• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

7 ستمبر 1974 قادیانیوں کا دیرینہ مطالبہ پورا ہوا یا ان پر ظلم ہوا

شمولیت
اگست 18، 2017
پیغامات
42
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
57
عنوان : 7 ستمبر 1974 قادیانیوں پر ظلم ہوا یا ان کا دیرینہ مطالبہ پورا کیا گیا؟ فیصلہ خود کیجیے

تحریر: عبیداللہ لطیف فیصل آباد

وطن عزیز اس وقت ایک کٹھن دور سے گزر رہا ہے ایک طرف داعش اور تحریک طالبان پاکستان جیسے تکفیری گروہ ہر ایک پر کفر کے فتوے لگا کر جہادکے نام پردہشتگردی کو پروان چڑھارہے ہیں تو دوسری طرف بعض لوگ ان کی اس دہشت گردی کو اسلام اور اسلامی قوانین کے ساتھ منسلک کر کے اسلام اور اسلامی تعلیمات کے خلاف زہریلا پراپیگنڈہ کرنے میں مصروف ہیں درحقیقت یہ دونوں گروہ افراط و تفریط کا شکار ہیں دوسرے گروہ سے متاثر ہو کر ہی کبھی رانا ثناءاللہ جیسے سینیئر سیاستدان یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ قادیانیوں اور ہمارے درمیان ختم نبوت کے مسئلے پر معمولی اختلاف ہے تو کبھی حمزہ عباسی جیسے اینکر اور اداکار پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلے کے خلاف آواز اٹھاتے نظر آتے ہیں اور یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا پارلیمنٹ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی کو کافر قرار دے ؟ یاد رہے کہ امت مسلمہ اور قادیانیوں کے درمیان صرف عقیدہ ختم نبوت میں ہی فرق نہیں بلکہ قادیانیت حقیقی اسلام کے نام پر اسلام کے مقابل یہودونصاری کا پروان چڑھایا وہ پودا ہے جس کی ایک ایک چیز اسلام کے خلاف ہے یہ بات میں اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ مرزا غلام احمد قادیانی کا بڑا بیٹا اور قادیانیوں کا دوسرا خلیفہ بشیرالدین محمود لکھتا ہے کہ

"حضرت مسیح موعود نے تو فرمایا ہے کہ ان کا اسلام اور ہے اور ہمارا اور، ان کا خدا اور ہے اور ہمارا خدا اور ہے، ہمارا حج اور ہے اور ان کا حج اور۔ اسی طرح ان سے ہر بات میں اختلاف ہے۔‘‘

(روزنامہ الفضل قادیان 21 اگست 1917ء جلد 5 نمبر 15 صفحہ 8 )

