• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

”سیکولرزم:مباحث اور مغالطے“بہت اچھی کتاب ہے، مگر....؟

غزنوی

رکن
شمولیت
جون 21، 2011
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
659
پوائنٹ
76
”سیکولرزم:مباحث اور مغالطے“بہت اچھی کتاب ہے، مگر....؟


پاکستان کے قیام کے لئے برسوں تک جدوجہد ہوئی، لاکھوں، کروڑوں مسلمان اِس جدوجہد میں شامل ہوئے۔ قائدین نے جو سوچ بچار اور جو فیصلے کئے وہ ڈھکے چھپے نہیں تھے۔ وہ سب کچھ آج بھی ریکارڈ پر موجود ہے۔ نہ اسے آسمان نے اچک لیا، نہ اسے زمین نگل گئی۔ وہ سب کچھ کھلی کھلی گواہی دیتا ہے اس حقیقت کی کہ مسلمانوں نے یہ ملک اس لئے قائم کیا تاکہ وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگیاں استوار کر سکیں۔ محض نماز، روزہ کا قیام مقصود نہیں تھا، بلکہ نصب العین یہی تھا کہ معیشت، معاشرت، سیاست اور تعلیم میں اسلام کی پیروی کی جائے، لیکن آزادی کے بعد کچھ لوگوں نے عجیب روش اختیار کر لی۔ وہ کہنے لگے پاکستان کے قیام کا مقصد فقط اتنا تھا کہ کسی طرح مسلمان اپنا قومی وجود برقرار رکھ لیں۔ اِس مقصد کے حصول کے بعد اب دین کو ایک طرف رکھتے ہوئے جیسے چاہیں قانون سازی کریں۔ پاکستان کا مقصد کیا، لا الہ الا اللہ کا سلوگن آزادی کے بعد گھڑا گیا تھا۔


مذکورہ بالا نقطہ نظر رکھنے والے لوگ ماشااللہ مسلمان ہی ہیں، لیکن مسلمان ہونے سے زیادہ اپنے آپ کو سیکولر کہلوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ یہ تو درست ہے کہ سیکولر طرز فکر رکھنے والا شخص ضروری نہیں دین و مذہب کا منکر ہو، وہ کسی بھی مذہب کا نام لیوا ہو سکتا ہے۔ البتہ وہ اجتماعی زندگی میں اللہ اور رسول کی اتباع لازمی نہیں سمجھتا۔ وہ دین و مذہب کو مسجد یا چرچ تک محدود سمجھتا ہے۔ جیسے کہ یورپ میں مارٹن لوتھر (1483-1545ئ) کی تحریک اصلاح کلیسا کے نتیجے میں مذہب کا رشتہ عملی زندگی سے ٹوٹ گیا۔ اس حد تک ٹوٹ گیا کہ یورپی اقوام نے بُرے سے بُرے افعال کو قانون سازی کر کے جائز کر لیا۔


یورپی اقوام نے اگر مذہب کو چرچ تک محدود کر دیا تو یہ ایسا کوئی غیر منطقی فیصلہ بھی نہیں تھا، کیونکہ عیسائیت کے پاس چند بنیادی عقائد اور اخلاقی اصول ہی تھے، وہ معاملات زندگی میں کوئی رہنمائی دینے سے قاصر تھی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زمانہ ¿ نبوت تین سال سے زیادہ نہیں تھا۔ الٰہی تعلیمات کے مطابق معاشرے اور ریاست کی تعمیر کا مرحلہ ابھی دُور تھا، جن طبقوں کی بدعنوانیوں اور بے راہرویوں کو ہدف تنقید بناتے تھے، وہ طبقے ان کی جان کے در پے ہو گئے، حتیٰ کہ انہیں پھانسی لگوانے پر تُل گئے۔ عیسائیت کے مقابلے میں اسلام کی حیثیت بالکل مختلف تھی۔ اسلام صرف عقائد و عبادات ہی کا مجموعہ نہیں، وہ زندگی کے ہر دائرے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ علمائے کرام جدید زندگی کے مسائل کو پوری طرح سمجھ کر اُن کا اسلام کی روشنی میں حل پیش کریں، لیکن انہوں نے تو صدیوں سے سوچ اور فکر کے دروازے بند کر رکھے ہیں۔ اُن کے ایک حصے نے برطانوی دور میں بیرونی تسلط کے خلاف جدوجہد ضرور کی۔ تحریکیں بھی چلائیں اور جیلوں میں بھی گئے۔ تحریک پاکستان میں بھی بھرپور حصہ لیا۔ انہوں نے سیاست دانوں کے ساتھ مل کر قوم کو ایک ایسی مملکت کا خواب دکھایا، جہاں استحصال نام کی کوئی چیز نہیں ہو گی۔ ہر معاملے میں عدل و انصاف کیا جائے گا، لیکن جب حصول مملکت کے بعد اس کی تعمیر و ترقی کا مرحلہ آیا، تو سیاست دانوں کے ساتھ وہ بھی سارے وعدے وعید بھلا بیٹھے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کیا کہ باہم مل بیٹھ کر 22نکات طے کر دیئے اور پارلیمنٹ سے قرار داد مقاصد پاس کروا لی۔


