کے بقول امام بخاری نے تو یہ اصول منطبق کر دیا لیکن دوسری روایت میں اسی اصول کو فراموش کردیا! آخر کیوں ؟ جبکہ '' فقہ البخاری فی تراجمہ ''کا تقاضا تھاکہ آپ یہاں بھی اس اصول کو نافذ کرتے، صاف صاف ظاہر ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ اس بے بنیاد اصول سے کوسوں دور ہیں ۔
اب رہایہ سوال کہ اگر امام بخاری نے اس اصول کو نافذنہیں کیا ہے تو پھر آخر انہوں نے ''قولوا آمین''والی حدیث سے مقتدی کے لئے جہر کیسے ثابت کیا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ امام بخاری نے اُن احادیث کو بھی پیش نظر رکھا ہے جن میں مقتدیوں کے آمین بالجہر کی صراحت ہے ، اور اِس حدیث میں آمین کہنے کا حکم موجود ہے ، لہٰذا اس حدیث کے ساتھ جہر والی احادیث کو بھی ملا کر امام بخاری نے یہ مسئلہ ثابت کیاکہ مقتدی حضرات کی آمین بالجہر ہونی چاہئے یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے، علامہ عینی رحمہ اللہ اس توجیہ کوراجح قراردیتے ہوئے لکھتے ہیں :

''ویمکن أن یوجہ وجہ لمناسبة الحدیث بالترجمة وھوأن یقال اماظاہرالحدیث فانہ یدل علی أن الماموم یقولھا و ھذالانزاع فیہ واماأنہ یدل علی جھرہ بالتامین فلایدل ولکن یستأنس لہ بماذکرہ قبل ذلک وھو قولہ :أمن ابن الزبیر...الی قولہ خیرا''(عمدة القاری:٥٣٦)،

امام بخاری کے اس طرز استدلال پرشیخ راشدی رحمہ اللہ کی بھی نظر تھی اسی لئے موصوف خود ہی سوال اٹھا کر خود ہی جواب دیتے ہوئے رقمطرازہیں :

''سوال : آمین کے لئے دوسری احادیث وارد ہیں یہ ان سے مل کر دلیل بنتی ہے ؟ جواب :ـ اولاً:امام بخاری نے صرف اسی ایک کو دلیل بنایا ہے اور دوسری روایات ان کے شرط پر نہیں تھیں ۔ ثانیاً: محدثین اس حدیث کو تنہا بلا تائید دوسری روایات کے ، مستقل دلیل مانتے ہیں ۔ ثالثاً : وعلی التقدیر مسئلہ فیمانحن کے لئے بھی دوسری روایات موجود ہیں '' (نشاط العبدص١١،١٢)۔

ہم کہتے ہیں کہ شیخ موصوف کا :
اولا: یہ کہنا کہ ''دوسری روایات ان کے شرط پر نہیں تھیں '' پھر اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صرف اسی حدیث کو دلیل بنایاہے ، محل نظرہے ۔ کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ کا باب کے تحت دیگر احادیث ذکر نہ کرنا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے قائم کردہ باب میں دیگر احادیث سے استدلال نہیں کیاہے ،صحیح بخاری میں کتنے تراجم ایسے ہیں کہ کئی حصوں پر مشتمل ہیں ، لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے بعض ہی سے متعلق احادیث ذکرکی ہیں اور بقیہ حصوں کے لئے دیگر احادیث سے استدلال توکیا ہے مگر ان کا تذکرہ نہیں کیا ہے ،اور اس سے بڑھ کربات یہ ہے کہ بعض مقامات پر امام بخاری رحمہ اللہ نے صرف تراجم قائم کردئے ہیں اور ان کے تحت سرے سے کوئی حدیث ہی ذکر نہیں کی ہے، تو کیا یہ کہہ دیا جائے کہ امام بخار ی رحمہ اللہ نے بغیر کسی حدیث سے استدلال کئے ہوئے یہ بات کہہ دی ہے ؟ ہرگز نہیں ! فافہم ، اور:

ثانیاً: کے تحت شیخ موصوف کا یہ کہنا کہ''محدثین اس حدیث کو تنہا بلا تائید دوسری روایات کے ، مستقل دلیل مانتے ہیں '' توہمیں بجزابن المنیرکے ایسے کسی محدث کانام اور حوالہ معلوم نہیں اور نہ ہی آں موصوف نے اس طرف کوئی رہنمائی کی ہے نیزبہت سے محدثین نے اسے تنہادلیل نہیں بھی مانا ہے بلکہ بعض نے تواس کی تردید بھی کی ہے مثلاًعلامہ عینی رحمہ اللہ،اوررہا:

ثالثاً: کے تحت آں جناب کایہ ارشادکہ ''وعلی التقدیر مسئلہ فیمانحن کے لئے بھی دوسری روایات موجود ہیں'' تو عرض ہے کہ ان دوسری روایات کی حقیقت اس مضمون میں واضح کردی گئی ہے ،خلاصہ کلام یہ کہ مذکورہ قائدہ صرف ابن المنیر کاپیش کردہ ہے نہ تو امام بخاری نے اسے بنیاد بنایاہے اورنہ ہی دیگر فقہاء ومحدثین نے اسے قبول کیا ہے نیزبہت سی احادیث پریہ منطبق ہوہی نہیں سکتالہٰذا یہ قائدہ ہی مردود ہے جیسا کہ علامہ عینی نے صراحت کی ہے ۔







ثانیا:
اگر اس قائدہ کو تسلیم کر لیا جائے تومعلوم ہوناچاہئے کہ پیش کردہ حدیث، جس میں ربنا لک الحمد کے لئے '' قولوا'' کہا گیا ہے یہی حدیث صحیح ابن خزیمہ ، مسندأحمداورمستدرک حاکم میں بھی ہے اور اس میں جہاں یہ '' قولوا''ربنا لک الحمدکے لئے ہے وہیں اسی حدیث میں ٹھیک اس سے پہلے اللہ اکبر کے لئے بھی یہی'' قولوا'' موجودہے ۔ ملاحظہ ہو یہ حدیث:

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَإِذَا قَالَ الْإِمَامُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، فَقُولُوا: اللَّهُ أَكْبَرُ، فَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ "
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : '' جب امام اللہ أکبرکہے تو تم اللہ أکبرکہو اور جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنالک الحمد کہو '' ( مسندأحمد(10994)المستدرک علی الصحیحین للحاکم :ـ(1/ 335 )،کتاب الصلوٰة:ومن کتاب الامامہ وصلاةالجماعة، رقم (٧٧٩ ) امام حاکم نے اس حدیث کو شیخین کی شرط پر صحیح کہا ہے اور امام ذہبی نے بھی ان کی تائید کی ہے،امام ابن خزیمہ نے بھی اسے صحیح کہاہے (صحیح ابن خزیمة:٣٥٣رقم١٥٧٧واللفظ لہ)شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کی تصحیح کی ہے(صحیح الجامع:ـ ١٨٢١ رقم٧٠٦ طرف الحدیث:اذا قال الامام)اوراپنی کتاب صفةالصلوة(عربی):ص٧٦حاشیہ نمبر ٢ میں اسے نقل کیاہے ۔، یہ حدیث درج ذیل کتب میں بھی ہے : السنن الکبری ٰللبیہقی (١٦٢) :کتاب لحیض(أبواب صفة ا لصلوة):باب کیفیة التکبیر،رقم٢٠٩٦ أیضاًرقم٢٠٩٨،مسندأبی یعلی:٥٠٧٢ رقم١٣٥٥، مسندالحارث: ٢٧١١ رقم١٥٣،مسندعبدبن حمید : ٣٠٣١رقم٩٨٤ا وغیرہ)۔

اب بتلایا جائے کہ کیا مقتدی حضرات'' اللہ اکبر''بھی بآواز بلند پڑھیں گے ؟کیونکہ اس حدیث میں ربنا لک الحمدکے لئے '' قولوا'' کے ساتھ ساتھ'' اللہ اکبر'' کے لئے بھی ''قولوا''موجودہے،اوردونوں جگہ ''قولوا''سے مطلق خطاب وارد ہے، اب جو مفہوم ''اللہ أکبر'' والے '' قولوا'' کا ہوگا وہی مفہوم ربنالک الحمد والے '' قولوا''کا بھی ہوگا ، کیونکہ یہ دونوں ایک ہی حدیث میں ایک ہی ساتھ ایک ہی اسلوب وشکل میں وارد ہیں ۔
اب دیکھئے جس قائدہ کوبنیادبنایاجارہاتھاوہی قائدہ تقاضاکررہاہے کہ مقتدی اللہ أکبر بھی جہر سے پڑھے،علامہ راشدی رحمہ اللہ نے بھی یہ اشکال محسوس کیاہے لیکن اس کے ازالہ کے لئے یہ سوال وجواب پیش کیاہے:

''سوال: یہاں اللہ أکبر کے لئے قول سے مطلق خطاب وارد ہے ۔ جواب : اگر چہ یہاں بظاہر مطلق ہے مگر ایساقرینہ پایا جاتاہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ مقتدیوں کو تکبیرات آہستہ کہنی چاہئیں ، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض وفات کی نماز کے بیان میں ہے کہ أبو بکر یسمع الناس التکبیر(بخاری ومسلم ) یعنی ابوبکر صدیق ص جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں بحیثیت مقتدی کھڑے تھے ، تکبیر (جہراً کہہ کر ) لوگو کو سنا رہے تھے، اس سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صحابۂ کرام تکبیرات آہستہ آہستہ کہتے تھے ،کیونکہ یہاں ابو بکر کا بحیثیت ماموم ہونے کے جہراً تکبیرات کہنا خاص ایک علت (یعنی سنانے ) کے لئے تھا نہ کہ عادةً، پس صحابہ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے جہراً تکبیرات کہنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے حکم سے تھا نہ تو کم از کم آپ کی تقریر (ثابت رکھنا ) ہی کافی ہے ،یہ قرینہ بتاتا ہے کہ تکبیرات جہراً کہنے کامقتدیوںکو حکم ا س حدیث میں نہیں '' (نشاط العبد :ص١٩)۔

اس جواب پر ہمارے کئی ملاحظات ہیں :

(الف) :ـ
قائدہ میں یہ بات کہی گئی ہے کہ قول سے خطاب میں جب آہستہ یا دل میں پڑھنا مراد ہوگا تو ''قید بذٰلک'' قول میں ا س کی قید لگائی جائے گی ، یعنی قائدہ میں مطلق اور مقید کی بات کہی ہے مگرعلامہ راشدی رحمہ اللہ یہاں قید کے بجائے قرینہ پیش کر رہے ہیںحالانکہ '' قید'' اور '' قرینہ'' میں زمین وآسمان کا فرق ہے ،قید اپنے مقید کے ساتھ ہوتی ہے جبکہ قرینہ الگ تھلگ ہوتاہے ،چنانچہ علماء اصول نے مقید کی تعریف مع مثال ان لفظوں میں کی ہے : ''مادل علی الحقیقة بقیدکقولہ تعالی: ''فتحریررقبة مؤمنة '' (الأصول من علم الأصول للعثیمین :٣٩)۔

اس تعریف اور مثال میں غور کیجئے یہاں رقبة کی قید موجود ہے ،اور یہ رقبة ہی کے ساتھ متصل ہے ،معلوم ہوا کہ قید یہ مقید کے ساتھ متصل ہو کر آتی ہے پس قول میں قید کا مطلب یہ ہے کہ جب قول سے آہستہ کہنا مراد ہوگا تو یہ قول مقید ہو کر آئے گا ، یعنی اسی قول سے متصل آہستہ کہنے کی قید موجود ہوگی، مثلاً ان الفاظ میں ''قولواسراً''یا ''قولوافی أنفسکم'' جبکہ قرینہ کا مطلب یہ ہے کہ یہ چیز قول کے ساتھ موجود نہ ہوگی بلکہ الگ سے کسی اور جگہ ا س کی طرف اشارہ ہوگا، لیکن قائدہ میں یہ چیز ہرگز نہیں کہی گئی ہے بلکہ وہاں ''قید ''کی بات ہے ، لہٰذا قرینہ کے بجائے قائدہ کے مطابق ''قید '' تلاش کریں ، اوریہ ممکن ہی نہیں کیونکہ مذکورہ حدیث میں ''قولوا اللہ أکبر'' مطلق ہے ،اب دوہی راستے ہیں یا تو مقتدی کو تکبیربھی بآواز بلندپڑھنے کے لئے کہاجائے یاقائدہ کے فسادکوتسلیم کرلیا جا ئے ۔

(ب):
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے اپنی روایت میں قولوااللہ أکبرکاجو فرمان نقل کیا ہے اس میں نماز کا طریقہ مذکور ہے لہٰذا یہ فرمان اسی وقت کا ہے جب سے نمازباجماعت فرض ہوئی ، اور راشدی صاحب نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عمل کا جو قرینہ پیش کیا ہے وہ آپ کی زندگی کے بالکل اخیر زمانہ کا واقعہ ہے غور کیجئے کہ قول مطلق کا صدور تو اس وقت ہواجب نمازباجماعت فرض ہوئی اور قرینہ اس وقت کا پیش کیاجارہاہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ختم ہورہی ہے ،آخر اس مدت کے بیچ صحابۂ کرام نے جو اللہ أکبر سراً پڑھا ان کے سامنے کیا قرینہ تھا ؟ ابو بکر رضی اللہ عنہ کا عمل بے شک یہ بتلاتا ہے کہ صحابہ کرام تکبیرات سراً پڑھتے تھے لیکن سوال یہ ہے کہ صحابہ کرام نے سرپر عمل کیوں کیا جب کہ ان کے سامنے'' قولوا اللہ أکبر'' کا فرمان موجود تھا ۔
قائدہ میں قول مطلق کا مطلب یہ بتلایاگیاہے کہ مطلق ہو تو جہر پر دال ہے ، اور مقید ہو یا آپ کے بقول قرینہ موجود ہو تو سرپر دال ہے ،اب اگر قول کا اطلاق قائل کی طرف سے ہوتاہے تو قول کی تقئید یا اس کا قرینہ بھی قائل ہی کی طرف سے ہونا چاہئے ،'' قولوا'' کے قائل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اب قرینہ کا قائل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود ہونا چاہئے صحابہ کاعمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر ہوسکتاہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول تو نہیںہوسکتا، اور قائدہ کی بنیاد قول پر رکھی گئی ہے لہٰذا اطلاق ہو یا تقیید ہو یا قرینہ ہو ،ان سب کا وجود ''قول'' ہی میں ہونا چاہئے ۔
اگرعلامہ راشدی رحمہ اللہ کے مذکورہ قائدے پر کوئی اعتراض کرے کہ ایک حدیث میں'' کبروا''کے ذریعہ مقتدیوں کوبھی اللہ أکبر کہنے کا حکم ہے تو کیا وہ بھی جہراً کہیں گے ؟ تو علامہ راشدی رحمہ اللہ اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ :

'' یہاں لفظ ''کبروا '' ہے '' قولوا '' نہیں ہے ، اور مذکورہ قائدہ صرف باب القول کے لئے ہے '' (نشاط العبدص١٥)۔

اگر آپ کے قائدہ میں بصورت اطلاق اتنی کڑی شرط ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قائل ہونا بھی بے سود ہے جب تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقولہ میں لفظ ''قول'' کی صراحت نہ ہو تو آخر اسی قائدہ میں قرینہ کے وقت قول و غیر قول کی صراحت تو درکنار ،سرے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہی مفقود ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کا بھی وجود نہیں ، ان سب سے دور بھاگتے ہوئے قرینہ تلاش کیاگیا تو صحابہ کے عمل میں، آخر''باب القول'' میں ''باب العمل'' کیسے حجت بن گیا؟اور وہ بھی قائل صلی اللہ علیہ وسلم کا نہیں ، صحابہ رضی اللہ عنہم کا عمل !

