• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

”باعث عمل“ کی درستی

رانا ابوبکر

رکن نگران سیکشن
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 24، 2011
پیغامات
2,075
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
432
”باعث عمل“ کی درستی
حامد كمال الدين
اپنے اس دور میں اسلام کیلئے بلاشبہ بہت کچھ اور بہت سے میدانوں میں کام ہونے کی ضرورت ہے بلکہ اس وقت جتنی ضرورت ہے اتنی شاید کبھی بھی نہ رہی ہو‘ البتہ ’باعث عمل‘ کی درستی ان سب امور میں بے حد لازمی ہے اور آج کے دینی عمل کی ایک بڑی ضرورت۔
’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہونا‘ تقریباً ہر شخص کو معلوم ہے اور ہر شخص کی نیت بلاشبہ اسی کے ساتھ ہے جس پر کہ خدائے علیم وخبیر کے کوئی مطلع نہیں ہو سکتا۔ مگر ہم جو بات یہاں واضح کرنا چاہتے ہیں وہ اس سے زیادہ بنیادی ہے کیونکہ ترتیب میں اس سے پہلے آئی ہے اور وہ ہے ”داعیہء عمل“۔رہا ’ نیت‘ کاعمل تو وہ البتہ یہاں ہمارا موضوع نہیں ‘ باوجود اس کے کہ وہ بھی اپنی جگہ بے حد اہم ہے۔
’داعیہء عمل‘ کا پیدا ہونا دراصل ایک چیز ہے اور پھر آدمی کا اس عمل کو انجام دیتے ہوئے خداکی خوشنودی کا طالب ہونا ایک اور چیز۔
’عمل‘میں اخلاص کا پیدا کر لینا بھی ہرگز کوئی آسان کام نہیں ۔اپنے عمل سے آدمی صرف خدا کا چہرا پانے کا خواستگار ہو اور اس کے سواہر صلہ اور ہر تحسین سے بے پروا ہوجائے تواس سے بھی بڑھ کر مشکل امر یہ ہے کہ داعیہء عمل کے پیدا ہونے میں بھی آدمی کے ہاں ’خدا کے لیے‘ اخلاص پایا جائے۔
بلکہ آپ غور کریں تو اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ اصل اخلاص تو ’عمل‘ کا اخلاص نہیں بلکہ ’ باعث عمل‘ کا اخلاص ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی اس بات کی وضاحت کیلئے ‘ جو ہم یہاں شروع کررہے ہیں ‘ ہم نمونے کی چندمثالیں بیان کرتے ہیں اس کے بغیر شاید ہماری اس گفتگو کا ابہام دور نہ ہوسکے۔
آپ تاریخ کے اس آشوب ناک دور میں آنکھ کھولتے ہیں ۔اپنے اردگرد قوموں کو ایک ہجوم کئے دیکھتے ہیں ۔ بطور قوم یا بطورامت آپ کے ساتھ جگہ جگہ زیادتیں ہورہی ہیں ۔حقوق غصب ہور رہے ہیں ۔طرح طرح سے آپ کا استحصال ہوتا ہے۔کئی ایک خطے مقبوضہ ہیں ۔جو کہ بالکل سچ ہے۔کوئی بھی زندہ قوم اپنے ساتھ زیادتی ہو جانے کی اجازت نہیں دیتی۔ اسلام بھی واقعتا اس بات کا روادارنہیں کہ بیٹھے بٹھائے آپ اپنے ساتھ یوں ظلم ہوجانے دیں ۔یہاں جگہ جگہ ظلم کی صدائیں اٹھ رہی ہیں اورآپ کی حمیت کو صبح شام کچوکے لگاتی ہیں واقعتا یہ سب کچھ ایک غیور مسلمان کی برداشت سے باہر ہے اور غیور ہونا اسلام میں بلاشبہ مستحسن ہے۔اس صورت حال کو دیکھ کر آپ میں ایک داعیہء عمل پیدا ہوتا ہے۔ آپ اس سلسلہ میں کچھ کر گزرناچاہتے ہیں ۔
چنانچہ آپ اس معاملہ میں کوئی لائحہ عمل ترتیب دیتے ہیں یا کسی جماعت کے دئیے ہوئے لائحہ عمل کو قبول کرتے ہیں اور پھر اس پر عمل پیرا ہونے کیلئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔ البتہ جو سرگرمی آپ اس سلسلہ میں اختیار کرتے ہیں اس سے بالفعل خدا کی رضا چاہتے ہیں اور ہر صلہ اور مفاد سے بے لوث ہوجاتے ہیں یہاں ’عمل‘ کا اخلاص تو بے شک آپ کو حاصل ہے مگر’داعیہ عمل‘ کی بابت دیکھا جانا ابھی باقی ہے۔ بے شک اس عمل سے آپ کی نیت خدا کی خوشنودی ہے۔
آپ تاریخ پڑھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان کی کیا شان تھی عزت‘تمکنت‘اختیارکیا تھا جو اسے حاصل نہ تھاجہانگیری و جہانبانی اپنا منصب تھا۔ مگر دیکھتے ہیں کہ اب معاملہ بالکل الٹ ہو چکا۔ذلت‘بے چارگی‘بے اختیاری اور قوموں کی دست نگری اپنا مقدر بنی ہوئی ہےیہ دیکھ کر آپ میں ایک داعیہء عمل پیدا ہوتا ہے۔ آپ اپنی امت کےلئے اٹھ کھڑ ا ہونا چاہتے ہیں ۔امت کے وہی دن واپس لے آنے کے متمنی ہیں اور اس کےلئے جو کچھ ضروری ہو ‘کر گزرناچاہتے ہیں اور یہ سب کرتے ہوئے آپ رضائے الٰہی کے ہی طالب ہوتے ہیں ۔