’’حضرت مسیح موعود (مرزاکادیانی) کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا یہ غلط ہے کہ دوسرے لوگوں (مسلمانوں) سے ہمارا اختلاف صرف وفات مسیح یا اور چند مسائل میں ہے آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی ذات، رسول کریمؐ، قرآن، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، غرض کہ آپ نے تفصیل سے بتایا کہ ایک ایک چیز میں ہمیں ان سے اختلاف ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ مرزا بشیر الدین خلیفہ قادیان، مندرجہ اخبار ’’الفضل‘‘ قادیان، جلد 19، نمبر 13، مورخہ 30 جولائی 1931ء)
اب جہاں تک سوال ہے کہ کیا پارلیمنٹ کو یہ حق حاصل ہے کہ قادیانیوں کو کافر قرار دے درحقیقت یہ سوال ہی محض کم علمی اور جہالت کا نتیجہ ہے کیونکہ پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار نہیں دیا اور نہ ہی امت سے باہر نکالا ہے بلکہ پارلیمنٹ نے تو قادیانیوں کا دیرینہ مطالبہ پورا کیا ہے جبکہ آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی نے خود اپنے آپ کو اور اپنے متبعین کوامت سے باہر نکالا ہے ۔ پاکستانی پارلیمنٹ نے تو متفقہ طور پر متنبی قادیاں مرزا قادیانی کے فیصلے کی نہ صرف توثیق کی ہے ۔ بلکہ قادیانیوں کا دیرینہ مطالبہ بھی پورا کیا ہے۔
قارئین کرام ! پہلے میں آپ کو مرزا قادیانی کو بذات خود اپنے آپ کو اور اپنی جماعت کو امت سے باہر نکالنے کے دلائل پیش کروں گا پھر واضح کروں گا کہ قادیانیوں کا دیرینہ مطالبہ کیسے پورا ہوا اب مرزا قادیانی کا اپنے آپ کو اور اپنی جماعت کو امت سے نکالنے کے دلائل ملاحظہ کریں چنانچہ ایک مشہور روایت ہے کہ نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ
((موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے بہتر 72فرقے تھے اور میری قوم میں تہتر 73فرقے ہوں گے اور ان میں سے فقط ایک فرقہ جنتی ہو گا۔ یہ سن کر صحابہ کرام نے عرض کی یا رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم ! وہ گروہ کونسا ہو گا؟ تو نبی رحمت علیہ السلام نے فرمایا جو میرے اور میرے صحابہ کے نقش قدم پر چلے گا۔))
(رواہٗ عبداﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہ سنن ابو داؤد ‘ جامع ترمذی)
اس حدیث مبارکہ سے واضح ہوتاہے کہ امت صرف اور صرف تہتر فرقوں پر مشتمل ہو گی جبکہ اس کے برعکس مرزاقادیانی تمام تہتر فرقوں کو پلید اور جہنمی قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ
’’درمیانی زمانہ جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ سے بلکہ تمام خیرالقرون کے زمانہ سے بعد میں ہے اور مسیح موعود کے زمانہ سے پہلے ہے یہ زمانہ فیج اعوج کا زمانہ ہے یعنی ٹیڑھے گروہ کا زمانہ جس میں خیر نہیں مگر شاذونادر ۔یہی فیج اعوج کا زمانہ ہے جس کی نسبت آنحضرت ﷺ کی یہ حدیث ہے لیسوا منی ولست منھم۔ یعنی نہ یہ لوگ مجھ میں سے ہیں اور نہ میں ان میں سے ہوں یعنی مجھے ان سے کچھ بھی تعلق نہیں یہی زمانہ ہے جس میں ہزارہا بدعات اور بے شمار ناپاک رسومات اور ہر قسم کے شرک خداکی ذات اور صفات اور افعال میں گروہ در گروہ پلید مذہب جو تہتر تک پہنچ گئے پیدا ہو گئے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ صفحہ 140مندرجہ قادیانی خزائن جلد 17صفحہ226)
انگریز لیفٹیننٹ گورنر کے نام درخواست میں آنجہانی مرزاقادیانی اپنا اور اپنی جماعت کا تعارف کرواتے ہوئے لکھتا ہے کہ
’’چونکہ مسلمانوں کا ایک نیا فرقہ جس کا پیشوا اور امام اور پیر یہ راقم (مرزاقادیانی) ہے پنجاب اور ہندوستان کے اکثر شہروں میں پھیلتا جاتاہے ۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلددوم صفحہ 188طبع جدید)
محترم قارئین ! اب دیکھئے کہ فرمان نبوی کے مطابق تو امت صرف تہتر فرقوں پر مشتمل ہے اور مرزاقادیانی تمام تہتر فرقوں کو نہ صرف پلید قرار دے رہا ہے بلکہ ایک نئے چوہترویں فرقے کی بنیاد رکھ رہاہے جس کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ ایک اور جگہ پر اپنی جماعت کو فرقہ جدیدہ قراردیتے ہوئے لکھتا ہے کہ
’’اور تیسرا امر جو قابل گزارش ہے وہ یہ ہے کہ میں گورنمنٹ عالیہ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ فرقہ جدیدہ جو برٹش انڈیاکے اکثر مقامات میں پھیل گیا ہے جس کا میں پیشوا اور امام ہوں گورنمنٹ کے لیے ہرگز خطرناک نہیں ہے اور اس کے اصول ایسے پاک اور صاف اور امن بخش اور صلح کاری کے ہیں کہ تمام اسلام کے موجودہ فرقوں میں اس کی نظیر گورنمنٹ کو نہیں ملے گی۔ جو ہدایتیں اس فرقہ کے لیے میں نے مرتب کی ہیں جن کو میں نے ہاتھ سے لکھ کر اور چھاپ کر ہر ایک مرید کو دیا ہے کہ ان کو اپنا دستور العمل رکھے وہ ہدایتیں میرے اس رسالہ میں مندرج ہیں جو 12جنوری 1889ء میں چھپ کر عام مریدوں میں شائع ہوا ہے۔ جس کا نام تکمیل تبلیغ مع شرائط بیعت ہے جس کی ایک کاپی اسی زمانہ میں گورنمنٹ میں بھی بھیجی گئی تھی۔۔۔۔۔۔ اور میری جماعت جیسا کہ میں آگے بیان کروں گا جاہلوں اور وحشیوں کی جماعت نہیں ہے بلکہ اکثر ان میں اعلیٰ درجہ کے تعلیم یافتہ اور علوم مروجہ کے حاصل کرنے والے اور سرکاری معز ز عہدوں پر سرفراز ہیں اورمیں دیکھتا ہوں کہ انھوں نے چال چلن اور اخلاق فاضلہ میں بڑی ترقی کی ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ تجربہ کے وقت سرکار انگریزی ان کو اوّل درجہ کے خیرخواہ پاوے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غرض یہ ایک ایسی جماعت ہے جو سرکار انگریزی کی نمک پروردہ اور نیک نامی حاصل کردہ اور مورد مراحم گورنمنٹ ہے۔‘‘
(اشتہار ’’بحضور لیفٹیننٹ گورنر بہادر دام اقبالہ ‘‘ مندرجہ مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 195 تا 197 از مرزا قادیانی طبع چہارم)
قارئین کرام! امت مسلمہ میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو یہ کہے کہ اسے مکہ اور مدینہ میں امن اور سکون نہیں ملتا کیونکہ ﷲ تعالی قرآن کریم میں فرماتاہی کہ
اِنَّ اَوَّلَ بَیْتِِ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکََا وَّ ھُدَی لَلْمُتَّقِیْن oفِیْہِ اٰیٰتٌ بَیِّنٰتٌ مَقَامُ اِبْرٰھِیْمَ وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنََا
(سورہ آلعمران: ۹۷،۹۸۸)ترجمہ از تفسیر صغیر:سب سے پہلا گھر جو تمام لوگوں کے(فائدہ کے ) لئے بنایا گیا تھا وہ ہے جو مکہ میں ہے وہ تمام جہانوں کے لئے برکت والا( مقام )اور (موجب) ہدایت ہے oاس میں کئی روشن نشانات ہیں (وہ)ابراہیم کی قیام گاہ ہے اور جو اس میں داخل ہو امن میں آجاتا ہے ۔
وَضَرَبَ ﷲ مَثَلََا قَرْیَۃََ کَانَتْ اٰمِنَۃََ مُّطْمَئِنَّۃ (سورہ النحل :۱۱۳)
ترجمہ از تفسیر صغیر: اور ﷲ (تمہیں سمجھانے کے لئے ) ایک بستی کا حال بیان کرتا ہے۔ جسے (ہرطرح سے)امن حاصل ہے (اور)اطمینان نصیب ہے ۔
محترم قارئین!اسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مرزا بشیرالدین لکھتا ہے کہ
’’اس جگہ بستی سے مراد مکہ مکرمہ ہے ۔‘‘
ﷲ تعالی قرآن کریم میں مکہ شہر کی قسم اٹھاتے ہوئے فرماتا ہے کہ
وَھَذَالْبَلَدِالْاَمِیْنَo (سورہ التین :۴)
ترجمہ از تفسیر صغیر: اور اس امن والے شہر (مکہ) کو بھی
(نوٹ) محترم قارئین !مکہ مکرمہ کی حرمت اور امن والا شہر ہونے کے بارے میں جو بھی آیات پیش کی گئی ہیں ان کے نمبر تفسیر صغیر کے اعتبار سے دیئے گئے ہیں کیونکہ اس میں ہر سورۃ میں بسم ﷲ الرحمن الرحیم کوبھی بطور آیت پیش کر کے ایک آیت کا اضافہ کیا گیاہے ۔