مذکورہ قائدہ پھر سے پڑھ لیجئے : ''و القول اذاوقع بہ الخطاب مطلقاً حمل علی الجھر ومتی أرید بہ الاسرارأوحدیث النفس قید بذلک ''(ای قید القول بذالک) ۔

غورکریں ! یہاں جس طرح اطلاق کی بات ''قول ''میں کہی گئی ہے اسی طرح قید یا قرینہ کی شرط بھی ''قول'' ہی میں لگائی گئی ہے ،لہٰذا کوئی ایسا قرینہ تلاش کیجئے جس کا تعلق آپ کے الفاظ میں'' باب القول '' سے ہو ،ولاسبیل الی ذلک ۔

(ج) :ـ
اور اگرقولوااللہ أکبر کو سر پرمحمول کرنے کے لئے ایساہی قرینہ ہی کافی ہے ، تو قولوا ربنا لک الحمدکو سر پر محمول کرنے کے لئے ایسے قرائن کی قطار لگائی جاسکتی ہے چند ملاحظہ ہوں :

(١):
سب سے پہلے تو اسی قرینہ کولیجئے جسے راشدی صاحب نے پیش کیاہے چنانچہ موصوف نے جو قرینہ پیش کیا ہے وہ اگر اس بات کی دلیل ہے کہ مقتدی حضرات تکبیرات آہستہ پڑھیں گے تو اس میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ مقتدی حضرات ربنالک الحمد بھی آہستہ پڑھیں گے ، کیونکہ جب کوئی مکبر امام کے پیچھے تکبیر پکارتا ہے تووہ اللہ أکبر کی جگہوں پر اللہ أکبر ہی کہتاہے مگر سمع اللہ لمن حمدہ کی جگہ وہ ربنالک الحمد پکارتا ہے ، جیساکہ آج بھی مسجد حرام وغیرہ میں یہی معمول ہے ،لہٰذا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بھی تکبیرات کے ساتھ ساتھ ربنالک الحمد بھی پکارا ہوگا ، پھر راشدی صاحب کے بقول یہ پکار ایک علت (یعنی سنانے )کے لئے تھا نہ کہ عادةً، پس اس حدیث میں جس طرح قولوا اللہ أکبر میں جہر کی دلیل نہیں ہے ، ٹھیک اسی طرح قولواربنالک الحمدمیں بھی جہر کی دلیل نہیں ہے ۔

(٢):
رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ کی حدیث پیچھے گذر چکی ہے اور آگے بھی آئے گی اس میں صراحت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صرف ایک ہی شخص نے ربنالک الحمد جہر سے پڑھا جیساکہ راشدی صاحب کو بھی اس بات کا اعتراف ہے (نشاط العبد :ص٢٩)اور پیچھے ہم لکھ چکے ہیں کہ اس واقعہ کے راوی جو واقعہ کے وقت خود اس میں موجود تھے وہ انصاری صحابی ہیں جو ہجرت نبوی کے بعد مسلمان ہوئے اور مدینہ میں مسجد نبوی کا واقعہ بیان کررہے ہیں ،اور قولواربنالک الحمد والی اس حدیث میں نماز کا طریقہ ذکر ہے لہٰذا یہ فرمان اس وقت کا ہے جب سے نماز فرض ہوئی اورنمازمکہ میں واقعہ معراج میں فرض ہوئی اور رفاعہ کا بیان کردہ واقعہ ہجرت کے بعداور مدینہ کا واقعہ ہے ،لہٰذا ثابت ہواکہ اس واقعہ میں ایک صحابی کوچھوڑکرباقی کسی صحابی نے ربناجہراً نہیں پڑھا، اور ایک صحابی جس نے پڑھا انہوں نے بھی فقط پہلی رکعت میں جہر سے پڑھاتھااور وہ بھی اتفاقیہ طور پر نہ کہ عملاً بالحدیث المذکور (کماسیاتی) ،پس معلوم ہواکہ صحابہ کا ربناسراً پڑھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے حکم سے تھا نہ توکم از کم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر (ثابت رکھنا) ہی کافی ہے، یہ قرینہ بتلاتا ہے کہ ربنالک الحمد جہراً کہنے کا حکم ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں نہیں ہے ۔
اور رہااس واقعہ سے استدلا ل تو اس پر تفصیلی بحث آرہی ہے ، یہاںپرمقصود یہ دکھلانا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان قولوا ربنالک الحمد کے ہوتے ہوئے بھی صحابہ کرام ربناجہراً نہیں پڑھتے تھے ۔

(٣) :
حدیث میں مذکور'' قولوا'' دعا کے سلسلے میں ہے اور دعا ؤںمیں اصل اسرار ہے اس بابت پوری تفصیل گذر چکی ہے،لہٰذادعاؤں میں یہ قائدہ نہیں چل سکتا۔

(٤) :
اگر دعامیں نافذہو تو بھی نمازکی دعاؤں میں اس پرعمل نہیں ہو سکتا کیونکہ نماز کی اصل حالت سکوت کی ہے جیساکہ تفصیل گذری ،لہٰذااگرکسی دعاء کو خارج صلوة کسی وجہ سے جہر ا پڑھنا ثابت بھی ہوتو بھی نمازمیں اسے سراہی پڑھاجائے گامثلاً خارج صلوٰة بہت سی جگہوں پر جہراً درود پڑھنا ثابت ہے مگر حالت صلوٰة میں اس درود کو سراً ہی پڑھاجاتاہے۔



جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
جہر کی تیسری دلیل اوراس کا جائزہ:

عَنْ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ الزُّرَقِيِّ، قَالَ: " كُنَّا يَوْمًا نُصَلِّي وَرَاءَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرَّكْعَةِ قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ "، قَالَ رَجُلٌ وَرَاءَهُ: رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ: «مَنِ المُتَكَلِّمُ» قَالَ: أَنَا، قَالَ: «رَأَيْتُ بِضْعَةً وَثَلاَثِينَ مَلَكًا يَبْتَدِرُونَهَا أَيُّهُمْ يَكْتُبُهَا أَوَّلُ»(وفی روایة:''لقد ابتدرھا اثنا عشر ملکا'' )،
رفاعہ بن رافع زرقی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع سے سر اٹھا کر ''سمع اللہ لمن حمدہ''کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک شخص نے کہا : '' ربنا ولک الحمدحمدًاکثیرًاطیبًامبارکًا فیہ'' آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے فراغت کے بعد فرمایا :'' (نماز میں) کون بول رہا تھا ؟'' تو اس شخص نے کہا : میں ،اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : '' میں نے تیس سے زائد فرشتوں کو دیکھا سبھی جلدی کر رہے تھے کہ کون ان کلمات کو پہلے لکھے ''( اوربعض روایت میں ہے کہ بارہ فرشتے جلدی کررہے تھے کہ کون ان کلمات کو پہلے لے جائے)( بخاری:کتاب الاذان:رقم الباب(١٢٦)،رقم الحدیث٧٩٩، نسائی مع تحقیق الألبانی:کتاب الافتتاح:باب قول الماموم اذاعطس خلف الامام،رقم٩٣٢ وصححہ الألبا نی )۔


جواب:

أولاً:
بخاری کی پیش کردہ حدیث میں جس اسلوب وشکل میں دعاء قومہ بالجہر پڑھنے کا واقعہ مذکورہے ، ٹھیک اسی طرح بعینہ اسی اسلوب و شکل میں صحیح مسلم میں نماز کی ایک دوسری دعاء کو بھی بالجہر پڑھنے کا واقعہ منقول ہے، اور یہ دعاء ، دعاء قومہ نہیں بلکہ دعاء ثناء ہے ۔ملاحظہ ہومسلم کی یہ روایت:

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ نُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: اللهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيرًا، وَسُبْحَانَ اللهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مِنَ الْقَائِلُ كَلِمَةَ كَذَا وَكَذَا؟» قَالَ رَجُلٌ مَنِ الْقَوْمِ: أَنَا، يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: «عَجِبْتُ لَهَا، فُتِحَتْ لَهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ»(وفی روایة للنسائی:لقد ابتدرھااثناعشرملکا) قَالَ ابْنُ عُمَرَ: «فَمَا تَرَكْتُهُنَّ مُنْذُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ ذَلِكَ»
صحابی رسول عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے (جب آپ نے نماز شروع فرما کر اللہ اکبر کہا) تو (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے) لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا: '' اللہ أکبر کبیرا، والحمدللہ کثیرا،وسبحان اللہ بکرة و أصیلا''۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (نماز سے فراغت کے بعد) فرمایا:''یہ کلمات کس نے کہے ؟'' ۔ تو لوگوں میں سے اس شخص نے کہا: اللہ کے رسول میں نے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''مجھے تعجب ہوا کہ اس کے لئے آسمان کے دروازے کھول دئے گئے(اور نسائی کی روایت میں ہے بارہ فرشتے جلدی کررہے تھے کہ کون ان کلمات کو پہلے لے جائے )عبد اللہ بن عمر کہتے ہیں کہ جب سے میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تب سے ان کلمات کو پڑھنا کبھی نہیں چھوڑا''(مسلم:کتاب المساجد:باب ما یقول بین تکبیرة الاحرام والقرأة،رقم (٦٠١) نسائی مع تحقیق الألبانی:کتاب الافتتاح:باب القول الذی یفتتح بہ الصلوٰة،رقم الحدیث(٨٨٥)وصححہ الألبانی)۔