یہاں بھی آپ کے عمل کا اصل مقصود بے شک خدا ہے مگر ’داعیہء عمل‘ کی بابت پھر بھی دیکھا جائے گا کہ یہ کہاں تک درست ہے۔ آپ کا عمل آیا ’تاریخ‘ کا پیدا کردہ ہے یا پھر ’دین کے حقائق‘ کا پیدا کردہ؟ یہ سوال ابھی بہرحال باقی ہے۔امت کی بے عملی پر آپ کا دل کڑھتا ہےمسجدیں ویران ہیں اور بازار بھرے ہوئے ہیں سینما اور تھیٹر آبادہیں ۔ لوگ دین سے غافل اور اخلاق سے ناواقف ہیں ۔ برائیں ہیں کہ ہر طرف پھیل رہی ہیں بدعات کا زور ہےباطل ادیان اور گمراہ فرقے ترقی کر رہے ہیں ۔ لوگوں کو تبلیغ کی جانا اور دین کی طرف لایا جانا آپ بے حد ضروری سمجھتے ہیں اور جو کہ واقعتا ضروری ہے۔ اس امت کا اصل منصب آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ دعوت دے اور لوگوں کو خدا کی طرف بلائے۔یہ دیکھ کرآپ دعوت کے مشن پر چل پڑتے ہیں ۔ مگر لوگوں کو دین کی جانب دعوت دینے سے پہلے یہ بھی تو ضروری ہے کہ آپ خود بھی دین کا کچھ علم رکھتے ہوں ۔اب ’دعوت‘ کی ضرورت کیلئے آپ’ علم‘ حاصل کرتے ہیں ۔اپنی معلومات بڑھاتے ہیں ۔جو پڑھتے ہیں مقدور بھر اس پر خود بھی عمل پیرا ہوتے ہیں اور پھر ساتھ ساتھ ’دعوت‘دینے لگتے ہیں اور اس سے خدا کی خوشنودی چاہتے ہیں ۔
یہاں بھی آپ رضائے الہی کے جُویا ہیں مگر’عمل‘کی پیدائش کیونکر ہوئی ‘یہ پھر بھی غور طلب ہے
یہاں دعوت اس بات کی محرک ہوئی ہے کہ آپ ’علم‘ حاصل کریں ۔ نہ کہ ’دین کا علم‘ اس بات کا محرک ہوا ہے کہ آپ ’دعوت‘ دیں ایک چیز جو غایت تھی وہ وسیلہ بن گئی ہے اور وسیلہ غایت بن گیا ہےبے شک خدا کی خوشنودی تب بھی آپ کا مقصود ہوئی اور اب بھی۔
’داعیہء عمل‘ یہاں پر بھی ایک اہم سوال ہے۔
یہاں خبریں پڑھ کر اور بعض درد دل رکھنے والے کالم نگاروں کے نالے سن کر‘یا پھر ویسے ہی معاشرے کاایک فعال فرد ثابت ہوتے ہوئےآپ بدعنوانی‘ معاشی ابتری‘سماجی ظلم اور بدامنی وغیرہ ایسے مسائل پر بے حد پریشان ہوجاتے ہیں اور جو کہ واقعتا اس معاشرے میں رہنے والے ایک فرض شناس مسلمان کو پریشان کردینے والی بات ہونی چاہیے ان سب امور پر جوکہ مسلم معاشرے کو آخری حد تک پسماندہ رکھنے کا باعث ہیں آپ کا دل کڑھتا ہےآپ اس صورتحال کی تبدیلی کےلئے کسی مہم کا آغاز کرتے ہیں یا پہلے سے جاری کسی مہم کا حصہ بنتے ہیں سیاسی عمل کے ذریعے‘ یا سماجی انداز میں ‘ یا عوامی سطح پر‘ یا پھر فکری یا ابلاغی حلقوں میں آپ اس مہم کو لے کر آگے بڑھتے ہیں البتہ یہاں کے بہت سے سیاسی یاابلاغی یا سماجی رحجانات کے برعکس‘ آپ کو اس قدر دینداری بھی نصیب ہوئی ہے کہ آپ اس کو ایک’قومی فرض‘ نہیں بلکہ ’دینی فرض‘ سمجھتے ہیں اور یہ سب محنت آپ لوجہ اللہ کرتے ہیں ۔
یہاں بھی آپ کا مقصدنیک ہونے میں کچھ شک نہیں ۔آپ کی نیت یقینا خدا کی رضا جوئی ہوگی مگراس مشن کی انجام دہی پرآپ کو تیارکس چیز نے کیا‘ اس پر سوچنا ہمارے نزدیک پھر بھی ضروری ہے۔
آپ دیکھتے ہیں کہ ملک میں اسلام نہیں اسلام کو ملک میں اقتدار دلوانا ایک بے انتہا نیک خواہش ہےالبتہ آپ اسی کو اپنا اصل نصب العین مانتے ہیں اس کےلئے ظاہر ہے کہ آپ کومنظم ہونا چاہئیے۔ آپ منظم ہوجاتے ہیں ۔ ’انقلاب‘ لانے کےلئے آپ کو تربیت کی ضرورت ہےآپ اپنے لئے ایک تربیتی نظام وضع کرتے ہیں اسلام کو اقتدار دلوانے کےلئے آپ کا خود بھی ایک اچھا مسلمان ثابت ہونا ضروری ہےآپ اس پر بھی سنجیدگی سے عمل پیرا ہوتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اس حوالہ سے آپ پربطور مسلمان کوئی حرف نہ آئے۔ انقلاب کی مشقتیں سہنے والوں کواعلیٰ درجہ کا نمازی ‘ شعائر اسلام کا ملتزم اور دینی فرائض کا پابند ہونا چاہیے جو خود دین کا پابند نہیں تو وہ دین کواقتدار کیسے دلا سکتا ہےاس بات کے پیش نظر آپ دین کی ایک اعلیٰ درجہ کی پابندی کےلئے کوششں ہوتے ہیں اور اس راہ کی بیشتر دشواریاں خوشی خوشی اور اس امید میں برداشت کرتے ہیں کہ یہ انقلاب کی منزلوں میں سے ایک منزل ہے پھر انقلاب لانا ان لوگوں کا تو کام نہیں جو خود ہی اسلام سے ناواقف ہوں ‘ یہ بات آپ کے اندر دین کے مطالعہ کیلئے ایک داعیہء عمل پیدا کرتی ہے یوں آپ اسلام کے بہت سے امور کے متعلق لٹریچر پڑھتے ہیں اور اس پر عمل پیرا بھی ہوتے ہیں اور نیت بھی محض خدا کی خوشنودی ہے۔
’عمل کا محرک‘یہاں پر بھی ایک غور طلب بات ہے۔