قیام پاکستان کے بعد فوری مسئلہ جاگیرداریوں اور زمینداریوں کا تھا۔ اشتراکی فکر سے متاثر لوگوں نے ان کے خاتمے کا مطالبہ اٹھایا تو جاگیرداروں نے اپنے آپ کو ”انجمن تحفظ حقوق زمینداراں تحت الشریعہ“ کی صورت میں منظم کر لیا۔ اب یہ تو علماءکا فرض تھا کہ وہ پوچھتے کہ یہ کون سی شریعت ہے جو تمہاری انگریزوں کی بخشی ہوئی جاگیروں کو تحفظ دیتی ہے۔ علماءاگر زمینداریوں کے خلاف منظم و متحد ہو جاتے، تو بعید نہ تھا اس ظالم ادارے سے قوم کو نجات مل جاتی، لیکن نہ علماءنے جاگیروں کے ڈیروں پر ڈھور ڈنگروں کی طرح کام کرنے والے لاکھوں مزارعین کی خبر لی اور نہ ملوں، فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے حقوق کی خاطر آواز اُٹھائی۔


المیہ یہ ہوا کہ جس طرح سیاست دانوں نے جمہوریت کا مطالبہ کرتے کرتے بالآخر افسروں کے دروازوں پر جبیں سائی کا وطیرہ اختیار کر لیا، اسی طرح علماءنے بھی اسلامی نظام کے نعرے بلند کرتے ہوئے فوج کی چھتری تلے اقتدار کے مزے لوٹنے کی روش اختیار کر لی۔یہ ماننا تو مشکل ہے کہ انہیں اتنی سادہ سی حقیقت کی خبر نہ ہو کہ جب حکمران فوجی افسر ہوتا ہے تو پھر مرضی اسی کی چلتی ہے۔ وہ اپنا طبقاتی مفاد سب سے پہلے سوچتا ہے، چنانچہ ایسے طرز حکومت تلے قوم کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ہو سکتا، تو آج صوبہ خیبر پختونخوا جنت نظیر ہوتا۔ وہاں چار پانچ سال تک باگ ڈور علماءکے ہاتھوں میں رہی اور مرکز میں اپوزیشن لیڈر ہونے کا اعزاز بھی انہی میں سے ایک صاحب کو حاصل رہا۔ اُن کی سوجھ بوجھ کا یہ عالم تھا کہ وہ بڑی سادگی کے ساتھ فوجی ڈکٹیٹر کی باتوں میں آ گئے اور اُن کے غیر آئینی اقتدار کو سند ِ جواز بخش دی۔ اگر اسلام اور جمہوریت کے ساتھ دل سے مخلص ہوتے تو کبھی اِس حرکت کا ارتکاب نہ کرتے۔ بعد میں قوم نے اُن کی اِس ”بھول“ کا بہت کڑوا نتیجہ بھگتا۔اسلام، اسلام کی مالا جپنے والے سیاست دانوں اور علمائے کرام کی بے حسی، مصلحت اندیشی اور نامعقولیت کی بنا پر سیکولر حلقوںکو اپنی تحریک آگے بڑھانے کا موقع مل گیا ہے۔ یہ حلقے قائداعظم ؒ کو سیکولر طرز فکر رکھنے والے رہنما کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ وہ قائداعظم ؒ کی تحریک پاکستان کے دوران کی گئی تمام تقاریر اور بیانات ایک طرف رکھ کر11اگست والی تقریر کا راگ الاپ رہے ہیں۔ طرفہ تماشا ملاحظہ فرمائیں کہ قیوم نظامی صاحب اپنی کتاب ”قائداعظم ؒ بحیثیت گورنر جنرل“ میں قائد کی آزادی سے پہلے اور بعد کی درجنوں تقریروں کے ایسے اقتباسات پیش کرتے ہیں، جن میں وہ اسلامی اصولوں کے مطابق ریاستی نظام کو چلانے کا عزم ظاہر کرتے ہیں، لیکن نظامی صاحب پھر بھی اصرار کرتے چلے جاتے ہیں کہ قائداعظم ؒ دین کو انسان کا ذاتی مسئلہ سمجھتے تھے، اس سے اجتماعی زندگی کے مسائل میں رہنمائی لینے کے قائل نہ تھے۔


