• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

15مارچ(2015)

عبدالقیوم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 25، 2013
پیغامات
825
ری ایکشن اسکور
433
پوائنٹ
142
میں ایلومینیم کے فریم میں شیشے لگاتا ہوں‘ میں قصور کا رہنے والا ہوں‘ میں روزی روٹی کی تلاش میں لاہور آ گیا‘ لاہور میں میرے دو کام تھے‘ میں شام تک کام کرتا تھا اور شام کے بعد تبلیغ میں مصروف ہو جاتا تھا‘ میں یوحنا آباد کے قریب رہتا تھا‘ میری دکان بھی مسیحی بھائیوں کی بستی کے قریب تھی‘ میں اتوار 15 مارچ کی صبح یوحنا آباد چلا گیا‘ میں اکثر اوقات اس آبادی میں چلا جاتا تھا‘ میرے وہاں جاننے والے بھی تھے اور دوست بھی‘ میں 15 مارچ کو کیتھولک چرچ کے قریب تھا‘ اچانک خوفناک دھماکہ ہوا‘ پور ا علاقہ لرز گیا‘ شیشے ٹوٹ گئے‘ چھتیں گر گئیں‘ سائن بورڈ اکھڑ گئے‘ دکانوں کے سائبان جوڑوں سے نکل گئے‘ میرے کان بند ہو گئے‘ میں کانوں میں انگلیاں ڈال کر سر کو بار بار جھٹکے دینے لگا لیکن مجھے پانچ منٹ تک کچھ سنائی نہ دیا‘ میں نے کان کے پردے ہلکے کرنے کےلئے ایک پاﺅں پر اچھلنا شروع کر دیا‘ میرا ایک کان کھل گیا‘ اب میری آنکھ جو دیکھتی تھی وہ مجھے بھی سنائی دیتا تھا‘ میں نے لوگوں کو دھائی دیتے‘ سیاپا کرتے‘ چیختے چلاتے دیکھا‘ لوگ دیوانہ وار بھاگ رہے تھے‘ میں بھی بھاگ کھڑا ہوا لیکن مجھے افراتفری میں سمت کا اندازہ نہ ہوا اور میں یوحنا آباد سے باہر نکلنے کی بجائے مزید اندرچلا گیا اور میں کیتھولک چرچ کے سامنے پہنچ گیا‘ چرچ کے باہر انسانی جسموں کے چیتھڑے پڑے تھے‘ میں نے انسانی آنتیں بجلی کی تاروں پر لٹکی دیکھیں‘ دیواروں پر انسانی آنکھیں چپکی ہوئی تھیں اور سڑک پر دور دور تک خون کے چھینٹے اور انسانی کھوپڑیوں کی چربی پھیلی تھی‘ فضا میں خون‘ جلے ہوئے گوشت اور بارود کی بو تھی‘ میں ٹھٹھک کر رک گیا اور بے بسی کے عالم میں دائیں بائیں دیکھنے لگا‘ میں پتھرا چکا تھا‘ میرے پاﺅں زمین پر جم گئے تھے‘ آنکھیں پتلیوں سے باہر تھیں اور سانس بے قابو ہو رہی تھی‘ میں پتھر کی طرح چرچ کے سامنے کھڑا تھا‘ اچانک میری کمر سے کوئی سخت چیز ٹکرائی‘ میں گھبرا کر پیچھے مڑا‘ میرے سامنے دو نوجوان کھڑے تھے‘ دونوں کے ہاتھوں میں ڈنڈے تھے‘ وہ دونوں مجھے گالیاں دے رہے تھے‘ دہشت گرد‘ دہشتگرد کے نعرے لگا رہے تھے اور مجھ پر ڈنڈے برسا رہے تھے‘ میں نے ڈنڈوں سے بچنے کی کوشش کی‘ میں نے اچانک ” دہشت گرد پکڑ لیا‘ دہشت گرد پکڑ لیا“ کی آوازیں سنیں‘ میں نے ” مولوی کو پکڑو‘ وہ مولوی دہشت گرد ہے“ کی آوازیں بھی سنیں‘ وہاں پچاس ساٹھ نوجوان جمع ہوئے اور مجھے مارنا شروع کر دیا‘ میں نے بھاگنے کی کوشش کی مگر ہجوم زیادہ تھا اور میری توانائی کم‘ میں سڑک پر گر گیا‘ مجھ پر چاروں طرف سے ڈنڈے برس رہے تھے‘ میں نے آنکھیں بند کر لیںاور اپنا چہرہ بازوﺅں میں چھپا لیا‘ میں درد سے دہرا بھی ہو چکا تھا‘ میرے منہ سے آواز نہیں نکل رہی تھی‘ مجھے بس اتنا محسوس ہورہا تھا میرے پورے جسم پر لاٹھیاں برس رہی ہیں‘ میں نے اس وقت یوحنا آباد کی سڑک پر لیٹے لیٹے محسوس کیا‘ انسان ہمیشہ تکلیف میں آنکھیں بند کر لیتا ہے اور یہ موت کی آخری سرگوشی تک اپنا چہرہ بچانے کی کوشش کرتا ہے‘ شاید انسان کوشش کرتا ہے اس کے مرنے کے بعد بھی اس کی شناخت باقی رہے‘ انسان جب موت کے قریب پہنچتا ہے تو اس کے کان بھی حساس ہو جاتے ہیں‘ ہم جو آوازیں عام حالت میں نہیں سن پاتے موت کے قریب پہنچ کر ہم وہ آوازیں بھی سننے لگتے ہیں‘ میں نے محسوس کیا جب انسان کی ٹانگ کی ہڈیاں ٹوٹتی ہیں تو اسے سب سے زیادہ درد ہوتا ہے‘ مجھے اس وقت محسوس ہوا آپ زندگی میں جن لوگوں سے نفرت کرتے ہیں وہ موت کے قریب پہنچ کر آپ کو زیادہ یاد آتے ہیں‘ آپ کو موت کے قریب پہنچ کر اپنا بچپن بھی یاد آتا ہے‘ آپ کے دماغ میں ایک فلم سی چلتی ہے اور آپ بچپن سے لے کر جوانی تک اپنی پوری زندگی کو چند لمحوں میں دیکھ لیتے ہیں اور مجھے محسوس ہوا جب آپ کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹتی ہے تو آپ تمام دکھوں‘ تمام دردوں سے آزاد ہو جاتے ہیں‘ آپ کی ساری تکلیف ختم ہو جاتی ہے‘ میں نے شروع میں اپنی ٹانگوں کو کرچی کرچی ہوتے محسوس کیا‘ پھر میری پسلیاں ٹوٹیں‘ میں نے پسلیوں کی نوکوں کو اپنے دل‘ اپنے پھیپھڑوں اور اپنے جگر میں اترتے بھی محسوس کیا‘ پھر میری ناف پھٹی اور ناف سے انتڑیاں نکل کر باہر آ گئیں‘ ہجوم نے میری انتڑیوں کو ڈنڈے پر لپیٹنا شروع کر دیا‘ وہ انتڑیاں ڈنڈے پر لپیٹتے جاتے تھے اور میرا پیٹ خالی ہوتا جاتا تھا ‘ لوگوں نے پھر مجھے الٹا کیا اور پھر میری کمر پر درجنوں ڈنڈے گرے اور میری ریڑھ کی ہڈی چار جگہوں سے ٹوٹ گئی‘ میں درد اور تکلیف سے آزاد ہو گیا‘ مجھے ہجوم مارتا جا رہا تھا‘ مجھے اچانک کھانسی کا دورہ پڑا‘ میں نے کھانسنے کی کوشش کی لیکن میرے پھیپھڑے پھٹ چکے تھے‘ میرے گلے سے خون ٹپک رہا تھا‘ میں نے سانس کھینچی‘ سانس کھنچ گئی لیکن سانس واپس نہ جا سکی‘ میرا زخمی بدن کانپا‘ میرے ایک ایک انگ میں بجلی سی تڑپی اور میری روح نکل گئی‘ میں مر چکا تھا۔

