• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

”الفئة الباغية“ سے اہل شام کو مراد لینے والوں پر امام دحیم (المتوفى245) رحمہ اللہ کا شديد رد

شمولیت
اپریل 10، 2021
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
9
پوائنٹ
21
”الفئة الباغية“ سے اہل شام کو مراد لینے والوں پر امام دحیم (المتوفى245) رحمہ اللہ کا شديد رد
✿ ✿ ✿
امام دحیم (المتوفى245) کے معاصر امام عجلى رحمه الله (المتوفى261) فرماتے ہیں:
”عبد الرحمن بن إبراهيم الدمشقي ويعرف بدحيم أبو سعيد ثقة كان يختلف إلى بغداد سمعوا منه فذكروا الفئة الباغية هم أهل الشام فقال من قال هذا فهو ابن الفاعلة“
”عبد الرحمن بن إبراهيم الدمشقي یہ دحیم کے لقب سے معروف ہیں ، ان کی کنیت ابو سعید ہے یہ ثقہ ہیں ، آپ بغداد آیا جایا کرتے تھے ، وہاں کے لوگوں نے ان سے احادیث سنی ، ایک دن لوگوں نے ان کے سامنے ذکر کیا کہ ”الفئة الباغية“ (باغی گروہ) اہل شام ہیں ، اس پر امام دحیم رحمہ اللہ نے فرمایا: جو شخص ایسا کہے وہ فاحشہ كی اولاد ہے“ [معرفة الثقات للعجلي ، ت البستوی: 2/ 72 ، رقم 1016 ، تاريخ بغداد للخطيب. بشار: 11/ 549]
.
❀ فائدہ:-
امام دحیم رحمہ اللہ زبردست ثقہ ، حافظ اور متقن امام ہیں ، صحیح بخاری ، سنن نسائی ، سنن ابی داؤد اور سنن ابن ماجہ میں ان کی احادیث موجود ہیں ، جرح وتعدیل میں ان کا بہت بڑا مقام ہے ، بالخصوص شام کے لوگوں کے بارے میں ان کی رائے فیصلہ کن ہے ۔
.
● امام أبو يعلى الخليلي رحمه الله (المتوفى446) فرماتےہیں:
”أحد حفاظ الأئمة , متفق عليه ، يعتمد عليه في تعديل شيوخ الشام وجرحهم“
”ائمہ حفاظ میں سے ایک ہیں ، ان کے ثقہ ومستند ہونے پر اجماع ہے ، شام کے مشائخ کی تعدیل اوران پر جرح میں ان ہی کے اقوال پر اعتماد کیا جاتا ہے“[الإرشاد في معرفة علماء الحديث للخليلي: 1/ 450]
.
● امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354) فرماتے ہیں:
”من المتقنين الذي يحفظون علماء أهل بلده بشيوخهم وأنسابهم“
”یہ ان زبردست ثقہ ائمہ میں سے ہیں جو اپنے شہر کے علماء ، ان کے مشائخ اور ان کے نسب وخاندان کے حالات یاد رکھتے تھے“[الثقات لابن حبان ط االعثمانية: 8/ 381]
.
●امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275) فرماتے ہیں:
دحيم حجة، لم يكن بدمشق في زمانه مثله“
”دحیم حجت ہیں ، ان کے زمانہ میں دمشق میں ان کے ہم پلہ کوئی نہ تھا“[سؤالات أبي عبيد الآجري أبا داود، ت الأزهري: ص: 237]
.
●حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) فرماتے ہیں:
”ثقة حافظ متقن“
”آپ ثقہ ، حافظ اور متقن ہیں“ [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 3793]
.
❀ نوٹ:-
راقم الحروف کی نظر میں بھی یہی بات راجح ہے کہ ”الفئة الباغية“ سے مراد اہل شام یعنی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا گروہ نہیں ہے بلکہ اس سے وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کرکے انہیں شہید کیا اور بعد میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو آپس میں لڑوایا۔
 
