- شمولیت
- نومبر 14، 2018
- پیغامات
- 309
- ری ایکشن اسکور
- 48
- پوائنٹ
- 79
(( فقہ السیرۃ النبویہ : سیرت طیبہ سے فکری، دعوتی، تنظیمی، تربیتی اور سیاسی رہنمائی))
نبوی تحریک،فلاحی کے بجائے اصلاحی تھی:
(1) سرور کونین ﷺ کی تحریک و دعوت میں توحید و عقیدے کو اولیت حاصل تھی۔
(2) آپ ﷺ کی تحریک دعوت واصلاح صرف دنیا کی فلاح و کامیابی پر مبنی نہ تھی۔
(3) عرب معاشرے میں معاشرتی، معاشی اور اخلاقی کئی طرح کی برائیاں موجود تھیں۔
(4) آپ ﷺ نے اپنی تحریک کی بنیاد صرف اخلاق و کردار کی اصلاح پر نہیں رکھی،نہ ہی کسی سماجی مسئلے کو بنیاد بنایا۔
(5) عرب میں غلاموں، عورتوں کے حقوق اور شراب نوشی، بدکاری، سودخوری اور قمار بازی کی روک تھام کی تحریک چلائی جاسکتی تھی۔
(6) عرب کے معاشی و معاشرتی امور کی اصلاح اور اہل مکہ کے اخلاقی وسیاسی حالات کی بہتری کے متعلق کئی طرح کی تحریکیں چلائی جا سکتی تھیں۔
(7) حلف الفضول کی صورت میں اصلاحی وفلاحی تحریک کی شاندار مثال بھی موجود تھی۔
(8) عرب معاشرے میں کسی طرح کی بھی اصلاحی اور فلاحی تحریک کو خوب قبولیت حاصل ہو سکتی تھی۔
(9) آپ ﷺ صرف فلاحی واصلاحی تحریک کے لیے مظالم بھی برداشت نہ کرنے پڑتے اور مذہبی دشمنی بھی مول نہ لینی پڑتی۔ عرب میں عزت و وقار تو آپﷺ کو پہلے ہی سے حاصل تھا۔
(10) لیکن سرتاجِ رسل ﷺ نے کسی طرح کی معاشی، معاشرتی، اخلاقی اور اصلاحی تحریک نہیں چلائی۔یہ تمام امور سطحی اور عارضی تھے۔
(1) آپ ﷺ نے اسلامی تحریک کا بنیادی عنصر عقیدہ توحید وفکر آخرت کو قرار دیا۔ آپ ﷺ نے عقائد و ایمانیات کی شب و روز دعوت دی۔
(12) ایمان باللہ، حشر و نشر پر ایمان، حساب و کتاب پر ایمان اور یوم آخرت پر ایمان عہد مکی کے نمایاں ترین موضوعات ہیں۔
(13) یہی توحید وفکر آخرت ہر پیغمبر کی دعوت تھی۔ارشاد باری تعالی ہے: (وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْت) ”بلاشبہ یقینا ہم نے ہرامت میں ایک رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔“ (النحل 36:16)
(14) عصر حاضر میں مسلمانوں کی دعوتی واصلاحی سرگرمیوں میں کئی طرح کی کتاہیاں در آئی ہیں۔
(15) تعلیم وتربیت میں ایمان و عقیدے کو عموماخاص اہمیت نہیں دی جاتی۔عقائد وایمانیات پر محنت کے بجائے اخلاق وآداب،مادی ترقی اور دنیوی فلاح وبہبود ہی کو مقصد حیات بتایا جاتا ہے۔
(16) دعوت وتربیت اورتعلیم واصلاح میں صرف مادی فلاح و ترقی اور ظاہری ودنیوی کامیابی کا رجحان فکری و عملی طورپر بڑھتا جا رہا ہے۔
(17) یہ نہ تو نبوی منہج دعوت و اصلاح ہے اور نہ ہی اس سے حقیقی اسلامی معاشرے اور مثالی اسلامی ریاست کا قیام ممکن ہے۔