مجھے مرنے کے بعد دو تجربے ہوئے‘ میرا کٹا پھٹا اور ننگا جسم سڑک پر پڑا تھا‘ لوگ میرے جسم پر ڈنڈے برسا رہے تھے لیکن میں اپنے جسم سے تین گز کے فاصلے پر فٹ پاتھ پر بیٹھا تھا‘ میں دو لوگ بن چکا تھا‘ ایک وہ جسے لوگ توڑ رہے تھے اور ایک وہ جو ہر قسم کی تکلیف سے دور‘ چپ چاپ فٹ پاتھ پر بیٹھا تھا‘ میں جو زخمی تھا وہ لوگوں کو نظر آ رہا تھا اور میں جو ہر دکھ‘ ہر تکلیف سے آزاد تھا‘ وہ سب کو دیکھ رہا تھا لیکن اسے کوئی نہیں دیکھ پا رہا تھا‘ میں نے فٹ پاتھ پر بیٹھے بیٹھے لوگوں کو اپنی لاش پر ڈنڈے برساتے دیکھا‘ میں نے لوگوں کو اپنی لاش کو سڑکوں پر گھسیٹتے دیکھا‘ یہ مجھے پاﺅں سے پکڑ کر کبھی ادھر گھسیٹتے تھے اور کبھی ادھر لے جاتے تھے‘ یہ میری لاش کو ٹھڈے بھی مار رہے تھے‘ یہ مجھے گھسیٹتے گھسیٹتے فیروز پور روڈ پر لے آئے‘ میں بھی فٹ پاتھ سے اٹھا اور آہستہ آہستہ ان کے پیچھے چل پڑا‘ میں اور میری لاش ہم اب فیروز پور روڈ پر تھے‘ ہجوم میں اضافہ ہو چکا تھا‘ یہ لوگ دہشت گرد‘ دہشت گرد اور ظالمو جواب دو‘ خون کا حساب دو کے نعرے لگا رہے تھے‘ یہ مجھے سڑک کے عین درمیان لے کر آئے‘ ایک بندہ دوڑتا ہوا آیا‘ اس کے ہاتھ میں تیل کا ڈبہ تھا‘ اس نے لوگوں کو پیچھے ہٹایا اور میرے اوپر تیل چھڑکا‘ میں پاﺅں سے سر تک تیل میں بھیگ گیا‘ دوسرے نے ماچس نکالی‘ تیلی جلائی ”پھپ“ کی آواز آئی اور اس نے تیلی میرے اوپر گرا دی‘ ”ٹھس“ کی آواز آئی اور میری لاش نے آگ پکڑ لی‘ شعلے دس دس فٹ اونچے تھے‘ فضا میں تیل‘ انسانی گوشت اور دھوئیں کی بو پھیل گئی‘ لوگوں نے بو سے بچنے کےلئے ناک پر ہاتھ رکھ لئے‘ میں جل رہا تھا اور لوگ نعرے لگا رہے تھے‘ وہ خون کا حساب مانگ رہے تھے‘ وہ ظالمو کو للکار رہے تھے‘ وہ گالیاں دے رہے تھے‘ وہ حکومت کے خلاف بھی نعرے لگا رہے‘ وہ جنگلے بھی توڑ رہے تھے‘ وہ ڈنڈے بھی لہرا رہے تھے اور وہ ملک کو برا بھلا بھی کہہ رہے تھے‘ لوگ ڈنڈوں سے میری لاش کو دائیں بائیں بھی کر رہے تھے‘ وہ میری لاش پر تیل بھی ڈالتے جا رہے تھے اور وہ مجھے پتھر بھی مارتے جا رہے تھے اور میں میٹرو بس کے جنگلے کے ساتھ بیٹھ کر اپنی لاش کو جلتا‘ لوگوں کو جلاتا اور نعرے لگاتا دیکھ رہا تھا‘ لوگ میری لاش کی دھڑا دھڑ تصویریں اور فلمیں بھی بنا رہے تھے‘ یہ مختلف زاویوں سے‘ کبھی آگے ہو کر اور کبھی پیچھے ہٹ کر میری فلم بناتے تھے‘ یہ میری لاش پر جھک کر بھی تصویریں بناتے تھے‘ میں یہ سب کچھ حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ ”یہ کیوں ہو رہا ہے“میں باربار اپنے آپ سے پوچھتا تھا لیکن مجھے کوئی جواب نہیں ملتا تھا‘ میں جلتے جلتے کوئلہ ہو گیا‘ میرا وجود کوئلے کی طرح سیاہ ہو گیا‘ مجھے اس وقت ایک نیا تجربہ ہوا‘ مجھے معلوم ہوا انسان کی لاش جلنے کے بعد بے وزن ہو جاتی ہے‘ آپ کا وزن سو کلو گرام ہے اور آپ اگر خدانخواستہ جل گئے ہیں تو آپ کا وزن دس بارہ کلو گرام رہ جائے گا‘ انسان میں شاید پانی اور چربی بھاری ہوتی ہے‘ یہ جب جل کر ہوا میں اڑجاتی ہیں تو پیچھے صرف پنجر رہ جاتا ہے اور یہ بے وزن ہوتا ہے‘ میں جب جل جل کر بجھ گیا تو لمبے بالوں والے ایک نوجوان نے مجھے ڈنڈے کے ساتھ سیدھا کیا اور مجھے ڈنڈے کے سرے کے ساتھ گھسیٹتا ہوا میٹرو کے جنگلے تک لے آیا‘ اس نے مجھے میٹرو کے جنگلے کے ساتھ لگا دیا‘ میں اب جنگلے کے ساتھ چپکا ہوا تھا‘ وہ نوجوان میری جنگلے کے ساتھ چپکی لاش کو بھی ڈنڈے ماررہا تھا اور میں جنگلے کے ساتھ بیٹھ کر یہ منظر دیکھتا رہا۔
میں آپ کا ناشتہ خراب نہیں کرنا چاہتا‘ میں آپ کی خوبصورت اور خوشبودار زندگی میں زہر بھی نہیں گھولنا چاہتا‘ میں کسی کو اپنا قاتل‘ اپنا مجرم بھی نہیں سمجھتا‘ میں صرف آپ کو خوش قسمت اور خود کو بد قسمت سمجھتا ہوں کیونکہ 15 مارچ کو اگر آپ میری جگہ ہوتے تو شاید آپ کے ساتھ بھی یہی ہوتا‘آپ یاد رکھیں‘ پاکستان میں صرف آپ نہیں ہیں‘ یہاں ایک محروم طبقہ بھی ہے‘ یہ لوگ پیدا ہوتے ہی جبر کی چکی میں پسنے لگتے ہیں‘ ملک میں کچھ بھی ہو جائے‘ کوئی بھی اچھی یا بری تبدیلی آئے یہ طبقہ براہ راست متاثر ہوتا ہے‘ سیلاب آئے تو صرف ان کے گھر بہتے ہیں‘ زلزلہ آئے تو صرف ان کے گھر گرتے ہیں‘ بجلی‘ گیس اور پانی جائے تو صرف ان کے گھروں سے جاتی ہے‘ سڑکیں بنیں تو ان کے گھروں‘ ان کی دکانوں پر بنتی ہیں‘ میٹروبس شروع ہو تو صرف ان کی جائیدادیں سرکار کے قبضے میں آتی ہیں‘ فتح کے جشن ہوں تو ان کے گھروں پر حملے ہوتے ہیں‘ شکست ہو جائے تو بھی صرف یہ لوگ مارے جاتے ہیں اور دہشت گردی ہو تو بھی صرف یہ لوگ نشانہ بنتے ہیں‘ حالات کی اس چکی نے ان کی رگوں میں نفرت بھر دی ہے اور انھیں اب جہاں اپنی نفرت کے اظہار کا موقع ملتا ہے یہ پیچھے نہیں ہٹتے‘ یہ ملک کے محروم لوگ ہیں‘ محرومی ان کی قومیت بھی ہے‘ ان کی زبان بھی‘ ان کا فرقہ بھی اور ان کا مذہب بھی‘ یہ کبھی مسلمان بن کر کوٹ رادھا کشن میں شہزاد مسیح اورشمع بی بی کو بھٹے میں ڈال کر جلا دیتے ہیں‘ یہ کبھی جوزف کالونی میں ڈیڑھ سو گھر جلا دیتے ہیں‘ یہ کبھی عیسائی بن کر یوحنا آباد میں نعیم اور بابر نعمان کو راکھ بنا دیتے ہیں اور یہ کبھی شیعہ بن کر سنیوں کو قتل کرتے ہیں اور کبھی سنی بن کر شیعوں کی عبادت گاہوں پر حملہ کردیتے ہیں اور یہ کبھی پٹھان‘ بلوچی‘ سندھی ‘ پنجابی اور مہاجر بن کر ایک دوسرے کا گلہ کاٹتے ہیں‘ یہ مذہب‘ فرقے اور نسل سے بالا تر لوگ ہیں‘ یہ صرف محروم ہیں‘ میں بھی محروم تھا اور مجھے مارنے والے بھی محروم لوگ تھے‘ آپ جب تک ان لوگوں کی محرومی کا کوئی حل نہیں نکالیں گے اس وقت تک ہمارے جیسے لوگ قتل بھی ہوتے رہیں گے اور ہماری لاشوں کی بے حرمتی بھی ہوتی رہے گی‘ میں بدقسمت تھا‘ میں بد قسمتی کی موت مارا گیا اور آپ خوش قسمت ہیں آپ آج بھی دھوپ میں بیٹھ کر ناشتہ کر رہے ہیں۔