اب اگر بخاری کی حدیث پر قائم کردہ استدلال درست ہے تو یہی استدلال صحیح مسلم کی دعاء ثناء والی حدیث پر بھی قائم ہونا چاہئے ۔ بخاری کی حدیث کا تو ایک پس منظر بھی ہے کہ صحابی ہانپ رہے تھے ان کو چھینک آگئی تھی(کماسیاتی) مگر مسلم کی حدیث سے متعلق تو ایسا کوئی پس منظر بھی مذکور نہیں ، نیزبخاری کی حدیث میںیہ مذکور نہیں ہے اس صحابی کے عمل کو بعدمیں کسی نے اپنایا ہو جب کہ مسلم کی حدیث میں صراحت ہے کہ اس واقعہ کے بعد ابن عمر رضی اللہ عنہ نے وہ دعاء کبھی نہیں چھوڑی ۔
اب بتلائے کہ آخر دعاء ثناء پر یہ ظلم کیوں ؟ اگر دعاء ثناء سے متعلق اتنی تصریحات کے ہوتے ہوئے بھی اسے بالجہر نہیں پڑھ سکتے تو دعاء قومہ کو بدرجۂ اولی بالجہر نہیں پڑھ سکتے، واضح رہے کہ ابھی تک پوری امت میں کسی نے بھی دعاء ثناء کوبالجہرپڑھنے کی بات نہیں کہی ہے،مگرڈرہے کہ کہیں ہماری اس بات سے لاجواب ہوکرفریق دوم یہ فتوی بھی نہ دے بیٹھیں ۔



ثانیاً:
اس حدیث میں جس واقعہ کا بیان ہے وہ یہاں مکمل مذکور نہیں ہے بلکہ اس میں اختصار ہے جس سے اس واقعہ کی پوری کیفیت اور اس کا پورا پس منظر ہمارے سامنے نہیں آتا ، لہٰذا صرف اس حدیث کو لیکر کوئی فیصلہ کرنادرست نہیں بلکہ ضرورت ہے کہ سب سے پہلے ہم اس پورے واقعہ کا مطالعہ کرلیں اور اس کی پوری روداد اور پس منظرسے واقف ہو جائیں پھر کوئی فیصلہ کریں ، آئیے د یگر روایات کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ مذکورہ واقعہ کہ مکمل روداد کیا ہے۔
اوپربخاری کی جس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے اس میں صرف یہ مذکور ہے کہ ایک صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے دعاء قومہ کو بآواز بلند پڑھا،لیکن اس کا سبب کیا تھا یہاں اس کا بیان نہیں جبکہ ترمذی وغیرہ کی روایت میں صراحت ہے "صلیت خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فعطست فقلت"یعنی رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نمازپڑھی تو مجھے چھینک آگئی اور میں نے کہا..(سنن التر مذی مع تحقیق الألبانی:أبواب السہو:باب ما جاء فی الرجل یعطس فی الصلوٰة، رقم٤٠٤ قال الترمذی : حدیث رفاعہ حدیث حسن انتہی وحسنہ الألبانی أیضاً)۔
اس روایت کو ملاکر یہ بات سامنے آتی ہے کہ صحابی مذکور کی آواز بلند ہو نے کا سبب ان کا چھینکنا تھا ۔

اورمسلم کی حدیث میں ہے ''أن رجلاً جاء فدخل الصف وقد حفزہ النفس''یعنی ایک صحابی(نماز کے لئے) آئے ان کی سانس پھول رہی تھی(مسلم:کتاب المساجد: باب مایقول بین تکبیرة الاحرام والقرأة۔ رقم(٦٠٠))، اس حدیث میں یہ اضافہ ہے کہ صحابی مذکور جب صف میں داخل ہوئے تو ا ن کی سانس پھول رہی تھی معلوم ہو ا کہ یہی چیز ان کے چھینکنے کا سبب بنی اور پھر اس چھینک کے سبب ان کی آواز بلند ہوگئی ۔

اور مسنداحمدمیں ہے جاء رجل أسرع المشی ایک صحابی تیز چلتے ہوئے نمازیوںمیں شامل ہوئے اور وہ ہانپ رہے تھے(مسند أحمد : ج ٤ص ١٨٨،١٨٩۔ شیخ احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے ، دیکھیں مسند احمد بتحقیق احمد شاکر :ج ١١ ص٥٠رقم الحدیث(١٢٨٩٥) )۔

اس حدیث میں یہ مزید وضاحت ہے کہ ایک صحابی آئے اور تیزی کے ساتھ چلتے ہوئے نمازیوں تک پہنچے گویا کہ ان کے ہانپنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ تیزی کے ساتھ چلے تھے اوریہ تیزی کے ساتھ کیوں چلے تھے ،حدیث کے آخری الفاظ میں اس کا بھی اشارہ ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا :''اذا جاء أحدکم الی الصلوٰة فلیمش علی ھنیئتہ فلیصل ماأدرک و لیقض ماسبقہ''(ایضاً)یعنی تم میں سے جو کوئی بھی نماز کے لئے آئے تو سکون و اطمینان کے ساتھ چلے اور جتنی نماز ملے اسے پڑھ لے اور جو چھوٹ جائے اسے پورا کرے۔
اس سے معلوم ہو تا ہے کہ صحابی مذکورنے رکعت چھوٹ جانے کے خوف سے چلنے میں تیزی کی تھی ۔

اب ان تمام روایتوں کو سامنے رکھنے کے بعد مذکورہ واقعہ کی جو مکمل روداد ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ کہ ایک صحابی نماز پڑھنے کی خاطر مسجد میں آئے، اور جس وقت وہ پہنچے اس وقت لوگ رکوع کی حالت میں تھے،یہ دیکھ کر وہ صف میں داخل ہونے کے لئے دوڑ پڑے تاکہ ان کی یہ رکعت چھوٹنے نہ پائے چنانچہ وہ دوڑتے ہوئے صف میں پہونچے اور رکوع میں شامل ہوگئے، اب دوڑنے کی وجہ سے ان کی سانس پھولنے لگی اور جوںہی انہوں نے رکوع سے سر اٹھایا توسانس پھولنے کے سبب انہیں چھینک آ گئی اورجب چھینک آ گئی تو چھینک کی آواز کے ساتھ ساتھ دعاء قومہ کی آواز بھی بلند ہوگئی ،اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آواز سنی اور ان کلمات کی فضیلت بھی دیکھی لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوئے تو پوچھا کہ یہ کلمات کس نے کہے ہیں؟ صحابی مذکور نے سمجھا کہ شاید ان کی آواز کا بلند ہونا ان کی غلطی بن گئی ہے اس لئے وہ دیر تک خاموش رہے پھر معذرت کرتے ہوئے اور آواز بلند ہونے کا سبب بیان کرتے ہوئے بولے : ''جئت وقد حفزنی النفس فقلتھا'' یعنی اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں آیا تو میری سانس پھول رہی تھی اسی لئے میں نے (بآوازبلند)کہا ،اور دوسری روایت میں ہے '' فعطست فقلت'' یعنی مجھے چھینک آگئی اسی لئے میں نے (بآوازبلند)کہا ۔
چونکہ عذر معقول تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز بلند ہونے پر کوئی گرفت نہیں کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال کرنے کا مقصد بھی آواز کے بلند ہونے پر گرفت کرنا نہیں تھا بلکہ مذکورہ الفاظ کی فضیلت کو بتلانا تھا،البتہ جو چیز آواز کے بلند ہونے کا سبب بنی تھی یعنی نماز کے لئے دوڑنا اور اس کی وجہ سے سانس پھولنے کا شکار ہونا، تو اس چیز سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ضرور منع فرمایا ، چنانچہ اخیر میں کہا : '' اذا جاء أحد کم الی الصلوٰة فلیمش علی ھنیئة فلیصل ما أدرک ولیقض ماسبقہ'' یعنی تم میں سے جو بھی نماز کے لئے آئے تو سکون واطمینان کے ساتھ چلے اور جتنی نماز ملے اسے پڑھ لے اور جو چھوٹ جائے اسے پورا کرے ۔