لیکن مرزاقادیانی اس کے برعکس لکھتا ہے کہ
’’ میں جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے میری اور میری جماعت کی پناہ اس سلطنت کو بنا دیا ہے۔ یہ امن جو اس سلطنت (برطانیہ) کے زیر سایہ ہمیں حاصل ہے نہ یہ مکہ معظمہ میں مل سکتا ہے اور نہ مدینہ میں اور نہ سلطان روم کے پایہ تخت قسطنطنیہ میں۔‘‘
(تریاق القلوب صفحہ28مندرجہ قادیانی خزائن جلد15صفحہ 156)
محترم قارئین!جس طرح اسلام کے دو حصے ہیں ﷲ تعالیٰ کی اطاعت اور محمدرسول ﷲ ﷺ کی اطاعت۔اسی طرح مرزا قادیانی نے بھی اپنے مذہب کے دو حصے بیان کیے ہیں چنانچہ مرزا قادیانی اپنے مذہب کا اظہار کرتے ہوئے رقمطراز ہے کہ
’’سو میرا مذہب جس کو میں باربار ظاہر کرتا ہوں یہی ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں۔ایک یہ کہ خداتعالیٰ کی اطاعت کریں‘دوسرے اس سلطنت کی جس نے امن قائم کیا ہو جس نے ظالموں کے ہاتھ سے اپنے سایہ میں پناہ دی ہو ۔سو وہ سلطنت برطانیہ ہے۔‘‘
(شہادت القرآن صفحہ84مندرجہ روحانی خزائن جلد6صفحہ380)
قارئین کرام ! مرزاقادیانی کا بیٹا مرزا بشیر احمد لکھتا ہے کہ
’’ہر ایک ایسا شخص جو موسی کو تو مانتا ہے مگر عیسی کو نہیں مانتا یا عیسی کو تو مانتا ہے مگر محمد (ﷺ) کو نہیں مانتا اور یا محمد (ﷺ) کو تو مانتا ہے پر مسیح موعود (مرزا) کو نہیں مانتاوہ نہ صرف کافر پکا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔‘‘
(کلمۃ الفصل صفحہ110از بشیر احمد ابن مرزاقادیانی)
اسی طرح قادیانی اخبار الفضل لکھتا ہے کہ
’’غیر احمدیوں کی ہمارے مقابلہ میں وہی حیثیت ہے جو قرآن کریم ایک مومن کے مقابلہ میں اہل کتاب کی قرار دے کر تعلیم دیتا ہے کہ ایک مومن اہل کتاب عورت کو بیاہ لا سکتا ہے مگر مومنہ عورت کو اہل کتاب سے نہیں بیاہ سکتا ۔ اسی طرح ایک احمدی غیر احمدی عورت کو اپنے حبالہ عقد میں لاسکتا ہے ، مگر احمدی عورت شریعت اسلام کے مطابق غیر احمدی مرد کے نکاح میں نہیں دی جا سکتی ۔۔۔۔۔ حضور (مرزاصاحب ) فرماتے ہیں :
غیر احمدی کی لڑکی لے لینے میں حرج نہیں ہے ، کیونکہ اہل کتاب عورتوں سے بھی نکاحجائز ہے ، بلکہ اس میں فائدہ ہے کہ ایک اور انسان ہدایت پاتا ہے ۔ اپنی لڑکی غیر احمدی کو نہ دینی چاہئے ۔اگر ملے تو لے لو ،بے شک لینے میں حرج نہیں اور دینے میں گناہ ہے ۔(الحکم ۱۴ ,اپریل ۱۹۲۰ء)۔‘‘
(اخبار الفضل قادیاں مورخہ ۱۶ دسمبر ۱۹۲۰ء)
مزید قادیانی اخبار الفضل مرزاقادیانی کے بڑے بیٹے اور قادیانیوں کے دوسرے خلیفہ میاں بشیر الدین محمود کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ
’’ایک شخص کے سوالات کے ۔۔۔۔۔ حضرت میاں محمود احمد صاحب نے مندرجہ ذیل جوابات لکھے ۔
سوال: کیا جو شخص احمدی کہلاتا ہے ، چندہ بھی دیتا ہے ،تبلیغ بھی کرتا ہے لیکن حضرت مسیح موعود کے حکم صریحی کے خلاف کہ غیر احمدی کو اپنی لڑکی دینا جائز نہیں ۔اپنی لڑکی کا نکاح کر دیتا ہے ۔ وہ ایک ہی حکم کے توڑنے سے مسیح موعود کے منکروں میں سے ہو سکتا ہے ؟
جواب : جو شخص اپنی لڑکی کا رشتہ غیر احمدی لڑکے کو دیتا ہے میرے نزدیک وہ احمدی نہیں ، کوئی شخص کسی کو غیر مسلم سمجھتے ہوئے اپنی لڑکی اس کے نکاح میں نہیں دے سکتا۔
سوال: جو نکاح خواں ایسا نکاح پڑھاوے اس کے متعلق کیا حکم ہے ؟
جواب : ایسے نکاح خواں کے متعلق ہم وہی فتوی دیں گے جو اس شخص کی نسبت دیا جا سکتا ہے ۔ جس نے ایک مسلمان لڑکی کا نکاح ایک عیسائی یا ہندو لڑکے سے پڑھ دیاہو۔
سوال : کیا ایسا شخص جس نے غیر احمدیوں سے اپنی لڑکی کا رشتہ کیا ہے دوسرے احمدیوں کی شادی میں مدعو ہو سکتا ہے ؟
جواب : ایسی شادی میں شریک ہونا بھی جائز نہیں ۔
(ڈائری میاں محمود احمد خلیفہ قادیاں مندرجہ الفضل قادیاں جلد ۸نمبر۸۸ مورخہ ۲۲ مئی۱۹۲۱ء )
قارئین کرام ! قادیانیوں نے پہلی بار مسلمانوں سے الگ اپنی شناخت باونڈری کمشن کے سامنے 1946 میں کی جس کی بنیاد پر ضلع گوردادسپور انڈیا کا حصہ بنا اور کشمیر کو انڈیا سے ملانے کے لیے انڈیا کو واحد زمینی راستہ ملا اس کی تفصیل پیش کرنے سے پہلے آپ کے سامنے تحریک پاکستان میں قادیانیوں کے کردار پر چند حوالہ جات پیش کرنا چاہتا ہوں ملاحظہ فرمائیں ۔ قادیانیوں کا دوسرے خلیفہ اور مرزا غلام احمد قادیانی کے بڑے بیٹے بشیر الدین محمود کا ایک بیان ان کے آفیشل اخبار الفضل میں 1944 کو کچھ یوں شائع ہوا کہ
"پس مسیح موعود کا ایک الہام ہے آریوں کا بادشاہ ۔ اگر ہم آریوں کو الگ کر دیں اور مسلمانوں کو الگ تو حضرت مسیح موعود کا یہ الہام کس طرح پورا ہو سکتا ہے پس ضروری ہے کہ ہندوستان کے سب لوگ متحد رہیں اگر ہندوستان نے الگ الگ ٹکڑوں میں تقسیم ہو جانا تھا تو حضرت مسیح موعود پاکستان کے بادشاہ کہلاتے آریوں کے بادشاہ نہ کہلاتے اس لیے بے شک مسلمان زور لگاتے رہیں جس مادی قسم کا پاکستان وہ۔چاہتے۔ہیں کبھی نہیں بن سکتا۔"
(بیان بشیرالدین محمود الفضل 8 جون 1944)
اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان بن بھی گیا اور قائم و دائم بھی ہے بشیر الدین محمود کی طرف سے الہام کی تشریح کے مطابق مرزا جی کے الہام آریوں کا بادشاہ کو جھوٹا ثابت کر کے مرزا جی کے منہ پر کالک مل گیا خیر آگے بڑھتے ہیں بشیرالدین محمود کا ایک اور بیان ملاحظہ کریں جو 5 اپریل 1947 کے الفضل میں "اکھنڈ ہندوستان"کے عنوان سے اس طرح موجود ہے کہ
"ہندوستان جیسی مضبوط بیس Base جس قوم کو مل جائے اس کی کامیابی میں کوئی شک نہیں رہتا ۔ اللہ تعالی کی اس مشیت سے کہ اس نے احمدیت کے لیے اتنی وسیع بیس Base مہیا کی ہے پتہ لگتا ہے کہ وہ سارے ہندوستان کو ایک سٹیج پر جمع کرنا چاہتا ہے اور سب کے گلے میں احمدیت کا جوا ڈالنا چاہتا ہے اس لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہندو مسلم سوال اٹھ جائے اور ساری قومیں سیروشکر ہو کر رہیں تا ملک کے حصے بخرے نہ ہوں بے شک یہ کام بہت مشکل ہے مگر اس کے نتائج بھی بہت شاندار ہیں اور اللہ تعالی چاہتا ہے کہ ساری متحد ہوں تا احمدیت اس وسیع بیس پر ترقی کرے چنانچہ اس رویا میں اس طرف اشارہ ہے ممکن ہے عارضی طور پر افتراق پیدا ہو اور کچھ وقت کے لیے دونوں قومیں جدا جدا رہیں مگر یہ حالت عارضی ہو گی اور ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ جلد دور ہو جائے۔"
(بیان بشیرالدین محمود الفضل 5 اپریل 1947)
آئیے مزید آگے بڑھتے ہیں قادیانی اخبار الفضل مئی 1947 کے ایک اور شمارے میں بشیرالدین محمود کا ایک اور بیان کچھ اس طرح شائع ہوا کہ
"میں قبل ازیں بتا چکا ہوں کہ اللہ تعالی کی مشیت ہندوستان کو اکٹھا رکھنا چاہتی ہے لیکن اگر قوموں کی غیر معمولی منافرت کی وجہ سے عارضی طور پر الگ بھی کرنا پڑے تو یہ اور بات ہے بسا اوقات عضو ماوف کو ڈاکٹر کاٹ دینے کا مشورہ بھی دیتے ہیں لیکن یہ خوشی سے نہیں ہوتا بلکہ مجبوری اور معذوری کے عالم میں اور صرف اس وقت ہوتا ہے جب کوئی چارہ نہ ہو اور اگر پھر یہ معلوم ہو جائے کہ اس ماوف عضو کی جگہ نیا لگ سکتا ہے تو کون جاہل انسان اس کے لیے کوشش نہیں کرے گا۔ اسی طرح ہندوستان کی تقسیم پر اگر ہم رضامند ہوئے ہیں تو خوشی سے نہیں بلکہ مجبوری سے اور پھر یہ کوشش کریں گے کہ کسی نہ کسی طرح جلد متحد ہو جائے۔"
(الفضل 16 مئی 1947 صفحہ 2)