میں بس آپ لوگوں سے صرف ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں‘ صرف ایک سوال‘ آپ نے کبھی ملک میں سنا کسی شخص نے کسی کتے‘ بلی یا بکری کو ڈنڈے مار مار کر مار دیا اور پھر اس کی لاش کو تیل چھڑک کر آگ لگائی ہو اور پھر اس لاش کو جنگلے کے ساتھ لٹکا دیا ہو‘ آپ نے یہ خبر کبھی سنی یا پڑھی نہیں ہو گی لیکن آپ نے پاکستان مین زندہ لوگوں کو سڑکوں پر ڈنڈے مار کر قتل کرنے‘ لاشوں کو آگ لگانے اور سوختہ لاشوں کو لٹکانے کے درجن بھر واقعات سنے ہوں گے‘ مجھے صرف یہ جواب دیں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں انسان بلی اور بکری سے سستا کیوں ہے؟ یہاں بلیاں محفوظ اور انسان غیر محفوظ کیوں ہیں؟ آپ جیسے خوش قسمت لوگوں سے میرا بس یہ سوال ہے۔
 

عبدالقیوم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 25، 2013
پیغامات
825
ری ایکشن اسکور
433
پوائنٹ
142
اقوام متحدہ کی تاریخ کے مطالعہ سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ دنیا کا تقریباً ہر مذہب احترام انسانیت کا درس دیتا ہے۔ زندہ جلانے، اعضا کاٹنے، ایذا دینے اور تڑپا تڑپا کر مارنے کے بارے میں کہیں بھی کوئی ایسا منشور یا حکم نہیں ملتا جو معاشرے پر لاگو کیا جا سکے۔ تاہم اگر معاشرہ اس سمت چل پڑے تو مفکرین کے نزدیک اس کی وجوہات میں قانونی، سماجی اور اخلاقی اقدار کی پستی ہے۔ جب عرصہ دراز سے معاشرہ اخلاقی انحطاط کا شکار ہو اور اس معاشرے سے کوئی رہنما یا ان اصولوں کی بقا کیلئے کوئی حکمران پیدا نہ ہو تو جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول قائم ہو جاتا ہے۔ سانحہ یوحنا آباد ایک طرف تو اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا المیہ ہے دوسری طرف دو مسلمانوں کو بے دردی سے زدوکوب کر کے زندہ جلا دیا جاتا ہے ہمارے معاشرے کے روبہ زوال ہوتے ہوئے قوانین پر سوالیہ نشان ہے؟ جین مت کے مذاہب کے لوگوں میں نروان (نجات) کے حصول کے طریقے کیلئے اعمال کی اصلاح کی درستی پانچ بتوں پر رکھی گئی ان میں ایک یہ تھی کہ کسی ذی روح کو تکلیف نہ دی جائے۔ جس طرح انسان کا اپنا وجود محترم ہوتا ہے۔ اسی طرح دوسروں کا بھی سمجھنا چاہیے۔ ہندو مت پر اسلام کے اثرات چھا جانے کی وجہ سے اسلام انکے رہنمائوں کی تعلیمات پر اثر انداز ہوتا دکھائی دیتا ہے ہری راما کرشن نے اتحاد بین الناس کا درس دیا۔ کیشب چندر سین کی تعلیمات کا خلاصہ یہ تھا کہ ہماری نجات کا ذریعہ عبادت ہے ہمارا حصول مدعا دلوں کی پاکیزگی ہے اور ہمارا استاد اور رہنما ہر دیندار آدمی ہے جو دوسرے انسانوں کی تعظیم کرتا ہے۔ بدھ مت انسانی تکالیف کو رفع کرنے پر زور دیتا ہے۔ گوتم بدھ نے عمر بھر کی تپسا کے بعد جو درمیانی راستہ نکالا چار اصولوں پر مبنی تھا۔ تکلیف، اسباب تکلیف، انسداد تکلیف اور طریقہ انسداد تکلیف اس طریقہ کار انسانیت کو دکھوں سے بچایا جا سکتا ہے۔ کنفیوشس مذہب کے پیروکار انسانیت کو دکھ تکلیف اور رنج سے بچانے کیلئے تمام تر ذمہ داری حکمرانوں پر عائد کرتے نظر آتے ہیں۔ کنفیوشس کے نظریہ کا نچوڑ یہ تھا کہ حکمران جب چاہتے ہیں کہ ساری سلطنت میں نیکی پھل جائے اور ظلم و ستم کا خاتمہ ہو جائے تو سب سے پہلے وہ اپنی ریاست کو درست کرتے ہیں پھر اپنے خیالات کودرست کرتے ہیں۔ خیالات میں خلوص پیدا کر نے کیلئے وہ اپنا علم بڑھاتے ہیں۔ خیالات کی درستی کیلئے حکمران یا فرماں رواں اپنا دل درست کرتے ہیں جب اشیاء کی ماہیت درست ہو گئی تو دل درست ہوا، خلوص کا جذبہ پیدا ہوا اور ریاست درست ہو گئی۔ عیسائیت کی تعلیمات کا مشاہدہ کیا جائے تو صبر برداشت اور تحمل کی تلقین نظر آتی ہے۔ حضرت عیسیٰؑ کی تعلیمات کا خلاصہ یہ تھا کہ اور تم سن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا تھا کہ خون نہ کرنا اور جو کوئی خون کرے گا عدالت کی سزا کے لائق ہو گا میں یہ کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا جو کوئی تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے تو دوسرا بھی اسکی طرف پھیر دے اور اگر کوئی نالش کر کے تیرا کرتہ لینا چاہیے تو تو کرتا بھی اسے لینے دے! احترام آدمیت اور اسکے نافذ العمل ہونے کی ذمہ داری اسلام نے اٹھائی اور انسان کو افضل قرار دے دیا۔ اسلام اس امر کی اجازت نہیں دیتا کہ دوسرے مذہب کے لوگوں کو جسمانی یا ذہنی اذیت پہنچائی جائے ’’سورۃ البروج‘‘ میں فرمایا گیا کہ وہ لوگ جو مومن مردوں اور عورتوں کو دکھ دیتے ہیں پھر توبہ نہیں کرتے تو ان کیلئے دوزخ کا عذاب ہے اور ان کیلئے جلنے کا عذاب ہے۔ غیر مسلموں کیلئے اسلام کے واضح اقدامات ہیں مذہب اسلام نے عیسائیوں، یہودیوں اور کسی بھی فرقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو مکمل تحفظ عطا کیا۔ اہل نجران کے عیسائیوں کے ساتھ تحریری معاہدہ طے کرتے ہوئے آپؐ نے معاہدین کے حقوق بیان کئے۔ جو درج ذیل ہیں نجران اور اسکے اطراف کے باشندوں کی جانیں ان کا مذہب ، ان کی زمینیں ان کا مال انکے حاضر و غائب انکے قافلے، انکے قاصد، انکی صورتیں اللہ کی امان اور اسکے رسولؐ کی ضمانت ہیں انکی موجودہ حالت میں کوئی تغیر نہ کیا جائیگا اور نہ انکے حقوق میں سے کسی کے حق میں دست اندازی کی جائیگی۔ عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جس نے کسی ذمی کو قتل کر دیا وہ جنت کی خوشبو نہیں سونگھے گا۔ حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی دوری سے محسوس ہو گی۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی جرائم کی شرح اور قتل و بربریت کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم نے مذاہب عالم کی تعلیمات کوپس پشت ڈال دیا۔ اور ایزا رسانی معمولی اور عام سا جرم بن کر رہ گیا۔ اسلامی تاریخ میں انسانیت کا تحفظ اور غیر مسلموں کو جو حقوق ملے شاید انہیں کسی دوسرے معاشرے میں نہ ملے ہوں۔ قرارداد مقاصد کی رو سے بھی اقلیتوں کو مذہبی اور شخصی آزادی حاصل ہے۔ یہ نکات بعد میں آنے والے دساتیر کا حصہ بھی بنے۔ معدودے چند واقعات سے ہٹ کر دیکھا جائے توغیر مسلموں کو تحفظ حاصل رہا ہے۔ لیکن افسوسناک صورتحال تو یہ ہے کہ بلاقصور دو مسلمانوں کو سانحہ یوحنا آباد کے واقعہ میں ملوث کر کے جلا دینا معاشرے کی کسمپرسی اور لاقانونیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مجموعی طور پر ادیان کی تعلیمات کا جائزہ لیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ مقائلین کے حقوق کے بارے میں بھی ہمیں واضح اقدامات ملتے ہیں خصوصاً مذہب اسلام تو اسکے بارے میں مکمل ضابطہ مقرر کرتا ہے آگ کا عذاب نہ دیا جائے۔ زخمی پر حملہ نہ کیا جائے ، قیدی کو قتل نہ کیا جائے، باندھ کر قتل نہ کیا جائے، دشمنوں کی لاشوں کی بے حرمتی نہ کی جائے اور اعضا نہ کاٹے جائیں۔ لیکن ہمارے لئے یہ المیہ کی بات ہے غیر موثر قوانین ، فوری فیصلوں کا فقدان اور ذاتی مفادات نے نہ صرف ملک میں دہشت گردی کو پنپنے کا موقع دیا بلکہ انسانوں کو زندہ جلانے کے واقعات معمول کا حصہ بن گئے ہیں۔
 

عبدالقیوم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 25، 2013
پیغامات
825
ری ایکشن اسکور
433
پوائنٹ
142
یہ جو یوحنا آباد میں گرجا گھر خودکش حملوں کا نشانہ بنے اسکے نتیجے میں 21افراد کی زندگیوں کے چراغ گل ہو گئے یہ ان افراد کا قتل نہیں ہے جو مسیحی شناخت رکھتے ہیں بلکہ یہ 21پاکستانیوں کا قتل ہے کوئی بھی غیر معمولی واقعہ رونما ہو جائے ارادی یا غیر ارادی طور پر سوچوں کے دھارے مختلف سمتوں میں بہنے لگتے ہیں، قیاس کے گھوڑے دوڑائے جاتے ہیں اور اندازوں کے تیر چلائے جاتے ہیں چنانچہ اس واقعہ پر بھی یہ آرا سامنے آئیں یہ دہشتگردی کیخلاف جنگ کا جواب ہے۔
ملک کے حالات خراب کرنے کے درپے قوتوں کی کارستانی ہے کہ یہ کراچی آپریشن کا پنجاب میں ردعمل ہے جب تک ٹھوس حقائق سامنے نہ آ جائیں اندازوں اور قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے لیکن اس میں دو رائے نہیں کہ یہ کھلی دہشت گردی ہے
اس اندوہناک واقعہ پر مسیحی برادری کا رنج و غم بلکہ اشتعال بھی اپنی جگہ جواز رکھتا ہے لیکن یہ اشتعال جس طرح اسی علاقے کے دو نوجوانوں کو زندہ جلا دینے کا باعث بنا اس کا بہرحال جواز نہیں تھا۔ کوٹ رادھا کشن میں عیسائی جوڑے کو بھٹے میں پھینک کر جلا دینے کی مذموم حرکت کو ملک بھر میں ظالمانہ فعل قرار دیا گیا تھا۔ اتوار کے روز دو نوجوانوں کو زندہ جلا کر مار دینے کا واقعہ بھی اتنا ہی ظالمانہ ہے یہ سفاکی اور شقاوت قلبی کی انتہا ہے کہ ان آگ کے شعلوں میں تڑپتے انسان مرغ بسمل کا تماشہ بن گئے ارد گرد کھڑے درجنوں افراد نے موبائل فونوں سے مختلف زاویوں سے انکی تصاویر بنائیں اور نیٹ پر اپ لوڈ کر دی گئیں کسی کو بلاجواز اور بلاتحقیق سزا دینا تمام مذہبی تعلیمات کے خلاف ہے۔
لاہور پریس کلب کے باہر مظاہرہ نے جس طرح تشدد کا رنگ اختیار کیا اس کا میں خود عینی شاہد ہوں۔ تقریباً 20، 25 منٹ تک یہ مظاہرین صرف نعرہ بازی میں مصروف رہے اسکے بعدچند الٹرا ماڈرن خواتین نے آ کر مظاہرہ کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا اور طالبان ظالمان کے نعرے لگوانے شروع کر دیئے۔
اس سے پہلے وہ ”ظالموں جواب دو، خون کا حساب دو اور مسیحوں کا قتل بند کرو، گرجوں پر حملے بند کرو“ کے نعرے لگا رہے تھے۔ مظاہرین میں سے نوجوانوں کا گروپ اچانک نزدیکی ٹریفک سگنل کے پاس پہنچ گیا اور ڈیوس روڈ، ریلوے سٹیشن اور گڑھی شاہو کی سمت آنے جانیوالی گاڑیوں کو روکنے ان پر پتھراﺅ کرنے اور ٹائر جلا کر روڈ بلاک کرنے میں مصروف ہو گیا۔
ادھر سول سوسائٹی کا روپ لئے یہ خواتین مختلف نعروں سے ماحول کو گرماتی رہیں۔
ان مظاہرین نے گاڑیوں پر پتھراﺅ کیا۔ موٹر سائیکل سواروں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ یوحنا آباد کیتھولک اور کرائسٹ چرچ میں خود کش حملوں کے بعد فیروزپور روڈ پر اشتعال کے سائے پھیل گئے، راہگیروں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ گاڑیوں کے شیشے توڑے گئے، میٹرو بس سٹیشن کو نقصان پہنچایا گیا، جنگلے توڑ دیئے گئے حالانکہ میٹرو بس کا سب سے زیادہ فائدہ یوحنا آباد کے لوگوں کو ہی ہے۔ دوسرے روز بھی فیروزپور روڈ پر گاڑیاں روک کر ان میں موجود افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا حتیٰ کہ ان میں سوار فیملیز کو بھی نہیں چھوڑا گیا۔ انہیں بھی ڈنڈے اور پتھر مار کر زخمی کر دیا گیا جس میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں ،کئی گاڑیاں تباہ کر دی گئیں۔
ایک خاتون کی کار پر ڈنڈے برسائے گئے جس سے وہ گھبرا گئی اور کار بے قابو ہو کر مظاہرین پر چڑھ گئی جس کی زد میں آ کر دو افراد ہلاک ہو گئے۔ کیا یہ خاتون چرچ پر حملے میں ملوث تھی؟
