- شمولیت
- نومبر 14، 2018
- پیغامات
- 309
- ری ایکشن اسکور
- 48
- پوائنٹ
- 79
فقہ السیرۃ النبویہ : سیرت طیبہ سے فکری ، دعوتی ، تنظیمی ، تربیتی اور سیاسی رہنمائی
دورِ جاہلیت اور تصور اقتصادیات
(1) بعثت نبوی سے قبل عرب کے باسی اقتصاد ومعاش میں حلال و حرام کے پابند نہ تھے۔
(2) دین و عقیدے، افکار و نظریات اور سماجی اخلاق و اقدار کی طرح ان کی معاشی حالت بھی ابتر تھی۔
(3) اہل عرب حصول معاش اور گزران زندگی میں تمام طرح کی اخلاقی ومذہبی پابندیوں سے آزاد تھے۔
(4) ان کے ہاں کسب معاش میں ہر طرح کی اونچ نیچ روا سمجھی جاتی تھی۔
(5) کمزور کی حق تلفی، ضعیف پر مالی ظلم اور زیادتی، یتیموں کا مال ہتھیانا اور دیگر باطل طریقوں سے معاشی ضروریات کی تکمیل، اخلاقی وسماجی طور پر بالکل ممنوع نہ تھا۔
(6) حصول معاش کے لیے تمام طرح کے ممکنہ اسباب و ذرائع اختیار کرنا ان کے ہاں رائج اور روا تھا۔
(7) کسب معاش اور گزران زندگی کے لیے ان کے ہاں عمومی طور پر کوئی اخلاقی، قانونی اور مذہبی دستور وقانون نہ تھا۔
(8) تجارت اہل عرب کا انتہائی معزز اور موزوں ترین ذریعہ معاش تھا۔تجارت میں بھی وہ کئی طرح کی خرابیوں کے مرتکب تھے۔
(9) ان کے ہاں خرید و فروخت کی کئی غلط صورتیں رائج تھیں، جن کی آنحضرت ﷺ نے اصلاح فرمائی۔ کئی صورتیں بالکل نارواں تھیں،جنھیں کالعدم قرار دیا گیا۔
(10) بیع و شرا میں غلط بیانی، عیب چھپانا اور دھوکا دہی ان کا عام معمول تھا۔
(11) یہودی اور عیسائی جو اہل کتاب تھے۔ ان کے ذرائع معاش اور خرید و فروخت کے طریقے بھی ان کی دینی ہدایات کے مطابق نہ تھے۔
(12) یہود تو سودی معاملات میں سب پر سبقت لے گئے تھے۔ مدینہ میں معاشی تسلط انھی کا تھا۔بیشتر اوس و خزرج ان کے مقروض تھے اور وہ بھی سود کی شکل میں۔
(13) روم و فارس اس وقت کی عالمی طاقتیں اور مہذب ترین سلطنتیں تھیں۔ ان کے اور اہل عرب کے اصول تجارت و معاش میں کوئی قابل ذکر فرق نہ تھا۔
(14) وقت کی مہذب ترین اقوام وملل بھی کسب معاش میں جاہلانہ طرزِ تجارت پرگامزن تھیں۔
(5) اقتصاد ومعاش میں اعلی اقدار و روایات کی عدم پاسداری کے حوالے سے اقوام عالم بھی مذہبی واخلاقی پابندیوں سے بالکل آزاد تھیں۔
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو : دارالمعارف ، لاہور ))
دورِ جاہلیت اور تصور اقتصادیات
(1) بعثت نبوی سے قبل عرب کے باسی اقتصاد ومعاش میں حلال و حرام کے پابند نہ تھے۔
(2) دین و عقیدے، افکار و نظریات اور سماجی اخلاق و اقدار کی طرح ان کی معاشی حالت بھی ابتر تھی۔
(3) اہل عرب حصول معاش اور گزران زندگی میں تمام طرح کی اخلاقی ومذہبی پابندیوں سے آزاد تھے۔
(4) ان کے ہاں کسب معاش میں ہر طرح کی اونچ نیچ روا سمجھی جاتی تھی۔
(5) کمزور کی حق تلفی، ضعیف پر مالی ظلم اور زیادتی، یتیموں کا مال ہتھیانا اور دیگر باطل طریقوں سے معاشی ضروریات کی تکمیل، اخلاقی وسماجی طور پر بالکل ممنوع نہ تھا۔
(6) حصول معاش کے لیے تمام طرح کے ممکنہ اسباب و ذرائع اختیار کرنا ان کے ہاں رائج اور روا تھا۔
(7) کسب معاش اور گزران زندگی کے لیے ان کے ہاں عمومی طور پر کوئی اخلاقی، قانونی اور مذہبی دستور وقانون نہ تھا۔
(8) تجارت اہل عرب کا انتہائی معزز اور موزوں ترین ذریعہ معاش تھا۔تجارت میں بھی وہ کئی طرح کی خرابیوں کے مرتکب تھے۔
(9) ان کے ہاں خرید و فروخت کی کئی غلط صورتیں رائج تھیں، جن کی آنحضرت ﷺ نے اصلاح فرمائی۔ کئی صورتیں بالکل نارواں تھیں،جنھیں کالعدم قرار دیا گیا۔
(10) بیع و شرا میں غلط بیانی، عیب چھپانا اور دھوکا دہی ان کا عام معمول تھا۔
(11) یہودی اور عیسائی جو اہل کتاب تھے۔ ان کے ذرائع معاش اور خرید و فروخت کے طریقے بھی ان کی دینی ہدایات کے مطابق نہ تھے۔
(12) یہود تو سودی معاملات میں سب پر سبقت لے گئے تھے۔ مدینہ میں معاشی تسلط انھی کا تھا۔بیشتر اوس و خزرج ان کے مقروض تھے اور وہ بھی سود کی شکل میں۔
(13) روم و فارس اس وقت کی عالمی طاقتیں اور مہذب ترین سلطنتیں تھیں۔ ان کے اور اہل عرب کے اصول تجارت و معاش میں کوئی قابل ذکر فرق نہ تھا۔
(14) وقت کی مہذب ترین اقوام وملل بھی کسب معاش میں جاہلانہ طرزِ تجارت پرگامزن تھیں۔
(5) اقتصاد ومعاش میں اعلی اقدار و روایات کی عدم پاسداری کے حوالے سے اقوام عالم بھی مذہبی واخلاقی پابندیوں سے بالکل آزاد تھیں۔
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو : دارالمعارف ، لاہور ))