قارئین کرام ! اب آپ باونڈری کمشن کے سامنے پارسیوں کی طرح قادیانیوں کی طرف سے مسلمانوں سے الگ شناخت کے مطالبے کا ثبوت بھی ملاحظہ فرمائیں چنانچہ 13 نومبر 1946 کے الفضل میں قادیانیوں کے اس وقت کے خلیفہ بشیرالدین محمود کا بیان کچھ یوں شائع ہوتا ہے کہ

"گورنمنٹ کا فرض ہے کہ وہ ہم سے بھی مشورہ لے اور ہمارے حقوق کا بھی خیال رکھے ہماری جماعت ہندوستان میں سات آٹھ لاکھ کے قریب ہے مگر ہماری جماعت کے افراد اس طرح پھیلے ہوئے ہیں ان کی آواز کی کوئی قیمت نہیں سمجھی جاتی لیگ ہمیں اپنے اندر شامل نہیں کرنا چاہتی اور کانگریس میں ہم شامل نہیں ہونا چاہتے اس کے مقابلہ میں پارسی ہندوستان میں تین لاکھ کے قریب ہیں لیکن حکومت کی طرف سے ایک پارسی وزیر سنٹر میں مقرر کر دیا گیا ہے اور ان کی جماعت کو قانونی جماعت تسلیم کر لیا گیا ہے حالانکہ ہماری جماعت ان سے دگنی بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے میں نے دہلی میں ایک انگریز افسر کو کہلا بھیجا کہ ہم شکوہ نہیں کرتے لیکن حکومت نے جو فیصلہ کیا ہے وہ نہایت غیر منصفانہ ہے انہوں نے پارسیوں کا قانونی وجود تسلیم کیا مگر احمدیوں کا نہیں حالانکہ تم ایک ایک پارسی لاو میں اس کے مقابلہ میں دو دو احمدی پیش کرتا چلا جاوں گا صرف اس لیے کہ ہماری جماعت بولتی نہیں اور ہماری جماعت دوسروں کی طرح لڑتی نہیں ہمارے حقوق کا خیال نہیں رکھا جاتا ۔ اس نے کہا ہم آپ کی جماعت کو ایک مذہبی جماعت سمجھتے ہیں ۔ میرے نمائندے نے اس کو جواب دیا بے شک ہم ایک مذہبی جماعت ہیں مگر کیا ہم نے ہندوستان میں رہنا ہے یا نہیں اور کیا ہندوستان کی سیاست کا اثر ہم پر نہیں پڑتا ۔ دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ کیا پارسی مذہبی جماعت نہیں اور عیسائی مذہبی جماعت نہیں ان کے آدمی پارسی اور عیسائی کر کے لیے گئے ہیں یا کسی سیاسی جماعت کے نمائندے کر کے۔"
(الفضل 13نومبر 1946)
قارئین کرام ! یہ تھا قادیانیوں کا عیسائیوں اور پارسیوں کی طرح مسلمانوں سے الگ تشخص کا مطالبہ جسے 1974 میں پاکستانی پارلیمنٹ نے پورا کیا ویسے بھی کسی بھی مہذب ملک کی پارلیمنٹ اور دیگر ادارے کسی کو اپنے ملک کے کروڑوں لوگوں کو دھوکہ دینے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اس حوالےسے تو تعذیرات پاکستان کی دفعہ 419 اور 420 بالکل واضح ہیں جن میں ہر طرح کے فراڈ اور دھوکہ دہی پر سزا مقرد کی گئی دفع 419 میں تو اس پر بھی سزا ہے کہ کوئی انسان اپنا آپ چھپا کر کسی دوسری شخصیت کے طور پر خود کو ظاہر کرے ۔
قارئین کرام ! آپ سوچتے ہوں گے کہ قادیانی لوگوں کو کیسے دھوکہ دیتے ہیں آئیے ہم آپ کو قادیانیوں کی دھوکہ دہی کا دیدار کرواتے ہیں ۔
جو بھی قادیانی مرزا غلام قادیانی کو اس کے تمام دعووں میں سچا جانتا ہے وہ اللہ تعالی کے ساتھ ساتھ مرزا قادیانی کو بھی "کن فیکون" کی صفت کا حامل مانتا ہے ۔ کیونکہ مرزا قادیانی کا دعوی ہے کہ اسے الہام ہوا کہ