اب جوشخص بھی اس پورے واقعہ پر غور کرے گا اسے معلوم ہوگا کہ صحابی مذکور کا بآواز بلند دعاء قومہ پڑھنا ایک انفرادی اور اضطراری عمل تھا ، وہ دوڑتے ہوئے صف میں داخل ہوئے تھے جس کے سبب وہ ہانپنے لگے اور پھر چھینک آگئی اور اسی چھینک کی آواز کے ساتھ ساتھ دعاء قومہ کی آواز بھی بلند ہوگئی ۔

اب جو لوگ بھی اس واقعہ کو بنیاد بنا کر دعاء قومہ بآواز بلند پڑھتے ہیں کیا ان کے ساتھ بھی یہی معاملات پیش آتے ہیں ؟ کیا وہ بھی چھینک کے شکار ہوتے ہیں؟ جس کے نتیجے میں اضطراری طور پر ان کی آواز بھی بلند ہو جاتی ہے ؟

اور مذکورہ واقعہ میں غور کرنے سے ایک اہم بات یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ صحابیٔ مذکور کی آواز صرف ایک ہی رکعت میں بلند ہوئی تھی اور وہ پہلی رکعت تھی ،چنانچہ بخاری کی حدیث میں صرف ایک ہی بار کا تذ کرہ ہے، اسی طرح ترمذی وغیر ہ کی روایت میں ہے :''صلیت خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فعطست فقلت...''یعنی میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہا تھا تو مجھے چھینک آگئی اور میں نے کہا ...غور کیجئے صحابی آواز بلند ہونے کا سبب چھینک کو قرار دے رہے ہیں، تو کیا صحابی کو ہر رکعت میں چھینک آئی تھی ؟ اور وہ بھی عین حالت قومہ میں ؟ یہ چیز کسی بھی صورت میں ممکن نہیں ہے ، اور مسلم کی حدیث میں''حفزہ النفس''کا ذکر ہے یعنی صحابی کی سانس پھول رہی تھی جس کے سبب آواز بلند ہوگئی ، ظاہر ہے کہ یہ بھی صرف ایک ہی دفعہ کاواقعہ ہے کیونکہ نماز کے ہر رکعت میں سانس پھولنے کا کوئی مطلب نہیں !اور وہ بھی عین حالت قومہ میں! لہٰذااس واقعہ میں صحابی کو صرف ایک ہی بار چھینک آئی تھی اور آواز بھی صرف ایک ہی بار بلند ہوئی تھی۔

اب جو لوگ اس واقعہ کو بنیاد بنا کر ہر رکعت میں دعاء قومہ بآواز بلند پڑھتے ہیں وہ بتلائیں کہ کیا انہیں ہر رکعت میں اور عین قومہ کی حالت میں بار بار چھینک آتی ہے ؟ اگر نہیں تو پھر کس دلیل کی بناپر ہر رکعت میں دعاء قومہ کو بآواز بلند پڑھا جارہا ہے ؟

واضح رہے کہ شیخ راشدی رحمہ اللہ اس حدیث سے اپنے استدلال پر ایک اعتراض نقل کرکے اورخود ہی اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں :

سوال: ''یہ ایک صحابی کاواقعہ ہے ؟ '' جواب: '' کئی مسائل ایک ہی واقعہ سے ماخوذ ہیں ، مثلاً قیس رضی اللہ عنہ کا فجرکی سنت کو فرض کے بعد قضاکرنا....''(نشاط العبدص٢٩)۔

ہم کہتے ہیں بخاری کی حدیث میں جہرکا جوواقعہ ہے وہ بے شک ایک ہی صحابی کا واقعہ ہے ، مگرعلامہ راشدی رحمہ اللہ نے اس سے جو مسئلہ ثابت کیا ہے ویسا ایک بھی صحابی کا واقعہ نہیں ہے، بخاری وغیرہ کے واقعہ میں درج ذیل چیزیں ہیں:

(١) ایک صحابی دوڑ کر صف میں شامل ہوئے ۔
(٢) صحابی کی سانس پھول رہی تھی ۔
(٣) صحابی کو چھینک آگئی تھی ۔
(٤ ) صحابی نے صرف پہلی رکعت میں جہرکیا تھا ۔
(٥)صحابی نے یہ عمل جہری نماز (نمازمغرب )میں کیاتھا(السنن للبیہقی:٩٥٢رقم٢٤٤٣،المعجم الکبیر:٤١٥رقم٤٥٣٢واسنادہ حسن)۔

اورعلامہ راشدی رحمہ اللہ نے جو مسئلہ ثابت کیاہے وہ اس واقعہ میں موجود ہی نہیں کیونکہ ان کے مسئلہ میں:

(١) جہر سے پڑھنے والادوڑ کر صف میں شامل نہیں ہوتا۔
(٢) اس کی سانس نہیں پھول رہی ہوتی ۔
(٣) اس کو چھینک نہیں آتی ۔
(٤) وہ ہر رکعت میں جہر کرتاہے ۔
(٥)وہ جہری وسری تمام نمازوں میں جہرکرتاہے۔

ہم پوچھتے ہیں کہ کیااس طرح کاکوئی ایک واقعہ بھی کسی حدیث میں مذکور ہے ؟اگر نہیں اور ہرگز نہیں! تو پھریہ جواب دیناکہ '' کئی مسائل ایک ہی واقعہ سے ماخوذ ہیں ''اور مثال میں سنت فجرکی قضا کرنے والے صحابی کاواقعہ پیش کرنا بے سود ہے۔




ثالثاً:
گذشتہ سطور میں جو ایک ہی واقعہ سے متعلق کئی روایات پیش کی گئی ہیں ان تمام روایات میں قدرے حذف و اضافہ کے ساتھ ایک ہی واقعہ کا بیان ہے جیساکہ علامہ ابن بشکوال، حافظ ابن حجر(فتح الباری:٢٨٦٢شرح الحدیث٧٩٩) اوردیگربہت سے محدثین نے صراحت کی ہے، علامہ راشدی رحمۃ اللہ کا موقف اس کے خلاف ہے اورانہوں نے اپنی تائید میں جونکات بھی پیش کئے ہیں ان کا تفصیلی جواب ہماری اصل کتاب میں موجود ہے یہاں ہم صرف اتناہی کہیں گے کہ اگراس طرح کے نکات پیش کرکے تعدد واقعات کی بات کہی جانے لگے تو حدیث جبرئیل کو نہ جانے کتنے الگ الگ واقعات پرمحمول کرنا پڑے گا مکمل تفصیل ہماری اصل کتاب میں ہے۔
بہرحال اگر کوئی شخص کہے کہ نہیں ان تمام روایتوں کاتعلق صرف ایک ہی واقعہ سے نہیں ہے بلکہ ہر روایت میں بیان کردہ واقعہ الگ الگ واقعہ ہے۔

تو ہم کہتے ہیں کہ اگر اس بات کو تسلیم کرلیں تو یہ چیز بھی اس بات کی دلیل بن جائے گی کہ دعاء قومہ بلند آواز سے نہیں پڑھ سکتے،کیونکہ مذکورہ ہر روایت میں صرف ایک ہی صحابی کے بولنے کا تذکرہ ہے جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ کسی ایک واقعہ کے پیش آنے کے بعد تمام صحابۂ کرام نے اس پر عمل کرتے ہوئے دعاء قومہ کو بلند آواز سے پڑھنا شروع نہیں کیا تھا ، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو پھر دوسرے واقعہ میں کسی ایک ہی کی تعیین کرکے نہ پوچھا جاتا کہ''من المتکلم''؟ نماز میں کون بول رہا تھا؟کیونکہ جب ایک واقعہ پیش آنے کے بعد سب کا یہی عمل ہوگیا تھاتو پھر کچھ دنوں بعد صرف ایک شخص کے بارے میں کیوں پوچھا جا رہا ہے کہ''من المتکلم''؟ نماز میں کون بول رہا تھا؟دوسرے واقعہ میں ((''من المتکلم''؟نماز میں کون بول رہا تھا؟)) کے ذریعہ سوال کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جہر کا ایک واقعہ پیش آنے کے بعد نہ تو صحابہ نے اس جہر پر عمل کیا اور نہ ہی اسے قابل عمل سمجھا۔
حتیٰ کہ ایک تیسرا واقعہ پیش آیااور اس میں بھی یہی سوال کیا گیا ! ! ! گویا کہ دو واقعات پیش آنے کے باوجود بھی کسی صحابی نے دعاء قومہ کو بآواز بلند کہنا شروع نہیں کیا الغرض مذکورہ روایات کو الگ الگ واقعات پر محمول کیا جائے تو یہ چیز بھی اس بات کی دلیل ہے کہ دعاء قومہ آہستہ ہی پڑھیں گے۔