غرض ’دینی کام‘ کے کئی ایسے نمونے آپ خود بھی ذہن میں لاسکتے ہیں جن میں ’دوافع‘ اور ’بواعث‘ کا معاملہ قابل غور ہوسکتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلاشبہ یہاں ‘یعنی اس دور اور اس معاشرے کے اندر‘ ایک وسیع معنی میں جہاد فرض ہےدعوت کے میدان میں ‘سیاست کے شعبہ میں ‘عسکری میدان میں ‘سماجی محاذپہ‘ تعلیم‘ ابلاغ‘ ادب ‘ اصلاح‘ امر بالمعروف ونہی عن المنکر غرض ہر ہر میدان میں ایک سرتوڑ محنت ہونا باقی ہے۔ اور بلاشبہ ان میدانوں میں کی گئی محنت خدا کو خوش کرنے کا بہترین ذریعہ ہوسکتی ہے اور بلاشبہ اس بات کی بھی آدمی کے لئے بھر پور گنجائش ہے کہ وہ عمل کے کسی ایک خاص شعبہ کو ہی اپنی شدید ترین سرگرمی کےلئے اختیار کرلے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کے بہترین جوہر زیادہ سے زیادہ حد تک وہاں دکھا سکےیوں بھی اسلام میں یہ فرض کفایہ کا خوبصورت تصور ہے ہی انسانی صلاحیتوں کے اس تنوع کو برقرار رکھنے اوراس سے بھرپور فائدہ لینے کےلئے۔
اور بلاشبہ خدا کےلئے تجرد حاصل کیا جانا ایسے کسی بھی عمل میں ازحد مطلوب ہےخدا کے سوا کسی اور صلہ اورستائش سے آخری حد تک بیگانہ ہوجانا اور محض خدا سے ہی اجر پانے کی تمنا کرنا ایسے ہر عمل میں ہی ضروری ہے تاکہ جس روزاعمال تلیں انسان کووہ عمل اپنے نامہء اعمال میں پڑا نظرآئے
ان سب باتوں کے باوجود جو بات ابھی باقی ہے اور جس کا یقینی بنایا جانا بے حد ضروری ہے وہ یہ کہ انسان کا وہ عمل ایمان کے اس شجر سے ہی برآمد ہو جو کہ دین کی اصل بنیاد اور حدیث معاذ کی رو سے ”راس الامر“ ہے۔
عمل کو سب سے پہلے عین وہ حیثیت دے دینا جس میں وہ خدا کو مطلوب ہے اور عین اس ترتیب میں لے آنا جو کہ دین کا مقصود ہے اصل ’عمل‘ ہے ’اخلاص نیت‘ دراصل اس سے ایک علیحدہ چیز ہے عمل کا درست اور ’موافق سنت‘ ہونا الگ مطلوب ہے اور اس کا محض خدا کو پانے کی نیت سے ادا ہونا ‘ الگ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’سنت‘ کا مفہوم بھی کثیر لوگوں کے ہاں اصل میں بہت محدود ہوگیا ہےاس کا دائرہ بعض شعائر عبادت تک ہی سمجھ لیا گیا ہے عمل کا ’مطابق سنت ‘ ہونا ہمارے یہاں خاص نماز‘ وضو اور اذکار و اوراد وغیرہ کے معاملہ میں ہی زیربحث آتا ہے بلکہ یہاں اس موضوع پر معرکے تک ہوجاتے ہیں البتہ زندگی کے باقی بے شمار امور ایسے ہیں جن کو ’سنت کی مطابقت‘ کے حوالے سے دیکھا جانا بہت سے دینداروں کے نزدیک شاید باعث تعجب ہو۔
پس ضروری ہے کہ سنت کا مفہوم ہی پہلے ذہنوں کے اندر درست کیا جائے۔
’سنت‘ ہمارے یہاں لوگ اس چیز کو سمجھتے ہیں جو دین میں آئی ہو مگر اس کا درجہ ’فرض‘ تک نہ پہنچتا ہو! یا یہ کہ ’سنت‘دین کے کچھ مخصوص اعمال کی ادائیگی کا ایک مسنون طریقہ ہے! چنانچہ جب آپ سلف کے ذکر کردہ اس اصول کو لوگوں کے ذہن نشین کراتے ہیں کہ:”اعمال کی قبولیت کی دوشرطیں ہیں : عمل کا موافق سنت ہونا اور عمل کا خدا کی خاطر ہونا“ تولوگ قبولیت عمل کی اس پہلی شرط کا دائرہ بہت ہی محدود سمجھ لیتے ہیں جبکہ اس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔
بلکہ واقعہ تو یہ ہے کہ لوگوں کے نزدیک پہلے ’عمل‘ کا مفہوم ہی محدود ہے ‘ اور جو کہ خاص ’عبادات‘میں محصور ہے اس پر پھر ’سنت‘ کے مفہوم کا محدود ہونا اس موضوع کو اور بھی محدود کر دیتا ہےنتیجتاً ’قبولیت‘ کی ساری بحثیں یہاں چند ہی موضوعات میں محصور ہوجاتی ہیں ۔
’سنت‘ کی یہ تعریف کہ یہ دین کا وہ حصہ ہے جوکہ فرض کے درجہ کو نہیں پہنچتا‘ علوم دین کے ایک خاص شعبہ کی ایک اصطلاحی ضرورت ہے نہ کہ یہ ’سنت‘ کا وہ مفہوم ہے جس سے ہر عام وخاص کوواقف ہونا چاہیے۔
علوم دین کے مختلف شعبوں میں بسا اوقات ایک ہی لفظ اصطلاحی طور پر مختلف مفہوم دے سکتا ہےاور اسی سے لوگوں کے ہاں ایک خلط پیدا ہوجاتاہے ۔
’سنت‘ کی ایک تعریف وہ ہے جو علم حدیث کی ضرورت ہے اور اس کی رو سے سنت ہر وہ بات ہے جو رسول اللہ کے حوالہ سے منقول ہوئی ہے خواہ وہ کوئی قول ہے یا فعل یا تقریر یا صفت چنانچہ علم حدیث کی بحثوں میں اور بسا اوقات اصول فقہ کی بحثوں میں سنت کا مفہوم قرآن کے بالمقابل آتا ہے‘ قطع نظر اس بات کے کہ رسول اللہ سے منقول وہ بات فرض ہے یا سنت یا مباح یا حتی کہ اس میں رسول اللہ کسی بات کو حرام یا مکروہ قرار دے رہے ہوں اس تعریف کی رو سے سنت علم دین کا وہ حصہ ہے‘جو قرآن نہیں سنت کی یہ تعریف علم حدیث وغیرہ میں ہی ہماری ضرورت ہے نہ کہ سنت کا یہ کوئی مطلق حوالہ ہے۔