اِنَّمَا اَمرُکَ اِذَا اَرَادتَ شَیئاً اَن تَقُولَ لَہُ کُن فَیَکُونُ
ترجمہ؛ ”تو جس بات کا ارادہ کرتا ہے وہ تیرے حکم سے فی الفور ہو جاتی ہے۔
(حقیقة الوحی صح 108 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 ص 108)
مرزا جی اپنا یہ الہام سورة یسین کی آیت
اِنَّمَآاَمرُہ اِذَا اَرَادَ شَیئاً اَن یَقُولَ لَہ کُن فَیَکُون (یٰسین 82
میں لفظی تحریف کرتے ہوئے تراشا ہے
اسی طرح کوئی بھی قادیانی آپ کو نہیں بتائے گا کہ ان کے خدا کے نام یلاش ، کالا اور کالو بھی ہیں اور ان کا خدا کھا جانے والی آگ بھی ہے ۔ اور مرزا قادیانی کا خدا اس کے بقول چوروں کی طرح پوشیدہ آتا ہے ۔
قارئین کرام ! قادیانی جب کلمہ پڑھتے ہیں تو کلمہ محمد رسول اللہ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم سے مراد مرزا قادیانی کو بھی مانتے ہیں کیونکہ مرزا قادیانی نے بذات خود محمد رسول اللہ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم ہونے کا دعوی بھی کیا ہے چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ
’’مگر میں کہتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد جو درحقیقت خاتم النبین تھے ، مجھے رسول اور نبی کے لفظ سے پکارے جانا کوئی اعتراض کی بات نہیں، اور نہ ہی اس سے مہر ختمیت ٹوٹتی ہے۔ کیونکہ میں بار بار بتلا چکا ہوں ، میں بموجب آیت وَآخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ وہی خاتم الانبیاء ہوں۔ اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے۔ اور مجھے آنحضرت ﷺ کا وجود قرار دیا ہے۔ پس اس طور سے آنحضرت ﷺ کے خاتم الانبیاء ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا۔ کیونکہ ظل اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا اور چونکہ میں ظلی طور پر محمد ﷺ ہوں ، پس اس طور سے خاتم النبین کی مہر نہیں ٹوٹی۔ کیونکہ محمد ﷺ کی نبوت محمد ہی تک محدود رہی۔یعنی بہرحال محمد ﷺہی نبی رہے اور نہ اور کوئی۔ یعنی جب کہ میں بروزی طور پر آنحضرت ﷺ ہوں اور بروزی رنگ میں تمام کمالات محمدی مع نبوت محمدیہ کے، میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں۔ تو پھر کونسا الگ انسان ہوا جس نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعویٰ کیا۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 8 مندرجہ قادیانی خزائن جلد 18صفحہ 212)
اسی طرح ایک اور جگہ قادیانی کذاب لکھتا ہے کہ
’’ نبوت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئیں مگر ایک کھڑکی سیرۃ صدیقی کی کھلی ہے۔ یعنی فنا فی الرسول کی ۔ پس جو شخص اس کھڑکی کی راہ سے خدا کے پاس آتا ہے اس پر ظلی طور پر وہی نبوت کی چادر پہنائی جاتی ہے جو نبوت محمدی کی چادر ہے۔ اس لیے اس کا نبی ہونا غیرت کی جگہ نہیں کیونکہ وہ اپنی ذات سے نہیں بلکہ اپنے نبی کے چشمہ سے لیتا ہے۔ اور نہ اپنے لیے بلکہ اسی کے جلال کے لیے۔ اس لیے اس کا نام آسمان پر محمد اور احمد ہے ۔ اس کے یہ معنیٰ ہیں کہ محمد کی نبوت آخر محمد کو ہی ملی۔ گو بروزی طور پر مگر نہ کسی اور کو۔۔۔۔۔۔لیکن اگر کوئی شخص اسی خاتم النبین میں ایسا گم ہو کہ بباعث نہایت اتحاد اور نفی غیریت کے اسی کا نام پالیا ہو اور صاف آئینہ کی طرح محمدی چہرہ کا اس میں انعکاس ہو گیا ہو تو وہ بغیر مہر توڑنے کے نبی کہلائے گا۔ کیونکہ وہ محمد ہے۔ گو ظلی طور پر ۔ پس باوجود اس شخص کے دعویٰ نبوت کے جس کا نام ظلی طور پر محمد اور احمد رکھا گیا ۔ پھر بھی سیدنا محمد خاتم النبین ہی رہا۔ کیونکہ یہ محمد (ثانی) (مرزا قادیانی) اسی محمد کی تصویر اور اسی کانام ہے۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 3 تا 5 مندرجہ روحانی خزائن جلد 8 1صفحہ207 تا209)
مرزا غلام احمد قادیانی کا بیٹا مرزا بشیر احمد اپنی کتاب کلمة الفصل میں ایک مقام پر لکھتا ہے کہ
’’اورچونکہ مشابہت تامہ کی وجہ سے مسیح موعود اور نبی کریم میں کوئی دوئی باقی نہیں کہ ان دونوں کے وجود بھی ایک وجود کا ہی حکم رکھتے ہیں جیساکہ خود مسیح موعود نے فرمایا کہ صاروجودی وجودہ (دیکھوخطبہ الہامیہ صفحہ171) اورحدیث میں بھی آیا ہے کہ حضرت نبی کریم نے فرمایا کہ مسیح موعود میری قبر میں دفن کیا جائے گا۔جس سے یہی مراد ہے کہ وہ میں ہی ہوں یعنی مسیح موعود نبی کریم سے الگ کوئی چیز نہیں ہے بلکہ وہی ہے جو بروزی رنگ میں دوبارہ دنیا میں آئے گا تاکہ اشاعت اسلام کا کام پورا کرے اور ھوالّذی ارسل رسولہ بالھدیٰ ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ کے فرمان کے مطابق تمام ادیانِ باطلہ پر اتمام حجت کر کے اسلام کو دنیا کے کونوں تک پہنچاوے تواس صورت میں کیا اس بات میں کوئی شک رہ جاتا ہے کہ قادیاں میں اللہ تعالیٰ نے پھر محمدؐ کو اتارا تاکہ اپنے وعدہ کو پورا کرے جو اس نے آخرین منھم لم یلحقوا بھم میں فرمایا تھا۔‘‘
(کلمۃالفصل صفحہ104‘105)
محترم قارئین ! بعض لوگ قادیانیوں کے کلمہ پڑھنے سے بھی دھوکا میں آجاتے ہیں کہ دیکھیں جی یہ بھی تو کلمہ پڑھتے ہیں۔ لہٰذا یہ بھی مسلمان ہی ہیں۔ حالانکہ قادیانی گروہ کلمہ میں جب ’’محمدرسول ﷲ ‘‘ کے الفاظ ادا کرتا ہے تو ان کے نزدیک اس سے مراد صرف نبی آخر الزمان علیہ السلام ہی نہیں ہوتا بلکہ مرزا غلام احمد قادیانی بھی ہوتا ہے، جیسا کہ ہم مندرجہ بالا تحریروں میں مرزا قادیانی کے دعویٰ سے ثابت کر آئے ہیں۔
آئیے! مذید قادیانی کلمہ کی حقیقت جاننے کے لیے مرزا قادیانی کے بیٹے مرزا بشیر احمد کی درج ذیل تحریر کو بھی ملاحظہ فرمائیں :
’’ہم کو نئے کلمے کی ضرورت پیش نہیں آتی کیونکہ مسیح موعود نبی کریم سے کوئی الگ چیز نہیں ہے جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے۔ صار وجودی وجودہ نیز من فرق بینی و بین المصطفی فما عرفنی وماریٰ اور یہ اس لیے ہے کہ حق تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وہ ایک دفعہ اور خاتم النبین کو دنیا میں مبعوث کرے گا جیسا کہ آیت آخرین منھم سے ظاہر ہے۔ پس مسیح موعود خود محمدرسول ﷲ ہے جو اشاعت اسلام کے لیے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے۔ اس لیے ہم کوکسی نئے کلمہ کی ضرورت نہیں۔ ہاں اگر محمدرسول ﷲ کی جگہ کوئی اور آتا تو ضرور ت پیش آتی۔ ‘‘
(کلمۃ الفصل صفحہ158از مرزا بشیر احمد ابن مرزا قادیانی )
مرزا غلام قادیانی ایک اور مقام پر لکھتا ہے کہ
’’ اور جو شخص مجھ میں اور مصطفی میں تفریق کرتا ہے اس نے مجھے نہیں دیکھا اور نہ پہچانا ہے۔‘‘
(خطبہ الہامیہ صفحہ 171 مندرجہ قادیانی خزائن جلد 16 صفحہ 259)
محترم قارئین ! قادیانیوں کے اخبار الفضل 26 فروری 1924 کے شمارے میں میثاق النبیین کے عنوان سے شائع ہونے والے ایک مضمون میں قصیدہ لکھا گیا جس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ نبی آخرالزماں جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سمیت تمام انبیاء کرام سے یہ عہد لیا گیا ہے کہ اگر ان کی زندگی میں مرزا غلام احمد کادیانی بطور مسیح موعود آجائے تو ان سب کو بھی مرزا غلام احمد کادیانی پر ایمان لانا ہو گا ۔
یہ اتنا بڑا کفر ہے کہ جس کی مثال ملنا محال ہے حالانکہ وہ عہد نبی کریم علیہ السلام کے بارے میں تمام انبیاء کرام سے لیا گیا ہے اور اسی عہد کی پاسداری کا عملی مظاہرہ سیدنا عیسی علیہ السلام کے نزول سے ہو گا لیکن امت مرزائیہ نے ان قرآنی آیات اور میثاق النبیین کا مصداق مرزا غلام احمد کادیانی کو قرار دیا ہے آئیے اب اس قصیدے کے اشعار بھی ملاحظہ کریں۔

لیا تھا جو میثاق سب انبیاء سے
وہی عہد لیا حق نے مصطفےؐ سے
وہ نوح و خلیل و کلیم و مسیحا
سبھی سے یہ پیمان محکم لیا تھا
مبارک وہ امت کا موعود آیا
وہ میثاق ملت کا مقصود آیا
کریں اہل اسلام اب عہد پورا
بنے آج ہر ایک عبدًا شکورا

محترم قارئین ! قاضی ظہورالدین اکمل نامی شخص نہ صرف ایک شاعر تھا بلکہ مرزا غلام احمد کادیانی کا دست راست بھی جو مرزا غلام احمد کادیانی کی شان میں مدح سرائی بھی کرتا رہا اس نے ایک نظم لکھی جس کے چند اشعار یہ تھے

محمدؐ اتر آئے ہیں ہم میں
اور آگے سے بڑھ کر ہیں اپنی شان میں
محمدؐ دیکھنے ہوں جس نے اکمل
غلام احمد کو دیکھے کادیاں میں

ان کفریہ اشعار پر مبنی یہ نظم مرزا غلام احمد قادیانی کی زندگی میں اس کے سامنے پڑھی گئی جس پر سرزنش کرنے کی بجائے مرزا قادیانی نے جزاک اللہ کہا جب اسمبلی میں مرزا ناصر کے سامنے اس بات کا تذکرہ کیا گیا تو اس نے سرے سے ہی یہ نظم مرزا غلام احمد قادیانی کے سامنے پڑھے جانے سے انکار کر دیا حالانکہ یہ نظم 25 اکتوبر 1906 کے قادیانی اخبار البدر میں بھی شائع ہوئی اور 22 اگست 1944 کے قادیانی اخبار الفضل میں قاضی اکمل کا بیان موجود ہے کہ یہ نظم مرزا غلام احمد قادیانی کے سامنے پڑھی گئی اور اس نے سن کر جزاک اللہ کہا
قارئین کرام ! اسی طرح مرزا قادیانی کے ساتھیوں کو نبی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کے صحابہ کا درجہ بھی دیتے ہیں اور قادیانیوں کے پہلے خلیفہ حکیم نور دین کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور بشیرالدین محمود کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور مرزا قادیانی کی بیوی نصرت بیگم کو سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے تشبیہ دیتے ہیں آئیے اب قادیانی لٹریچر سے ہی حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں

حکیم نوردین کو مرزا غلام احمد قادیانی خود صدیق قرار دیتے ہوئے اپنی کتاب حمامة البشری میں لکھتا ہے کہ
"فاشکراللہ علی ما اعطانی کمثل ھذالصدیق الصدوق ۔ الفاضل ، الجلیل الباقر ، دقیق النظر ، عمیق الفقر المجاہد للہ