شمولیت
اپریل 10، 2021
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
9
پوائنٹ
21
اعتراض1
ایک صاحب کا انتہائی عجیب وغریب اعتراض موصول ہوا ہے، فرماتے ہیں کہ امام عجلی نے ”ذکروا“ کے ذریعہ یہ قول نقل کیا ہے اور ذکر کرنے والے مجہول ہیں ۔
حالانکہ ”ذکروا“ واقعہ کے اندر موجود ہے نہ کہ یہ نقل کا صیغہ ہے ۔ کیونکہ امام عجلی نے ”كان يختلف إلى بغداد۔۔۔“ کہہ کر براہ راست امام دحیم کے تعلق سے نقل کیاہے اور امام عجلی امام دحیم کے معاصر ہیں بلکہ یہ بغداد کا واقعہ ہے اور امام عجلی شروع میں بغداد میں ہی تھے ، پھریہ شام میں بھی تشریف لائے جو امام دحیم کا علاقہ ہے ، لہٰذا امام دحیم سے ان کی نقل کو سماع پر ہی محمول کیا جائے گا ۔
واضح رہے کہ امام عجلی مدلس بھی نہیں ہیں ، اور غیر مدلس جب اپنے معاصر سے نقل کرتا ہے تو اسے اتصال پر محمول کیا جاتا ہے۔الا یہ کہ کوئی قرینہ اس سے مانع ہو اور یہاں ایسا کوئی مانع قرینہ موجود نہیں ہے لہٰذا معاصرت اور ہم علاقہ ہونے کے سبب امام دحیم سے امام عجلی کی نقل کو اتصال پر ہی محمول کیا جائے گا۔
حیرت ہے کہ یزید کے تعلق سے یزید کی وفات کے سات آٹھ سو سال بعد پیدا ہونے والا شخص کوئی بات نقل کرکے تو یہ اس پر آمنا وصدقنا کہتے ہیں مگر ایک امام اپنے دور اوراپنے علاقہ کے امام سے ایک بات نقل کررہاہے اور اس پر یہ انقطاع کا حکم لگاتے ہیں ، این چہ بو العجبی است ؟؟؟
اعتراض 2
ایک دوسرا اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس واقعہ کو نقل کرکے امام دحیم کے قول کو ناصبیت کہا ہے ۔
عرض ہے کہ( اولا:) امام دحیم رحمہ اللہ امام ذہبی سے بہت متقدم ہیں اور علم ومقام کے اعتبار سے کہیں بدرجہا اعلی ہیں ، لہٰذا امام ذہبی کے اس تبصرہ سے امام دحیم پر کوئی فرق نہیں پڑھنے والا ، (ثانیا:) امام ذہبی کے اس تبصرہ کا زیادہ سے زیادہ اختلاف رائے کہہ سکتے ہیں لیکن اس اختلاف کے سبب یہ نہیں کہا جاسکتا کہ امام دحیم کا یہ موقف نہیں ہے یاد رہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس نقل کو غلط بھی نہیں کہا ہے (ثالثا:) امام ذہبی رحمہ اللہ نے ناصبیت کی بات پورے وثوق سے نہیں کہی ہے بلکہ ایک دوسری بات یہ بھی کہی ہے کہ یہ سختی کے جواب میں سختی ہے ۔نیز امام ذہبی رحمہ اللہ کے تعاقب کا تعلق سخت کلامی سے۔
مزید یہ دیکھیں اس قول میں امام دحیم رحمہ اللہ نے علی رضی اللہ عنہ کی شان میں کوئی بدزبانی نہیں کی ہے بلکہ صرف امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے گروہ کا دفاع کیا ہے ۔ اب کوئی ہمیں بتلائے کہ کیا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا دفاع بھی ناصبیت ہے ؟؟
تحریر:کفایت الله سنابلی
 
Top