’سنت‘ کی ایک تعریف وہ ہے جو فقہ پڑھتے ہوئے ہمیں اختیار کرنا پڑتی ہے۔ اس کی رو سے ’سنت‘ کا مفہوم فرض یا ’مباح‘ کے بالمقابل آتا ہے ایک بات کا دین میں مستحب یا مستحسن ہونا رسول اللہ کے قول یا فعل وغیرہ سے ثابت ہو البتہ اس کے کبھی ترک کردئیے جانے پرخدا کی جانب سے پکڑ ہوجانے کا اندیشہ نہ ہو تو فقہی اصطلاح میں وہ سنت ہے اس استعمال کا دائرہ ظاہر ہے کہ فقہی مسائل ہیں نہ کہ ’سنت‘ کا یہ کوئی عمومی مفہوم ہے۔
’سنت‘ کی پھر ایک تعریف وہ ہے جو کہ ’اصول دین‘ کے علم میں اختیار کی جاتی ہے اس کی رو سے سنت کا مفہوم ’بدعت‘ کے بالمقابل آتا ہےدین کے وہ سب امور جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے دو اور دو چار کی طرح ثابت ہیں اور جن پر کہ صحابہ کی جماعت پائی گئی ‘ سب کے سب سنت کہلاتے ہیں خواہ وہ فقہی اصطلاح میں ’قرآن‘سے ثابت ہوتے ہوں یا’سنت‘ سے۔
’سنت‘ کے اس مفہوم میں سب سے پہلے عقائد (دین کے بنیادی حقائق) آتے ہیں اور پھر شعائر و اعمال مانند فرائض و مستحبات وغیرہجب آپ ’اہل سنت‘کہلاتے ہیں تودراصل وہ اسی مفہوم کے لحاظ سے ہوتا ہے۔
اس کے بالمقابل’بدعت‘ سب سے بری وہ ہے جو ’عقائد‘ میں پائی جائےبلکہ علمائے اہلسنت کے اقوال کا تتبع کیا جائے تو لفظ ’بدعت‘ کا وہ اصل استعمال جس کی رو سے اہل بدعت ایک مسلم معاشرہ کا بدترین طبقہ باور ہوتے ہیں فی الواقع عقائد کے معاملہ میں ہےاعمال میں پائی جانے والی بدعت کا درجہ اس کے بہت بعد آتا ہے یہی وجہ ہے کہ علمائے سلف کے ہاں ’اہل بدعت‘ کا زیادہ تر اطلاق جہمیہ(معتزلہ)‘خوارج‘روافض اور مرجئہ وغیرہ اور پھر بعد ازں باطنیہ اور حلولیہ اور اتحادیہ وغیرہ ایسے فرقوں پر ہی ہوا ہے نہ کہ ان لوگوں پر جواعمال کے اندر بعض محدثات امور کا شکار ہوئے ہوں ‘گو بدعت جو بھی ہو گمراہی ہے البتہ اصول دین میں بدعت سب سے بڑی گمراہی ہے۔
اب چونکہ ہمارے ہاں ’مسائل‘ ہی زیادہ تر زیربحث آتے ہیں اپنے ہاں فقہ ہی زیادہ تر پڑھائی گئی ہے اصول دین کی تعلیم پر کوئی خاص محنت نہیں کرائی گئی خصوصاً عوام کو تو قریب قریب ان کی ہوا تک نہ لگنے دی گئی لہذا سنت کا بھی وہی مفہوم ذہنوں کے اندر پختہ ہوگیا ہے جو کہ صرف اور صرف علم فقہ کی ہی ایک اصطلاحی ضرورت ہےجبکہ ضروری یہ تھا کہ ذہنوں کا اصل سانچہ اصول دین کا تیار کردہ ہوتا نہ کہ فقہ کا یا علوم دین کی کسی ایک فرع کاایسا ہوتا تو ’سنت‘ کا وہی حوالہ سب سے زیادہ سمجھ آتا جو کہ ’اصول دین‘ کا تقاضا ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں بہت کم لوگ بتا سکتے ہیں کہ جب وہ اہل السنت والجماعت کہلاتے ہیں تو اس سے دراصل کونسی ’سنت‘مراد ہوتی ہے اور کونسی جماعتبلکہ یہی سبب ہے کہ بہت سے لوگ اب اس کو ایک ’فرقہ وارانہ‘ لفظ اور’تمییز‘کےلئے ایک غیر ضروری حوالہ بھی سمجھنے لگے ہیں !
بہرحال سنت سے مراد دین کے وہ اصول اور فروع ہیں اور دین کے اصول و فروع پر چلنے کا وہ طریقہ ہے جو رسول اللہ سے اس امت کو ملا اور جس پر صحابہ کی جماعت پائی گئی اور جس کی بعد والوں کو باقاعدہ تاکید کی جاتی رہی اور جس سے مفارقت اختیار کرجانا شدید خطرے کی بات ہےآدمی کا اس راہ پر پایا جانا اور اس راہ کے معالم(سنگ ہائے میل) کا بار بار پوچھتے اور پتہ کرتے رہنا بے حد ضروری ہےکیونکہ ’چلنے‘ کے معاملے میں رفتار سے زیادہ جو بات فکرطلب ہے وہ یہ کہ آدمی کے قدم کس راہ میں اٹھتے ہیں سنت یا بدعت؟
سنت اپنے اس مفہوم میں جس میں انسانی زندگی کا ہر معاملہ آجاتا ہے اور بدعت اپنے اس مفہوم میں جو انسانی زندگی کے کسی بھی معاملہ میں پائی جاسکتی ہے