یعنی میں اللہ کا شکر کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایسا اعلی درجہ کا صدیق دیا جو راست باز اور جلیل القدر فاضل ہے اور باریک بین اور نکتہ رس اور اللہ کے لیے مجاہدہ کرنے والا ہے۔"
(حمامة البشری مترجم صفحہ 30,31)
اسی طرح قادیانیوں کے آفیشل اخبار الفضل 14 مارچ 1946 کے شمارے میں عبدالحمید آصف قادیانی کا ایک مضمون شائع ہوا جس میں وہ لکھتا ہے کہ
"مبارکہ بیگم نے ایک خواب دیکھا کہ حضرت مولوی نور دین صاحب ایک کتاب لیے بیٹھے ہیں ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو اس کتاب میں میرے متعلق حضرت صاحب کے الہامات ہیں اور میں ابوبکر ہوں ۔"
مزید آگے چل کر مضمون نگار لکھتا ہے کہ
"کتنی شاندار صداقت ہے کہ حضرت مسیح موعود کا آنا رسول کریم کا آنا ہے اور آپ کے بعد خلیفہ اول یعنی حضرت مولوی نور دین کا وجود نبی اکرم صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کے بعد ابوبکر صدیقؓ کا وجود ہے حضرت مولوی صاحب کی وفات 13 مارچ 1914کو ہوئی اس وقت جماعت ایک یتیم کی طرح رہ گئی مگر وہ خداتعالی جس نے یہ وعدہ کیا تھا کہ مومنین کی جماعت میں سے خلفاء چنتا رہے گا اس نے اپنے فضل سے اپنے وعدہ کو پورا کر کے دکھا دیا حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) فوت ہوئے تو اس نے ہمیں صدیق عطا فرمایا اور جب صدیق فوت ہوا تو اپنے فضل سے ہمیں عمر عطا فرمایا ۔"
(الفضل 14 مارچ 1946)

قارئین کرام اندازہ انداذہ کیجیے کن بدکردار لوگوں کو معاذاللہ استغفراللہ ابوبکر و عمر رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسی مقدس اور پاکباز ہستیوں سے تشبیح دی جا رہی ہے تشبیح ہی نہیں بلکہ ابوبکر و عمر قرار دیا جا رہا ہے ۔ ابوبکر و عمر رضوان اللہ علیہم اجمعین کا کچھ تعارف تو پہلے کروا ہی چکا ہوں آئیے ذرا عمر رضی اللہ عنہ کی غیرت و حمیت کا بھی تعارف کرواتا چلوں کہ وہ عمر رضی اللہ عنہ جن کی خواہش پر پردے کا حکم نازل ہوا ۔ صحیح البخاری میں ہے کہ

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، قَالَ : حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُنَّ يَخْرُجْنَ بِاللَّيْلِ إِذَا تَبَرَّزْنَ إِلَى الْمَنَاصِعِ وَهُوَ صَعِيدٌ أَفْيَحُ ، فَكَانَ عُمَرُ يَقُولُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : احْجُبْ نِسَاءَكَ ، فَلَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُ ، فَخَرَجَتْ سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ زَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً مِنَ اللَّيَالِي عِشَاءً ، وَكَانَتِ امْرَأَةً طَوِيلَةً ، فَنَادَاهَا عُمَرُ : أَلَا قَدْ عَرَفْنَاكِ يَا سَوْدَةُ حِرْصًا عَلَى أَنْ يَنْزِلَ الْحِجَابُ ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ آيَةَ الْحِجَابِ .


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں رات میں مناصع کی طرف قضاء حاجت کے لیے جاتیں اور مناصع ایک کھلا میدان ہے۔ تو عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کرتے تھے کہ اپنی بیویوں کو پردہ کرائیے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل نہیں کیا۔ ایک روز رات کو عشاء کے وقت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ جو دراز قد عورت تھیں، ( باہر ) گئیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں آواز دی ( اور کہا ) ہم نے تمہیں پہچان لیا اور ان کی خواہش یہ تھی کہ پردہ ( کا حکم ) نازل ہو جائے۔ چنانچہ ( اس کے بعد ) اللہ نے پردہ ( کا حکم ) نازل فرما دیا۔

اسی طرح صحیح مسلم میں روایت ہے کہ

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ جَدِّي حَدَّثَنِي عُقَيْلُ بْنُ خَالِدٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ أَزْوَاجَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُنَّ يَخْرُجْنَ بِاللَّيْلِ إِذَا تَبَرَّزْنَ إِلَى الْمَنَاصِعِ وَهُوَ صَعِيدٌ أَفْيَحُ وَكَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَقُولُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ احْجُبْ نِسَاءَكَ فَلَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُ فَخَرَجَتْ سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ زَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً مِنْ اللَّيَالِي عِشَاءً وَكَانَتْ امْرَأَةً طَوِيلَةً فَنَادَاهَا عُمَرُ أَلَا قَدْ عَرَفْنَاكِ يَا سَوْدَةُ حِرْصًا عَلَى أَنْ يُنْزَلَ الْحِجَابُ قَالَتْ عَائِشَةُ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْحِجَابَ

عقیل بن خالد نے ابن شہاب سے ، انھوں نے عروہ بن زبیر سے ، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج جب رات کو قضائے حاجت کے لئے باہر نکلتیں تو المناصع کی طرف جاتی تھیں ، وہ دور ایک کھلی ، بڑی جگہ ہے ۔ اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عرض کرتے رہتے تھے کہ آپ اپنی ازواج کو پردہ کرائیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( کسی حکمت کی بنا پر ) ایسا نہیں کرتے تھے ، پھر ایک رات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا عشاء کے وقت ( قضائے حاجت کے لئے ) باہرنکلیں ، وہ دراز قدخاتون تھیں ، تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس حرص میں کہ حجاب نازل ہوجائے ، پکار کر ان سے کہا : سودہ! ہم نے آپ کو پہچان لیا ہے ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا : اس پر اللہ تعالیٰ نے حجاب نازل فرمادیا ۔

قادیانیوں کا دوسرا خلیفہ مرزا بشیرالدین محمود ابن مرزا قادیانی جسے قادیانیوں عمرؓ قرار دینے کی ناپاک جسارت کی ہے اس کی بدکرداری کے چرچے تو زبان زدعام تھے لوگوں کی الزام تراشیاں پیش کرنے کی بجائے بشیرالدین محمود کی اپنی زبان سے اس کی بدکرداری کا اعتراف پیش کرتے ہیں چنانچہ وہ اس نے اپنے ایک خطبے میں خود بتایا کہ

"جب میں ولایت گیا تو مجھے خصوصیت سے خیال تھا کہ یورپین سوسائٹی کا عیب والا حصہ بھی دیکھوں مگر قیام انگلستان کے دوران میں مجھے اس کا موقع نہ ملا واپسی پر جب ہم فرانس آئے ، تو میں نے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب سے جو میرے ساتھ تھے کہا کہ مجھے کوئی ایسی جگہ دکھائیں جہاں یورپین سوسائٹی عریانی سے نظر آ سکے (اور اسلام کی میں خدمت کر سکوں۔ناقل)(لیکن بدقسمتی سے )وہ بھی فرانس سے واقف تو نہ تھے مگر مجھے ایک اوپیرا میں لے گئے ،(واقف ہوتے تھے اس سے بھی عریاں جگہ لے کر جاتے ۔شاید جناب ہیرا منڈی جانا چاہتے تھے )جس کا نام مجھے یاد نہیں رہا اور پیرا سینما کو کہتے ہیں (لو جی کر لو گل باپ تھیٹر میں اور بیٹا سینما میں ظاہر ہے جو باپ دیکھنے گیا تھا بیٹا بھی تو وہی دیکھنے جائے گا ناں)چودھری صاحب نے بتایا کہ یہ اعلیٰ سو سائٹی کی جگہ ہے جسے دیکھ کر آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان لوگوں کی کیا حالت ہے ،میری نظر چونکہ کمزور ہے ۔اسلئے دور کی چیز اچھی طرح نہیں دیکھ سکتا (لیکن پاس جا کر دیکھ سکتا ہوں گویا پاس جانا چاہتے ہیں)تھوڑی دیر کے بعد میں نے (کافی محنت کے بعد) جو دیکھا تو ایسا معلوم ہوا کہ سینکڑوں عورتیں بیٹھی ہیں میں نے چودھری صاحب سے کہا کیا یہ ننگی ہیں اُنہوں نے بتایا کہ یہ ننگی نہیں بلکہ کپڑے پہنے ہوئے ہیں مگر باوجود اس کے کہ وہ ننگی معلوم ہوتی ہیں (شکر ہے ابھی نظر کمزور ملی ہے )تو یہ بھی ایک لباس ہے اسی طرح ان لوگوں کے شام کی دعوتوں کے گاؤن ہوتے ہیں نام تو اس کا بھی لباس ہے مگر اس میں جسم کا ہر حصہ بالکل ننگا نظر آتا ہے ۔
(خطبات محمود ج 1ص226،اخبار الفضل قادیان 24جنوری 1934)