اہل دانش کے جس حلقے کو اصرار ہے کہ پاکستان اسلام کی خاطر وجود میں آیا تھا اور اس کی بقا اسلامی اصولوںہی کی پیروی میں ممکن ہے، تو یہ موقف سو فیصد درست ہے۔ اس حلقے کی طرف سے ”سیکولر:مباحث اور مغالطے“ نامی جو کتاب آئی اس میں اسی مو¿قف کو زبردست دلائل کے ساتھ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کے فاضل مصنف جناب طارق جان نے سیکولر سٹوں کا منہ توڑ کر رکھ دیا ہے۔ اُن کا طرز استدلال اتنا مضبوط اور محکم ہے کہ اسے جھٹلانا ممکن نہیں۔ خاص طور سے سیکولرسٹ اورنگزیب عالمگیر ؒ، علامہ اقبال ؒ اور قائداعظم ؒ کے حوالے سے جو دُور کی کوڑیاں لاتے ہیں، اُن کی حقیقت پورے تاریخی پس منظر کے ساتھ اُجاگر کی ہے۔ جی تو چاہتا تھا کہ زیر نظر کتاب کے مندرجات کا تفصیل سے جائزہ پیش کروں اور بیان کے حسن سے لے کر استدلال کی محکمی تک ہر پہلو پر سیر حاصل تبصرہ کروں، لیکن اس ارادے پر ایک سوال کرنے کی بے چینی بار بار غالب آ جاتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ آخر اس قسم کے نظریاتی مباحث سے بات آگے بھی بڑھے گی یا نہیں؟ اس سے پہلے1967ءسے لے کر 1970ءتک ملک گیر پیمانے پر جو اسلام اور سوشلزم کی لڑائی ہوئی اس کا کیا نتیجہ نکلا تھا؟ بہت سے لوگوں کو وہ ہنگامہ خیز زمانہ یاد ہو گا۔ یوں لگ رہا تھا کہ پاکستان میں اشتراکی انقلاب آیا ہی چاہتا ہے۔ مسجدوں کو تالے لگ جائیں گے، لاکھوں لوگ تہ تیغ ہو جائیں گے اور مقدس صحائف کی اشاعت پر سخت پابندیاں لگ جائیں گی، ہر طرف کمیونزم کے پھریرے لہرائیں گے۔ یہ تو بعد میں کھلا کہ حکمران طبقات نے دانستہ طور یہ شوشہ چھوڑ رکھا تھا۔ وہ قوم کو نظریاتی بخار میں مبتلا کر کے خود اقتدار پر قابض رہنا چاہتے تھے، ورنہ فیض،فراز، حبیب جالب اور جوش کی چند انقلابی نظموں سے تھوڑا ہی سوشلسٹ انقلاب برپا ہو جانا تھا۔ آج ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہمارا دانشور طبقہ اسلام اور سیکولرزم کی نظریاتی بحث کا بازار گرم کرنے کی بجائے قوم کو ان قوتوں سے باخبر کرے، جو پاکستان کے فلاحی ریاست بننے کی راہ میں مزاحم ہیں۔ ان قوتوں کے ہتھکنڈوں کو بے نقاب کرے کہ وہ کس کس طرح قوم کے اندر انتشار اور افتراق برپا کئے رکھتی ہیں اور اپنے مفادات سمیٹنے میں بُری طرح مصروف عمل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اصل قومی مسائل کو موضوع بحث بنانے کی بھی ضرورت ہے جن کا حل نکلے بغیر قوم منزل سے آشنا نہیں ہو سکتی!
لنک
 