رابعاً:
بخاری کی حدیث رفاعہ جسے فریق دوم نے دعاء قومہ بالجہرپڑھنے کی دلیل بنائی ہے،اسی حدیث میں دعاء قومہ کو بالجہر کے بجائے بالسر پڑھنے کی دلیل موجود ہے ،اس لئے کہ اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک ہی صحابی کے بارے میں کہا کہ اس کی طرف سے نماز میں بولا گیا، اس سے جہاں یہ بات معلوم ہوئی کہ بولنے والے صرف ایک ہی صحابی تھے وہیں یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ صحابۂ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے دعاء قومہ کو بالجہر نہیں پڑھتے تھے، اس لئے کہ اگر صحابۂ کرام ایسا کرتے تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ سوال کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا، کیونکہ جب سبھی صحابہ کا یہ معمول تھا توآخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صر ف ایک ہی کی تعیین کرکے کیوں پوچھا کہ''من المتکلم''؟ نماز میں کون بول رہا تھا؟

لہٰذا ثابت ہوا کہ عہد نبوی میں دعاء قومہ کو بلند آواز سے پڑھنا صحابہ کرام کا معمول نہیں تھا ،اور یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ صحابۂ کرام نے اس واقعے کے بعد بآواز بلند پڑھنا شروع کردیا تھا ، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہوتی لہٰذا کسی نہ کسی حدیث میں ہم تک ضرور منقول ہوجاتی، جیسا کہ امام کے پیچھے قرأت کا مسئلہ ہے کہ صحابۂ کرام شروع شروع میں جہری نمازوں میں امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ کے علاوہ کی بھی قرأت کرتے تھے ،لیکن ایک دن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں منع کردیا ، اس ممانعت کے بعدتمام صحابۂ کرام جہری نمازوں میں غیر فاتحہ کی قرأت سے فوراً رک گئے اور صحابہ کا یہ عمل حدیث میں منقول ہوگیا ۔

لہٰذا جس طرح اس مسئلہ میں ایک واقعہ کے بعد صحابۂ کرام کا عمل بدل گیا تو حدیث میں فوراً نقل ہوگیا ، ٹھیک اسی طرح اگر دعاء قومہ میں بھی صحابۂ کرام کے عمل میں تبدیلی آئی ہوتی تو یہ چیز بھی منقول ہوجاتی ۔

نیز اسی طرح آمین بالجہر کا مسئلہ ہے صحابۂ کرام جہراً آمین کہتے تھے ، چونکہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہ تھی لہٰذا نقل ہو کر ہم تک پہنچ گئی ۔

اور سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ بخاری کی پیش کردہ حدیث میں جب ایک صحابی نے دعاء قومہ بلند آواز سے پڑھا تو اسے نقل کردیا گیا ، تو کیا اگر تمام صحابہ بلند آواز سے پڑھنے لگتے تو اسے نقل نہ کیا جاتا ؟ آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی ایک صحابی بلند آواز سے دعا ء پڑھے تو اسے نقل کردیا جائے اور پوری جماعت بلند آواز سے پڑھے تو اسے نقل کرنے والا کوئی نہ ہو ؟نیزصحابہ کی جماعت ''آمین'' جیسے مختصر لفظ کوجہرسے پڑھے تو یہ بات نقل ہوجائے لیکن یہی جماعت ''ربنالک الحمد...''جیسی طویل دعاء کوجہرسے پڑھے تواس کاناقل کوئی نہ ہو؟ لہٰذااگر مذکورہ واقعہ کے بعد صحابۂ کرام نے دعاء قومہ بآواز بلند پڑھنا شروع کر دیا ہوتا یہ چیز بھی منقول ہوجاتی اور جب ایسا نہیں ہے تو ثابت ہوا کہ صحابۂ کرام نے مذکورہ حدیث کا وہ مفہوم نہیں سمجھا جو آج سمجھا جا رہا ہے ۔




خامساً:
بخاری کی پیش کردہ حدیث میں صحابی کا صرف یہی عمل نہیں ہے کہ انھوں نے بلند آواز سے کچھ کلمات پڑھے، بلکہ اس میں یہ بھی ہے کہ انہوں نے یہ کلمات اپنی طرف سے کہے تھے ،اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سکھلائے ہوئے نہیں تھے، لہٰذا اگر صحابی کے بلندآواز سے پڑھنے سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ تمام حضرات بھی بلند آواز سے پڑھ سکتے ہیں تو صحابی کے اپنی خود ساختہ دعاء پڑھنے سے بھی یہ ثابت ہو تا ہے کہ تمام حضرات بھی نماز میں اپنی طرف سے ایسی دعائیں پڑھ سکتے ہیںجو کتاب و سنت سے ثابت نہ ہوں ، غور کیجئے کہ صحابی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اپنی خود ساختہ دعا پڑھا تو کیا دیگر حضرات کے لئے بھی نماز میں اپنی خود ساختہ دعائیں پڑھنا درست ہے؟ شاید آپ کو تعجب ہو کہ حافظ ابن حجر نے اسی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے اسے درست کہا ہے چنانچہ فتح الباری میں فرماتے ہیں:

'' واستدل بہ علی جواز احداث ذکر فی الصلوة غیر ماثور اذاکان غیر مخالف للماثور( فتح الباری:٣٦٥٢ )۔

اس سے اس بات پر استدلال کیا گیا ہے کہ نماز میں اپنی طرف سے ایسی دعائیں پڑھناجائز ہے جو کتاب وسنت سے ثابت نہ ہوں بشرطیکہ اس سے کتاب و سنت کی خلاف ورزی بھی نہ ہوتی ہو ''
اب سوال یہ ہے کہ کیا اس حدیث سے یہ استدلال درست ہے ؟اگر نہیں تو پھرا س حدیث سے جہر پر بھی استدلال درست نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف کلمات کی تعریف کی ہے لہذا اس پر عمل کر یں گے رہی جہراً اور خود ساختہ دعا پڑھنے کی بات تو اس کی تائید منقول نہیں لہذا اس پر عمل نہیں ہو سکتا۔




جاری ہے۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
ایک اشکال اور اس کا جواب


بعض حضرات کہتے ہیں کہ بخاری کی حدیث میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک شخص نے بآواز بلند دعاء قومہ پڑھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بآواز بلند پڑھنے سے منع نہیں کیا ، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آواز کی بھی تعلیم دیاکرتے تھے جیسا کہ ابو بکر اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما کے تہجد کا واقعہ ہے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سبح اسم ربک الأعلی جہر سے پڑھنے کا واقعہ ہے ،اور یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہر پر نہیں ٹوکا لہٰذا اس سے اس کا جواز ثابت ہوتا ہے (نشاط وغیرہ)۔

جواب:
(الف):
یہ کہنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بآواز بلند پڑھنے سے نہیں روکا ، علی الاطلاق صحیح نہیں ، اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گر چہ جہر سے صراحتاً منع نہیں کیا لیکن جو چیز جہر کا سبب بنی تھی اس سے ضرور روکا ، چنانچہ پہلے آپ پڑھ چکے ہیں کہ جہرسے پڑھنے والے صحابی دوڑ کر نماز میں شامل ہوئے تھے جس کے سبب وہ ہانپنے لگے اور ان کی سانس پھولنے لگی ،اسی حا لت میں وہ رکوع سے اٹھے تو انہیں چھینک آگئی پھر چھینک کی آواز کے ساتھ ساتھ دعاء قومہ کی آواز بھی بلند ہوگئی ،آپ نے دعاء کی فضیلت بیان کی لیکن ساتھ ہی مسند احمد کی روایت کے مطابق یہ بھی کہا کہ :'' تم میں سے جب کوئی نماز کے لئے آئے تو اطمینان وسکون سے چل کر آئے پھر جتنی مل جائے اتنی پڑھ لے اور جو چھوٹ جائے اسے بعد میں پورا کرلے '' (مسند أحمد : ج ٤ص ١٨٨،١٨٩۔ شیخ احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے )۔