عزیز مسلمان ساتھیو! قادیانی گروہ مرزا غلام احمد قادیانی کی بیوی نصرت بیگم کو ام المومنین کہتا ہے چنانچہ مرزاغلام احمد قادیانی کے ملفوظات پرمشتمل کتاب میں مرزا قادیانی کا ملفوظ کچھ اس طرح درج ہے کہ :
’’ام المومنین کا لفظ جومسیح موعود کی بیوی کی نسبت استعمال کیاجاتا ہے اس پر بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں حضرت اقدس علیہ السلام نے سن کر فرمایا:
نبیوں کی بیویاں اگر امہات المومنین نہیں ہوتی ہیں تو کیا ہوتی ہیں؟ خداتعالیٰ کی سنت اور قانونِ قدرت کے اس تعامل سے بھی پتہ لگتاہے کہ کبھی کسی نبی کی بیوی سے کسی نے شادی نہیں کی ہم کہتے ہیں کہ ان لوگوں سے جو اعتراض کرتے ہیں کہ ام المومنین کیوں کہتے ہو؟ پوچھنا چاہیے کہ تم بتاؤ جو مسیح موعود تمہارے ذہن میں اورجسے تم سمجھتے ہوکہ وہ آ کر نکاح بھی کرے گا کیا اس کی بیوی کو ام المومنین کہو گے کہ نہیں؟‘‘
(ملفوظات جلداوّل صفحہ555 ایڈیشن 1988)

محترم قارئین! مرزا غلام احمد قادیانی اپنی بیوی نصرت بیگم کو سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے تشبیہ دینے کی ناپاک جسارت کرتے ہوئے رقمطراز ہے کہ
’’اشکر نعمتی رئیت خدیجتی براہین احمدیہ صفحہ ۵۵۸ ترجمہ :۔ میرا شکرکر کہ تو نے میری خدیجہ کوپایا۔ یہ ایک بشارت کئی سال پہلے اس نکاح کی طرف تھی۔ جو سادات کے گھر میں دہلی میں ہوا جس سے بفضلہ تعالیٰ چار لڑکے پیدا ہوئے۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 146مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ 524 از مرزا غلام قادیانی)
محترم قارئین ! اسی طرح قادیانیوں کے نزدیک مسجد اقصی سے مراد قادیاں میں موجود ان کی عبادت گاہ ہے ۔ اور قادیاں کا جلسہ ان کا ظلی حج ہے اور اس جلسے میں شریک ہونا نفلی حج سے بہتر ہے ۔ یہ ساری باتیں میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا بلکہ آپ کے سامنے قادیانی لٹریچر سے حوالہ جات پیش کرتا ہوں چنانچہ مرزا قادیانی اپنی کتاب خطبہ الہامیہ میں لکھتا ہے کہ

"مسجد اقصیٰ سے مراد مسیح موعود کی مسجد ہے جو قادیان میں واقع ہے جس کی نسبت براہین احمدیہ میں خدا کا کلام یہ ہے۔ مبارک، ومبارک کل امر مبارک یجمل فیہ اور یہ مبارک کا لفظ جو بصیغہ مفعول اور فاعل واقع ہوا ہے، قرآن شریف کی آیت بارکناحولہ کے مطابق ہے۔ پس کچھ شک نہیں جو قرآن شریف میں قادیان کا ذکر ہے جیسا کہﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
(سُبْحَانَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہ‘)
(خطبہ الہامیہ حاشیہ صفحہ21مندرجہ روحانی خزائن جلد 16صفحہ 21)

پھر مزید لکھا کہ

’’ والمسجد الاقصی المسجد الذی بناہ المسیح الموعود فی القادیان۔‘‘
یعنی مسجد اقصیٰ سے مراد وہ مسجد ہے جسے قادیان میں مسیح موعود نے بنایا۔‘‘
(خطبہ الہامیہ حاشیہ صفحہ 25مندرجہ روحانی خزائن جلد 16صفحہ 25)
مرزا قادیانی مزید وضاحت کے ساتھ لکھتا ہے کہ
ٍ’’معراج میں جو آنحضرت صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر فرما ہوئے وہ مسجد اقصیٰ وہی ہے، جو قادیان میں بجانب مشرق واقع ہے۔ جس کانام خدا کے کلام نے مبارک رکھا ہے‘‘
(خطبہ الہامیہ صفحہ 22مندرجہ روحانی خزائن جلد 16صفحہ 22)
ﷲ تعالیٰ نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر97 میں بیت ﷲ کے بارے میں ارشاد فرمایا: وَمَنْ دَخَلَہُ کَانَ اٰمِنًاجو اس میں داخل ہو گیا، اس کے لیے امن ہے۔ مرزا قادیانی اس آیت کو قادیان کی مسجد پہ چسپاں کرتے ہوئے کہتا ہے کہ
’’ اس مسجد مبارک کے بار ے میں پانچ مرتبہ الہام ہوا منجملہ ان کے ایک عظیم الشّان الہام ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فِیْہِ بَرَکَاتٌ وَمَنْ دَخَلَہُ کَانَ اٰمِنًا۔‘‘
(تذکرہ صفحہ83، طبع چہارم)
ایک اور مقام پر مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ

’’لوگ معمولی اور نفلی طور پر حج کرنے کو بھی جاتے ہیں مگر اس جگہ (قادیان میں آنا) نفلی حج سے ثواب زیادہ ہے اور غافل رہنے میں نقصان اور خطرہ کیونکہ سلسلہ آسمانی ہے اور حکم ربانی۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام صفحہ 352 مندرجہ روحانی خزائن جلد 5صفحہ 352)
محترم قارئین ! اس ضمن میں تو حوالہ جات اور بھی کافی سارے موجود ہیں لیکن آپ کے سامنے مرزا قادیانی کی شعروشاعری پر مبنی کتاب درثمین سے ایک حوالہ پیش کر کے بات آگے بڑھاتا ہوں چنانچہ مرزا قادیانی کا شعر ہے کہ

خدا کا ہم پہ بس لطف وکرم ہے وہ نعمت کون سی باقی جو کم ہے
زمین قادیاں اب محترم ہے ہجوم خلق سے ارض حرم ہے
(درّثمین اردو صفحہ56 ازمرزا قادیانی)