’سنت‘ کا یہ مفہوم جب آپ ذہن نشین کرلیتے ہیں تب ہی آپ کو سلف کا یہ اصول صحیح معنی میں سمجھ آسکتا ہے کہ:”عمل کی قبولیت کی خدا کے ہاں دو شرطیں ہیں :ایک اس کا سنت کے موافق ہونا اور دوسرا‘ خدا کےلئے ہونا“۔ ’عقیدہ‘ ہے تو تب۔ ’سلوک‘ہے تو تب۔ ’فکر‘ ہے تو تب۔ ’نماز‘ ہے تو تب۔ ’دعوت‘ ہے تو تب۔ ’تحریک‘ ہے تو تب۔ ’سیاست‘ ہے تو تب اور ’اصلاح معاشرہ‘ ہے تو تب۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب ہم اپنے اسی موضوع پر واپس آجاتے ہیں جس پر گفتگو کا آغاز ہوا۔ عمل کو عین وہ شکل دے دینا۔ عمل کو عین اس حیثیت اور ترتیب میں لے آنا جو کہ ’دین‘ اور ’سنت‘ کا مقصود ہے‘ اس کو ’دین کا عمل‘ بنا دینے کی پہلی شرط ہے۔
’داعیہء عمل‘ کی بابت بھی کیا ہمیں دین سے یعنی’ سنت‘سے کوئی راہنمائی ملتی ہے؟
آپ کے عمل کا محرک ’حالات ‘ ہیں ؟ ’تاریخ ‘ ہے؟ ’امت کی موجودہ حالت‘ ہے؟ ’غلبہء کفار ‘ ہے ؟ بعض ’گمراہ فرقوں ‘ کا وجود ہے جن کو لاجواب کرنے کےلئے آپ کے خیال میں بہت کچھ کیا جانا ضروری ہے؟ آپ میں دافع عمل ’انقلاب‘ کےلئے پیدا ہوتا ہے؟یاپھر آپ کے عمل کا باعث خود دین کے حقائق کا استیعاب ہے؟
بے شک آپ کو یہ بہت معمولی فرق دکھائی دے مگرنشاط عمل کو ’سنت‘ سے برآمد کرنے کےلئے یہ ایک بے انتہا اہم سوال ہے
’عمل‘کی سنت ترتیب ہمارے نزدیک یہ ہے کہ انسان کا وحی کے ساتھ ایک گہرا مگر ایک قدرتی اور بے ساختہ تفاعل interactionہودین کے حقائق خود اپنے اندازمیں اور خود اپنی ترتیب سے اس کے ذہن کی تشکیل کریں اور وہاں سے اس کے ہاں ’عمل‘ کا ایک تصور جنم لے جس کو پوری طرح سامنے رکھتے ہوئے اور پھر اپنی صلاحیت اور استطاعت کو مدنظر رکھتے ہوئے اور پھر حاضر وقت حالات اور مواقع کی مناسبت سے آدمی اپنے لئے ‘ یا کوئی صاحب علم اس کےلئے ‘ اس فرض کا تعین کرے جس کو وہ جہاد کی جنس میں شمار کرسکے اور جس کے ذریعے وہ زمین میں خدا کے دین کو نصرت اور تقویت دے
پس لازم ہے کہ انسان کےلئے داعیہء عمل دین کے حقائق ہوں نہ کہ کوئی اور چیز آدمی ’عمل‘ تک پہنچے تو دین کے حقائق سے گزر کر پہنچے نہ یہ کہ ’عمل‘ پر آدمی کا ہاتھ پہلے پڑ جائے اور پھر اس کا تقاضا جان کر‘ بلکہ اس ’عمل‘ کی مناسبت سے جو کہ آدمی کو کسی وجہ سے پسند آگیا ہو‘ آدمی دین کے کچھ ’حقائق‘ کاعلم لے۔
آپ جس چیز کو دین میں یا دین کے اجتماعی فرائض میں اصل مان لیں گےاگر آپ دین کے حقائق میں گہرا اترنے سے پہلے یہ کام کرلیتے ہیں ‘تو پھرجب آپ دین بھی پڑھیں گے تودین میں سب سے نمایں چیز آپ کو وہی نظر آئے گیاپنے عمل کےلئے آپ اگر پہلے ہی کسی میدان کا شدومد سے انتخاب کرلیتے ہیں تو دین ۔۔۔تقریباًسارے کا سارا۔۔۔آپ کواسی کی تاکید کرتا دکھائی دے گایوں وہ چیز جو پہلے ہی کسی وجہ سے آپ کےلئے ہر بات سے اہم تھی اب جو آپ کو ذخیرہء دین میں سب سے ’نمایں ‘نظر آئے گی تو اس پر آپ کا اور بھی یقین پختہ ہوگایہاں تک کہ ہوسکتاہے وہی بات پھر آپ کو رسولوں کی بعثت کے پیچھے بھی کارفرما نظر آئےکتابوں کے نزول کاباعث بھی معلوم ہومقاصد شریعت کا لب لباب بھی دکھائی دے اور امت کے وجود کی غایت بھی
صرف یہی نہیں بلکہ جس کسی شخص کو نزول کتب اور مقاصد شریعت کے پیچھے وہی بات اس’جلی‘ انداز میں نظر نہ آئے اور امت کے وجود کی وہی اصل غایت معلوم نہ ہو تو کم از کم اس کےلئے آپ کو ’عذر‘ ڈھونڈنا پڑیں گے۔
کسی تصویر کو دیکھنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ پہلے سے قائم کردہ مقدمات کے بالکل بغیر آپ اس کو دیکھیں یہ ایک طبعی اور بے ساختہ انداز کا دیکھنا ہوگااس انداز سے آپ اس تصویر کو بغور دیکھیں گے اوراس کو ویسے کا ویسا ہی اپنے ذہن میں بٹھائیں گے تو اس کا ایک پورے کا پورا تاثر full imageآپ کے پردہء ذہن پر اُبھرے گاگو اس کے کچھ خاص حصے آپ کےلئے زیادہ باعث توجہ ہوں ‘مگران حصوں کا نسبتاً زیادہ باعث توجہ ہونا بھی آپ کےلئے ایک قدرتی اور بے ساختہ عمل ہوگا۔
البتہ اس تصویر کو دیکھنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اس میں آپ کوکسی چیز کی ’تلاش‘ ہو۔ اس کی بابت کچھ مقدمات آپ نے پہلے سے قائم کرلئے ہوں اب اس صورت میں بہت امکان یہ ہے کہ اس ایک چیز کے سوا‘ جس کی آپ کو اس تصویر میں تلاش ہے‘تصویر سے باقی سب حصے آپ کو نسبتاًدھندلے لگیں اور آپ کے پردہء ذہن پر خودبخودوہ پس منظر میں چلے جائیں بلکہ اوروں کے بتانے پر ہی آپ کو محسوس ہو کہ ہاں یہ بھی وہاں ہیں !