اس روایت سے معلوم ہوا کہ آپ نے چھینک کی وجہ سے جہر پر گرفت نہیں کی لیکن جو چیز چھینک کا سبب بنی تھی یعنی نماز کے لئے دوڑنا ، اس سے ضرور روکا ۔ لہٰذا یہ کہنا علی الاطلاق درست نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہر سے نہیں روکا۔


(ب):
اگر یہ فرض کر لیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہر سے نہیں روکا تو یہ بات مسلّم ہے کہ صحابی جہر سے کہنے میں معذور تھے کیونکہ وہ ہانپ رہے تھے اور انہیں چھینک آگئی تھی اور یہی ہانپنا اور چھینکنا جہر کا سبب بنا جیسا کہ ترمذی میں صراحت ہے کہ''فعطست فقلت'' یعنی'' مجھے چھینک آگئی تو میں نے کہا''(التر مذی، رقم٤٠٤)اور صحیح مسلم میں ہے ''جئت وقد حفز نی النفس فقلتھا'' یعنی میں آیا تو ہانپ رہا تھا اور اسی حالت میں میں نے کہا''(مسلم،رقم ٦٠٠) اور جب بات یہ ہے کہ صحابی جہر سے کہنے میں معذور تھے اور انہوں نے عذر بیان بھی کر دیا تھا تو آخر معقول عذر ہونے کے باوجود بھی انہیں کیوں ٹوکا جاتا ؟ کیا معذوروں کو ٹوکنا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا ؟

یاد کیجئے کہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ازار میں اسبال(ٹخنہ سے نیچے لٹکا ہو ا) دیکھا ،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھتے ہی انہیں فوراً ٹوک دیا او ر کہا '' ارفع ازارک'' یعنی اپنی ازار اونچی کر لو ،(مسلم :ـکتاب الباس:باب تحریم جرالثوب،رقم٢٠٨٦)جبکہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کا معاملہ یہ تھا کہ ان کا ازار ٹخنے سے نیچے لٹک جایا کرتا تھا اور ابو بکر رضی اللہ عنہ اکثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی رہتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس پر کبھی نہیں ٹوکا ،حتی کہ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خود ہی اپنا معاملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کردیا تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی گرفت نہیں کی بلکہ انہیں معذور قرار دیتے ہوئے فر مایا : ''لست ممن یصنعہ خیلاء'' ( بخاری:ـ کتاب الباس:باب من جر ثوبہ من غیر خیلاء،رقم الحدیث(٥٧٨٤))یعنی تم ان لوگوں میں سے نہیں ہو جوتکبرکی وجہ سے ایسا کر تے ہیں ۔

سوال یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر رضی اللہ عنہ کے اسبال پر خاموش کیوں رہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسبال سے منع کیوں نہ کیا؟صاف صاف بات یہ ہے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ معذور تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم تھا اس لئے انہیں اس سے منع نہ کیا، ٹھیک اسی طرح بخاری کی مذکورہ حدیث میں صحابی کا بھی معاملہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھا کہ صحابی جہر سے پڑھنے میں معذور ہیں اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جہر پر نہیں ٹوکا، یہاں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جہر پر نہ ٹوکنا دوسروں کے لئے جہر کا جواز نہیں بن سکتا ،بالکل اسی طر ح جس طرح ابو بکر رضی اللہ عنہ کے اسبال پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نہ ٹو کنا دوسرو ں کے لئے اسبال کا جواز نہیں بن سکتا ۔خلاصہ کلام یہ کہ معذوروں کو ٹوکنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نہیں تھا، بخاری کی مذکورہ حدیث میں صحابی معذور تھے اس لئے انہیں ٹوکنے کی ضروت نہ تھی ۔


(ج):
اگر کہا جائے کہ صحابی کے پاس کوئی عذر نہ تھا، انھوں نے بلا کسی عذرکے جہر کیا تھا اور اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار کی ہے ۔ تو عرض ہے کہ اگر صحابی کے پاس واقعی کوئی عذر نہیں تھا تو ممکن ہے کہ انھوںنے تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے جہر کیا ہو ، جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم تعلیم دینے کی خاطر ظہر و عصر کی نمازوں میں بعض آیات جہراً پڑھ دیا کرتے تھے (بخاری:ـ کتاب الصلوة،باب القرآةفی العصر،،رقم (٧٦٢))لہٰذا جب ایسی بات تھی تو یہ بھی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر ٹوکنے یا جس سے منع کرنے کی ضرورت ہو ۔

علا مہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں :
وَأَمَّا الْجَهْرُ الْعَارِضُ، فَمِثْلُ مَا فِي الصَّحِيحِ أَنَّهُ كَانَ يَجْهَرُ بِالْآيَةِ أَحْيَانًا وَمِثْلُ جَهْرِ بَعْضِ الصَّحَابَةِ خَلْفَهُ بِقَوْلِهِ: {رَبَّنَا وَلَك الْحَمْدُ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ} وَمِثْلُ جَهْرِ عُمَرَ بِقَوْلِهِ: سُبْحَانَك اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِك وَتَبَارَكَ اسْمُك وَتَعَالَى جَدُّك وَلَا إلَهَ غَيْرُك وَمِثْلُ جَهْرِ ابْنِ عُمَرَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ بِالِاسْتِعَاذَةِ وَمِثْلُ جَهْرِ ابْنِ عَبَّاسٍ بِالْقِرَاءَةِ عَلَى الْجِنَازَةِ لِيَعْلَمُوا أَنَّهَا سُنَّةٌ. وَيُمْكِنُ أَنْ يُقَالَ جَهْرُ مَنْ جَهَرَ بِهَا مِنْ الصَّحَابَةِ كَانَ عَلَى هَذَا الْوَجْهِ لِيَعْرِفُوا أَنَّ قِرَاءَتَهَا سُنَّةٌ؛ لَا لِأَنَّ الْجَهْرَ بِهَا سُنَّةٌ.
جہاں تک عارضی طور پر جہر کی بات ہے تو اس کی کئی مثالیں ہیں مثلاً صحیح بخاری میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھار (سری نمازوں میں ) کسی آیت کو بآواز بلند پڑھ دیا کرتے تھے، اسی طرح صحابہ میں سے کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ''ربنا لک الحمد حمداً کثیراطیباًمبارکاًفیہ''بآواز بلند پڑھا، اسی طرح عمر فاروق ص ''سبحانک اللہم و بحمدک و تبارک اسمک وتعالیٰ جدک ولا الاہ غیرک''بآواز بلند پڑھتے تھے، اسی طرح ابن عمر اور ابو ھریرہ رضی اللہ عنہما استعاذہ (أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم)کو بآواز بلند پڑھتے تھے، اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ نماز جنازہ میں بلند آواز سے قرأت کرتے تھے تاکہ لوگ جان لیں کہ یہ سنت ہے،اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ صحابہ میں سے جس نے بھی بلند آواز سے پڑھا اس کا مقصد یہی تھا کہ لوگ جان لیں کہ اس چیز کا پڑھنا سنت ہے نہ کہ یہ مقصد تھا کہ اس کا بآواز بلند پڑھنا سنت ہے ''(مجموعة الفتاویٰ لابن تیمیة :ج ٢٢ص٤٢٠)۔