محترم قارئین ! آپ کے سامنے قادیانیوں کی دھوکہ دہیا ں دیکھنے کے بعد اب آپ پاکستانی آئین کو بھی ملاحظہ فرمائیں کہ وہ قادیانیوں کے بارے میں کیا کہتا ہے اور پاکستانی آئین و قانون قادیانیوں پر کون کونسی پابندیاں عائد کرتا ہے ۔چنانچہ پاکستانی آئین کے آرٹیکل نمبر ۲۶۰ میں لکھا ہے کہ
آرٹیکل نمبر ۲۶۰
جو شخص خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ختم نبوت پر مکمل ایمان نہیں لاتا یا حضرت محمد ﷺ کے بعد کسی بھی اندازمیں نبی ہونے کا دعوی کرتا ہے یا کسی ایسے مدعی نبوت یا مذہبی مصلح پر ایمان لاتا ہے وہ ازروئے آئین و قانون مسلمان نہیں ۔
آرٹیکل نمبر ۱۰۶ کلاز نمبر۳
صوبائی اسمبلیوں میں بلوچستان ،پنجاب،شمال مغربی سرحدی صوبہ اور سندھ کی کلاز نمبر 11میں دی گئی نشستوں کے علاوہ ان اسمبلیوں میں عیسائیوں ، ہندوؤں، سکھوں ، بدھوں ، پارسیوں اور قادیانیوں یا شیڈول کاسٹس کے لئے اضافی نشستیں ہونگی۔
اس ترمیم کے بعد بھی توہین آمیز قادیانی سرگرمیوں کی روک تھام نہ ہو سکی ، جذبات کی آگ پھر بھڑکنے والی تھی کہ ۲۷ اپریل ۱۹۸۴؁ء مندرجہ ذیل آرڈی ننس جاری کیا گیا ۔
آرڈی ننس
قادیانی گروہ ،لاہوری گروہ اور احمدیوں کو خلاف اسلام سرگرمیوں کے ارتکاب سے روکنے
کے لئے قانون میں ترمیم کرنے کا آرڈی ننس
ہر گاہ یہ امر قرین مصلحت ہے کہ قادیانی گروہ ، لاہوری گروہ اور احمدیوں کو خلاف اسلام سرگرمیوں کے ارتکاب سے روکنے کے لئے قانون میں ترمیم کی جائے ۔
ہر گاہ کہ صدر پاکستان کو اطمینان ہے کہ ایسے حالات موجود ہیں جو فوری کاروائی کے متقاضی ہیں لہٰذا پانچ جولائی ۱۹۷۷؁ء کے اعلان کی تعمیل میں اور ان تمام اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے جو اس سلسلے میں انہیں حاصل ہیں صدر پاکستان حسب ذیل آرڈی ننس وضع اور نافذکرتے ہیں ۔
1۔ مختصر عنوان اور آغاز
(ا)اس آرڈی ننس کا نام قادیانی گروہ ، لاہوری گروہ اور احمدیوں کا خلاف اسلام سرگرمیوں کا ارتکاب (ممانعت و سزا )آرڈی ننس ۱۹۸۴؁ء ہو گا۔
(ب) یہ فوری طور پر نافذالعمل ہو گا۔
2۔ عدالتوں کے احکام اور فیصلوں کے استرداد کاآرڈی ننس
ا۔س آر ڈی ننس کی دفعات /عدالتوں کے احکام اور فیصلوں کے علی الرّغم نافذ ہونگے۔
حصہ دوم :
مجموعہ تعزیرات پاکستان کی ترمیم (قانون نمبر۱۴بابت۱۸۶۰)
۳ ۔مجموعہ تعزیرات پاکستان کی ترمیم (قانون نمبر۱۴بابت۱۸۶۰) میں نئی دفعات ۲۹۸ب
اور ۲۹۸ ج کا اضافہ
مجموعہ تعزیرات پاکستان کی ترمیم (قانون نمبر۱۴بابت۱۸۶۰) کے باب پندرہ میں دفعہ ۲۹۸۸ (ا)کے بعد حسب ذیل نئی دفعات کا اضافہ کیا جائے گا۔
۲۹۸ ب بعض مقدس ہستیوں اور متبرک مقامات کے لئے مخصوص القاب و آداب صفحات
وغیرہ کا غلط استعمال
۱۱۔ قادیانی گروہ یا لاہوری گروہ ( جو اپنے آپ کو احمدی یا کسی اور نام سے موسوم کرتیہیں ) کا جو شخص کسی تقریر ، تحریر یا واضح علامت کے ذریعے سے
ا۔ رسول پاک حضرت محمد ﷺ کے کسی خلیفہ یا صحابی کے سوا کسی اور شخص کو ’’ امیر المومنین ‘‘ ’’ خلیفۃ المومنین‘‘ ’’صحابی ‘‘’’رضی اﷲ عنہ‘‘
ب ۔ رسول پاک حضرت محمد ﷺ کے افراد خاندان (اہل بیت) کے سوا کسی اور کو’’اہل بیت ‘‘ یا
ج۔ اپنی عبادت گاہ کو مسجد کے نام سے !
پکارے گا ،یااس کا حوالہ دے گا وہ تین سال تک کی قید (کسی قسم) اور جرمانے کی سزا کا مستوجب ہوگا۔
۲۲۔ قادیانی گروہ یا لاہوری گروہ ( جو اپنے آپ کو احمدی یا کسی اور نام سے موسوم کرتے ہیں ) کا جو شخص کسی تقریر ، تحریر یا واضح علامت کے ذریعے سے اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کے لئے بلانے کے طریقے یا شکل کو ’’اذان‘‘ سے موسوم کرے گا یا مسلمانوں کے طریقے کے مطابق اذان کہے گا وہ تین سال تک کی قید (کسی قسم) کی سزا،نیز جرمانہ کا مستوجب ہو گا۔
۲۹۸ ج ۔ قادیانی گروہ وغیرہ کا اپنے آپ کو مسلم کہلانے ، اپنے عقیدے کی تبلیغ
کرنے یا نشرواشاعت کرنے والا شخص
قادیانی گروہ یا لاہوری گروہ ( جو اپنے آپ کو احمدی یا کسی اور نام سے موسوم کرتے ہیں ) کا جو شخص اپنے آپ کو بلاواسطہ یا بالواسطہ’’ مسلم‘‘ کہلاتا ہے ، یااپنے عقیدے کو اسلام کہتایا ظاہر کرتا ہے ، یا دوسروں کو تقریر،تحریر یاواضح علامت یا کسی بھی طریقے سے دعوت دیتا اور مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرتا ہے وہ تین سال تک کی قید(کسی قسم) کی سزا یا جرمانہ کا مستوجب ہو گا ۔
قارئین محترم ! یہ تمام دلائل اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ مرزاقادیانی نے خود اپنے آپکو اور اپنیجماعت کو امت مسلمہ سے باہر نکالا ہے نہ کہ پاکستانی پارلیمنٹ نے ۔ پاکستانی پارلیمنٹ نے تومتفقہ طور پر مرزاقادیانی کے فیصلے کی توثیق کی ہے اور کچھ نہیں ۔جب قادیانی جماعت نے عوام کو دھوکہ دینے کے لئے اپنے آپ کو مسلمان کہناشروع کیا اور برملاتمام اسلامی اصطلاحات کو مرزاقادیانئی اور اس کے خاندان اور ساتھیوں کے لئے استعمال کرنا شروع کیا تو اس پر پاکستانی پارلیمنٹ نے قانون سازی کی یہی وجہ ہے کہ آئین پاکستان کی رو سے قادیانی جماعت ہو یا ان کا لاہوری گروپ یہ دونوں پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلے کے مطابق دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور کسی بھی قادیانی کو شعائر اسلام کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں یہاں تک کہ اگر کوئی قادیانی یا لاہوری ایک مرتبہ شعائر اسلام کو اپنے یااپنی جماعت کے لیے استعمال کرے گا تو اسے کم از کم تین سال قید بامشقت گزارنا ہو گی ۔
قارئین کرام ! اللہ تعالی کے فضل و کرم سے آپ کے سامنے دلائل بینہ کے ساتھ واضح کیا کہ 7 ستمبر 1974 کو قادیانیوں پر کسی بھی قسم کا کوئی ظلم نہیں ہوا بلکہ قادیانیوں کا ایک دیرینہ مطالبہ پورا کیا گیا اور 1974 میں پارلیمنٹ پاکستانی قوم کو قادیانیوں کی ریشہ دیوانیوں ،سازشوں اور دھوکہ دہی سے بچانے کے لیے اپنا فرض ادا کیا تھا ۔ اللہ تعالی اب بھی وطن عزیز کو قادیانیوں اور قادیانی نوازوں کی سازشوں وطن عزیز اور ساری امت مسلمہ کو محفوظ رکھے آمین
 
Top