اب یہ مقدمات اگر ’حالات‘ہیں تو ’دین اسلام‘ آپ کےلئے زیادہ تر’حالات‘ کی زبان بن جائے گایہ مقدمہ اگر ’دعوت‘ اور ’ تبلیغ‘ کی ضرورت ہے تو آپ کو دین ’دعوت ‘میں ہی محصور نظر آئے گایہ مقدمہ اگر ’قتال‘ ہے تو آپ کو قرآن کا بنیادی موضوع ’قتال‘ہی نظر آئے گا یہ اگر ’اسلامی حکومت کا قیام‘ ہے تو آپ کو بعثت انبیاءکی اصل غایت یہی معلوم ہوگییہ اگر’حقوق العباد‘ اور ’اصلاح معاشرہ‘ ہے تو آپ کو دین میں زیادہ تر اسی کے سبق نظر آئیں گےسو دین کا ’اصل کام‘آپ اسی بات کو جانیں گے اور اسی کو دین کا قریب قریب مرکز ثقل اور راس الامر مانتے ہوئے دین کے باقی امور کو ‘جنکی طرف ’لوگ‘ توجہ دلواتے ہیں اور آپ بھی دیانتداری کے باعث انکا ’انکار‘ نہیں کرتےان سب امور کو آپ اپنے اسی’اصل الاصول‘ کی نسبت سے ہی کہیں نہ کہیں فٹ کرنے کی کوشش کریں گے۔
انکار آپ واقعتا تصویر کے کسی بھی حصہ کا نہ کریں گے بلکہ ان کو بھی کسی نہ کسی حیثیت میں ’تسلیم ‘کریں گے البتہ ’اثبات‘ پورے شدومد سے آپ اسی بات کا کریں گے جس کو لاشعوری طور پر آپ اس تصویر کے ’اصل الاصول‘ کی حیثیت دیتے ہیں یہ بات خود بخود آپ کی دعوت اور اسلوب تخاطب میں نمایں نظر آئے گیاگرچہ آپ کو اس کا ادراک تک نہ ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلاشبہ یہ بات درست ہے کہ اگر آپ ایک طبعی انداز میں بھی دین کا فہم لیں گے تو‘اپنے دور اور حالات کے مناسب حال اپنے دینی فرائض کا تعین کرنے میں ‘ تب بھی آپ کا اجتہاد ایک دوسرے سے مختلف ہوسکتا ہےتب بھی آپ کا زور اور آپ کی ترکیز کچھ خاص فرائض پر کچھ دوسرے فرائض کی نسبت زیادہ ہوسکتی ہےواجبات کی تقدیم و تاخیر میں آپ کا نقطہء نظرتب بھی ایک دوسرے سے مختلف یا حتی کہ کسی حد تک متعارض ہوسکتا ہےاس میں ہرگز کوئی حرج کی بات نہیں اس کا سبب انسانی تنوع ہوسکتاہے جو کہ طبائع کے اندر بھی پایا جاتا ہے اور صلاحیتوں کے اندر بھی اور ملکہء تصور Preceptionمیں بھی پھر حالات اور مواقع اور امکانات اورمؤثرات کا اختلاف بھی ایک حد تک اس کا باعث ہوسکتا ہے
مگر اس صورت میں ہوگا یہ کہ فرائض دین کی بابت آپ کے اجتہاد یا آپ کے چناؤ کا یہ سب تنوع ایک ہی شجرسے پھوٹے گا اور وہ دین کی اصل اساس ہےدرخت کی شاخوں بلکہ پتوں اور پھولوں تک کے اندر ایک تنوع کا پایا جانا بلاشبہ درکار ہوسکتا ہے اور جس قدر تنوع ہونا چاہیے وہ بلاشبہ مطلوب رہے گامگرتنوع کے باوجود‘ اس صورت میں ‘ شاخوں کے مابین ایک یکسانیت بھی ہوگی’تنوع‘ اور ’یکسانیت‘ کا ایک بہترین اورمتوازن ترین امتزاج ہی دراصل ہماری ضرورت ہےاس صورت میں ہمارے’ شعبے‘ ایک دوسرے سے ٹکرائیں گے نہیں بلکہ ایک دوسرے کو مکمل کریں گے۔
یہ بات صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ ان شاخوں کو ایک بے ساختہ انداز میں اصول اسلام اور اصول سنت کے اسی شجرسے برآمد کروایا جائے اور ان کو ساری غذا مسلسل اسی شجر سے ہی مہیا کروائی جاتی رہے اور اس عمل میں ہرگز کسی وقت کوئی تعطل نہ آنے دیا جائے۔
پس اس عمل کی کامیابی کا سارا راز اسی شجر سے پیوستہ رہنے میں ہے جسے ہم نے اصول دین یا اصول سنت کا نام دیا ہےآپ کو اسی سے پھوٹنا ہے اور اسی سے پیوستہ رہنااور ’عمل‘کے تمام تر مرحلوں میں اپنی ساری نمو یہیں سے کروانی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دین کے اندرایک سابق کا لاحق ہو جانا اور ایک لاحق کا سابق کی حیثیت اختیار کرجانا دراصل دین کی اسی حقیقت کو نظراندازکردینے کے باعث ہوتا ہے۔
بے شک ایک سابق بھی دین کے اندر اور لاحق بھی دین سے خارج نہیں مگر ایک چیز اگر دوسری کے اوپر فٹ بیٹھتی ہے تو اس کو نیچے نہیں کیا جاسکتاکپڑے کی بُنتی یا دیوار کی چنائی‘بہرحال ایک ترتیب چاہتی ہے اور ایک طبعی اٹھان۔
اب دیکھیے ہماری ترتیب کیونکر الٹتی ہےیہ محض ایک مثال ہے آپ اسی پر سب مثالوں کو قیاس کرسکتے ہیں ۔
آپ ’دعوت‘ کی ازحد اہمیت کے قائل ہیں کیونکہ آپ سمجھتے ہیں نبینے کام کا آغاز ’دعوت‘ سے ہی کیا تھاآپ کے خیال میں جگہ جگہ درس‘تقریریں ‘خطبے اور پروگرام کئے جانا اور لٹریچر پہنچایا جانا دین کاایک نہایت اہم کام ہے۔
اب آپ دعوت دینا چاہتے ہیں آپ دیکھتے ہیں اس کےلئے ضروری ہے کہ خود آپ کے پاس علم ہوآپ علم حاصل کرتے ہیں دیانتداری کا تقاضا ہے کہ پہلے آپ خود بھی تو باعمل ہوں اسلئے آپ باعمل بننے کی کوشش کرتے ہیں حتی کہ کچھ بھی شخصی تقاضے اورضرورتیں ہوسکتی ہیں آپ ان سب کو بروئے کار لانے پر مصروف عمل ہوجاتے ہیں ان میں سے کوئی کام بھی ظاہر ہے کہ ایسا نہیں جو اپنی اپنی جگہ دین میں نہ آیا ہودعوت بھی دین میں آتی ہےعلم کے حصول کی فرضیت بھی دین میں ہےباعمل ہونے تاکید بھی۔ دعوت کے اگر کچھ اور تقاضے بھی ہیں تو ان کا بھی دین سے ثبوت مل سکتا ہےاس تصویر میں آخر غلطی کہاں ہے؟