(د):
جس صحابی نے جہر کیا تھا ان سے دو عمل کا صدور ہوا تھا، اول یہ کہ انہوں نے بآواز بلند دعا ء پڑھی تھی اور دوسرے یہ کہ جو دعاء پڑھی وہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھلائی ہوئی نہیں تھی بلکہ وہ صحابی کی اپنی ایجاد کردہ تھی ،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابی کو ان دونوں چیزوں میں سے کسی چیز سے بھی منع نہیں کیا ، نہ تو جہر سے منع کیا اور نہ ہی نماز میں خود ساختہ دعاء پڑھنے سے ،تو کیا جہر کے ساتھ نماز میں خود ساختہ دعائیں پڑھنا بھی جائز ہے ؟ اگر نہیں تو کیوں ؟آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی تو صحابی کو منع نہیں فرمایا ،اور حافظ ابن حجر نے تو اس حدیث سے باقائدہ یہی استدلال پیش کیا ہے کہ نماز میں اپنی طرف سے خود ساختہ دعائیں پڑھ سکتے ہیں کمامضی کیا یہ استدلال درست ہے ؟ اگر نہیں تو پھر جہر پر بھی استدلال درست نہیں ۔


(ھ):
جس طرح بخاری کی حدیث میں ایک صحابی نے دعاء قومہ میں جہر کیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جہرسے منع نہ کیا، ٹھیک اسی طرح مسلم کی حدیث میں ایک صحابی نے دعاء ثناء میں بھی جہر کیا تھا اور انہیں بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع نہیں فرمایاکمامضی، تو کیا دعاء ثناء میں بھی بآواز بلند پڑھ سکتے ہیں ؟ جو جواب دعاء ثناء والی مسلم کی حدیث کا دیا جائے گا وہی جو اب دعاء قومہ والی بخاری کی حدیث کا بھی ہوگا ۔


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
جہر کی چوتھی دلیل اوراس کاجائزہ:

نا مُعْتَمِرٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنِ الْأَعْرَجِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، " يَرْفَعُ صَوْتَهُ بِـ: اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ "
(مصنف ابن أبي شيبة 1/ 223 رقم٢٥٥٦،نشاط:ص٤٤)۔
اعرج کہتے ہیں کہ میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو ''اللہم ربنا لک الحمد''بآواز بلند پڑھتے ہوئے سنا''


جواب:
أولاً:
اس اثر میں یہ صراحت نہیں ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ یہ جہر باجماعت نماز میں کرتے تھے یا اکیلے نماز پڑھتے ہوئے کرتے تھے ،لہٰذا اگر اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ مقتدی حضرات بلند آواز سے ''ربنا لک الحمد''پڑھیں گے تو اس میں اس بات کی بھی دلیل ہونی چاہئے کہ منفرد (اکیلے نماز پڑھنے والا شخص) بھی ''ربنا لک الحمد'' بلند آواز سے پڑھے، لیکن اس پر کوئی عمل نہیں کرتا آخر کیوں ؟ فماکان جوابکم فھوجوابنا۔


ثانیاً:
''ربنا لک الحمد''بلند آواز سے پڑھنے کے سلسلے میں صرف ایک صحابی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا عمل پیش کیا جارہا ہے لیکن ہم دعاء ثناء کو بلندآواز سے پڑھنے کے بارے میں دو صحابہ کا عمل پیش کر رہے ہیں، ملاحظہ ہو :

عمر فاروق رضی اللہ عنہ :
''انَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، كَانَ يَجْهَرُ بِهَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ يَقُولُ: «سُبْحَانَكَ اللهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، تَبَارَكَ اسْمُكَ، وَتَعَالَى جَدُّكَ، وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ» ...الخ( مسلم : کتاب الصلوٰة :باب حجة من قال لا یجھر بالبسملہ،رقم ٣٩٩فی سندہ انقطاع لکنہ صحیح بالشواہد،فقدأخرجہ ابن أبی شیبة:٢٠٩١رقم٢٣٩٤واسنادہ صحیح علی شرط الشیخین )۔
یعنی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ دعاء ثناء کے ان کلمات (سبحانک اللہم...الخ)کوبآوازبلند پڑھتے تھے''

عثمان غنی رضی اللہ عنہ :
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْبَزَّازُ , ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ , ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ , عَنْ عَاصِمٍ , عَنْ أَبِي وَائِلٍ , قَالَ: كَانَ عُثْمَانُ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ , يَقُولُ: «سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ» ، يُسْمِعُنَا ذَلِک (سنن الدارقطني 2/ 65:کتاب الصلوٰ ة:باب دعاء الاستفتاح بعد التکبیر ،رقم(1154)واسنادہ صحیح )۔
أبو وائل کہتے ہیں کہ عثمان رضی اللہ عنہ جب نماز شروع کرتے تو کہتے : سبحانک اللہم...الخ، اور اسے ہمیں سنا کر (بآوازبلند)پڑھتے''

قارئین غور فرمائیں کہ دو صحابہ کرام سے دعاء ثناء بآوازبلند پڑھناثابت ہے تو کیایہ اس بات کی دلیل ہے کہ دعاء ثناء بھی بآوازبلند پڑھیں گے ؟ اگر نہیں تو جوجواب ان آثار کا ہوگا وہی جواب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے اثر کا بھی ہوگا۔

ثالثاً:
در اصل ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جو بلند آواز سے پڑھتے تھے تو یہ لوگوں کو تعلیم دینے کی غرض سے پڑھتے تھے اور اسی مقصد کے تحت عثمان اور عمر رضی اللہ عنہما بھی دعاء ثناء کو بآوازبلند پڑھتے تھے ، نیز اسی غرض سے خود ابو ہریرہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہما استعاذہ (أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم)کو بھی بلند آواز سے پڑھتے تھے ،ان تمام صحابہ کا مقصد یہ تھا کہ لوگ جان لیں کہ ان دعاؤں کا پڑھنا سنت ہے ،ان کا یہ مقصد ہرگز نہیں تھا کہ انہیں بلند آواز سے پڑھنا سنت ہے ۔

چنانچہ علا مہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَأَمَّا الْجَهْرُ الْعَارِضُ، فَمِثْلُ مَا فِي الصَّحِيحِ أَنَّهُ كَانَ يَجْهَرُ بِالْآيَةِ أَحْيَانًا وَمِثْلُ جَهْرِ بَعْضِ الصَّحَابَةِ خَلْفَهُ بِقَوْلِهِ: {رَبَّنَا وَلَك الْحَمْدُ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ} وَمِثْلُ جَهْرِ عُمَرَ بِقَوْلِهِ: سُبْحَانَك اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِك وَتَبَارَكَ اسْمُك وَتَعَالَى جَدُّك وَلَا إلَهَ غَيْرُك وَمِثْلُ جَهْرِ ابْنِ عُمَرَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ بِالِاسْتِعَاذَةِ وَمِثْلُ جَهْرِ ابْنِ عَبَّاسٍ بِالْقِرَاءَةِ عَلَى الْجِنَازَةِ لِيَعْلَمُوا أَنَّهَا سُنَّةٌ. وَيُمْكِنُ أَنْ يُقَالَ جَهْرُ مَنْ جَهَرَ بِهَا مِنْ الصَّحَابَةِ كَانَ عَلَى هَذَا الْوَجْهِ لِيَعْرِفُوا أَنَّ قِرَاءَتَهَا سُنَّةٌ؛ لَا لِأَنَّ الْجَهْرَ بِهَا سُنَّةٌ.
جہاں تک عارضی طور پر جہر کی بات ہے تو اس کی کئی مثالیں ہیں مثلاً صحیح بخاری میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھار (سری نمازوں میں ) کسی آیت کو بآواز بلند پڑھ دیا کرتے تھے، اسی طرح صحابہ میں سے کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ''ربنا لک الحمد حمداً کثیراطیباًمبارکاًفیہ''بآوا ز بلند پڑھا، اسی طرح عمر فاروق رضی اللہ عنہ ''سبحانک اللہم و بحمدک و تبارک اسمک وتعالیٰ جدک ولا الاہ غیرک''بآواز بلند پڑھتے تھے، اسی طرح ابن عمر اور ابو ھریرہ رضی اللہ عنہما استعاذہ (أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم)کو بآواز بلند پڑھتے تھے، اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ نماز جنازہ میں بلند آواز سے قرأت کرتے تھے تاکہ لوگ جان لیں کہ یہ سنت ہے،اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ صحابہ میں سے جس نے بھی بلند آواز سے پڑھا اس کا مقصد یہی تھا کہ لوگ جان لیں کہ اس چیز کا پڑھنا سنت ہے نہ کہ یہ مقصد تھا کہ اس کا بآواز بلند پڑھنا سنت ہے ''(مجموعة الفتاویٰ لابن تیمیة :ج ٢٢ص٤٢٠)۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top