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
آج ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہمارا دانشور طبقہ اسلام اور سیکولرزم کی نظریاتی بحث کا بازار گرم کرنے کی بجائے قوم کو ان قوتوں سے باخبر کرے، جو پاکستان کے فلاحی ریاست بننے کی راہ میں مزاحم ہیں۔ ان قوتوں کے ہتھکنڈوں کو بے نقاب کرے کہ وہ کس کس طرح قوم کے اندر انتشار اور افتراق برپا کئے رکھتی ہیں اور اپنے مفادات سمیٹنے میں بُری طرح مصروف عمل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اصل قومی مسائل کو موضوع بحث بنانے کی بھی ضرورت ہے جن کا حل نکلے بغیر قوم منزل سے آشنا نہیں ہو سکتی!
ساحب تحریر کی درمندانہ تحریر کے ساتھ ساتھ اس امر کی طرف توجہ کرنا بھی ضروری ہے کہ باطل اور اہل باطل جس طرح درانہ وار ہمارے معاشرتی فیبرک سے ہوتے ہوئے اب ہماری بنیادی ایمانیات کی طرف میدیا وار کے زریعے لپک رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس ساری صورتحال میں ایسی بنیادی حوالے کی علمی کام سامنے آنا غنیمت ہے۔

اس لیے دونوں محاذوں میں سے کوئی بھی خالی چھوڑنے کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے ، جیسا کہ ابھی تک ہمارے مزہبی سیکٹر کی طرف سے کوئی قابل ذکر سرگرمی میدیا کے میدان میں سامنے نہیں آسکی ہے۔

اگر ہم دوسری طرف سیکولر کیمپ کو دیکھیں تو بیرونی و مقامی دونوں طرح کی امداد پر پلنے والے یا پھر خود سے "فی سبیل الطاغوت" سے نظریے کے پرچارک کتنے ہی متنوع انداز میں مسلسل ہذیان گوئی میں مصروف ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسی ہذیان گوئی ، جسے حسین خوابوں اور مرصع الفاظ کے لبادے اوڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اور جن کا بنیادی محور اس بے سمت سی قوم کو اس ابدی بے سمتی کی طرف لے جانے کے سوا کچھ نہیں جہاں عملا ہی نہیں ذہنی طور پر بھی انسان کو اپنا مقصد زیست اس حیات فانی کے سوا کچھ نظر نہیں اتا۔

مبارک حیدر اور مبارک علی کے اسلام ، تاریخ اسلام ، اور اسلام کے بنیادی مصادر کو ڈھا دینے کے کھلے مقصد پر مشتمل خالص علمی سیکولر لٹریچر سے لیکر سے لیکر عامر رانا اور مجاہد حسین کے زیر انتظام حالات حاضرہ کے راتوں رات ابھر انے والے انسٹی تیوٹس تک ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک عالم ہے جو اس دین حنیف کو پیوند زمیں کرنے کو نکلا ہوا ہے ۔

لیکن ان شآء اللہ جس طرح کمیونزم کا نظریہ اس کے ابائی گھر روس کی شکست و ریخت کے بعد کہیں گم ہو گیا تھا، اسی طرح بلکہ اس سے بڑھ کر امریکہ کی افغان سے پسپائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علامتی طور پر اس نظام کے انہدام کا بڑا نشان ہے جس کو وہ ساری دنیا کے سامنے فخریہ پیش کرتا رہا ہے۔
لیکن جس شیر نے صحرا سے نکل کر روما کا تختہ الٹ دیا تھا ، وہ شیر اب ہوشیار ہی نہیں ہو چکا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گیدڑوں کو بھگا بھی رہا ہے !!
اور نظریہ وہی باقی رہنے والا ہے جسے میرا رب اپنے دین کے طور پر پسند فرما چکا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ افغانستان کے کہساروں میں ہی نہیں ، ساری دنیا میں ان شاء اللہ۔۔۔۔۔ واللہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون۔۔۔۔ولو کرہ المشرکون۔

البتہ کالم نگار کو پاکستان کو صرف "فلاحی ریاست" بانے کی دہائیاں دینے کی بجائے اس اصل مصیبت کی طرف دیکھنا چاہیے جو فساد کی جڑ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کی شریعت اور نظام کو اس کی زمین پر قائم نہ کرنا ۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کے ثمرات خبیثہ آج ہم عملا بھگت رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ اسلام ہی میں فلاح ہے اور اسلام ہی سب سے بڑی فلاح ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کو چھوڑ کر ہم لوگ کسی فوز و فلاح کی خبر نہیں پا سکتے ۔۔۔۔۔ اخرووی نہ دنیوی!!

سبب کچھ اور ہے جس کو تو خود سمجھتا ہے
زوال بندہ مومن کا بے زری سے نہیں
اگر جہاں میں میرا جوہر آشکارا ہوا
قلندری سے ہوا ہے تونگری سے نہیں
 
Top