ہمیں بہت امید ہے کہ آپ اپنے اس عمل پر خدا کے ہاں ماجور بھی ہوں گے البتہ معاملے کی ترتیب آپ نے یہاں بالکل الٹ دی ہےوضو کی ترتیب الٹ جانے پرآپ ایک اچھی خاصی سیر حاصل بحث کرسکتے ہوں گے مگر اس طرح کے معاملات پر شاید بہت کم کبھی آپ کی توجہ جاپائی ہوگی۔
ایک سابق اور لاحق کا اپنی ترتیب بدل لینا کیا ایک غورطلب مسئلہ نہیں ؟
آپ دین اس لئے سیکھیں گے کہ یہ ’دعوت‘ کی ضرورت ہے؟؟؟
اپنے دین کے حقائق تو کچھ ایسے اعلیٰ اور برگزیدہ حقائق ہیں کہ ان کا علم لیا جانا اور ان کو دل میں جاگزیں کیا جانا فی نفسہ مطلوب ہے نہ کہ کسی چیز یا کسی مقصد کی نسبت سے بے شک وہ مقصد ’دعوت‘ یا ’قتال‘ یا ’دین کا قیام‘ کیوں نہ ہو اس فرض کو یہ حیثیت نہ دینا کہ یہ آپ اپنے اندر مقصود ومطلوب ہو‘ اس کے ساتھ صریح زیادتی ہے بے شک اس کا عنوان دین کا کوئی بھی فرض کفایہ کیوں نہ ہو۔
پس سب سے پہلے تو دین کے حقائق ہی کو سمجھا اور دل میں بٹھا یا جانے کےلئے ایک غایت درجہ کا تجرد چاہیےایساتجرد جو آپ کو ہر مقصد اور ہر منزل سے بے نیاز کردےدین کے حقائق کا علم‘ یہ آپ ہی اپنی غایت ہےکوئی فرض کفایہ (ماننددعوت‘جہاد‘اصلاح‘جہادوغیرہ) اس کی غایت نہیں ہوسکتاالبتہ یہ ہر فرض کی غایت ہے اور اسکی یہی حیثیت ہی اسلام کے جملہ فرائض میں درحقیقت مطلوب ہے آپ نے اس کو یہ حیثیت نہ دی تو اس کا مول ہی کیا لگایا؟
پھر عمل یعنی خدا کی بندگی فی نفسہ مطلوب ہے‘ نہ کہ ’دعوت‘ کا کوئی تقاضا یا ’تنظیمی‘ قواعد وضوابط یا کوئی ’جماعتی‘ کاروائی
خدائے وحدہ لاشریک کو کیا جانے والا ایک سجدہ جو یہ خاک کا پتلا زمین کے سینے پر ثبت کرتا اور فرشتوں کے پاکیزہ اقلام سے ان کے برگزیدہ اور لافانی صحیفوں میں یہاں درج کرواتا ہےیہ پورا جہان اس ایک سجدے کا مول نہیں کوئی چیز اس کی غایت نہیں ‘سوائے اس ذات کے جس کو یہ سجدہ کیا گیا
کوئی تنظیمی پروسیجر یا دعوتی ضرورت پھر اس کی غایت یا اس کا محرک کیونکر ہو؟ دعوت یا انقلاب یا جہاد اس کا اپنا تقاضا ہو تو‘غایت نہیں بندگی کے عمل کو ایسے کسی مقصد کے حصول کا ایک ذریعہ یا ایک پیشگی ضرورت Pre-requisitقرار دیا جائے تو اس سے بڑی زیادتی اس کے ساتھ اور کیا ہوگی؟
’سابق‘ کا ’لاحق‘ بن جانا دراصل یہی ہےیوں انسان بندگی کے بہت سے اعمال کرتا ہے مگر بندگی کاوہ لطف نہیں پاتا جس کےلئے بندگی کے یہ سب افعال وجود میں آئے ہیں بندگی کے افعال بندگی کے شجر پر ہی آئیں توبندگی کا مزہ دے پائیں گےاس شجر کی کاشت میں لوگ بہت کم وقت صرف کرنے کے روادارہوتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دین کے حقائق کی جو ایک اپنی اہمیت ہے اس کا واضح ہوجانا اورواضح رہنا بے انتہا اہم ہےذہنوں میں اس کا دھندلا جانا ’منہج عمل‘ کی بابت ایک بڑے بحران کا سبب بنتا ہے
یہ ایک بے انتہا غلط مفروضہ ہے کہ قرآن کا ایک بڑا حصہ اورپھر رسول اللہ کی تعلیم کا ایک بڑا حصہ ’اساسیات دین‘ پر مشتمل ہے تو وہ محض اس لئے کہ قرآن کو اور رسول اللہ کو نبوت کازیادہ عرصہ ایک غیرمسلم معاشرے سے پالا پڑا رہا تھا لہٰذا ان غیر مسلموں کو ایمان کے بنیادی حقائق ہی کی تعلیم دی جانا اور یہی بات ان کے آگے بار بار دہرائی جانا ضروری تھاالبتہ جہاں ایک کلمہ گو معاشرہ ہواور جہاں لوگوں کو ایمان مجمل اور ایمان مفصل کی عبارتیں زبانی یاد ہوں اور اگر بالفرض کسی کو ’بھولتی‘ ہوں تو اس کو بھی تھوڑا ساوقت نکال کر یاد کروائی جاسکتی ہوں اور ان کا ترجمہ وغیرہ پڑھایا جاسکتا ہو‘
وہاں کام کی ترکیز پھر دین کی اور اور باتوں پرہونی چاہیےخصوصاً دین کے ان امور پر ہونی چاہیے جن کو رسول اللہ نے بعد ازں پایہءتکمیل کو پہنچایا۔
یہ واقعتا ایک بے انتہا غلط مفروضہ ہے اور ایک ٹھوس اور بنیادی کام کی ساری ترتیب کو الٹ دینے کا سببدینی عمل کا بے جان اور بے سمت رہنادراصل اسی فکر کا شاخسانہ ہے۔
یہ مفروضہ اگر درست ہو تو قرآن کا ایک اتنا بڑا حصہ قیامت تک تلاوت کیا جاتا رہنا اس امت پر فرض کیوں ہوتا؟ غیر مسلموں کو داخل اسلام کرنے کےلئے تو کوئی ایک آدھ سورت بھی بہت کافی ہوسکتی تھی یا پھر چند سورتیں ہی اس بات کےلئے مخصوص کی جاسکتی تھیں کہ ’غیر مسلموں ‘ کو اسلام کی دعوت دینا ہو تو ان کو یہ یہ سورتیں پڑھائی یا ان کے سامنے تلاوت کی جائیں !