بے شک چرچوں پر حملے سے دل مجروح ہوئے ان سے اشتعال کا لاوا پھوٹا لیکن جن پر تشدد کیا گیا، جن کی گاڑیاں تباہ کی گئیں یا جنہیں زندہ جلا دیا گیا کیا وہ حملہ آوروں کے ساتھی تھے، پھر سزا وار کیوں؟ سب جانتے ہیں کہ معاملہ عیسائیوں، سنیوںیا شیعوں کا نہیں ہے۔ بلکہ یہ ملک دشمنوں کی سازش ہے جن کا مقصد ملک کی سلامتی کو نقصان پہنچانا ہے اس میں دو رائے نہیں کہ عیسائی بھی اتنے ہی محب وطن پاکستانی ہیں جتنے اس ملک کے سنی، شیعہ اور اہل حدیث ہیں۔ جتنے یہاں آباد سکھ، ہندو اور پارسی ہیں عوامی سطح پر کوئی تفریق نہیں۔ مسلمانوں کے دلوں میں عیسائی جسٹس کارنیلس اور ہندو رانا بھگوان داس اتنے ہی محترم ہیں جتنے وہ عیسائیوں اور ہندوﺅں کےلئے ہو سکتے ہیں۔ کتنے اداروں میں مسلمانوں کے آفیسرز عیسائی اور ہندو ہیں۔
یوحنا آباد کے مظاہرین نے اپنے جائز احتجاج کو جس طرح خود تشدد کا رنگ دیا یہ ان کیلئے لمحہ فکریہ ہونا چاہئے کہ مسلمانوں کے دلوں میں ان کیلئے اس سانحہ پر ہمدردی کے احساسات اگر ناپسندیدگی کے جذبات میں ڈھل جائیں تو کیا یہ غیر فطری ہو گا؟ یاد رہے شدید غم و غصے میں اعتدال کے دامن کو تھامے رکھنا اعلی انسانی اوصاف کا مظہر ہے ۔ہاں اس پرتشدد احتجاج کو بھی جواز مل سکتا تھا اگر ملک میں صرف گرجا گھر ہی دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہوتے۔
پنجاب کے وزیر داخلہ کرنل (ر) شجاع خان زادہ کا یہ عذر لنگ ہے کہ پیشگی اطلاعات نہیں تھیں۔ پیارا پاکستان آج دہشتگردی کی جس لپیٹ میں ہے اس کے پیش نظر مساجد، مدارس اور گرجا گھروں جیسے حساس مقامات کے حوالے سے فکر مندی لازمی ہے۔ پرتشدد مظاہرے انتظامی نااہلی کا بھی ایک پہلو رکھتی ہے۔ پولیس کو ایسی صورتحال پر قابو پانے کی تربیت ہی نہیں دی گئی۔ خودکش حملوں کے فوراً بعد آئی جی سے سپاہی جی تک کو ادارک ہونا چاہئے تھا کہ احتجاج ضرور ہو گا جس میں تشدد کا عنصر خارج ازامکان نہیں ہے۔ مظاہرین کو تشدد پر اکسانے کا امکان بھی مدنظر رکھا جانا چاہئے تھا۔یہ وطن دوستی کا کون سا انداز ہے!
پشاور آرمی سکول میں ڈیڑھ سو بچوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی تو کیا پشاور یا ملک کے کسی حصے میں ایسا پرتشدد احتجاج دیکھنے میں آیا تھا؟ ہاں احتجاج ضرور ہوا مگر مکمل طور پر پرامن، لاہور سمیت بڑے شہروں میں شمعیں روشن کرکے اجل کے رتھ پر سوار ہو کر جگنوﺅں اور تتلیوں کے رنگا رنگ پھولوں سے سجے اور مہکتے دیس جانیوالوں کی یاد منائی گئی اور ساتھ ہی دہشت گردوں کو پیغام دیا گیا کہ وہ پیارے پاکستان کو دہشت گردی اور جہالت کی تاریکیوں میں نہیں دھکیل سکیں گے یہ شمعیں پاکستانیوں کے روشن عزم وعمل کی علامت ہیں۔
 

عبدالقیوم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 25، 2013
پیغامات
825
ری ایکشن اسکور
433
پوائنٹ
142
لاہور یوحنا آباد میں دو مسیحی عبادت گاہوں پر حملہ اپنی جگہ دہشت گردی کا بدترین واقعہ ہے جس میں 21افراد لقمہ اجل بنے اور 19مارچ کو ایک اور زخمی بھی دم توڑ گیا۔ مسیحی عبادت گاہوں پر حملے میں کوئی دوسری رائے نہیں یقیناً یہ ملکی وحدت اور استحکام کےخلاف زہریلی پھنکار کے سوا اور کچھ نہیں اور پاکستان میں بین المذاہب منافرت پھیلانے کی سازش ہے حالانکہ پاکستان میں ایسا کوئی ماحول نہیں ہے جس میں غیر مسلم اقلیتوں کو مذہبی منافرت کی بنیاد پر کسی بھی شعبے میں دیوار سے لگایا گیا ہو۔ پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل آزادی حاصل ہے اور مسلمانوں سے زیادہ تحفظ حاصل ہے اور یہی ہمارے دین اسلام کی تعلیمات کے عین مطابق بھی ہے۔

مسیحی عبادت گاہوں پر حملے کے بعد آنیوالے ردعمل میں بے قصور‘ معصوم اور انتہائی غریب 2 افراد کو بالکل بے گناہ ہونے کے باوجود زندہ جلادیا گیا اور اس واقعے نے یہ ثابت کیا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے اصل اہداف کے حصول میں معاون ثابت ہونیوالے عناصر معاشرے میں ہر جگہ موجود ہیں جو بین المذاہب ہم آہنگی کو پارہ پارہ کرنے کے ساتھ ساتھ ظلم و بربریت کی نئی مثالیں قائم کرنے کےلئے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ مشتعل ہجوم نے چرچ حملوں کے بعد بغیر کسی تحقیق کے دو معصوم لوگوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد انسانی باربی کیو بناڈالا لیکن اس موقع پر پولیس کا کردار بھی بدترین رہا اور لوگوں نے پولیس موبائل میں سے ان دونوں افراد کو گھسیٹ نکالا لیکن پولیس لاشوں کے خاک ہونے تک خاموش تماشائی بنی رہی۔
مسیحی مشتعل افراد نے فیروز پور روڈ کو 2 دن تک میدان جنگ بنائے رکھا اور قوم کے کثیر سرمائے سے تعمیر ہونیوالی میٹروبس کے اسٹیشن اور املاک کو شدید نقصان پہنچایا اور اس سارے واقعے کے دوران بھی پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو چاہئے کہ سب سے پہلے قانون سازی کریں اور قومی اثاثوں اور املاک کو نقصان پہنچانے والوں کےلئے سرعام پھانسی کی سزا مقرر ہونی چاہئے کیونکہ یہاں یہ رواج عام ہوتا چلا جارہا ہے کہ سینکڑوں افراد جمع ہوکر جب چاہیں قومی اثاثوں کو نقصان پہنچادیں لیکن انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا اس لئے اس رواج کی بیخ کنی بہت ضروری ہے ورنہ شرپسند عناصر کے حوصلے بڑھتے جارہے ہیں۔