(( حافظ محمد فياض الياس الاثري دارالمعارف لاهور))
نبوی تحریک،فلاحی کے بجائے اصلاحی تھی:
(1) سرور کونین ﷺ کی تحریک و دعوت میں توحید و عقیدے کو اولیت حاصل تھی۔
(2) آپ ﷺ کی تحریک دعوت واصلاح صرف دنیا کی فلاح و کامیابی پر مبنی نہ تھی۔
(3) عرب معاشرے میں معاشرتی، معاشی اور اخلاقی کئی طرح کی برائیاں موجود تھیں۔
(4) آپ ﷺ نے اپنی تحریک کی بنیاد صرف اخلاق و کردار کی اصلاح پر نہیں رکھی،نہ ہی کسی سماجی مسئلے کو بنیاد بنایا۔
(5) عرب میں غلاموں، عورتوں کے حقوق اور شراب نوشی، بدکاری، سودخوری اور قمار بازی کی روک تھام کی تحریک چلائی جاسکتی تھی۔
(6) عرب کے معاشی و معاشرتی امور کی اصلاح اور اہل مکہ کے اخلاقی وسیاسی حالات کی بہتری کے متعلق کئی طرح کی تحریکیں چلائی جا سکتی تھیں۔
(7) حلف الفضول کی صورت میں اصلاحی وفلاحی تحریک کی شاندار مثال بھی موجود تھی۔
(8) عرب معاشرے میں کسی طرح کی بھی اصلاحی اور فلاحی تحریک کو خوب قبولیت حاصل ہو سکتی تھی۔
(9) آپ ﷺ صرف فلاحی واصلاحی تحریک کے لیے مظالم بھی برداشت نہ کرنے پڑتے اور مذہبی دشمنی بھی مول نہ لینی پڑتی۔ عرب میں عزت و وقار تو آپﷺ کو پہلے ہی سے حاصل تھا۔
(10) لیکن سرتاجِ رسل ﷺ نے کسی طرح کی معاشی، معاشرتی، اخلاقی اور اصلاحی تحریک نہیں چلائی۔یہ تمام امور سطحی اور عارضی تھے۔
(1) آپ ﷺ نے اسلامی تحریک کا بنیادی عنصر عقیدہ توحید وفکر آخرت کو قرار دیا۔ آپ ﷺ نے عقائد و ایمانیات کی شب و روز دعوت دی۔
(12) ایمان باللہ، حشر و نشر پر ایمان، حساب و کتاب پر ایمان اور یوم آخرت پر ایمان عہد مکی کے نمایاں ترین موضوعات ہیں۔
(13) یہی توحید وفکر آخرت ہر پیغمبر کی دعوت تھی۔ارشاد باری تعالی ہے: (وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْت) ”بلاشبہ یقینا ہم نے ہرامت میں ایک رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔“ (النحل 36:16)
(14) عصر حاضر میں مسلمانوں کی دعوتی واصلاحی سرگرمیوں میں کئی طرح کی کتاہیاں در آئی ہیں۔
(15) تعلیم وتربیت میں ایمان و عقیدے کو عموماخاص اہمیت نہیں دی جاتی۔عقائد وایمانیات پر محنت کے بجائے اخلاق وآداب،مادی ترقی اور دنیوی فلاح وبہبود ہی کو مقصد حیات بتایا جاتا ہے۔
(16) دعوت وتربیت اورتعلیم واصلاح میں صرف مادی فلاح و ترقی اور ظاہری ودنیوی کامیابی کا رجحان فکری و عملی طورپر بڑھتا جا رہا ہے۔
(17) یہ نہ تو نبوی منہج دعوت و اصلاح ہے اور نہ ہی اس سے حقیقی اسلامی معاشرے اور مثالی اسلامی ریاست کا قیام ممکن ہے۔
(( حافظ محمد فياض الياس الاثري دارالمعارف لاهور))