کیا آج کے دور میں ہم غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دینے کےلئے کچھ خصوصی لٹریچر تیار نہیں کرتے؟!
مگر قرآن میں ایمان کے یہ بنیادی مطالب اپنی تمام تر طوالت کے ساتھ پھر ان طویل مطالب کی قرآن میں یہ کثرت اور پھر ان کی یہ تکرار ایمانی مطالب کی اس کثرت اور تکرار سے پُر اس قرآن کو بار بار پڑھنے اور سمجھنے اور اس پر ایمان کی تجدید کرتے رہنے کی یہ تاکید حتی کہ قرآن کو ہی اپنا مونس و ہم نشین اور اپنا دستر خوان اور اپنی غذا اور اپنی شعوری نشوونما کاذریعہ بنا رکھنے کی ترغیب ایک مسلمان فرد اور معاشرے کودی جانا تو اپنے اندر بے شمار معانی رکھتا ہے۔
ایک مسلمان کو اس بات کا مکلف کیا جانا کیا اس بات کی واضح دلیل نہیں کہ اساسیات دین کا یہ بار بار کا سبق خاص اُسی کےلئے ہے؟!
اور پھر ‘جیسا کہ محمد قطب(حفظہ اللہ) اپنی بعض کتب میں اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں ‘ یہ مفروضہ اگر درست ہوتا تو اساسیات دین کا یہ باتکرار سبق مدنی سورتوں میں آخر رک کیوں نہ گیا ‘ جہاں کا معاشرہ ایک اسلامی معاشرہ تھا؟نہ صرف اسلامی معاشرہ تھا بلکہ اساسیات دین پر ایک بہترین انداز سے استوار کیاگیا معاشرہ تھاپھر ایک ایسے اعلیٰ اور مثالی معاشرے کو بھی اساسیات دین کے عین وہی اسباق دیئے جانا کیا ایک غور طلب بات نہیں ؟
مسلم فرد اور معاشرے کی جان دراصل اسی بات کو جان لینے میں تو ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پس ایک فرد کو تیار کرنے کے معاملہ میں اور اس میں عمل کی جوت جگانے کے معاملہ میں اور اس کو دین کا کوئی مشن سونپ دینے کے معاملہ میں ‘ ہم دیکھتے ہیں کہ ‘رسول اللہ کا ذریعہ قرآن تھا اور دین کے حقائق کو نفس انسانی میں گہرا اتاردینا ۔
کسی ’عمل‘ کی دعوت دی جانا رسول اللہ سے ثابت نہیں سوائے ’ایمان‘ کی دعوت کے۔
’دعوت ‘ ایمان کی اورایمان کے بنیادی حقائق کی دی جائے گی پھر باقی سب امور کی اپنے اپنے وقت پر ’ہدایت ‘ کی جائے گی باقی دین کا جو کوئی فرض ہوگا خدا اور رسول کی جانب سے اس کا’حکم‘ دیا جائے گاوہ اصلاح ذات البین کا معاملہ ہویااصلاح معاشرہ کا فرضدعوت پر لوگوں کو لگائے جانے کی بات ہو یا قتال پر یا دین کے کسی اور اجتماعی فرض پر۔
البتہ ’دعوت‘ ایمان کی اور ایمان کے بنیادی حقائق کی دی جائے گی اور دی جاتی رہے گی اور کبھی کسی موقعہ یا مرحلہ پر نہ رکے گیکیونکہ اسی میں اپنا سارا وجود مضمر ہےدین کے باقی سب اعمال اور افعال اور فرائض اسی نسبت اور اسی حوالہ سے آئیں گے اور اسی ’حوالہ ‘ کی ایک مسلم فرد اور معاشرہ کو ضرورت پڑے گی سب اجتماعی واجبات اسی کے تقاضا کے طور پر آئیں گے نہ کہ یہ خود ہی کسی واجب کا تقاضا بنا دیا جائےبلکہ کسی عمل کا ’عمل‘ ہونا ممکن ہی تب ہوگا جب وہ اسی کی ایک شاخ بن کر پھوٹے۔
نہایت ضروری ہے کہ آپ اپنے دور میں جب اسلام کا کوئی فرض انجام دینے کھڑے ہوں تو دین کے وہ حقائق ہی آپ کے اندر ایک بے ساختہ انداز میں بولیں جو کہ قرآن اوررسول اللہ کی تعلیم کا ایک بہت ہی بڑا اور قابل ذکر حصہ ہیں ۔
دین کو نصرت دینے کےلئے آپ کے مشن کی ہزار صورتیں ہوسکتی ہیں مگر آپ کے اس مشن کواپنی تمام تر انفرادیت اور اپنے تمام تر تنوع کے باوجود عین اسی حقیقت اسلام کی زبان ہونا چاہیے جس کو انبیاءکے مشن میں زیادہ سے زیادہ جلی کیا گیا ہے۔
اس کے سوا کوئی اور چیز‘ خواہ وہ ’حالات‘ ہیں یا ’تاریخ ‘ ہے یا معاشرے کی ’زبوں حالی‘ ہے یا قوم کی’ پسماندگی ‘ہے یا ’کفار کا غلبہ و اقتدار ‘ ہے یا ماحول میں پایا جانے والا ’ فساد‘ اور ’انحراف‘ ہے اور جو کہ ’دعوت وتبلیغ‘ کا متقاضی ہے کوئی چیز ایسی نہ ہونی چاہیے جو اگر آپ میں اور آپ کے اختیار کردہ مشن میں بولے تو اس کا آہنگ’موضوعات ایمان‘ پر حاوی ہوجائے۔
یہ بات آپ کے ہاں پائے جانے والے ’داعیہء عمل‘ اور ’باعث تحریک‘ کے ساتھ براہ راست تعلق رکھتی ہے۔
اس موضوع کے کچھ پہلو ہم آئندہ کسی وقت بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔


 
Top