مسیحی رہنماﺅں اور بشپ کو چاہئے کہ وہ اپنی برادری کو اشتعال انگیزی سے دور رہنے کی مزید تربیت دینے کیساتھ ساتھ اپنی صفوں میں موجود درندوں کی خود نشاندہی کریں اور معصوم زندہ جلائے گئے دونوں مزدوروں کے قاتلوں کو قرارواقعی سزا دلوانے میں حکومت اور ایجنسیوں کے ساتھ مکمل تعاون کریں۔ مسیحی برادری کو یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ مسلمانوں پر بدترین دہشتگردی کی گئی ہے اور پشاور میں ایک ہی دن سینکڑوں معصوم بچوں کو شہید کردیا گیا لیکن اسکے ردعمل میں تو کسی بے گناہ کو نہیں جلایا گیا اور نہ ہی قومی اثاثوں کو نقصان پہنچایا گیا لیکن یوحنا آباد میں مسیحی عبادت گاہوں پر دہشت گردی کے ردعمل میں افسوسناک ردعمل سامنے آیا۔ افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ مختلف مواقع پر اظہار یکجہتی کیلئے نام نہاد سول سوسائٹی اور غیر ملکی امداد پر چلنے والی این جی اوز احتجاج ریکارڈ کراتی ہیں اور شمعیں جلاکر اظہار یکجہتی کیا جاتا ہے لیکن یوحنا آباد واقعے کے ردعمل میں جلائے گئے بے گناہ افراد سے اظہار یکجہتی کےلئے یہ نام نہاد مشعل بردار سول سوسائٹی کو سانپ سونگھ گیا۔
پاکستان میں دہشت گردی کا نشانہ کوئی ایک طبقہ‘ مذہب‘ فرقہ‘ مسلک یا جماعت نہیں بلکہ پورا پاکستان ہے۔ موت کے یہ بے رحم سائے مسیحیوں کو عیسائی سمجھ کر نہیں بلکہ صرف پاکستانی ہونے کی بناءپر دہشت گردی کا نشانہ بناتے ہیں۔ پاکستان میں مساجد‘ مدرسوں‘ مزارات اور امام بارگاہوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا اور ہزاروں معصوم لوگوں کو شہید کیا گیا۔ پاکستان میں مندر اور چرچ مسلمانوں کی عبادت گاہوں سے ہزار درجے زیادہ محفوظ ہیں۔ اگر مسیحی برادری میں اس کے باوجود احساس کمتری ہے تو انہیں ”سیکولر اور دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت“ بھارت کا بھی اصل چہرہ سامنے رکھنا چاہئے ۔ بھارت میں مورتیاں رکھ کر مسیحیوں کی عبادت کا مذاق اڑایا گیا۔ انہیں زبردستی ہندو بنانے کی مہم چلائی گئی اور اب بھی بھارت کی 14 ریاستوں میں مسیحیوں پر سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند ہیں۔ کئی علاقوں میں انکے ساتھ نچلی ذات کے ہندوﺅں سے بھی بدترین سلوک کیا جاتا ہے لیکن عالمی برادری‘ مسیحی رہنماﺅں کو یہ سب کچھ نظر نہیں آتا۔ بدقسمتی سے بھارت کے گن گانے والے پاکستان میں موجود نام نہاد دانشوروں اور سول سوسائٹی کو بھی اس پہلو پر بات کرتے ہوئے موت آتی ہے۔
پاکستان کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو بھی پاکستان میں اقلیتوں کو حاصل آزادی اور تحفظ کے بارے میں حقائق پر مبنی مثبت رپورٹنگ کرنی چاہئے اور بھارت کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کرنا بھی ہر محب وطن پاکستانی کی قومی ذمہ داری ہے چاہے وہ کسی بھی منصب یا شعبے سے تعلق رکھتا ہو۔ پاکستان میں میڈیا پر بیٹھے چند ملک دشمن لوگ جو پاکستان میں اقلیتوں سے نارواسلوک کا بے بنیاد واویلا کرتے ہیں انکو اپنی اصلاح کرنی چاہئے۔اب خبریں آرہی ہیں کہ 200 سے زائد شرپسند افراد کی تصاویر نادرا کو شناخت کیلئے دے دی گئی ہیں اور خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار واقعے میں ملوث شرپسند عناصر کی گرفتاری کیلئے سرگرداں ہیں۔ اس سلسلے میں پولیس و خفیہ اداروں کو اپنی تمام تر محنت و صلاحیتوں سے استفادہ کرنا ہوگا اور واقعے میں ملوث ہر ہر فرد کی گرفتاری اور سخت ترین سزا دلوانا ہمارا قومی فریضہ ہے اس سلسلے میں کسی قسم کے دباﺅ کو خاطر میں نہیں لایا جائے اور غیر ملکی آقاﺅں کے اشاروں پر چلنے والے افراد کے کردار پر بھی نظر رکھنی ضروری ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ مسیحی رہنماﺅں سے ایک بار پھر درخواست کروں گا کہ وہ اپنی صفوں میں موجود شرپسند عناصر اور درندہ صفت لوگوں کی خود ہی نشاندہی کریں تاکہ یہ تاثر زائل ہوسکے کہ خدانخواستہ مسیحی برادری میں شرپسند عناصر کی اعلٰی سطح پر سرپرستی کی جاتی ہے۔زندہ جلائے گئے معصوم مزدوروں کے لواحقین کو انصاف دلانا ہمارا قومی فریضہ ہے اور اس سلسلے میں حکومت وقت کو ہر ممکن اقدام کرنا ہوگا اور نادرا سے شناخت ہوجانیوالے افراد کے نام فوری طور پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالے جائیں تاکہ درندگی کے مرتکب افراد ملک سے فرار نہ ہوسکیں ۔ حکومت قومی اثاثوں کو نقصان پہنچانے والوں کیلئے سرعام پھانسی کی سزا پر بھی فوری طور پر قانون سازی کرے تاکہ ملک سے قومی اثاثوں کو نقصان پہنچانے کا طرز عمل ختم ہوسکے۔
 

عبدالقیوم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 25، 2013
پیغامات
825
ری ایکشن اسکور
433
پوائنٹ
142
آپ تصور کریں کہ آپ اتوار کی صبح فیروز پور روڈ پر یوحنا آباد کے قریب کھڑے ہیں۔ اچانک دھماکے کی آواز آتی ہے اور آپ انسانی ہمدردی کے تحت دوڑتے ہیں تاکہ زخمیوں کو نکالیں کسی کی مدد کریں۔ کسی کو پانی پلائیں۔ کسی کو اٹھا کر ایمبولینس میں ڈالیں لیکن اچانک چند لڑکے آپ کی طرف لپکتے ہیں اور آپ کو دہشت گردوں کا ساتھی قرار دیکر مارنا شروع کر دیتے ہیں۔ پولیس اہلکار آپ کو بچانے کے لئے آگے بڑھتے ہیں۔ ہجوم سے آپکو کھینچتے ہیں لیکن ساری کوشش کے باوجود ناکام ہو جاتے ہیں آپ اس بپھرے ہجوم میں چند لڑکوں کو جانتے ہیں۔ مشکل کی گھڑی میں انہیں پکارتے ہیں۔ لیکن ان کا رویہ تبدیل ہو چکا ہوتا ہے اور وہ آپ کو دہشت گردوں کا ساتھی قرار دیکر مارنا شروع کر دیتے ہیں۔ آپ بے بس ہو کر گر پڑتے ہیں۔ مشتعل نوجوان آپ کو ڈنڈوں، مکوں اور لاتوں سے مارتے ہیں۔ اس وقت آپ امی امی پکارتے ہیں۔ لیکن اتنی آوازوں میں آپ کی آواز دب جاتی ہے۔ اور آپ گر جاتے ہیں شرپسند آپ پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دیتے ہیں۔ کوئلہ بنی آپ کی لاش بوڑھے والد اور بوڑھی والدہ کے سامنے پہنچتی ہے تو ان پر کیا گزرے گی۔ ایک لمحہ رک کر سوچیئے کہ وہاں کوئلہ بننے والی نعش آپ کے جوان بیٹے، بھائی، خاوند یا کسی قریبی رشتہ دار کی ہو تو آپ کا ردعمل کیا ہو گا؟ اس کرب کا اندازہ صرف انہیں ہی ہو سکتا ہے جو ایسے سانحہ سے گزرے ہیںایک انسان ہونے کے ناطے ایسا سوچ کر بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ 22 سالہ محمد نعیم اور 17 سالہ بابر نعمان کی کوئلہ بنیں لاشیں ہمارے معاشرے اور نظام حکومت کو جھنجوڑ کر سوال کر رہی ہیں بتائو ہمارا جرم کیا ہے؟ سانحہ یوحنا آباد کے بعد جو درندگی ہوئی۔ جس طرح انسانیت کی تذلیل کی گئی کیا کوئی معاشرہ اس کی اجازت دیتا ہے۔ خدانخواستہ کوئی عیسائی جلا ہوتا جیسے ماضی میں کوٹ رادھا کشن میں ہوا تو اس پر یورپ کے ڈالروں پر پلنے والی این جی اوز نے آسمان سر پر اٹھا لینا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے یہاں جلنے والے مسلمان تھے۔ نعیم کے سینے میں قرآن تھا اور چہرے پر داڑھی تھی۔ لہذا صدراوباما سے لیکر بانکی مون اور یورپ تک کسی نے اس بربریت کی مذمت نہیں کی۔ یہ سوچنے کی بات ہے کہ سانحہ کے بعد ابابیلوں کی طرح بلوائی کہاں سے آئے؟ گروہ در گروہ قاتلوں کی فوجوںنے یک دم نمودار ہو کر سب کچھ تہس نہس کیسے کیا ؟یہ سب کچھ انصاف کی علمبرداری نہ ہونے کے باعث ہے۔ مظلوموں کو بروقت انصاف نہ ملنے کے باعث انتہا پسندی جنم لیتی ہے۔ اگر ملک کو اچھی قیادت میسر ہو تو پھر سانحہ کے بعد مظلوموں کی سوچ بدلی جا سکتی ہے۔ ان کے غم و غصے کا رخ موڑا جا سکتا ہے عوام کی سوچ یک دم تبدیل نہیں ہوتی بلکہ یہ برسوں کے تدریجی عمل کے بعد تشکیل پاتی ہے۔
دہشت گردی اور فرقہ واریت کے لئے ہماری آب و ہوا ناساز گار تھی لیکن عوام کے دلوں میں کدورتوں کے بیج بونے نفرتوں کی آبیاری کرنے کے ذمہ دار ہمارے حکمران ہیں۔ ہم نے امریکہ کی فدویانہ اطاعت گزاری کی۔ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے چند جماعتوں کو بے گناہوں کی قتل و غارت کا سرٹیفکیٹ مہیا کیا۔ قوموں کے مسائل حل کرنے اور انصاف کی علمبرداری قائم کرنے کیلئے حکومت جب قاتلوں کی سرپرستی کریگی۔ تو پھر سانحہ یوحنا آباد اور پشاور کا ہونا کوئی اچنبے کی بات نہیں۔
انسانیت کو جلا کر اس کا تمسخر اڑانا کل تک ہم داعش کا مشغلہ سمجھتے رہے اخبارات میں خبریں پڑھی داعش کے انسانیت سوز اقدام پر ماتم کیا۔ لیکن آج یہ سیاہ دن ہمارے ہاں بھی طلوع ہوا تو اس کی اذیت کا اندا زہ ہوا۔ نعیم اور بابر نعمان کو جلانے کے مناظر ہمارے بچوں بڑوں کے حواس پر چھائے ہوئے ہیں۔ ایسی بربریت تو جنگ زدہ افغانستان میں بھی دیکھنے کو نہیں ملتی۔ جو پاکستان میں نظر آ رہی ہے۔ چند دن سکون سے گزرنے کے بعد فتنہ فساد پھر انگڑائی لیکر سامنے آ جاتا ہے۔ ایسے سانحات میں میڈیا کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حقائق کا چہرہ مسخ کر کے خبر کو موم کی ناک بنا کر اپنی من پسند مطلب کے نقوش نہ ابھارے ۔ میڈیا کو اپنی ادائوں پر غور کرنا چاہئیے دلخراش مناظر کی عکس بندی کر کے اسے من و عن دکھاناکون سی خدمت ہے اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ہمارا میڈیا بیدار، چوکس اور ہوشیار ہے لیکن وہ بھولتاجا رہا ہے کہ موج مستی، تماشا گری، شوخی و طراری، چسکا بازی اور ذوق بازاری کی آبیاری اس کی اصل قوت نہیں۔ اس کی اصل طاقت، اس کی ساکھ، وقاراور امتیاز ہے۔ بغیر تحقیق و تفتیش کس کے چہرے پر کالک تھوپ دینا بھی اس کی لا محدود طاقت کا اندھا مظاہرہ ہے میڈیا کا یہ پہلو خوش آئند ہے کہ وہ سرکاری دربار کی بدعنوانیاں بے نقاب کر رہا ہے۔ لیکن کبھی کبھی اسے اپنی ادائوں پر بھی غور کرنا چاہئیے کہ وہ کہاں کھڑا ہے؟سانحہ یوحنا آباد کی آڑ میں چند این جی اوز نے اپنے ذاتی مفاد کے لئے جس طرح اس سانحہ کو توڑ موڑ کر پیش کیا۔ ہمارا میڈیا بھی اس کی تقلید کرتا نظر آیا۔ خدمت کی نام نہاد دعویدار این جی اوز کی فنڈنگ کے بارے بھی تحقیق ہونی چاہئیے کہ اس کا استعمال ملکی دفاع، استحکام اور خودمختاری کے خلاف تو نہیں ہو رہا۔ این جی اوز کے کارندوں کے جسموں میں بھی اگر دل ہے تو وہ بھی قیمتی وقت میں سے صرف پانچ منٹ نکال کر یہ سوچیں کہ نعیم اور بابر نعمان کی جگہ ان کا بھائی بیٹا یا خاوند ہوتا تو ان پر کیا گزرتی؟
 

عبدالقیوم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 25، 2013
پیغامات
825
ری ایکشن اسکور
433
پوائنٹ
142
سانحہ یوحنا آباد ایک درد ناک اور اندوہناک واقعہ ہے عبادت گزاروں کو خون میں نہلا دیا گیا ‘ عیسائی برادری کا یہ قتل عام انسانیت کے ماتھے پر کلنگ کا ٹیکہ ہے یہ اسلام اور پاکستان کیخلاف کھلی سازش ہے اس سے قبل بھی عیسائی گرجا گھروں اور بستیوں پر حملے ہو چکے ہیں جن کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ قرآن مجید میں پرہیز گار اور عبادت گزار عیسائی راہبوں کی پذیرائی کی گئی ہے انکی عبادت گاہوں کا احترام اسلام میں لازمی قرار دیا گیا ہے ۔ حدیث رسولؐ میں اقلیتوں کے حقوق کے احکامات واضح ہیں۔ عربی زبان میں اقلیتوں کو ’’ذمی‘‘ کہا جاتا ہے جس کے لغوی معنی ’’حفاظت یافتہ‘‘ کے ہیں یعنی ایک اسلامی مملکت میں غیر مسلم کے مال و جان‘ عزت وآبرو اور عزت و احترام کی حفاظت فرض عین ہے ایسے میں ان لوگوں کی عبادت گاہوں پر حملہ کرنا خد اور رسولؐ کے احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے اس واقعہ کا دوسرا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ مشتعل ہجوم نے دو راہگیروں کو مار مار کر ادھ موا کر دیا اور انہیں زندہ جلا کر خاکستر کر دیا‘ لاہور کے پادری صاحب نے ٹی وی پر انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ انہیں پولیس کے حوالے کیا جانا چاہیے تھا ہجوم نے ان کو جلا کر خاکستر کر دینا غیر قانونی فعل ہے وہ دونوں نوجوان دہشت گردوں کے ساتھی تھے یا بے گناہ راہگیر تھے انہیں زندہ جلانا کسی مذہب اور قانون میں جائز نہیں‘ بقول صائب تبریزی …؎
دنیا بہ اہل خویش ترحم نمی کند
آتش اماں نمی دہد آتش پرست را
یعنی دنیا اس دنیا میں بسنے والوں پر رحم نہیں کھاتی جیسے کہ آگ آتش پرست کو بھی امان نہیں دیتی اور اسے جلا کر راکھ کر دیتی ہے جب آتش سے آتش پرست نہیں بچ سکتا تو یہ دو نوجوان کیسے بچ پاتے… مصطفی آباد للیانی کے رہائشی محمد سلیم نے بتایا کہ اس کا بھائی محمد نعیم حافظ قرآن تھا وہ شیشہ اور ایلومینیم کا کاروبار کرتا تھا وہ چرچ کے قریب کسی گھر میں شیشہ کا کام کرنے کیلئے سامان گدھا گاڑی پر لاد کر جا رہا تھا کہ شک کی بناء پر بے رحمی سے زندہ جلا دیا گیا‘ بہر حال یہ ایک افسوسناک واقعہ ہے ۔ دنیا امن و امان کا گہوارہ بننے کی بجائے دہشتگردی اور مذہبی انتہا پرستی کی طرف بڑھ رہی ہے امریکہ اور مغرب میں بھی پروفیسر سیموئیل ہنٹگگٹن کے ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ کے نظریات وجہ نفرت بن رہے ہیں۔ امریکی ریاست شمالی کیرولینا میں تین مسلمان طالب علموں کا قتل آزادی اور جمہوریت کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے اسرائیل آج بھی فلسطینیوں پر مظالم کے پہاڑتوڑ رہا ہے ۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نانیاتو کی امریکی کانگرس میں تقریر ایران دشمنی ہی نہیں اسلام دشمنی بھی ہے امریکی کانگریس کے اسپیکر کا یہ غیر آئینی فعل امریکہ کی آئین نوازی کی توہین ہے جس پر امریکی صحافیوں اور دانشوروں نے کھل کر کانگرس کے اسپیکر کی مذمت کی ہے اور امریکی صدر باراک اوبامہ نے بھی اسے تنقید کا نشانہ بنایا۔ بقول عطار نیشا پوری …؎
چوں زمرغ سحر فغاں برخاست
نالہ از طاق آسماں برخاست
یعنی جب مرغ سحر نے فغاں کی تو طاق آسماں سے بھی نالہ بلند ہوا۔ امریکی ریپبلکن پارٹی کے اسپیکر کی بے شرمی کی حد تک اسرائیلی وزیراعظم کی جارحانہ تقریر پر نہ صرف امریکی دانشور بلکہ فرانس اور جرمنی کے دانشور بھی چیخ اٹھے۔ جس طرح اسرائیل دہشت گردی کا مرتکب ہے اسی طرح کشمیر میں بھارت بھی ریاستی دہشت گردی کا بے محابہ ارتکاب کر رہا ہے گجرات میں دو ہزار مسلمانوں کے قاتل نریندر مودی کو اسلام دشمنی کی بدولت بھارت کی ہندو متعصب آبادی نے ہندوستان کا وزیراعظم بنا کر سیکولر ازم کی قبائے خون رنگ کو اپنے ہاتھوں سے چاک چاک کر دیا۔ وہ لوگ جو آج بھی امن کی آشا کے گیت گاتے نہیں تھکتے مجاز لکھنوی کا المیہ ان کیلئے بانگ درا ہے …؎
ٹپکے گا لہو اور مرے دیدہ تر سے
دھڑکے گا دل خانہ خراب اور زیادہ
بھارت کی متعصب حکومت اپنے ہاتھ سے اپنے گھر کو آ گ لگا رہی ہے۔ ممتاز بھارتی ادیب اور صحافی خشونت سنگھ ‘ ممتاز دانشور اور صحافی ارون رائے کے علاوہ پنجابی زبان کی ممتاز شاعرہ امرتا پرتیم کو تقسیم ہند کا رنج تو تھا مگر وہ اپنے ہندوانہ تعصب کو اس تقسیم کا اصل سبب گردانتے تھے انگریزی زبان کی ممتاز شاعرہ سروجنی نائیڈو جس نے قائداعظم کو سفیر امن کا خطاب دیا تھا وہ بھی ہندوانہ متعصب ذہنیت سے نالاں تھیں۔ نئی دہلی میں انتہا پسند ہندوؤں نے کشمیری رہنما مقبول بٹ اور افضل گرو کو تختہ دار پر لٹکا دیا اور انکی لاشیں تک تہاڑ جیل میں دفنا دیں اور انکے وارثوں کے حوالے نہ کیں جو قانون‘ تہذیب اور انسانیت کی کھلم کھلا توہین ہے ۔ افضل گورو کی برسی پر منعقد ہونیوالے سیمینار پر ہندو انتہا پسندوں نے حملہ کر دیا‘ یہ سیمینار عیسائیوں کے مشینری اسکول میں ہو رہا تھا بی جے پی کی طلبہ تنظیم اکھل بھارتیہ ودیارتھی اور راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ کے کارکنوں نے حملہ کیا۔ پروفیسر عبدالرحمان گیلانی کی تقریر میں مزاحم ہوئے اور ان کو زدو کوب کیا۔ 14 فروری کو راولاکوٹ سیکٹر میں بلاجواز بھارتی فوج نے فائرنگ کرکے محمد اسلم کو شہید کر دیا ۔ بھارت میں عیسائی‘ مسلمان اور سکھ خوف و ہراس کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عیسائی گرجا گھروں پر وہاں بھی حملے ہوتے ہیں لیکن یہ مقام صد افسوس ہے کہ بانی پاکستان نے 11 ستمبر 1947 ء کو قانونی ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے ہر پاکستانی چاہے وہ مسلم ہے یا غیر مسلم اسکے مال و جان کی حفاظت کا اعلان کیا تھا مگر آج اسرائیل اور بھارت کے ایجنٹ پاکستانیوں کے امن کو تہہ وبالا کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر اکرام حسین عشرت کا اس ناگفتہ بہ حالت پر یہ سوال آج جواب طلب ہے کہتے ہیں …؎
اے دوست یہ نہ پوچھ مسلمان کون ہے
مجھ کو دکھا کہ شہر میں انساں کون ہے
مانا کہ رند مست گہنگار ہے مگر
محفل میں آج صاحب ایمان کون ہے
 
Top